سلطان پور آ کر میں بہت پریشان ہوئی۔ یہاں رہائش کے لیے جو کوٹھی ہمیں ملی تھی، اس کے چاروں طرف درخت ہی درخت تھے۔ جھنڈ کے جھنڈ مست ہاتھیوں کی طرح جھولتے تھے۔ درختوں سے روح خوش ہوتی ہے، پیڑ کی ہریالی دل میں ٹھنڈک اور آنکھوں کو تراوٹ بخشتی ہے، مگر اس وہم کا کیا کروں کہ مجھے رات کو جھاڑ جھنکار دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ لگتا ہے جیسے بہت سے دیو اٹھ کر آ گئے ہوں یا چڑیلیں بال کھولے کھڑی ہوں۔
پتوں اور ٹہنیوں میں رات کے وقت جو ہواں کی آواز سنائی دیتی ہے، وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی اور میں ڈر جاتی ہوں۔ درخت اندھیری فضا میں کالے گہرے دھبے بن جاتے ہیں۔جہاں میں درختوں سے ڈرتی تھی، وہاں راجو انہیں دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ درختوں پر چڑھنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ درختوں کی ٹہنیوں میں اٹک کر سو گیا اور ہم اس کو سارے گھر میں ڈھونڈتے پھرے۔ پہروں بعد کہیں جا کر نظر پڑی تو نوکروں نے اتارا۔ جانے اسے ٹہنیوں میں پھنس کر نیند کیسے آ جاتی تھی۔ اس کے گرنے کے ڈر سے میں نے گھر کے درخت کٹوا دیے تھے، لیکن یہاں تو درختوں کا پورا ایک جنگل تھا، جس نے چہار اطراف سے ہماری کوٹھی کو گھیرا ہوا تھا۔ ایک دو ہوتے تو کٹوا دیتی۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ بچے بہت سے کھیل کھیلتے ہیں۔
یہ بچوں کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ کھیل کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کھیل کود کو ان سے جدا کر دیا جائے تو یہ ایسا ہو گا جیسے پھول سے اس کی خوشبو یا انسان کے جسم سے اس کی روح کو الگ کر دیا جائے۔ بچے تو کھیل کے بغیر دو دن میں مرجھا جاتے ہیں، مگر اس کا کیا ہو کہ طفل نادان سوائے درختوں پر چڑھنے کے کوئی اور کھیل ہی نہ کھیلے۔ ہر وقت تو یہ ایسا ہو گا جیسے پھول سے اس کی خوشبو یا انسان کے جسم سے اس کی روح کو الگ کر دیا جائے۔ بچے تو کھیل کے بغیر دو دن میں مرجھا جاتے ہیں، مگر اس کا کیا ہو کہ طفل نادان سوائے درختوں پر چڑھنے کے کوئی اور کھیل ہی نہ کھیلے۔
ہر وقت ٹہنیوں کو پکڑے بندر کی طرح جھول رہا ہے۔ بار بار درخت کی اس شاخ سے اچک کر اس شاخ پر، کبھی اس پھنگ پر اور ذرا سا پاؤں رپٹ جائے تو؟ اکثر درختوں کی شاخیں کچی ہوتی ہیں، ذرا سا بوجھ نہیں سہار سکتیں اور موم کی طرح ٹوٹ جاتی ہیں۔ مگر مجال ہے کہ راجو کو گرنے سے خوف آتا ہو۔ کبھی جو ہمارے گھر مہمان آجاتا اور راجو کو درخت پر چڑھے دیکھ لیتا تو ششدرہ جاتا کہ اتنا سا بچہ اور ایسی جرات! تنوں پر یوں چڑھتا چلا جاتا کہ گلہریاں بھی کیا چڑھتی ہوں گی، جیسے کوہ پیما پہاڑوں پر چڑھتے ہیں۔ میں تو سوچتی تھی کہ کہیں راجو کے بدن میں کسی بندر کی روح نہ حلول کر گئی ہو۔اس روز میں نے بہت کام کیا۔ شام کو تھکن طاری ہو گئی، ذرا دیر کو لیٹ گئی۔
خود بخود آنکھیں بند ہو گئیں اور نیند کے نشے نے سارے وجود کو جکڑنا شروع کر دیا۔ مجھے دن میں سونے کی عادت نہیں تھی مگر سو گئی۔ جانے کب مجھے نیند آ گئی اور وہ اٹھ کر چل دیا۔ گھر میں اس وقت میرے اور ننھی سجو کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ راجو کے پاپا سرکاری کام سے جیپ لے کر چھاؤنی گئے ہوئے تھے۔ بوڑھا چوکیدار شام کو دو گھنٹے کی چھٹی لے گیا تھا۔ کچھ شور سنا، میری آنکھ کھل گئی۔ گھر کے باہر ایک ہجوم تھا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور شور مچ رہا تھا۔لان میں کتے کی غضبناک غرار سنائی دے رہی تھی۔ ایسی غرار میں نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں سنی تھی۔ لگتا تھا کہ کوئی بلا بپھر گئی ہے۔
ہمارے گھر اور پڑوس میں، کوئی پالتو کتا تھا، پھر شور تھا کہ سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ ہماری کوٹھی بھی کافی اونچائی پر بنی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے جھانکا۔ مجھے احاطہ کی دیوار سے ادھر لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ لوگ چلا رہے تھے۔ ہٹو بچو! سامنے مت جانا، کتا پاگل ہو گیا ہے!کتا پاگل ہو گیا ہے؟ اس ایک فقرے نے مجھے جیسے خواب ناکی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال لیا۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہی کتا پاگل ہے جو ہمارے صحن میں غرا رہا ہے۔ گیٹ تو بند تھا، پھر یہ لان میں کیسے آگھسا؟ تبھی مجھ کو راجو کا خیال آگیا۔ جب میں سونے کو لیٹی تھی، وہ اپنے پلنگ کے قریب فرش پر بیٹھا ہوم ورک کر رہا تھا۔
راجو کا سراپا بجلی کی طرح میرے حواس پر کوندا اور میں نے لپک کر برابر والے کمرے میں جھانکا، جہاں اس کی کتابیں فرش پر پڑی تھیں، مگر وہ غائب تھا۔کیا کوئی ماں ایسے لمحات کا تصور کر سکتی ہے، جب اس کے گھر کے لان میں پاگل کتا کھلا ہوا ہو اور اس کا لخت جگر کمرے میں نہ ہو؟ سب سے پہلے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا، کہ سجو پالنے میں سورہی تھی، پھر الماری میں سے قرآن مجید نکال کر سینے سے لگا لیا اور راجو کی سلامتی کے لیے دعا کرتی، لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ اب یہاں جو نظارہ دیکھا، وہ میری روح کھینچ لینے کو کافی تھا-کتا ایک درخت کے تنے کے پاس کھڑا غرا رہا تھا۔
اس کے منہ سے ہری ہری رال ٹپک رہی تھی اور راجو درخت کی دو پتلی شاخوں کے درمیان لٹک رہا تھا۔ شاخیں اتنی کمزور نظر آ رہی تھیں کہ کسی بھی ساعت ٹوٹ سکتی تھیں۔ اس کے بعد راجو کا کیا بنتا؟ میں اس بات کو اس وقت لکھنا پسند نہ کروں گی جب کہ اس واقعہ کو بہت سے برس بیت چکے ہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مجھے راجو کی موت کا یقین ہو گیا تھا۔ ہاتھ دعا کو اٹھتے نہ تھے۔ دل سے دعا نکلتی، مگر لبوں تک آ کے الفاظ ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتے تھے، پھر بھی میں سراپا دعا بنی خدا کے حضور گڑگڑا رہی تھی، اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔کتا بپھرا ہوا تھا۔ وہ اس دیوار سے اس دیوار تک دیوانہ وار بھاگ رہا تھا اور ایسی بری آواز میں غراتا اور بھونکتا تھا، جیسے اس کے اندر آوازوں کا طوفان خود اس کے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔
لوگ دیوارے اُدھر شور مچارہے تھے۔ انہوں نے میری کوٹھی کا بیرونی گیٹ بھی باہر سے بند کر دیا تھا تاکہ کتا باہر آئے ان پر حملہ نہ کر دے، کسی میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اندر آ کر اس موذی کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔ میری یہ حالت تھی کہ ایک لمحہ اور یہ نظارہ دیکھتی تو وہیں گر کر جان دے دیتی۔ سجو پالنے میں اٹھ گئی تھی اور بری طرح چلارہی تھی، مگر مجھے کسی بات کا ہوش نہ تھا سوائے اس کے کہ کوئی غیر مرئی طاقت آج میرے راجو کو بچالے۔ وہ اس حالت میں لٹک رہا تھا کہ نہ تو ہاتھ چھوڑ کر کسی مضبوط شاخ کو پکڑ سکتا تھا اور نہ ہی نیچے آ سکتا تھا۔
جونہی درخت کی وہ شاخ ٹوٹی جو راجو کی گرفت میں تھی، میں وہیں زمین پر گر پڑی۔ تر آں پاک میرے سینے کے ساتھ پیوست تھا۔ میں نے مضبوطی سے اپنی آنکھیں بند کر لی کہ اب جو بھی ہو، میں یہ نظارہ نہ دیکھ سکوں گی۔ بھلا، بیٹا ماں کی آنکھوں کے سامنے درخت سے گر کر پاگل کتے کے سامنے آ پڑے تو کون سی عورت یہ منظر دیکھنے کی تاب رکھتی ہے؟ اس کے بعد میں نے کچھ سوچے بغیر کمرے کا دروازہ کھول دیا کہ جا کر اس پاگل کتے سے لپٹ جاؤں کہ وہ راجو کو نہ کاٹ سکے۔آج سوچتی ہوں کہ اگر اس وقت راجو کے پاپا واپس نہ آگئے ہوتے اور ان کے پاس بندوق نہ ہوتی، تو میں راجو کے لیے شاید جان سے بھی چلی جاتی۔ انہوں نے دور سے تاک کر کتے کو نشانے پر لیا اور وہ موذی وہیں ڈھیر ہو گیا۔
اسی وقت راجو کی قوت برداشت نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ نو دس برس کے بچے کی اس سے زیادہ کیا ہمت ہو گی کہ وہ بیس منٹ تک باؤلے کتے کے عین اوپر دو شاخوں کے درمیان لٹکا رہا تھا۔ وہ بھی کتے سے ذرا فاصلے پر زمین پر آ رہا تھا۔ راجو کے پاپا نے لپک کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اسے یوں گود میں لیا، جیسے وہ پہلے دن پیدا ہوا تھا اور انہوں نے اسے اٹھایا تھا۔ واقعی اس دن میرا نور نظر دوبارہ پیدا ہوا تھا۔ کس کو یقین تھا کہ وہ بچ جائے گا؟ یہ ایک معجزہ ہی تھا۔بعد میں راجو نے بتایا کہ جونہی میں اپنے دوست سہیل کے گھر جانے کو گیٹ سے نکلا، کتا آتا دکھائی دیا۔ اس کے پیچھے کچھ بچے شور مچا رہے تھے کہ ہٹو، ہٹو، کتا پاگل ہے۔
یہ سنتے ہی میں گھر کی طرف پلٹ پڑا، لیکن لوگوں کے شور کی وجہ سے کتا میرے پیچھے ہی ہمارے لان میں آ گیا۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آیا، بس بھاگ کر درخت پر چڑھ گیا اور جو نزدیکی شاخیں میرے ہاتھ لگیں، انہیں پکڑ لیا۔ اس طرح میں دو شاخوں کے بیچ جھول گیا۔ کہنے لگا، دیکھو امی، آپ کہتی تھیں درخت پر چڑھنا بری بات ہے، کبھی یہ درخت تیری جان نہ لے لیں، مگر آپ کا کہا الٹ ہو گیا۔ درخت پر چڑھنے کی مہارت نے میری جان بچا لی۔میں اور میرے شوہر نے خدا کا شکر ادا کیا۔ واقعی درخت پر چڑھنے کی مشق نے میرے بچے کی جان بچا لی تھی، ورنہ تو آج زندگی کے سب ناتے تمام ہو چکے تھے کیونکہ لوگوں نے ہماری کوٹھی کے گیٹ کو باہر سے بند کر دیا تھا تاکہ کتے کو لان میں ہلاک کیا جا سکے۔
انہیں علم نہیں تھا کہ معصوم بچے کی زندگی خطرے میں ہے اور وہ درخت کی شاخوں میں جھول رہا ہے۔ بے شک اللہ جس کی زندگی رکھے، کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
0 تبصرے