Subscribe Us

مولوی کی سالی اور جن

Urdu Font Stories 17

مولوی عبدالرؤف گاؤں کی مسجد کا امام تھا۔ ان کی سادگی، پرہیزگاری اور دین سے لگاؤ کے سب قائل تھے۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے، سر پر سفید عمامہ رکھتے اور ہاتھ میں تسبیح لیے رہتے۔ گاؤں کے لوگوں کے لیے وہ نہ صرف ایک مذہبی رہنما تھے بلکہ ایک منصف مزاج بزرگ بھی تھے، جن سے ہر کوئی مشورہ لینے آتا۔ مگر ان کی ایک اور چیز بھی مشہور تھی۔

ان کی خوبصورت سفید گھوڑی، جو نہایت سدھائی ہوئی تھی۔ یہ گھوڑی ان کے ساتھ برسوں سے تھی، اور انہوں نے ہمیشہ اس کا خاص خیال رکھا تھا۔ مولوی صاحب اسے صبح فجر کے وقت کھلا چھوڑ دیتے تاکہ وہ تازہ گھاس چر لے، اور پھر واپس آ کر اسے باندھ دیتے۔ گھوڑی بھی بڑی فرمانبردار تھی، روزانہ چر کر خود ہی وقت پر واپس آ جاتی تھی۔ 

مولوی صاحب کا گھرانہ بھی ان کی طرح نہایت باوقار تھا۔ ان کی بیوی، زینب بی بی، ایک سلیقہ شعار، نیک دل اور پردہ دار خاتون تھیں۔ وہ اپنے کام میں اتنی ماہر تھیں کہ پورا گھر ہمیشہ صاف ستھرا اور منظم رہتا۔ وہ خود بھی عبادت گزار تھیں اور اکثر عورتوں کو دین کی باتیں سکھاتی تھیں۔ ان کا کھانا پکانے کا انداز بھی ایسا تھا کہ پورے گاؤں میں ان کے ہاتھ کے پکوانوں کی مثال دی جاتی تھی۔ مولوی صاحب اور زینب بی بی کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے، مگر ان کے درمیان محبت اور عزت کا رشتہ ویسے ہی قائم تھا جیسے پہلے دن تھا۔ زینب بی بی جانتی تھیں کہ مولوی صاحب کی گھوڑی ان کے لیے کتنی عزیز ہے، اس لیے وہ بھی اس کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ 

ایک دن عصر کی نماز کے بعد، مولوی صاحب نے معمول کے مطابق گھوڑی کو کھلا چھوڑا اور مسجد چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو گھوڑی کہیں نظر نہ آئی۔ پہلے تو انہوں نے سوچا کہ شاید وہ قریبی کھیتوں میں ہوگی، مگر جب ہر طرف دیکھ لیا اور مغرب کی اذان ہو گئی، تو ان کا دل بے چین ہونے لگا۔ وہ مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اردگرد نظر دوڑانے لگے۔ گاؤں کے کچھ لوگ بھی ان کے قریب آ گئے اور پوچھنے لگے: "مولوی صاحب، کیا ہوا؟ کچھ پریشانی ہے؟" "میری گھوڑی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ ہمیشہ وقت پر واپس آتی ہے، مگر آج غائب ہے۔" مولوی صاحب نے فکرمند لہجے میں کہا۔ 

یہ سن کر گاؤں کے چند بزرگ اور نوجوان بھی ان کے ساتھ تلاش میں نکلے۔ انہوں نے کھیتوں میں جا کر ہر جگہ دیکھا، مگر گھوڑی کا کوئی پتہ نہ چلا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، مولوی صاحب کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ تبھی ایک بوڑھے آدمی نے سوچتے ہوئے کہا: "مولوی صاحب، کہیں وہ پیپل کے پرانے درخت کی طرف تو نہیں نکل گئی؟"

یہ سنتے ہی سب لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، جیسے کسی نے کوئی خوفناک بات کر دی ہو۔ وہ درخت گاؤں کے کنارے پر تھا، اور اس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ وہاں جنوں کا بسیرا ہے اور مغرب کے بعد وہاں جانے والا اکثر کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ مولوی صاحب کے دل میں عجیب وسوسے اٹھنے لگے۔ کیا واقعی ان کی گھوڑی وہاں چلی گئی تھی؟ کیا اسے کسی مخلوق نے پکڑ لیا تھا؟ وہ اپنی تسبیح کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے سوچنے لگے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔

مولوی صاحب کے دل میں ایمان کی روشنی تھی، وہ ان باتوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ وہ اپنی تسبیح ہاتھ میں لیے، چند لوگوں کے ساتھ درخت کی طرف چل پڑے۔ جیسے ہی وہ درخت کے قریب پہنچے، انہوں نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب بچہ وہاں بیٹھا ہے۔

یہ بچہ عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ اس کا سر غیرمعمولی طور پر بڑا تھا، آنکھیں بہت بڑی اور چمکدار، اور اس کے ہاتھ اور پیر بہت پتلے تھے۔ وہ زمین پر بیٹھا ایک لکڑی سے کھیل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا، "بیٹا، تم نے کوئی گھوڑی دیکھی ہے؟" بچے نے آہستہ سے سر اٹھایا، مسکرایا اور خاموشی سے انگلی سے ایک طرف اشارہ کر دیا۔

مولوی صاحب نے جیسے ہی اس سمت دیکھا، ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مولوی عبدالرؤف کی نظریں اس عجیب و غریب منظر پر مرکوز ہو گئیں۔ گھوڑی، جو ہمیشہ فرمانبردار اور سکون میں رہتی تھی، اب ایک دائرے میں گھوم رہی تھی جیسے وہ کسی جال میں پھنس گئی ہو۔ اس کے ارد گرد چند جناتی مخلوق کھڑی تھی، جن کے چہرے انسانی شکل سے بیزار تھے اور جسموں میں ایک عجب سی غیر مرئی طاقت کا تاثر تھا۔ وہ سب گھوڑی کو گھیر کر اسے پریشان کر رہے تھے، کبھی اس کے آگے آ کر کٹ پتلی کی طرح رقص کرتے، کبھی اس کے پیچھے جا کر سرگوشیاں کرتے۔ گھوڑی کی آنکھوں میں خوف تھا، اور وہ کسی طرح ان جنوں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔

مولوی عبدالرؤف نے دل میں اللہ کا نام لیا اور قدموں کی تیز رفتار سے دائرے کے قریب پہنچے۔ جنات کی موجودگی نے ایک نہ ختم ہونے والے سناٹے کا احساس پیدا کیا، جیسے درخت کی ہوا بھی ان کی موجودگی سے خاموش ہو گئی ہو۔ مولوی صاحب نے اپنی تسبیح مضبوطی سے پکڑی اور اللہ کی مدد کے لیے دعا کی۔

"اے اللہ، یہ کیا آزمائش ہے؟ میری گھوڑی کو اس مصیبت سے نکال لے، اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ میں نہیں دیکھ سکتا۔" مولوی صاحب نے دل کی گہرائی سے دعا کی۔

جنات نے مولوی صاحب کی موجودگی محسوس کی اور ایک زوردار ہنسی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان میں سے ایک، جو سب سے بڑا اور زیادہ خوفناک تھا، آہستہ آہستہ مولوی کی طرف بڑھا اور بولا، "تم اس کا کچھ نہیں کر سکتے، مولوی صاحب۔ یہ ہم میں سے ہے، تمہیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔"

مولوی عبدالرؤف نے دھیرے سے کہا، "اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں، تمہیں جو کرنا ہے، تم کر لو، مگر یاد رکھو، اللہ کی رضا کے سامنے تمہاری کوئی حقیقت نہیں۔"

یہ سن کر جنات کا چہرہ اور زیادہ بدل گیا، جیسے انہیں کوئی برا خواب دکھا دیا ہو۔ مولوی صاحب نے اپنی تسبیح کی مالا کو دوبارہ پکڑا اور پھر اللہ کے نام کے ساتھ ان جنات کو ہمت سے جواب دینے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ انھیں یقین تھا کہ ان کی دعاؤں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس گھوڑی کو اور اپنے گاؤں کو ان جنات کی قید سے آزاد کر سکیں گے۔

پھر اچانک، مولوی صاحب کی زبان سے ایک ایسا کلمہ نکلا جو نہ صرف ان جنات کو بلکہ پورے ماحول کو ایک دم ساکت کر گیا۔ ایک زبردست روشنی کے دھارے نے جنات کو اپنی گرفت میں لے لیا، اور وہ ایک ہی لمحے میں غائب ہو گئے۔ گھوڑی نے ایک زور دار ہنکارا مارا اور آزادی کے احساس سے سرشار ہو کر دائرے سے باہر نکل آئی۔

مولوی عبدالرؤف نے  ایک جن پر اپنی گرفت مضبوط کی اور اسے ایک طرف دھکیل کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔ جن کا چہرہ غصے سے بھر چکا تھا، لیکن وہ اب بے بس ہو چکا تھا۔ مولوی نے اپنی نگاہوں میں طاقت اور عزم بھر کر کہا، "تمہاری شرارتوں کا اب خاتمہ ہو چکا ہے۔ تم نے میری گھوڑی کو تنگ کیا، لیکن اب تمہیں اپنی حرکتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔"

جن نے دراصل پہلی بار اپنے آپ کو شکست خوردہ پایا، اور وہ مولوی صاحب کے سامنے آ کر منت سماجت کرنے لگا۔ "مولوی صاحب، مجھے معاف کر دیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب کبھی تمہاری گھوڑی کو تنگ نہیں کروں گا۔ میں نے جو کچھ کیا، وہ مجھے اپنی تقدیر کا حصہ لگا تھا، مگر اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس گھوڑی کو اور تمہیں کسی طرح کی پریشانی نہیں پہنچاؤں گا۔"

مولوی عبدالرؤف نے جن کی حالت دیکھی اور پھر اس کی باتوں کو سنا۔ اس کے دل میں تھوڑی نرمی آئی، اور انہوں نے کہا، "اگر تم وعدہ کرتے ہو تو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں، مگر یاد رکھو، تمہاری ہر حرکت اللہ کے سامنے ہے، اور تمہیں اس کا حساب دینا ہوگا۔"جن نے سر جھکا کر کہا، "جی، مولوی صاحب، میں وعدہ کرتا ہوں۔"

پھر جن نے اپنے جسم سے ایک چھوٹا سا کپڑا نکالا اور مولوی صاحب کو دیا۔ "یہ تمہارے لیے ایک تحفہ ہے، مولوی صاحب۔ رات کو جب تم سونے جاؤ، اس کپڑے کے ٹکڑے کو اپنے تکیے کے نیچے رکھنا۔ تمہیں اس سے دولت ملے گی، اور تمہاری زندگی میں خوشی آئے گی۔"
مولوی عبدالرؤف نے جن کا شکریہ ادا کیا اور اسے آزاد کر دیا۔ جن ایک لمحے میں غائب ہو گیا، اور مولوی صاحب گھوڑی کو لے کر واپس گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ گھوڑی اب پرسکون تھی اور مولوی صاحب کے ساتھ چل رہی تھی، جیسے وہ کسی بڑی آزمائش سے نکل کر سکون کی دنیا میں آ گئی ہو۔

گاؤں کے راستے پر مولوی صاحب کی سوچوں کا رخ اس چھوٹے سے کپڑے کے ٹکڑے کی طرف تھا، جسے جن نے انہیں دیا تھا۔ کیا یہ واقعی وہ دولت اور خوشی لے کر آئے گا جس کا وعدہ جن نے کیا تھا؟ مولوی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دل میں یہ دعا کی کہ اللہ ان کی زندگی میں جو بھی خیر ہے، وہ دے، اور جو کچھ بھی ان کے لیے بہتر ہو، وہ ضرور فراہم کرے۔ گھٹائیں سیاہ ہو رہی تھیں، اور مولوی عبدالرؤف نے تیزی سے قدم بڑھائے تاکہ وہ جلدی سے گھر پہنچ جائیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے