ہمارے پڑوس میں فہمیدہ کا گھر تھا۔ اس کے والد ایک دفتر میں کلرک تھے، اور یہ سفید پوش لوگ تھے۔ گزر بسر بمشکل ہوتی تھی، لیکن وہ اپنی عزت کا بھرم رکھے ہوئے تھے۔ فہمیدہ سے میری دوستی تھی کیونکہ ہم نے آٹھویں جماعت تک ساتھ پڑھا تھا۔ پھر غربت کی وجہ سے اس نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔
فہمیدہ کے اسکول چھوڑنے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے سالانہ امتحانات دے رہی تھی، تو اس کی والدہ کو ڈینگی بخار ہو گیا۔ وہ بیچاری اسپتال میں داخل ہوئیں، لیکن جانبر نہ ہو سکیں کیونکہ ان کے ناک اور منہ سے خون جاری ہو گیا تھا۔
ماں کی وفات کا فہمیدہ کو گہرا صدمہ پہنچا، جس کی وجہ سے وہ امتحانات میں اچھے نمبر نہ لے سکی اور ناکام ہو گئی۔ ماں کے گزر جانے کے بعد اس کے والد نے دوبارہ اسکول نہ بھیجا، اور وہ گھر بیٹھنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ کبھی کبھار ہمارے گھر آتی تھی، مگر میں پڑھائی میں مصروف ہوتی، تو زیادہ توجہ نہ دے پاتی، اور وہ بور ہو کر واپس چلی جاتی۔
انہی دنوں ہمارے محلے میں نئے کرایہ دار آگئے۔ ان کا گھر فہمیدہ کے مکان کے عین سامنے تھا۔ وہ گلی پار کر کے تیزی سے ان کے دروازے کے اندر چلی جاتی تھی۔ عام طور پر جب کوئی نیا خاندان محلے میں آتا ہے، تو پڑوسی پہلے محتاط رہتے ہیں اور جب تک ان کے بارے میں کوئی رائے نہ قائم کر لیں، زیادہ میل جول نہیں بڑھاتے۔ میرے والدین نے بھی انہی اصولوں پر عمل کیا اور مجھے منع کیا کہ جب تک ہمیں ان کے بارے میں مکمل تسلی نہ ہو، میں ان کے گھر نہ جاؤں۔
فہمیدہ جب بھی ہمارے گھر آتی، ان کے بارے میں بتاتی۔ اسی کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ اس گھر میں ایک بوڑھی خاتون، ان کی بیٹی، اور ایک جوان بیٹا رہتے ہیں۔ بیٹے کا نام مختیار تھا، اور وہ بہت خوبصورت تھا۔ اس کی عمر تقریباً 25 سال ہوگی، جب کہ اس کی چھوٹی بہن، عزرا، فہمیدہ کی ہم عمر تھی، یعنی 15 یا 16 سال کی۔ ان کی والدہ میمونہ بیگم ایک بیوہ خاتون تھیں، جو بہت شفیق اور مہربان تھیں۔ فہمیدہ ان کی بہت تعریف کرتی تھی اور زمین و آسمان کے قلابے ملاتی تھی۔ اس کی باتوں سے میرا بھی دل چاہتا کہ میں ان کے گھر جاؤں اور ان سے ملوں، خاص طور پر عزرا سے، جو اب فہمیدہ کی پکی سہیلی بن چکی تھی۔
فہمیدہ کے گھر میں اس کے والد اور بھائی کے علاوہ اس کی بیوہ پھوپھی بھی رہتی تھیں، جن کی عمر بڑھاپے کی طرف مائل تھی۔ وہ فہمیدہ کو زیادہ باہر جانے سے منع کرتی تھیں، لیکن ماں کی وفات کے بعد فہمیدہ بے چین روح بن چکی تھی۔ گھر میں اس کا دل نہ لگتا، اور موقع ملتے ہی باہر نکل جاتی۔ پڑوس میں تاک جھانک اس کا مشغلہ بن چکا تھا۔ اب وہ ہمارے گھر کم آتی، مگر عزرا کے گھر جانا اس کا معمول بن گیا تھا۔
خالہ میمونہ اس پر بہت شفقت کرتی تھیں اور اسے اپنی بیٹی کی طرح چاہتی تھیں۔ وہ اسے کھانے پر بٹھا لیتیں، اور فہمیدہ کو ان کے ہاتھ کا کھانا بہت پسند تھا۔ وہ کہتی تھی کہ خالہ میمونہ کا کھانا لاجواب ہوتا ہے، جبکہ اس کی پھوپھی کے ہاتھ کا کھانا بہت بدذائقہ ہوتا تھا۔ صبح ہی اس کے والد اور بھائی کام پر چلے جاتے، پیچھے عمر رسیدہ پھوپھی رہ جاتی، جو کمزور سی عورت تھیں۔ وہ لاکھ سمجھاتی کہ باہر مت جایا کرو، مگر فہمیدہ نہ مانتی۔
انہی دنوں خبر ملی کہ خالہ میمونہ کے بیٹے مختیار کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ دراصل وہ غنڈوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ خدا جانے اس نے کیا جرم کیا تھا کہ اسے جیل ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد محلے کے سب لوگ محتاط ہو گئے اور اس گھرانے سے ربط و ضبط ختم کر دیا، کیونکہ مختیار کی شہرت اچھی نہ رہی تھی۔ سب کہتے تھے کہ وہ غلط کاموں میں ملوث رہا ہے اور جیل بھی جا چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ بظاہر بہت شریف لگتا تھا۔ اس کا انداز، لہجہ اور رویہ سب مہذب تھا، لیکن بدنامی ایسی چیز ہے کہ ایک بار انسان کی شہرت خراب ہو جائے، تو زندگی بھر اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
محلے والوں نے اس گھرانے سے دوری اختیار کر لی، مگر فہمیدہ نے عزرا سے دوستی برقرار رکھی۔ شاید دونوں ہی تنہائی کا شکار تھیں، تبھی گہری سہیلیاں بن گئی تھیں۔ پھوپھی فہمیدہ کے والد کو شکایت کرنے سے ڈرتی تھیں، کیونکہ وہ سخت مزاج تھے۔ وہ صرف نرمی سے سمجھانے کی کوشش کرتیں، لیکن فہمیدہ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ مختیار کو گھر والے پیار سے "منا" کہتے تھے، کیونکہ بچپن میں اس کی ماں اسے اسی نام سے بلاتی تھیں۔ کچھ دن بعد فہمیدہ ہمارے گھر آئی، تو اس نے بتایا کہ منا جیل سے رہا ہو گیا ہے۔ کسی دوست نے اس کی ضمانت دے دی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ مختیار بہت اچھا انسان ہے اور ناحق دشمنوں نے اسے جھوٹے کیس میں پھنسایا تھا۔
یہ ہمدردی جلد ہی دوستی میں بدل گئی۔ وہ مختیار سے باتیں کرتی اور مجھے آ کر بتاتی کہ وہ اس کی بہت عزت کرتا ہے اور اس کا بے حد خیال رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں چونک گئی اور خوفزدہ ہو گئی کہ فہمیدہ نے ایک ایسے شخص سے دوستی کیوں کر لی ہے، جو پہلے ہی جیل جا چکا ہے اور اب بھی ضمانت پر ہے۔
یہ سلسلہ چلتا رہا۔ خالہ میمونہ اور عزرا اگر گھر نہ ہوتیں، کسی رشتہ دار کے یہاں یا بازار وغیرہ جاتیں، تب فہمیدہ کی بن آتی۔ وہ لپک کر ان کے گھر جا گھستی، جہاں منا ہوتا اور وہ ہوتی۔ خدا جانے وہ اس وقت کو کس انداز میں گزارتے تھے، لیکن بہرحال برے کاموں کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ منے کا کیس چل رہا تھا۔ فیصلہ اس کے خلاف آیا، تو ضمانت منسوخ ہو گئی اور وہ سزا بھگتنے جیل چلا گیا۔
ادھر فہمیدہ پر بدنصیبی نے وار کر دیا۔ منے سے محبت کے کھیل نے اسے بدنامی کے آخری کنارے پر پہنچا دیا۔ جب وہ بری حالت میں چکرا کر گرنے لگی تو پھوپھی کا دل بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ گئیں کہ لڑکی سے نادانی میں کوئی سنگین غلطی سرزد ہو چکی ہے۔ وہ محلے کی دائی کو بلا لائیں کہ دیکھو، یہ ایسی کیوں ہو رہی ہے؟ دائی نے آنکھوں کے پپوٹے الٹ کر دیکھے اور بولی، ’’تمہیں مبارک ہو، پہلے پھوپھی تھی، اب نانی بن جاؤ گی۔‘‘
دائی تو طنز کے تیر برسا کر چلتی بنی، مگر بوڑھی پھوپھی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ جیتی تھیں نہ مرتی تھیں۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ بھائی کو کس طرح بتائیں کہ گھر کی چار دیواری کے اندر قیامت آنے والی ہے۔
لاکھ چھپاؤ، ایسے معاملات چھپتے نہیں۔ بھائی کو بتانا ہی پڑا۔ وہ تھر تھر کانپنے لگے۔ وہ بہت مشکل سے غربت میں سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھے۔ بیٹی کے کالے کرتوتوں سے ایسی کالک مل جائے گی، وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ معاشرے میں غریب آدمی کی کیا اوقات ہوتی ہے؟ وہ تو معمولی غلطی پر بھی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ یہ تو پھر ایک جان لیوا حقیقت تھی۔
بھائی کو روتے پا کر بہن بھی روئی۔ پھر وہ منے کی ماں کے پاس گئی اور فریاد کی، ’’میمونہ، تمہیں ذرا بھی خیال نہ آیا کہ یہ بن ماں کی بچی ہے؟ تم نے اپنے بیٹے کو بھی نہ روکا؟ کاش تم فہمیدہ کو گھر نہ آنے دیتیں! تمہارے آگے بھی جوان بیٹی ہے!‘‘
میمونہ بولی، ’’بہن، اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے تمہاری لڑکی کو کئی بار روکا تھا، لیکن یہ خود دوڑی دوڑی ہمارے گھر آ جاتی تھی۔ میں اسے یتیم جان کر پیار سے بات کرتی تھی کہ اس کی ماں نہیں ہے۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ کیا گل کھلانے والی ہے؟ رہی منے کی بات، وہ بچپن سے میرے کہنے میں نہیں ہے۔ جب سے اس کا باپ مرا، وہ ایسا خودسر ہوا کہ کسی کو اس نے پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دیا۔ وہ میری کب سنتا ہے؟ اگر سنتا تو بار بار جیل کی ہوا کیوں کھاتا؟‘‘
اس کا کہنا بھی درست تھا۔ بڑھاپہ تو ویسے ہی جوانی سے خوف کھاتا ہے۔ یہ دونوں ہی نوجوان تھے اور بے لگام تھے۔ اس نے اتنی مدد ضرور کی کہ فہمیدہ کی پھوپھی کو ایک واقف کار نرس کے پاس لے گئی اور پانچ ہزار روپے نرس کے ہاتھ پر رکھے۔ پہلے تو نرس نے نخرے دکھائے، پھر ساتھ چلنے کو تیار ہو گئی، مگر وہ بالکل اناڑی تھی۔ اس نے گھر آ کر فہمیدہ کو انجیکشن وغیرہ لگائے تو لڑکی کی حالت غیر ہو گئی۔ لڑکی کو تڑپتا دیکھ کر نرس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے کہا، ’’میں جس کلینک میں کام کرتی ہوں، لڑکی کو وہاں لے چلتے ہیں۔ اب کوئی ڈاکٹر ہی اسے بچا سکتا ہے۔ یہ کیس دشوار ہے، میری سکت سے باہر ہے۔‘‘
تینوں نے ٹیکسی لی اور فہمیدہ کو اس میں ڈال کر کلینک لے جا رہی تھیں کہ راستے میں ٹریفک جام ہو گیا۔ ٹیکسی کافی دیر تک پھنسی رہی۔ اتنے میں ٹریفک پولیس کے دو اہلکار ٹیکسی والے کے پاس آ گئے۔ انہوں نے اس سے گاڑی کے کاغذات دیکھے۔ مطلوبہ کاغذات ڈرائیور کے پاس نہ تھے، تو انہوں نے حکم دیا کہ ٹیکسی کو ایک طرف روک لو۔
وقت ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔ آگے نرس بیٹھی تھی اور پچھلی نشست پر پھوپھی تھیں۔ ان کی گود میں فہمیدہ لیٹی ہوئی تھی۔ عورتوں کے چہروں پر ہوائیں اُڑ رہی تھیں۔ پولیس والے نے ان کی پریشانی کو بھانپ کر سوالات شروع کر دیے۔ وہ کسی سوال کا صحیح جواب نہ دے سکیں اور الٹے سیدھے جواب دینے پر اہلکاروں کو شک ہوا۔ انہوں نے پوچھا، ’’لڑکی کو کیا ہوا ہے؟ تم اسے کون سے کلینک لے جا رہی ہو؟‘‘ انہوں نے لڑکی کی نبض پر ہاتھ رکھا، مخاطب ہونا چاہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ نہ ہی کوئی کراہ سنائی دی۔ بغور جانچا تو انہیں لگا کہ لڑکی مر چکی ہے۔ تب وہ ٹیکسی کو پولیس اسٹیشن لے آئے۔
جب رسوائی مقدر میں لکھی ہو، تو کوئی کسی کو بچا نہیں سکتا۔ نرس کی زبانی پولیس کو ساری کہانی معلوم ہو گئی۔ عورتوں کو حوالات میں ڈال دیا گیا اور لڑکی کے باپ کو بلایا گیا۔ بیچارے چچا صفدر ہانپتے کانپتے پہنچے اور بمشکل فہمیدہ کی تدفین کی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ لڑکی کس وجہ سے موت کے منہ میں گئی۔ اصل مجرم پہلے ہی جیل میں موجود تھا، مگر نرس اور پھوپھی کے ساتھ چچا صفدر کو بھی جیل بھگتنی پڑ گئی، حالانکہ ان بیچارے کو خبر بھی نہ تھی کہ بدنصیب فہمیدہ ان کی غیر موجودگی میں کہاں جاتی تھی۔
قصور پھوپھی کا تھا یا خالہ میمونہ کا؟ قصور منے کا تھا یا فہمیدہ کا؟ یہ سوال آج تک سوال ہی ہے۔ لیکن کسی کا قصور تو تھا۔ ان کا، جنہوں نے غفلت سے کام لیا۔ یا پھر نادان جوانی کو قصوروار ٹھہرایا جائے، جس کی وجہ سے فہمیدہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور موت کی وادی میں اتر گئی۔ آج بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اخبار میں ایسی خبریں پڑھ کر بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ لڑکیوں کو ہوش کے ناخن دے اور بزرگوں کو وہ سوجھ بوجھ عطا کرے جس سے وہ غفلت برتنے کے بجائے اپنے بچوں کی عزت و عصمت کی حفاظت کر سکیں۔
0 تبصرے