Subscribe Us

مطلبی استاد

Urdu Moral Stories

میں عائزہ ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اٹھارہ برس کی تھی اور کالج کے دوسرے سال میں پڑھتی تھی۔ ہمارا شہر، جو پہاڑوں کے دامن میں بسا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، اپنی سرسبز وادیوں اور پراسرار جنگلوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ میں ایک عام سی لڑکی تھی، لیکن میری آنکھوں میں خوابوں کی ایک پوری دنیا آباد تھی۔ پڑھائی میری زندگی کا محور تھی، اور میرا خواب تھا کہ ایک دن میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر اپنے خاندان کا سہارا بنوں۔

ہمارے کالج میں ایک نئے استاد آئے تھے، جن کا نام عدنان تھا۔ وہ تاریخ کے استاد تھے، لیکن ان کی شخصیت میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ وہ لمبے قد، گہری آنکھوں اور پراعتماد انداز کے مالک تھے۔ جب وہ کلاس میں تاریخ کے واقعات سناتے، تو لگتا جیسے ہم خود اس دور میں جا پہنچے ہوں۔ ان کی آواز میں ایک سحر تھا جو ہر طالب علم کو اپنی طرف کھینچتا۔ لیکن میری توجہ ان کی باتوں سے زیادہ ان کی مسکراہٹ پر تھی، جو کبھی کبھی میری طرف رخ کرتی اور میرے دل کو دھڑکنے پر مجبور کر دیتی۔

ایک دن کالج کی سالانہ ٹریکنگ ٹرپ کا اعلان ہوا۔ ہمارے قصبے کے قریب ایک گھنا جنگل تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں کبھی کوئی کھو جاتا تو واپس نہ آتا۔ عدنان سر اس ٹرپ کے انچارج تھے۔ میں نے ہمت کر کے ٹرپ کے لیے نام لکھوایا، کیونکہ مجھے ایڈونچر کا شوق تھا اور عدنان سر کی موجودگی اس سفر کو مزید دلچسپ بنا رہی تھی۔

ٹریکنگ کے دن ہم صبح سویرے نکلے۔ جنگل کی گھنی چھاؤں اور پرندوں کی آوازوں نے ایک جادوئی ماحول بنا دیا تھا۔ عدنان سر ہر ایک کی رہنمائی کر رہے تھے، لیکن ان کی نظریں بار بار مجھ پر ٹھہرتیں۔ ایک موقع پر جب میں ایک پتھریلے راستے پر پھسلنے لگی، انہوں نے فوراً میرا ہاتھ تھام لیا۔ اس لمحے میں ایک عجیب سی گرمی میرے وجود میں دوڑ گئی۔ انہوں نے مسکرا کر کہا، "عائزہ، محتاط رہو، یہ جنگل خطرناک ہے۔" ان کا لہجہ اتنا نرم تھا کہ میرا دل ڈوب سا گیا۔

ٹرپ کے دوران ایک رات ہم نے جنگل میں کیمپ لگایا۔ رات کے اندھیرے میں ہم سب آگ کے گرد بیٹھے کہانیاں سنا رہے تھے۔ عدنان سر نے ایک ایسی کہانی سنائی کہ کس طرح اس جنگل میں ایک قدیم خزانہ چھپا ہوا ہے، جو صدیوں سے کوئی نہیں ڈھونڈ سکا۔ ان کی باتوں نے سب کو مسحور کر دیا۔ رات گئے جب سب سو گئے، میں پانی لینے کے بہانے کیمپ سے باہر نکلی۔ عدنان سر وہاں کھڑے ستاروں کو دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر بلایا اور کہا، "عائزہ، کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ جنگل کتنے راز چھپائے بیٹھا ہے؟" میں نے شرما کر سر جھکا لیا۔ اس رات ہم نے گھنٹوں باتیں کیں، اور مجھے لگا کہ وہ مجھے واقعی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس ٹرپ کے بعد عدنان سر سے میری قربت بڑھنے لگی۔ وہ مجھے خاص توجہ دیتے، کبھی لائبریری میں کتابوں کے انتخاب میں مدد کرتے، کبھی میری تحریروں کی تعریف کرتے۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ وہ ایک خاص تحقیقاتی پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، جو اس جنگل کے خزانے سے متعلق ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر میں ان کے ساتھ اس پروجیکٹ میں شامل ہو جاؤں تو یہ میرے مستقبل کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ میں نے فوراً ہاں کر دی، کیونکہ مجھے ان پر بھروسہ تھا۔
ہم دونوں نے چھپ کر جنگل کے کئی دورے کیے۔ وہ راتوں کو نقشے پڑھتے، پرانے آثار کی تلاش کرتے، اور میں ان کی ہر بات پر یقین کرتی۔ ایک رات جب ہم ایک غار میں داخل ہوئے، عدنان سر نے مجھ سے کہا، "عائزہ، تم میری زندگی کا سب سے بڑا خزانہ ہو۔" یہ سن کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس رات انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ سے اپنی محبت کا اقرار کیا۔ میں نے بھی اپنے دل کی بات کہہ دی۔ ہماری محبت اس جنگل کے رازوں کی طرح گہری ہوتی چلی گئی۔

لیکن ایک دن سب کچھ بدل گیا۔ عدنان سر نے بتایا کہ انہیں خزانے کا سراغ مل گیا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک آخری مہم پر ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم رات کے اندھیرے میں جنگل کے گہرے حصے میں گئے۔ وہاں ایک پرانی غار تھی، جس کے اندر ایک بکس ملا۔ جب اسے کھولا تو اس میں سونے کے سکے اور قیمتی پتھر تھے۔ عدنان سر کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس خزانے کو چھپانا ضروری ہے، ورنہ ہم خطرے میں پڑ جائیں گے۔ میں نے ان پر بھروسہ کیا اور خاموش رہی۔

اگلے دن عدنان سر غائب ہو گئے۔ کالج میں ان کی جگہ ایک نیا استاد آ گیا۔ میں نے انہیں فون کیا، لیکن ان کا نمبر بند تھا۔ پتا چلا کہ وہ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ میرے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔ انہوں نے مجھے استعمال کیا، اپنے مقصد کے لیے میری محبت کو ہتھیار بنایا اور پھر چھوڑ گئے۔ میں نے گھر والوں کو کچھ نہ بتایا، کیونکہ شرم کی وجہ سے میری زبان بند تھی۔

میرے والد سخت مزاج تھے۔ جب انہیں میری بدحواسی کا پتا چلا، انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ میں راتوں رات اپنا گھر چھوڑ کر ایک اجنبی شہر پہنچ گئی۔ وہاں ایک چھوٹے سے ہوٹل میں نوکری ملی، لیکن وہاں کے حالات نے مجھے مزید توڑ دیا۔ مالک کی نیت خراب تھی، اور میں نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ سڑکوں پر بھٹکنے لگی، کبھی فٹ پاتھ پر راتیں گزاریں، کبھی خالی پڑے گوداموں میں پناہ لی۔
ایک دن ایک خاتون نے مجھے دیکھا۔ ان کا نام آمنہ تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی خیراتی تنظیم چلاتی تھیں۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی جگہ دی اور ایک دکان پر نوکری دلوائی۔ وہاں میں نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کی۔ آج میں چھبیس برس کی ہوں اور ایک چھوٹے سے اسکول میں بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ عدنان کی یاد اب بھی دل کو چھوتی ہے، لیکن میں نے سیکھ لیا کہ محبت اندھی نہیں ہوتی، بلکہ عقل سے کام لینا ضروری ہے۔ میری زندگی اب ایک نئے سفر پر ہے، جہاں میں اپنے خوابوں کو 
سچ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے