Subscribe Us

خونی سڑک

Sublimegate Urdu Stories

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی چاروں طرف پر اسرار سناٹا طاری تھا۔
تارکول کی پکی سڑک کے دونوں اطراف دور دور تک ایک طویل میدانی سلسلہ تھا جس میں خود رو جھاڑیاں اور پودے کثرت سے اُگے ہوے تھے یہ طویل میدانی سلسلہ جابجا اونچے نیچے ٹیلوں پر مشتمل تھا چہار سو گھمبیر بنائے کا راج تھا۔ ایسے میں ایک کار کی تیز روشنی ابھری اس نے سناٹے کے احساس کو مجروح کر دیا کار میں دو بندے سوار تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی لڑکے کی عمر چھیں سال کے آس پاس جبکہ لڑکی کی عمر چو میں سبال ہو گی لڑکی نے دلہن کا جوڑا زیب تن کر رکھا تھا اور وہ فل میک اپ میں تھی صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنی شادی چھوڑ کر بھاگی ہے لڑکے نے عام سی جینز اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔
"ہم نے گھر سے بھاگ کر کوئی غلطی تو نہیں کی۔ لڑکی نے مسکرا کر اس لڑکے سے پوچھا۔
دو نہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ ویسے بھی تمہارے گھر والے راضی بھی نہ تھے۔۔ لڑکا مسکرا کر بولا ۔
گھر والے راضی بھی کیسے ہوتے تم کوئی کامبھی تو نہیں کرتے۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔
تم جانتی ہو۔ میں نے نوکری کے حصول کے لئے کیا نہیں کیا۔“
لڑکی نے ٹھنڈی سانس لی اور اثبات میں سر ہلا کر خاموش ہو گئی چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ لڑکی یکدم چونک کر بولی ۔
سرفراز ہم کہاں جا رہے ہیں۔“
ہم لوگ دانش کے گھر جارہے ہیں یہ رات گزار کر ہم لوگ شادی کر لیں گے اور کل دوسرے شہر کے لئے نکل لیں گے۔“
پھر چونکی۔
دو یہ شارٹ راستہ ہے۔ جو ہم کو جلد دانش کی طرف پہنچادے گا۔
مگر یہ راستہ دانش کے گھر تو جاتا نہیں ۔“ لڑکی S -
کہیں یہ وہی خونی سڑک تو نہیں۔ جس کے بارے میں مختلف باتیں مہشور ہیں۔ لڑکی پھر چونکی تھی۔
جواب میں سرفراز نے اثبات میں سر ہلا کر ہاں کیا اور اس کی طرف غور سے دیکھا اور بولا۔ صدف تم ایک پڑھی لکھی لڑکی ہو آج کے دور میں یہ باتیں "
سرفراز کے جملے اس کے منہ میں رہ گئے ۔سرفراز نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی تو گاڑی کا توازن بگڑ گیا اور کار لہرا گئی۔ کار کے بونٹ سے کوئی چیز ٹکرائی تھی جسے سر جسے سرفراز نے صاف دیکھا تھا۔ وہ نہ جانے کیا چیز تھی کالی سی جس کی چمکتی سرخ آنکھیں تھیں۔ جس کی سرفراز ایک ہی جھلک دیکھ پایا تھا۔
صدف کے حلق سے دلخراش چیخ نکلی گاڑی لہراتی ہوئی دائیں طرف والے میدانی حصے میں اتر گئی گاڑی تھوڑی ہی دور چلی ہوگی کہ کسی چیز سے ٹکرا کر رک گئی اور سرفراز کا سرکار کے اسٹیئرنگ سے ٹکرایا اور سرفراز اسٹیئرنگ پر ہی بے سدھ ہو گیا۔
صدف نے چیختے ہوئے سرفراز کو ہلایا لیکن سرفراز نے کوئی حرکت نہیں کیونکہ سرفراز بے ہوش ہو چکا تھا۔
باہر سناٹا تھا کار میں سرفراز بے ہوش پڑا تھا اور صدف اکیلی تھی صدف کے دل میں عجیب عجیب خیالات آنے لگے تھے اس سڑک سے جڑے تمام پر سرار واقعات اس کے دل ودماغ میں گھومنے لگے تھے اگر اس کو پتہ ہوتا کہ سرفراز اس سڑک سے کار گزارے گا
تو وہ بھی بھی اس سڑک سے اس کو جانے نہ دیتی۔ لیکن
چنانچہ صرف ڈرتے ڈرتے کار سے اتری اس
نے دیکھا کہ کار کے یونٹ پر بہت سا خون بڑا ہے۔ ہو سکتا تھا یہ اس چیز کا خون ہو۔ جو چیز کار کے بونٹ سے ٹکرائی تھی۔ صدف اور آگے بڑھی یہ دیکھ کر وہ چونک گئی
کہ کار ایک بہت طویل قد آدم مجسمہ سے ٹکرا کر رکھی ہے۔
صدف نے غور سے اس مجسمہ کو دیکھا دوسرے
پل چونک گئی یہ پتھر کا عجیب سا مجسمہ تھا صدف کو سمجھ ہی نہ آیا کہ کسی طرح کا مجسمہ ہے اندھیرے کے سبب اس کے خدو خال ٹھیک طرح سے واضح نہیں سے واضح نہیں تھے بس اتنا ہوا کہ صدف کو خوف کی ایک لہر اپنے اندر دوڑتی محسوس ہو رہی تھی صدف حیرت اور خوف اسے اس مجسمہ کو دیکھ ہی رہی
تھی کہ اچانک اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ ہاتھ کے رکھتے ہی صدف بری طرح سے اچھل پڑی اور اس کے حلق سے چیخ نکل گئی اس نے مڑ کر دیکھا تو پھر چیخوںکا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ صدف نے جس کو دیکھا وہ بہت ہی خوفناک تھا اس کی لال سرخ آنکھیں صدف کو گھور رہی تھیں۔ دوسرے پل صدف لہرا کر اس نو وارد کی بانہوں میں جھول گئی۔
دوسرے دن سرفراز کی لاش پولیس نے اسی سڑک پر دریافت کی تھی لاش کی یہ حالت تھی کہ اس کے جسم اور چہرے پر جابجا زخموں کے نشانات تھے اور جسم میں خون بے حد کم تھا یوں لگتا تھا کہ کسی درندے نے بڑی بے دردی سے سرفراز کا خون پیا ہے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق سرفراز گزشتہ رات شہر کے ایک باعزت بزنس مین شار احمد کی لڑکی کو اسی کی شادی سے لے بھاگا تھا اب پولیس کو اس کی لاش ملی تھی مگر لڑکی کا کوئی پتہ نہ تھا۔
کا شف خان شہر کے ایک معروف بزنس مین تھے اپنے بزنس کے سلسلے میں اکثر کاشف کو بیرون ملک سفر کرنا پڑتا تھا چند سال پہلے تک کا شف اتنا کامیاب
کاروباری نہ تھے ۔ بس چھوٹا موٹا سا کاروبار تھا جس کو
چلانے کے لئے کاشف کو بے حد پاپڑ بیلنے پڑتے تھے لیکن ان کی محنت اور لگن نے ان کے کاروبار کو دس سال
میں بلندی اور عروج بام عطا کیا تھا عروج حاصل ہونے
کے بعد بھی کاشف کے انداز میں تکبر پیدا نہیں ہوا تھا ہر
ایک سے محبت اور عاجزی سے ملتے تھے ان کی محنت کی
وجہ سے ملک کی سب سے بڑی کپڑے کی انڈسٹری ان
کے ساتھ کاروباری سودے پر راضی ہوئی تھی۔
وقت رات کے آٹھ بجے طے پایا تھا۔
 
 کاشف رات سات بجے گھر سے نکل گئے تھے ۔ کاشف کی بیگم ایک خالص گھریلو عورت تھیں وہ ہمیشہ ہی بو عورت تھیں وہ ہمیشہ ہی ان بے وقت کی کاروباری میٹنگ سے چڑ کھاتی تھیں چنانچہ کا شف گھر سے نکلے تو بیگم نے ناک بھوں چڑھائی تھی چنانچہ کا شف ہنس کر ٹالتے ہوئے گھر سے نکل گئے ۔ جلد پہنچنے کے لئے کاشف نے ایک مختصر راستے کو چنا تھا کا شیف جانتے تھے اگر وہ مختصر راستے سے نہیں گئے تو شدید قسم کے ٹریفک جام میں پھنس جائیں گے جو کہ کاشف کو گوارا نہ تھا۔

یہ وہی راستہ جس کو اختیار کرنے پر پابندی تھی اس کی وجہ اس سڑک پر ہونے والی پر اسرار اموات تھیں پہلے پہل اس سڑک پر خاصی آمد و رفت ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں میں ڈر و خوف پھیلنے لگا تھا بہت جلد یہ خونی سڑک کے نام سے مشہور ہو گئی اس کی وجہ لوگوں کی لاشیں تھیں ؟ میں جو اس سڑک سے ملا کرتی تھیں وہ لاشیں بربریت اور وحشت کا اعلیٰ نمونہ ہوا کرتی تھیں لاش کے چہرے اور جسم پر زخموں کے جابجا نشانات ہوتے اور جسم میں خون بے حد کم پایا جاتا جس سے ایسا لگتا کہ یہ کسی درندے کا کارنامہ ہے۔ جب اس طرح کے واقعات بہت زیادہ بڑھ ۔ گئے تو حکومت کی طرف سے انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی لیکن ٹیم کے ممبران بھی ان حادثات کا شکا رہو گئے جو زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے وہ ہمیشہ کے لئے پاگل ہو گئے ان کے چہروں پر ایسا خوف پایا جاتا جو کہ نا قابل یقین ہوتا۔
لوگوں نے ان واقعات کے بارے میں بہت قیاس لگائے تھے کوئی یہ کہتا کہ یہ بدروحوں کا گروہ ہے جو لوگوں کو ورغلا وکر عوام کا خون پی جاتا ہے کوئی آدم خور شیر کی داستان سناتا۔

مگر ایک روایت نے زیادہ شہرت حاصل کی کہا جاتا ہے کسی زمانے یہاں پر کسی ملک کے باغیوں کا گروہ آکر رہنے لگا یہ گروہ زندگی گزارنے کے ۔ لئے ڈاکے مارا کرتا تھا جب یہ واقعات بڑھ گئے تو حکومت نے پولیس پارٹی ان مجرموں کی سرکوبی کے لئے روانہ کی۔ ڈاکو تو محفوظ رہے مگر پولیس والے کبھی واپس نہ آسکے اس کے بعد حکومت کوئی اور ٹھوس قدم اُٹھا پاتی ملک میں طاعون کی وبا پھیلی جس سے پورا ملک شدید متاثر ہوا تھا۔ طاعون اس علاقے میں پھیلا چونکہ یہ لوگ مطلوب تھے اس لئے ان کی کوئی مدد نہ کی گئی جس کی وجہ سے یہ سارا قبیلہ دبا کا شکار ہو کر مارا گیا۔ اس کے بعد لوگ یہ سمجھنے لگے کہ ان مجرموں کی بدروحیں اس علاقے میں لوگوں کو مارتی پھرتی ہیں۔

چنانچه حکومتی اقدامات کا کوئی ٹھوس فائدہ نہہونے کی وجہ سے اس سڑک پر آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی اور اس سڑک کو حادثاتی مقام قرار دے کر بند کر دیا گیا لیکن پھر بھی بہت سے منچلے چلے جاتے اور پھر بھی واپس نہ آتے اور ان کی لاشیں اس حالت میں ملتیں جو کہ وحشت اور بربریت کا نمونہ ہوتیں۔

کاشف بڑے ہی پر سکون انداز میں کار چلاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور تو ہم پرست لوگوں کی تو ہم پرستی پر مسکرا رہے تھے جو کہ اس سڑک کو آسیبی گردانتے تھے ابھی تک کاشف کے ساتھ ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی تھی جو غیر معمولی ہو، سڑک کے دونوں اطراف طویل میدانی سلسلہ تھا جس میں خود رو پودے، جھاڑیاں اور م اونچے نیچے ٹیلے وافر تعداد میں موجود تھے کاشف کو کار چلاتے ہوئے دس منٹ سے زیادہ وقت گزر چکا تھا مگر سڑک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی سڑک تو
شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہی ہوتی جا رہی تھی۔ کاشف سوچ میں پڑ گئے اس کے اندازے کے
مطابق فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا بہت سے بہت پندرہ منٹ کے بعد کاشف کو اس : مین روڈ پر ہونا چاہیے تھا جہاں سے ہوٹل سی ایگل کا راستہ شروع ہوتا تھا۔
اچانک کاشف کی نظر فیول میٹر پر پڑی فیول کا نشان بتانے والی سوئی زیرو کی جانب اشارہ کر رہی تھی مطلب پیٹرول بھی ختم ہونے و والا تھا۔ اب شدید قسم کی پریشانی کاشف کے چہرے پر نظر آنے لگی تھی ملاقات کا وقت بھی شروع ہوا جاتا تھا اچانک کار نے جھٹکے لینے شروع کر دیئے اور چند لمحوں کے بعد کار لہراتی ہوئی سڑک
کے دائیں طرف کچے میں اتر گئی یہ کار کا فیول میٹر زیرو کی ریڈنگ شو کر رہا تھا اور کار رک چکی تھی۔

او خدایا ۔ ۔ اب کیا ہوگا۔۔۔ کاشف کار سے نکل کر بڑ بڑائے۔
کاشف نے گھڑی دیکھی تو رات کے دس بج رہے تھے کاشف مزید پریشان ہو گئے کمپنی کے لوگ کاشف کا انتظار کر رہے ہوں گے اگر وہ لوگ انتظار کر کے چلے گئے تو کاشف کی ریپوٹیشن بزنس مارکیٹمیں کافی خراب ہو جائے گی کاشف شدید پریشان ہو گئے، اتنا ہی وقت لگ گیا تھا جتنا ٹریفک جام میں لگتا تھا۔
دور دور تک تا حد نگاہ ویرانے اور سناٹے کا راج تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں کہ اچانک ان کو اپنے فون کا خیال آیا تو انہوں نے فورا ہی جیب سے موبائل فون نکالا یہ دیکھ کر ان کو شدید قسم کی مایوسی ہوئی کیونکہ فون بند تھا کاشف کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فون بند کیوں ہے۔ ان کو اچھی طرح یاد تھا کہ جب گھر سے نکلے تھے تو فون کو اچھی طرح سے چارج کر لیا تھا۔

کاشف کی یہ عادت ہمیشہ سے تھی کہ جب بھی وہ گھر سے نکلتے تو اپنا فون چارج کرکے ہی نکلتے تھے لیکن آج تو بالکل ہی انہونی ہوئی تھی۔ کاشف کو سردی کا احساس بھی ہو رہا تھا چنانچہ انہوں نے گاڑی میں بیٹھ کر کار کا ہیٹر آن کر لیا اور کچھ ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ کاشف ایک عجیب سی آواز سن کر چونک پڑے جیسے کوئی جھ عورت پاک اپنے پچھن چھن کرتی چلی آرہی ہو جسے ہی وہ
کاشف کار سے . باہر نکل آئے اور جیسے ہی گاڑی سے باہر نکلی دور دور تک گہرے سنائے اور خاموشی کا راج تھا لیکن پائل کی آواز برابر ان کے کانوں کو سنائی دے رہی تھی۔

اب تو کاشف کی ہوا خشک ہونے لگی تھی خوف کا احساس ان کے دل میں سرایت کرنے لگا ویرانے اور سناٹے میں پائل کی آواز اچھے خاصے لوگوں کا خون خشک کرنے کے لئے کافی تھی کاشف کو وہ ساری پر اسرار کہانیاں یاد آنے لگی تھیں جو کہ اس سڑک سے منسوب تھیں۔
کاشف ادھر اُدھر دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک ان کو دور سے روشنی اپنی طرف آتی نظر آئی تو انہوں نے غور سے دیکھا تو کوئی انسان ہاتھ میں لالٹین لئے چلا آرہا ہے جیسے ہی نو وارد قریب آیا تو یہ دیکھ کر وہ حیران ہو گئے۔
وہ ایک لڑکی تھی جو کہ دیکھنے میں دیہاتی معلوم ہوتی تھی اس لڑکی نے گھاگھرا چولی زیب تن کر رکھا تھا جوکه اکثر و پیشتر اس علاقے کے بنجارے پہنا کرتے تھے۔ اس لڑکی نے خالص دیہاتی لہجے میں کاشف کو مخاطب کیا۔
بابو۔ کیا ہوا گاڑی خراب ہوگئی ہے۔“
نہیں گاڑی تو ٹھیک ہے مگر افسوس پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔ کاشف نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
اوہ لڑکی نے تاسف کا اظہار کیا۔
بس اب انتظار ہے کوئی مدد آ جائے مگر تم اس ویرانے میں کیسے۔“ کاشف نے حیرت سے پوچھا۔
بابو۔ یہاں تھوڑی دور ایک بستی ہے جہاں ہمارا گھر ہے۔ ہم بھولے بھٹکے راہگیروں کی مدد کرتے ہیں۔ لڑکی مسکرا کر بولی۔
مگر میں نے تو سُنا ہے یہاں کوئی آبادی نہیں ہے اور یہاں پر آمدورفت کی پابندی ہے۔“ کاشف بدستور حیرت بھرے لہجے میں بولے۔

لالٹین کی روشنی میں کاشف نے دیکھا کہ ان کی بات سن کر لڑکی کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا اور جیسے وہ یکدم گڑ بڑا سی گئی ہو دوسرے پل وہ مسکرا کر بولی۔ دو نہیں بابو یہاں ایک ڈاکوؤں کا گروہ ہے جو عوام کو
پریشان کرتا ہے لوگوں سے لوٹ مار کرتا ہے۔ اچھا۔ کاشف نے مختصراً کہا۔
بابو۔۔۔ تم ہمارے گھر چلو رات ہمارے گھر میں گزار لینا صبح کوئی نہ کوئی گاڑی گزرے گی تو پھر پٹرول کا بھی کچھ انتظام ہو جائے گا۔ لڑکی پھر مسکرائی تھی۔
کاشف نے دل میں سوچا کہ ساری رات یہاں
گاڑی میں کالی کرنے سے بہتر ہے لڑکی کے ساتھ چلا جائے صبح ہونے پر دیکھا جائے گا کیونکہ ابھی دوسری کسی گاڑی کے گزرنے کے کوئی آثار نہیں ہیں meeting
تو خراب ہو ہی گئی ہے ۔ چنانچہ کاشف اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑا، چلنے سے پہلے کاشف کار کے ڈیش بورڈ سے ٹارچ نکالنا نہیں بھولتا تھا کاشف کی ڈیش بورڈ میں ہمیشہ ہی ایک ٹارچ موجود رہتیتھی تاکہ اگر کار میں کوئی چھوٹی موٹی خرابی ہو جائے تو ٹارچ کی روشنی کی مدد سے دور کی جاسکے لڑکی آگے آگے چلی جارہی تھی اور کا شف اس کے پیچھے تھا ٹارچ کی روشنی میں کا شیف نے لڑکی کے سراپے کو غور سے دیکھا لڑکی بے حد حسین تھی اور اس کی چال بہت دلکش تھی۔
بابو کیا نام ہے تمہارا۔ لڑکی نے چلتے چلتے پوچھا۔
کاشف خان
کیا کرتے ہو بابو "
کاروبار ہے میرا کپڑے کا۔ کاشف نے
مسکرا کر کہا۔
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا وہ دونوں چلتے ہی رہے کا شف بس لڑکی کی دلکش چال کو دیکھتا چل رہا تھا کاشف کو اپنی کاروباری میٹنگ کے خراب ہونے کا بہت افسوس تھا مگر کیا ہو سکتا تھا تھوڑی دور چلنے کے بعد کاشف کو آبادی کے آثار نظر آئے چاند کی روشنی میں مکانوں کے دھندلے اور ملگجے سائے دیکھ کر کاشف کا حوصلہ بلند ہو گیا آبادی دیکھ کر کاشف کو اُمید جاگ گئی کہ چلورات کا کوئی انتظام ہو گیا ورنہ پہلے اس کے دل و دماغ میں یہی تھا کہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد مکانات صاف اور واضح نظر آنے لگے تھے لیکن دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا عجیب سا غیر فطری سناٹا طاری تھا جیسا سناٹا قبرستانوں میں ہوتا ہے کا شف اس چیز کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔
اتنا سناٹا کیوں ہے بالکل غیر فطری سا۔“ کاشف نے حیرت سے پوچھا۔
کاشف کی بات سن کر لڑ کی چونک گئی اپنے آپ کو
سنبھالتی ہوئی بولی۔

تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بابو۔ سیدھے سادے دیہاتی ہیں زیادہ دیر تک جاگنے کے عادی نہیں ، جلد سو جاتے ہیں۔“
کاشف نے کوئی جواب نہ دیا لڑکی کے چہرے کے تاثرات اس کے الفاظوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا کہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے مگر کیوں۔ اس کا جواب کاشف کے پاس نہیں تھا کاشف نے سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا ابھی فی الحال اس کے ساتھ چلا جائے اس کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ یہ لڑکی ضرور اس علاقے کے ڈاکوؤں کی ساتھی ہے۔ مگر ہے۔ مگر کاشف نے اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دینا بہتر سمجھا کیونکہ وہ ساری رات گاڑی میں تو نہیں گزار سکتا تھا تھا۔ چنانچہ کاشف چپ چاپ اس کے ساتھ چلتا رہا کچھ ہی لمحات کے بعد اچانک کاشف اس کی جانب دیکھ کر گویا ہوا۔

تمہارا نام کیا ہے کاشف نے چلتے چلتے پوچھا۔
زاخونه
نام بڑا ہی عجیب سا تھا کاشف نے سوچا ایسا نام تو اس نے زندگی میں پہلی بار ہی سنا تھا لڑکی کاشف کو مسلمان معلوم نہیں ہوتی تھی کاشف نے اس کا دل رکھنے کے لئے اس کے نام کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ بہت خوب صورت نام ہے جو کہ تم پر بہت بیچ رہا ہے۔“
اپنی تعریف پر کاشف نے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھی جس میں احساس تفاخر نمایاں تھا۔
اس کی مسکراہٹ کا شف کو سپاٹ اور کھوکھلی لگی بالکل غیر فطری زندگی کے ہر احساس سے عاری کاشف کوشش کے باوجود بھی اس میں زندگی تلاش نہ کر سکا۔
اچانک لڑکی نے مسکرا کر کاشف کو مخاطب کیا۔
د تم مجھے تو ہم پرست انسان معلوم ہوتے ہو۔
اگر بستی میں سناٹا ہے اس میں غیر فطری پن کہاں سے گھس آیا۔
نشاید میں نے لال کا ہو لیکن ا ہو۔ لیکن مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا ہے میرے قدم کسی بستی کے بجائے قبرستان کی سمت اُٹھ رہے ہیں۔

لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا بس عجیب انداز میں مسکرا کر رہ گئی۔
جس انداز میں وہ مسکرائی اس کو دیکھ کر کاشف کو پھر کسی گڑبڑ کا احساس ہونے لگا تھا اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے ارد گرد کوئی اندیکھا جال سا ہے جس میں وہپھنس رہا ہے۔ کچھ دور چلنے کے بعد چاند کی روشنی میں کاشف کو ایک پتھر کا ایک مجسمہ نصب نظر آیا پتھر کے اس مجسمے کو دیکھ کر کاشف حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا یہ ایک عجیب سا مجسمہ تھا جس کو کاشف کوئی نام نہ دے سکا ٹارچ کی روشنی میں کاشف نے دیکھا کہ یہ مجسمہ کسی عورت کا تھا جیس کے خدو خال نہایت خوب صورت تھے عجیب بات یہ تھی کہ اس مجسمہ کو دیکھ کر کاشف کے اندر ایک سرد لہری ڈورتی محسوس ہوئی تھی اس مجسمہ کو دیکھ کر کسی ریاست کی حکمران کا گمان ہوتا تھا۔

سوال کیا۔ یہ کس کا مجسمہ ہے۔“ کاشف نے زاغونہ سے
یہ ہماری دیوی ہے رامونہ۔ ہم اس کی پوجا کرتے ہیں یہی ہے جو ہم کو موت کے بعد زندگی دے گی۔ زاغو نہ نے عقیدت مندانہ انداز میں جواب دیا۔
کاشف اس کے شرکیہ خیالات سن کر کانپ کر رہ گیا کہ زاغو نہ نے پتھر کے مجسمہ سے اپنی تمام تر امیدیں وابستہ کر لی تھیں حالانکہ امیدوں کا محور صرف اور صرف ذات واحد ہی ہونی چاہئے۔

کچھ ہی دیر کے بعد وہ بستی کے اندر داخل ہو گئے بستی کے اندر کا شیف کو مزید حیرتوں کا سامنا کرنا پڑا اس بستی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی دفن شدہ شہر میں آگیا ہو۔ یوں لگتا تھا کہ یہ بستی آثار قدیمہ کی دریافت ہو۔ کوئی بھی مکان سالم حالت میں نہ تھا سب ٹوٹ پھوٹ چکے تھے اکثریت ایسے مکانوں کی تھی جو کہ کھنڈر معلوم ہوتے تھے کا شف اگر مضبوط اعصاب کا مالک نہ ہوتا تو شاید بے ہوش ہو کر گر جاتا رات کے اندھیرے میں لالٹین کی
روشنی میں ایک پر اسرارلڑکی کاشف کو ایسی بستی میں لیے آئی تھی جو کہ زیادہ تر اُجاڑ اور ویران م معلوم ہوتی تھی کاشف کو وہ ساری پر اسرار کہانیاں یاد آنے لگی تھیں جو اس سڑک سے منسوب تھیں ایک سردی لہر اس کو اپنے
جسم میں دوڑتی محسوس ہوئی تھی کاشف نے سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا اس نے اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر لیا تھا ۔وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے جو کہ دوسرے مکانوں کی طرحاُجاڑ ویران اور کھنڈر سا بنا ہوا تھا لڑکی اس کو لے کر ایک ایسے کمرے میں پہنچی جہاں دیواروں پر انرجی سیو کی جگہ بڑی بڑی موم بتیاں روشن تھیں جو دیکھنے میں بڑا ہی پر اسرار تاثر پیش کر رہی تھیں ان روشن موم بتیوں کو دیکھ کر کاشف نے اپنے جسم میں لرزش محسوس کی تھی نہ جانے کیوں کا شف کو یہ سارا ما حول آسیبی لگ رہا تھا۔ کمرے کی دیواریں سیاہ تھیں بائیں طرف والی دیوار کے ساتھ ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی چار پائی پر ایک پرانا سا گدا بچھا ہوا تھا دیوار کی دوسری طرف ایک کائی زدہ ملکہ اور ایک گلاس موجود تھا لیکن کمرے میں کسی طرح کے سیکھے کا کوئی بھی وجود نہ تھا لیکن پنکھا نہ ہونے کے باوجود کاشف کو گرمی کا ذرا بھی احساس نہ تھا بلکہ اس کو ہلکی سی سردی محسوس ہو رہی تھی جو کہ کاشف کے لئے نہایت ہی حیرت انگیز تھی ۔

کیا اس گھر میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔“
کاشف نے حیرانی سے پوچھا۔
دو نہیں۔ میں یہاں اکیلی رہتی ہوں لیکن تم پریشان نہ ہو صبح ہوتے ہی چلے جانا تم ، زاغو نہ مسکرائی ۔ شکریہ ۔ مگر کیا بستی کے دوسرے لوگ تمہارے
کسی اجنبی مرد کی موجودگی پر اعتراض نہیں کریں گے۔“ اوہ ۔ تم اس کی فکر مت کرو۔ یہاں کوئی کسی کے
ذاتی معلامات میں دخل میں دخل نہیں دیتا ۔ زاغونہ نے جواب دیا۔
دو مجھے حیرت ہے۔
اوہ۔ تم اس کی فکر نہ کرو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کے لئے لاتی ہوں۔ اتنا کہہ کر وہ کاشف کا جواب سنے بغیر ہی باہر نکل گئی۔
کاشف چند لمحوں تک پتھر کے بت کی طرح کھڑا رہا اور پھر طویل سانس لے کر چار پائی پر بیٹھ گیا اس کی ..

سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اس کی چھٹی جس کسی خطرے کا احساس دلا رہی تھی لیکن وہ کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کی گاڑی بھی خراب تھی اپنے آپ کو حالاتکے سپرد کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
زاغو نہ اس کو آسیبی کمرے میں تنہا چھوڑ کر اس کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرنے چلی گئی تھی کاشف کو چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ اچانک اس کو قدموں کی آہٹ سنائی دی اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو زاغو نہ ہاتھ میں ایک تھال لئے کھڑی نظر آئی ، زاغو نہ کو دیکھ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی زاغو نہ نے اپنے جسم پر ستر پوشی کے لئے صرف ایک چادر اوڑھ رکھی تھی چادر سے اس کے جسم کی رعنائیاں پھوٹ پڑ رہی تھی کاشف کی نظریں از خود جھک گئی تھیں زاغو نہ نے چہرے پر بہت ہی گہرے قسم کا میک اپ کر رکھا تھا اس سے قبل زاغونہ کا چہرہ میک اپ سے عاری تھا۔
لو۔ بابو ۔ کھانا کھاؤ۔“ یہ کہہ کر اس نے کاشف کی جانب تھال بڑھا دیا۔
کاشف نے فورا ہاتھ بڑھا کر تھال لیا تو کاشف کے ہاتھوں کی انگلیاں اس کے ہاتھوں سے ٹکراگئیں انگلیاں اس کے ہاتھوں سے ٹکراتے ہی کاشف کو حیرت کا ایک شدید جھٹکا سا لگا تھا زاغو نہ کا ہاتھ بے حد گرم تھا یوں لگتا تھا جیسے کسی پیتے ہوئے لوہے سے اس کے ہاتھ ٹکرا گئے ہوں۔
کاشف نے حیرت بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں لیکن زاغو نہ اس کی نگاہوں کا
مطلب سمجھ کر مسکرا کر بولی۔
مجھے۔ بخار ہے بابو ۔۔۔
کا شف اس کی بات پر چونک پڑا اور بولا اتنے تیز بخار کے باوجود تم میں میری مدد کے لئے کہیں سے بھی کاشف کے لہجے میں حیرت تھی ۔ تمہاری باتوں سے مجھے ایسا نہیں نہیں لگا کہ تم . بیمار ہو۔
میں کیا کروں بابوں میں ایسی ہی ہوں کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا درد بھول جاتی ہوں ۔ زاغو نہ نے
مسکرا کر کہا۔
کاشف نے کوئی جواب نہ دیا اور کھانے کی سمت توجہ کر لی، تھال میں چاول تھے اور ان میں بوٹیاں تھیں۔تم کھاؤ میں دو منٹ میں آتی ہوں۔“ اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
چاول واقعی مزیدار تھے اتنے لذیذ چاول تو اس نے شہر میں بھی نہیں کھائے تھے کاشف کھانے میں مشغول تھا کہ زاغو نہ پھر اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی اس بار اس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا جس میں کوئی مشروب تھا ۔
بابو۔ تمہارے لئے یہاں کی ایک خاص چیز لائی ہوں پی کر جی خوش ہو جائے گا تمہارا اتنا کہہ کر اس نے وہ پیالہ کاشف کے ہاتھ میں تھاما دیا کاشف جو کہ چاول ختم کر چکا تھا مشروب کا پیالہ لے کر مسکرایا اور بولا ۔
بہت شکریہ تمہارا۔ زاغو نہ چاول بہت لذیذ ہیں ۔ اتنا کہہ کر اس نے دیکھے بغیر ہنی مشروب سے منہ لگا لیا ۔
مشروب جیسے ہی کاشف کے حلق سے نیچے اتر اتو زاغونہ کے ہونٹوں پر نہایت ہی پر اسرار قسم کی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

مشروب کا ذائقہ نہایت تلخ تھا لیکن تھا وہ بھی ہو گئیں اب : مزیدار مشروب پیتے ہی کاشف کی آنکھیں خمار آلود ب پہلی بار کاشف نے زاغونہ کو بدلی ہوئی نظروں سے دیکھا جبکہ زاغونہ پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی کاشف نے زاغونہ کا ہاتھ پکڑ لیا زاغونہ کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی زاغو نہ نے کوئی تعرض نہ کیا یوں لگتا تھا
کہ جیسے وہ ان معاملات کے لئے پہلے سے تیار ہو۔ زاغو نہ نے اپنے جسم سے لیٹی ہوئی چادر اتار پھینکی اور کچھ ہی دیر بعد کمرے کے آسیب زدہ ماحول میں خمار آلود سکاریاں گو ں گونج رہی تھیں۔

زندگی میں پہلی بار کاشف نے اپنی بیوی کے علاوہ کسی غیر عورت کی قربت حاصل کی تھی وگرنہ کاشف نے اپنی بیوی کے سوا کسی نامحرم کو آج تک ہاتھ نہیں لگایا تھا لیکن زاغونہ کے پلائے ہوئے مشروب میں نہ جانے کیا بات تھی جس نے کاشف کی ساری پارسائی کو ہمیشہکے لئے داغدار کر دیا تھا کافی دیر تک کا شف اور زاغونہ کے درمیان قرب کا ماحول رہا اس کے بعد کا شف تھک کر سو گیا تھا۔
اچانک ایک تیز قسم کی چھن سے کاشف کی آنکھ کھل گئی درد کا شدید احساس کاشف کو ا۔ اپنے جسم میں محسوس ہو رہا تھا چھن کا احساس کاشف کو اپنی گردن کے پاس ہو رہا تھا ساتھ ہی کاشف کو کوئی ٹھنڈی سی شے اپنی گردن کے پاس بہتی محسوس ہو رہی تھی کاشف نے پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو خوف سے اس کی چیخ نکل گئی زاغو نہ برہنہ حالت میں کاشف کو اپنے اوپر جھگی نظر آئی زاغونہ کے ہاتھ میں ایک تیز دھار منجر تھا جو کہ خون سے بھرا ہوا تھا اور زاغونہ کے ہونٹوں پر خون لگا ہوا تھا۔ کاشف کو یہ سمجھنے میں بالکل دیر نہ لگی کہ زاغو نہ خون آشام ہے اور خنجر کی مدد سے لوگوں کی گردنوں پر چیرا لگا کر ان کا خون پیتی ہے چھن کا احساس اسی خنجر کا تھا کاشف نے دونوں ہاتھوں کی مدد سے زاغونہ کو دھکا دیا اور چار پائی سے اُٹھ کھڑا ہوا کاشف کی گردن سے خ خون نکل رہا تھا جس سے اس کی پوری بنیان بھیگ چکی تھی ۔

دھکا لگتے ہی زاغو نہ دوسری طرف جا گری تھی کاشف نے فوراً اپنی بنیان اتاری اور گردن کے گرد باندھ دی تھی تا کہ خون کا اخراج رک سکے زاغو نہ چلاتی ہوئی اُٹھی لیکن کا شیف نے فورا ہی اس کمرے سے باہر نکلنے میں عافیت سمجھی تھی۔
بابو۔ بابوں میں بہت پیاسی ہوں ۔ تمہارا خون بہت لذیذ ہے اب تو سڑک پر کوئی بھی نہیں آتا تم آئے ہو تو ہماری پیاس بجھے گی۔ زاغو نہ خمار آلود لہجے میں بڑ بڑائی۔
زاغو نہ چلاتی ہوئی کاشف کے پیچھے بھاگی تھی کاشف بھاگتا ہوا ایک دوسرے کمرے میں گھس گیا تھا کاشف کا دل ایک عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا اس کو اب پتہ لگ گیا تھا کہ اس گیا تھا کہ اس سڑک پر لوگوں کی لاشیں جو ملتی ہیں وہ ان روحوں کی مرہون منت ہیں، کاشف جس کمرے میں گھسا تھا اس کمرے میں بھی ویسی ہی مومروشن تھیں جو کہ زاغونہ والے کمرے میں روشن تھیں۔ جس سے کمرے کا ماحول آسیبی اور پر اسرار ہو رہا تھا کاشف نے کمرے کا جائزہ لیا تو کمرے کے اندر کی چیزیں دیکھ کر وہ مزید دہشت زدہ ہو گیا۔

کمرے کے اندر لا تعداد انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے موجود تھے جن کا ڈھیر ایک دوسرے کے اوپر تھا نہ جانے کن بد نصیب انسانوں کو مار کر ڈھانچوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا کاشف فورا ہی ان ڈھانچوں کے پیچھے جا چھپا کا شف کسی بھی طرح اپنی جان بچا کر یہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔ زاغو نہ اس کے تعاقب میں آگے ہی نکل گئی تھی کاشف کو ڈھیرا کے پیچھے چھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک عجیب سی آواز سن کر کاشف چونک گیا۔ وہ آواز کاشف کو اس : ڈھیر سے آرہی آرہی تھی وہ آواز نہایت عجیب سی تھی درد و کرب میں ڈوبی ہوئی جیسے کوئی سخت تکلیف میں ہو۔ بیمار ہو، کاشف نے چونک کی ادھر اُدھر دیکھا تو اس کو ڈھیر میں حرکت ہوتی محسوس ہوئی ڈھیر اپنی جگہ چھوڑتا جا رہا تھا۔

اچانک کاشف نے اس ڈھیر کے وسط سے ایک ہاتھ کو برآمد ہوتے دیکھا۔ وہ برآمد ہوتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر کاشف کی چیخ نکل گئی اور اس کی تھر تھری چھوٹ گئی۔ جو جگہ جگہ سے زخمی تھا اور خون اور چربی جھانک رہی تھی ۔ وہ ایک انسانی وجود تھا جو کہ آہستہ آہستہ باہر آرہا تھا۔ اس انسانی وجود کو دیکھ کر کاشف اپنی چیخوں پر قابونہ رکھ پایا۔ وہ انسانی وجود تھا ہی اتنا خوفناک اس کا پورا جسم جگہ جگہ سے زخمی تھا جس سے خون اور چربی جھانک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی جگہ بڑے بڑے ڈھلے تھے اور سفید دانتوں کی طویل قطار جھانکتی نظر آرہی تھی۔ وہ خوفناک انسان کا شف کی جانب بڑھا۔ وہ ڈھانچوں پر پیر رکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ جس بھی ڈھانچے پر پیر رکھتا ایک پیچ کی آواز بلند ہوتی ۔ شیخ ان ڈھانچوں سے بلند ہو رہی تھی۔ وہ آگے بڑھتا جاتا کاشف نے سوچا کہ اگر میں جان بچا کر بھا گا نہیں تو وہ مجھے جان سے مار دے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے