Subscribe Us

شادی سے پہلے

Urdu Font Stories

میں عمر کے اس حصے میں تھی، جس میں تمنائوں ، چاہتوں اور ارمانوں کی گنگناہٹ دھیمے سروں میں سنائی دینے لگتی ہے اور ہر لڑکی اپنے مستقبل کے بارے سوچتی ہے۔ میں بھی تصورات میں کھوئی آنے والے دنوں کی خوشیاں خوابوں میں سمیٹ رہی تھی کہ ایک دن کچھ انجانے لوگ ہمارے گھر آئے اور میرا رشتہ طلب کیا۔ والدین کو رشتہ پسند آگیا اور منگنی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر وہی لوگ آئے۔ میں خوشی سے پھولی نہ سمارہی تھی۔ سنا تھا کہ شادی کی تاریخ لینے آرہے ہیں۔ مہمان آکر رخصت ہو گئے مگر میرے گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہ 
تھی۔ وہ مایوس اور مضطرب دکھائی دیئے۔

 ان کے مرجھائے چہرے دیکھ کر سمجھ گئی کہ ان کی آس ٹوٹ گئی ہے۔ تبھی امی نے بتایا کہ لڑکے والے منگنی توڑ کر چلے گئے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ، پہلی بڑی کو پسند کر کے رشتہ طے کر لیا اور اب بڑی کو چھوڑ، منجھلی کو مانگ رہے تھے۔ بھلا یہ کیا شریفوں کا طریقہ ہے۔ لڑکیاں نہ ہوئیں، کھلونے ہو گئیں۔وہ رشتہ ختم کر گئے ہیں۔ یہ سن کر زمین پیروں تلے دھنستی معلوم ہوئی اور میرے خواب شیشے کے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے۔ دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ وہ رشتے کی بات ختم کر گئے تھے ، بلکہ دکھ اس بات کا تھا کہ میری دونوں چھوٹی بہنوں کا کیا ہو گا۔ 

ایک تو اب بچپن کی دیوار پھلانگ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی تھی اور دوسری ابھی چھوٹی تھی۔ منگنی اس بات پر ٹوٹی تھی کہ لڑکے نے منگنی والے دن میری منجھلی بہن کو دیکھا تو گھر جا کر اپنی ماں سے کہا کہ تم نے بڑی کا رشتہ کیوں لیا جبکہ دوسری اُس سے زیادہ خوبصورت اور دلکش خدو خال والی ہے۔ آپ کو وہ نظر نہیں آئی تھی ؟ میری شادی کرنی ہے تو دوسری والی کا رشتہ طلب کریں میں ان کی بڑی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ لڑکے کی اس بات کا ذکر انہوں نے جب میرے والدین سے کیا تو میرے والدین نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جب تک بڑی کی شادی نہیں ہو جاتی، ہم چھوٹی لڑکیوں کی شادی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر آپ کو ہماری بڑی بیٹی قبول نہیں ، تورشتہ چھوڑ دیجئے۔ اس میں شک نہیں کہ چھوٹی بہنیں مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ میرے برابر ہو رہی تھیں مگر امی ابو ان کے لئے آئے رشتے اس وجہ سے ٹھکرارہے تھے کہ بڑی کی موجودگی میں چھوٹی بیٹیوں کو کیونکر بیاہ دیں۔ یہی سوچ کر آنکھیں بھر آتی تھیں کہ میری معمولی صورت کے باعث میری بہنوں کے اچھے نصیبوں کو ٹھوکر لگائی جارہی تھی۔

 میں اپنے والدین کو سمجھانا چاہتی تھی کہ اگر لوگ میرے بجائے، منجھلی یا چھوٹی کو پسند کر لیں تو اچھا رشتہ گنوانے کی بجائے ہاں کر دینی چاہئے تا کہ غربت میں ایک بچی کے فرض سے تو سبکدوشی پائیں۔ جب میرے مقدر میں ہو گا تو میرا رشتہ بھی ہو جائے گا لیکن والدین نے اپنی سوچ نہ بدلی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں بہنیں میرے برابر کی ہو گئیں۔ والدین اپنی ضد پر قائم رہے۔  پھر لوگ آئے اور میری چھوٹی بہنوں کو دیکھنے کے باوجود انہوں نے میرارشتہ ہی طلب کیا۔

 کچھ دنوں بعد وہ میرے سر پر گوٹے والی چیزی ڈال اور انگوٹھی پہنا کر چلے گئے۔ ہمارے گھر میں خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ جلد شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے۔ میرا جہیز تو تیار رکھا تھا۔ والد صاحب نے فرنیچر بنوانے کا بھی آرڈر دے دیا۔ اب شادی کی تاریخ کا اعلان باقی رہ گیا تھا کہ اچانک منگنی ٹوٹنے کا اعلان ہو گیا۔ پتا چلا لڑکے کو کوئی اور لڑکی پسند تھی اور اس کے والدین کو وہ لڑکی پسند نہ تھی۔ ماں باپ کے دبائو میں آکر پہلے تو وہ چپ رہا مگر عین وقت پر جھگڑا کھڑا کر کے شادی سے انکار کر دیا اور گھر سے بھاگ جانے کی دھمکی بھی دے دی۔ ماں باپ سٹپٹائے کہ اب کیا کریں، مگر جوان اولاد جب قابو میں نہ آئے تو وہ طوفان ہوتی ہے۔ کاش کہ وہ چپ نہ رہتا اور پہلے ہی بول پڑتا تو مجھ غریب کو دوسری بار منگنی ٹوٹنے کا دکھ نہ سہنا پڑتا۔ اس ظالم کو کیا خبر کہ جب دوسری بار منگنی ٹوٹ جائے تو لڑ کی پر کیا گزرتی ہے۔  والد میری فکر میں گھلے جاتے تھے ۔ آخر کار وہ بیمار پڑ گئے۔

ہماری خالہ کا گھر قریب تھا اور ان کے گھر پانی آتا تھا، لہذا نہانے اور کپڑے دھونے کے لئے ہم لوگ خالہ زاہدہ کے گھر چلے جاتے تھے۔ خالہ کا بیٹا بابر مجھ سے چند برس بڑا تھا۔ جب میں ان کے گھر کپڑے دھونے جاتی ، وہ گیلے کپڑے رسی پر ڈالنے میں میری مدد کرتا تھا۔  اُدھر وہ میری کمی محسوس کرتا تو میں بھی تبھی کسی بہانے اس کے دیدار کو خالہ کے گھر جا پہنچتی۔ خالہ کی جہاں دیدہ نگاہوں نے جان لیا کہ ہم ایک دوسرے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے والدہ سے تذکرہ کیا۔ کہا کہ تم صنوبر کا رشتہ بابر کے لئے دے دو۔ اسی میں ہم دونوں گھرانوں کی بھلائی ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ہمارے بچے کوئی غلط قدم اٹھا لیں۔ 

 تب امی نے زور دے کر والد سے منوا لیا اور وہ میرا انکاح بابر کے ساتھ کرنے پر رضامند ہو گئے تاہم رخصتی کے لئے تھوڑے عرصے کی مہلت لی تا کہ شادی کی تیاری کر سکیں۔ جب میرا نکاح بابر سے ہو گیا تو والدہ نے مجھے منع کیا کہ اب میں خالہ کے گھر اس وقت تک نہ جائوں جب تک رخصتی نہ ہو جائے ، ورنہ خاندان والے باتیں بنائیں گے۔ میں اور بابر اس پابندی سے بہت بے چین ہو گئے۔ ایک دوسرے سے ملے بغیر ہم کو قرار نہ آتا تھا اور بہانے بنا کے ہم ملتے بھی تھے۔ خالو نے اس بات کو پسند نہ کیا اور بابر پر سختی کی کہ جب تک رخصتی نہیں ہوتی تم منکوحہ سے نہیں ملو گے اور وہ بھی تمہارے سامنے نہیں آئے گی۔

 اب ہم سخت مجبور ہو گئے۔ ادھر والد صاحب فصل کی فروخت کا انتظار کر رہے تھے تا کہ یہ رقم ہاتھ آئے تو مجھ کو عزت سے رخصت کر دیں۔ فصل اتری ، فروٹ پیٹیوں میں بند ہو گیا اور آڑھتی لے گئے اب رقم کے ملنے کا انتظار تھا تا کہ شادی کی تاریخ رکھی جائے اور میری رخصتی عزت سے ہو جائے۔ کہتے ہیں پابندیاں انسان کو اور بے قرار کرتی ہیں یہ بات سچ ہے۔ ایک دن خالہ اپنی لڑکیوں کے ہمراہ ہماری شادی کی خریداری کے سلسلے میں مظفر آباد گئی ہوئی تھیں اور گھر میں بابر کے سوا کوئی نہیں تھا۔ خالو بھی ان کے ساتھ ہی گئے تھے ، جبکہ میرے والد بھی شہر گئے ہوئے تھے۔ میں میلے کپڑے دھونے کے بہانے ان کے گھر جا پہنچی۔ میرے جانے سے بابر کی عید ہو گئی۔ کیونکہ جدائی ہم دونوں کی دشمن تھی۔ اب گھر میں تنہائی تھی اور ہم دونوں تھے لہذا یہ تنہائی جدائی سے بھی زیادہ بیری نکلی۔ پہلے تو بابر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا لیکن گھر میں الیکے پن نے ہمیں چھوٹ دے دی اور کسی کے آنے کا ڈر جاتا رہا۔ اس جرم میں بابر اور میں برابر کے شریک تھے۔ ہم جوانی کی آگ میں اندھے ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو میں لٹ چکی تھی اور برے وقت کا مجھے بالکل بھی پتا نہ چلا۔

 ندامت کے کانٹوں سے دامن تار تار تھا۔ بابر نے کہا۔ ایسے ہماری چند دنوں بعد شادی ہو جائے گی، تم اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا کہ ہم ملے ہیں۔ خدا کی کرنی کچھ اور ہوتی ہے اور انسان کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا کہ میرے والد صاحب جب آڑھتیوں سے فصل کی رقم لے کر شہر سے واپس گائوں آرہے تھے تو کسی بد خواہ کو علم ہو گیا کہ ان کے پاس خاصی رقم ہے۔ پس انہوں نے ایک ویران جگہ پر رستے میں ان کو گھیر لیا اور رقم چھین لی۔ مزاحمت پر والد صاحب کو دھکا دیا۔ وہ اس طرح گرے کہ ان کا سر ایک پتھر سے جا ٹکرایا اور اس شدید چوٹ سے ہوش ہو گئے کافی دیر بعد جب کچھ راہ گیروں نے ان کو سڑک کنارے بے ہوش پایا تو اٹھا کر اسپتال لے گئے مگر انہیں ہوش نہ آیا اور اسی بے ہوشی کے عالم میں چل بسے۔

 وہ گھر جو شادی کی خوشیوں کا منتظر تھا، وہاں صف ماتم بچھ گئی۔ ظاہر ہے شادی بھی چھ ماہ کے لئے ملتوی ہو گئی۔ یوں میری رخصتی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ والد کی وفات سے میں بہت غمزدہ تھی۔ باہر مجھے تسلی دیتا کہ صبر کرو اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ اس کی تسلی سے مجھے ڈھارس ملتی ، سکون محسوس ہوتا۔ وہ سمجھاتا کہ ہم بے بس ہیں۔ جب اللہ کو منظور ہو گا ہم ایک ہو جائیں گے۔ تم میری منکوحہ ہو پھر خوف کس بات کا ہے۔ والد کی وفات کے بعد اب میں بلا خوف اپنے گھر سے متصل باغ میں باہر سے ملنے لگی۔ 

والد تو رہے نہ تھے والدہ اور بہنوں کا ڈر نہ تھا، بھائی باہر ہوتے اور خالو ہماری طرف آتے نہ تھے۔ ان کو علم ہی نہ تھا کہ ہم ملتے ہیں۔ اب صرف ملاقات پر اکتفا نہ رہا تھا۔ دُوریاں نزدیکیوں میں سمٹتی جاتی تھیں اور یہ سچ ہے جب ایک بار قدم بہک جائیں تو پھر برائی کا خوف جاتارہتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ ایک دن پتا چلا کہ میں ذلت کے اتھاہ گڑھے میں گرنے والی ہوں۔ وہ دن قیامت کا تھا۔ میں حقیقت سے بابر کو آگاہ کرنا چاہتی تھی مگر قدرت نے ہم کو شاید اس لغزش کی سزا دینا تھی کہ ہمیں موقعہ ہی نہ ملا۔ 

بابر اپنے والد کا ٹرک لے کر پشاور گیا ہوا تھا کہ وہ واپس نہ آیا۔ جانے کیا معاملہ ہوا ٹرک سمیت وہ منظر سے غائب ہو گیا۔ خالو بچارے اس کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے مگر کچھ پتا نہ چلا، یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا۔ بالآخر کسی طرح بابر نے رابطہ کیا کہ کچھ قرض خواہ اس کو ٹرک سمیت اغوا کر کے علاقہ غیر لے گئے ہیں۔ جب تک قرض کی تمام رقم وہ ادا نہیں کریں گے ، اس کو رہائی نہیں ملے گی۔ خالو نے اب رقم کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی اور میری شادی ایک بار پھر ملتوی ہوگئی کیونکہ پہلےتو بابر کو بازیاب کرنا تھا۔ اب معاملہ مزید گمبھیر ہو گیا۔ بات کہنے کی نہ تھی۔ کس طرح اپنا راز کسی کو بتاتی۔ 
حالات کے تھپیڑے سہنے کو تنہا رہ گئی تھی۔ ماں کو پتا چلا، انہوں نے سر پیٹ لیا مگر سر پیٹ لینے سے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ناچار ماں نے خالہ زاہدہ کو معاملے سے آگاہی دی۔ انہوں نے تسلی دی کہ صبر کریں اور خاموش رہیں۔ گھر کا معاملہ ہے بابر کا والد بیٹے کو جلد لے کر آئے گا اور جھٹ پٹ ہم رخصتی کر لیں گے۔ راز راز ہی رہے گا۔ زاہدہ خالہ نے کہا تھا کہ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا، یہ ہماری بہو ہے عنقریب ہمارے گھر آجائے گی مگر انہوں نے کیا مجھے بہو بنانا تھا۔ بابر کے آنے سے پہلے ہی میری چچی کو شک ہو گیا۔ اس نے چچا کو بتایا اور اس طرح میرے بھائیوں کو بھی انہوں نے شک میں ڈال دیا کہ ان کی بہن کی لغزش سے خاندان کی ناموس خاک میں ملنے والی ہے تو انہوں نے ایک رات جب میں سو رہی تھی مجھ پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے