میری شادی ایک کم عمر حسین لڑکی سے ہوئی تھی۔ میں بہت خوش تھا لیکن شادی کے دو ماہ بعد ہی کمانے کے لیے دبئی چلا گیا۔ وہ بہت روئی اور بولی کہ مت جاؤ۔ مجھے لگا جیسے وہ خوف زدہ ہے۔ میں نے خوف کی وجہ پوچھی تو وہ گھبرا گئی۔ میرا دبئی جانا مجبوری تھا، اس لیے میں چلا گیا، لیکن وہ مجھ سے بات بھی نہ کرتی۔ چار مہینے بعد میں غصے میں واپس پاکستان آیا کہ اس کا دماغ درست کروں، مگر میرے گھر پہ تالا لگا تھا۔ میں حیران رہ گیا اور پڑوسیوں سے پوچھا کہ میری بیوی اور گھر والے کہاں گئے؟
میں ابھی پوچھ ہی رہا تھا کہ گھر کے اندر سے ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ میں نے فوراً تالا توڑا اور اندر گیا۔ منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
جو ہی جانے کے لیے واپس پلٹا تو دل میں عجیب سی بے چینی نے جکڑ لیا جیسے میں یہاں کچھ چھوڑ کر جا رہا ہوں اور مجھے نہیں جانا چاہیے۔ گھبرا کر میں نے اردگرد دیکھا، محلے والے اپنے گھروں میں واپس جا چکے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں دبئی سے واپس آیا ہوں تو سب مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے دروازے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے جانے کے دو ماہ بعد ہی یہاں تالا لگ گیا تھا، اور اس کے بعد ہم نے کبھی کسی کو اس گھر میں آتے جاتے نہیں دیکھا۔ پتہ نہیں تمہاری بیوی کہاں چلی گئی۔
یہ سنتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے مگر ضبط قائم رکھا۔ دماغ میں یہی سوال چل رہا تھا کہ پتہ نہیں میری بیوی کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔ میں اپنے گھر گیا تو ماں نے بھی لاعلمی ظاہر کی اور کہا: تمہارے جانے کے بعد میں نے رمشاہ سے کہا تھا کہ میرے پاس آ کر رہ جاؤ مگر اس نے منع کردیا۔ پہلے تو میں حیران ہوئی، زور بھی دیا کہ اکیلی کیسے رہو گی مگر وہ بضد رہی۔ میں نے زبردستی نہیں کی۔ ایک دن کئی ہفتوں بعد تمہارے گھر گئی تو دیکھا کہ گھر بند ہے۔ لوگوں سے پوچھا مگر انہیں بھی کچھ خبر نہیں تھی۔
یہ سنتے ہی میری پریشانی بڑھ گئی۔ ماں نے تسلی دیتے ہوئے کہا: "چلو، کچھ نہیں، وہ خود ہی واپس آ جائے گی، نہ بھی آئی تو اس نے خود ہی چھوڑا ہے، تمہیں اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" مگر میں پریشان تھا۔ نیند کی گولی کھا کر سونے کے لیے لیٹا اور کچھ دیر بعد سو گیا۔
پتہ نہیں کتنی دیر سویا رہا مگر اچانک عجیب سا خواب آیا۔ رمشاہ خواب میں تھی اور بہت رو رہی تھی۔ کہنے لگی: "جمیل! تم نے اچھا نہیں کیا۔ مجھے اندھیروں کے حوالے کر کے چلے گئے۔ یہ لوگ مجھے جانوروں کی طرح رکھتے ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے مجھے بچا لو!" یہ کہتے ہی وہ زور زور سے رونے لگی۔ میں اسے تسلی دینے کے لیے آگے بڑھا تو خواب ٹوٹ گیا۔ میں نے چیخ کر رمشاہ کو پکارا لیکن وہ خواب میں تھی، حقیقت میں نہیں۔
بکھلاہٹ میں اردگرد دیکھا تو خود کو کمرے میں پایا۔ جلدی سے اٹھ کر پانی کا گلاس پیا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہاں جاؤں۔ پھر واپس گھر آیا تو وہی پرانا تالا لگا تھا جس پر ہلکا سا زنگ بھی پڑ چکا تھا۔ میرے پاس چابی تھی، تالا کھول کر اندر گیا۔ پورا گھر ویران تھا۔ کمرے کھولے تو دیکھا کہ گند ویسے ہی بکھرا ہوا ہے۔ رمشاہ کے کپڑے اور میک اپ کا سامان ڈریسنگ ٹیبل پر ایسے پڑا تھا جیسے وہ ابھی گئی ہو۔ کچن میں گیا تو چولہے پر سالن رکھا تھا مگر بدبو آنے لگی تھی۔ گلاس اور چائے کے برتن بھی ویسے ہی پڑے تھے۔
یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پانچ منٹ کے لیے باہر گیا ہو اور پھر کبھی واپس نہ آیا ہو۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے رمشاہ کی ماں کو فون کیا۔ وہ روتے ہوئے بولیں: "ہم نے اپنی بیٹی کی شادی تم سے کی اور تم نے اس کے سارے رشتے کاٹ دیے۔" میں نے کہا: "انٹی! میں یہی بتانے والا تھا۔" مگر وہ بولی: "دو ماہ پہلے اس نے ہمیں فون کیا اور کہا کہ وہ دبئی جا رہی ہے تمہارے پاس۔ پتہ نہیں اب رابطہ ہو بھی سکے گا یا نہیں۔" میں نے پوچھا: "کیوں نہیں ہوگا رابطہ؟" تو وہ بولیں: "بیٹی کہہ رہی تھی کہ جمیل بہت غصے والے ہیں۔" یہ کہہ کر فون کاٹ دیا۔
میں حیران رہ گیا۔ میں نے تو رمشاہ کو کبھی منع نہیں کیا کہ وہ مجھ سے رابطہ نہ رکھے۔ بلکہ شروع دنوں میں اکثر میں خود پوچھتا کہ اس نے میکے فون کیا ہے یا نہیں، اگر نہ کرتی تو میں اسے فون کرنے پر زور دیتا۔ پھر وہ کہاں گئی؟ یہ سوال مجھے کھا رہا تھا۔ میں نے اور لوگوں کو فون کیے مگر سب نے لاعلمی ظاہر کی۔
میں چارپائی پر بیٹھا سوچتا رہا۔ اچانک عجیب سا احساس ہوا کہ رمشاہ یہیں کہیں ہے۔ میں نے پورا گھر دوبارہ چھان مارا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ خوشبو اور اس کی موجودگی کا احساس مجھے وہاں سے جانے نہیں دے رہا تھا۔ کچھ دیر مزید رک کر میں قریبی تھانے گیا اور گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ پولیس نے کہا کہ لڑکی کو گئے کافی وقت ہو گیا ہے۔ رپورٹ 24 گھنٹے کے اندر درج ہونی چاہیے تھی۔ اب ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں مگر یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ ملے گی۔
مایوس ہو کر باہر آیا تو ایک جگہ رش دیکھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ کوئی بابا شہر میں آیا ہے جو دعائیں دیتا ہے اور مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ کسی نے کہا: "جب سے بی بی صاحب کو لنگر چڑھایا ہے، میری سب مشکلات ختم ہو گئیں۔" میں نے سر جھٹکا اور وہاں سے نکل آیا۔ ہر طرف سے مایوس ہو چکا تھا۔ رب سے رو رو کر دعا کرتا کہ میری بیوی واپس آ جائے۔ مجھے یقین تھا کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔
میری شادی اماں نے اپنی پسند سے کرائی تھی اور مجھے اعتراض نہیں تھا۔ شادی کے فوراً بعد دبئی میں نوکری لگ گئی۔ اماں بہت خوش ہوئیں مگر رمشاہ رونے لگی۔ میں نے اسے دلاسہ دیا تو وہ بولی: "میں نہیں چاہتی کہ آپ مجھے چھوڑ کر جائیں۔ آپ کے بغیر میں اکیلی رہ جاؤں گی۔" میں نے اسے تسلی دی۔ جانے کے دن قریب آئے تو میں پیکنگ میں مصروف رہا اور دھیان نہ دیا کہ وہ بہت کھوئی کھوئی سی ہے۔
ایک دن اس نے کہا: "جمیل! کیا آپ میرا حال پوچھتے رہیں گے؟" میں نے حیران ہو کر پوچھا: "کیوں؟ کیا ہوا؟" تو وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی: "مجھے لگ رہا ہے آپ چلے جائیں گے تو کچھ بہت برا ہوگا۔" وہ ڈری ہوئی تھی اور کہنے لگی: "مجھے بچپن سے ہی سچے خواب آتے ہیں..."
یہ بات اس نے ایک دو مرتبہ مجھے پہلے بھی بتائی تھی مگر میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔ مگر اب جب وہ یہ بات کر رہی تھی تو میں نے حیرت سے پوچھا:
"کچھ دیکھا ہے تم نے خواب میں، وہ لشکر وغیرہ؟"
وہ بولی:
"یہی تو مسئلہ ہے، خواب میں جو اشارہ ہوتا ہے، میں اسے سمجھ نہیں پاتی۔ جب وہ واقعہ ہو جاتا ہے، تب سمجھ آتی ہے کہ خواب کا مطلب کیا تھا۔ بس ابھی میں نے ایسا خواب دیکھا ہے جیسے آپ کو ایئرپورٹ پر چڑھا کر میں کسی کنویں میں گر رہی ہوں، اور آپ بھی مجھے نہیں بچا سکتے۔ پھر منظر بدل جاتا ہے اور دوسرا خواب آتا ہے جیسے میں بے ہوش ہوں اور میرے ارد گرد بہت سے لوگ ہیں۔ میں سب کی باتیں سن رہی ہوں، ہر کوئی مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔"
وہ یہ سب سوچتے ہوئے کہہ رہی تھی اور میں جو اپنا بیگ بند کر رہا تھا، اچانک اس کے قریب آیا اور کہا:
"یہ کیسا خواب ہے؟ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟"
وہ نفی میں سر ہلا کر بولی:
"مجھے واقعی نہیں پتا یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ بس ایک احساس دل میں مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے کہ آپ جائیں گے تو میں تباہ ہو جاؤں گی۔ مت جائیں مجھے چھوڑ کر!"
یہ کہہ کر وہ میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے اس وقت رمشاہ کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیا کیونکہ مجھے صرف باہر جانے کا شوق تھا۔ میرے ابا بھی دبئی میں ہی کام کرتے تھے۔ ان کا انتقال ہو گیا تو انہی کی جگہ میں نے اپلائی کیا تھا۔ باہر جانا میرا بچپن کا خواب تھا۔ اس لیے جب رمشاہ یہ سب کہہ رہی تھی تو اسے تسلی دینے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں اپنا خواب نہیں چھوڑ سکتا تھا، بڑی مشکل سے تو موقع ملا تھا۔
میں نے کہا:
"تم پریشان مت ہو، یہ تمہارا وہم ہوگا۔"
میری بات پر وہ بولی:
"اگر کچھ ہو گیا تو؟"
میں نے نرمی سے پوچھا:
"شادی کے بعد تمہیں کوئی ایسا خواب آیا ہے جو سچ ہو گیا ہو؟ دو ماہ ہو گئے ہیں نا ہماری شادی کو؟"
اس نے نفی میں سر ہلا کر کہا:
"نہیں، شادی کے بعد تو خواب آنا ہی بند ہو گئے ہیں۔"
اس بات پر میں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا:
"پھر کیوں پریشان ہو رہی ہو رمشاہ؟ ہو سکتا ہے تمہارا ذہن پریشان ہو، اسی لیے تمہیں ایسے خواب آتے ہیں۔ اچھا گمان رکھو گی تو کچھ برا نہیں ہوگا۔ کل مجھے جانا ہے، شوہر کو ایسے پریشان کر کے بھیجو گی؟ تم مضبوط بنو، جب تک میں نہیں آتا تمہیں سب سے خود لڑنا ہے۔ سمجھ رہی ہو نا؟"
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شادی کے فوراً بعد ہی ماں نے ہمیں الگ کر دیا تھا۔ بڑے بھائی کا الگ گھر تھا اور میرا بھی، تاکہ مستقبل میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ میرے سمجھانے پر وہ خاموش ہو گئی۔
اگلے دن سب گھر والے مل کر مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے گئے۔ میں پورا راستہ رمشاہ کو دیکھتا رہا، وہ اب بھی بے چین تھی۔ رات کو جو میں نے اسے پرسکون کیا تھا اس کے چہرے پر وہ سکون نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ بار بار مجھے دیکھتی، کچھ کہنا چاہتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔ مگر میں نے بڑی خوبصورتی سے اس کی ساری بے چینی کو نظر انداز کر دیا کیونکہ اس وقت میں صرف باہر جانا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ باہر جا کر ہماری زندگی بدل جائے گی۔
کاش اس وقت میں رک جاتا، اپنی بیوی کے خواب کو سمجھنے کی کوشش کرتا تو آج میرے گھر میں میری بیوی موجود ہوتی۔ یا خدا! کیا کروں، کہاں جاؤں؟ تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور میں نے یہ پورا ہفتہ اذیت میں گزارا۔ وہاں پر بھی تقریباً ایک ماہ تک میری رمشاہ سے بات ہو سکی، اس کے بعد اس کا موبائل نمبر بند ہو گیا، واٹس ایپ پر بھی وہ آن لائن نہ آتی۔
میرے واپس انے میں ابھی وقت تھا، مگر رمشاہ کی خاموشی دیکھ کر میں مزید برداشت نہ کر سکا اور جو پہلی فلائٹ ملی، میں واپس آ گیا۔ واپس آ کر وہی ہوا جس کا رمشاہ کو خدشہ تھا۔ اب میں اسے کہاں ڈھونڈتا؟ کہاں سے وہ کنواں لاتا؟ کہاں سے وہ لوگوں کا ہجوم ڈھونڈتا جو اس نے خواب میں دیکھا تھا؟ ہفتہ گزر گیا، وہ نہ ملی تو اماں نے مجھے تسلی دی:
"چلی گئی ہوگی کہیں، ہم کیوں بلا وجہ پریشان ہو رہے ہیں؟ آج کل کی لڑکیاں ایسی ہی باتیں کرتی ہیں جب شوہر باہر جائے تو۔"
میں نے اماں سے پوچھا:
"رمشاہ نے آپ کو کوئی بات نہیں بتائی؟ کوئی اشارہ، کچھ بھی؟"
اماں نے سنجیدگی سے کہا:
"میاں، تم اپنی باتیں اپنی ماں سے نہیں کرتے، وہ تو پھر میری بہو تھی۔ وہ کیوں اپنی خاص باتیں مجھے بتاتی؟"
میں چپ ہو گیا۔ کچھ دن بعد مجھے پھر وہی خواب آیا، مگر اس مرتبہ خواب میں منظر مختلف تھا۔ ایک بند کمرہ تھا جہاں رمشاہ بندھی ہوئی تھی، آنکھیں بند تھیں جیسے سو رہی ہو، مگر حقیقت میں جاگ رہی تھی۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا، وہ رونے لگی اور چیخ کر بولی:
"تم ہو مجرم میرے! تم سے جڑے رشتے میرے مجرم ہیں۔ میں نے منع کیا تھا، مگر تم نہ رکے۔ تم نے مڑ کر میری خبر بھی نہ لی اور میں یہاں ہر روز مرتی ہوں۔ مجھے یہاں سے نکالو جمیل! خدا کا واسطہ ہے مجھے اس جہنم سے باہر نکالو۔ وہ دیکھو، وہ سب میری طرف آ رہے ہیں۔ مجھے ان کے سوالوں سے بچا لو۔ وہ مجھے جھنجھوڑتے ہیں، اذیت دیتے ہیں۔"
اس نے ہاتھ سے ایک جانب اشارہ کیا۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہاں ایک بہت بڑی دیوار گیر کھڑکی تھی جس کے باہر لوگوں کا ایک ان گنت ہجوم کھڑا رمشاہ کو پکار رہا تھا۔
وہ بار بار مجھے پکار رہی تھی:
"مجھے یہاں سے لے جاؤ! یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے!"
میں مارے حیرت کے وہاں کھڑا یہ سارا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ہی لوگوں کا ہجوم بھی مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر ان سب لوگوں نے مل کر دیوار میں لگی بڑی کھڑکی کو ایک جھٹکے سے توڑ دیا اور انسانوں کا ایک بڑا ریلہ رمشاہ کی جانب بڑھا۔ وہ چیخیں مارنے لگی، رونے لگی۔ میں اسے بچانے کے لیے آگے بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ وہ اچانک لوگوں کے ہجوم میں کہیں گم ہو گئی۔
اسی لمحے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو آج بھی اپنے کمرے میں ہی تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
"یہ کیسے خواب آ رہے ہیں؟ کیا مجھے کوئی اشارہ مل رہا ہے جس سے میں رمشاہ کو ڈھونڈ سکوں؟ یا یہ سب میرے دماغ کی اختراع ہیں؟"
میں کمرے سے باہر آیا تو ماں صحن میں بیٹھی تہجد پڑھ رہی تھیں۔ میں ان کے قریب جا کر گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور رونے لگا۔ ماں جیسے جیسے دلاسہ دیتی رہیں، میرے رونے کی شدت بڑھتی گئی۔
"ماں، میں ہوں مجرم رمشاہ کے کھو جانے کا! وہ مجھے منع کرتی رہی، کہتی تھی مت جاؤ، مجھے چھوڑ کر جاؤ گے تو میرے ساتھ کچھ برا ہو جائے گا، مگر میں نے اس کی ایک بھی بات نہ سنی۔ اس وقت میرے سر پر صرف باہر جانے کا بھوت سوار تھا۔ میں کسی بھی حالت میں یہ سنہری موقع کھونا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اب کیا کروں؟ وہاں جا کر اپنی بیوی کو ہی کھو بیٹھا ہوں!"
ماں مجھے مسلسل سمجھاتی رہیں اور میرا دھیان رمشاہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی رہیں تاکہ میں سوچ سوچ کر پاگل نہ ہو جاؤں۔
ایک دن میں گھر میں یونہی بیٹھا تھا جب ماں کی ایک سہیلی ہمارے گھر آئی۔
"ارے جمیل! تم کب واپس آئے؟ بھلا میں نہ آتی تو تم ملتے ہی نا!"
میں خاموش بیٹھا رہا۔ رمشاہ کے کھو جانے کے بعد سے میں لوگوں کی باتوں کا جواب بھی کم ہی دیتا تھا۔ اگر بہت ضروری ہوتا تو دے دیتا ورنہ چپ رہتا۔ ماں بھی وہاں آ چکی تھیں۔ وہ نرمی سے بولیں:
"ارے رُکشندہ، لے جایا کرو نا اپنے بیٹے کو بی بی صاحب کے پاس۔ دیکھو تو پتہ نہیں کیا پریشانی ہے، کتنا کمزور ہو گیا ہے۔ کیسی ماں ہو تم، لے کر نہیں گئیں ابھی تک؟"
ساتھ ہی اس عورت نے مجھے دیکھا اور افسوس سے سر ہلانے لگی:
"بتاؤ میاں، گئے نہیں تم بی بی صاحب کے پاس؟ ارے بڑے اللہ والے ہیں، بہت کرامات ہیں ان کے پاس۔ جو بھی اپنا مسئلہ لے کے جاتا ہے، بی بی صاحب خواب میں دیکھ کر فوراً حل بتا دیتے ہیں!"
مجھے ان باتوں پر یقین نہیں تھا، اس لیے میں نے سخت لہجے میں کہا:
"بی بی صاحب کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔"
میری بات پر وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی:
"اچھا مت جاؤ، چلو مجھے ہی بتا دو کہ اتنے پریشان کیوں ہو؟ میں ہی دعا کر دوں گی تمہارے لیے۔ آخر دعا تو کر ہی سکتے ہیں نا؟ تمہاری ماں نے بھی میرے لیے بہت دعائیں کی تھیں اور آج دیکھو، میری اولاد صحت مند ہے، حالانکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ بچہ نہیں ہو سکتا۔ بڑا قرض ہے تمہاری ماں کا مجھ پر۔"
وہ عورت عجیب چپکو مزاج کی تھی، جیسے بلاوجہ میرے ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑانا اس کا حق ہو۔ میرا دماغ پہلے ہی بے حد خراب تھا۔ میں نے غصے سے کہا:
"میری بیوی نہیں مل رہی اور میرا دماغ ٹوٹ رہا ہے، بہتر ہوگا آپ اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں۔ امی سے ملنے آئی ہیں تو صرف ان سے ملیں، میرے معاملات میں جھانکنے کی کوشش خدارا مت کریں۔"
یہ کہہ کر میں وہاں سے جانے لگا تو عورت پیچھے سے بولی:
"ارے میاں! بڑے ہی تیکھے مزاج کے معلوم ہوتے ہو۔ تمہیں برا تو نہیں لگے گا مگر تمہارے مسئلے کا حل صرف اور صرف بی بی صاحب کے پاس سے ہی مل سکتا ہے۔ ارے وہ تو خاص طور پر گمشدہ لوگوں کا سراغ لگا کر دیتی ہیں۔"
مجھے اس عورت کی بات سے بے حد الجھن ہو رہی تھی اور میرا دماغ جیسے پھٹ رہا تھا۔ میں نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور گھر آ گیا۔ پہلے کچھ دیر بیٹھا رہا، پھر گھر کی صفائی شروع کر دی۔ دو تین گھنٹے میں اوپر اوپر سے سارا گھر صاف کر دیا، مگر دل اب بھی بوجھل تھا۔ پھر بیٹھک کی صفائی کے لیے آگے بڑھا۔ جیسے ہی بیٹھک کا تالا کھولا، میں حیران رہ گیا۔
