Subscribe Us

مولوی کی سالی اور جن - آخری حصہ

Urdu Font Stories 17
 

مولوی عبدالرؤف نے جن کا دیا ہوا کپڑا تکیے کے نیچے رکھنا شروع کیا۔ ہر رات جب وہ سوتے، وہ کپڑا تکیے کے نیچے رکھتے، اور اگلی صبح جب بیدار ہوتے، تو حیرت سے دیکھتے کہ وہ کپڑا روپے پیسوں سے بھرا ہوتا۔ کبھی چاندی کے سکوں کا ڈھیر ہوتا، کبھی سونے کے چند سکے اور نوٹ ملتے۔ مولوی صاحب کی حالت میں ایک زبردست تبدیلی آئی۔ چند دنوں میں ہی ان کے پاس اتنی دولت جمع ہو گئی کہ گاؤں میں ان کی حیثیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

مولوی صاحب کا دل دین سے جڑا ہوا تھا، اور دولت کا یہ اچانک ملنا ان کے لیے کوئی آزمائش بن کر نہیں آیا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی رضا اور اس کی حکمت کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس دولت کو محض اپنی ضروریات تک محدود رکھا اور باقی سب کچھ گاؤں کے غریبوں اور ضرورتمندوں میں تقسیم کر دیا۔ مولوی صاحب کی سخاوت اور سادگی کی وجہ سے ان کی عزت میں مزید اضافہ ہوا، اور گاؤں کے لوگ انہیں نہ صرف ایک عظیم عالم، بلکہ ایک بے مثال انسان بھی سمجھنے لگے۔

ایک دن مولوی کی کنواری سالی ان سے ملنے آئی۔ وہ نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ ذہنی طور پر بھی بہت تیز تھی۔ اس کے ذہن میں ایک سوال تھا جس نے اسے کئی دنوں سے بے چین کر رکھا تھا: مولوی عبدالرؤف کے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی ہے؟ گاؤں والے تو یہی کہتے تھے کہ مولوی صاحب بہت ہی سادہ زندگی گزارتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے پاس پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ گاؤں کے لوگ ان کی سخاوت اور نیکی کی مثال دیتے، لیکن وہ راز جاننا چاہتی تھی جو اس دولت کے پیچھے چھپا تھا۔

ایک رات، جب سب گاؤں والے سو چکے تھے، مولوی کی سالی پانی پینے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کا دل بے چین تھا، اور اسے ایسا لگا کہ شاید رات کا وقت ہی وہ ہو، جب وہ مولوی صاحب کا راز جان سکے۔ چپکے سے وہ کمرے کی طرف بڑھی، اور جیسے ہی اس نے مولوی کے کمرے کی طرف قدم بڑھایا، اسے دروازے کے قریب کچھ غیر معمولی حرکتیں محسوس ہوئیں۔

مولوی صاحب کے کمرے کے دروازے کے قریب پہنچتے ہی، اس کی نظر ایک عجیب و غریب انسان پر پڑی، جو مولوی کے کمرے میں آ رہا تھا۔ وہ شخص عجیب شکل و صورت کا تھا، اور اس کے لباس میں بھی کچھ انوکھا تھا۔ مولوی کی سالی نے اندر جھانک کر دیکھا، اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ شخص مولوی کے تکیے کے نیچے کچھ رکھ رہا تھا، اور اس کے ہاتھ میں کچھ سونے اور چاندی کے سکے نظر آ رہے تھے۔ مولوی کی سالی کا دم گھٹنے لگا، اور وہ سمجھ نہ سکی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا یہ کوئی خواب ہے؟ کیا یہ حقیقت ہے؟ وہ چیخنا چاہتی تھی، لیکن جیسے ہی اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، اس کی آواز حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔

وہ شخص اندر بیٹھا تکیے کے نیچے پیسے رکھ رہا تھا، اور مولوی عبدالرؤف کی آنکھوں میں کچھ خاص نوعیت کا سکون تھا، گویا وہ اس سب سے مکمل طور پر واقف تھا۔ مولوی کی سالی کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کا امتزاج تھا، لیکن وہ خود کو قابو نہیں کر پائی۔ اس نے اندر کی منظر کو مزید گہرائی سے دیکھا، اور پھر اس کا دماغ الجھ گیا۔ کیا یہ سب کچھ مولوی صاحب کی زندگی کا راز تھا، جس کے بارے میں وہ کبھی کسی کو نہیں بتاتے تھے؟

مولوی کی سالی کی نظریں اس شخص پر جمی ہوئی تھیں جب اس نے دیکھا کہ وہ عجیب و غریب انسان دراصل ایک جن تھا۔ جن کا جسم بے شکل اور دھندلا تھا، اور اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی، جیسے وہ کسی کے راز کو بے وقوفی سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس جن نے مولوی کے تکیے کے نیچے پیسے رکھے، اور جیسے ہی اس کی نظریں مولوی کی سالی کی آنکھوں میں جاکر ٹکیں، جن کی مسکراہٹ غمگین ہو گئی۔

مولوی کی سالی کا دل تیز دھڑک رہا تھا، وہ ابھی تک اس پر یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ جو کچھ وہ دیکھ رہی تھی، وہ حقیقت تھی۔ جن کا راز بے نقاب ہو چکا تھا، اور اس کی موجودگی نے گہرے خوف کو جنم دیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ فوراً مولوی صاحب کو اس کی اطلاع دے، مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی، جن نے تیزی سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے اسے اچانک اٹھا لیا۔

"تم نے میرا راز جان لیا ہے، اور اب تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا!" جن کی آواز میں ایک کھچاکھچ کا اثر تھا، جیسے وہ غصے میں تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ مولوی کی سالی کو اٹھا کر ہوا میں غائب ہو گیا، اور جیسے ہی وہ آسمان کی طرف بلند ہونے لگا، مولوی کی سالی کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کی جھرمٹ تھی۔

مولوی کی سالی نے کچھ لمحوں تک سرگوشی کی، لیکن وہ بے بس تھی۔ وہ جن اس قدر طاقتور تھا کہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہوا میں بلند ہوتے ہوئے، جن نے اسے ایک خالی اور سنسان جگہ کی طرف لے جانا شروع کیا، جہاں سب کچھ اندھیرا تھا اور کچھ بھی واضح نہیں تھا۔

جن کا راز بھی کھل کیا تھا، وہ واپس پلٹا اور تیزی سے مولوی کی سالی کو اٹھا کر ہوا میں غائب ہو گیا

صبح کا وقت تھا اور مولوی عبدالرؤف نے جب اپنے تکیے کے نیچے نظر ڈالی، تو وہ کپڑا اور پیسے غائب تھے۔ دل میں ایک بے چینی سی محسوس ہوئی۔ وہ جانتے تھے کہ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے، لیکن ان کا ذہن ابھی تک پوری طرح سے اس پر مرکوز نہیں ہو پایا تھا۔ اچانک ان کی بیوی، زینب بی بی، ایک زور دار آواز میں چلاتی ہوئی اندر آئی: "مولوی صاحب! میری بہن کا کچھ پتہ نہیں ہے، وہ کہاں گئی؟" یہ سن کر مولوی کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔

"کیا مطلب؟ کہاں گئی وہ؟" مولوی نے گھبرا کر پوچھا۔

زینب بی بی نے بتایا کہ رات کو وہ پانی پینے کے لیے اٹھی تھی اور کچھ دیر بعد غائب ہو گئی۔ مولوی صاحب فوراً سمجھ گئے کہ کچھ بڑا معاملہ ہے۔ فوراً فجر کی اذان شروع ہو گئی تھی، اور وہ دونوں میاں بیوی فوراً باہر نکلے تاکہ اپنی سالی کو تلاش کر سکیں۔

کافی تلاش کے بعد، جب وہ ایک جگہ چھاڑیوں میں پہنچے، تو اچانک ان کی نظر پڑی۔ ان کی سالی برہنہ حالت میں پڑی تھی، بے ہوش اور مکمل طور پر بے قابو۔ مولوی عبدالرؤف نے فوراً اپنی چادر اس پر ڈالی اور اسے اٹھا کر گھر لے آئے۔

زینب بی بی کی آنکھوں میں خوف اور تشویش تھی۔ "کیا اس کی عزت محفوظ ہے؟" وہ مولوی صاحب سے بوجھل دل کے ساتھ پوچھیں۔
مولوی صاحب نے دھیان سے اس کی حالت کا جائزہ لیا۔ "اس کی عزت محفوظ ہے، لیکن جن نے اس کا دماغ الٹ دیا ہے۔" مولوی نے کہا، اور پھر انہوں نے اپنی سالی کو چند دن تک دم کیا ہوا پانی پلایا۔ کچھ دنوں بعد، اس کی حالت میں بہتری آئی، اور ایک دن وہ ہوش میں آئی۔ اس نے وہ سارا واقعہ سنا دیا جس کا سامنا اسے جن کے ساتھ کرنا پڑا تھا۔

جن کا راز اب کھل چکا تھا، اور مولوی کا دل پھر سے اُتر چکا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جن کی طاقت اب ان کے لیے ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد مولوی صاحب کے پاس پیسے آنا بند ہو گئے۔ وہ جن جو پہلے ان کے لیے دولت لاتا تھا، اب ان کی زندگی سے غائب ہو چکا تھا، اور مولوی عبدالرؤف کا سکون بھی جیسے کہیں کھو گیا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ جب تک انسان کا ایمان مضبوط نہ ہو، کسی چیز کو پانے کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے