دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ ہماری نانی کو اپنے بیٹے کا گھر بسانے کا خیال آیا۔ وہ رشتے کی تلاش میں مصروف ہو گئیں۔ تھوڑی سی جستجو کے بعد ان کو ایک لڑکی پسند آگئی، جس کا نام یاسمین گل تھا۔ واقعی وہ اپنے نام کی طرح خوبصورت اور نیک سیرت تھی، اور اس کا اخلاق بھی خوشبو کی مانند مہکتا تھا۔نانی اماں جانتی تھیں کہ شادی پر رقم خرچ ہوتی ہے، اسی لیے انہوں نے ایک جگہ کمیٹی ڈالی ہوئی تھی۔ حامد ماموں لائن مین تھے، ان کی ملازمت شہر میں تھی، جبکہ نانا نانی گاؤں میں رہتے تھے۔ ماموں ہر ماہ اپنی تنخواہ والدین کو بھجوا دیا کرتے تھے۔ گاؤں کا خرچہ کم تھا، لہٰذا نانی کو کمیٹی ڈالنے میں آسانی ہو گئی۔
کئی برس یہ سلسلہ چلتا رہا اور ماموں کی شادی کے لیے معقول رقم اکٹھی ہو گئی۔ پھر اچھے کپڑے اور زیورات تیار کر کے ماموں کی شادی کر دی گئی۔شادی سے پہلے ماموں، گل مامی کے گھر جایا کرتے تھے اور ان لوگوں کے لیے تحفے تحائف بھی لے جاتے تھے۔ یوں وہ اس رشتے سے بہت خوش تھے اور دولہا بنے تو بہت حسین لگ رہے تھے۔ گل تو ویسے ہی حسین و جمیل تھیں، دلہن بنی تو جیسے حور شمائل لگ رہی تھیں۔ سبھی کہہ رہے تھے، ماشاءاللہ! نظر نہ لگ جائے۔شادی کی تمام رسومات ادا ہو جانے کے بعد گل مامی کو حجله عروسی میں پہنچا دیا گیا۔
یہ کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا اور خوشبوؤں سے مہک رہا تھا۔ اس دن پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ انہیں بیٹھتے ہوئے دقت ہو رہی ہے، کیونکہ وہ بہت آگے کو جھکی ہوئی تھیں، جیسے کسی تکلیف کو چھپا رہی ہوں۔ ہم نے ان کے پیچھے تکیے رکھے تاکہ وہ ٹیک لگا کر سیدھی ہو کر بیٹھ جائیں، لیکن وہ تمام وقت جھکی ہی رہیں۔ دلہن تھیں، لہٰذا کسی سے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ہمارا گھر نانی جان کے گھر سے قریب تھا، میں روز ماموں کی دلہن دیکھنے جاتی تھی۔ نئی دلہن ہونے کے باوجود وہ گھر کے تمام کام کرتیں جیسے میکے میں کرتی تھیں۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ وہ برتن دھو رہی ہیں اور ان کے دونوں ہاتھ مسلسل کانپ رہے ہیں۔ میں نے نانی جان سے کہا، تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا کہ تم کیا ہر وقت گل کو چیک کرتی رہتی ہو؟ جاؤ، اپنا کام کرو۔
ایک دن میں نانی کے گھر گئی۔ گل مامی نے خوشی خوشی سالن بنایا، پھر روٹیاں بنانے لگیں۔ اچانک انہوں نے چیخ ماری اور بولیں، میں مر رہی ہوں! ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ سینے پر رکھے نیچے کو جھکی ہوئی تھیں۔ میں نے نانی کے ساتھ مل کر جوں توں انہیں پکڑ کر کمرے میں پہنچایا، پھر ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے دوائیں لکھ دیں۔ ہم نے مامی کی والدہ کو بلایا، تو انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی کو کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں، یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ یوں وہ ہمیں تسلی دے کر چلی گئیں۔ دیکھنے میں گل مامی بالکل صحت مند لگتی تھیں، ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ کس بیماری میں مبتلا تھیں۔ایک بار میں شام کو ان کے گھر گئی، وہ اپنے کمرے میں تھیں۔ میں ان سے ملنے چلی گئی۔
وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھے نیچے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے اپنا سر اوپر کیا، تو میں حیران رہ گئی، کیونکہ ان کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا، یہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ پہلے تو وہ خاموش رہیں، پھر میرے اصرار پر بتایا کہ جب میں میکے سے لوٹ رہی تھی، تو ماں رو رہی تھیں، تبھی پریشان ہو گئی کہ میری جدائی انہیں کتنا دکھی کر دیتی ہے۔ اسی لیے وہ جمعہ کے جمعہ میکے جاتی تھیں اور بہت خوش ہوتی تھیں۔ایک دفعہ وہ میکے جانے کو تیار ہوئیں، تو جاتے جاتے میری والدہ کے گلے لگ کر رونے لگیں اور بولیں، ہو سکے تو آپ لوگ مجھے معاف کر دینا۔انہیں گئے تیرہ دن ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
دروازہ کھولنے پر جو اطلاع آنے والے نے دی، وہ بہت قیامت خیز تھی۔ نانی جان بھاگی ہوئی ہمارے گھر آئیں اور امی سے کہا، جلدی چلو، تمہاری گل بھابھی فوت ہو گئی ہیں!یہ سنتے ہی میری ماں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ یوں اچانک مر جائیں گی، اور وہ بھی شادی کے صرف چھ ماہ بعد؟خیر، جیسے تیسے ہم ان کے گھر پہنچے۔ میں انہیں دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی، لیکن جب نظر پڑی تو یوں لگا جیسے ان کے لب مسکرا رہے ہوں۔ ان کا چہرہ ابدی نیند میں جانے کے باوجود پر سکون تھا۔ وہ رات جیسے قیامت بن کر گزر گئی۔ان کی والدہ انہیں اپنے شوہر والے قبرستان میں دفن کرنا چاہتی تھیں، مگر میرے نانا ان کی میت کو اپنے ساتھ لے آئے تاکہ گل اپنے سسرال کو بھی آخری سلام کر لے۔ اسی دوران ماموں، جو اپنی ملازمت پر دوسرے شہر گئے ہوئے تھے، انہیں بھی اطلاع دی گئی۔جب وہ پہنچے تو میں نے دیکھا، انہوں نے بڑی سی چادر اوڑھ رکھی تھی اور بہت ہی غمزدہ دکھائی دے رہے تھے۔
ممانی کو ان کی آخری آرام گاہ، ان کے والد اور بھائی کے قریب دفنا دیا گیا۔ یوں ایک باب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ہم پہلے کراچی میں رہتے تھے اور وہاں کافی خوشحال تھے۔ پھر میرے دادا جان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تو والد صاحب کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے سارا سامان گاؤں بھجوا دیا اور ہم گاؤں آگئے۔ گاؤں میں یہ چار سال بہت پریشانی میں گزرے۔ بیروزگاری کے ساتھ گل کی موت کا حادثہ امی جان کے لیے کافی صدمے کا باعث تھا، کیونکہ وہ ماموں سے بہت محبت کرتی تھیں۔ماموں جان اپنی دلہن کی موت کے بعد بالکل خاموش ہو گئے تھے، جیسے انہیں سکتہ ہو گیا ہو۔ وہ گل مامی کو بے حد چاہتے تھے۔
بھری بہار میں جس کا چمن لٹ جائے، اس کی کیا حالت ہوگی؟گل مامی کے انتقال کے بعد میرے ابو کی ملازمت بحال ہو گئی اور ہم پشاور آ گئے۔ میں یہاں آکر بھی ایک لمحے کے لیے ممانی کو نہ بھلا سکی۔ اس کھلتی ہوئی کلی نے ہمارے ساتھ دن ہی کتنے گزارے تھے کہ پھل پھول لگنے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔ وہ پانچ وقت کی نمازی تھیں۔ کاش ہمیں ان کی بیماری کا پہلے سے علم ہوتا تو ہم ان کا علاج کروا لیتے، لیکن وہ اپنی نادان ماں کے خوف کے باعث موت کی وادی میں چلی گئیں۔بعد میں ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ تب علاج ممکن تھا، مگر گل کی امی نے یہ بات ہم سے چھپا لی تھی کہ مبادا ہم رشتہ ختم نہ کر دیں۔
انہوں نے سوچا کہ ہم غریب ہیں اور کینسر کا علاج مہنگا ہے، ہم اس کا علاج تو کروا نہیں سکتے۔ اگر اسے یقیناً زندگی کی بازی ہارنی ہے، تو کیوں نہ اس کی شادی کر دی جائے؟ کم از کم دلہن بننے کا اس کا جو ارمان ہے، وہ پورا ہو جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے ہم سے کچھ نہیں کہا اور وہ فائل بھی نہ دکھائی جس میں گل کی طبی رپورٹیں تھیں۔ میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ حامد ماموں اور گل یاسمین کو اس دنیا میں تو ساتھ رہنا نصیب نہ ہوا، شاید ان کو ایک دوسرے سے سچی محبت تھی۔
0 تبصرے