وہ خوفناک انسان کاشف کے قریب پہنچا اور اس نےکاشف کی گردن پر ہاتھ ڈال دیا۔
اسی پل کاشف کی حاضر دماغی کام آئی اور کاشف جھکائی دے کر بچ گیا اور گھوم کر کاشف نے ایک بھر پور لات اس کی پیٹھ پر باری اور بھاگ کھڑا ہوا کاشف نے یہ دیکھنے کی بھی توفیق نہ کی کہ اس کی لات کا انجام کیا ہوا۔ جیسے ہی کاشف کمرے سے باہر نکلا سامنے زاغو نہ کھڑی نظر آئی زاغونہ کاشف کو دیکھ کر مکروہ انداز میں ہنسی اور چیختی ہوئی کا اشف کی طرف بھاگی کاشف پلٹا تو یہ دیکھ کر چونک گیا کہ اس کے پیچھے وہی خوفناک انسان کھڑا نظر آیا۔
صورتحال اب یہ تھی کہ کاشف کے سامنے زاغو نہ اور پیچھے وہی خوفناک انسان کھڑا تھا موت کا شف سے صرف چند قدموں کے فاصلے پر تھی کاشف بھاگنا چاہتا تو بھاگ نہیں سکتا تھا۔
"زلموس۔ دفع ہو جا یہاں ۔ ہو جا یہاں سے یہ میرا شکار ہے۔“ زاغو نہ اس خوفناک انسان کی جانب دیکھ کر بولی اس کی آواز سے غصہ ظاہر ہو رہا تھا۔
جواباً اس خوفناک انسان . کے لب ہلے۔ اس کا یا منہ کھلا ، منہ کھلتے ہی کاشف نے دیکھا کہ اس کے منہ سے شعلے نکل گئے ۔
و یہ تیرا نہیں زاغونہ۔ رامونہ دیوی کا شکار ہے۔ تو ایک حقیر سی داسی جس کو کھر چن مل جائے غنیمت ہے وہ پورا ہر پنا چاہتی ہے۔ زلموں کے حلق سے کھوکھلی اور پینتی ہوئی آواز نکلی۔
رامونہ کا نام سن کر کاشف چونک پڑا کیونکہ یہ اسی پتھر کے مجسمے کا نام تھا کاشف نے دیکھا کہ رامونہ کے نام پر زاغونہ کے چہرے پر مردنی دوڑ گئی تھی چند لمحے تک وہ سوچتی رہی اور پھر بولی ” کچھ بھی ہو اس کے خون سے
صرف میری ہی پیاس بجھے گی۔ زاغو نہ کا لہجہ حتمی تھا۔
لگتا ہے تم کو سبق سکھانا ہی ہوگا۔“ اتنا کہہ کر زلموس نے زاغو نہ کی جانب بھاگنا شروع کر دیا اس کو بھاگتے دیکھ کر بالکل ہی ایک طرف ہو گیا۔ زاغو نہ نے زلموس کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ دونوں ہی اچھل کرایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے کاشف موقع جان کر وہاں سے بھاگ نکلا۔
جیسے ہی وہ اس کھنڈر نما مکان سے باہر نکلا اُس کے سامنے ایک دوسر امکان تھا جو کہ بالکل اسی طرز کا تھا۔
ابھی کاشف کھڑا ہی تھا کہ ایک تیز چیخ سن کر وہ اچھیل پڑا۔ درد و کرب میں ڈوبی ہوئی چیخ کسی عورت کی تھی کاشف کو ایسا لگا کہ جیسے کہ چیچنے والی کو بڑی ہی بے دردی سے ذبح کیا جا رہا ہو۔ اس کا دل یک بارگی اچھل کر حلق میں آگیا کا شف اپنی تکلیف بھول گیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ غیر انسانی مخلوق کے نرغے میں پھنس گیا تھا جو اس ا کے حصول کے لئے آپس میں لڑ پڑے تھے نہ جانے ان کی لڑائی کا انجام کیا ہوا۔
کا شیف ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ کیا کریے چیخ پھر بلند ہوئی تھی اس بار وہ شیخ پہلے سے زیادہ دردناک تھی وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ یہاں ہے کہیں پر کوئی مجبور عورت پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے اس کا دل اس مظلوم عورت کی مدد پر آمادہ ہونے لگا تھا چنانچہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا تا کہ وہ ایں مظلوم کی مدد کر سکے جو شاید اسی کی طرح ورغلا کر لائی گئی تھی۔
وہ اذیت ناک چیخ پھر سنائی دی جس کو سن کر کاشف کے جسم میں خوف کی ا خوف کی ایک تیز تیز لہر دوڑ گئی خوفزدہ دل و دماغ میں انسانی ہمدردی غالب آگئی اس کے خیال کے مطابق وہ شیخ اسی کھنڈر نما مکان سے بلند ہوئی تھی۔
کاشف فورا ہی اس مکان میں داخل ہو گیا یہ سوچے بغیر کہ وہ تو خود مصیبت زدہ ہے پھر اس کی مدد کیسے کرے گا۔ S
بہر حال یہ کاشف کے لئے مشکل تھا اندر داخل ہوتے ہی کاشف چونک گیا۔ پورا مکان خالی تھا جیسے ان میں کوئی رہتا نہ ہو۔ کیا اس مکان کے مکین کانوں میں تیل ڈال کر سورہے تھے یا بہت زیادہ خود غرض تھے کہ کسی مظلوم کی چیچنیں بھی ان کو متاثر نہیں کر رہی تھیں۔
اچانک کاشف کے کانوں نے پھر وہی چیخ سنی جس کو سن کر کاشف چونک گیا اس کو ایسا لگا کہ شیخ کی آواز زمین کے اندر سے آرہی ہو۔ کاشف جس جگہ کھڑا تھا شیخبالکل ٹھیک اسی کے نیچے سے سنائی دے رہی تھی اچانک کاشف اچھل پڑا اور پیچھے ہٹ گیا گڑ گڑاہٹ کی آواز کے ساتھ فرش نیچے کی طرف دب رہا تھا جیسے اس میں راستہ بن رہا ہو کا شف کے لئے یہ نئی پریشانی تھی۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد سارا فرش اندر دب گیا۔ وہ ایک زینہ سا تھا جو کہ نیچے کی طرف اتر رہا تھا جو کہ ایک تہہ خانہ کا راستہ تھا کاشف شش و پنج میں پڑ گیا کہ نیچے اترے یا نہیں لیکن اس نے اللہ کا نام لیا اور زینہ پر قدم رکھ دیا جیسے ہی کا شف نیچے پہنچا اسی لمحے کاشف کے قدم تہہ خانے کے فرش سے چپک کر رہ گئے ہوں سامنے والا منظر ہی اتنا لرزہ خیز تھا کہ خوف سے کاشف کی آنکھیں اُبل پڑیں۔
جو منظر کاشف کی آنکھوں نے دیکھا وہ اتنا لرزہ خیز اور روح فرسا تھا۔ تہہ خانہ کی دیوار کے ساتھ پتھر کا رامونہ بت کھڑا تھا جو کہ کاشف نے بستی میں داخل ہوتے وقت دیکھا تھا اس کے بالکل سامنے چوبی شکنجے سے ایک نیم برہنہ نو جوان عورت جکڑی ہوئی تھی اس عورت کے چہرے سے درد و ، درد و کرب کا زبردست اظہار ہو رہا تھا آ آنکھوں میں اذیت و خوف کے۔ ملے جلے سائے لہرا رہے تھے کا شف اس عورت کو دیکھ کر چونک گیا، اس نے اس کو پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی کیونکہ کا شف ہزاروں بار اس کی تصویر نیوز چینل اور اخباروں میں دیکھ چکا تھا یہ وہی لڑکی تھی جو کچھ عرصہ قبل اپنی شادی چھوڑ کر ایک لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی تھی ! فرار ہو گئی تھی بعد میں اس لڑکے کی
لاش ملی تھی اور لڑکی لاپتہ ہوگئی تھی یہ صرف تھی۔ شکنجے کے قریب ہی ایک بڑے سے کھڑے میں
آگ دہک رہی تھی ایک ادھیڑ عمر مضبوط اور سفاک قسم کا خوفناک شخص ہاتھوں میں دہکتی سلاخیں لئے صدف کی جانب بڑھ رہا تھا صاف ظاہر تھا کہ وحشی انسان اس کے خوب صورت اور نازک جسم کی چربی پگھلانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس تہہ خانے میں اور بہت سے لوگ اس آگ کے گرد دائرے کی صورت میں کھڑے تھے سب کے سب برہنہ حالت میں تھے ان سب کے چہروں پرعقیدت نمایاں تھی وہ سفاک شخص ہی صرف پورے کپڑوں میں تھا وہ کپڑے ایسے تھے جو کہ کسی مندر یا معبد کے پجاری وغیرہ پہنتے ہیں صرف ایک چوغہ تھا جو کہ اس نے پہن رکھا تھا اگلے پل ہی اس سفاک بوڑھے نے جس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی سرخ سلاخ تھی۔ اس نے مڑکر کاشف کی جانب دیکھا تو دوسرے ہی پل کا شف لرز کر رہ گیا۔ اس کو اپنے جسم کا سارا خون اپنی ہی رگوں میں جمتا ہوا محسوس ہوا۔
اوہ۔۔۔ وہ سردا آن رد آنکھیں جن میں سفاکیت بھری تھی وہ ان آنکھوں میں کاشف کو سانپ کی تیز اور خوفناک چمک لہراتی ہوئی نظر آرہی تھی اس کے منحوس اور شیطانی چہرے پر درندگی رقص کرتی نظر آرہی تھی اس کے کالے کالے موٹے ہونٹوں پر نہایت ہی شیطانی قسم کا قسم کھیل رہا تھا۔
زو میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا ۔ وہ کاشف کی طرف دیکھ کر عجیب بھٹی ہوئی غیر انسانی آواز میں بولا ۔
میرا کاشف کا دل خوف سے کانپ گیا۔ ہاں تمہارا ۔ وہ مسکرایا۔ ” مجھے یقین تھا کہ تم
ضرور آؤ گے اور تم کو آنا ہی تھا۔“
اس کی بات سن کر خوف کی ایک تیز لہر کاشف کے جسم میں دوڑ گئی اور اس کا رہا سہا حوصلہ بھی پست ہو گیا پتہ نہیں اس منحوس چہرے پر ایسی کیا بات تھی کہ ایک انسان نظر آنے کے باوجود وہ اور انسانوں سے مختلف تھا اس کی آواز غیر انسانی اور کھوکھلی تھی زاغونہ کی آواز کی طرحکاشف کا دل دہشت سے بھر چکا تھا۔
نوجوان اس لڑکی کے بعد تمہارا ہی نمبر ہے وہ تو زاغو نہ نے غداری کر دی وگرنہ تم وہاں سے بھاگ نہیں سکتے تھے ۔ بوڑھا مسکرا کر بولا ۔
زاغونہ کا نام سن کر کاشف کو یاد آیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اس زاغونہ اور زلموس کو اس کے حصول کے لئے
لڑتے ہوئے دیکھا کا شف دل میں سوچنے لگا کہ زاغو نہ ہے کہاں۔ مگر کاشف یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
بوڑھا کاشف کے دل کی بات جان کر بولا ۔
ادھر دیکھو نو جوان ۔ بڑھے نے اس لڑکی کےدائیں جانب اشارہ کیا۔
کاشف نے دوسری طرف دیکھا تو زاغو نہ فرش پر پڑی تڑپتی نظر آئی ۔ زاغونہ کے پورے جسم پر وہی سفید میرے چپکے ہوئے تھے جو زاغونہ کے جسم کو چاٹ رہے تھے اور پاس ہی زلموس کھڑا تھا۔ زاغونہ کے چہرے پر شدید قسم کی تکلیف کے تاثرات نظر آ رہے تھے۔
یہ اس کی غداری کی سزا ہے۔ بوڑھا سفا کی سے مسکرایا۔
از خود نکلا
کیسی۔ غداری کاشف کے منہ سے
ہاں غداری یہ بڑھا غصے سے بولا ۔ وہ تمہارا خون اکیلے ہی پینا چاہتی تھی وہ جانتی تھی کہ تمہارا خون دیو ی رامونہ کی امانت ہے۔ مگر تم بھاگ نکلے اور اب اس کو اس جرم کی سزا ملے گی۔ بوڑھا غصے سے بولا ۔
کاشف نے کوئی جواب نہ دیا بس ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔
رحم - رحم - مقدس راعون زاغونہ کے حلق
سے درد میں ڈوبی آواز نکلی۔
تو جانتی ہے زاخو نہ ہماری کتاب میں رحم نہیں تیری وجہ سے رامونہ کی صدیوں پرانی خواہش دم توڑ
دیتی۔ اب ۔ چل اس آگ میں کود جا۔ جو کہ اب صدیوں تک تیرا مقدر بنادی گئی ہے۔ بوڑھا قہر آلود لہجے میں دھاڑا۔
کاشف یہ پوچھنے کی ہمت ہی نہ کر سکا کہ رامونہ
کون ہے وہ تو پہلے ہی خوف کا شکار تھا۔
دونن نہیں ۔ یہ آگ زاغونہ خوف سے
بڑ بڑائی۔
تو جانتی ہے۔ یہ مقدس آگ ہمارے جلانے کے بجائے ہماری روحوں کو اذیت دے گی کیونکہ ہم تو
پہلے ہی مر چکے ہیں۔ بوڑھا بڑ بڑایا۔
مر چکے ہیں۔ کاشف چونکا۔
ہاں ۔ نوجوان بہت سال پہلے اس بستی میں طاعون کی بیماری پھیلی تھی جس سے سارے لوگ مارےگئے تھے چونکہ ہم لوگ ڈکیت تھے اس لئے حکومت نے ہماری مدد نہیں کی تھی اس لئے کوئی امداد نہ ملنے کے سبب سب کے سب لوگ مارے گئے بچے بوڑھے عورتیں ۔ ہم شروع سے مقدس رامونہ کے پجاری تھے رامونہ کے لئے خون فراہم کرنا ہماری ذمہ داری تھی اس لئے جو بھی ہمارے شکنجے میں پھنس جاتا وہ رامونہ کی بھینٹ چڑھ جاتا طاعون کی وجہ سے ہم لوگ مارے گئے مگر ہماری روحوں کو مقدس رامونہ نے فنا ہونے نہیں دیا۔ پھر ہم باہر کے لوگوں سے بدلہ لینے لگے لوگ اپنی گاڑیوں میں یہاں آتے ہم ان کے جسم کا سارا خون پی لیتے اور لاش لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے سڑک پر چھوڑ دیتے ۔ ہم چاہتے تو لاش لے جانے والے بھی ہمارا شکار بن سکتے تھے مگر جان بوجھ کر دہشت کے لئے ان کو چھوڑ دیتے تا کہ لوگوں میں خوفناک ہر اس پھیلئے۔
اس کی بات سن کر کاشف کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں یہ اس کے باعث دہشت تھا کہ وہ خون آشام روحوں کے چکر میں پھنس گیا تھا۔ بوڑھا چند لمحے تک زاغو نہ کو دیکھتا رہا اور پھر بولا ۔
زاغو نہ چل ۔ شاباش چھلانگ لگا آگ میں وگر نہ تیری سزا کی مدت بڑھادی جائے گی اور دو سو سال کی جگہ چار سو سال تک آگ میں رہنا پڑے گا۔ بوڑھا غصے سے بولا ۔
زاغو نہ کی آنکھوں میں مردنی دوڑ گئی دوسرے ہی پل وہ تڑپتے ہوئے اُٹھی اور مرے مرے قدموں سے اس کھڑے میں چھلانگ لگادی۔ زاغونہ کے کھڑ میں گرتے ہی تہہ خانے کا گھٹا گھٹا ماحول غیر انسانی چیخوں سے گونج اُٹھا تھا۔
منظر بہت خوفناک تھا جس کو سن کر صدف کی چیخیں نکل گئیں ۔ صدف کی چیخ سن کر وہ مردود بوڑھا یوں چونکا جیسے صدف کو فراموش کر بیٹھا ہو۔ دوسرے پل اس کی آنکھوں میں طاغوتی قوتیں رقص کرنے لگیں اور
بوڑھا دوبارہ جلتی ہوئی سلاخیں لئے صدف کی جانب بڑھنے لگا تھا صدف کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا صدفکاشف کی جانب ترحم نظروں سے دیکھنے لگی تھی لیکن کاشف چاہنے کے باوجود اس کی مدد نہ کر پایا اور د دیکھتے ہی دیکھتے اس خونی بوڑھے نے وہ سلاخ . لاخ صدف کی گردن میں گھونپ دی صدف کی دلخراش چیخ نکلی اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا صدف کی گردن سے اور کمرے کے گھٹے ہوئے آسیب زدہ ماحول میں جلے ہوئے گوشت کی چراند پھیل گئی۔ صدف کی آنکھیں پھٹ پڑ جانے کی حد تک اہل پڑی تھیں چہرے پر شیخ کی کیفیت نظر آنے لگی اور پھر صدف کی گردن ڈھلک گئی اور پھر صدف نے دم توڑ دیا۔
صدف کی عبرت ناک موت دیکھ کر کاشف کی آنکھوں میں آنسو آگئے کاشف چاہنے کے باوجود بھی صدف کو نہیں بچا سکا تھا۔ چنانچہ کاشف کو اپنی جان کی فکر پڑ گئی تھی چنانچہ کاشف یہ ہ کاشف یہ منظر دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔
نو جوان رک جاؤ۔ کہاں جارہے ہو۔“ کاشف نے اپنی پشت سے اس بوڑھے کی کھو کھلی اور غیر انسانی آواز سنی لیکن کاشف نے پروانہ کی بس وہ تو اس منحوس جگہ سے نکل جانا چاہتا تھا۔ جیسے ہی کاشف بھاگا کاشف کو ایسا لگا کہ جیسے اُس کے پیچھے بہت سے ان دیکھے سائے لگ گئے ہوں بھاگتے ہوئے اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا تو دوسرے ہی پل اس کی آنکھوں سے خوف ظاہر ہونے لگا تھا وہ انسانی ڈھانچے تھے جو کہ تعداد میں بہت زیادہ تھے اور کاشف کے پیچھے چلاتے ہوئے بھاگ رہے تھے سب سے آگے وہ فریبی بوڑھا تھا جو چلاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کاشف نے یہ سب دیکھا اس کے حلق سے بھی چیخوں کی آوازیں : نکلنے لگی تھیں کاشف .
آگے آگے تھا وہ خونی ڈھانچے اس کے پیچھے تھے کچھ ہی لمحوں کے بعد کاشف رامونہ کے اس بت کے پاس پہنچ گیا جو اس نے بستی میں داخل ہوتے وقت دیکھا تھا ڈھانچے اب کافی پیچھے تھے چنانچہ کاشف اس بت کے
پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔
رات آب گہری ہو چکی تھی کاشف کو امید تھی کہتھک شدید قسم کی نقاہت، پیاس اور تھکن سے اس کا برا حال تھا اس کو بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی اس کو اپنے اردگرد ان گنت بھٹکتی روحیں چکراتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ خوف نے اس کے اعصاب کو چٹیا کر رکھ دیا تھا دور دور تک کسی متنفس کا پتہ نہ تھا نہ جانے اس کے تعاقب میں لگے وہ ڈھانچے اور اور شیطان بوڑھا کہاں چلا گیا تھا۔
اس اندھیری رات میں وہ اتنی جلدی نہیں پکڑا جائے گا کاشف کے اندازے کے مطابق رات کے بارہ سے اوپر کا وقت تھا کا شیف کا سانس بے حد تیزی سے چل رہا تھا۔
اچانک کاشف کو زاغونہ کی یاد آئی جو اس کے خون کو دیوی پر بھینٹ کرنے کے بجائے اکیلے ہی پینا چاہتی تھی۔ پکڑے جا زے جانے پر زاغو نہ کو آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ صدف کا چہرا بھی اس کی نگاہوں کے سامنے تھا جس کی آنکھ آنکھوں میں شادی کے ارمان مچلے تھے مگر ان خونی بھیڑیوں نے وقت سے پہلے ہی ان ارمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا۔
کاشف کو بیٹھے کافی دیر ہو چکی تھی اور کا شف کا تھکاوٹ سے برا حال تھا ڈھانچے بھی شاید مایوس ہو کر جاچکے تھے کاشف نے انگڑائی لی تو بیت کی دیوار ایک گڑ گڑاہٹ سے پیچھے کی طرف ۔ ہٹنے لگی تھی کاشف چونک کر اُٹھ کھڑا ہوا بت کے اندر ایک زینہ نیچے کی طرف جارہا تھا اچانک کا چانک کاشف کا پیر پھیلا کا شف لڑھکتا ہو از بینہ سے نیچے جا گرا۔ کاشف کے نیچے گرتے ہی دروازہ بند ہو گیا دروازہ بند ہوتے ہی اندر گھپ اندھیرا چھا گیا ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ کاشف کراہ کر اُٹھا اور آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ دکھائی نہ دیا کاشف کو ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی اچانک کاشف کو عجیب سی ناگوار بو محسوس ہوئی جیسے کہ جمے ہوئے خون سے آتی ہے
اچانک کاشف کو زاغونہ کی یاد آئی جو اس کے خون کو دیوی پر بھینٹ کرنے کے بجائے اکیلے ہی پینا چاہتی تھی۔ پکڑے جا زے جانے پر زاغو نہ کو آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ صدف کا چہرا بھی اس کی نگاہوں کے سامنے تھا جس کی آنکھ آنکھوں میں شادی کے ارمان مچلے تھے مگر ان خونی بھیڑیوں نے وقت سے پہلے ہی ان ارمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا۔
کاشف کو بیٹھے کافی دیر ہو چکی تھی اور کا شف کا تھکاوٹ سے برا حال تھا ڈھانچے بھی شاید مایوس ہو کر جاچکے تھے کاشف نے انگڑائی لی تو بیت کی دیوار ایک گڑ گڑاہٹ سے پیچھے کی طرف ۔ ہٹنے لگی تھی کاشف چونک کر اُٹھ کھڑا ہوا بت کے اندر ایک زینہ نیچے کی طرف جارہا تھا اچانک کا چانک کاشف کا پیر پھیلا کا شف لڑھکتا ہو از بینہ سے نیچے جا گرا۔ کاشف کے نیچے گرتے ہی دروازہ بند ہو گیا دروازہ بند ہوتے ہی اندر گھپ اندھیرا چھا گیا ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ کاشف کراہ کر اُٹھا اور آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ دکھائی نہ دیا کاشف کو ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی اچانک کاشف کو عجیب سی ناگوار بو محسوس ہوئی جیسے کہ جمے ہوئے خون سے آتی ہے۔
یا الہی۔ یہ کیا ماجرا ہے۔ میں کس گورکھ دھندے میں پھنس رہا ہوں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں کوئی پر اسرار واقعات میرے ذہن کو غیر متوازن کر دیں۔ کاشف از خود بڑ بڑایا۔اچانک روشنی کی ایک میٹھی ہی کرن نظر آئی جو کہ اس کے بالکل سامنے نظر آرہی تھی وہ کرن لال رنگ تھی جو بالکل کسی جگنو کی طرح چمکی تھی پھر اس روشنی کا قطر بڑھتا ہی چلا گیا وہ روشنی اتنی بڑھی کہ اس جگہ کی ہر چیز کاشف کو بہت صاف اور واضح نظر آنے لگی تھی۔ جو کچھ کاشف کو نظر آیا اس کو دیکھ کر کاشف دہشت زدہ ت زدہ سا ہو گیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
وہ منظر تھا ہی اتنا خوفناک اور ہولناک کہ کاشف کو وہ سارے خوفناک تجربات فراموش ہو گئے ۔ وہ ایک تنگ و تاریک کمرہ تھا جس کی دیواروں پر عجیب جانوروں کی تصویر میں جس میں بلی نمایاں تھی اور اشاروں کی زبان میں نہ جانے کیا کیا لکھا تھا اس تنگ و تاریک کمرے کے وسط میں سنگ مرمر کے چبوترے پر ایک تابوت رکھا تھا جس کا ڈھکن کھلا تھا تابوت کے بالکل سرہانے کی جانب ایک حنوط شدہ نمی کی لاش مجسمہ کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی اس ممی کے پھیلے ہوئے دونوں ہاتھوں میں پتھر کا پتیلہ نما کوئی برتن موجود تھا جو کہ جھکا ہوا تھا اس برتن سے بوند بوند کر کے خون اس تابوت میں گر رہا تھا۔ تابوت کے چاروں پایوں پر موم با ابتیاں روشن تھیں موم بتیاں بالکل ونیسی ہی تھیں جیسی اس نے زاغونہ کے کمرے میں دیکھی تھیں فرق صرف اتنا تھا کہ وہ موم بتیاں چار چھوٹے چھوٹے شمع دانوں میں روشن تھیں۔ کاشف نے آگے بڑھ کر اس تابوت میں جھانکا تو خوف سے اس کی کپکپی چھوٹنے لگی تھی تابوت کے اندر حنوط شدہ انسانی لاش موجود تھی جو کہ کسی عورت کی تھی وہ لاش تازہ تازہ حنور ہوئی لگتی تھی۔ کی
لاش کا منہ کھلا تھا جس میں وہ خون قطرہ قطرہ کر کے گر رہا تھا۔ دیکھنے میں وہ منظر نہایت ہی خوفناک تھا خون اس حنوط شدہ لاش کے منہ میں جا تا خون اس منہ میں گرتا اور پھر نہ جانے کہاں غائب ہو جاتا۔ کاشف حیرت و خوف سے خوفناک منظر دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس سرہانے کھڑی ممی کے حلق سے ایک ڈراؤنی غراہٹ کی آواز بلند ہوئی ۔ آواز سنتے ہی کاشف کے حلق سے چیخ سے چپک نکلی کاشف نے بھاگنا چاہا۔ لیکن اس کے پیر جیسے زمین ب گئے تھے اس ممی نے سر اٹھایا اور مشینی انداز میں کاشف کی جانب گردن گھمائی اس کی آنکھیں دیکھ کر کاشف کے خلق سے چیخ نکل گئی وہ آنکھیں کاشف کو جلتی ہوئی نظر آئی تھیں۔ اس ممی کے لب ہلے کاشف کے کانوں نے کھوکھلی اور غیر انسانی آواز سنی جسے سن کر کاشف تھر تھر کانپنے لگا تھا۔
تم صرف مرکز یہاں سے نکل سکتے ہو۔ اس لئے چپ چاپ اپنے آپ کو بہستی کی روحوں کے حوالے کردو
اس کی بات پر کاشف نے ایک طویل سانس لی اور دل میں سوچا کہ یوں ڈرتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا مرنا تو ہے کیوں نہ مقابلہ کر کے مروں شاید بچنے کی کوئی صورت نظر آجائے ۔ چنانچہ کا شف بولا ۔
زندگی اور موت صرف اللہ کے اختیار میں ہے تم بدروحوں کے ہاتھ میری موت ہے تو کوئی بچا نہیں سکتا اور زندگی ہے تو کوئی مار نہیں سکتا۔ چنانچہ میں لڑوں گا اور بھاگنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ کاشف نے سنجیدگی سے کہا۔
جواب میں کاشف کو ایک گر جتا ہوا قہقہہ سنائی دیا تھا جس میں تضحیک کا عنصر نمایاں تھا۔
اچانک وہی آواز پھر اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اچھی بات ہے کوشش کر کے دیکھو۔
دو یہ سب کیا ہے۔ کاشف نے تابوت کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
جواب میں کچھ لمحے تک خاموشی چھائی رہی اور پھر وہی آواز دوبارہ اس کے کانوں نے سنی۔
بنانا تو ضروری نہیں ہے۔ مگر مرنے والے کی آخری خواہش ضرور پوری کی جاتی ہے جو کہ اصول ہے۔ وہی کھو کھلی آواز کاشف کے کانوں سے ٹکرائی۔
ہم مصر کے سب سے قدیم دیوتاؤں کے پجاری ہیں ان کی پو جا وہی لوگ کرتے ہیں جو جادوٹونہ اور کالے علم میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں دیویرامونہ مصر کی سب سے قدیم ساحرہ تھی وہ قدیم دیوتاؤں کی پجارن تھی اور دیوتاؤں نے اس کو بہت سی قوتیں بخشی تھیں۔ لیکن رامونہ دیوی مصر کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتی تھی اس کا مانتا تھا کہ حکومت کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو طاقتور ہو۔ جس کو بھی موت نہ آئے چنانچہ وت ہے رامونہ دیوتاؤں کی دن رات پرستش کرنے لگی دیوتاؤں نے خوش ہو کر ہمیشہ زندہ رہنے کا راز بتا دیا۔ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے اس کو نو جوانوں کے خون سے غسل کی ضرورت تھی۔ چنانچہ وہ مصر کے نو جوانوں کو اپنے حسن و جوانی کے جال میں پھانس کر ان کے خون میں غسل کرتی رہی۔
مصر کے نوجوانوں کی پر اسرار طور پر غائب ہو جانے پر حکومت چوکنا ہو گئی اور ایک روز اس کو غسل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا اور پھر رامونہ دیوی کو مصر کی سب خطر ناک سزادی گئی مقدس پانی کی مدد سے اس کا سارا جادو سلب کر لیا گیا اور اس کو زندہ میں بنا کر تابوت میں دفنا دیا گیا اور مقدس کیڑے اس پر چھوڑے گئے تاکہ وہ اس تابوت سے نکل نہ سکے، رامونہ کے پرستار بے بس تھے وہ لوگ وقت کا انتظار کرتے رہے۔ ہرازوں سال گزر گئے حکومتیں ختم ہو گئیں۔ لیکن مقدس رامونہ دیوی کی روح ختم نہ ہو سکی پھر پچاس سال قبل تمہارے ملک کے آرکیالوجسٹ مصر کی فو قدیم تاریخ پر ریسرچ کرتے ہوئے رامونہ دیوی . کے اہرام تک پہنچ گئے اور اہرام اور رامونہ دیوی کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا اس مقدس تابوت کو اہرام سے نکال کر تمہارے ملک لایا گیا جہاں رامونہ کے وہ پرستار جو صدیوں سے رامونہ کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے ان میں اس خبر سے تہلکہ مچ گیا رامونہ کے پرستاروں نے اپنی جان پر کھیل کر تابوت کو چرایا اور یہاں اس علاقے میں لایا گیا پرستار اور گھر والے اپنی جانوں پر کھیل کر مقدس رامونہ کے لئے نوجوانوں کے خون کا انتظام کرتے رہے اور پھر ایک روز طاعون کی بیماری پھیلی اور سب لوگ مارے گئے لیکن مقدس اور پگاس نے ان کیروحوں کو مرنے نہ دیا اور رامونہ کے پرستار اپنا کام کرتے رہے اور آج تم وہ آخری انسان ہو جس کے خون سے رامونہ کی ممی کا غسل ہوگا اور وہ زندہ ہو جائے گی کبھی نہ مرنے کے لئے۔“
اتنا سننا تھا کاشف پر لرزہ طاری ہو گیا ، وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے کہ اس نے دیکھا کہ بہت سے ڈھانچے اور وہ بوڑھا کاشف کو تہہ خانے کے اندر آتے دکھائی دیئے وہ شیطان بوڑھا سب سے آگے تھا۔
نوجوان ۔ تم مل ہی گئے ۔ بوڑھا سفا کی سے مسکراتا ہوا بولا۔
مم۔ مجھے معاف کردو ۔ کاشف نے منت کرتے ہوئے کہا۔
ارے نوجوان بہادر بنو۔ تم ابھی تو کہہ رہے تھے کہ تم اپنی زندگی کے لئے لڑو گے ۔ بوڑھے نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
کاشف نے کوئی جواب نہ دیا باہر جانے کا راستہ بھی کوئی نہ تھا۔ جو راستہ تھا اس پر وہ شیطانی ڈھانچے موجود تھے کا شف نے ادھر اُدھر دیکھا تو اس کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے موت کو اتنے قریب دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
اس کے آنسو دیکھ کر بوڑھا نہیں کر بولا۔ نوجوان مرد ہو کر روتے ہو۔ میں نے تو سنا تھا کہ
مسلمان بھی نہیں روتا وہ ہر حال میں اپنے پالنے والے کا شکر ادا کرتا ہے۔ مگر تم گھبراؤ مت موت تم کو آرام سے
ملے گی اس لڑکی کی طرح اذیت والی نہیں ۔“
کاشف نے یہ سنا تو کانپ گیا کہ اس نے اب تک اللہ سے مدد مان سے مدد مانگی نہیں تھی وہ تو ہر جگہ ھی وہ تو ہر جگہ مدد کرنے والا ہے۔ چنانچہ کا شف نے دل ہی دل آیتہ الکرسی کی تلاوت شروع کردی۔
جیسے جیسے وہ تلاوت کرتا جا تا ویسے ویسے اس کے دل کو تقویت ملتی جاتی تھی کلام اللہ سے یہ ہوا کہ کاشف کا ڈر از خود ختم ہو گیا اس کو یقین ہو گیا اگر میری موت ہے تو کوئی بچا نہیں سکتا زندگی ہے تو کوئی مار نہیں سکتا۔کاشف نے ادھر ادھر دیکھا اس کی نظر ان شمع دانوں پر پڑی جن میں موم بتیاں روشن تھیں کاشف نے ھ کر ایک شمع دان کو کو اُٹھا لیا اور جیسے ہی اس اس آگے بڑھ کر نے شمع دان کو اُٹھایا تو اس کو پہلی بار اس بوڑھے کی منحوس آنکھوں میں خوف نظر آیا تھا۔
بیچ چھوڑ دو۔ اس مقدس شمع کو بوڑھا خوف زدہ لہجے میں بولا۔
کاشف کو سمجھ نہیں آیا کہ اس شمع کی کیا ویلیو ہے جو اس کے چھوتے ہی بوڑھا اس قدر خوفزدہ نظر آرہا ہے۔
م۔ مجھے جانے دو۔ وگرنہ میں اس شمع کو توڑ دوں گا۔ کاشف نے دھمکی دیتے ہو کی دیتے ہوئے جواب دیا۔
کاشف نے شمع کو اس طرح اُٹھایا جیسے توڑ دے گا۔
ن نہیں۔ یہ توڑ نامت ورنہ ساری محنت مٹی میں مل جائے گی۔ رامونہ دیوی زندہ نہیں ہو سکے گی ۔“ بوڑھے نے بدستور خوفزدہ لہجے میں کا شف سے کہا۔
ٹھیک ہے۔ پھر مجھے جانے دو۔“
دو نہیں ۔ ۔ جانے کا خیال دل سے نکال دو۔ نکال دو نوجوان ۔ اتنا کہہ کر بوڑھا چلا ۔ اتے ہوئے اپنے ڈھانچوں سے بولا۔ چھین لو اس و اس مقدس ہے شمع کو رامونہ کے
پرستارو
یہ دیکھ کر کاشف بوکھلا گیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا ڈھانچوں نے آگے بڑھ کر کاشف کو پکڑ لیا ڈھانچوں نے جیسے ہی کاشف کو گردن سے پکڑا کاشف
کے حلق سے چیخ نکلی ساتھ ہی اس کے گردن کا زخم کھل گیا۔ زخم کے کھلتے ہی خون نکلنے لگا جو کہ ٹپکتا ہوا سیدھا
رامونہ دیوی کے منہ کے کھلے ہوئے دہانے میں جا گرا تھا خون جیسے ہی ممی کے کھلے دہانے میں گراہے جان می میں ہلکی سی حرکت پیدا ہوئی تھی جس حرکت کو کوئی نہ دیکھ سکا۔
کاشف کے حلق سے چیخ نکلی اور اس کے ہاتھ سے شمع چھوٹ گئی۔
شمع کے نیچے گرتے ہی آگ بھڑک اُٹھی آگ کے بھڑکتے ہی کاشف نے دیکھا بوڑھے کی آنکھوں میںخوف تھا ایک ایسا جمود خوف جو کہ کامیابی کے قریب کے آنے کے بعد نا کامی ملنے پر ہوتا ہے تہہ خانے کی محدود فضا غیر انسانی چیخوں سے گونج اٹھی تھی۔
بوڑھے کے حلق سے بھی چیخیں نکلنے لگی تھیں ساتھ ہی ساتھ ڈھانچوں میں بھی آگ بھڑک اُٹھی ۔ آگ نے اس منحوس بوڑھے کو بھی نہیں بخشا تھا ۔ وہ می جو سر جھکائے کھڑی تھی آگ کے شعلوں سے محفوظ نہیں تھی۔
کاشف موقع غنیمت جان کر بھاگ کھڑا ہوا، اور بھاگتے ہوئے کاشف نے دیکھا آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں وہ بوڑھا مرغ بسمل کی طرح ناچ رہا تھا اور ڈھانچے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے ، آگ بہت بڑھ چکی ، باہر کی طرف کا شف بھاگنے لگا اس کا رخ اپنی گاڑی کی جانب تھا۔ گاڑی اسی حالت میں سڑک پر کھڑی تھی کاشف نے گاڑی میں بیٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔
کاشف نے اللہ کا نام لے کر گاڑی کی چابی گھمائی تو گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ یہ چیز کاشف کے لئے باعث حیرت تھا کہ جب گاڑی رکی تو اس میں فیول میٹر زیرو شو کر رہا تھا اب فیول اتنی مقدار بتا رہا تھا کہ وہ با آسانی اپنے گھر تک پہنچ سکتا تھا۔
یہ ہو نہ ہو انہی قوتوں کا کرشمہ تھا جو ہر گزرنے والی گاڑی کو اسی طرح رو کا کرتے تھے۔
کاشف نے دل میں اللہ شکر ادا کیا کہ ان شیطانی قوتوں سے اللہ نے اس کی حفاظت فرمائی تھی۔ کاشف
نے کار واپس اپنے گھر کی جانب گھر ب گھمائی تھی سا سارے واقعات جیسے اس کے ذہن میں کسی فلم کی طرح گھوم رہے تھے جن سے کاشف ابھی دو چار تھا۔
کاشف نے دیکھا کہ آگ کے بلند شعلے اس کو دور سے بھی دکھائی دے رہے تھے اور کا شف دل ہی دل میں اپنے پروردگار کا شکر گزار تھا کہ جس نے اس کی جان کی حفاظت فرمائی تھی۔
ختم شد
0 تبصرے