عارف اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا، اس کی نوٹ بک اس کے سامنے کھلی ہوئی، وہ عجیب نقوش اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے جو اس نے جنگل کے کھنڈر پر دیکھے تھے۔ وہ شکلیں، وہ سرخ آنکھوں والی ہستی، اور وہ سرگوشیاں—یہ سب اس کے اندر ایک ایسی آگ بھڑکا رہے تھے جو خوف اور تجسس کا عجیب امتزاج تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خرم پور کوئی عام قصبہ نہیں تھا۔ یہ ایک جال تھا، ایک زندہ، سانس لیتا جال، اور وہ اس میں پھنس چکا تھا۔
اس کی نظریں نوٹ بک پر جمی تھیں، جہاں اس نے کھنڈر کے گڑھے میں دیکھے گئے پتھر کے بارے میں لکھا تھا—وہ چپٹا، سیاہ پتھر جس پر سرخ دھبے تھے، جیسے خون کے چھینٹے۔ اس نے نقوش کو دوبارہ کھینچا، ان کی گھماؤ دار لکیروں اور غیر فطری شکلوں کو کاغذ پر اتارنے کی کوشش کی۔ وہ کوئی زبان نہیں تھی، نہ کوئی علامت جو اسے سمجھ آتی ہو۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ سب کچھ اس پتھر سے جڑا تھا۔
کملا کی آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تھی: “دھند تمہارا دشمن نہیں ہے۔ وہ تمہیں چھپاتی ہے۔” لیکن کل رات، جب دھند پتلی ہوئی تھی، وہ شکلیں—وہ مردہ، لیکن حرکت کرنے والی چیزیں—اسے پکڑنے کے لیے تیار تھیں۔ اور وہ سرخ آنکھوں والی ہستی… اس کی آواز اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ “یہ… ہمارا… ہے۔”
عارف نے نوٹ بک بند کی اور اپنا بیک پیک چیک کیا۔ ٹارچ، چھری، ریکارڈر—سب کچھ اپنی جگہ پر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ دوبارہ جنگل جانے کا خطرہ مول لے رہا ہے، لیکن اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر وہ یہاں پھنسا تھا، تو وہ سچ جانے بغیر ہار نہیں مانے گا۔ اس نے اپنی جیکٹ پہنی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔
کملا باورچی خانے میں تھی، ایک پرانے لکڑی کے ڈبے سے کچھ مصالحے نکال رہی تھی۔ اس نے عارف کو دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک ایسی تھکن تھی جو برسوں کی کہانیاں سنا رہی تھی۔ “تم پھر جا رہے ہو،” اس نے کہا، یہ سوال نہیں بلکہ ایک بیان تھا۔
عارف نے سر ہلایا۔ “مجھے جاننا ہے۔ وہ پتھر… وہ کھنڈر… یہ سب کچھ کیا ہے؟”
کملا نے ایک لمبا سانس لیا، اس کے ہاتھ مصالحوں پر رُک گئے۔ “تم نہیں سمجھو گے، لڑکے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں چھونا نہیں چاہیے۔ وہ پتھر… وہ کوئی عام پتھر نہیں ہے۔ وہ ایک لعنت ہے۔”
“لعنت؟” عارف نے بھنویں چڑھائیں۔ “آپ کا مطلب کیا ہے؟”
اس نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے وہ اس کے ذریعے دیکھ رہی ہو۔ “بہت پہلے، اس سے پہلے کہ یہ قصبہ بھی بسا ہو، یہ جنگل کسی اور کا تھا۔ وہ لوگ… وہ انسان نہیں تھے، بالکل۔ انہوں نے اس پتھر کو بنایا، اسے خون سے رنگا۔ یہ ان کا معبد تھا، ان کا خدا۔ جب ہمارے لوگ یہاں آئے، انہوں نے اسے تباہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تم کوئی ایسی چیز کو نہیں مار سکتے جو پہلے ہی مر چکی ہو۔”
عارف کا دل زور سے دھڑکا۔ “تو وہ شکلیں… وہ اس پتھر کی حفاظت کر رہی ہیں؟”
کملا نے جواب نہیں دیا۔ اس نے بس اپنی نظریں ہٹائیں اور مصالحوں کو دوبارہ ترتیب دینا شروع کیا۔ “اگر تم جاؤ، تو ایک چیز یاد رکھو۔ وہ پتھر تمہیں دیکھتا ہے۔ وہ تمہیں جانتا ہے۔ اور اگر تم اسے چھوؤ گے… وہ تمہیں اپنا بنا لے گا۔”
عارف نے کچھ کہنا چاہا، لیکن کملا نے اسے روک دیا۔ “بس۔ میں نے بہت کچھ کہہ دیا۔ جاؤ، لیکن واپس نہ آنے کی شکایت مت کرنا۔”
وہ باہر نکلا، دھند اس کے گرد ایک سرد، گیلی چادر کی طرح لپٹتی ہوئی۔ قصبہ اب بھی خاموش تھا، لیکن اس خاموشی میں ایک وزن تھا، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو۔ اس نے جنگل کی طرف چلنا شروع کیا، اس بار زیادہ تیاری کے ساتھ۔ اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا کمپاس نکالا، جو اسے دہلی سے لاتے وقت بطور تحفہ ملا تھا۔ اگر جنگل اسے گمراہ کرنا چاہتا تھا، تو وہ اس بار اپنا راستہ یاد رکھے گا۔
جنگل اسے نگلتا چلا گیا، درختوں کے سائے اس کے گرد ناچتے ہوئے، دھند اس کے پھیپھڑوں میں گھستی ہوئی۔ سرگوشیاں تقریباً فوراً شروع ہو گئیں، ہلکی لیکن مسلسل، اسے کھنڈر کی طرف کھینچتی ہوئی۔ اس نے اپنا ریکارڈر نکالا اور بولنا شروع کیا۔ “میں جنگل میں ہوں، تیسری بار۔ کملا نے کہا کہ وہ پتھر ایک لعنت ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خطرناک ہے، لیکن… مجھے سچ جاننا ہے۔”
وہ کھنڈر تک پہنچا، اس کے پتھر دھند میں ایک بھوت کی طرح ابھرتے ہوئے۔ گڑھا اسی طرح تھا جیسے اس نے کل رات دیکھا تھا—گہرا، سیاہ، اور بدبودار۔ اس نے اپنی ٹارچ کی روشنی گڑھے میں ڈالی، وہ پتھر اب بھی وہیں تھا، اس کے سرخ دھبے روشنی میں چمکتے ہوئے۔ لیکن اس بار کچھ مختلف تھا۔ پتھر کے گرد ہوا… وہ زندہ لگتی تھی، جیسے وہ ہلکی ہلکی وائبریٹ کر رہی ہو۔
عارف نے اپنی نوٹ بک کھولی اور نقوش کو دوبارہ چیک کیا۔ وہ پتھر کے قریب جانا چاہتا تھا، لیکن کملا کی تنبیہ اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔ “وہ تمہیں اپنا بنا لے گا۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا اور گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہو گیا، اس کی ٹارچ کی روشنی پتھر پر جمی ہوئی۔
پھر اس نے اسے دیکھا: پتھر کے بیچ میں ایک دراڑ، ہلکی سی، جو کل رات نہیں تھی۔ اس نے اپنی ٹارچ کو قریب کیا، اور اس کی روشنی میں اسے کچھ حرکت کرتا دکھائی دیا—ایک سیاہ، چپچپا مادہ جو دراڑ سے باہر نکل رہا تھا، جیسے خون لیکن گاڑھا اور غیر فطری۔ اس کا دل زور سے دھڑکا، لیکن وہ رُک نہ سکا۔ اس نے اپنی چھری نکالی اور اسے دراڑ کے قریب لے گیا، اس مادے کو چھونے کی کوشش کی۔
جون ہی اس کی چھری نے اس مادے کو چھوا، ایک چیخ جنگل میں گونج اٹھی۔ یہ کوئی انسانی آواز نہیں تھی—یہ گہری تھی، غیر فطری، جیسے زمین خود چیخ رہی ہو۔ عارف پیچھے ہٹا، اس کی چھری گر گئی، اور سرگوشیاں ایک ہنگامے میں بدل گئیں۔ وہ شکلیں دوبارہ ابھریں، دھند سے نکلتی ہوئی، ان کی مردہ آنکھیں اس پر جمی ہوئی۔ لیکن اس بار وہ اکیلی نہیں تھیں۔
ایک نیا وجود تھا، وہ سرخ آنکھوں والی ہستی، لیکن اب اس کا جسم زیادہ واضح تھا—لمبا، دھوئیں سا، اس کے اعضاء لچکتے ہوئے جیسے وہ ہوا سے بنی ہو۔ اس نے عارف کی طرف دیکھا، اس کی سرخ آنکھیں اس کے دل تک گھستی ہوئی۔ “تم… نے… چھوا…” اس کی آواز ایک زہر کی طرح تھی، ہر لفظ اس کے دماغ میں چھرا گھونپتا ہوا۔
عارف نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن اس کے پاؤں زمین سے چپک گئے، جیسے کوئی اسے پکڑ رہا ہو۔ وہ شکلیں اس کے گرد گھیرا بناتی گئیں، ان کے ہاتھ اس کی طرف بڑھتے ہوئے۔ لیکن سرخ آنکھوں والی ہستی نے ایک ہاتھ اٹھایا، اور وہ رُک گئیں۔ اس نے عارف کی طرف دیکھا، اس کی آواز اب سرگوشی بن گئی۔ “تم… ہمارے… ہو… اب۔”
عارف کا جسم کانپ رہا تھا، اس کا دماغ چیخ رہا تھا کہ وہ بھاگے، لیکن وہ حرکت نہ کر سکا۔ اس نے اپنی جیب سے کمپاس نکالا، اسے مضبوطی سے پکڑا، اور اسے ہستی کی طرف پھینک دیا۔ یہ کوئی ہتھیار نہیں تھا، لیکن اس نے ایک لمحے کے لیے ہستی کا دھیان بھٹکایا۔ دھند اچانک گھنی ہو گئی، اور عارف نے موقع دیکھ کر بھاگنا شروع کیا۔
وہ جنگل میں اندھا دھند بھاگتا رہا، شاخیں اس کے چہرے کو نوچتی ہوئی، کیچڑ اس کے جوتوں میں دھنستا ہوا۔ سرگوشیاں اس کا پیچھا کر رہی تھیں، لیکن وہ کمزور پڑتی جا رہی تھیں۔ آخر کار، وہ جنگل کے کنارے پر پہنچا، جہاں دھند ہلکی تھی اور قصبے کی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ گر پڑا، اس کا جسم تھکاوٹ سے چور، لیکن وہ زندہ تھا۔
جب وہ گیسٹ ہاؤس پہنچا، کملا دروازے پر کھڑی تھی، اس کے چہرے پر کوئی حیرت نہیں تھی۔ “تم نے اسے چھوا، نا؟” اس نے پوچھا، اس کی آواز میں ایک عجیب سا دکھ تھا۔
عارف نے جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا، دروازہ بند کیا، اور اپنی نوٹ بک کھولی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے جب اس نے لکھا: “پتھر زندہ ہے۔ وہ مجھے جانتا ہے۔” اس نے اپنی بازو پر نظر ڈالی، جہاں ایک عجیب سا نشان ابھر رہا تھا—ایک گھماؤ دار شکل، بالکل اسی طرح کی جو پتھر پر کندہ تھی۔
اس رات وہ نہیں سوا۔ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھا رہا، دھند کو دیکھتا رہا، سرگوشیوں کے لیے کان لگائے رکھا۔ لیکن سرگوشیاں خاموش تھیں۔ اس کے بجائے، اسے اپنے اندر ایک عجیب سی ہلچل محسوس ہوئی، جیسے کوئی اس کے خون میں گھل رہا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اب اس لعنت کا حصہ تھا۔
دوسری صبح، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قصبے کے باقی لوگوں سے بات کرے گا۔ اگر وہ اس لعنت کو توڑنا چاہتا تھا، تو اسے مزید جاننا ہوگا۔ لیکن جب وہ گیسٹ ہاؤس سے نکلا، اس نے دیکھا کہ قصبہ بدل گیا تھا۔ گلیاں اور خالی تھیں، گھروں کے دروازے بند، اور دھند میں ایک عجیب سی بدبو تھی—موت کی بدبو۔
وہ رمیش کی دکان کی طرف گیا، لیکن وہ بند تھی۔ اس نے دروازے پر دستک دی، لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ پھر اس نے پنڈت جگدیش کے مندر کی طرف رخ کیا۔ مندر کے دروازے کھلے تھے، لیکن اندر کوئی نہیں تھا۔ اس نے پنڈت کا نام پکارا، لیکن صرف اس کی آواز کی گونج واپس آئی۔
جب وہ مندر سے نکلا، اس نے ایک شکل دیکھی—رمیش، لیکن وہ رمیش نہیں تھا۔ اس کی جلد سرمئی تھی، اس کی آنکھیں دودھیا، اور اس کا جسم جھٹکوں سے حرکت کر رہا تھا۔ عارف کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ پیچھے ہٹا، لیکن رمیش نے اس کی طرف دیکھا، اس کی مردہ آنکھیں اسے گھورتی ہوئی۔
“تم… ہمارے… ہو…” رمیش کی آواز ایک گھرگھراہٹ تھی، بالکل اسی طرح کی جیسے سرخ آنکھوں والی ہستی کی۔
عارف بھاگا، اس کے پاؤں زمین پر زور سے پڑتے ہوئے۔ لیکن جب وہ قصبے کی گلیوں سے گزرا، اس نے اور شکلیں دیکھیں—قصبے کے لوگ، سب کے سب، اب مردہ لیکن حرکت کرنے والے۔ وہ اس کا پیچھا نہیں کر رہے تھے۔ وہ بس کھڑے تھے، اسے دیکھتے ہوئے، جیسے وہ اس کا انتظار کر رہے ہوں۔
وہ گیسٹ ہاؤس کی طرف بھاگا، لیکن جب وہ وہاں پہنچا، کملا غائب تھی۔ باورچی خانہ خالی تھا، چولہا ٹھنڈا۔ اس نے اپنا بیک پیک پکڑا اور دروازے کی طرف دوڑا، لیکن باہر دھند اتنی گھنی تھی کہ وہ کچھ دیکھ نہ سکا۔ سرگوشیاں دوبارہ شروع ہو گئیں، لیکن اس بار وہ اس کے اندر سے آ رہی تھیں، اس کے خون میں گونجتی ہوئی۔
عارف نے اپنی بازو پر نظر ڈالی۔ وہ نشان اب اور گہرا تھا، اس کی شکل پتھر کے نقوش سے ملتی جلتی۔ اس نے اپنی نوٹ بک کھولی اور ایک آخری نوٹ لکھا: “میں اب ان کا حصہ ہوں۔ لیکن میں لڑوں گا۔”
وہ جانتا تھا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ اسے واپس جنگل جانا ہوگا۔ اسے پتھر کو تباہ کرنا ہوگا، چاہے اس کی قیمت اس کی جان ہی کیوں نہ ہو۔
عارف اپنے کمرے کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا، اس کی سانس تیز اور بے ترتیب تھی۔ باہر دھند ایک موٹی دیوار کی طرح پھیلی ہوئی تھی، اور سرگوشیاں—جو اب اس کے خون میں گونج رہی تھیں—ایک عجیب سی تال میں بلند ہو رہی تھیں۔ اس کی بازو پر موجود نشان اب اور گہرا ہو چکا تھا، اس کی گھماؤ دار شکلیں پتھر کے نقوش سے بالکل ملتی جلتی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ وہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ لعنت اسے اپنا بنا رہی تھی، اس کے جسم اور روح کو جنگل کی گہرائیوں سے جوڑ رہی تھی۔
اس نے اپنی نوٹ بک کھولی، اس کے صفحات اب کیچڑ، پسینے، اور خون کے دھبوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس نے آخری نوٹ پڑھا جو اس نے لکھا تھا: “میں اب ان کا حصہ ہوں۔ لیکن میں لڑوں گا۔” اس کا عزم اب بھی مضبوط تھا، لیکن اس کے جسم میں ایک کمزوری پھیل رہی تھی، جیسے کوئی اس کی طاقت چوس رہا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اس لعنت کو توڑنا چاہتا ہے، تو اسے پتھر کو تباہ کرنا ہوگا—وہ سیاہ، خون آلود پتھر جو جنگل کے کھنڈر میں دفن تھا۔
اس نے اپنا بیک پیک اٹھایا، اسے چیک کیا۔ ٹارچ، چھری، اور ایک چھوٹی سی کلہاڑی جو اس نے گیسٹ ہاؤس کے باورچی خانے سے لی تھی۔ ریکارڈر اب بھی اس کی جیب میں تھا، حالانکہ اس نے اسے چلانے کی ہمت نہیں کی۔ اسے ڈر تھا کہ وہ اپنی ہی آواز کے بجائے سرگوشیوں کا ہنگامہ سنے گا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور دروازہ کھولا۔
گیسٹ ہاؤس خالی تھا۔ کملا غائب تھی، اور باورچی خانہ ٹھنڈا اور ساکت۔ عارف نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ وہ اسے ڈھونڈے، لیکن اسے احساس ہوا کہ شاید وہ بھی اب لعنت کا حصہ بن چکی ہے۔ قصبے کے لوگ—رمیش، پنڈت جگدیش، اور دوسرے—اب مردہ تھے، لیکن حرکت کر رہے تھے، ان کی دودھیا آنکھیں اسے گھورتی ہوئی، جیسے وہ اسے اپنے ساتھ بلانا چاہتے ہوں۔
وہ باہر نکلا، دھند اس کے گرد ایک سرد، چپچپا ہتھیلی کی طرح لپٹتی ہوئی۔ قصبہ ایک قبرستان بن چکا تھا۔ گلیاں خالی تھیں، گھروں کے دروازے بند، اور ہوا میں موت کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ جنگل کی طرف چل پڑا، اس کے قدم تیز لیکن محتاط۔ اس بار وہ کمپاس کے بغیر تھا—وہ اسے سرخ آنکھوں والی ہستی پر پھینکتے وقت کھو چکا تھا—لیکن اسے راستہ یاد تھا۔ کھنڈر اسے بلا رہا تھا، اور سرگوشیاں اسے رہنمائی کر رہی تھیں۔
جنگل اس سے پہلے سے زیادہ دہشت ناک لگ رہا تھا۔ درختوں کے سائے لمبے اور بگڑے ہوئے تھے، جیسے وہ زندہ ہوں۔ دھند اب اتنی گھنی تھی کہ وہ اپنے پاؤں بھی مشکل سے دیکھ سکتا تھا، لیکن سرگوشیاں واضح تھیں، ایک گیت کی طرح جو اس کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ تھا۔ اس نے اپنی ٹارچ جلائی، اس کی روشنی دھند کو کاٹتی ہوئی، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ دکھاتی۔
وہ کھنڈر تک پہنچا، اس کے پتھر دھند میں ایک بھوت کی طرح کھڑے تھے۔ گڑھا اب اور گہرا لگ رہا تھا، اس سے ایک بدبو اٹھ رہی تھی جو سڑاند اور خون کا امتزاج تھی۔ عارف نے اپنی کلہاڑی مضبوطی سے پکڑی اور گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہو گیا۔ پتھر وہیں تھا، اس کے سرخ دھبے اب اور چمکدار، جیسے وہ تازہ خون سے رنگے گئے ہوں۔ دراڑ، جسے اس نے کل رات دیکھا تھا، اب اور چوڑی تھی، اور اس سے وہ سیاہ، چپچپا مادہ مسلسل بہہ رہا تھا، زمین کو سیاہ کرتا ہوا۔
عارف نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی کلہاڑی اٹھائی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اس کا آخری موقع ہے۔ اگر وہ پتھر کو تباہ کر دیتا، تو شاید وہ لعنت کو توڑ سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ ناکام ہو گیا… وہ اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا اور گڑھے میں اترنا شروع کیا۔ زمین نرم اور چپچپا تھی، اس کے جوتوں کو کھینچتی ہوئی، لیکن وہ آگے بڑھتا رہا۔
جب وہ پتھر کے قریب پہنچا، اس نے محسوس کیا کہ ہوا بدل گئی ہے۔ وہ ٹھنڈی نہیں تھی—وہ گرم تھی، جیسے کوئی سانس لے رہا ہو۔ پتھر کی سطح پر نقوش حرکت کر رہے تھے، جیسے وہ زندہ ہوں، ان کی گھماؤ دار لکیریں اس کے نشان سے ملتی جلتی۔ اس نے اپنی بازو پر نظر ڈالی، جہاں نشان اب جل رہا تھا، اس کی جلد کے نیچے ایک عجیب سی ہلچل پیدا کر رہا تھا۔
اس نے کلہاڑی اٹھائی اور پتھر پر وار کیا۔ دھات پتھر سے ٹکرائی، لیکن کوئی نقصان نہ ہوا۔ اس کے بجائے، ایک زوردار چیخ جنگل میں گونج اٹھی، اتنی بلند کہ عارف کے کانوں سے خون بہنے لگا۔ وہ گر پڑا، اس کے ہاتھ کلہاڑی پر مضبوطی سے بند تھے۔ سرگوشیاں اب ایک ہنگامہ بن چکی تھیں، اس کے دماغ کو چیرتی ہوئی۔
وہ شکلیں دوبارہ ابھریں، دھند سے نکلتی ہوئی، ان کی تعداد پہلے سے زیادہ۔ ان کے چہرے اب واضح تھے—رمیش، پنڈت جگدیش، اور دوسرے قصبے کے لوگ، لیکن ان کی جلد سرمئی، ان کی آنکھیں خالی۔ وہ عارف کی طرف بڑھے، ان کے ہاتھ اس کی طرف بڑھتے ہوئے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے چھو سکتے، سرخ آنکھوں والی ہستی دوبارہ ظاہر ہوئی، اس کا دھوئیں سا جسم گڑھے کے اوپر تیرتا ہوا۔
“تم… نہیں… روک… سکتے…” اس کی آواز ایک زلزلے کی طرح تھی، ہر لفظ عارف کے جسم کو ہلاتا ہوا۔ “یہ… خون… کا… قرض… ہے۔”
عارف نے اپنی باقی طاقت جمع کی اور دوبارہ کلہاڑی اٹھائی۔ “یہ ختم ہوگا!” وہ چیخا، اس کی آواز جنگل میں گونجتی ہوئی۔ اس نے پتھر پر ایک اور وار کیا، اور اس بار دراڑ اور چوڑی ہو گئی۔ سیاہ مادہ تیزی سے بہنے لگا، گڑھے کو بھرتا ہوا، عارف کے جوتوں تک پہنچتا ہوا۔
ہستی چیخ اٹھی، اس کی سرخ آنکھیں چمکتی ہوئی۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا، اور شکلیں عارف کی طرف لپکیں۔ لیکن عارف رُکا نہیں۔ اس نے کلہاڑی سے بار بار وار کیا، ہر وار کے ساتھ دراڑ بڑھتی گئی۔ سیاہ مادہ اب ایک سیلاب بن چکا تھا، اس کے گھٹنوں تک پہنچتا ہوا، اس کی جلد کو جلاتا ہوا۔
آخر کار، پتھر ٹوٹ گیا۔ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ، وہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا، اور سیاہ مادہ ایک دھماکے کی طرح باہر نکلا۔ عارف پیچھے گرا، اس کا جسم کیچڑ اور اس مادے سے لت پت۔ ہستی چیخ اٹھی، اس کا جسم ہوا میں گھلتا ہوا، لیکن اس کی آواز اب بھی گونج رہی تھی۔ “تم… نے… آزاد… کیا…”
شکلیں رُک گئیں، ان کے جسم ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئے۔ پھر، ایک ایک کر کے، وہ گرنے لگے، ان کی مردہ آنکھیں بند ہوتی ہوئی۔ عارف ہانپتا ہوا لیٹا رہا، اس کا جسم درد سے چیخ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ جیت گیا ہے۔ شاید لعنت ختم ہو گئی ہے۔
لیکن پھر اس نے اسے محسوس کیا—اپنے اندر ایک عجیب سی ہلچل، اس سے پہلے سے زیادہ مضبوط۔ اس کی بازو پر موجود نشان اب چمک رہا تھا، اس کی جلد کے نیچے حرکت کرتا ہوا۔ اس نے اپنی نوٹ بک کی طرف دیکھا، جو گڑھے کے کنارے پڑی تھی، اس کے صفحات ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس نے اسے اٹھایا اور آخری صفحہ کھولا، جہاں اس نے لکھا تھا: “میں لڑوں گا۔”
لیکن اس کے نیچے، کوئی اور تحریر تھی—ایک ایسی تحریر جو اس کی نہیں تھی۔ یہ وہی نقوش تھے، لیکن اب وہ الفاظ بناتے تھے، ایک جملہ جو اس کے خون کو جما دیتا تھا: “تم ہمارے ہو۔ ہمیشہ کے لیے۔”
عارف نے اپنی آنکھیں بند کیں، اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پتھر کو توڑنے سے لعنت ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ وہ شکلیں، وہ ہستی—وہ اب اس کے اندر تھیں، اس کے خون میں، اس کی روح میں۔
وہ گڑھے سے باہر نکلا، اس کے قدم لڑکھڑاتے ہوئے۔ جنگل اب خاموش تھا، سرگوشیاں غائب تھیں۔ لیکن یہ خاموشی سکون کی نہیں تھی۔ یہ موت کی خاموشی تھی۔ وہ قصبے کی طرف واپس چلا، لیکن جب وہ گیسٹ ہاؤس کے قریب پہنچا، اس نے دیکھا کہ دھند ہلکی ہو گئی ہے۔ قصبہ اب بھی خالی تھا، لیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔
اس نے اپنی بازو پر نظر ڈالی۔ نشان اب اس کی پوری بازو پر پھیل چکا تھا، اس کی جلد کو ایک عجیب سی سیاہ روشنی سے بھرتا ہوا۔ اس نے اپنی جیب سے ریکارڈر نکالا اور اسے آن کیا۔ “میں نے پتھر توڑ دیا،” اس نے سرگوشی کی۔ “لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ یہ اب مجھ میں ہے۔”
اس نے ریکارڈر بند کیا اور گیسٹ ہاؤس کے اندر چلا گیا۔ کملا اب بھی غائب تھی، لیکن باورچی خانے میں ایک نوٹ پڑا تھا، اس کی ہینڈ رائٹنگ میں: “تم نے انتخاب کیا۔ اب اس کے ساتھ جیو۔”
عارف نے نوٹ کو ہاتھ میں پکڑا، اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا آخری امتحان باقی ہے۔ لعنت اب اس کے اندر تھی، لیکن وہ اب بھی لڑ سکتا تھا۔ اسے ایک آخری بار جنگل جانا ہوگا—نہ پتھر کو توڑنے، بلکہ اس ہستی کو روکنے کے لیے جو اسے آزاد کرنے سے جاگ اٹھی تھی۔
0 تبصرے