Subscribe Us

فسادی میکہ

urdu stories online

میں اکلوتی ضرور تھی، مگر منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ والد صاحب پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ پرائمری اسکول ٹیچر کی آمدنی کیا ہوتی ہے۔ ان کی تنخواہ میں دال روٹی بمشکل پوری ہوتی تھی، تو مجھے وہ کیسے عیش دیتے۔ والدہ ایک کمزور سی عورت تھیں اور سارا دن سلائی کڑھائی کا کام کرتیں، تب گزر بسر ہو رہی تھی۔ چھوٹے سے گاؤں میں رہنے کی وجہ سے امی ابو کے ذہن زیادہ ترقی نہ کر سکے۔ انہوں نے کبھی دنیا دیکھی اور نہ اپنے علاقے سے باہر نکلے، تو انہیں کیا پتا کہ دنیا کتنی آگے جا رہی ہے۔ میرے ساتھ اچھے گھرانوں کی لڑکیاں پڑھتی تھیں۔

 ان کے گھر اور رہن سہن دیکھ کر میرا بھی جی چاہتا کہ ان کی طرح زندگی بسر کروں، خوب پڑھوں، لکھوں اور ویسی نظر آؤں۔ ایک بات سمجھ میں آتی تھی کہ اگر میں زیادہ پڑھ لکھ گئی تو ترقی کر سکوں گی اور میری شادی بھی کسی اچھے پڑھے لکھے گھرانے میں ہو جائے گی۔ تبھی دن رات محنت کرتی، کتابوں سے دل لگا کر رکھتی۔ ارادہ تھا کہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر لے کر میڈیکل میں داخلہ لے لوں گی اور ڈاکٹر بن جاؤں گی، تاکہ تقدیر بدل جائے۔ ہمارے گاؤں میں اسکول میٹرک تک تھا، اس کے بعد لڑکیوں کو کالج کی تعلیم کے لیے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینا پڑتا تھا۔ جب میں نے میٹرک پاس کیا تو والد صاحب سے آگے پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا، کیا تم اب لڑکوں کے ساتھ پڑھو گی؟ یہ مجھے ہر گز منظور نہیں، آرام سے گھر بیٹھو۔ ماں ایسے مواقع پر ہمیشہ ڈھال کا کام کرتی ہے اور بیٹیاں اپنے مسائل کے حل کے لیے ماؤں کا سہارالیتی ہیں، لیکن میری امی کچھ اور طرح کی تھیں۔ جب میں نے اس سلسلے میں ان سے مدد طلب کی تو وہ بولیں، آگے پڑھ کر کیا کرے گی؟ خواہ مخواہ کے خرچے ہوں گے، اچھا ہے کہ گھرداری سیکھ لے، تیری شادی کرنی ہے، وہاں سسرال میں کھانا بنانا اور سینا پرونا ہی کام آئے گا، کتابیں نہیں!

باشعور ہوتے ہی کچھ لڑکیاں شادی کے خواب دیکھتی ہیں اور کچھ اعلیٰ تعلیم پانے اور کچھ بن کر دکھانے کے دھیان میں رہتی ہیں۔ میں دوسری قسم کی لڑکیوں میں سے تھی۔ بدقسمتی سے ماں اور باپ کی سوچوں کے آگے کچھ نہ کر سکی اور سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ ہم جماعت لڑکیوں نے کالج میں داخلہ لے لیا اور مجھے گھر آ کر بتایا کہ کالج کی زندگی بڑی سہانی ہوتی ہے، تم داخلہ لے لو۔ ایک نے تو داخلہ فارم بھی لا کر دیا، جو امی نے اس کے ہاتھ سے لے کر پھاڑ دیا اور کہا کہ آئندہ ملنے آئو تو کالج کی باتیں نہ کرنا۔ رخسانہ جب چلی گئی، میں بہت روئی۔ امی جان کا اپنا مزاج تھا، بھلا ان کو کیسے سمجھا سکتی تھی کہ ماں، آگے پڑھنا، آگے بڑھنا، کچھ بننا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ شادی تو ہر لڑکی کی ہو جاتی ہے، گھر بھی بس جاتے ہیں، لیکن پڑھائی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ اگر یہ عمر نکل جائے تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا، لیکن ماں بس ایک بات جانتی تھی کہ شادی جلدی ہونی چاہیے کیونکہ شادی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، اگر وہ نکل جائے تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

رفتہ رفتہ میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے کالج کو خواب سمجھ کر بھلا دیا اور ماں کے ساتھ گھریلو کام کاج میں لگ گئی، جو وقت بچتا، سلائی کڑھائی کا کام کرتی۔ یہ معمول تھا کہ علاقے کے اچھے گھرانوں سے عورتیں امی کے پاس کام بنوانے آتی تھیں۔ وہ اپنے کپڑے، جوڑے اور دھاگے، موتی، ستارے دے جاتی تھیں اور ڈیزائن بھی سمجھا جاتی تھیں۔ میں نے امی سے کام سیکھا، لیکن میرے ہاتھ میں ان سے زیادہ نفاست اور صفائی تھی۔ عورتیں میرا کام دیکھ کر دنگ رہ جاتیں۔ وہ میرے سلیقے اور صورت کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکتیں۔ امی سے باتوں باتوں میں کہتیں، “آپ کی لڑکی بڑی اچھی ہے، جس گھر میں جائے گی، اجالا کر دے گی۔” ہاں بہن، دعا کرو، خدا اس کی اچھی قسمت کرے، اچھا گھر اور اچھا شوہر دے۔ ابھی تو کوئی رشتہ ملا نہیں، دن رات یہی فکر کھائے جاتی ہے۔

امی ابو میرے لیے رشتہ تلاش کر رہے تھے اور ساتھ مختلف اشیاء خریدنے میں لگے تھے۔ غریبوں کے ہاں تو اسی طرح جہیز جوڑا جاتا ہے۔ جو نہ ہی بیٹی جنم لیتی ہے، وہ اس کے لیے جہیز کی اشیاء ایک ایک کر کے ذخیرہ کرنے لگتے ہیں۔ امی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر، ایک دوپٹے پر موتی ٹانکنے کا کام کر رہی تھی کہ فون بجنے لگا۔ امی نے اٹھ کر فون اٹینڈ کیا۔ باتوں سے اندازہ ہوا کہ میری ماں بہت خوش ہو رہی ہیں۔ آخر میں امی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور سلام کر کے فون رکھ دیا۔ میں نے نگاہ اٹھا کر ماں کے چہرے کو دیکھا۔ وہ بہت مسرور لگیں۔ سر پر ہاتھ پھیرا، اپنے لگیں اور کہا، “شکر ہے میری چاند سی بیٹی کے لیے اتنا اچھا رشتہ ملا ہے۔” اس وقت ابو آ گئے۔ خوشی سے ماں نے پہلی بات یہی بتائی، “سنو ساجدہ کے ابو! ذکیہ بیگم، جو مجھ سے کڑھائی کروانے آتی تھیں، انہوں نے ہمارے لیے بیٹی کا رشتہ پسند کر لیا ہے۔ لڑکا محکمہ تعلیم میں سولہویں گریڈ کا افسر ہے اور اس کی عمر پچیس سال ہے۔ وہ ہفتے کے دن بات پکی کرنے آ رہے ہیں۔” امی کے منہ سے یہ باتیں سن کر میرا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ اٹھ کر وہاں سے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ ابو بے حد خوش تھے۔ وہ بے اختیار میرے کمرے میں آ گئے اور دعا دی۔

دو دن بعد ذکیہ بیگم مٹھائی کا ٹوکرا لے کر آ گئیں اور بات پکی ہو گئی۔ امی نے مٹھائی رشتہ داروں میں بانٹ دی۔ سب مبارکباد دینے آنے لگے۔ میری سہیلیاں بھی آئیں۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ ایسا اچھا لڑکا قسمت والوں کو ملتا ہے۔ تم بڑی خوش نصیب ہو کہ آفیسر ملا ہے۔ جن دن لڑکے والوں نے رسم کے لیے آنا تھا، ماموں، چاچا اور دیگر بڑے بھی ہمارے گھر آ گئے تاکہ ان کی بھی تسلی ہو جائے۔ سب نے لڑکے کا نام پوچھا۔ ابو نے تنویر بتایا۔ دوپہر کو تنویر کے گھر والے آ گئے تھے۔ امی نے کہا کہ کھانا تم اچھا بناتی ہو لہٰذا کھانا تیار کر دو۔ میں نے مٹن قیمہ، چکن روسٹ، بریانی اور کھیر بنائی۔ ابھی میں کچن میں ہی تھی کہ صاعقہ نے بتایا کہ مہمان آگئے ہیں۔ امی ان کو مہمان خانے میں لے آئیں۔ ماموں زاد صاعقہ جو میری مدد کے لیے آئی ہوئی تھی، مجھے چھیڑنے لگی، لو بھئی یہ تو پوری فوج آ گئی ہے تمہاری سسرال سے، تمہارے ساس، سسر، جیٹھ، جٹھانی، دیور، دیورانی مع بچوں کے، اور تمہارے ہونے والے۔

 وہ بھی خوب بن ٹھن کر آئے ہیں۔ اب جناب ان لذیذ کھانوں کے علاوہ اپنے حسن کی جھلک بھی انہیں دکھانی ہو گی، لہٰذا جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر تیار ہو جاؤ۔ وہ اگر ادھر آدھمکیں تو برا ہو گا کیونکہ جناب پسینے میں شرابور کام والی ماسی لگ رہی ہیں۔ میں نے غصہ دبا کر کہا، صاعقہ کی بچی! چل یہاں سے، زیادہ زبان نہ چلا اور کھانا وہاں تک لے جانے میں میری مدد کر۔ ہاں بھئی مگر تم ذرا اپنا حلیہ تو درست کر لو۔ تبھی میں نے جلدی سے ہاتھ منہ دھویا، بال ٹھیک کیے اور پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہاں پہنچی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور انجانے خدشات گھیرے ہوئے تھے کہ کہیں یہ مجھے پسند نہ کر لیں۔ کھانے کی ٹرے دھیرے سے میز پر رکھ کر پہلے ایک عمر رسیدہ عورت کی طرف دیکھا جو شاید میری ہونے والی ساس تھی۔ اس نے بڑی محبت سے مجھے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر میرا ہاتھ چومتے ہوئے کہا، ارے میری بیٹی تو چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، کیوں بھئی تنویر؟ ہمیں یہ رشتہ قبول ہے۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تنویر، جس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا تھا، مجھے بہت اچھا لگا۔ میں جلدی سے کچن میں آ گئی۔ کھانا کھانے کے بعد باتیں شروع ہوئیں۔ شام کی چائے سے پہلے انہوں نے منگنی کی رسم ادا کی اور پھر چائے پی کر چلے گئے۔

تین ماہ کے بعد شادی کی تاریخ رکھ دی گئی تھی اور شادی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں۔ ہمارا گھر رشتہ داروں سے بھر گیا۔ میں اکلوتی تھی۔ ابو نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اہتمام کیا تھا۔ دو ہفتے قبل ہی ڈھولک بجنا شروع ہو گئی۔ مجھے اتنی محبت مل رہی تھی کہ میں نے کبھی اس بارے میں سوچا نہ تھا۔ سہیلیاں روز صبح آ جاتیں، ابٹن ملا جاتا، گیت گائے جاتے۔ مجھے مایوں بٹھا دیا گیا تھا۔ سواب میں قیدی ہو کر رہ گئی تھی۔ تائی، پھوپی، خالہ، ممانی سب آ کر وقتاً فوقتاً گھر داری کے رموز سمجھاتی تھیں کہ بیٹی اپنے شوہر کا کہنا ماننا اور خاوند کو اتنی محبت و عزت دینا کہ وہ تیرا ہو کر رہ جائے اور تیری ہر بات مانے۔ 

وقت رخصت، امی نے مگر عجیب باتیں کہیں۔ مثلاً، بیٹی! پہلے دن سے شوہر پر رعب رکھنا اور کہنا کہ مجھے الگ گھر میں رکھو، اسے سرکاری گھر مل سکتا ہے تو مشترکہ فیملی میں رہنے کی بجائے تم دونوں میاں بیوی کو علیحدہ رہنے میں ہی سکون ملے گا اور خبردار جو نند اور ساس سے گھلی ملی ورنہ ساری زندگی ان کی لاتیں کھاتی رہو گی۔ تمہارا شوہر بائیس ہزار تنخواہ لیتا ہے، اسے کہنا کہ چار ہزار ماں کو دے، باقی اٹھارہ ہزار تم کو دے۔ میں نے ماں کی ان نصیحتوں کو وقت رخصتی ذہن نشین کر لیا۔ ماں نے بار بار ہدایت کی تھی کہ میری نصیحت بھولنا مت! یہ سوچے بغیر کہ ان حرکتوں سے میرا گھر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔

سسرال والے تعلیم یافتہ، مہذب اور صاحب حیثیت لوگ تھے۔ ہم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھے۔ خاندان والے عش عش کر اٹھتے۔ وہ نہایت اعلیٰ قسم کی برانڈ اور زیورات لائے تھے۔ عروسی جوڑے میں، میں بے حد جچ رہی تھی۔ ابو نے کافی رقم ادھار لی تھی۔ لڑکے والوں کی حیثیت کے مطابق دھوم دھام سے شادی کی۔ صورت اور سیرت دونوں ہی خوب تھیں، تبھی وہ میرا بہت خیال کر رہے تھے۔ میرا پرتپاک کیا گیا، قدموں میں پھول ہی پھول تھے، تھال بھر بھر کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔ اس روز کو میں خوش قسمت سمجھ رہی تھی۔ کسی کو ایسا احترام نہ ملا ہو گا، جتنا مجھے اس گھر میں مل رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے میں ماں ہوں اور میرے سامنے باقی سب رعایا ہیں۔

 سہاگ رات کو میں نے محسوس کر لیا کہ میرا شوہر اپنے والدین کے ساتھ بہت محبت کرتا ہے کیونکہ گھونگھٹ اٹھاتے ہی جو بات کہی، وہ یہ تھی: ساجدہ! دیکھو، تم میری حقیقی محبت اس وقت پاسکو گی جب تم میرے والدین سے محبت کرو گی، ان کا احترام کرو گی، ایسانہ ہوا تو تم میرا دل نہیں جیت پاؤ گی۔ دو تین ماہ تک تو میں چپ رہی۔ امی کا بار بار فون آتا تھا۔ یہی وقت ہے، اگر کچھ کر سکتی ہو تو کر لو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب تمہارے شوہر کا دل تم سے بھر جائے گا، پھر کچھ نہ کر سکو گی۔ پہلے سوچا کہ امی جان کو سمجھاؤں کہ ماں، جانے تم کن وقتوں کی باتیں کرتی ہو، اب وہ زمانہ نہیں رہا۔

 ساس ماں جیسی ملی ہے اور دیور بھائی جیسا ہے، دیورانی اور نندیں بھی سب محبت کرنے والی ہیں تو پھر بھلا میں کیوں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناؤں اور سب سے الگ ہو کر رہوں؟ تو کیا میں تنہا رہ کر اچھی لگوں گی؟ میں ماں سے دبے لفظوں میں کہتی تھی کہ اماں، فکر نہ کرو، یہاں سب ٹھیک چل رہا ہے۔ روز فون کر کے ایسی باتیں نہ کہا کرو کہ میں پراگندہ ذہن ہو جاتی ہوں۔ جب سب اچھا برتاؤ کرتے ہیں، پھر کیوں ان سے بگاڑ لوں؟ ساس سویرے اٹھتے ہی پہلے میرا ماتھا چومتی، پھر کوئی دوسرا کام کرتی اور نندیں غلام بن کر سامنے آتیں۔ پانی کا گلاس بھی مجھے اٹھ کر پینے نہ دیتیں، سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتیں۔ جیٹھ، جٹھانی، دیور، دیورانی ہر کوئی خندہ پیشانی سے ملتا۔ ان کے بچے “چچی جان” کہتے نہ تھکتے، خوب پیار دیتے۔ میں سارا دن کمرے میں پلنگ پر لیٹی رہتی، گھر کے کام کو وہ ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ ایسی محبت تو کسی خوش بخت کو ہی سسرال میں نصیب ہوتی ہے۔

سسرال میں اتنی اچھی نبھ رہی ہو تو کیا کسی لڑکی کا دماغ خراب ہے کہ وہ ان سے الجھے جو اس سے محبت کر رہے ہوں لیکن یہ بات میری امی کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ وہ بس یہی رٹ لگائے تھیں کہ کب ان لوگوں سے الگ ہو رہی ہو ؟ ایسا نہ ہو کہ کل یہ تم پر حاوی ہو جائیں، پھر تو میاں تم کو پیر کی جوتی سمجھ لے گا۔ پانی کا قطرہ اگر مسلسل پتھر پر گرتا ر ہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ ماں کی مسلسل ایسی باتوں نے بالآخر میرا دل برا کر دیا۔ تبھی میں نے میاں سے بات کرنے کی ٹھان لی اور وہ تھکے ہارے گھر آئے تو میں نے موڈ خراب کر لیا۔ وہ مجھ سے حسب معمول ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور میری تیوری پر بل پڑے تھے۔ کسی بات کا جواب نہ دیا تو تنویر کا ماتھا ٹھنک گیا، ، ضرور کوئی بات ہے ورنہ پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ انہوں نے بہت پیار سے پوچھا۔ کیا بات ہے،کسی نے کچھ کہا ہے ؟ میں چپ رہی۔

جب بار بار یہی پوچھا تو پھٹ پڑی اور کہا کہ ایک بات ہو تو بتائوں، صبر کی انتہا ہوتی ہے، آخر کتنے دن چپ رہوں ، اب میں اس گھر میں ان لوگوں کے ساتھ ہر گز نہ رہوں گی، میرا چین سکون آرام حرام ہے، جس کا جب جی چاہے میرے کمرے میں گھسا چلا آتا ہے ، آپ کے رشتے داروں نے تو میرا جینا حرام رک دیا ہے ، اگر آپ نے الگ گھر نہ لیا تو میں کچھ کھا کر مر جائوں گی۔تنویر کھانے تک خاموش رہے۔ جب ہم اپنے کمرے میں پہنچے تو میرا ہاتھ چوم کر کہا۔ آج خیر تو ہے میری جان ہم سے کچھ ناراض سی لگ رہی ہو۔ تب میں نے غصے میں ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا کہ تمہارے گھر والوں کو ایک نوکرانی کی ضرورت تھی، سو مل گئی۔ حالانکہ گھر کا کام میں نہ کرتی تھی مگر میں پھر جو شروع ہوئی تو رات گئے تک اول فول بکتی رہی اور اس نے اُف تک نہ کہی۔
اب روز میرا ایک ہی وتیرہ تھا جب گھر آتے ، کمرے میں داخل ہوتے ، منہ پھیر لیتی۔ بات کرتے تو لڑنا شروع کر دیتی کہ میں نے تمہارے اس مشترکہ فیملی سسٹم میں نہیں رہنا، ہم الگ گھر میں رہیں گے اور نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ وہ ہر دفعہ پیار سے سمجھاتے۔ کہتے ، نہیں میری جان ایسا نا ممکن ہے، میں تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہوں، تم کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے ، میں اپنے ماں باپ کے سوا جی نہیں سکتا ۔ اگر یہ بات ہے تو پھر تم میرے بغیر جی لو اور صبح تم مجھے میرے گھر چھوڑ دینا۔ یہ سن کر وہ حیرت کی تصویر بن گئے۔ ان کو مجھ سے ایسی توقع نہ تھی کیونکہ انہوں نے مجھے کوئی تکلیف نہ دی تھی بلکہ ہر طرح سے میرا خیال رکھا تھا۔

صبح ہوئی تو میں نے تیاری باندھ لی کیونکہ امی کے مسلسل فون آ رہے تھے کہ تم نے شوہر سے اپنی بات منوالی کہ نہیں ؟ بیوقوف کہیں کی، یہ چار دن کی چاندنی ہے تمہارا چائو ، پھر یہ لوگ تم کو کولہو کا بیل بنادیں گے ، تب تم کچھ نہ کر پائو گی۔ نئی نویلی دلہن ہو کر اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتیں۔ بعد کی سوچو، یہ ساری تنخواہ ماں کو دے کر تمہارے ہاتھ ہزار دو ہزار رکھیں گے ، اس سے تمہاری کیا خواہشیں پوری ہوں گی ؟ غرض میری اماں اتنا سر کھایا کہ میرا دماغ خراب کر کے رکھ دیا۔ میں نے ایسی بڑی بڑی باتیں کہنی شروع کر دیں جو قبل از دیوانے کا خواب لگتی تھیں۔ مثلاً علیحدہ گھر اپنے لیے نہیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے چاہیے ، آپ کے بھائیوں کے بچے ان سے لڑیں گے ، روز بچوں کی خاطر تو تو، میں میں ہو گی، ہمارا تو جینادو بھر ہو جائے گا حالانکہ ابھی بچے ہوئے کب تھے جب ایسی باتیں کرنے کی تک بنتی مگر میں ایسے ہی اوٹ پٹانگ جواز نکال رہی تھی کیونکہ بات جو نہ بن رہی تھی۔ میاں نے کافی سمجھایا۔ 

اکیلے گھر میں کیونکر رہو گی۔ میں ڈیوٹی پر چلا جائوں گا ، شام کو لوٹوں گا، تم تنہائی سے گھبرا جائو گی ، یہاں سب تمہارا کتنا خیال رکھتے ہیں، کسی چیز کی کمی نہیں ہے ، وہاں بات بات پر تم کو پریشانی ہو گی، پھر میرے لوگ یاد آئیں گے ، یہ سب تم سے پیار کرتے ہیں ، اتنے برے نہیں ہیں خواہ مخواہ کے وہم مت کرو۔ اگر جیب خرچ چاہیے تو بتائو، جتنا ما نگو گی، اس سے زیادہ دوں گا لیکن میری ایک ہی ”نہیں“ اس لیے تھی کہ ماں جو دن رات کان کھا رہی تھی۔ الگ رہو۔ الگ ہو جائو۔ ساتھ رہو گی تو عمر بھر ان سے پھر الگ نہ ہو سکو گی ۔ تمہارے میاں کی کمائی یہی لوگ کھاتے رہیں گے ، تیرے پلے کیا بچے گا۔ اُف میں حب تنگ آ گئی اور میاں کسی طور نہ مانے تو میں نے رونا شروع کر دیا۔ 
تمام رات روتی اور ان کو سونے نہ دیتی۔ انہوں نے صبح آفس جانا ہوتا۔ جب رات کو سونہ پاتے تو صبح ان کے لیے تیار ہو کر آفس جانا مشکل ہونے لگا۔ یقین ہو گیا کہ اب اس عورت کو سنبھالنا مشکل ہے۔ یہ ضد پر اڑ چکی ہے۔ ایک دن کسی کو بتائے بغیر مجھے ساتھ لیا اور میکے چھوڑ کر چلے گئے۔ جاتے ہوئے کہا۔ ساجدہ ! ابھی تم ضد میں ہو ، جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے مجھے فون کر دینا، میں آکر تم کو لے جائوں گا۔ انہوں نے ہمارے بیچ ہونے والے جھگڑے کا ذکر اپنے گھر والوں سے نہ کیا کہ کہیں ان کا دل برا ہو جائے۔ ماں نے میرا گرم جوشی سے سواگت کیا اور تسلی دی کہ اچھا کیا تم نے ہمت سے کام لیا۔ اب ان کو پتا چلے گا۔ دیکھنا تیرے بغیر نہ رہ سکیں گے ، کمرہ کاٹنے کو دوڑے گا، ابھی کے ابھی آ کر لے جائیں گے۔

ایسا کہتے کہتے ایک ماہ گزر گیا، پھر دوسرا مہینہ گزرا۔ تنویر نہ آئے۔ میں نے ان سے فون پر بات کرنا چاہی تو امی نے روکا کہ ابھی نہیں ، انہی کو رابطہ کرنے دو ورنہ تمہاری قدر کم ہو جائے گی۔ تیسرے ماہ میری ساس آئیں، پھر جٹھانی اور جیٹھ آئے۔ دیور اور دیورانی بھی مجھے منانے آئے لیکن ہماری عقلمند اماں نے ہر ایک کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا اور اپنی شرط پر اڑ گئیں۔ حد یہ کہ مجھے فون پر بات کرنے تک سے روکے رکھا۔ بار بار تنویر فون کرتے تھے تو امی تلخ لہجے میں خود بات کر کے فون رکھ دیتی تھیں۔

آخر تنویر اپنے والد کے ساتھ آئے۔ امی نے ان کو بھی ٹکا سا جواب دیا کہ الگ گھر لے کر نہیں دے سکتے تو ساجدہ نہیں جائے گی۔ اس طرح بے عزتی پر آخر کار مسئلہ گمبھیر ہو گیا۔ وہ صاحب حیثیت ہم سے سماجی لحاظ سے کہیں بہتر مقام والے عاجزی سے کام لے رہے تھے اور امی تھیں کہ اکڑتی جارہی تھیں۔ والد صاحب کو بھی نہ بولنے دیتی تھیں۔ ان سے تو یہی کہتیں کہ آپ بیچ میں نہ آئے ، بھلا آپ کو کیا خبر کہ یہ لوگ کس قدر دوغلے ہیں ، اوپر سے بڑے اچھے بن رہے ہیں۔ مہذب ہونے کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے ، اندر سے کچھ اور ہیں۔ میری بچی کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے، بہت ظلم کرتے ہیں، یہ رات دن روتی ہے وغیرہ وہ ایسی باتیں اس لیے کرتی تھیں کہ کہیں والد صاحب ان کے اچھے رویے سے متاثر ہو کر مجھے ان کے ہمراہ بھیج دیں۔ دراصل امی چاہتی تھیں کہ تنویر آفیسر ہیں، ساری تنخواہ میری بیٹی کی جھولی میں آئے اور وہ ماں باپ کو کچھ نہ دیں۔ حالانکہ یہ سراسر زیادتی تھی۔ جنہوں نے پڑھایا لکھایا، پرورش کی ، ان والدین کا اولاد پر حق ہوتا ہے۔
اس سرد جنگ میں ایک سال گزر گیا۔ میرا مسئلہ اتنا بڑھا کہ مجھے اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ اب میں حقیقت میں پریشان رہنے لگی۔ اپنا گھر اپنا ہوتا ہے ، لاکھ میکے میں آرام سہی لیکن ایک شادی شدہ عورت کے لیے شوہر کے گھر کے سوا کہیں سکون نہیں ہوتا، بشر طیکہ سسرالی اور شوہر اچھے ہوں، پیار کرنے والے ہوں۔ مجھے تو انہوں نے پیار بھی حد سے زیادہ دیا تھا۔جب وہاں سے رابطہ بالکل ختم ہو گیا۔ وہ لوگ خاموش ہو کر بیٹھ گئے ، تب میرے دل میں ہول اٹھے۔ عجیب کیفیت ہو گئی۔ کیا کروں، کیا نہ کروں۔ تنویر یاد آتے ، ان کے بغیر جی اداس رہتا، ان کی بے حد کمی محسوس ہوتی، دلگرفتہ اور اداس رہنے لگی۔غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ نہیں چاہتی تھی ہمارے درمیان کوئی بڑی دیوار حائل ہو۔ میں شروع دن سے بگاڑ نہیں چاہتی تھی۔ یہ سب ڈرامہ امی کے کہنے پر کر رہی تھی حالانکہ مشترکہ فیملی سسٹم میں مجھے کوئی تنگی نہ تھی بلکہ آرام تھا۔ جب ماں نے یہ دیکھا کہ یہ ہماری شرط نہیں مانتے تو ہم طلاق کا مطالبہ کر دیں گے۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے اپنا مختصر سامان اٹھایا اور بغیر والدین کو بتائے سسرال آ گئی۔

جب ان لوگوں نے مجھے دروازے پر دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ساس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، بھاگ کر آئیں اور سے لگا لیا۔ سب نے میرا خندہ پیشانی سے سواگت کیا اور پچھلی ایک بات نہ دہرائی کہ میں شرمندہ ہو جاتی۔ میاں کو اطلاع کی۔ وہ بھی فورا گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور خوش ہو کر ملے۔ تب مشترکہ فیملی سسٹم جس کو میری ماں جہنم سے تشبیہ دیتی تھی، مجھے جنت لگا۔ آج میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ 
امی کافی عرصہ روٹھی رہیں، فون کرتی تھی تو بات کیے بغیر رکھ دیتی تھیں۔ دکھ تو ہوتا تھا مگر ماں کو ٹھکرا کر اپنا گھر آباد کیا۔ ایک دن پتا چلا وہ بیمار ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔ میں چلی گئی، جاکر ان کے گلے لگ گئی۔ پائوں پکڑ کر معافی مانگی۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے ، دل سے لگا لیا اور مان گئیں۔ میں نے اور میرے خاوند نے ان کی بہت خدمت کی۔ بیماری میں میری ساس بھی ان کے پاس ٹھہرتیں۔ بہت خیال کیا تب ان کو احساس ہوا کہ سب سسرال والے برے نہیں ہوتے ، ہر ساس روایتی ساس نہیں ہوتی۔ آج میری ماں میرے فیصلے پر بہت خوش ہے اور میری سب کے ساتھ اچھی گزر رہی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے