ماہین کی زندگی میں محبت کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایک چاہنے والا شوہر، دو معصوم بچے، اور ایک خوشحال گھرانہ، سب کچھ تھا۔ لیکن یہ سکون محض ایک دکھاوا تھا۔ اندر ہی اندر، وہ خود کو ایک مشین کی طرح محسوس کرتی تھی، جو صرف دوسروں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے چل رہی تھی۔ اور شوہر کو مکمل سکون دینے میں ناکام ہو رہی تھی۔ زبیر، اس کا شوہر، ایک کامیاب بزنس مین تھا، لیکن محبت کا وقت شاید اس کی مصروف زندگی میں کہیں کھو گیا تھا۔
ایک شام، جب زبیر گھر آیا تو ماہین کو ایک خبر دی: "مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔" ماہین کے دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہوئی، لیکن وہ مسکراتی ہوئی بولی، "ہاں، کہیے؟"
زبیر نے جھجکتے ہوئے کہا، "ماہین، میں کسی اور کو پسند کرنے لگا ہوں۔ وہ میری روح کو تسکین دیتی ہے، اور میں... شاید ہم دونوں کے لیے بہتر ہوگا کہ ہم اپنے راستے الگ کر لیں۔"
ماہین کے لیے یہ بات بجلی بن کر گری۔ وہ خاموشی سے کھڑی رہی، جیسے وقت تھم گیا ہو۔ لیکن پھر اس نے ایک گہری سانس لی اور کہا، "زبیر، میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ اگر یہ تمہاری خوشی ہے، تو میں تمہاری راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گی۔"
زبیر حیرت سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا، جیسے وہ اس بات کی امید نہ کر رہا ہو۔
ماہین نے اگلے چند دنوں میں اپنی زندگی کا ایک نیا باب شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک نوکری تلاش کی، بچوں کو سنبھالنے کے لیے ایک نظام بنایا، اور اپنے لیے وقت نکالنا شروع کیا۔ دن رات کی محنت کے بعد، وہ اپنے خوابوں کو دوبارہ زندہ کرنے لگی۔ اپنے شوق، لکھنے کی عادت کو دوبارہ اپنانا اس کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح تھا۔
زبیر کی زندگی اس دن بدل گئی تھی جب وہ ماہین سے دور ہو کر ثنا کے قریب ہو گیا۔ ثنا، ایک خوبصورت اور دلکش عورت، جو ہر محفل کی رونق تھی۔ زبیر نے اس کی مسکراہٹ میں اپنی سکون کی تلاش دیکھی تھی، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ تھی۔
ماہین سے علیحدگی کے بعد، زبیر نے بڑی دھوم دھام سے ثنا سے شادی کی۔ شروعات میں سب کچھ بہت اچھا تھا۔ ثنا کی رنگین طبیعت اور خوش مزاجی زبیر کو حیران اور خوش رکھتی۔ وہ اس کے ساتھ وقت گزار کر اپنے غموں کو بھولنے کی کوشش کرتا۔ لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے، زبیر کو احساس ہوا کہ ثنا کی زندگی صرف ظاہری چمک دمک اور عیش و عشرت تک محدود ہے۔
ثنا اکثر گھر سے غائب رہتی، دیر رات تک پارٹیوں میں شریک ہوتی، اور زبیر کی باتوں کو نظر انداز کرتی۔ زبیر نے کئی بار اس سے کہا، "ثنا، میں چاہتا ہوں کہ ہماری زندگی میں سکون ہو۔ تم ان دوستوں سے دور رہو جو تمہیں بگاڑ رہے ہیں۔"
ثنا ہنس کر جواب دیتی، "زبیر، تم زندگی کو بہت سنجیدہ لیتے ہو۔ مجھے خوش رہنے دو، یہ میری زندگی ہے!"
ایک رات، زبیر اپنے کام سے جلدی گھر آیا۔ اس نے سوچا کہ آج وہ ثنا کے ساتھ وقت گزارے گا اور دونوں کے درمیان جو دوریاں پیدا ہو رہی تھیں، انہیں کم کرے گا۔ لیکن جب وہ بیڈ روم کے دروازے پر پہنچا، تو اندر سے آتی ہوئی ہنسی اور سرگوشیوں کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ دروازہ آہستہ سے کھولنے پر زبیر کی آنکھیں حیرت اور غصے سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ثنا کسی اور مرد کے ساتھ بیڈ پر موجود تھی، اور وہ مرد کوئی اور نہیں، بلکہ ثنا کا پرانا دوست تھا، جس کے بارے میں زبیر کو کئی بار شک ہو چکا تھا۔
زبیر نے غصے میں دروازہ زور سے بند کیا، اور ثنا اور اس کے دوست دونوں گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ثنا نے گھبرا کر کہا، "زبیر، یہ وہ نہیں ہے جو تم سوچ رہے ہو!"
زبیر نے چیخ کر جواب دیا، "ثنا، بس بہت ہو گیا! میں نے اپنی زندگی برباد کی، ایک ایسی عورت کے لیے جو محبت کا مطلب ہی نہیں سمجھتی۔ تم نے نہ صرف میرے اعتماد کو توڑا بلکہ میری عزتِ نفس کو بھی کچل دیا۔"
ثنا نے صفائی دینے کی کوشش کی، لیکن زبیر نے اسے سننے سے انکار کر دیا۔ وہ اس وقت وہاں سے نکل گیا، اور اپنے کمرے میں بند ہو کر سوچنے لگا کہ اس نے ماہین جیسی باوقار اور محبت کرنے والی عورت کو کیسے چھوڑ دیا تھا۔
کچھ دنوں بعد، زبیر نے ثنا کو طلاق دے دی۔ اس نے اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ماہین سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ماہین اب ایک مضبوط اور خود مختار عورت بن چکی تھی۔ اس نے زبیر کو معاف ضرور کیا، لیکن اپنی زندگی میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی۔
زبیر کے لیے یہ ایک سبق تھا کہ ظاہری خوبصورتی اور وقتی دلکشی کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت اکثر دھوکہ دے سکتی ہے۔ محبت، اعتماد، اور عزت ہی کسی رشتے کی بنیاد ہوتی ہیں، اور جب یہ بنیادیں ٹوٹ جائیں، تو رشتہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ زبیر نے اپنی تنہائی کے ساتھ جینے کا فیصلہ کیا، اس امید میں کہ شاید زندگی اسے دوسرا موقع دے گی، لیکن وہ موقع اب کبھی واپس نہیں آ سکتا تھا۔
زبیر کے ساتھ تعلق ختم ہونے کے بعد، ماہین کی دنیا بکھر سی گئی تھی۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جو اپنے گھر اور شوہر کے لیے سب کچھ قربان کر چکی تھی، مگر زبیر کے بدلتے رویے اور دوسری شادی نے اسے مکمل طور پر توڑ دیا۔ طلاق کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر لوٹ آئی، جہاں ہر لمحہ اس کی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو یاد دلاتا تھا۔
ماہین نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ دن رات اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی۔ کبھی گھر کے کاموں میں، کبھی اپنی نوکری میں۔ لیکن دل کا خالی پن اور ماضی کی یادیں اسے مسلسل ستاتی رہیں۔ وہ اکثر رات کے وقت تکیے پر سر رکھ کر چپکے چپکے روتی اور سوچتی، "میں نے ایسا کیا غلط کیا تھا؟ کیا محبت دینا ہی میری غلطی تھی؟"
ماہین کی زندگی میں ایک نیا موڑ تب آیا جب عادل، اس کا کالج کا پرانا دوست، اچانک واپس آیا۔ عادل نے ہمیشہ ماہین کو پسند کیا تھا، مگر اس نے کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ماہین زبیر سے محبت کرتی ہے اور خوش ہے۔ مگر اب، جب عادل کو یہ خبر ملی کہ ماہین تنہا ہو چکی ہے، تو وہ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے اس کے پاس آیا۔
عادل نے پہلی ملاقات میں ہی کہا، "ماہین، میں جانتا ہوں کہ تم پر بہت بڑا ظلم ہوا ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی میں دوبارہ خوشی محسوس کرو۔ میں ہمیشہ سے تمہیں چاہتا تھا، اور آج بھی تمہیں ویسا ہی پسند کرتا ہوں جیسے پہلے کرتا تھا۔"
ماہین نے عادل کی بات سن کر گہری سانس لی اور کہا، "عادل، تم ایک اچھے انسان ہو، لیکن میں مرد ذات پر دوبارہ اعتماد نہیں کر سکتی۔ زبیر کے بعد میں نے یہ سیکھا ہے کہ محبت اور اعتماد صرف لفظ ہیں، حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔"
عادل نے اسے قائل کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس نے کہا، "ماہین، سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ میں تمہیں خوش رکھوں گا، تمہارے درد کو بانٹوں گا، تمہارے ساتھ زندگی کے ہر موڑ پر کھڑا رہوں گا۔"
ماہین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے کہا، "عادل، میں اب مزید کسی تعلق کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ میں نے اپنی زندگی میں بس اتنی ہی محبت دی تھی جتنی کسی انسان کے پاس ہوتی ہے، اور وہ محبت مجھے واپس دھتکار دی گئی۔ اب میں اپنی زندگی کو کسی اور کے لیے وقف نہیں کر سکتی۔ مجھے اپنی شناخت دوبارہ بنانی ہے، اپنے آپ کو تلاش کرنا ہے۔"
ماہین نے عادل کے جذبات کو سمجھا، مگر اسے صاف انکار کر دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا دل دوبارہ کسی امید یا رشتے میں بندھ جائے۔ اس نے اپنی زندگی کو نئی سمت دینے کا فیصلہ کیا۔ ماہین نے اپنی نوکری پر توجہ مرکوز کی اور اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کا سوچا۔
چند ماہ بعد، ماہین نے ایک این جی او جوائن کی، جہاں وہ ان عورتوں کے لیے کام کرنے لگی جو زبردستی شادیوں، گھریلو تشدد، اور طلاق کا شکار ہو چکی تھیں۔ وہ ان عورتوں کو ہمت اور امید دینا چاہتی تھی، کیونکہ وہ خود اس درد سے گزر چکی تھی۔
ماہین اب اپنی زندگی میں سکون محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ جان گئی تھی کہ زندگی کا مقصد صرف کسی رشتے میں خوشی تلاش کرنا نہیں، بلکہ اپنے آپ کو مضبوط اور خود مختار بنانا ہے۔
عادل، جو اب بھی ماہین کو چاہتا تھا، اسے دور سے دیکھ کر خوش ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں کامیاب اور مطمئن ہے۔ وہ جان چکا تھا کہ محبت صرف پانے کا نام نہیں، بلکہ کسی کی خوشی میں خوش رہنے کا نام بھی ہے۔
ماہین نے ثابت کر دیا کہ زندگی کا سفر چاہے کتنا بھی کٹھن کیوں نہ ہو، عورت اپنی ہمت اور استقلال سے ہر چیلنج کا سامنا کر سکتی ہے۔ وہ زبیر کے بغیر بھی مکمل تھی، اور اپنی نئی راہوں پر گامزن تھی۔
ایک دن، زبیر نے ماہین کو کال کی اور کہا، "میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیا ہم مل سکتے ہیں؟"
ماہین نے کچھ دیر سوچا اور پھر ملاقات کے لیے تیار ہو گئی۔
کافی شاپ میں، زبیر نے ماہین کو دیکھا، تو وہ حیران رہ گیا۔ یہ وہی عورت تھی، جس سے اس نے محبت کی تھی، لیکن آج اس میں ایک نئی چمک تھی۔ زبیر نے جھجکتے ہوئے کہا، "ماہین، میں نے غلطی کی۔ تم جیسی عورت کو چھوڑنا زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی۔ کیا ہم دوبارہ سے شروع کر سکتے ہیں؟"
ماہین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "زبیر، محبت کا تعلق دل سے ہوتا ہے، اور دل وہیں رہتا ہے جہاں عزت ہو۔ میں نے تم سے محبت کی تھی، اور شاید آج بھی کرتی ہوں، لیکن اپنی عزتِ نفس سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ ہماری کہانی کا اختتام یہاں نہیں ہوگا، لیکن شاید اس کا ایک نیا آغاز ضرور ہوگا۔"
ماہین نے زبیر کو معاف کر دیا، لیکن خود کو کبھی نہ بھولنے کا وعدہ کیا۔ اس نے اپنی کہانی کا مرکزی کردار بن کر اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کا فیصلہ کیا۔
0 تبصرے