وہ پاگل ہو گئی
تحریر: فرزانہ خان
تحریر: فرزانہ خان
آج وہ ایک مقامی ہسپتال میں چل بسی ہے۔ وہ میری بیوی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی رفاقت میں دس سال کا عرصہ بڑے خوشگوار طریقے سے گزارا تھا۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میری پیاری اور وفا شعار بیوی ایک روز پاگل پن کی حالت میں مجھے اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی۔ وہ ایک پڑھی لکھی اور باشعور خاتون تھی جس کی پورا خاندان تعریف کرتا تھا۔ شادی کے بعد ابتدا میں جب اوپر تلے ہماری تین بیٹیاں ہو گئی تھیں تو وہ کچھ پریشان سی ہو گئی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ اگر بیٹا نہ ہوا تو شاید میں دوسری شادی کرلوں گا مگر میں نے اُسے یقین دلا دیا تھا کہ میں زندگی بھر اسی کا ہو کر رہوں گا۔
سچ کہتا ہوں میں کہ میری بیوی روزینہ آج جبکہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے اب بھی اس کی یادیں میری زندگی کا سہارا ہیں۔ میں ابھی ایسا بوڑھا بھی نہیں ہوا کہ دوسری شادی نہ کر سکوں۔ میری تین معصوم بچیاں ہیں جن کے سر پر اب ماں کا سایہ نہیں رہا۔ مجھے عزیز رشتہ دار اور دوست اکثر مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ میں اپنی خاطر نہیں تو کم از کم بیٹیوں کی خاطر ہی دوسری شادی کر لوں مگر میں اس کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ میری بیوی پاگل پن کی حالت میں آج ایک مقامی ہسپتال میں چل بسی ہے۔ روزینہ جیسی باشعور پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی عورت پاگل کیوں ہوئی یہ ایک درد بھری داستان ہے جس کا خود میں بھی ایک کردار ہوں۔
میری یا میری بیوی روزینہ کی بربادی کی داستان کا آغاز اس روز ہوا جب تین بیٹیوں کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد کافی منتوں اور مرادوں کے بعد اللہ تعالی نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا۔ یہ بیٹا اس لئے بھی ہماری آنکھوں کا تارا تھا کہ وہ پورے خاندان کا واحد وارث تھا۔ میرے بڑے اور چھوٹے سبھی بھائی شادی شدہ تھے مگر ان میں سے کسی کے ہاں ابھی تک کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ بعض عالموں نے اس طرف اشارہ دیا تھا کہ ہمارے خاندان کے خلاف ہمارے کسی دشمن نے ایسا عمل کروا رکھا ہے کہ اس خاندان میں بیٹا پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ میں اور میری بیوی روزینہ اگر چہ پڑھے لکھے اور روشن خیال تھے مگر اس قسم کی باتوں نے ذہنی طور پر بہت پریشان کر رکھا تھا۔ ہم میں سمجھ رہے تھے کہ اولاد نرینہ ہماری قسمت میں ہی نہیں ہے لیکن ان حالات میں جب اللہ تعالیٰ نے طارق کے روپ میں ہمیں ایک گول مٹول سامنا دیا تو نہ صرف ہماری بلکہ پورے خاندان کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ وه خاندان جہاں پچھلے کئی سالوں سے بیٹیاں ہی بیٹیاں پیدا ہو رہی تھیں وہاں بیٹے کی آمد کی خبر نے پورے خاندان کو خوشیوں سے نہال کر دیا۔
ابھی میرے بیٹے طارق نے پاؤں پر چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ میری بیوی پھر امید سے ہو گئی۔ اگر چہ ہم اتنی جلدی مزید بچہ نہیں چاہتے تھے مگر قدرت کی مرضی میں کوئی دخل بھی تو نہیں دے سکتا۔ ایک بار میرے جی میں آئی کہ ہم آنے والے کو روکنے کی غیر فطری کوشش کریں مگر پھر نہ جانے کیا سوچ کر ہم اپنے اس ارادے سے باز رہے۔
میرا بیٹا طارق ابھی ڈیڑھ برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ جب اللہ تعالی نے مجھے ایک اور بیٹا عطا کر دیا لیکن اسے گود میں لیتے ہی میری اور میری بیوی کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ وہ پیدائشی طور پر معذور تھا۔ معذور سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذہنی اور جسمانی حالت نارمل نہ تھی۔ دوسرے بیٹے کی پیدائش پر میری بیوی بڑی خوش ہوئی تھی کہ چلو اللہ تعالی نے چاند سورج کی جوڑی ملادی ہے مگر اس کی معذوری دیکھ کر ہمارے دل کے ارمان دل ہی میں رہ گئے۔ اپاھچ بیٹا دے کر قدرت نے ہمیں کس جرم کی سزا دی تھی۔ یہ میں جانتا تھا اور نہ میری بیوی۔
بہر حال یہ ایک ایسا دائمی روگ تھا کہ جس نے ہمارے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لی ہمارے گھر کا سکون برباد کر دیا۔ اس درد کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جوخود ایسے ناگزیر حالات کا شکار رہے ہوں۔ ہمارا یہ معذور بیٹا زاہد بچپن ہی سے بہت صحت مند مگر تشدد پسند تھا۔ بعض اوقات وہ ایسی عجیب و غریب حرکتیں کرتا کہ ہم دونوں لرز کر رہ جاتے تھے۔ ہم تو جیسے تیسے گزارا کر لیتے مگر ہمارے اس معذور بیٹے کا سلوک ہمارے بڑے بیٹے طارق اور دوسری بہنوں کے ساتھ ایک طرح سے نا قابل برداشت تھا۔ خاص طور پر اپنے بڑے بھائی کو دیکھ کر تو ہمارا معذور بیٹا زاہد آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ طارق کو بھنبھوڑ کر رکھ دے۔ ضرورت سے زیادہ خوراک نے اسے بہت قریہ کر دیا تھا۔ ہر ایک گھنٹے کے بعد دودھ مانگتا اور نہ ملنے پر چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیتا۔
میری بیوی روزینہ جو اس کی ماں تھی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ساری ضرورتیں پوری کرنے اور اس کی حرکتیں برداشت کرنے پر مجبور تھی۔ جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور اس نے باقاعدہ کھانا شروع کیا تو ایک اور عذاب گلے پڑ گیا۔ زاہد بارہ بارہ کیلے ایک ہی وقت میں کھا لیتا۔ کھیر کا پورا ڈونگا خالی کر دیتا۔ نہ جانے کیسا دوزخ تھا جو بھرنے میں ہی نہیں آتا تھا۔ فرج میں کوئی بھی چیز سلامت نہیں رہتی تھی۔ حد سے زیادہ خوراک نے اسے بہت زیادہ مضبوط اور طاقتور بنا دیا تھا۔ جبکہ ہمارا بڑا بیٹا طارق اس کے سامنے کمزور اور سہمی ہوئی بکری دکھائی دیتا تھا۔ اس معذور بیٹے زاہد نے مجھے اور میری بیوی کو اپنے گرد ایسا الجھایا ہوا تھا کہ ہم اپنے بڑے معصوم اور پیارے سے بیٹے طارق پر پوری توجہ ہی نہیں دے سکتے تھے۔ وہ بیچارہ تو اپنی جان کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ کسی ان دیکھے خدشے اور خوف کے تحت ہر وقت میرا اور میری بیوی کا دل جکڑا رہتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ سوتے ہوئے میری بیوی اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی اور اپنے بڑے بیٹے طارق کو ٹٹولنے لگتی۔ اسے وہم سالگ گیا تھا کہ جیسے اس گھر میں کچھ ہونے والا ہے۔ میں اسے اکثر حوصلہ بھی دلاتا رہتا تھا کہ سب معاملہ رفتہ رفتہ ٹھیک ہو جائے گا مگر وہ ایک ماں تھی اس لئے اولاد کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حساس تھی۔ طارق جب چار سال کا ہوا تو اسے نرسری میں داخل کروا دیا گیا۔ اب کم از کم اتنا ہوا کہ وہ دو پہر بارہ بجے تک اپنے معذور بھائی زاہد کی دست برد سے محفوظ رہتا مگر جب وہ پتلا دبلا اور کمزور سالڑ کا واپس گھر آتا تو میری بیوی کو پھر یہی فکر دامن گیر ہونے لگتی کہ کہیں زاہد اپنے بڑے بھائی کو کوئی نقصان نہ پہنچادے۔
وقت گزرتا رہا۔ طارق کے صبر اور زاہد کی تشدد پسندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہر روز جب میں دفتر سے آتا تو مجھے زاہد کے بارے میں کئی کئی باتیں معلوم ہوتیں۔ تشدد اور بے رحمی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میری بیوی کے بقول وہ صرف طارق کو اذیت دینے میں تامل نہیں کرتا تھا بلکہ بعض اوقات تو اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال لیتا تھا مگر میری بیوی ماں ہونے کے ناطے سے اس معذور کو سمجھانے یا ڈانٹنے سے بالکل قاصر تھی۔ کئی بار زاہد نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ طارق کو بھی بری طرح سے زخمی کیا۔ ایک دفعہ مالی باغ میں کام کر رہا تھا۔ جمعے کا دن تھا میں بھی باغ کے ایک گوشے میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ مالی کام میں مشغول تھا۔ رمبا اس کے پاس دھرا تھا۔ زاہد نہ جانے کیسے ماں کی نظر سے بچ کر یہاں باغ میں پہنچ گیا تھا۔ طارق نے اچک کر رمبا اٹھایا اور مالی کے سر پر دے مارا۔ غریب آدمی چشم زدن میں لہو لہان ہو گیا۔ ایسے واقعات نے مجھے اور روزینہ کو بہت دل گرفتہ کر دیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم نے زندگی میں کوئی بہت بڑا جرم کیا ہے۔ قدرت نے جس کی سزا زاہد بیٹے کی صورت میں ہمیں دی تھی۔
ایک روز زاہد کتابوں کی الماری کا ہینڈل پکڑ کر لٹک گیا۔ الماری کے نیچے دب جانے سے اس کی کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہم نے کیسے اس صورت حال کا مقابلہ کیا اور اس کا کس طرح سے علاج کروایا یہ ایک الگ داستان ہے۔ زاہد کی وجہ سے گھر کی حالت بہت ابتر تھی۔ کوئی چیز بھی اپنی اصلی حالت میں نہ رہی۔ ٹوٹ پھوٹ کا یہ عالم تھا کہ الامان الحفیظ۔ عقل کام نہیں کرتی تھی کہ کیا کریں۔ کئی دفعہ عزیز و اقارب نے سمجھایا کہ زاہد کو دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیں۔ میں تو اس پر آمادہ بھی ہو گیا تھا مگر میری بیوی ایسی کوئی تجویز سننے کو بھی تیار نہ تھی۔ حالانکہ ہر وقت کی توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ سے بھر پور وارداتوں کی وجہ سے اس کا دل بہت کمزور پڑ چکا تھا۔ آخر ہر روز کی کل کل سے تنگ آکر ایک روز میں نے اور میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ زاہد کو کمرے میں بند کر کے رکھا کریں مگر اس میں یہ قباحت تھی کہ کمرے میں بند ہونے کے بعد وہ اتنا شور مچاتا کہ جان منہ کو آجاتی۔ ہم اس کو تالے میں بند رکھتے تھے لیکن وہ ہر وقت دروازہ پیٹتا رہتا۔ اس دن رات کی بے سکونی نے رفتہ رفتہ میری بیوی کی صحت کو متاثر کرنا شروع کر دیا اور ہائی بلڈ پریشر کی شکایت میں مبتلا ہو گئی۔
اس صورت حال سے تنگ آکر آخر ایک روز ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ زاہد کو ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے۔ پورے خاندان کو برباد کرنے سے بہتر ہے کہ اسے اس کے مقدر کے سپرد کر دیا جائے۔ میری بیوی بھی میرے مجبور کرنے پر بادل نخواستہ رضامند ہو گئی۔
ایک روز جب میں دفتر گیا ہوا تھا میری بیوی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سکون آور دوا لے کر سونے چلی گئی مگر اس سے پہلے حسب معمول اس نے زاہد کو کمرے میں بند کر کے تالا لگا دیا اور چابیاں اپنے تکئے کے نیچے رکھ کر سو گئی۔ ان ادویات کی وجہ سے وہ اتنی گہری نیند سوئی کہ اسے یہ پتہ ہی نہ چل سکا کہ اس گھر پر کیا قیامت بیت گئی ہے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ جب روزینہ سکون آور دوا لے کر گہری نیند سو رہی تھی تو میرے معذور بیٹے زاہد نے جو کمرے میں بند تھا اس نے بے تحاشا شور مچانا شروع کر دیا اور وہ اس زور سے دروازہ پیٹنے لگا کہ میرے بڑے بیٹے طارق سے چھوٹے بھائی کا چیخنا چلانا برداشت نہ ہو سکا۔ اس نے چپکے سے ماں کے نیکیئے کے نیچے سے کمرے کی چابیاں نکالیں اور نہ جانے کیسے صحیح نمبر کی چابی ڈھونڈ کر اس کمرے کا دروازہ کھول دیا جس میں زاہد بند تھا۔ پھر اس کے بعد کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا۔ میری بڑی بیٹی صائمہ جو اپنے کمرے میں اسکول کا کام کر رہی تھی اس نے جب یہ دلدوز چیخ سنی تو وہ دیوانہ وار کمرے کی طرف دوڑی۔ اس نے دیکھا کہ طارق یعنی میرا بڑا بیٹا زمین پر گرا ہوا ہے اور زاہد اس کی چھاتی پر بیٹھا دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا دبا رہا ہے۔ بمشکل تمام میری بیٹی نے زاہد کو پیچھے ہٹایا۔ نہ جانے اس میں ایک ناقابل یقین جناتی قوت کہاں سے عود کر آئی تھی۔ صائمہ نے طارق کو اٹھایا اور بستر پر لٹا دیا۔ بھائی کو بے حس و حرکت دیکھ کر وہ گھبرا گئی اور دوڑی دوڑی اپنی ماں کے پاس گئی اور اسے جھنجوڑ کر جگایا ۔ ماں کو صائمہ نے بتایا کہ طارق بیہوش ہو گیا ہے۔ میری بیوی یہ سن کر دیوانی ہو گئی اور بے اختیار طارق کی طرف لپکی۔ اس نے طارق کو جب بغور دیکھا تو اس کی بے جان آنکھیں ایک ہی سمت رکی ہوئی تھیں۔ فرشتوں جیسا تقدس اور پاکیزگی اس کے چہرے پر تھی۔ اسے یوں لگا جیسے ننها طارق کہہ رہا ہو کہ امی آپ میری حفاظت کا بھاری بوجھ نہیں اٹھا سکی تھیں اس لئے میں نے آپ کو اس بوجھ سے آزاد کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں |
نوٹ: یہ سچ پر مبنی کہانی ہے
(ختم شد)
0 تبصرے