صبا نے پاؤں دباتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں عامر سے کہا: "اللہ کا شکر ہے مکان کی چھت پڑ گئی میں کہتی ہوں کل نیاز کر لیتے ہیں حمید صاحب کہتے تھے کہ بلائیں دور ہو جاتی ہیں اور پھر جب سے تم نے اس چھوٹی سی نوکری سے گھر بنانا شروع کیا ہے لوگوں کی نگاہوں میں اگئے ہو اور نظر جیتے جاگتے انسان کو کھا جاتی ہے"
تمام دن کا تھکا ہوا عامر صبا کے نرم ہاتھوں کی بدولت ہوش و حواس کی دنیا سے بیگانہ ہو جاتا تھا۔ وہ صبح نوکری پر جاتا اور وہاں سے فارغ ہونے کے بعد مکان کی طرف چلا جاتا تھا۔ ریلوے میں اس کا عہدہ بڑا نہیں تھا لیکن بیوی سگھڑ تھی۔ یہ صرف عامر کا ہی خواب نہیں تھا بلکہ صبا کی بھی دلی خواہش تھی کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو گھر اپنا ہونا چاہیے گھر کی اہمیت ان سے پوچھنی چاہیے جنہوں نے تمام زندگی یتیم خانے میں گزاری ہو۔ ان دونوں نے گریجویشن وہاں سے کی تھی اور پھر فارغ ہونے کے بعد حمید صاحب کے کہنے پر شادی کر لی تھی۔ وہ یتیم خانے کے مینجر تھے نہایت شفیق اور نرم دل انسان تھے شاید اس لیے کہ ان کا بچپن بھی یتیم خانے میں گزرا تھا شادی کے فورا بعد عامر کو ریلوے میں نوکری مل گئی یہ نوکری اس کی قابلیت کے مطابق نہیں تھی لیکن چونکہ سرکاری تھی اس لیے اس نے انکار نہیں کیا اور پھر جب ریلوے کی اسکیم میں اس کے نام پلاٹ نکلا تب ان دونوں نے بچت کرنا شروع کر دی۔
چند ہی دنوں میں عامر کو وقتا فوقتا دو حادثے پیش ائے۔ پچھلے ہفتے گیس کا سلنڈر پھٹ گیا وہ تو شکر ہے کہ صبا صحن میں تھی اس لیے مالی نقصان ہوا اور وہ بچ گئی۔ پھر عامر کا پاؤں پھسلا اور وہ مکان کی بننے والی سیڑھیوں سے نیچے گر گیا اسے اچھی خاصی چوٹ ائی اور کچھ دنوں کے لیے مکان کا کام نہیں رک گیا۔ تاہم اس کے باوجود بھی وہ نیاز دینے کے حق میں نہیں تھا تھکن کی بدولت اس کی انکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں عموما جب صبح رات کو کھانے کے بعد اس کے پاؤں دبایا کرتی تھی تب اس کی تھکن یک دم دور ہو جایا کرتی تھی لیکن اج اس نے کام سے چھٹی لے کر مکان کی چھت کا کام تیز دھوپ میں کھڑے ہو کر کیا تھا اب اس کا جسم تھکن سے ٹوٹ رہا تھا صبا نے فورا اس کی کیفیت کا اندازہ لگا لیا اور اس کے لیے پاؤں دبانے بند کر دیے اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکرمند لہجے میں بولی تمہیں تھکن کی وجہ سے بخار چڑھ گیا ہے میں دودھ میں ہلدی ڈال کر لاتی ہوں تم پی کر سو جاؤ صبح انشاءاللہ ہشاش بشاش ہو جاؤ گے۔
عامر نے کوئی جواب نہیں دیا صبا اٹھ کر باورچی خانے میں اگئی وہاں ایک گلاس میں تھوڑا سا دودھ رکھا ہوا تھا جو اس نے صبح چائے بنانے کے لیے رکھ چھوڑا تھا اس نے اسے گرم کیا اور ہلدی ڈال کر واپس کمرے میں اگئی کمرہ عامر کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ صبا نے گلاس پلنگ کے پاس رکھی ہوئی تپائی پر رکھ دیا اور محبت بھری نگاہوں سے اپنے شوہر کی جانب دیکھتے ہوئے سوچنے لگے اس کا شوہر بہت محنتی اور خوددار انسان ہے۔
صبا کو اس بات کا دکھ ہو رہا تھا کہ اس کے شوہر کا سرخ و سفید رنگ دھوپ میں کام کرنے کی وجہ سے کالا پڑ گیا تھا اور جسم بھی سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ صبح ناشتہ کرنے کے بعد امیر اپنے دفتر چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد یتیم خانے سے حمید صاحب کا فون اگیا۔ انہوں نے عامر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا کام سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے آ کر مل لو مجھے بہت ضروری کام ہے بس یوں سمجھ لو کہ معاملات تمہاری مرحومہ والدہ کا ہے۔ عا مر پریشان ہو گیا اس کی ماں کو مرے ہوئے 20 سال گزر گئے تھے۔
دفتر سے نکلنے کے بعد وہ بس پکڑ کر یتیم خانے اگیا حمید صاحب اس کے منتظر تھے اسے کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہنے کے بعد وہ ہمدردانہ لہجے میں بولے مجھے معلوم ہے کہ تم بہت تھک چکے ہو لیکن مجھے خوشی ہے کہ تمہارا گھر مکمل ہونے والا ہے اور اس میں تمہارے علاوہ صبا کا بھی ہاتھ ہے تم دونوں یتیم خانے کے ہونہار اور فرمانبردار ممبر ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورتی میں بھی ایک دوسرے کے ہم پلا ہو یہی خصوصیات دیکھنے کے بعد میں نے تم دونوں کو شادی کا فیصلہ کیا تھا اور مجھے فخر ہے کہ میرا فیصلہ درست ثابت ہوا۔
حمید صاحب گویا ہوئے اب میں اس معاملے کی طرف آتا ہوں جس کی وجہ سے میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے۔ ایک امانت تمہاری ماں نے میرے پاس محفوظ کروائی اور مجھے نصیحت کی کہ جب تم 25 سال کے ہو جاؤ تب وہ وصیت نامہ تمہارے حوالے کر دوں اور ماشاءاللہ تم کل 25 سال کے ہونے والے ہو اس لیے چائے پینے کے بعد میرے ساتھ امانت بخش کی طرف چلو اور اپنی امانت کو وصول کرو۔
عامر کے چہرے پر حیرت کے تاثرات تھے اسے معلوم تھا کہ اس کی ماں کے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی اور اسے قتل کرنے کی کوشش اس کے چچا نے کی تھی خشک قسمتی سے اس کی ماں مرنے سے بچ گئی تھی لیکن صحت یاب نہیں ہو سکی اور اس نے کچھ دنوں کے بعد ہسپتال میں دم توڑ دیا یقینا اس دورانیے میں اس نے کوئی وصیت لکھوائی ہوگی اور شاید اس کے لیے حمید صاحب کو ہسپتال جانا پڑا ہوگا بہرحال کچھ دیر بعد چائے اگئی ان دونوں نے خاموشی کے ساتھ پی اور کمرے سے باہر اگئے۔ امانت بکس عمارت کے پچھلے حصے میں بنائے گئے تھے یہ لاکر کی طرح کے تھے ان پر نمبر لگے ہوئے تھے حمید صاحب نے 542 نمبر کو کھولا تو اندر سے سیاہ رنگ کی ڈائری اور جیولری بکس نکلا حمید صاحب نے دونوں چیزیں اسے تھماتے ہوئے کہا تم یتیم خانے کی لائبریری میں جا کر ڈائری کا مطالعہ کر سکتے ہو مجھے یقین ہے کہ اس میں تمہارے لیے کچھ نہ کچھ اچھا ہی ہوگا۔
عامرلائبریری کی طرف آگیا۔ وہ سنسان بڑی تھی اس نے ایک کرسی کا انتخاب کیا اور جیولری والے ڈبے کو کھول کر اندر سے سونے کے دو جھمکے باہر نکال لیے اسے بے اختیار اپنی ماں کی یاد اگئی۔ تب اسے وہ گھناونی رات بھی یاد اگئی جب ایک نقاب پوش دیوار پھلانگ کر ان کے گھر داخل ہوا امر کی عمر ان دنوں پانچ سال تھی اس کی ماں اسے کھانا کھلا رہی تھی نقاب پوش نے کمرے میں داخل ہوتے ہی فائرنگ کر دی اس کی ماں کو کمر پر دو گولیاں لگی وہ ایک دراز قد اور طاقتور عورت تھی اس لیے اس نے پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے گریبان کے اندر ہاتھ ڈالا اور سیاہ رنگ کا مختصر ریوالور نکال کر اس پر فائرنگ کر دی۔ نکاب پوش زمین پر گر گیا میری ماں چھ کی چھ گولیاں اس کے سینے میں اتارنے کے بعد اس کے قریب ہی زمین پر گر گئی۔
عامر نے چیخنا چلانا شروع کیا تب ہمسائے وہاں ائے اور ماں کو ہسپتال لے گئے وہ دو دن زندہ رہی اس دوران اس نے کسی وقت حمید صاحب کو بلا کر وصیت لکھوا دی تھی اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس کی ماں کی ڈائری اس کے ہاتھوں میں تھی اس نے کانپتے ہاتھوں سے اسے کھولا چند لائنوں پر مشتمل اس کی ماں کے ہاتھوں کی خوشخط تحریر سامنے موجود تھی۔
میرے بیٹے۔۔۔ "کاش مجھے اتنا وقت مل جاتا کہ تمہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا دیکھ سکتی لیکن ازل سے چلتی ہوئی دشمنی نے وقت چھین لیا میں نے موت سے لڑنے کی بہت کوشش کی لیکن جب وقت ہی پورا ہو گیا تو پھر اس کے اگے کس کی مرضی چل سکتی ہے تمہیں اب سب کچھ اکیلے کرنا ہوگا میں نے حمید صاحب سے بات کر لی ہے وہ تمہارا خیال رکھیں گے ڈائری لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں خاندانی دشمنی کے متعلق بتا سکوں جائیداد کے تنازے میں نفرتیں پھیلی جنہوں نے غصے کی صورت اختیار کر لی اور پھر انتقام لینے کی خاطر قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا لیکن یہ ہمارے خاندان کی روایت کے خلاف تھا یا کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا جائے اس نے تو گولیاں ہی چلا دیں میں نے اسے جہنم واصل کر دیا ورنہ وہ شاید تمہیں بھی ختم کر دینے سے دریغ نہیں کرتا اس کا نام جبار راجہ ہے اس نے تمہارے باپ کو بھی قتل کیا تم اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے اس قتل کے بعد یہ میری ذمہ داری بنتی تھی کہ میں بدلے میں اسے قتل کرتی میں نے معلومات لی تو معلوم ہوا کہ وہ سیکٹریٹ کالونی کے مکان نمبر 72 میں رہتا ہے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ عورت ہونے کی وجہ سے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکوں گی لیکن میں نے ریوالور خرید کر اسے محفوظ کر لیا تھا لیکن تمہاری پیدائش کے بعد حالات خراب ہوتے گئے اور مجھے سکول میں نوکری کرنا پڑی اس کے باوجود بھی میں نے اسے نظر انداز نہیں کیا اور یہ میری خوش فہمی تھی کہ وہ عورت پر گولی نہیں چلائے گا اس خوش فہمی کی بدولت میں نے مار کھا لی لیکن اپنے شوہر کا بدلہ لے لیا اب تمہیں اپنی ماں کا بدلہ لینا ہے جبار راجہ کی دو لڑکیاں ہیں تمہیں ان دونوں کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ تمہاری ماں پر گولیاں چلا کر ان کے باپ نے راجہ خاندان کے اصولوں کو چکنا چور کر کے رکھ دیا ہے اور اب تم ان کی دونوں لڑکیوں کو ختم کرنے کے بعد اس دشمنی کا خاتمہ کرو گے میں نے حمید صاحب کو بتایا ہے کہ جب تم 25 سال کی عمر میں قدم رکھو گے تب وہ تمہیں ڈائری دے دیں گے اس ڈائری کے ساتھ میرے چمکے ہیں وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کو دے دینا" تمہاری بد نصیب ماں۔
خط ختم ہو گیا لیکن عامر کے کندھے پر ذمہ داریوں کا پہاڑ آگیا اب گھر نہیں بنانا تھا بلکہ دو قتل کرنے تھے وہ وقت اگیا تھا جب وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جبار راجہ کی لڑکیوں سے انتقام لے کر ماں کی روح کو مطمئین کر سکے وہ اٹھ کر لائبریری سے باہر اگیا اس کے پاس ریوالور نہیں تھا اور اسے خریدنے کے لیے رقم بھی نہیں تھی۔
لیکن یہ بعد کی بات تھی پہلے تو اسے سیکٹریٹ کالونی جا کر جبار راجہ کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھی نہ جانے اس کی بیوی اور لڑکیاں کہاں تھیں۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ جبار راجہ سیکریٹ کالونی میں رہتا تھا جو یتیم خانے کے بالکل قریب تھی تب پھر جبار راجہ کے گھر والوں کی جانب سے جوابی کاروائی کیوں نہیں کی گئی تھی؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جبار راجہ کی بیوی اور دونوں لڑکیاں کسی حادثے میں ہلاک ہو چکی ہوں۔ بہرحال وہ بس پکڑ کر سیکٹریٹ کالونی اگیا یہ افیسرز کالونی تھی اور ظاہر ہے کہ اب مکان نمبر 72 میں کوئی اور رہتا ہوگا اس لیے وہاں جانا فضول تھا کالونی سے باہر معلوماتی کمرہ بنا ہوا تھا وہ وہاں آگیا۔ کلرک نے عجیب نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تو اس نے مکان نمبر 72 کے رہائشوں کے متعلق دریافت کیا۔
کلرک نے بتایا وہاں واجد بیگ رہائش پذیر ہیں عامر سوچ میں پڑ گیا بات 20 سال پرانی تھی اور ظاہر ہے اس وقت کلرک بھی کوئی اور متعین ہوگا لیکن ریکارڈ کے ذریعے معلومات ہو سکتی تھیں اس نے جیب میں سے 5 س کا نوٹ نکالا اور کلر کے سامنے رکھتے ہوئے کہا مجھے مکان نمبر 72 کا 20 سال پہلے کا ریکارڈ چاہیے اس وقت مکان میں کون رہتا تھا اور اب وہ کہاں ہے تمہاری اسانی کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ مکان کے سربراہ کا نام جبار راجہ تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا کلرک سوچ میں پڑ گیا پھر اس نے اٹھ کر فائلوں سے بری الماری کھولی اور وہاں کچھ تلاش کرنے لگا اس نے چند فائلیں بھی باہر نکالیں پھر انہیں الٹنے الٹنے کے بعد انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولا اس میں 20 سال پرانی کوئی فائل موجود نہیں ہے لیکن اگر تم 500 روپے مزید دو تو شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔
عامر نے 5 س کا دوسرا نوٹ اس کے سامنے میز پر رکھ دیا کلرکن نے اسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھا اور مسکراتے ہوئے بولا دراصل 20 سال پہلے معلوماتی افس تھا ہی نہیں چونکہ مکان میرے والد صاحب دوسروں کے نام منتقل کرتے تھے اسی لیے انہیں ضرور جبار راجہ کے متعلق معلوم ہوگا تمہیں کچھ انتظار کرنا ہوگا میرا افس ٹائم ختم ہونے والا ہے میں تمہیں اپنے ساتھ گھر لے جاؤں گا وہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے عامر نے اسبات میں سر ہلایا اور کرسی سے اٹھ کر قریبی صوفے پر بیٹھ گیا اسے پانچ بجے تک انتظار کرنا پڑا وہ صبح کا گھر سے نکلا ہوا تھا اور اس نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا اس کے علاوہ سبا کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے لیکن اسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی اس کے دل و دماغ میں بدلہ لینے کا خون سوار تھا وہ انکھیں بند کرتا تھا تو اسے اپنی گھائل ماں کا خون میں نہایا ہوا وجود دکھائی دیتا تھا اور جبار راجہ کا نقاب میں چھپا ہوا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا تھا۔
کلرک کا گھر سیکٹرییٹ کالونی سے کافی دور تھا اسے وہاں تک پہنچنے میں 20 منٹ لگے دو کمروں کا مکان تھا کلرک نے اسے جس کمرے میں بٹھایا اسے بیٹھے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا دیواروں کے تین جانب گدے ڈال کر گاؤ تکیے رکھے گئے تھے اور فرش پر دری بچھی ہوئی تھی عامر ابھی کمرے کا جائزہ لینے بھی نہیں پایا تھا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کو لے ایا اس کی عمر 60 سے اوپر تھی اور اسے سنائی کم دیتا تھا عامر نے سلام کیا تو جواب دیے بغیر اس کے سامنے والے گدے پر بیٹھ گیا۔
کلرک نے اونچی آواز میں باپ کو بتایا کہ عامر کو 20 سال قبل سیکریٹ کالونی میں رہنے والے جبار راجہ کے متعلق معلومات درکار ہیں اور ان کی فائل الماری میں موجود نہیں ہے اس کے باپ نے بتایا اس وقت فائل بنانے کا رواج نہیں تھا سب کچھ منہ زبانی طے ہو جایا کرتا تھا تاہم میں جبار راجہ کی فیملی کے متعلق جانتا ہوں یہ فیملی اپنی خاندانی دشمن کی بھینٹ چڑھ گئی جبار راجہ کو قتل کر دیا گیا اور اس کی بیوی صدمے کو برداشت نہ کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے مر گئی ماں باپ کی وفات کے بعد ان کی دو لڑکیاں بچیں جنہیں یتیم خانے بھجوا دیا گیا عمر نے چونک کر بوڑھے کی جانب دیکھا پھر بے چین لہجے میں پوچھا کون سے یتیم خانے وہ جو سرکلر روڈ پر ہے؟
بوڑھے کا کچھ سنائی نہیں دیا اسی لیے کلرک نے اس کا سوال اونچی آواز میں دہرایا بوڑھا جنجلاتے ہوئے لہجے میں بولا اس شہر میں ایک ہی یتیم خانہ ہے تو ظاہر ہے کہ انہیں وہیں بھجوایا گیا ہوگا عامر نے اس دفعہ اونچی اواز میں پوچھا کیا اپ کو ان لڑکیوں کے نام یاد ہیں دماغ پر زور دیجیے مجھے ان کی بہت ضرورت ہے بوڑھے نے برجستہ لہجے میں جواب دیا دماغ پر زور دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے مجھے ان کے نام اچھی طرح یاد ہیں کیونکہ میں نے اپنی لڑکیوں کے نام بھی وہی رکھے تھے جو ان کے تھے صبا اور حبا۔
عامر چند لمحوں کے لیے سکتے میں چلا گیا پھر اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے کمرے سے اٹھ کر باہر اگیا کلرک نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اب ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا مین سڑک پر انے کے بعد اس نے رکشہ پکڑا اور یتیم خانے چلنے کے لیے کہا اس کے دماغ میں گرد آلود بگولے چل رہے تھے اسے جو خدشہ لاحق تھا اگر اس کی تصدیق ہو جاتی تو پھر سب کچھ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا۔ رکشے والے نے اسے جلدی ہی یتیم خانے کی عمارت کے سامنے اتار دیا حمید صاحب کی رہائش یتیم خانے کے پچھلے بنے ہوئے کوارٹر میں تھی اس لیے وہ دیر تک آفس میں بیٹھتے تھے۔ عامر کی جانب انہوں نے حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا تو عامر نے درشت لہجے میں پوچھا۔ جبار راجہ کی لڑکیوں کو 20 سال قبل یتیم خانے میں کون لایا تھا اور اپ نے اس کا تذکرہ مجھ سے کیوں نہیں کیا؟ حمید صاحب حیرت بھرے لہجے میں بولے تم اس جبار راجہ کی بات کر رہے ہو جس نے تمہاری ماں کو قتل کیا تھا اس کی لڑکیوں کو یہاں نہیں لایا گیا ورنہ میں تم سے کیوں چھپاتا۔
عامر نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا خدایا تیرا شکر ہے ورنہ میں بہت بڑی آزمائش میں پڑ جاتا پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے دوبارہ پوچھا مجھے صبا کی تصویر چاہیے اور اس کے ماں باپ کا نام بھی بتا دیجئے حمید صاحب نے اس بات میں سر ہلایا اور اپنے پیچھے موجود الماری کھول کر فائل تلاش کرنے لگے اج سے پہلے امر نے کبھی بھی ان سے صبا کے متعلق نہیں پوچھا تھا اس کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اس کی طرح یتیم تھی جلد ہی حمید صاحب نے صباح کی فائل نکال کر اس کے سامنے رکھ دی جس میں تصویر بھی موجود تھی لیکن یہ تین سال کی بچی کی تصویر تھی اس کے ساتھ ایک اور بچی بھی تھی جو اس سے کچھ بڑی تھی اور نام پڑھ کر عامر کو کمرہ گھومتا ہوا محسوس ہوا اس لڑکی کا نام صبا تھا۔
کلرک کے بوڑھے باپ نے اسے بھی یہی نام بتائے تھے تاہم ماں باپ والے خانے میں جمیل عباسی کا نام تحریر تھا اس کے شناختی کارڈ کی کاپی بھی ساتھ لگی ہوئی تھی عامر نے کاپی اتار لی اور حمید صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا میری دنیا دوبارہ اجڑنے والی ہے یوں سمجھیے کہ میں ایک دفعہ پھر یتیم ہونے والا ہوں لیکن اپنی ماں کی روح کو تسکین دینے کے لیے میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں بس اپ دعا کیجئے گا کہ وہ سب نہ ہو جو میں سوچ رہا ہوں۔
حمید صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا وہ اس کی دماغی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ بات چیت نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لیے چپ ہی رہے عامر کمرے سے باہر نکل ایا اب اسے دوبارہ کلر کے گھر جانا تھا شام کے سات بجنے والے تھے وہ اٹھ بجے تک فارغ ہو کر گھر واپس جا سکتا تھا اسے معلوم تھا کہ صبا اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے پریشان ہوگی لیکن وہ اپنی پریشانی کو ختم کر کے ہی گھر جانا چاہتا تھا۔ رکشہ پکڑ کر دوبارہ کلرک کے گھر آگیا اس کی جیب میں موجود رقم تیزی سے کم ہوتی جا رہی تھی لیکن اسے پرواہ نہیں تھی حالات و واقعات جس جانب اشارہ کر رہے تھے اگر ان کی تصدیق ہو جاتی تو پھر یہ رقم اس کے لیے فضول ہو کر رہ جاتی۔ رکشے والے نے اسے جلد ہی کلر کے گھر کے سامنے اتار دیا اور وہ نیچے اتر کر دروازے کی طرف اگیا اس نے دستک دی تو دروازہ کلرک نے کھولا عامر نے معذرت بھرے لہجے میں اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا معاف کرنا میں تمہیں ایک دفعہ پھر زحمت دے رہا ہوں معاملہ بہت گمبھیر ہے اور مجھے صحیح معلومات درکار ہیں اس نے شناختی کارڈ کی وہ کاپی جیب سے نکال کر کلر کے ہاتھ میں تھما دی جو وہ یتیم خانے سے ساتھ لے کر آیا تھا مجھے اس شخص کے متعلق معلوم کرنا ہے کہ جبار راجہ کی جگہ یہ شخص یتیم خانے ان کی بیٹیوں کو لے کر آیا تھا اور جبار راجہ کے ساتھ اس کی رشتہ داری کیا ہے اپنے والد سے اس بات کی تصدیق کروا دو۔
کلرک طوطے کی طرح فرفر بولنے لگا جمیل عباسی سیکٹریٹ میں اسٹینوگرافر تھا اس کی موت کافی پہلے ہو چکی تھی وہ جبار راجہ کا ہم زلف تھا لیکن بیوی کے مرنے کے بعد اس نے دوسری شادی کر لی تھی اور جب جبار راجہ کا گھرانہ تباہ ہوا تب اس نے دونوں لڑکیوں کو اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیا اور انہیں یتیم خانے میں داخل کروا دیا تاہم مجھے اس کے متعلق معلوم نہیں امر سر پکڑ کر دروازے کی چوکھٹ کے ساتھ کھڑا ہو گیا قدرت نے اس کے ساتھ بہت بڑا مذاق کیا تھا وہ انجانے میں اپنی ماں کے قاتل کی لڑکی سے شادی کر چکا تھا اس لیے اب اسے اپنی بیوی کو قتل کرنا تھا کلرک نے پریشان نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا کیا میں تمہارے لیے پانی لاؤں میرے خیال میں تمہیں چکر ا رہے ہیں۔
عامر نے کوئی جواب نہیں دیا اور سڑک کی طرف آگیا اس کے ہوش و حواس گم ہوتے چلے جا رہے تھے اور وہ عنقریب پاگل ہونے والا تھا اس نے رکشہ پکڑا اور اسے گھر کا ایڈریس بتا کر بیٹھ گیا
جب اس نے صحن میں قدم رکھا تو صبا کو اپنا منتظر پایا اس نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی عامر نے بہانہ بنا دیا کہ نیاز کے دوران دیر ہو گئی۔ حمید صاحب سے بھی ملاقات ہوئی وہ تمہارے متعلق پوچھ رہے تھے اور انہوں نے عجیب بات بتائی کہ تمہاری ایک بہن بھی تھی جو بعد میں وفات پا گئی تھی انہوں نے اس کا بھلا سا نام بھی بتایا تھا میں بھول گیا؟ صبا بولی: حبا ۔۔ وہ مجھ سے بڑی تھی اور جب ہمیں یتیم خانے بھجوایا گیا تب چند مہینوں کے بعد ہی اس کی موت واقع ہوگئی تھی اس کی موت کے متعلق مجھے حمید صاحب نے بعد میں بتایا تھا عامیر کمرے میں آگیا صبا نے اس سے کھانے کے متعلق پوچھا عامر نے انکار کر دیا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔ خود بھی کھانا کھائے بغیر سونے کے لیے لیٹ گئی لیکن نیند دونوں کی انکھوں سے دور تھی ایسا ان کی ازواجی زندگی میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ وہ دونوں کھانا کھائے بغیر سونے کے لیے لیٹے تھے ورنہ وہ ہمیشہ اکٹھے کھانا کھاتے تھے بہرحال عامر کو اب بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تھا اس لیے وہ شش و پنج میں مبتلا تھا اسے صبا کو قتل کرنا تھا اور وہ حاملہ تھی یعنی اسے دو روحوں کو قتل کرنا تھا۔
یہ اس کے لیے ازمائش سے کم بات نہیں تھی وہ بہت بڑے امتحان میں پھنس چکا تھا ایک طرف اسے جنم دینے والی ماں کی وصیت اور دوسری جانب فرمانبردار اور محبت کرنے والی بیوی کا وجود تھا جس نے اسے کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا لیکن اسے کرنا وہی کچھ تھا جو اسے ماں نے کہہ دیا تھا تاہم سوچنا یہ تھا کہ وہ حکم پر عمل کیسے کرتا ریوالور سے گولی چلانا ناممکن تھا وہ اس کی انکھوں میں حیرت کی جھلک نہیں دیکھ سکتا تھا اس کا محبوب شوہر گولی چلا کر اسے ختم کرتا وہ شاید گولی چلنے سے قبل ہی مر جاتی اس کا دل پھٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا لیکن زہر دے کر وہ اسے باسانی مار سکتا تھا اور اس نے دل میں تہیہ کیا کہ وہ اس کے بعد اپنے اپ کو پولیس کے حوالے کر دے گا پھانسی چڑھنے کے بعد سب کچھ خود ہی ختم ہو جاتا یا پھر یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ صبا کے ساتھ ہی زہر کھا کر اپنے اپ کو موت کے حوالے کر دیتا اس معاملے پر اس تمام معاملے میں ان دونوں کا کوئی قصور نہیں تھا وہ دشمنی کی بینر چڑھنے والے تھے تو پھر کیوں نہ اکٹھے موت کو گلے لگاتے تب اچانک اسے اپنے نومولود بچے کا خیال ایا جو دنیا میں انے سے پہلے ہی موت کی وادیوں میں گم ہونے والے تھا وہ تڑپ کر رہ گیا اس نے پہلو میں لیٹی صبا کی جانب دیکھا وہ سو گئی تھی تب اس کے دماغ میں خیال ایا کہ صبا کو قتل کرنے کی بجائے اگر وہ خود کشی کر لیتا تو اس کے نومولود بچے کی جان بچ سکتی تھی۔ لیکن پھر ایسی صورت میں ماں کی وصیت نامکمل رہ جاتی اسے ماں کا حکم تو ہر حال میں ماننا تھا۔ وہ اٹھ کر صحن میں اگیا رات کے 12 بجنے والے تھے اس کی ماں کی قبر جس قبرستان میں تھی وہ اس کے گھر کے قریب ہی تھا اس لیے دروازہ کھول کر باہر آگیا کمرے سے باہر انے سے قبل اس نے جھمکے والا ڈبہ صباح کے سرہانے رکھ دیا تھا وہ صبح اسے دیکھ کر چونک جاتی لیکن تب اسے بتانے والا وہاں نہیں ہوتا۔
سڑکیں سنسان پڑی ہوئی تھیں اور کتے دندناتے پھر رہے تھے مین سڑک کے پاس اسے ٹیکسی مل گئی اور وہ اس میں بیٹھ کر قبرستان آگیا۔ قبرستان میں گپ اندھیرا تھا صرف گورگن کے کمرے میں روشنی تھی وہ آہستہ قدموں کے ساتھ چلتا ہوا ماں کی قبر کے قریب ا بیٹھا جب سے اس نے مکان بنانا شروع کیا تھا تب سے اسے قبرستان آنے کا موقع نہیں ملا تھا اس کی ماں کی قبر پر جھاڑیاں پیدا ہو گئی تھیں اس نے انہیں اکھاڑ کر دور پھینک دیا اور قبر کے سرانے بیٹھ کر اہستہ لہجے میں ہم کلام ہوا۔
٭٭٭
میں بہت پریشان ہوں ماں جبار راجہ خود تو مر گیا اور پیچھے بدلہ لینے کے لیے اپنی لڑکی کو چھوڑ گیا قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یتیم خانے میں ہزاروں لڑکیاں ہونے کے باوجود بھی میری شادی اس سے ہوئی جو جبار راجہ کی لڑکی تھی اور پھر جب تیرا وصیت نامہ مجھے ملا تب وہ حاملہ ہو چکی تھی اگر اس کے پیٹ میں میرا بچہ سانس نہ لے رہا ہوتا تو میں اسے ملا تامل قتل کر دیتا حالانکہ وہ مجبور اور لاچار عورت ہے لیکن تو بھی تو مجبور لاچار اور بے بس تھی تجھ پر بھی تو پیٹھ پیچھے گولیاں چلائی گئی تھیں۔ لیکن اب میرا ہاتھ صرف اس لیے کانپ رہا ہے کہ وہ حاملہ ہے میں اسی تو ختم کر سکتا ہوں لیکن اس وجود میں آنے والے بچے کو ختم نہیں کر سکتا اس لیے میں اسے طلاق دے کر شہر سے دور جانے والا ہوں کسی عورت کو طلاق دینا اسے قتل کر دینے کے ہی مترادف ہوتا ہے لیکن مجھے اتنی اجازت دے دے کہ میں مکان اس کے نام منتقل کر دوں میری ریٹائرمنٹ میں ابھی کافی عرصہ پڑا ہوا ہے میں پینشن اس کے نام منتقل نہیں کر سکتا ہوں اس لیے تمام تنخواہ اسے بھجوا دیا کروں گا مجھے امید ہے کہ تو مجھے معاف کر دے گی میں نے تیری وصیت پوری نہیں کی ایک عورت کو قتل کرنا میرے لیے ممکن ہے لیکن ایک ماں کو مارنا میرے اختیار سے باہر ہے میں یہ قربانی نہ دے سکنے کی وجہ سے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کر کے یہاں سے دور جا رہا ہوں۔ شاید دوبارہ تیری قبر پر نہ آ سکوں لیکن تجھے بھلاؤں گا نہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا بس مجھے معاف کر دینا ورنہ میری دنیا تو برباد ہو گئی ہے آخرت بھی برباد ہو کر رہ جائے گی
٭٭٭
وہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے آنکھیں پونچھتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہوا قبرستان سے باہر نکل گیا۔
(ختم شد)
👇👇
0 تبصرے