میں جب بھی اس گھر میں آتا، صرف رہائشی حصے کو کھولتا تھا۔ بیٹھک کو ایک بار بھی کھول کر نہیں دیکھا تھا، اور یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ میرا دل چاہا کہ اپنا سر دیوار میں دے ماروں۔ آخر اتنی بڑی غلطی میں کیسے کر سکتا تھا؟ مجھے پورا گھر کھول کر اچھی طرح دیکھنا چاہیے تھا۔
بیٹھک میں داخل ہوتے ہی صاف اندازہ ہو گیا کہ رمشاہ کو یہیں رکھا گیا تھا۔ دیوار کے ساتھ زنجیریں بندھی ہوئی تھیں اور ان کے آگے ہتھکڑی کی مانند گول کڑے لگے تھے، جو دو ہاتھوں اور دو پیروں کے لیے مخصوص تھے۔ بیٹھک سے عجیب سی بدبو آ رہی تھی۔ کھانے کے برتن اور پانی کا کولر بڑی بے ترتیبی سے پھینکے گئے تھے۔ بیٹھک کا فرنیچر ایک دیوار کے ساتھ دھکیلا گیا تھا۔
میں جلدی سے دوسرے دروازے کی طرف بڑھا جو پچھلی گلی میں کھلتا تھا — اس گلی میں نہیں جہاں مین گیٹ تھا بلکہ اس سے بھی پچھلی گلی میں۔ یعنی جو بھی تھا، اس نے میری بیوی کو میرے ہی گھر میں رکھا اور سب کو چالاکی سے دھوکہ دیا، یہ ظاہر کر کے کہ گھر تو کئی مہینوں سے بند ہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔
مگر ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اگر اس نے رمشاہ کو گھر میں ہی رکھنا تھا تو پھر باندھا کیوں؟ کس مقصد کے لیے یہ سب کیا جا رہا تھا؟
میں نے فوراً پولیس کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ کچھ ہی دیر میں پولیس آ گئی اور انہوں نے جگہ کو سیل کر دیا۔ زنجیریں اور ہتھکڑیاں اتار کر فرانزک کے لیے بھیج دی گئیں۔ ایک دن بعد رپورٹ آ گئی جس کے مطابق واقعی رمشاہ وہاں موجود تھی اور چند دن پہلے ہی وہاں سے ہٹائی گئی تھی۔
پولیس نے مجھ سے پوچھا:
"آپ کو کسی پر شک ہے؟"
میں نے نفی میں سر ہلایا۔ واقعی مجھے کسی پر شک نہیں تھا۔ پولیس افسر نے کہا:
"سر، اچھی طرح سوچیں۔ ہو سکتا ہے رمشاہ کسی سے خوفزدہ رہی ہو اور اس نے آپ کو کوئی اشارہ دیا ہو۔ کوئی ایسا واقعہ، کوئی جھگڑا، کوئی بھی بات؟"
بہت سوچنے کے باوجود مجھے کوئی واقعہ یا شخص یاد نہ آیا جس سے رمشاہ کی دشمنی ہو۔ ہم نے مین گیٹ والی گلی میں لگے کیمروں کی مدد سے مجرم کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کبھی مین گیٹ سے گھر میں داخل نہیں ہوا تھا۔
پولیس نے پچھلی گلی میں جا کر بھی چیک کیا لیکن وہاں بدقسمتی سے کوئی کیمرہ موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ میری ماں سے تفتیش کریں گے۔ یہ سن کر میں نے سختی سے منع کر دیا اور کہا:
"خبردار! اگر کسی نے میری ماں کو تنگ کرنے کی کوشش کی۔"
پولیس نے کہا:
"کم از کم ایک مرتبہ تو تفتیش ضروری ہے۔"
یہ سن کر میں نے خاموشی سے رمشاہ کا کیس واپس لے لیا۔ پولیس والے بہت برہم ہوئے۔
جب ماں کو یہ بات پتا چلی تو وہ مجھ پر سخت خفا ہوئیں اور بولیں:
"بیٹا، تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ وہ لوگ تو اپنا کام کر رہے تھے۔ کرنے دیتے تفتیش، شاید کچھ سراغ مل جاتا۔"
ماں مجھے ڈانٹ رہی تھیں مگر میں نے کہا:
"ماں، میں آپ پر کوئی الزام نہیں آنے دے سکتا۔ اللہ بہتر کرے گا۔ اگر اللہ نے چاہا تو رمشاہ خود
بخود ہمارے سامنے آ جائے گی۔ اور اگر نہیں تو ہم لاکھ کوشش کریں پھر بھی وہاں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ مگر اس سب میں میں آپ کو تکلیف نہیں دے سکتا۔"
---
یہ بات سن کر ماں رونے لگی اور مجھے بہت سی دعائیں دینے لگی۔ میں کمرے میں آ گیا اور وضو کر کے نفل حاجت پڑھنے بیٹھ گیا۔ بار بار اللہ سے یہی دعا کر رہا تھا کہ وہ میری بیوی کو اپنی امان میں رکھے۔ میں نے اسے اکیلا چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی تھی اور اب اپنی غلطی پر سخت پشیمان تھا۔ تقریباً پندرہ منٹ تک یونہی دعا کرتا رہا۔
دعا کے بعد میرے اندر ایک عجیب سا سکون پھیلنے لگا۔ میں نے جیسے ہی ہاتھ دعا سے نیچے کیے، مجھے اپنی کمپنی کی طرف سے میسج آیا کہ انہیں کوئی ارجنٹ کام تھا، اس لیے میری چھٹی منسوخ کر دی گئی تھی اور مجھے فوراً واپس بلایا گیا تھا۔ لیکن میں نے اسی وقت بغیر سوچے سمجھے استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا۔
جب ماں کمرے میں کچھ لینے آئیں تو میں نے انہیں اپنی نوکری چھوڑنے کا بتایا۔ وہ خفا ہوئیں اور بولیں:
"بیٹا، تم نے اتنی جلدی فیصلہ کیوں کر لیا؟"
میں نے نرمی سے جواب دیا:
"ماں، ایک بار میں اپنی بیوی کو تنہا چھوڑ چکا ہوں، اب دوبارہ ایسا نہیں کروں گا۔ یہاں جو بھی چھوٹی موٹی نوکری ملی، کر لوں گا مگر رمشاہ کو ڈھونڈ کر رہوں گا۔ ماں! قیامت کے دن اگر اللہ نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں نے اس کے باپ کے بعد تمہیں اس لڑکی کا ولی بنایا تھا تو میں کیا جواب دوں گا؟ مجھے بہت خوف آتا ہے۔ بس دعا کریں کہ رمشاہ جلدی سے جلدی مل جائے اور وہ خیریت سے ہو۔"
ماں نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا شروع کر دی۔
تقریباً تین چار دن تک میں روز اپنے گھر آتا اور بیٹھک کو غور سے دیکھتا رہتا۔ وہاں پر نشہ آور دوائیوں کے پتے اور خالی ڈبیاں موجود تھیں، جن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ رمشاہ کو ہر وقت دوائیوں کے زیرِ اثر رکھا جاتا رہا تھا تاکہ وہ شور نہ مچا سکے۔ میں دن رات کوشش کرتا رہا کہ کوئی سراغ، کوئی نشانی مل جائے جس سے میں مجرم تک نہیں تو کم از کم رمشاہ تک پہنچ سکوں۔
مگر وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں سخت تھک گیا تھا اور وہیں بیٹھ کر زور زور سے رونے لگا۔ پتہ نہیں کب روتے روتے میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا۔
خواب میں ایک بار پھر رمشاہ آئی۔ وہ تھکی ہوئی اور نڈھال لگ رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھ کر نرم لہجے میں کہا:
"تمہیں مجرم کیوں نہیں دکھائی دے رہا؟ وہ تو تمہارے آس پاس ہی ہے۔ جمیل! مجھے بچا لو۔ جتنی جلدی ہو سکے مجھے تلاش کرو، ورنہ یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔ مجھے اس جہنم سے نکالو۔ تم کسی سے دعا کروائو میرے لیے۔"
یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ میں فرش پر لیٹا چھت کو دیکھنے لگا۔ رمشاہ چاہتی تھی کہ میں اسے ڈھونڈ لوں۔ یعنی جس نے بھی اسے چھپایا تھا، وہ جانتا تھا کہ میں اسے تلاش کر رہا ہوں۔
میں نے دل ہی دل میں کہا:
"اگر میں نے جلد اپنی بیوی کو نہ ڈھونڈا تو یہ لوگ اسے مار ڈالیں گے۔ اسی لیے وہ اتنی پریشان دکھائی دے رہی تھی۔"
میں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی:
"یا اللہ، میں کیا کروں؟ مجھے کوئی راستہ دکھا، مجھے عقل دے، رہنمائی دے تاکہ میں اپنی بیوی کو تلاش کر سکوں۔"
یہ دعا کرتے کرتے میں نے سارے کمروں کو تالا لگایا اور باہر نکل آیا۔ ابھی میں محلے سے نکلا ہی تھا کہ اچانک ماریا سے سامنا ہو گیا۔ وہ جلدی جلدی میرے پاس آئی اور رمشاہ کے بارے میں پوچھنے لگی۔
میں نے حیرت سے پوچھا:
"کیا تم نے رمشاہ کو کہیں دیکھا ہے؟"
ماریا شرماتے ہوئے بولی:
"بھائی، آپ کی شادی کے بعد ہی میری شادی ہو گئی تھی۔ پھر میں سعودی عرب چلی گئی۔ اب کچھ دن کے لیے آئی ہوں، اسی لیے آپ کے گھر بھی آئی تھی لیکن کچھ کاموں میں مصروف رہی۔"
میں نے غمگین لہجے میں کہا:
"نہیں ماریا، رہنے دو۔"
وہ پریشان ہو کر بولی:
"کیا ہوا بھائی؟ خیریت ہے؟ آپ تو بہت پریشان لگ رہے ہیں۔ رمشاہ ٹھیک تو ہے؟ اور آنٹی کی طبیعت کیسی ہے؟"
میں نے نفی میں سر ہلایا اور ضبط کرتے ہوئے کہا:
"ماریا، رمشاہ کھو گئی ہے۔ وہ دو ماہ سے نہیں ملی۔"
یہ سنتے ہی ماریا کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ چند لمحے کے لیے خاموش رہی۔ پھر بولی:
"ارے! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی چھوٹی موٹی بچی تو نہیں جو آپ خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے محلے میں ہی کسی کے گھر گئی ہو۔"
اس کی بات سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ میں نے کہا:
"نہیں ماریا، وہ خود سے کہیں نہیں گئی۔ اسے کوئی لے گیا ہے۔"
پھر میں نے مختصر مگر جامع بات اسے بتائی۔ ماریا غم سے ساکت ہو گئی۔ میں نے اس سے کہا:
"ماریا، تم تو رمشاہ کی دوست ہو، کیا تم میری کچھ مدد کر سکتی ہو؟"
--
وہ جلدی سے بولی، "جی بھائی، آپ بتائیں، میں آپ کی ہر طرح کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ چھوٹی سی ہنس مکھ رمشاہ یوں اچانک گم بھی ہو سکتی ہے۔"
ماریا، کیا کبھی رمشاہ نے شادی سے پہلے یا شادی کے بعد کچھ بتایا؟ مطلب کوئی لڑائی جھگڑا ہوا ہو یا کسی نے اسے تنگ کیا ہو؟ یا کچھ بھی، کوئی بھی چھوٹی موٹی بات اگر اس نے اس متعلق تمہیں کچھ بتایا تو خدارا مجھے بتاؤ۔
وہ سوچتے ہوئے بولی، "بھائی بتایا تو ہے لیکن اگر میں آپ کو بتاؤں گی تو آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ بات مجھے آپ سے کرنی چاہیے۔"
میں نے جلدی سے پوچھا، "تم پریشان نہ ہو، جو بھی بات ہے مجھے کھل کے بتاؤ۔ میں ہر طرح کی بات سننے کے لیے تیار ہوں، بس خدا کا نام ہے مجھے کوئی اشارہ دے دو جس سے میں اپنی بیوی تک پہنچ جاؤں، پتہ نہیں کتنی اذیت میں ہوگی وہ۔"
"بھائی مجھے معاف کر دیں، لیکن رمشاہ نے ایک دو مرتبہ بتایا تھا کہ آنٹی کا رویہ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں۔"
میں نے اس کی بات کاٹ کے کہا، "امی کا رویہ کیوں نہیں ٹھیک ہوگا؟ امی نے تو شروع سے ہی ہمیں الگ کر دیا تھا، پھر جب وہ اپنے گھر میں الگ تھی، پھر امی اسے کیوں تنگ کریں گی؟"
وہ نرمی سے بولی، "تب ہی میں آپ کو بتانا نہیں چاہ رہی تھی کیونکہ وہ آپ کی ماں ہیں اور اپنی ماں کے متعلق کوئی بھی غلط بات انسان برداشت نہیں کر سکتا، پھر چاہے وہ آپ ہوں یا میں۔ باقی آپ نے کوئی ایسی ویسی بات پوچھی تو مجھے صرف یہی یاد آیا۔ اس کے علاوہ مجھے نہیں یاد کہ رمشاہ کا کبھی کوئی جھگڑا ہوا ہو یا کوئی دوست وغیرہ ہو۔"
یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئی تو میں جلدی سے بولا، "نہیں نہیں، مجھے بتاؤ، امی کی کیا بات کر رہی تھی؟"
وہ بولی، "پتہ نہیں مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن وہ بتاتی تھی کہ آنٹی اسے کریدتی تھی۔ آنٹی نے اسے یہ بھی بتایا کہ تمہیں سچے خواب آتے ہیں، تب ہی میں تمہیں اپنی بہو بنا کے لائی ہوں تاکہ تم ہمارے لیے آسانیاں پیدا کر سکو۔ آنٹی اسے مجبور کرتی تھی کبھی اپنا کوئی مسئلہ بتا کے یا پھر کسی سہیلی یا رشتہ دار کے مسائل بتا کے کہ مجھے ان کا حل بتاؤ خواب میں دیکھ کے۔ رمشاہ نے صاف منع کر دیا تھا کہ میرے اختیار میں کوئی بھی حل دیکھنا نہیں، میں نہیں دیکھ سکتی۔ تو وہ اس سے ایسی باتیں سناتی کہ تم بلاوجہ جان بوجھ کر مجھے انکار کر رہی ہو حالانکہ تمہیں سب کچھ دکھائی دیتا ہے، تم مستقبل کو آرام سے دیکھ سکتی ہو جبکہ ایسا نہیں تھا۔ بھائی، میں بچپن سے رمشاہ کو جانتی ہوں، اسے سچے خواب کبھی کبھار ہی آتے تھے۔ بس ایک دو مرتبہ اس نے آنٹی متعلق یہ باتیں بتائی مجھے کہ وہ مجبور کرتی ہیں۔"
یہ بات سن کے میں حق کا بکا رہ گیا کیونکہ آج تک ماں یا رمشاہ نے کبھی ان باتوں کا ذکر مجھ سے نہیں کیا تھا۔
"ماریہ، کیا جو کچھ تم بتا رہی ہو وہ سچ ہے؟"
وہ نرمی سے بولی، "بھائی میں اپنی قسم کھا کے کہتی ہوں بلکہ شاید میری قسم پہ بھی آپ کو یقین نہ آیا تو میں اللہ کی قسم کھا کے کہتی ہوں کہ جو کچھ آپ کو بتایا سچ ہے اور یہ بھی بتاتی چلوں کہ رمشاہ آپ سے یہ بات چھپاتی تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ باتیں وہ آپ کو بتائے اور آپ میں اور آنٹی میں کوئی بھی بدمزگی پیدا ہو۔"
اس کے بعد ایک دو مزید باتیں کر کے میں وہاں سے چلا آیا۔ اب میرا رخ گھر کی طرف تھا۔ میں اماں سے ان باتوں کی تصدیق کرنا چاہتا تھا کیونکہ جب ماریہ نے قسم کھا لی تھی لیکن پھر بھی جب تک میں اپنی ماں سے ان باتوں کی تحقیق نہ کر لیتا مجھے آرام نہیں ملنا تھا۔
اور رمشاہ کے خوابوں والی بات تو مجھے شادی کے بعد پتہ چلی تھی اور وہ بھی رمشاہ نے ہی بتائی تھی جبکہ ماں نے ایسی کسی بات کا بھی ذکر مجھ سے نہیں کیا تھا۔
مجھے یاد تھا میری بہن نے یوں ہی ایک مرتبہ باتوں باتوں میں مجھے بتایا کہ ابھی دونوں کی شادی نہیں ہوئی تھی اور اس کا کوئی زیور کہیں پہ گم ہو گیا تھا۔ اگلے دن وہ یوں ہی رمشاہ سے فون پہ بات کر رہی تھی تو رمشاہ نے اسے بتا دیا کہ تمہارا زیور فلاں جگہ پہ پڑا ہوا ہے۔
یہ بات کرتے ہوئے میری بہن بہت ہنسی اور کہا، "تمہاری تو عیش ہے، جو میری تمہارے گھر میں بھی کبھی کوئی چیز گم ہو جایا کرے گی کیونکہ تمہاری بیوی کو ہر بات کا پتہ ہوتا ہے۔"
میں نے دھیان نہ دیا لیکن اب کڑی سے کڑی ملتی جا رہی تھی۔
میں پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑا۔ تبھی مجھے ایک مرتبہ پھر وہی رش دکھائی دیا جہاں لوگ بڑے عقیدت سے کھڑے تھے۔
اسی وقت مجھے رمشاہ کا خواب یاد آیا جس میں وہ کہہ رہی تھی کہ کسی سے دعا کرا لو۔
مجھے ان سب پہ یقین نہیں تھا لیکن رمشاہ بھی کہہ رہی تھی کہ میں اسے ڈھونڈوں۔
صبح بغیر سوچے سمجھے میں لائن میں لگ گیا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہاں پہ مجھے کچھ ملے گا لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں میں وہاں سے جا ہی نہ پایا اور خود بخود میرے پیر وہاں رک گئے۔
کافی دیر بعد میرا نمبر آیا تو کمرے میں باہر بیٹھے آدمی نے مجھ سے ہزار روپیہ لیا۔ میں نے خاموشی سے پیسے نکال کے دیے۔
مزید پڑھیں |
جب اندر گیا تو وہاں عجیب ہی ڈرامہ لگا ہوا تھا۔
ایک آدمی کرسی پہ بیٹھا تھا، دیکھنے میں وہ کوئی ڈھونگی بابا ہی لگ رہا تھا۔
اس کے قریب نیچے زمین پہ چھوٹا سا کپڑا بچھا تھا جس پہ ایک لڑکی آنکھیں بند کیے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھی تھی۔
اس لڑکی کی حالت بہت ابتر تھی۔ بالوں کی لٹیں منہ کے اوپر پھیلی تھیں اور کپڑے بھی بہت میلے کچیلے ہو رہے تھے۔
"ہاں بھائی کیا مسئلہ ہے تمہارا؟" بابے نے اونچی آواز میں پوچھا۔
پہلے میرا دل کیا یہاں سے خاموشی سے نکل جاؤں لیکن پھر میں نے بتایا کہ میری بیوی لاپتہ ہے، اس کی کھوج لگوانی ہے یا دعا جو بھی آپ کو مناسب لگے بس مجھے میری بیوی چاہیے۔
اس آدمی نے عورت کی جانب اشارہ کیا اور کہا، "بی بی صاحب کو کوئی نیاز دو اور انہیں اپنا مسئلہ بتا، وہ خواب دیکھ کے بتا دیں گی تمہاری بیوی کہاں پہ ہے۔"
میں نے منہ بگاڑ کر اس ڈھونگی عورت کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔
کمرے میں نشہ آور دوائیوں کی بہت تیز بو آ رہی تھی جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس وقت شدید نشے کی حالت میں تھی۔
میں واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ رک گیا۔ مجھ سے اگلا قدم اور دوسری سانس دونوں ہی نہ لی گئی۔
دوبارہ اس عورت کے قریب ہوا اور غور سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ میری بیوی رمشاہ تھی۔
اس کی حالت انتہائی ابتر ہو رہی تھی، اتنی میلی ہو چکی تھی کہ پہچاننا مشکل تھا۔
میں اسے زور زور سے جھنجوڑنے لگا تو سب لوگ میری جانب متوجہ ہو گئے۔
جالی بابا نے مجھے پیچھے کرنا چاہا تو میں اسے بری طرح سے پیٹنے لگا۔
وہاں اچھا خاصا تماشا لگ چکا تھا۔ ہجوم میں سے کسی نے پولیس کو بلایا۔
وہ آئے تو انہیں میں نے بتایا کہ یہی میری بیوی ہے۔ وہ پولیس اہلکار وہی تھے جو رمشاہ کے کیس کو فالو کر رہے تھے۔
اس جالی بابے نے بہت زیادہ تنگ کیا جس کی بنا پر پولیس نے اسے حراست میں لے لیا۔
میں رمشاہ سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔
پہلے تو وہ بابا اپنا منہ ہی نہیں کھول رہا تھا کہ یہ سب کچھ وہ کس کے کہنے پہ کر رہا ہے لیکن جب پولیس کے ہاتھ لگے تو اس نے جو نام لیا وہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔
اس نے میری ماں کا نام لیا اور کہا کہ وہی عورت اس لڑکی کی بدولت دھندا کر رہی ہے۔
وہ اسے شام کو یہاں سے لے جاتی ہے اور پتہ نہیں کس جگہ پہ رکھتی ہے، صبح پھر سے لے آتی ہے۔
"یہ لڑکی سچے خواب دیکھتی ہے تو ہم اس سے دن کا لاکھوں لاکھوں روپیہ کما لیتے ہیں۔"
وہ ڈھونگی بابا بولتا جا رہا تھا اور میں زمین پہ کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔
یہ سوچ کر کہ آخر میری ماں نے یہ سب کیوں کیا؟ انہیں کیوں ضرورت پیش آ گئی پیسے کی؟
اور رمشاہ سے میری شادی بھی انہوں نے اسی وجہ سے کروائی تاکہ وہ اسے اپنے گھٹیا کاروبار کے لیے استعمال کر سکیں۔
مزید پڑھیں |
میرے جاتے ہی ماں نے رمشاہ کو نشہ آور دوائیاں دینا شروع کر دی تھیں، پھر اس گھر کو تالا لگا کر وہیں بیٹھک میں اسے قید کر کے رکھا اور اب طرح طرح کے لوگوں سے اسے نیاز دلواتی تھی۔
میں ہکا بکا وہاں کھڑا تھا جب پولیس اہلکار میرے پاس آیا اور بولا،
"ہاں بھائی اب بتائیں کیا اب بھی آپ کی ماں پہ کوئی تفتیش نہ بٹھائیں؟ یا اب بھی چھوڑ دیں جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سب کے پیچھے آپ کی ماں ہی ہے؟"
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
ماں کو پولیس لے گئی تو انہوں نے اقرارِ جرم کر لیا۔
رمشاہ کو بہت زیادہ ہیوی ڈوز دی گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا علاج شروع ہوا اور کچھ عرصے میں وہ ٹھیک بھی ہو گئی۔
0 تبصرے