Subscribe Us

مزارع کی بیٹی

urdu stories online

میں شیخ صاحب کی بڑی بہو تھی۔ ہم قیام پاکستان سے قبل گورداس پور میں رہا کرتے تھے۔ سسر صاحب زمیندار تھے، گائوں میں ان کی بہت عزت تھی۔ ایمن ان کے مزارع کی بیٹی تھی اور ہمارے گھر میں کام کرتی تھی۔ وہ بہت سادہ و معصوم تھی۔ دبلی پتلی سی نازک اور دلکش یہ لڑکی اتنی پھر تیلی تھی کہ گھنٹوں کا کام منٹوں میں نمٹا دیتی تھی۔ ان دنوں اس کی عمر دس گیارہ سال ہو گی۔ میرے ایک دیور دہلی میں سکونت پذیر تھے۔ ساس، سسر اکثر وہاں رہتے اور زمینداری میرے شوہر ہی سنبھالتے تھے۔ میرا ایک بیٹا بلال دو سال کا تھا۔ ایمن اسے سنبھالتی تھی۔ وہ زیادہ وقت ہمارے گھر میں گزارتی۔ اس کے والدین بوڑھے تھے اور ایک ہی بھائی تھا جو ہمارے کھیتوں میں بھینسوں کی رکھوالی کرتا تھا۔

ایمن جب آتی، اداس دکھائی دیتی۔ میں اکثر وجہ پوچھتی مگر وہ ٹال دیتی تھی۔ ایک روز ا سے اداس دیکھ کر بڑے پیار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا بھائی ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور دونوں کھیتوں میں چھپ چھپ کر ملتے ہیں۔ اس لڑکی کے گھر والوں سے ہماری پرانی دشمنی ہے اور لڑکی کے چار جوان بھائی ہیں۔ میں اپنے ویر کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں کہ تو امبر کا پیچھا چھوڑ دے ، ایسا نہ ہو اس کے بھائی تیرے خون کے پیاسے ہو جائیں مگر اس پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ میرے بھائی علی مراد کو یہ رشتہ ملنا ممکن نہیں ہے مگر خون خرابے کا قوی امکان ہے۔ ابھی تک تو ان کا ملنا ایک راز ہے ، بات چھپی ہوئی ہے لیکن کسی دن ضرور یہ راز افشا ہو جائے گا۔ سوچنے کیا ہو گا۔ اباء اماں بوڑھے ہیں، وہ تو امبر کے نوجوان بھائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، پھر ہو گا یہ کہ اس کے بھائی یا تو میرے بھائی کا خون کریں گے یا پھر مجھے اٹھالے جائیں گے۔ ہر وقت میں اسی خوف سے مرتی رہتی ہوں۔ اس کا فکر کرنا جائز تھا۔ گائوں میں ایسی داستانوں کا انجام ایسا ہی ہوتا تھا۔ میں نے ایمن کو تسلی دی کہ تم فکر نہ کرو، شیخ صاحب سے کہوں گی وہ تمہارے بھائی کو بلا کر سمجھا دیں۔ وہ اور زیادہ متفکر ہو گئی۔ کہنے لگی۔ مراد لالہ کا تو دماغ خراب ہے ، اس کی مت ماری گئی ہے ، وہ سمجھنے کا نہیں، پر جان سے ضرور جائے گا۔ مجھ سے ہی امبر کو پیغام بھجواتا ہے ۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ کیونکر ایمن کے مسئلے کا حل نکالوں، شیخ صاحب سے کہوں کہ نہ کہوں؟ ایمن کی فکر کا نتیجہ سامنے آگیا۔ خبر آگئی کہ ایمن کے اکلوتے بھائی مراد کو کسی نے رات کے وقت کلہاڑیاں مار کر قتل کر دیا ہے۔ ہم سب سکتے میں آگئے۔ کئی دن ایمن بد حال رہی۔ وہ کسی کام کاج کے قابل نہ رہی تھی، بس علی مراد کو یاد کر کے روتی تھی۔ اس کے بوڑھے والدین کا غم تو نا قابل دیدنی تھا۔ مرادان کا جواں سال بیٹا اور واحد امید زندگی تھا۔ وہ اس کے قتل کا صدمہ نہیں سہہ سکتے تھے۔ وہ جیتے جی مر گئے مگر ان کے جسم زندہ تھے۔ وہ زندہ در گور تو تھے ، بیٹے کے ساتھ گور میں نہ اتر سکتے تھے۔ وقت گزرنے لگا۔ رفتہ رفتہ ایمن کے بھی ہوش و حواس بحال ہونے لگے ۔ ہمارے گھر پھر سے آنے لگی۔ وہ اب بہت بھی بھی اور پر مردہ رہتی تھی۔ انہی دنوں قیام پاکستان کا اعلان ہو گیا۔ خیال تھا کہ گورداس پور پاکستان میں شامل کیا جائے گا، اچانک ایک روز رات کے بارہ بجے اعلان ہو گیا کہ گورداس پور پاکستان میں نہیں ہے۔ چنانچہ شیخ صاحب نے ہم لوگوں کو محفوظ طریقے سے بھیجوانے کا انتظام کرادیا کیونکہ ایک انگریز انتظامی افسر سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ ایمن کو ہم ساتھ لے آئے البتہ اس کے باقی رشتے داروں اور والدین نے قافلے کی صورت میں آنے کی تیاری کرلی۔ ایمن کا کنبہ قافلے کے ہمراہ رات کو پین کی سمت رواں ہو گیا مگر بلوائیوں کے ہاتھوں آدھے راستے میں یہ سارا قافلہ قتل ہو گیا، صرف ایک شخص بچ گیا جو زخمی ہو کر گرا اور بے ہوش ہو گیا تو بلوائیوں نے اسے مردہ جان کر چھوڑ دیا۔ نجانے کب اسے ہوش آیا اور کس طرح وہ پاکستان میں آگیا۔ ایک روز اتفاق سے اس کی مڈ بھیٹر شیخ صاحب سے ہوئی۔ ایک ہی گائوں کے تھے اور دونوں ایک دوسرے کو پہچانتے تھے ، پس اس آدمی کی زبانی جس کا نام انور تھا، شیخ صاحب کو قافلے کے قتل ہو جانے کا علم ہوا جس میں ایمن کے تمام رشتے دار اور والدین ختم ہو گئے تھے۔ شیخ صاحب نے مجھے بتادیا لیکن میں نے ایمن کو نہ بتایا کہ جسے اپنے گھر والوں کا شدت سے انتظار تھا۔ سوچتی تھی کس طرح بتائوں، کیا وہ یہ صدمہ سہہ سکے گی؟

اب اس کا ہمارے سوا کوئی نہ تھا۔ میں اس لڑکی کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگی۔ وہ میرے بچوں سے پیار کرتی اور ان کی توجہ سے دیکھ بھال کرتی تھی۔ میری ایک نند کے دو بچے بھی ہم ساتھ لے آئے تھے۔ تحفظ کے پیش نظر انہوں نے ان کو ہمارے ساتھ بھیج دیا تھا اور خود بعد میں آنے کا ارادہ تھا۔ نند کی بیٹی زبیدہ، ایمن کی ہم عمر تھی۔ دونوں بارہ تیرہ برس کی تھیں جبکہ زبیدہ کا بھائی کشور اس سے دو سال بڑا تھا۔ نند کے یہ دونوں بچے بھی ہمارے گھر پرورش پانے لگے ۔ کچھ دن یہاں آکر پریشانی میں کٹے پھر میرے شوہر کو مکان اور زمین الاٹ ہو گئے تو ہم سکون کی زندگی بسر کرنے لگے۔ گورداس پور میں بھی زمیندار تھے اور یہاں پر بھی زمینداری کرنے لگے ۔ ایمن کو وہ ٹیچر پڑھاتی تھی جو ہمارے بچوں کو گھر پر ٹیوشن پڑھانے آتی تھی۔ ایمن اسکول نہ جاسکتی تھی لہٰذا میں چاہتی تھی کہ وہ گھر پر ہی دوچار جماعتیں پڑھ لے اور بالکل ان پڑھ نہ رہ جائے۔ ایمن ذہین تھی۔ توجہ سے آدھ گھنٹہ پڑھتی اور یوں گھر میں ہی اس نے آٹھویں کا کورس ختم کر لیا تو ہم نے بطور پرائیویٹ طالبہ اسے مڈل کا امتحان دلوادیا۔ لاہور بورڈ سے اسے منڈل کی سند مل گئی۔ وہ میٹرک کرنا چاہتی تھی مگر سابقہ ٹیوٹر خاتون کی شادی ہو گئی اور دوسری کوئی مناسب ٹیوٹر نہ ملی جو گھر آکر پڑھاتی۔ بچوں کی ذمہ داریوں میں الجھ کر میں نے اس لئے تردد نہ کیا اور اس کی میٹرک کرنے کی آرزو جو ادھوری رہ گئی تھی، بعد میں پوری ہوئی۔ میری نند کا بیٹا کشور اب جوان تھا اور وہ انجینئر نگ کر رہا تھا۔ یہ لڑکا ایمن اور زبیدہ سے دو برس بڑا تھا۔ کچھ دنوں سے میں یہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ ایمن میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ مجھ کو یہ بات خوف زدہ کر گئی کیونکہ شیخ صاحب سے ڈرتی تھی۔ کچھ بھی سہی، وہ تھے زمیندار ذہن کے آدمی اور ایمن کو گرچہ ہم نے اولاد کی طرح رکھا تھا تا ہم وہ تھی تو ایک غریب مزارع کی اولاد اس کا ہمارے خاندان سے جوڑ نہیں بنتا تھا۔ سمجھا بجھا کر میں شیخ صاحب کو راضی کر لیتی تو بھی ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ زبیدہ اور کشور کے ماں، باپ انڈیا سے ہجرت کر کے نہیں آئے تھے اور اب ان کے بچوں کی تقدیر کا فیصلہ ہم ہی نے کرنا تھا۔ شیخ صاحب کا خیال تھا کہ وہ زبیدہ کی شادی اپنے بیٹے بلال سے کریں گے اور کشور کی شادی ہماری صاحبزادی فاطمہ سے ہو گی۔ گھر کے بچے تھے اور اپنے ہاتھوں کے پالے تھے ، ان کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ ہم میاں، بیوی نے دی تھی۔ یہ پودے ہمارے لگائے ہوئے تھے جواب تناور درخت بن گئے تھے۔ ابھی تک ہم نے اپنے بچوں کے ذہنوں میں ایسی کوئی بات نہ ڈالی تھی۔ وہ بہن، بھائیوں کی طرح رہتے تھے لیکن اب ایمن ہمارے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی کیونکہ کشور کا جھکا ئو اس کی طرف واضح ہوتا جارہا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ راہداری میں کشور نے ایمن کے کان میں سرگوشی کی اور وہ مسکرادی۔ مجھ کو اشارہ مل گیا کہ معاملہ یکطرفہ نہیں ہے، دونوں ہی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں مسئلہ اور بھی لمبھیر ہو جاتا ہے جب دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی گی ہوئی ہو تا ہم خاموش ہوتا ہم خاموشی کے سوا میرے پاس اور کیا چارہ تھا۔ انجینئر نگ مکمل کرنے کے بعد کشور کو ایک اچھی ملازمت مل گئی اور وہ خود کفیل ہو گیا۔ میری نند اور نندوئی کے خطوط آتے رہتے ، ہم ان کے بچوں کے بارے میں آگاہی دیتے رہتے تھے۔ وہ ایک بار پاکستان آکر بچوں سے مل گئے تھے لیکن ان کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پاک وطن میں ہی رہیں چونکہ میری نند کی ساس اپنا گھر بار اور انڈیا کو چھوڑ کر نہیں آنا چاہتی تھیں لہذا ساس، سسر کی ضعیفی کے باعث بیٹا اور بہو بھی ان کو چھوڑ کر نئے وطن کو ہجرت نہ کر سکتے تھے۔ میرے نندوئی ۔ ندوئی اپنے ضعیف والدین کی ضد سے مجبور تھے اور ان کے ماں، باپ اپنے گھر بار اور اپنے گائوں کی محبت سے مجبور تھے تاہم جس وقت فسادات ہو رہے تھے، انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ حالات کے پیش نظر دو بچوں کو ہم لوگوں کے ہمراہ سر زمین پاک کو بھیجوا دینا ہی بہتر ہوگا کیونکہ نفرت کی آگ ہر طرف پھیلتی جارہی تھی۔

ایک روز میں نے بیٹی کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی اس کی شادی کشور سے کر دی جائے گی کیونکہ وہ اب بر سر روز گار ہو گیا ہے۔ صاحبزادی بھڑک اٹھیں۔ صاف کہہ دیا کہ وہ کشور کو اپنا بھائی مجھتی ہے ، ہر گز اس کے ساتھ شادی نہ کرے گی۔ اسے اپنا ایک ہم جماعت پسند تھا جو اس کے ہمراہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ سلیمان نام تھا اور وہ اسی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ فاطمہ بہت ضدی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ جو بات کرتی ہے ، اس پر قائم رہتی ہے اور شادی کے معاملے میں تو وہ اپنی پسند کے آگے کسی کی نہ چلنے دے گی۔ ہماری اکلوتی بیٹی تھی۔ شیخ صاحب فاطمہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ بیٹی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے لہٰذا میں نے فاطمہ سے کہا کہ تم مجھے کسی دن سلیمان سے ملواد و تا کہ میں دیکھوں وہ کیسا لڑکا ہے، کس گھرانے سے ہے۔ تمہارے والد ان چیزوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں کہ لوگ اچھے خاندان کے ہوں اور تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ ہی نہیں نیک ، شریف بھی ہوں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ زمیندار ہوں کیونکہ ہمارے ہم پلہ لوگ ہی ہم سے بیچ کریں گے۔ اپنی دانست میں ایسی شرائط گنوادیں کہ ایک لڑکے میں سبھی خوبیاں ملنی مشکل تھیں۔ کچھ دنوں بعد فاطمہ نے سلیمان سے ملوادیا۔ وہ میرے تصور سے زیادہ حسین نکلا۔ ایک خوبرو نوجوان تھا، اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ، پوزیشن ہولڈر اور زمیندار گھرانے سے تھا۔ گو یا کسی بات کی کمی نہ تھی اس میں ۔ سلیمان سے مل کر میں یہ ا یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مجھے بیٹی کی خوشی کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ فاطمہ سے کہا۔ مجھے سلیمان کے گھر والوں سے ملوائو، تو ہی تمہارے والد کو راضی کر سکوں گی۔ اس نے سلیمان سے کہا۔ ایک روز وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کے خاندان، گھر بار کو دیکھا اور والدین سے ملاقات کی تو دل باغ باغ ہو گیا۔ یہ واقعی خاندانی لوگ تھے ۔ بات چیت ، طور اطوار ، خاطر مدارات غرض ہر پہلو سے اعلیٰ تھے۔ ایک ہی ملاقات میں گرویدہ ہو گئی۔ ملتان کا ایک مشہور خاندان جو لاہور میں آباد تھا لیکن بہت بڑی زمینداری ملتان میں تھی جبکہ کشور خالی ہاتھ تھا، بس انجینئرنگ کی ڈگری تھی جس کی وجہ سے فی الحال معمولی درجہ کی ملازمت مل گئی تھی۔ ایمن کو بھی بیٹی کی طرح پالا تھا۔ وہ لاوارث اور یتیم تھی۔ اس نے جی جان سے میرے بچوں کی خدمت کی تھی، ان کی پرورش میں میری مدد کی تھی تبھی سوچ لیا کہ ایمن کی مرضی ہے تو اسے بھی خوشیاں دوں گی۔ آخر تو بیٹی کہتی ہوں، اسے بھی خوشی کی آرزو کا حق ہے۔ ایک دن شیخ صاحب خوشگوار موڈ میں تھے۔ بچوں کے رشتوں کی بات چلی۔ انہوں نے کہا۔ چاہتا ہوں کہ فاطمہ کی کشور سے اور زبیدہ کی شادی بلال سے کر دوں۔ یہ اچھا خیال ہے لیکن ہمارے بچے اب پڑھ لکھ گئے ہیں تو ہم کو ان کی مرضی بھی پوچھ لینی چاہیے۔ مرضی کیا پو چھنی ہے ، وہ ہمارے تابعدار اور فرمانبردار ہیں۔ جیسا فیصلہ کریں گے ، ان کو قبول ہو گا۔ آپ کی بات درست ہے شیخ صاحب ! لیکن مرضی پوچھ لینے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔ دین میں یہ احسن امر ہے پوچھ لینا چاہئے کیونکہ بچے پڑھے لکھے ہیں۔ ایسا نہ ہو کل کو ہم ہی کو دھچکا لگے ۔ تم خود ہی پوچھ لو اور مجھے بتا دینا۔ انہوں نے اجازت دے دی تو میں نے فاطمہ اور بلال سے پوچھا۔ بلال نے زبیدہ کیلئے ہاں کہی اور زبیدہ نے بھی بلال سے شادی پر رضامندی امندی ظاہر کی ہر کردی لیکن فاطمہ کا ن فاطمہ کا مسئلہ ٹیڑھا تھا۔ وہ مجھے : بتا چکی تھی کہ سلیمان سے شادی کرے گا کرے گی۔ کشور اور ایمن کا معاملہ بھی معلوم تھا۔ ایک روز طریقے سے شیخ صاحب سے تمام باتیں گوش گزار کر دیں۔ پہلے تو وہ کچھ جزبز ہو گئے پھر جب میں نے دلائل دیئے اور سلیمان کے گھر والوں سے ایک بار ملاقات کیلئے اصرار کیا تو راضی ہو گئے۔ شیخ صاحب سلیمان کے والد سے مل کر خوش ہو گئے۔ دونوں کی دلچسپیاں اور امور زندگی مشتر کہ تھے۔ زمینداری میں خوشحالی کے اسرار ورموز جانتے تھے۔ انہوں نے بیٹی کا رشتہ سلیمان سے منظور کر لیا، تب بہت بڑی الجھن دور ہو گئی۔ میں نے فاطمہ کو سلیمان سے اور زبیدہ کو بلال سے بیاہ دیا۔ اب ایمن اور کشور رہ گئے۔ اس رشتے پر میں راضی تھی لیکن شیخ صاحب پریشان تھے ۔ کشور کے والدین ابھی حیات تھے اور گورداس پو پور میں ہی رہتے تھے۔ اس کا ایک بڑا بھائی فیروز بھی وہاں والدین کے ہمراہ قیام پذیر تھا۔ شوہر صاحب کا کہنا تھا کہ بہن اور بہنوئی کی رضا مندی کے بغیر ایمین سے بھانجے کارشتہ نہیں کر سکتا کیونکہ ایمن کی ذات مرتبے کا فرق ہے اور وہ ہمارے مزارع کی بیٹی ہے۔ ممکن ہے یہ بات کشور کے والدین کیلئے نا قابل قبول ہو۔انہوں نے بہن اور بہنوئی بہنوئی کو حالات سے آگاہ کیا اور پاکستان آنے کا لکھا۔ وہ لوگ چونکہ ایمن کے خاندان کو جانتے تھے اور اس کے پس منظر سے واقف تھے ، اس رشتے پر راضی نہ تھے۔ بیٹے کو سمجھانے نہیں آسکتے تھے۔ اپنے بڑے بیٹے کو بھیجا۔ فیروز نے پاکستان آکر کشور کو سمجھایا کہ تمہارے لئے ایمن کارشتہ موزوں نہیں ہے۔ ہم خاندانی لوگ ہیں، جدی پشتی زمیندار ہیں، یہ ہماری روایات کے خلاف ہے ۔ اگر چاہو تو تمہارا رشتہ ہم پلہ گھرانے میں ہو سکتا ہے۔ گورداس پور میں رشتہ کر لو، والدین یوں بھی تم سے ملنے کے آرزو مند ہیں۔

کشور راضی نہ ہوا۔ وہ نئے زمانے کا روشن خیال اور تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ اس نے کہا۔ والدین کی خدمت میں ضرور حاضری دوں گا، ابھی نئی نئی ملازمت ہے ، چھٹی فوری طور پر نہیں ملے گی۔ جب چھٹی ملے گی، آجائوں گا لیکن والدین سے عرض کر دیں میری جانب سے کہ میں ایمن سے ہی شادی کروں گا۔ اگر وہ راضی نہیں ہیں تب بھی معذرت خواہ ہوں۔ وہ بے سہارا، لاوارث ہے اور امید دلا کر میں پھر اس کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچائوں گا۔ فیروز نے لاکھ سمجھایا، کشور نہ مانا۔ وہ ناامید ہو کر واپس چلا گیا۔ کشور کی مرضی سے شیخ صاحب نے بہن اور بہنوئی کی مرضی کے خلاف بھانجے کی شادی ایمن سے کرادی۔ جب شادی کی خبر میری نند آصفہ خانم کو ملی، وہ بہو دیکھنے کو انڈیا سے پاکستان آگئیں۔ دراصل بیٹے کو سرزنش کرنے آئیں کہ یہ تم نے کیا کر دیا۔ اپنے خاندانی نوکر کی لڑکی کو اپنا لیا۔ گویا محتمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا دیا۔ آتے ہی وہ بیٹے کو لعن طعن کرنے لگی۔ ایمن کو بھی منہ نہ لگایا۔ دل میں بڑے خطرناک عزائم لے کر آئی تھیں۔ انہوں نے میرا جینا حرام کر دیا کہ بچے تمہاری سپردگی میں دیئے تھے اور تم نے نوکرانی سے میرے بیٹے کی قسمت پھوڑ دی۔ چھ ماہ رہیں۔ اس دوران دن رات ایمن کو برا بھلا کہتیں اور گالیوں سے تواضع کرتیں۔ ہمارے گھر کا سکون برباد ہو گیا۔ مجھے کہتی تھیں کہ میرے بیٹے کا نکاح کیا ہے ، اپنی بیٹی کو بڑے زمیندار میں بیاہ دیا۔ میں حیران تھی یہ کیسی خاتون ہیں جبکہ میں نے ان کے بچوں کی پرورش کی اور پڑھا لکھا کر کسی قابل بنایا۔ان کی ساری ذمہ داریاں ایک ماں کی طرح پوری کرتی رہی جبکہ انہوں نے بچوں کو پاکستان بھیج کر ان کی پھر خبر نہ لی۔ میں نے اور شیخ صاحب نے اپنے اور ان کے بچوں میں کوئی فرق روانہ رکھا تھا اور آج اس احسان کا ہم کو یہ ایسا صلہ دے رہی تھیں۔ بہر حال ان کے ویزے کی مدت ختم ہوئی تو یہ واپس چلی گئیں اور ہم نے شکر ادا کیا۔ بیچاری ایمن جو ہر وقت سبھی رہتی تھی، اس نے بھی خدا کا شکر ادا کیا۔ سنتی آئی تھی کہ بخت اور دولت مرد کو بیوی کے نصیب سے ملتی ہے۔ ایمن کا نصیب شادی کے بعد جاگ اٹھا تھا۔ چند سال کشور نے کم تنخواہ میں گزارا کیا، پھر اسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی۔ ترقی ہوئی، تنخواہ میں اضافہ ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ تجربے نے اسے سونے سے کندن بنا دیا۔ اسے بیرون ملک ملازمت کا چانس مل گیا۔ پہلے سعودیہ عربیہ اور پھر یورپ چلا گیا۔ آج ایمن اپنے بچوں کے ساتھ انگلینڈ میں رہتی ہے ۔ وہ لوگ وہاں کے امراء میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک بڑی تعمیراتی کمپنی میں کشور بطور انجینئر کام کرتا رہا اور اب اس کی اپنی کمپنی ہے جو دوسرے ممالک میں بھی بڑے پروجیکٹ پر کام کرتی ہے۔ یہ انسان کی اپنی قسمت ہوتی ہے کہ اسے کیا سے کیا مل جاتا ہے۔ ایسی اچھی زندگی اور شاندار مستقبل کہ جس کے بارے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ کون جانتا تھا وہ ڈری سبھی ایمن جو ہر وقت اداس رہتی اور میرے بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیجا کرتی تھی، ان کے یونیفارم دھوتی اور کپڑے استری کیا کرتی، ان کے جوتے پالش کرتی تھی، وہ آج انگلینڈ میں بھی ملازم اور ڈرائیور رکھ سکتی ہے جہاں لوگ نو کر رکھنے کا تصور نہیں کر سکتے ۔ وہاں وہ ایک شاندار گھر میں رہتی ہے۔ اس وقت جب ہم انڈیا سے ہجرت کر کے آرہے تھے ، ہمارے ساتھ ایک حفاظتی دستہ آیا تھا۔ ایمن کی عمر صرف بارہ برس تھی اور گورداس پور میں ہر طرف فسادات کی آگ پھیل رہی تھی۔ اگر میں اس بچی کو ساتھ نہ لاتی تو شاید وہ بھی اپنے رشتے داروں اور ماں، باپ کے ساتھ فسادات میں کام آجاتی لیکن اس کی زندگی باقی اور خوش نصیبی بھی اس کی منتظر تھی کہ ایمن کے والدین نے اسے ہمارے ساتھ سر زمین پاک کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ 
جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی، ایسے کئی واقعات رقم ہوں گے جب فسادات کی آگ نے نجانے کتنے گھروں کو راکھ کیا تھا، کتنی ہی ایمن جیسی دوشیزائیں اپنی عصمت اور زندگی سے محروم ہوئی تھیں۔ سچ ہے آزادی بڑی نعمت ہے لیکن اس کی قیمت بہت بھاری ادا کرنی پڑتی ہے۔ آزادی کے متوالوں کو گھر بار، زمین، زندگی،اولاد، اپنی عزتیں اور عظمتیں سبھی کچھ قربان کرنا پڑتا ہے ، تب ایک وطن اور آزادی کی مراد حاصل ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے