Subscribe Us

محبت مل جاتی ہے

Urdu Font stories 21

میں نازوں پلی، تعلیم کی اہمیت سے بے نیاز، کھیل میں وقت گزار رہی تھی۔ کالج میں داخلہ لیا تو وہاں میری دوستی سونیا سے ہو گئی۔ وہ سچ مچ اپنے نام جیسی خوبصورت تھی۔ میں پڑھائی میں کمزور تھی، لیکن وہ ہر طرح سے میری مدد کرتی۔ اس کا گھر کالج کے قریب تھا، اس لیے میں اکثر چھٹی کے بعد اس کے گھر چلی جاتی۔ سونیا کے گھر کے پاس میرے چچا کا گھر تھا اور قریب ہی اُن کا جنرل اسٹور تھا، جس پر ان کا بیٹا عاطف بیٹھتا تھا۔ 

سونیا اس کے جنرل اسٹور سے ضرورت کی اشیاء خریدتی تھی۔ جب کبھی میں سونیا کے ساتھ کالج سے واپس جاتے ہوئے اسٹور کے سامنے سے گزرتی، تو وہ ہماری طرف غور سے دیکھتا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ میری طرف دیکھتا ہے یا سونیا کو۔ چونکہ میرا بچپن سے اس کے ساتھ رشتہ طے تھا، اس لیے میں سوچتی تھی کہ اگر اس کی عادت لڑکیوں کو تاکنے کی ہے، تو یہ بہت بری عادت ہے۔ میں ایسے لڑکے کے ساتھ زندگی کیسے گزار سکتی تھی، جو ہر آنے جانے والی لڑکی کو نظروں میں رکھتا ہو؟ایک دن میں نے سونیا سے اپنے ان خدشات کا ذکر کیا، تو وہ بولی کہ تم منگنی سے پہلے اس سے ایک بار مل کر بات کر لو۔ اگر وہ تمہیں چاہتا ہے، تو منگنی کے لیے ہاں کرنا، ورنہ انکار کر دینا۔ 

وہ شیمپو خریدنے کے بہانے مجھے اس کی دُکان پر لے گئی۔ اس روز میں گھبراہٹ میں عاطف سے بات نہیں کر سکی۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا تھا، لیکن میں دور کھڑی رہی۔ سونیا شیمپو لے کر آئی تو اس نے عاطف سے کہا کہ بھیا، یہ تمہاری رشتہ دار ہے، کیا پہچانتے نہیں؟ وہ کہنے لگا کہ خوب اچھی طرح پہچانتا ہوں، مگر یہ مجھے نہیں پہچان رہی، تو بات کیسے کروں؟ یہ تمہارے بارے میں کچھ جاننا چاہتی ہے۔ اگر آپ مہربانی کریں، تو میں آپ کے گھر پر ان سے بات کر سکتا ہوں؟ دکان پر لوگ آتے جاتے ہیں، شاید یہ یہاں مجھ سے بات کرنا پسند نہ کریں۔میں باہر کھڑی تھی۔ سونیا میرے پاس آئی اور عاطف کی بات بتائی۔ 

میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں بات کر لوں گی۔ مگر تم اپنی امی کو کیا کہو گی؟ وہ پریشان ہوں گی۔ وہ بولی کہ امی کچھ نہیں کہیں گی۔ خیر، اس دن بات آئی گئی ہو گئی۔کچھ دن بعد میں نے امی ابو کی گفتگو سنی، جو عاطف کے بارے میں تھی۔ امی کہہ رہی تھیں کہ بہت اچھا لڑکا ہے، گریجویٹ ہے، اپنا جنرل اسٹور ہے، ادھر ادھر آوارہ پھرنے والا بھی نہیں ہے۔ تم اپنے بھائی سے کہو کہ اب عاطف سے ہماری بیٹی کا رشتہ پکا کر دیں۔ جب تک بات پکی نہ ہو، بچپن کی باتیں کچی پکی ہوتی ہیں۔یہ باتیں سن کر میرے دل کی کیفیت عجیب ہو گئی۔ میں نے سونیا کو یہ سب بتایا، تو وہ بولی کہ تم منگنی سے انکار مت کرنا۔ واقعی عاطف ایک اچھا لڑکا ہے۔ میرا بھائی بھی اس کی تعریف کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ سونیا، وہ پتہ نہیں کس کو پسند کرتا ہے؟ تم دیکھتی نہیں، کالج کی کتنی لڑکیاں اس کی دُکان سے چیزیں خریدتی ہیں؟ وہ ہر ایک سے ہنس ہنس کر بات کرتا ہے۔

سونیا نے جواب دیا کہ اچھا دکاندار بااخلاق ہوتا ہے۔ اپنا کاروبار چلانے کے لیے اسے ایسا رویہ رکھنا پڑتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خراب کردار کا ہے۔بہرحال کسی طرح سونیا نے عاطف سے میری بات کروائی، تب اس نے بتایا کہ دو سال پہلے بڑے تایا میرے والد کے پاس آئے اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کہیں دور نہ جائے، اس لیے تم اسے اپنی بہو بنا لو۔ میرے ابو نے کہا کہ پھر منجھلے بھیا کو کیا جواب دوں گا؟ کیونکہ میری بیوی تو عالیہ کو بہو بنانا چاہتی ہے۔ تایا نے کہا کہ اُسے میں اپنے بیٹے کے لیے لے لوں گا، لیکن میری بیٹی کا اور کوئی رشتہ نہیں ہے۔ وہ خاندان سے باہر کہاں جائے گی، لہذا ثمینہ کا رشتہ عاطف کے لیے لینا ہی ہوگا۔تایا کی مجبوری سمجھتے ہوئے عاطف کے والد نے بڑے بھائی کے آگے سر جھکا لیا اور عاطف نے اپنے باپ کے آگے، لیکن دو سال بعد تائی نے بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ 

تایا بیمار تھے، وہ چل بسے تو یہ کہانی ختم ہو گئی۔ اب تائی خود مختار تھیں۔ ایک روز انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں ثمینہ کا رشتہ اپنے بھائی کے لڑکے کو دوں گی، تم لوگ امید نہ رکھنا۔ وہ عاطف کے والدین کو ذلیل کر کے چلی گئیں۔عاطف نے بتایا کہ تائی کے انکار کے بعد میں نے اپنے والدین سے کہا کہ آپ نے پہلے عالیہ کا رشتہ نہیں لیا تھا، اب اسی کو بہو بنا لیں۔ یہ میں نے اس وجہ سے کہا کہ میں نے تمہیں ہی اپنے خوابوں میں بسا لیا تھا اور ہرگز بھی ثمینہ سے شادی نہ کرنا چاہتا تھا۔ شکر کیا کہ اس کی ماں نے خود انکار کر دیا تھا۔

عاطف کے منہ سے یہ سن کر میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ آج جا کر امی جان کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دوں گی۔ اب میں جتنا عاطف کے بارے میں سوچتی، وہ میرے دل میں اترتا جاتا تھا، لیکن بڑے تایا پر حیرت ہوتی تھی کہ میرا رشتہ ہٹا کر اپنی بیٹی ثمینہ کے لیے عاطف کے والدین کو آمادہ کرتے ہوئے ذرا بھی میرے والد صاحب کا خیال نہ کیا۔ہوتا وہی ہے، جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ اب میں کالج جاتی تو جی چاہتا کہ عاطف سے ملوں۔ وہ بھی میرے انتظار میں رہتا تھا۔ جس روز جلدی چھٹی ہو جاتی، میں سونیا کے ساتھ اس کی دُکان پر چلی جاتی۔ سونیا اس معاملے میں میری ہم نوا تھی اور میرا ساتھ دے رہی تھی۔ مجھے اپنی منزل سامنے نظر آ رہی تھی، اس لیے دل شاد رہتا تھا۔پھر وہ دن بھی آ گیا، جب عاطف کے والدین رشتہ لینے آگئے۔ امی ابو کو تو برسوں سے اسی لمحے کا انتظار تھا، انہوں نے فوراً ہاں کر دی۔ میں ہواؤں میں اُڑ رہی تھی، دل میں لڈّو پھوٹ رہے تھے اور چہرے پر سنجیدگی کی اداکاری کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دن رات آنکھوں میں خواب سجے رہتے تھے۔

اُن دنوں میں سونیا کو ہر بات بتایا کرتی تھی۔ وہ میرے دلی جذبات سے پوری طرح واقف تھی۔ میں تب سوچا کرتی تھی کہ میری کوئی بہن نہیں ہے، سونیا نے یہ کمی پوری کر دی ہے۔ واقعی، اچھے دوست نعمت ہوتے ہیں اور انسانی رشتوں میں دوستی سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔میری منگنی ہو گئی۔ اب سالانہ امتحان کا انتظار تھا۔ منگنی کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اب میرا مستقبل محفوظ ہو چکا ہے۔ کیا خبر تھی کہ زندگی میں ایک کٹھن موڑ بھی آنا ہے۔ایک دن پھوپھو نے اپنے صاحبزادے کے لیے میرا رشتہ طلب کیا۔ امی نے بتایا کہ عالیہ کی منگنی عاطف سے ہو چکی ہے۔ وہ کہنے لگیں تم نے کیسے ان فریبی رشتہ داروں سے رشتہ جوڑ لیا؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ بڑے بھائی نے چپکے چپکے اپنی بیٹی ثمینہ کا رشتہ عاطف سے پکا کر لیا تھا اور تم لوگوں کو خبر بھی نہ ہونے دی؟ تم لوگ اپنے خیالوں میں مگن تھے، اُدھر عاطف اور ثمینہ کی شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی۔ وہ تو خدا کی مرضی نہ تھی، جو عین وقت پر بڑے بھائی کی وفات ہو گئی اور ان کی بیوی کی بن آئی، ورنہ آپ لوگ حیرت سے ہاتھ مل رہے ہوتے۔

یہ باتیں سن کر میرے والد کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ بولے ایسا نہیں ہو سکتا۔پھوپھو نے کہا اگر سچ ہوا تو؟ تب میں چھوٹے بھائی سے ہر ناتا ختم کر دوں گا اور عالیہ کا رشتہ تمہیں دے دوں گا، کیونکہ تم بھی کوئی غیر نہیں، بلکہ میری بہن ہو۔ وہ تو دل سے ایسا چاہتی تھیں۔ادھر سے چغلی کر کے وہ عاطف کے والدین کے پاس گئیں اور کہا تم لوگوں نے منجھلے بھائی سے فریب کیا۔ ان سے منگنی کی بات کر کے بڑے بھائی سے ثمینہ کا رشتہ لے لیا۔ اب اس بے وفائی کی معافی مانگو، ورنہ وہ تم لوگوں سے ناتا ختم کر دیں گے۔عاطف کے والدین گھبرا کر دوڑے ہوئے ابو کے پاس آئے اور اقرار کیا کہ انہوں نے بڑے بھائی کی بیماری کے پیشِ نظر ان کی بات مان لی تھی اور اب اس بات پر شرمندہ ہیں اور معافی طلب کرنے آئے ہیں۔ ابو نے انہیں معاف کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ پھوپھو نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ بڑے تایا کی دولت دیکھ کر عاطف کے والدین پھسل گئے تھے۔ 

ابو اس وجہ سے اپنے چھوٹے بھائی سے بدظن ہو گئے۔انہوں نے عاطف سے منگنی توڑ کر پھوپھو کے بیٹے کمال سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اچانک سب کچھ یوں ہو جائے گا۔ جب مجھے پتا چلا، تو میں پچھاڑ کھا کر بستر پر گر گئی اور کافی دیر بے ہوش رہی، جیسے کسی پیارے کی موت کی خبر سن لی ہو۔ مگر میری حالت پر کسی کو رحم نہ آیا۔ الٹا امی مجھے سمجھانے آ بیٹھیں۔بیٹی، بچپن سے آج تک ہم نے تیری ہر خواہش پوری کی ہے، لیکن اس معاملے کو ہم ہی حل کریں گے۔مگر ماں، مجھے کمال سے شادی نہیں کرنی! مجھے پھوپھو پسند ہیں اور نہ ان کا بیٹا۔ مجھے ان کا سارا گھرانہ ناپسند ہے۔ میں ان کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکوں گی۔بیٹی، بے وفا لوگوں میں بھی تو رشتہ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ تمہارے چچا لالچی اور بے وفا ہیں۔ کل کسی اور دولت مند گھرانے کو دیکھ کر تمہیں واپس یہیں چھوڑ جائیں گے، تو کیا ہوگا؟میں نے رو رو کر کہا امی، یہ آپ لوگوں کی غلط فہمی ہے۔ ایسا نہیں ہے، وہ سب اچھے لوگ ہیں۔ پھوپھو کا خاندان اچھا نہیں ہے، وہ دولت کے پجاری ہیں۔لیکن والدہ کو میری بات سمجھ بھی آ گئی ہو، تب بھی وہ والد کو نہ سمجھا سکیں۔ 
یوں آنِ واحد میں سپنوں کا محل ڈھیر ہو گیا۔ عاطف اور اس کے والدین نظروں سے گرا دیے گئے۔ میں اس فیصلے کے خلاف کچھ نہ کر سکتی تھی۔ بیٹیوں کو والدین کے آگے بولنے کا حق نہیں ہوتا۔ گو کہ میں ان کی پیاری اور اکلوتی بیٹی تھی، لیکن جہاں والدین کی عزت ہو، وہاں قانون بھی سخت ہوتا ہے۔اب میں عاطف سے کیا کہوں؟ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کا سامنا کروں یا نہ کروں۔ اگر کروں، تو کیا کہوں؟ بالآخر میں نے سونیا سے مدد کی درخواست کی۔سونیا نے اپنے گھر پر مجھے عاطف سے ملوا دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ مجبوریاں ہیں۔ پھوپھو نے مجھے حاصل کرنے کے لیے چال چلی تھی، لیکن میں اب بھی تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں اور تم ہی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔میں وقت اور حالات کے ایسے دوراہے پر کھڑی تھی کہ ایک طرف میرے والدین کی عزت تھی اور دوسری طرف محبت۔ اور محبت بھی کسی غیر سے نہیں، اپنے چچا زاد اور منگیتر سے تھی، جس سے محبت کرنے کا مجھے حق تھا۔میں سخت پریشان تھی۔ غم کی شدت سے بات نہ کر پا رہی تھی، لیکن وہ ایک سنجیدہ انسان تھا۔ اس نے کہا دیکھو عالیہ، تمہیں میرے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یوں بھی میں نے خوشی نہیں دیکھی۔ غموں سے کھیل کر جوان ہوا ہوں۔ نہ پہلے حالات کی سختی سے مر سکا اور نہ اب مروں گا۔ تم اپنے والدین کی عزت ہو، ان کا خیال کرو، ان کا حکم مانو۔ میرے دل کا دروازہ ہمیشہ تمہارے لیے کھلا رہے گا۔ جب چاہو واپس آ جانا، مگر برے وقت میں مجھے آواز دینا، میں تمہارے کام آؤں گا۔میں نے بہت کہا کہ میں تمہاری خاطر ہر قدم اٹھا سکتی ہوں، لیکن اس نے مجھے سمجھا بجھا کر واپس گھر بھیج دیا اور کہا جانتا ہوں، میری جدائی پر تمہیں بہت دکھ ہوگا، مگر تمہاری عزت میری عزت ہے۔ 

میں چچی کی عزت پر کبھی داغ نہیں لگنے دوں گا۔میں نے آخری بار اسے دیکھا اور آنسوؤں کی دھند آنکھوں میں بھر کر واپس آ گئی۔ نہیں جانتی کہ میری جدائی سے اس پر کیا گزری، لیکن مجھ پر جو بیتی، وہ قیامت میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ ایک ماہ کے اندر اندر میری شادی کمال سے ہو گئی۔ میں بالکل نہیں جانتی تھی کہ وہ کیسا انسان ہے؟ اس کی عادات کیسی ہیں؟ وہ کیا کرتا ہے؟ دوسرے شہر میں رہنے کی وجہ سے وہ ہمارے گھر نہیں آتا تھا، بس پھوپھو آ جاتی تھیں، وہ بھی کافی عرصہ بعد۔

میری سہاگ رات بھی عجیب تھی۔ کافی دیر گزر گئی، دولہا نہ آیا تو میں بیٹھے بیٹھے سو گئی۔ آنکھ تب کھلی، جب دروازہ زور دار دھماکے سے کھلا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ دولہا نشے کی حالت میں فرش پر آ پڑا ہے، پھر ایک اور زور دار دھماکے کے ساتھ دروازہ بند ہو گیا۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی، جلدی سے اس کے جوتے اتارے اور اسے بستر تک لائی۔ وہ بے ہوش تھا۔ میں تمام رات اس کے سرہانے جاگتی رہی۔ اب معلوم ہوا کہ میری پھوپھو نے میرے ساتھ کیا ظلم کیا ہے۔صبح دس بجے وہ جاگا، آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا۔ میں نے کہا آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟اس نے میری بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جب میں نے شکوہ کیا، تو وہ بولا یہ شادی میری ماں نے زبردستی کروائی ہے۔ میں نورین سے شادی کروں گا۔ میری ماں نے کہا تھا کہ پہلے عالیہ سے شادی کر لو، بعد میں اسے طلاق دے کر نورین سے شادی کر لینا۔ بس ابھی ہماری عزت رکھنی ہوگی۔ یہ سن کر میری دنیا اندھیر ہو گئی۔یہ ہماری شادی کا پہلا دن تھا، جس کی بنیاد ہی منفی جذبات پر رکھی گئی تھی۔
 اس کے بعد یہ روز کا معمول تھا کہ وہ بات بات پر ناراض ہو جاتے اور گھر سے نکل جاتے، اور جب رات گئے لوٹتے تو نشے میں ہوتے۔ ایک سال ہو نہ ہو، روتے روتے بیت گیا۔ اس عرصے میں پھوپھو نے مجھے میکے بھی جانے نہیں دیا، یہاں تک کہ میری جدائی میں ماں بیمار پڑ گئیں، تبھی ابو مجھے لینے آ گئے۔ پھوپھو کو ناچار مجھے میکے جانے کی اجازت دینا پڑی۔جب میں گھر پہنچی، تو میری حالت دیکھ کر امی مجھے گلے لگا کر رونے لگیں۔ انہوں نے مجھے واپس بھیجنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ایک سال بعد کمال کی طرف سے طلاق نامہ موصول ہو گیا۔ اب کیا رہ گیا تھا، جس کی پاسداری کرتی، لیکن عاطف کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کس حال میں تھا۔ میں اس سے مل بھی نہیں سکتی تھی اور ڈر کے مارے کسی سے پوچھتی بھی نہ تھی، ورنہ سب خاندان والے کہتے کہ سابقہ منگیتر کی وجہ سے اس نے گھر نہ بسایا ہوگا۔ 

طلاق کے تیسرے سال پتا چلا کہ عاطف بیمار ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔ میں امی کے ساتھ اسے دیکھنے گئی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی ہے۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں، چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے خشک ہونٹ ہلاتے ہوئے کہا کہ اسے علم ہے کہ ان لوگوں نے مجھے طلاق دے دی ہے، لیکن کس وجہ سے -کیا میری وجہ سے میں نے طلاق لی ہےمیں نے جواب دیا کہ نہیں، انہوں نے طلاق مجھے اپنی وجہ سے دی ہے، لیکن اس توہین نے مجھے زخمی کر دیا ہے اور آج زندگی کے اس دوراہے پر کھڑی ہوں، جہاں مجھے اس کی ضرورت ہے۔اگر وہ اچھا ہو گیا، تو ضرور مجھے سہارا دے گا۔امی میری باتیں سن رہی تھیں۔ ہماری محبت نے ان کے دل پر بھی اثر کیا تھا۔ وہ رو رہی تھیں۔ اب میں شوہر کی بدسلوکی کو بھلا کر عاطف کی صحت کے لیے دعا گو رہنے لگی، جو بھری جوانی میں خزاں کے سپرد ہو گیا تھا۔ 
ان دنوں میرا دامن خوشیوں سے خالی تھا۔ عرصہ ہوا کہ لفظ پیار کانوں نے نہیں سنا تھا۔عاطف رفتہ رفتہ صحت یاب ہونے لگا۔ میری اور اس کی والدہ کی دعائیں رنگ لے آئیں۔ ایک دن میں گئی، تو وہ بہت بہتر نظر آ رہا تھا۔ تب میں نے التجا کی کہ مجھے اپنا لو، ورنہ بھری جوانی میں جیتے جی مر جاؤں گی۔میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ اتنی بے بس ہو جاؤں گی۔ نجانے کس کی نظر لگ گئی تھی میری خوشیوں کو۔اس نے کہا کہ اسے اسپتال سے چھٹی مل گئی ہے۔ آج ہم گھر چلے جائیں گے۔ میں گھر آؤں۔جب میں اس کے گھر گئی، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کا کمرہ میری تصویروں سے سجا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اس کا دروازہ ہمیشہ میرے لیے کھلا رہے گا۔ میں جب چاہوں آ سکتی ہوں۔میرے والدین بھی اب اپنے فیصلے پر نادم تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح میری زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں۔

 یوں ایک بار پھر بزرگوں کا فیصلہ ہوا اور میں عاطف کی دلہن بن کر اس کے گھر آ گئی۔ یوں میری زندگی میں روٹھی ہوئی خوشیاں واپس آ گئیں۔آج ہم ایک دوسرے کو پا کر بہت خوش ہیں۔ عاطف نے پھر سے کاروبار شروع کر دیا۔ اللہ نے اس کی روزی میں برکت دی۔ خدا نے ہمیں اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا ہے۔ میں اپنے ساس سسر کی خدمت کرتی ہوں۔جب بھی ماضی یاد آتا ہے تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں کیونکہ میرے والدین کی بھول نے مجھے بہت دکھ دیا تھا۔ کاش وہ اس وقت صحیح فیصلہ کرتے اور ٹھنڈے دل سے سوچتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ 
اگر میں اس وقت نافرمانی میں انکار کرتی، تو انہیں دکھ ہوتا، وہ ناراض بھی ہوتے، مگر میرے سر جھکانے پر وہ مجھ سے راضی رہے اور اب ہر وقت دعا کرتے ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ میں نے صبر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے بھی کرم کیا اور مجھے میری خوشیاں لوٹا دیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے