میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی سنانا چاہتی ہوں جس کا کوئی قصور نہ تھا۔ ثمینہ ہماری محلے دار اور میری اچھی دوست تھی۔ اکثر وہ ہمارے گھر کے ساتھ والی باجی سے کپڑے سلوانے آتی تھی۔ میں بھی وہیں سے کپڑے سلوایا کرتی تھی۔ ایک دن وہ ملی تو بہت افسردہ نظر آئی۔ میرے اصرار پر اس نے اپنی افسردگی کی وجہ بتائی۔ کہنے لگی کہ عجیب سی بات ہے، زبان پر لاتے ہوئے شرم آتی ہے، مگر تمہیں بتا دیتی ہوں۔چند دن پہلے، میری بڑی بہن نے مجھے اپنے گھر لاہور بلوایا تھا۔ وہ اکثر بیمار رہتی ہیں۔ میں بہنوئی کے گھر جانا نہیں چاہتی تھی، مگر باجی کے اصرار پر امی نے بھی مجھے جانے کو کہا۔ بھائی صاحب مجھے وہاں چھوڑ آئے۔مجھے گئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ باجی ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔
لگتا تھا جیسے میرے آنے سے ان کی اداسی دور ہو گئی ہو۔ ان کا ننھا منا بیٹا صرف ایک ماہ کا تھا، مجھے وہ بہت پیارا لگتا تھا۔ اسی وجہ سے مجھے وہاں اچھا لگنے لگا۔باجی ان دنوں زیادہ تر بستر پر لیٹی رہتی تھیں۔ گھر کے کام کاج میں ملازمہ کے ساتھ ساتھ میں بھی ہاتھ بٹاتی تھی، کیونکہ ملازمہ دوپہر تین بجے تک رہتی تھی، اس کے بعد گھر کی ذمہ داری میری ہو جاتی تھی۔ باجی کو سہ پہر کے وقت بہت آرام ملنے لگا تھا۔ایک دن باجی اپنے کمرے میں سو رہی تھیں کہ بہنوئی صاحب دفتر سے واپس آگئے۔ شام کے قریب چار بجے کا وقت تھا۔ میں نے کھانا گرم کر کے دیا، پھر انہوں نے چائے کی فرمائش کی۔
چائے بنا کر دی تو کہنے لگے کہ آؤ، تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ، گپ شپ کرتے ہیں۔میں نے کچھ خاص نہ سوچا اور ان کے پاس بیٹھ گئی۔ اچانک انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا اور الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔ میں اس کے لیے تیار نہ تھی، حیرت اور صدمے سے دل دھک سے رہ گیا۔ میں اٹھ کر جانے لگی تو وہ راستہ روکنے لگے۔میں نے کہا کہ بھائی جان، بہن اور سالی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ہوش میں ہیں آپ؟ میں ابھی جا کر باجی کو جگاتی ہوں اور سب کچھ بتاتی ہوں۔میرے تیور دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ اگر تم نے کسی کو کچھ بتایا تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں تمہاری بہن کو طلاق بھی دے سکتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے۔
میں نے باجی کو تو نہ جگایا، مگر فوراً امی کو فون کر کے کہا کہ بھائی کو بھیجیں، مجھے فوراً واپس لے جائیں۔ میری آواز سن کر امی پریشان ہو گئیں اور بھائی صاحب کے ساتھ خود بھی آ گئیں۔میں نے باجی کو کچھ نہیں بتایا کہ ان کے شوہر کیسا کردار رکھتے ہیں، مگر اس دن سے مجھے بہنوئی سے سخت نفرت ہو گئی۔ اب میں کبھی بھی باجی کے گھر نہ جانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔یہ سب بتاتے ہوئے ثمینہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ اپنی بہن اور ننھے بھانجے سے بہت محبت کرتی تھی، مگر بہنوئی کی فطرت جاننے کے بعد اس نے خود کو ان سے الگ کر لیا۔ میں بھی یہ سن کر ششدر رہ گئی کہ آخر دنیا میں کیسے کیسے لوگ ہوتے ہیں۔ آخر انسان کس پر اعتبار کرے؟اس واقعے کے بعد ثمینہ نے کبھی اپنے بہنوئی کی شکایت کسی سے نہیں کی۔ صرف اتنا کرتی کہ جب وہ لوگ آتے، تو ان کے سامنے آنے سے گریز کرتی۔ اس کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی؟
وہ بہنوئی کی شکایت کر کے اپنی بہن کی زندگی میں تلخیاں نہیں گھولنا چاہتی تھی۔ایک دن ثمینہ باجی درزن کے گھر ملی۔ وہ پھر کپڑے سلوانے آئی تھی اور بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے، آج تو بہت خوش لگ رہی ہو؟کہنے لگی کہ ہاں، میری منگنی ہو گئی ہے۔ میرے ماموں کراچی میں رہتے ہیں، انہی کے بیٹے کے ساتھ رشتہ طے پایا ہے۔میں نے کہا کہ ثمینہ، اب تو تم بہت دور چلی جاؤ گی۔ نہ جانے پھر کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو۔بولی کہ کیوں نہیں، جب بھی آؤں گی، تم سے ضرور ملوں گی۔ہم جس گھر میں رہتے تھے وہ کرائے کا تھا۔ بعد میں ابو نے اپنا مکان خرید لیا تو ہم وہاں شفٹ ہو گئے۔
پرانے محلے دار بہت اچھے تھے، ہم وہاں کافی عرصے تک رہے تھے، اس لیے اب بھی کبھی کبھار ان سے ملنے چلے جاتے تھے۔ایک دن میں گئی تو باجی درزن نے بتایا کہ ثمینہ کی شادی ہو چکی ہے اور وہ کراچی جا چکی ہے۔ ثمینہ ایک اچھی لڑکی تھی، ہر کسی سے محبت سے پیش آتی تھی۔ میں نے دل سے دعا دی کہ وہ جہاں بھی رہے، خوش رہے۔میرے ایف اے کے امتحانات قریب تھے، اس لیے محلے میں جانا ممکن نہ رہا اور نہ ہی ثمینہ کی کوئی خبر مل سکی۔ یوں ہی چھ سات ماہ گزر گئے۔ایک دن بازار میں باجی درزن سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ثمینہ کے بارے میں پوچھا تو وہ بولیں کہ اس کے ساتھ تو بہت برا ہوا ہے۔ میرے گھر آؤ، پوری بات بتاؤں گی۔مجھے ثمینہ سے بہت محبت تھی۔ اگلے دن میں ان کے گھر چلی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے میکے آگئی ہے۔ شکر کرو زندہ سلامت واپس آ گئی۔اصل بات اس کی بھابھی نے مجھے بتائی۔
ہوا یوں کہ جب ثمینہ کی رخصتی ہو رہی تھی، بارات روانہ ہونے سے قبل اس کے بہنوئی نے دولہا کو الگ کمرے میں بلا کر کہا کہ دیکھو بھائی، یہ لڑکی ذرا بھولی ہے۔ جو بھی اس سے اچھی طرح بات کر لے، یہ اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آنا۔یہ سن کر دولہا چونک گیا اور کہا کہ ایسی کیا بات ہے جو آپ کہنا چاہتے ہیں مگر کھل کر نہیں کہہ پا رہے؟ میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں۔ اگر اس نے ماضی میں کوئی غلطی کی بھی ہو، تو میں معاف کر دوں گا۔بہنوئی نے کہا کہ ہاں، یہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جو میں شرم کے مارے کہہ نہیں سکتا، لیکن تم سمجھ لو کہ یہ بےوقوف لڑکی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اسے طلاق نہ دینا، ورنہ ساس صاحبہ کو بہت صدمہ ہو گا۔ نکاح ہو چکا ہے، اب اس کو نبھانا شریفوں کا کام ہے۔
غرض یہ کہ دولہا کا ہمدرد اور دلہن کے مستقبل کا خیر خواہ بن کر، اس شخص نے اختر کے دل میں ایسی آگ لگا دی جو عمر بھر سلگتی رہی۔ دولہا میاں نے خود کو ایک عظیم انسان ثابت کرنے کا وعدہ تو کر لیا، مگر تمام راستے ایک ان دیکھی آگ میں جلنے لگے۔ خوشیوں کا یہ سفر ایک عذاب کی مانند کٹنے لگا۔سہاگ رات آئی تو اختر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ گھونگھٹ اٹھاتے ہی وہ ثمینہ سے الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا، ماضی کھودنے لگا، معافی کے وعدے کروانے لگا۔ بچاری ثمینہ تو ہکا بکا رہ گئی، سمجھ ہی نہ پائی کہ یہ کیا افتاد ٹوٹ پڑی ہے۔ دولہا میاں قسمیں دے دے کر پوچھتے رہے کہ سچ بتاؤ، دل میں کس کی محبت چھپا کر لائی ہو؟ ماضی میں تعلق کس سے تھا؟ثمینہ رونے لگی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے ساتھ یوں سلوک کیا جائے گا۔
اس کے بعد گویا عذاب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اختر نے ثمینہ کو ذہنی اذیت دے دے کر مفلوج کر دیا۔ اس کے تمام زیورات چھین لیے، بری بھی لے لی، بات بات پر مارنے لگا، ہر بات پر شک کرتا، مگر اصل بات پھر بھی نہ بتاتا کیونکہ بہنوئی نے قسم دی تھی، اور اختر نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ اس کا نام کبھی نہیں لے گا۔ایک دھان پان سی لڑکی کے لیے یہ اذیتیں پاگل کر دینے کے لیے کافی تھیں۔ شوہر کا تفتیشی رویہ روز کا معمول بن گیا تھا۔ اس نے اپنی ماں کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ ساس بھی بہو پر طعنوں کے تیر برساتیں، اس کی سخت نگرانی کرتیں۔ اگر ثمینہ صاف کپڑے پہن لیتی یا ہلکا سا میک اپ کر لیتی تو ساس کہتی، آج کس سے ملنے جا رہی ہو؟اسے کھانا بھی کم دیا جاتا۔
سارا دن کام کرنے کے بعد صرف ایک چپاتی ملتی۔ اگر اسے زیادہ بھوک لگتی تو سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر چھپ کر کھا لیتی۔ شوہر اسے اتنا مارتا کہ جسم پر نیل پڑ جاتے، پھر کہتا، میں تجھے زندہ بھی نہیں چھوڑوں گا اور طلاق بھی نہیں دوں گا، کیونکہ میں نے وعدہ کیا ہے۔چھ ماہ میں ہی اس نے ثمینہ کو اس حال میں پہنچا دیا کہ وہ نہ زندوں میں رہی نہ مردوں میں۔ کراچی میں ان کے کچھ رشتہ دار رہتے تھے، جب انہیں حالات کی خبر ہوئی تو انہوں نے ثمینہ کی ماں کو خط لکھا، آ کر بیٹی کو لے جاؤ، ورنہ یہ لوگ کسی دن اسے آگ میں جلا کر مار دیں گے، اور کہیں گے چولہا پھٹ گیا۔خط پڑھ کر ماں کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے بیٹوں سے کہا، فوراً کراچی جاؤ اور بہن کو لے آؤ۔
جب وہ روانہ ہونے لگے تو ثمینہ کے بہنوئی نے اختر کو فون کر کے خبر دی، تمہاری بیوی کو لینے اس کے بھائی آ رہے ہیں۔ ان کا ارادہ جھگڑے کا بھی ہے، بچاؤ کا پورا انتظام رکھنا۔اختر نے گھبرا کر کچھ بدماشوں سے رابطہ کر لیا۔ اس نے ثمینہ کو دھمکایا، اگر تمہارے بھائی تمہیں لینے آئے تو میں تمہیں قتل کر دوں گا، میکے ہرگز نہیں جانے دوں گا۔ خدا جانے وہاں جا کر تم کس کس سے ملو گی۔ ثمینہ خوف سے نڈھال ہو گئی۔ اس کی حالت ایسے ہو چکی تھی جیسے وہ مردہ ہو۔ جب بھائی وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ اختر کی کیفیت نارمل نہیں۔ گھر میں چار بدماش بھی بیٹھے تھے۔ شک ہوا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ اپنی خالہ کے گھر چلے گئے جو کراچی میں ہی رہتی تھیں، اور پھر ان کے ساتھ واپس آئے۔ دو دن پہلے اختر نے ثمینہ کو بری طرح مارا پیٹا تھا، اور اب اسے چائے میں نشہ دے کر بے ہوش کر کے ایک کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ بھائیوں نے آتے ہی بہن سے ملنے کو کہا تو اختر نے کہا، تم لوگ کون ہو؟ میں تمہیں نہیں جانتا۔ اور ثمینہ یہاں نہیں ہے، وہ تو بھاگ گئی ہے۔ اس بات پر جھگڑا شروع ہو گیا۔
کسی نے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس آئی تو بدماش بھاگ گئے۔ اختر اب بھی کہتا رہا کہ ثمینہ یہاں نہیں ہے، مگر بھائیوں نے اصرار کیا کہ کمرہ کھولو۔ پولیس نے تالا توڑا، اندر ثمینہ بے ہوش پڑی تھی۔ کپڑے ادھورے تھے، دوپٹہ غائب، جسم پر نیل تھے، اور وہ اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ خود سے اٹھ بھی نہ سکتی تھی۔ اختر نے پولیس کو رشوت دی، اور وہ چلے گئے۔ بھائی بہن کو ساتھ لے آئے۔ کچھ دن بعد انہوں نے اختر سے طلاق کا مطالبہ کیا۔ کہا کہ اگر طلاق نہ دی تو تمہیں عدالت لے جائیں گے۔ تب اختر نے سارا واقعہ سنا دیا۔میں ثمینہ سے بہت محبت کرتا تھا، اسے چاہ سے بیاہا تھا۔ لیکن تمہارے بہنوئی نے مجھے رخصتی سے پہلے ایسی باتیں کہیں کہ میرے دل کا باغ جلا کر راکھ کر دیا۔
میرے دل میں ایسی آگ لگا دی کہ میں جنونی ہو گیا۔ میں چاہتا تھا کہ ثمینہ خوش نہ رہے، کیونکہ میرے ارمانوں کی قاتل وہی تھی۔ میں اسے طلاق بھی نہیں دے سکتا تھا، کیونکہ وہ آزاد ہو جاتی، اور میں جلتا رہتا۔ یہ سن کر بھائیوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ تو سمجھتے تھے کہ ماموں کے گھر شادی کر دی ہے، اب فکر کی بات نہیں۔ مگر وہ خود بھی اپنی بہن کی خبر نہ لیتے رہے۔ بیٹی بیاہ کر فرض ادا سمجھ لیا۔
ثمینہ کی حالت ایسی خراب ہو چکی تھی کہ اس کی خوراک کی نالی سکڑ گئی تھی۔ پانی کا ایک گھونٹ بھی حلق سے نیچے نہ اترتا۔ بڑی مشکل سے طلاق ملی۔ حق مہر معاف، زیور اور جہیز سب ضبط کر لیا گیا، اور کہا، شادی کا خرچ بھی دو، تب طلاق ملے گی۔ یہ سب کچھ ثمینہ کے بہنوئی کی بدنیتی کا نتیجہ تھا۔ اس معصوم لڑکی نے اس کا راز کبھی فاش نہیں کیا تھا، لیکن اس نے انتقام لے کر اپنی گھٹیا فطرت کا ثبوت دے دیا۔ اب ثمینہ کو بھائیوں نے اپنے گھر پناہ تو دی ہے، مگر بہنوئی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، کیونکہ بڑی بہن کا گھر برباد ہونے کا ڈر ہے۔ خدا جانے اس نے ایسا کیوں کیا؟ کیا صرف اس لیے کہ ثمینہ نے اس کی ناپاک خواہش کا ذکر کسی سے نہ کیا تھا؟ میں سوچتی ہوں، دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو دکھ دے کر خوش ہوتے ہیں۔
0 تبصرے