حصے دار (ملک صفدر حیات)

Urdu Short Stories

وہ ہنگامی اطلاع تھی جس میں ڈاکوؤں کے مسلح گروہ نےایک برات پر حملہ کر دیا تھا۔ جائے وقوعہ سے فرار ہو کر چند افراد تھانے پہنچے اور مجھے بتایا کہ ادھر جنگل میں ایک خوفناک واردات ہو گئی ہے۔ وہ کل چار افراد تھے۔ دلہن کا چاچا امیر بخش، دولہا کا بڑا بھائی گلزار حسین اور دو دیگر براتی ، میں نے امیر بخش اور گلزار کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔وہ تین اور چار بجے کا درمیانی وقت تھا۔ یہ ایسا واقعہ رونما ہوا تھا کہ میں تھانے میں بیٹھ کر متاثرین کے طویل انٹرویوز نہیں کر سکتا تھا۔ صورتِ حال اس بات کی متقاضی تھی کہ میں فی الفور جائے وقوعہ پر پہنچ جاؤں تا ہم فریادیوں سے ابتدائی پوچھ کچھ بھی ضروری تھی ، جب ہی میں نے امیر بخش اور گلزار کو اندر بلایا تھا۔ امیر بخش کی عمر لگ بھگ پچاس سال رہی ہوگی۔ 

اس نے مجھے اس اندوہناک واقعے کے بارے میں بتایا تھا، بڑے پریشان لہجے میں اس نے کہا تھا۔ تھانے دار صاحب! ہم تو لٹ گئے ، خانہ خراب ہو گیا ہمارا ... یہ مجھے معلوم ہو چکا تھا، دونوں میں سے کسی بھی پارٹی کا تعلق موضع رکھاں والی سے نہیں تھا۔ اسی تناظر میں، میں نے امیر بخش چاچاسے کہا۔ گھبراؤ نہیں امیر بخش ،سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم دماغ کو قابو میں رکھتے ہوئے مجھے بتاؤ کہ برات کہاں سے آرہی تھی اور کہاں جارہی تھی ؟ "جناب! وہ روہانسی آواز میں بولا ۔ " برات آج کوئی دس بجے صبح جسکانی پور پہنچی تھی ۔ ہمارا تعلق جسکانی پور سے ہے ۔ پھر اس نے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص کی جانب اشارہ کیا اور مزید بتایا۔ یہ دلہا کا بڑا بھائی ہے. گزار۔ یہ لوگ ادھر سلطان آباد میں رہتے ہیں ۔ برات کا شاندار استقبال کیا گیا، نکاح کی تقریب ہوئی، کھانا کھلانے کے بعد رخصتی ہوئی۔ ہم کوئی دو بجے کے قریب جسکانی پور سے روانہ ہوئے تھے۔ امید تھی کہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے لیکن راستے ہی میں ..... بولتے بولتے اس کی آواز بھرا گئی اور وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے سوالیہ نظر سے گلزار کی طرف دیکھا۔ وہ میری نگاہ کا مطلب سمجھتے ہوئے جلدی سے بولا ۔ اس کا انداز سوالیہ تھا۔ تھانے دار صاحب! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جسکانی پور اور سلطان آباد کے بیچ جنگل پڑتا ہے....؟

سلطان آباد اور جسکانی پورنامی یہ دونوں گاؤں میرے تھانے کی حدود میں آتے تھے اس
لیے مجھے معلوم تھا کہ تقریباً ان کے درمیان جنگل کا ایک حصہ پڑتا تھا۔ میں نے گلزار کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سر کو اثباتی جنبش دی اور کہا۔ "ہاں مجھے پتا ہے؟"

وہ مزید بتانے لگا۔ جب ہم سب لوگ جنگل کے اس حصے میں پہنچے تو ڈاکوؤں کے ایک جتھے نے اچانک ہم پر حملہ کر دیا۔ ہم اس افتاد کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے لہذا پوری برات میں افراتفری پھیل گئی۔ ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے سب کو خوف زدہ کر دیا اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو گئے۔ انہیں اپنا کام مکمل کرنے میں دس، پندرہ منٹ لگے ہوں گے ۔ اس کے بعد وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر گھنے جنگل میں غائب ہو گئے اور ...اور ہم اس واقعے کی اطلاع دینے آپ کے پاس تھانے آگئے ہیں۔" برات میں کل کتنے افراد شامل تھے؟“ میں نے پوچھا۔ ولہا سمیت ہم کل پچیس افراد تھے جو آج صبح آٹھ بجے سلطان آباد سے روانہ ہو کم و بیش دس بجے جسکانی پور پہنچے تھے۔ گلزار نے جواب دیا۔ واپسی میں دلہن سمیت گل پندرہ افراد ادھر سے بھی شامل ہو گئے۔ یوں سمجھیں کہ جب ڈاکوؤں نے ہم پر حملہ کیا تو ہم لگ بھنگ چالیس افراد تھے۔“تم چاروں اطلاع دینے تھانے آئے ہو۔ میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں استفسار کیا۔ باقی چھتیں کیا ادھر جائے واردات پر ہی رک کر پولیس کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں؟“ جی ہاں .... لوگ اُدھر ہی ہیں ۔ “ گلزار نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ "تم لوگ باہر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھو ۔ ہم ابھی پانچ منٹ میں نکلتے ہیں۔“

وہ دونوں اٹھے اور خاموشی کے ساتھ میرے کمرے سے باہر نکل گئے ۔موضع جسکانی پور، میرے تھانے یعنی موضع رکھاں والی سے لگ بھنگ آدھے میل کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع تھا جبکہ سلطان آباد، جسکانی پور سے مغربی سمت میں تھا۔ یہ گاؤں ایک دوسرے سے کم و بیش آٹھ میل کی دوری پر موجود تھے ۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک جانے کے لیے نا ہموار کچا راستہ مہیا تھا جس پر گھوڑے، بیل گاڑیاں اور تانگے وغیرہ آسانی سے چل سکتے تھے۔ میں جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔ جہاں پر یہ نا خوشگوار واقعہ پیش آیا تھا، وہ جنگل کا بہ نسبت کم غیر آباد حصہ تھا۔ اسے جنگل کا کنارہ بھی کہہ سکتے تھے۔ میں نے وہاں پر موجود لوگوں سے جو ابتدائی پوچھ کچھ کی اس سے حاصل ہونے والی معلومات کا خلاصہ کچھ یوں ہے

آج صبح سلطان آباد سے پچیس افراد پر مشتمل برات روانہ ہوئی اور دو گھنٹے کے بعد لگ بھنگ دس بجے یہ لوگ دلہن کے گھر پہنچ گئے تھے۔ ان میں دلہا سمیت پندرہ مرد اور دس لڑکیاں، عورتیں شامل تھیں۔ یہ لوگ ایک تانگے ، ایک بیل گاڑی اور نو گھوڑوں پر سوار ہوکر دلہن کے گاؤں میں داخل ہوئے تھے پھر واپسی میں دلہن سمیت پندرہ افراد ان کے ساتھ شامل ہو گئے جن میں سات مرد اور آٹھ لڑکیاں، عورتیں تھیں۔ ان لوگوں نے اپنی سواری کے لیے ایک تانگا اور تین گھوڑے استعمال کیے تھے۔ اس حساب سے کل ملا کر جب ڈاکوؤں نے برات پر حملہ کیا تو اس قافلے میں دلہا دلہن سمیت بائیس مرد، اٹھارہ عورتیں، بارہ گھوڑے، دو تا نگے ، ایک بیل گاڑی اور اس گاڑی پر لدا جہیز وغیرہ کا سامان شامل تھا۔ دلہن والی ڈولی ( پالکی ) کو بھی بیل گاڑی پر ہی رکھا گیا تھا اور دلہن کا خیال رکھنے کے لیے پانچ سمجھ دار عورتیں بھی بیل گاڑی پر سوار ہو گئی تھیں۔ واضح رہے کہ مردوں کی جو کل تعداد بائیس بیان کی گئی ہے ان میں دو کو چوان اور ایک بیل گاڑی کا ڈرائیور بھی شامل تھے ۔ یہ لوگ جسکانی پور اور سلطان آباد کے وسط میں اس مقام پر پہنچے جہاں جنگل کا آخری کنارہ پڑتا تھا تو مسلح ڈاکوؤں نے ان پر حملہ کر دیا تھا۔

گاؤں دیہات میں اُس زمانے میں اور ... آج کل بھی ، شادی بیاہ دن میں ہی ہوتے ہیں۔ عموما سہ پہر میں رخصتی کر دی جاتی ہے تا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے، دلہا اپنی دلہن کے ساتھ گھر پہنچ جائے۔ گاؤں میں اگر برات کو زیادہ دور جانا ہو تو کھانے کے فورا بعد رخصتی کر دی جاتی ہے جیسا کہ اس برات کے ساتھ ہوا تھا البتہ اگر دلہا کا گاؤں بغل میں یا نزدیک ہو تو رخصتی کے وقت کو تھوڑا آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ ڈاکوؤں کی کل تعداد چھ بتائی گئی تھی ۔ انہوں نے اپنے چہروں کو چھپانے کے لیے ڈھائے لگارکھے تھے۔ اگر یہ واردات رات کے وقت ہوتی تو شاید انہیں اپنی شناخت چھپانے کے لیے یہ اہتمام نہ کرنا پڑتا۔ وہ گھوڑوں پر سوارا چانک ایک جانب سے نمودار ہوئے تھے اور آنا فانن میں انہوں نے بے فکری سے برات پر بلا بول دیا تھا۔

بنیادی طور پر یہ ایک لوٹ مار کی واردات معلوم ہوتی تھی لہذا جسمانی نقصان کم اور مالی نقصان زیادہ اٹھانا پڑا ۔ ڈاکو چونکہ پوری طرح مسلح تھے اور حملے کے وقت انہوں نے ہوائی فائرنگ کر کے براتیوں کے دلوں پر دہشت بٹھانے کی کوشش بھی کی تھی ۔ ایک دو افراد کو اچھا خاصا زخمی کر دیا گیا تھا جبکہ نصف درجن کو معمولی نوعیت کی چوٹیں آئی تھیں۔ ایک مزاحمتی کو ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہوائی کے علاوہ زمینی فائرنگ بھی کی تھی جس کے نتیجے میں یہ واحد شخص زخمی ہوا تھا۔ الغرض دس سے پندرہ منٹ کے اندر ڈاکوؤں نے ہنگامی کارروائی کر کے تمام تر قیمتی سامان ، طلائی زیورات اور نقدی لوٹ لی اور جس طوفانی انداز میں وہ اچانک حملہ آور ہوئے تھے اس رفتار سے گھنے جنگل میں غائب ہو گئے۔ دلہا دلن کو کسی ڈاکو نے ہاتھ تک لگانے کی کوشش نہیں کی تھی جس سے ہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایک عام سی لوٹ مار کی واردات تھی۔ میں نے فوری طور پر اپنے ساتھ آئے ہوئے پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی اور انہیں ڈاکوؤں کی تلاش میں ، جنگل کے اس حصے کی جانب دوڑا دیا، جدھر ڈاکوؤں کے فرار ہونے کے بارے میں بتایا گیا تھا حالانکہ مجھے ، ڈاکوؤں کے گرفت میں آنے کی زیادہ امید نہیں تھی ۔ مذکورہ واردات لگ بھگ تین بجے سہ پہر کو پیش آئی تھی اور اب وقت کھسک کر پانچ کے قریب جا چکا تھا۔ اتنا وقت گزر جانے کے بعد یہ سوچنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوتا کہ وہ لٹیرے ابھی جائے وقوعہ کے آس پاس ہی قیام پذیر ہوں گے۔ ان تک رسائی کے امکانات اگر چہ روشن نہیں تھے تاہم یہ متلاشی قانونی کارروائی بہت ضروری تھی۔ اس مختصری پولیس پارٹی کو جنگل کے اندرونی حصے کی جانب روانہ کرنے کے بعد میں نقصانات کے جائزے میں مصروف ہو گیا۔

ڈاکوؤں کے اس مسلح گروہ نے آنا فانا میں بھری برات کو نقدی، زیورات اور قیمتی سامان سے خالی کر دیا تھا۔ سب سے زیادہ نقصان بیل گاڑی پر لدے ہوئے ساز وسامان کو پہنچایا گیا تھا۔ علاوہ ازیں وہ بدمعاش ٹولا اس بڑے سوٹ کیس کو بھی اپنے ساتھ اٹھا لے گیا تھا جس میں دلہن کے قیمتی ملبوسات اور دیگر پہناوے رکھے گئے تھے۔ ان نتائج سے واضح ہوتا تھا کہ وہ محض لوٹ مار کی ایک سنگین واردات تھی۔ اس میں کسی دشمنی یا انتظام کا ہاتھ نہیں تھا اور یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ ڈاکوؤں مسلح گروہ کو برات کے واپسی کے پروگرام سے مکمل آگاہی حاصل تھی۔ یہ کوئی اتفاقیہ واردات نہیں تھی۔

ڈاکوؤں کی وحشت اور زور زبردستی سے بیشتر براتی جسمانی طور پر بھی متاثر ہوئے تھے جن میں لگ بھگ نصف درجن کو معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ ایک دو ایسے زخمی تھے جنہیں مناسب مرہم پٹی کی ضرورت تھی البتہ، وہ شخص جس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی ، اسے فوری طبی امداد کے لیے اسپتال بھجوانا ضروری تھا۔ گولی اس کی ران کے اندر پھنس کر رہ گئی تھی ۔ اگر زیادہ دیر تک گولی گوشت کے اندر موجود رہتی تو زہر پھیلنے کے روشن امکانات تھے ۔ لہذا میں نے دو افراد کے ساتھ اسے تانگے میں سوار کرایا اور فی الفور اسپتال کی جانب روانہ کر دیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ ڈاکوؤں کے ظلم و ستم کا نشانہ صرف براتی مرد ہی بنے تھے۔ کسی لڑکی یا عورت کو انہوں نے چھونے کی کوشش نہیں کی تھی۔شام کے پانچ بج چکے تھے۔ اس مقام سے برات کو سلطان آباد پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت درکار تھا اور ان دنوں پونے چھ بجے تک مغرب کی اذان ہو جایا کرتی تھی یعنی ، اگر وہ لوگ فی الفور بھی روانہ ہو جاتے تو سلطان آباد پہنچتے پہنچتے انہیں اندھیرا ہو ہی جاتا۔ لہذا ایک فوری خیال کے تحت میں نے لڑکی یعنی دلہن ... جس کا نام صاعقہ تھا، اس کے چاچا امیر بخش اور لڑکے دلہا جبار حسین کے باپ ستار حسین کو اپنے پاس بلایا اور گہری سنجیدگی سے کہا”آپ لوگوں کے بیانات اور دیگر معاملات کو بعد میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت سب سے اہم معاملہ تم لوگوں کی روانگی کا ہے اور یہ فیصلہ تمہی نے آپس میں باہمی صلاح مشورے سے کرنا ہے.

صلاح مشوره .... فیصله ؟ ستار حسین نے سوالیہ نظر سے مجھے دیکھا۔ امیر بخش نے کہا۔ آپ کسی فیصلے کی بات کر رہے ہیں تھانے دار صاحب؟ یہاں سے روانگی کا فیصلہ “ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ یہ فیصلہ کہ اس واقعے کے بعد آپ لوگوں نے سلطان آباد کی طرف سفر کرنا ہے یا پھر جسکانی پور کی جانب
واپسی ہوگی؟“

” جناب ! واپسی والی کوئی کہانی نہیں ہوگی ۔“ ستارحسین نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔میں اپنے بیٹے کو بیاہ کر لے جا رہا ہوں ۔ ادھر سلطان آباد میں بڑی شدت سے ہمارا انتظار ہورہا ہو گا۔ ہمیں چار ، سوا چار بجے تک اپنی منزل پر پہنچ جانا چاہیے تھا اور آدھے راستے ہی میں پانچ سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے۔ سلطان آباد والوں کے انتظار میں بے چینی اور تشویش بھی شامل ہوگئی ہوگی۔“

ہوسکتا ہے، سلطان آباد سے کچھ لوگ ہماری خیریت دریافت کرنے اس طرف کا رخ بھی کر چکے ہوں اور وہ لوگ اب تب میں یہاں پہنچنے والے بھی ہوں ستار حسین کی بات میں وزن تھا۔ وہ جس بات کا خدشہ ظاہر کر رہا تھا، ویسا ہونا عین ممکن تھا۔ دلہا کے چاچا امیر بخش نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ ستار بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔ برات کو جلد از جلد سلطان آباد کی سمت روانہ ہو جانا چاہیے۔ یہ تو کسی بھی صورت ممکن نہیں کہ ہرات واپس جسکانی پور لے جائی جائے۔ صاعقہ کا باپ اور میرا بڑا بھائی قدیر بخش اس دنیا میں باقی نہیں ہے۔ چند سال پہلے اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں نے باپ بن کر صاعقہ کو بیاہا ہے۔ لوٹ مار کا جو واقعہ پیش آچکا، وہی کچھ کم نہیں ہے۔ اگر صاعقہ کی ڈولی واپس جائے گی تو اسے بہت ہی برا سمجھا جائے گا۔ صاعقہ اور اس کی بیمار ماں اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکیں گے . اس نے چند سیکنڈ کا توقف کر کے گردن کو نفی میں جھٹکا پھر حتمی لہجے میں بولا۔ نہیں جناب ... اس برات کو ہر قیمت پر سلطان آباد ہی پہنچنا چاہیے؟“ٹھیک ہے۔ میں نے سر کو اثباتی جنبش دی پھر کہا۔ ” جب آپ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ برات کو سلطان آباد جانا چاہیے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ لوگوں کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا. میں نے سولتی ہوئی نظر سے باری باری ان دونوں کی آنکھوں میں جھانکا پھر بات پوری کرتے ہوئے کہا۔ کل کسی بھی وقت آپ لوگ میرے پاس تھانے میں آ کر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔ آپ دونوں کے ساتھ دو تین ایسے معتبر افراد بھی ہوں گے جو اس برات میں شامل ہیں اور اس افسوسناک واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ سر دست میں کسی بھی بندے کو روک نہیں رہا لیکن کل آپ کو ہر صورت میں یہ کام کرنا ہوگا !

ٹھیک ہے جناب۔ امیر بخش نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ "ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے ۔
ستار حسین بولا۔ تھانے دار صاحب! ہم کل آپس میں مشورہ کرنے کے بعد کوئی وقت طے کرلیں گے لیکن یہ ذہن میں رہے کہ وہ وقت شام کے اریب قریب ہی کا ہوگا کیونکہ تھوڑی دیر کے لیے رکا، ایک گہری سانس خارج کی اور اضافہ کرتے ہوئے گمبھر لہجے میں بولا۔ تھانے دار صاحب ! عزت، جان اور مال میں سب سے زیادہ اہمیت عزت کی ، اس کے بعد جان کی اور سب سے آخر میں مال کی ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے، ہماری عزت اور جان محفوظ رہی ہے۔ مال و دولت اور زیورات کا کیا ہے۔ انسان زندہ رہے تو یہ چیزیں دوبارہ بن جاتی ہیں۔ اس لیے کل ولیمہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوگا۔ ولیمے سے فارغ ہونے کے بعد جب امیر بخش اور جسکانی پور کے دیگر لوگ واپسی کی راہ اختیار کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ ہی آ جاؤں گا۔ آپ کا تھا نا موضع رکھاں والی میں ہے جو جسکانی پور کے بہت قریب واقع ہے۔“ میں نے ستار حسین کے پروگرام سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے انہیں جانے کی اجازت دے دی لیکن اس سے پہلے کہ وہ لوگ مقام لٹ پٹاں“ سے روانہ ہوتے ، ستار حسین کا خدشہ سچا ثابت ہو گیا۔ سلطان آباد کی سمت سے چند گھڑ سواروں کی مخصوص آواز سنائی دینے لگی۔ وہ چار یا پانچ گھڑ سوار تھے جو اپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے اسی طرف آرہے تھے ۔ ناہموار کچے راستے پر گھوڑوں کے پاؤں کی مخصوص آواز میں ابھر رہی تھیں۔ 

امیر بخش اور ستار حسین نے چونک کر بے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر وہ سوالیہ نظروں سے مجھے تکنے لگے۔ ان کے ذہنوں میں اس وقت جس نوعیت کے خیالات ابھر رہے تھے میں اچھی طرح ان سے آگاہ تھا لہذا میں نے ان کی سوچ کی تائید کرتے ہوئے اثبات میں گردن ہلا دی۔ اگلے ہی لمحے ہم سب کے اندازوں کی تصدیق ہو گئی۔ گھڑ سوار ہماری نظروں میں آ گئے ۔ وہ تعداد میں چار تھے۔ قریب پہنچنے پر پتا چلا کہ ان سب کا تعلق سلطان آباد سے تھا اور وہ ان لوگوں کی خیریت دریافت کرنے ہی یہاں پہنچے تھے ۔ میں نے ایک بات خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ چاروں پوری طرح مسلہ تھے۔ دو نے رائفلیں سنبھال رکھی تھیں اور باقی دو کی کمر پر ریوالور والے مخصوص بیلٹ نظر آ رہے تھے ۔ نہ صرف بیٹ... بلکہ چرمی ہولسٹرز میں سے ریوالورز کے دستے بھی جھانک رہے تھے جس سے ان کے عزائم کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اس بات میں کسی شک وشہبے کی گنجائش نہیں تھی کہ ان گھڑ سواروں کو یہ اندیشہ ضرور تھا کہ اگر چار بجے تک برات سلطان آباد نہیں پہنچی تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ راستے میں ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آچکا ہے، جب ہی وہ پوری تیاری کے ساتھ ادھر آئے تھے۔

آنے والوں نے برات کی کیفیت دیکھی اور ان لوگوں کے ساتھ ایک تھانے دار کو موجود پایا تو پلک جھپکتے میں صورتِ حال ان پر واضح ہوگئی، نہایت ہی مختصر الفاظ میں، میں نے بھی انہیں تازہ ترین حالات سے آگاہ کر دیا۔ ستار نے ان کا تعارف کرانا ضروری سمجھا جو گھوڑوں سے نیچے اتر آئے تھے۔ریوالور بردار گھڑ سواروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے مجھے بتایا ۔ تھانے دار صاحب! یہ جھارا اور جھورا ہیں ۔ چودھری سلطان کے خاص بندوں میں ان کا شمار ہوتا ہے اور یہ جو ان کے ساتھ آئے ہیں ۔“ اس نے باقی دو، رائفل برداروں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔ ان میں سے یہ پٹواری حیات اللہ کا بیٹا مشتاق عرف مشتاقا اور یہ اس کا دوست سلیم عرف سیما مشتاق ایک پستہ قامت شخص تھا جبکہ سلیم کا قد لمبا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ دونوں دوست کبڈی کے بھی بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ میں نے ان چاروں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینے کے بعد ستار حسین کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کیا ان سب جوانوں کا تعلق موضع سلطان آباد سے ہے؟“
جی ہاں ، یہ میرے ہی گاؤں کے لوگ ہیں ۔ اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ " کیا تم نے انہیں اپنے بیٹے کی شادی میں نہیں بلایا تھا؟“ میں نے چبھتے ہوئے لہجے
میں سوال کیا ۔ ان میں سے کوئی برات میں شامل کیوں نہیں ..؟

میں نے ایک خاص مقصد کے تحت یہ سوال کیا تھا۔ ستار حسین نے جواب میں بتایا۔ جی ، ان تمام لوگوں اور ان کے گھر والوں کو میں نے جبار کی شادی کی دعوت دی تھی لیکن یہ ایک اتفاق ہے کہ ان میں سے کوئی بھی برات کے ساتھ سلطان آباد سے جسکانی پور نہ آسکا مشتاق اور سیما کے ساتھ اتفاق ہو سکتا ہے تھانے دار جی ۔ زبیر عرف جھاڑا نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوے کہا
لیکن ہم دونوں تو کل شام میں چودھری صاحب کے ایک ضروری کام سے کوٹ فرمان علی گئے ہوئے تھے ۔ دونوں سے اس کی مراد وہ اور منظور عرف جھورا تھی ۔ ”ہم آج دو پہر کے بعد ہی وہاں سے واپس آئے ہیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ سہ پہر میں ہماری واپسی ہوئی ہے وہ لمحے بھر کو سانس لینے کے لیے متوقف ہوا پھر اضافہ کرتے ہوئے بولا۔
” جب ہم سلطان آباد پہنچے تو پتا چلا کہ جبار کی برات واپس نہیں آئی۔ ادھر مشتاق اور سیما تیار کھڑے تھے تا کہ ادھر آ کر صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔ یہ خبر چودھری صاحب کی حویلی میں بھی پہنچ چکی تھی کہ جبار کی برات کو واپسی میں خاصی دیر ہوگئی ہے لہذا چودھری صاحب نے حکم دیا کہ ہم دونوں بھی مشتاق اور سیما کے ہمراہ جائیں اور ہم آ گئے ۔ بس اتنی سی بات ہے۔“ مشتاق اور سیمانے برات میں عدم شمولیت کے لیے کوئی وضاحت پیش کرنا ضروری نہ جانا اور میں نے بھی اس موقع پر کوئی کرید وغیرہ کرنے کے بجائے صرف اتنا کہا۔
" کاش ! تم لوگوں میں سے کوئی دو مسلح افراد بھی جبار کی برات کے ساتھ شامل ہوتے تو ڈاکوؤں کو یوں من مانی نہ کرنے کی جرات ہوتی۔ اگر وہ براتیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تین فائر کرتے تو ایک آدھ گولی ادھر سے بھی چلتی ۔ ہتھیار کی اپنی ایک مخصوص دہشت ہوتی ہے۔ پتا نہیں ، ستار حسین نے اس جانب دھیان کیوں نہیں دیا .... کیوں ستار حسین؟“
میں نے سوالیہ نظر سے دلہا کے باپ کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے وضاحت کرتے ہوئے بولا ۔ تھانے دار صاحب! آپ کی بات تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ہم نے یہی سوچا تھا کہ دن دن کا سفر ہے۔ اندھیرا ہونے سے پہلے ہم واپس سلطان آباد پہنچ جائیں گے اس لیے بھی اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔“ جھورا نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا۔ ” تھانے دار صاحب! آپ نے اگر موقع کی کارروائی مکمل کر لی ہو تو ہمیں جانے کی اجازت دے دیں ورنہ ادھر سلطان آباد میں تحلیلی بچ جائے گی اور ممکن ہے لوگوں کا کوئی بڑا جتھا ادھر آنے کے لیے وہاں سے چل پڑے۔“
مشتاقانے جھورا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ” جناب ! برات کا جو بھی نقصان ہونا تھا، وہ تو ہو چکا۔ یہاں رک کر وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جھورا نے بالکل صحیح کہا ہے۔ ہمیں فوری طور پر سلطان آباد روانہ ہو جانا چاہیے۔ آپ ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے جو بھی
کارروائی کرنا چاہیں ، وہ آپ کی مرضی ہے۔ اس سلسلے میں ہم سے جو بھی تعاون چاہیے، ہم حاضر
ہیں۔مشتاقا کی بات میں وزن تھا اور ویسے بھی میں اس حوالے سے ایک حتمی فیصلہ کر چکا تھا۔ نہ صرف فیصلہ کر چکا تھا بلکہ میں نے اس فیصلے سے ستار حسین اور امیر بخش کو بھی آگاہ کر دیا تھا۔ میں
بھی ان لوگوں کے روانہ ہونے کے حق میں تھا اسی لیے اگلے روز انہیں تھانے آنے کو کہا تھا۔ میں نے چاروں مسلح افراد کی نگرانی میں دیگر براتیوں کو جنگل کے اس حصے سے کوچ کرنے کی اجازت دے دی لیکن اس سے پہلے کہ وہ لٹا پٹا قافلہ وہاں سے روانہ ہوتا، وہ پولیس پارٹی واپس آ گئی جنہیں میں نے ڈاکوؤں کی خیریت دریافت کرنے جنگل کے نسبتا گھنے شمالی حصے کی سمت دوڑایا تھا۔ ان سب کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ جیسا کہ میں توقع بھی کر رہا تھا ، وہ متلاشی مشن میں ناکام و نامراد واپس لوٹے تھے۔ وہ جہاں تک بھی گئے ، ڈاکوؤں کا نام ونشان دیکھنے کو نہ ملا۔ مزید آگے جانا خطرے سے خالی نہ ہوتا کیونکہ آدھے گھنٹے کے بعد سورج غروب ہو جاتا ، گھنے جنگل کی تاریکی میں ، ڈاکوؤں کے اس مسلح شیطانی ٹولے کو تلاش کرنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی غوطہ خور بحر اوقیانوس کی تہ میں اتر کر کامن پن ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو۔ براتیوں کو تازہ ترین صورت حال سے آگا ہی ہو چکی تو انہوں نے وہاں مزید ایک سیکنڈ بھی رکنا ضروری نہ سمجھا۔ ان کے روانہ ہوتے ہی ہم لوگ بھی واپسی کے لیے چل پڑے۔ میں نے جن اہلکاروں کی ٹیم تشکیل دے کر ڈاکوؤں کی تلاش میں جنگل کی طرف روانہ کیا تھاوہ کل چار افراد تھے۔ آفتاب ،منظور ، صدیق اور فاروق ۔ فاروق ان میں سینئر تھا اور میں نے اس کو ٹیم لیڈر بھی مقرر کیا تھا۔ واپسی کے سفر میں اس نے مجھ سے کہا۔
ملک صاحب! ڈاکوؤں کی صحیح سمت کا اندازہ لگانے اور ان تک رسائی حاصل کرنے
کے لیے ہمیں کسی کھوجی کی مدد لینا ہو گا ۔ اس کے بغیر یہ مہم سر ہوتی نظر نہیں آتی ۔"
یہ نقطہ میرے ذہن میں بھی ہے فاروق !‘ میں نے تائیدی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ لیکن یہ کام اتنا سہل ثابت نہیں ہوگا جتنا بہ ظاہر دکھائی دیتا ہے۔ میری معلومات کے جنگل خاصے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔"
ہم گھوڑوں پر سوار منہ تیز رفتاری سے تھانے کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ اس کچے راستے کو جنگل کا صرف جنوبی کو نائچ کرتا تھا جہاں ڈاکوؤں نے ہلا بول کر اس برات کو بے سروسامان کر دیا تھا۔ شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے ہم لوگ اس حصے سے نکل آئے تھے اور بڑی کامیابی سے تھانے
کی طرف گامزن تھے۔ کا نسٹیبل فاروق نے میری بات کے جواب میں کہا۔ ” جناب! آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ جنوب کی سمت کسی تلاش کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ۔ براتیوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ، جائے واردات سے ڈاکوؤں نے شمال کا رخ کیا ہے تو وہ یقینا ادھر ہی گئے ہوں گے اور شمال میں یہ جنگل لگ بھگ دس میل کے فاصلے تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ اچھی خاصی دوری ہے مگر وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر متوقف ہوا پھر ایک گہری سانس خارج کرنے کے بعد
بولا۔ کھرا اٹھانے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نظر نہیں آتا ۔ ڈاکوؤں نے اپنے چہروں کو ڈھانوں کے پیچھے چھپارکھا تھا تا کہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔ برات میں شامل چالیس افراد میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ ان کے حلیے کیا تھے ۔ اگر ڈاکوؤں تک پہنچنا ہے یا ان کے روٹ کا پتا چلاتا ہے تو واحد ذریعہ کھوجی کی خدمات ہی ہو سکتی ہیں۔ اس بارے میں تھانے جا کر ہی کوئی لائحہ عمل بنائیں گے ۔‘ میں نے گمبیر لہجے میں کہا۔ بات چیت میں خاصی دشواری محسوس ہورہی تھی۔ فاروق کا گھوڑا چونکہ میرے برابر میں دوڑ رہا تھا اس لیے ہم کوشش کر کے گفتگو کر رہے تھے ۔ فی الحال حتمی انداز میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ جہاں تک ڈاکوؤں کے حلیوں وغیرہ کا تعلق ہے تو میں نے لمحاتی توقف کیا پھر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔ براتیوں پر تو وہ جہنمی بلاؤں کے مانند نازل ہوئے تھے۔ انہیں خود کو بچانے کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔ رہی سہی کسر ڈاکوؤں کی فائرنگ نے پوری کر دی تھی ۔ اس دہشت بھری فضا میں وہ ان کے حلیوں پر کیا دھیان دیتے ، خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ حملہ آوروں نے اپنے
چہروں کو مکمل طور پر ڈھائوں کے پیچھے چھپارکھا ہو۔ بہر حال میں نے ایک مرتبہ پھر جملہ ادھورا ایک گہری سانس خارج کی اور اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم ڈاکوؤں کو سرے سے نظر انداز ہی کر دیں گے۔ انہیں تلاش تو کیا جائے گا اور ٹھیک ٹھاک طریقے سے تلاش کیا جائے گا لیکن کسی مضبوط پلانگ کے بعد اور یہ سارا کام تھانے پہنچنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔“ اس کے بعد کانسٹیبل فاروق نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ جب ہم نے تھانے کے احاطے میں قدم رکھا تو شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے ۔ سورج غروب ہوئے گھنٹا بھر ہونے کو آیا تھا۔ چہار سُو تاریکی نے اپنا ڈیرا جمالیا تھا۔ فضا میں خنکی کا تناسب بھی بڑی تیزی سے بڑھا تھا۔ مغرب کی نماز کا وقت گزر گیا تھا۔ اب اس نماز کو عشا کی نماز کے ساتھ ملا کر ہی پڑھا جا
سکتا تھا۔ میں نے منہ ہاتھ دھویا اور رات کے کھانے سے انصاف کرنے لگا۔
آئندہ روز ، میں پٹواری دوست محمد اور اس کے بیٹے ظفر محمود کی طرف جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اے ایس آئی اعجاز حسین میرے کمرے میں آ گیا۔ میں نے چاچی مریاں کے سلسلے میں اعجاز کی بیوی رضیہ کو ایک مشن سونپ رکھا تھا۔ وہ اسی کی رپورٹ دینے آیا تھا اور وہ رپورٹ خاصی پُر جوش اور نا خوشگوار تھی، یعنی بکریوں والی چاچی کی بیٹی مرحومہ نرگس کی زندگی کا ایک سنسنی خیز گوشہ منکشف ہو گیا تھا جس کی مدد سے بالآخر میں نے وہ کیس حل کر لیا تھا۔ اس معاملے کی تفصیل قارئین ملاحظہ کر چکے ہیں لہذا میں اس ذکر کو لپیٹ کر ایک ڈبے میں بند کرنے کے بعد زیر نظر واقعے کی طرف آتا ہوں۔ چاچی بکریوں والی کے بارے میں، اعجاز حسین کو مختلف ہدایات دینے کے بعد میں نے ڈاکوؤں کی کارفرمائی کے حوالے سے اسے مختصراً آگاہ کیا پھر اس کی رائے جاننے کے لیے سوالیہ نظر سے اسے دیکھنے لگا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ ”ملک صاحب! کھرا اٹھانے والا آئیڈیا برا تو نہیں لیکن مجھے اس کے نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آتے اور اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے ... لمحاتی توقف کر کے اس نے ایک بوجھل سانس خارج کی پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا ۔
،،
اول تو .... اگر صرف شمالی سمت ہی میں ڈاکوؤں کا کھرا اٹھانے کا کام شروع کریں تو لگ بھگ
بارہ میل تک جنگل کی خاک چھانا پڑے گی اور مہم جوئی کا زیادہ ہی شوق ہوتو دائیں بائیں، اوپر نیچے جنگل کا کونا کونا جھانکا جا سکتا مگر اس کام کے لیے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوگا۔ اس بھاگ دوڑ کے بعد اگر یہ معلوم ہوا کہ ڈاکوؤں کا وہ گروہ جنگل عبور کر کے کہیں اور نکل گیا ہے تو ہم کیا بگاڑ.لیں گے ان کا ۔ اس جنگل کے شمالی کنارے پر ایک نیم پختہ سڑک ہے جو دو بڑے اضلاع کی دو تحصیلوں کو آپس میں ملانے کا کام کرتی ہے۔ مذکورہ دونوں تحصیلوں کے بیچ بھی کم از کم ہیں پچیس میل کا فاصلہ
ہے۔
میں تمہارے خیالات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اعجاز حسین !‘ میں نے کھوے ہوئے
لہجے میں کہا۔ لیکن ایک اہم پوائنٹ کو تم بھول رہے ہو۔“
کون سا پوائنٹ ملک صاحب وہ الجھن زدہ نظر سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم پورے جنگل کا چپا چپا نہیں چھان سکتے۔ اگر ڈاکو اس جنگل میں مقیم نہیں ہیں اور ان کا مستقل ٹھکانا جنگل کے علاوہ کہیں اور ہے.. اور وہ وہاں سے نکل کر کہیں اور جاچکے ہیں تو ان تک رسائی کا عمل خاصا دشوار گزار ثابت ہو سکتا ہے۔ تم نے دو بڑی تحصیلوں اور نیم پختہ سڑک کا حوالہ تو دیا لیکن یہ بھول گئے کہ جنگل کے شمالی کنارے پر اسی نیم پختہ سڑک کی دوسری جانب ” چک سیف‘ نامی ایک بڑا گاؤں واقع ہے۔ اسی طرح جنگل کے مشرقی اور مغربی کناروں پر بھی یا کناروں سے کچھ فاصلے پر گاؤں دیہات ہوں گے۔ ممکن ہے ،لٹیروں کا وہ گروہ اس جنگل کے بیچوں بیچ کسی بھی سمت نکل گیا ہو ۔ میں تو اس علاقے میں نیا ہوں ۔ تم یہاں کے جغرافیے سے اچھی طرح واقف ہو گے ۔ مجھے اس بارے میں کچھ بتاؤ
گے؟“کیوں نہیں ملک صاحب ..... وہ جلدی سے بولا پھر چند لمحات کے توقف کے بعد اس نے بتانا شروع کیا ۔ اگر ہم جائے وقوعہ سے ناک کی سیدھ میں شمالی سمت جائیں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے، نیم پختہ سڑک آ جائے گی اور اس سڑک کی دوسری جانب واقعی چک سیف بھی آباد ہے لیکن اگر ہم جنگل کے دائیں بائیں کا جائزہ لینا چاہیں تو ...
وہ تھوڑی توقف کے بعد بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا ۔ اس جنگل میں لگ بھگ دو میل آگے جائیں تو بائیں جانب ایک راستہ نکلتا ہے جو جنگل سے باہر آنے کے بعد کوٹ فرمان
نامی ایک گاؤں تک جاتا ہے۔ جنگل کے کنارے سے کوٹ فرمان علی تک چھ میل کا فاصلہ
کوٹ فرمان علی ... میں نے زیر لب دہرایا۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے یہ نام پہلے بھی کہیں سنا ہے لیکن اس وقت فوری طور پر
مجھے یاد نہ آسکا۔ اے ایس آئی جنگلی راستوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
اسی طرح اگر جنگل میں پانچ میل آگے جانے کے بعد دائیں طرف مڑ کر سفر جاری رکھیں تو جنگل سے باہر نکل کر فرید نگر کا راستہ مل جاتا ہے۔ جنگل کے اس بیرونی مقام سے فرید نگر تک کم و بیش دو میل کا فاصلہ ہوگا اور مزے کی بات یہ ہے کہ فرید نگر ہمارے رکھاں والی سے صرف چار
میل کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے." ہوں .. اے ایس آئی کے خاموش ہونے پر میں نے پُر سوچ انداز میں کہا۔ ہمیں بڑی احتیاط کے ساتھ چک سیف، فرید نگر اور کوٹ فرمان علی نامی ان تینوں گاؤں کو چیک کرنا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ہی جنگل والے معاملے کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ میں سانس ہموار کرنے کے لیے متوقف ہوا تو اعجاز حسین سوالیہ نظر سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
ڈاکوؤں کا وہ بدمعاش ٹولا براتیوں اور دلہا دلہن کی نقدی وزیورات کے علاوہ وہ سوٹ کیس بھی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے جس میں دلہن کے ملبوسات اور دیگر استعمال کی قیمتی اشیا رکھی ہوئی تھیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ دلہن کے ایک دو طلائی زیورات بھی اس سوٹ کیس میں موجود تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ڈاکو اس سوٹ کیس کو اٹھائے ہوئے اپنے ساتھ زیادہ دور تک نہیں گئے ہوں گے۔ ڈاکو اور چور وزنی اور بڑے سائز کی اشیا سے جلد جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی اشیا ان کے لیے اکثر پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ ان کی مدد سے ان کی شناخت ہو جاتی ہے لہذا مجھے قوی امید ہے کہ ڈاکوؤں نے جنگل کے کسی مقام پر مذکورہ سوٹ کیس کو کھول کر اس کے اندرون کا جائزہ لیا ہو گا اور کام کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ اس سوٹ کیس کو جنگل ہی میں کہیں پھینک گئے ہوں گے۔ ہم اگر مذکورہ سوٹ کیس کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں ڈاکوؤں کے فرار کی سمت کا تعین کرنے میں کافی آسانی رہے گی۔ تمہارا کیا
خیال ہے اعجاز حسین؟“
آخری جملہ میں نے اے ایس آئی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ادا کیا تھا۔ وہ جلدی سے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے تائیدی انداز میں بولا ۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ملک صاحب! ہمیں ڈاکوؤں کی تلاش کا آغاز جنگل ہی سے کرنا ہوگا اور اگر خوش قسمتی سے وہ سوٹ کیس ہمیں مل جاتا ہے تو پھر اسی مقام سے کھرا اٹھا کر ڈاکوؤں کے فرار کی سمت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا
کھوجی کو تو شروع ہی سے ساتھ رکھنا ہوگا۔ میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
ور نہ مذکورہ سوٹ کیس کے متوقع مقام تک پہنچنا بہت دشوار ثابت ہوگا۔“
اس علاقے میں ایک بہت ہی تجربہ کارکھو جی رہتا ہے ملک صاحب!‘ اعجاز حسین نے سنجیدہ لہجے میں بتایا۔ اس کا نام اللہ دتا ہے۔ اللہ دتا کی عمر ساٹھ سے اوپر ہو چکی ہے لیکن ابھی تک نظر کا چشمہ لگائے بغیر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ نگاہ ایسی تیز ہے کہ کھرا اٹھانے میں اسے کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ لمحے بھر کے لیے سانس لینے کو متوقف ہوا پھر اضافہ کرتے ہوئے بولا۔
کہ اس پر موسم کی تختی اثر انداز نہیں ہوتی۔ شدید تیز سردی ہو یا روح فنا کر دینے والی گرمی ، وہ ہر موسم میں ایک ہی لباس میں ملبوس دکھائی دیتا ہے۔ ململ کا کرتہ، لٹھے کی دھوتی (تہ بند ) اور ململ ہی کا صافہ ( پگڑی) کسی نے کبھی اسے یہ شکوا کرتے دیکھا نہ سنا کہ ہائے ، آج تو قیامت کی گرمی ہے۔ اف اللہ، آج کتنی سردی ہے!" ایسا نابغہ موضع رکھاں والی میں موجود ہے اور تم نے مجھے پہلے نہیں بتایا ۔ میں نے اپنی
کری پر پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ " تم فوراً اسے یہاں بلاؤ تاکہ ڈاکوؤں کی تلاش میں کسی قسم کی تاخیر
نہ ہو۔آپ کے حکم کی دیر تھی ملک صاحب ۔“ وہ پُر جوش انداز میں بولا۔ ”میں ابھی اسے
یہاں بلواتا ہوں۔“
اگلے ہی لمحے اعجاز حسین میرے کمرے سے نکل گیا۔
میں نے سینٹر کانسٹیبل فاروق کو اپنے پاس بلا لیا۔ گزشتہ روز سہ پہر میں فاروق کی نگرانی میں نے ایک مختصر پولیس پارٹی ڈاکوؤں کے تعاقب میں جنگل کی جانب روانہ کی تھی جو سب توقع ناکام و نامراد واپس لوٹے تھے۔ میں فاروق سے جنگل کا احوال معلوم کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ میرے کمرے میں موجود تھا ۔ ابتدائی پو چھ کچھ تو میں اس سے پہلے ہی کر چکا تھا۔ وہ میرے سامنے آ کر بیٹھ چکا تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ فاروق ! تم لوگ گزشتہ روز جنگل کے اندر جہاں تک بھی گئے اس راستے میں تمہیں کسی جگہ کوئی سوٹ کیس و غیر و پڑا تو دکھائی نہیں دیا تھا؟“
کیسا سوٹ کیس ملک صاحب ! وہ متذبذب انداز میں مجھے دیکھنے لگا۔
میں نے وضاحت کرتے ہوئے اسے بتایا۔ ایک ایسا سوٹ کیس جس کی تیاری میں ریگزین استعمال کیا گیا ہو۔ اس ریگزین کا گراؤنڈ کرے کلر اور اس پر ریڈ کلر کا چیک بنا ہو۔ اس کے ساتھ ہی چیک کی بلیک پٹیاں بھی ہوں یعنی ریگزین کی گرے گراؤنڈ پر ریڈ اینڈ بلیک چیک پرنٹ
".......
امیر بخش اور ستار حسین کی زبانی، اس سوٹ کیس کے بارے میں مجھے صرف اتنی سی معلومات حاصل ہوئی تھیں ۔ فاروق نے چند لمحات تک سوچنے کے بعد نفی میں گردن ہلائی اور بتایا۔ نہیں ملک صاحب ... ایسی سوٹ کیس تو مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ ایسا کیا کسی بھی طرح کا سوٹ کیس جنگل میں پڑا دکھائی نہیں دیا۔“
تم لوگوں نے زیادہ تر سفر کس سمت میں کیا تھا؟“ میں نے پوچھا۔
ہم جائے وقوعہ سے سیدھے شمالی سمت میں گئے تھے جیسا کہ براتیوں نے ڈاکوؤں کے فرار کے حوالے سے نشان دہی کی تھی ۔ فاروق نے سنجیدہ لہجے میں بتایا۔ ایک ہی رخ میں آگے بڑھتے ہوئے ہم اپنے دائیں بائیں بھی نظر دوڑاتے جارہے تھے لیکن اس راستے میں سوائے گھنے درختوں کے ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا جسے قابل ذکر سمجھا جاسکے۔“
تھوڑی دیر پہلے اے ایس آئی اعجاز حسین سے ہونے والی گفتگو میرے ذہن میں تازہ تھی۔ اس کی روشنی میں، میں نے فاروق سے سوال کیا ۔ " یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تم لوگوں نے جنگل کے مشرقی اور مغربی حصوں کا بالکل رخ نہیں کیا ؟"
جی ہاں حقیقت یہی ہے ۔ اس نے جواب دیا۔
میں مزید چند منٹ تک فاروق سے بات چیت کرتا رہا۔ ہمارے موضوع کا مرکز ومحور ڈاکو اور جنگل ہی تھا۔ میں نے اسے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں بھی بتایا کہ میں نے کس طرح کھو جی اللہ دتا کی مدد سے ڈاکوؤں تک رسائی حاصل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس نے بھی کھوجی اللہ دتا کی تعریف کی اور فرمائشی انداز میں مجھ سے کہا۔
ملک صاحب! میری یہ خواہش ہے کہ اس مشن میں آپ مجھے اپنے ساتھ رکھیں جیسا کہ بکریوں والی چاچی کے کیس میں اے ایس آئی صاحب آپ کا ساتھ دے رہے ہیں!" فاروق کا اشارہ اے ایس آئی اعجاز حسین کی جانب تھا۔ میں نے اس کی تمنا پوری کرتے ہوئے مضبوط لہجے
میں کہا۔ ٹھیک ہے فاروق ، اس مشن میں، میں تمہیں اپنے ہمراہ لے کر جاؤں گا ۔“ وہ تشکرانہ انداز میں مجھے دیکھتے ہوئے بولا ۔ ” بہت بہت شکریہ ملک صاحب ! تھوڑی دیر کے بعد اعجاز حسین میرے پاس آیا اور آ کر مجھے اپنی کارکردگی کے بارے میں مطلع کرنے لگا۔ ملک صاحب ! اللہ دتا اس وقت رکھاں والی میں موجود نہیں۔ اس کے گھر سے پتا چلا ہے کہ وہ دو پہر سے پہلے واپس آ جائے گا۔ میں نے اس کے گھر والوں کو تاکید کر دی ہے کہ وہ جیسے ہی آئے ، اسے تھانے بھیج دیا جائے ۔“ ” یہ تم نے بہت اچھا کیا اعجاز حسین ! میں نے ستائشی نظر سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ” جب تک میں چاچی مریاں کی خیر خبر لے کر آتا ہوں!“ اعجاز حسین نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ آئندہ دس منٹ میں، میں نے اعجاز کو اپنے اور فاروق کے پروگرام سے متعلق آگاہ کیا اور بتایا کہ ہم کھوجی اللہ دتا کی مدد سے کس طرح ڈاکوؤں کا سراغ لگانے کی کوشش کریں گے۔ وہ پوری توجہ سے میری بات سنتا رہا اور اس دوران میں وقفے وقفے سے اپنے سر کو اثباتی جنبش بھی دیتا رہا۔ اپنی بات کے اختتام میں، میں نے اس سے کہا۔ 'اعجاز حسین! موسم سرمانے اپنے قدم جمانا شروع کر دیے ہیں اور دوپہر کے بعد کا وقت تو نہایت ہی تیز رفتاری سے گزرتا ہے۔ آج جب ہم جنگل کا رخ کریں گے تو مجھے نہیں امید کہ ایک ہی دن میں یہ کام مکمل ہو سکے۔ ہو سکتا ہے، ہمیں کوئی تسلی بخش نتیجہ حاصل کرنے کے لیے دو چار دن لگ جائیں۔ باقی دنوں کا
پروگرام تو بعد میں بنائیں گے لیکن آج کے لیے آج کے لیے تمہیں بہت ہوشیار اور محتاط رہنا
ہوگا ......!
میں کچھ سمجھا نہیں ملک صاحب؟“ وہ الجھن زدہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے اس کی الجھن دور کرتے ہوئے کہا۔ میں نے دلہا کے باپ ستار حسین اور دلہن کے چاچا امیر بخش کو چند معتبر براتیوں کے ہمراہ آج تھانے بلا رکھا ہے تاکہ ان کے با قاعدہ بیانات قلم بند کیے جاسکیں۔ ستار حسین نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ لوگ سہ پہر اور شام کے بیچ کسی وقت تھانے پہنچ جائیں گے اور میرے نئے پروگرام کے مطابق، ان اوقات میں، میں تھانے کی عمارت سے پانچ چھ میل دور گھنے جنگل میں مصروف رہوں گا لہذا میں نے ایک مرتبہ پھر
لمحاتی توقف کیا۔ اس کے بعد اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
لہذا اس دوران میں تمہیں تھانے کے اندر نہایت ہی مستعد رہنا ہو گا ۔ تھانے کے دیگر معاملات کو ہینڈل کرنے کے علاوہ تمہیں، ڈاکوؤں کی کارروائی سے متاثر ہونے والے لوگوں کے
بیانات بھی لینا ہوں گے!“
آپ فکر ہی نہ کریں ملک صاحب ۔ وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔ ” میں
آپ کی غیر موجودگی میں یہاں کے معاملات کو بڑی خوبی سے سنبھال لوں گا۔ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔“ شاباش اعجاز ... میں نے توصیفی انداز میں کہا۔ ” مجھے تم سے یہی امید تھی ۔“
کھرل صاحب تو جناب ... کسی کام میں گھسنے ہی نہیں دیتے تھے ۔“ اس کا واضح اشارہ سابق تھانا انچارج مجید کھرل کی جانب تھا۔ سب کچھ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھانے کے عملے کو وہ بس ہر کاروں اور پیادوں کے مانند دوڑاتے رہتے تھے ۔“
اعجاز حسین ! میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ "کسی بھی بساط پر تم پیادوں کو اتنا سمجھو۔ ان کا اپنا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ بھاگ دوڑ تو ان کا مقدر ہوتی ہی ہے لیکن دی میں رکھا ہوا دماغ اگر ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہو تو انہی پیادوں کی چالوں سے
جیتا جاتا ہے۔“وہ خاصے تلخ لہجے میں بولا ۔ کھرل صاحب کی گردن کے آخری سرے پر کھوپڑی اور کھوپڑی کے اندر دماغ تو موجود تھا لیکن وہ دماغ صرف اپنی آن بان اور فائدے کے حوالے ہی سے چالیں چلتا تھا۔ اپنے تھانے کی ساکھ اور عملے کی کارکردگی سے انہیں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی وہ کسی کو ہاتھ پاؤں اور دماغ ہلانے کا موقع دیتے تھے" مجید کھرل صاحب مجھ سے پہلے اس تھانے میں کیا کرتے رہے تھے ، اس بحث میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں اعجاز حسین ! میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ لیکن میرا یہ تم سے بلکہ اس تھانے کے پورے عملے سے وعدہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی سطح پر صلاحیتیں آزمانے کا بھر پور موقع فراہم کروں گا۔ میرے اس عہد کی مثال تو تم خود بھی ہو. میں نے لمھاتی توقف کر کے گہری نظر
سے اس کا جائزہ لیا پھر اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
" بکریوں والی چاچی کے کیس میں، میں نے نہ صرف تمہیں بلکہ تمہاری گھر والی رضیہ کو
بھی ایک اہم مہم پر لگا رکھا ہے .... ہیں نا ؟“
اعجاز حسین نے اثبات میں گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔
کانسٹیبل فاروق نے سوالیہ نظر سے باری باری مجھے اور اے ایس آئی کو دیکھا۔ رضیہ کے ذکر نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ رضیہ کے ذریعے، بکریوں والی چاچی اور اس کی بیٹی نرگس کے معاملے کا کھوج لگانے والی بات صرف میرے اور اعجاز حسین کے درمیان ہی تھی لہذا فاروق کے " کان کھڑے ہونا بے سبب یہیں تھا تا ہم یہ اچھا ہوا کہ اس حوالے سے اس نے کوئی سوال نہیں کیا۔میں ان لوگوں کو تھانے میں چھوڑ کر چاچی مریاں کی طرف چلا گیا۔
کھوجی اللہ دتا کی عمر ساٹھ سے متجاوز تھی تاہم وہ ہاتھ پاؤں کا مضبوط اور چاق و چند تھا۔ رنگت گہری سانولی اور آنکھوں میں کبوتر کے خون جیسی سرخی، اس کے سر اور ڈاڑھی مکمل طور پر سفید ہو چکے تھے ۔ ڈاڑھی نہایت ہی مختصر تھی جو قلموں سے ایک بار یک شروع ہو کر ٹھوڑی تک پہنچتی تھی۔ گالوں پر برائے نام اور ٹھوڑی پر گنتی کے بال دراز قامت اللہ دتا کی ڈاڑھی مختصر اور نوک دار تھی۔
2 کرتہ اور لٹھے کا بند باندھ رکھا تھا۔ سر پر بھی مخمل کی مختصری چھڑی دکھائی دیتی تھی۔ پاؤں میں کچے چمڑے کا جوتا تھا۔ وہ دو پہر کے وقت تھانے پہنچ گیا تھا۔ اس وقت تک میں بھی چاچی بکریوں والی کی نفسیات سے کھیل کر اور اس کی زبان سے سچ اگلوانے کے بعد واپس آچکا تھا لہذا اللہ دتا سے مختصری گفتگو کے بعد ہم نے جنگل کی جانب روانگی کا فیصلہ کر لیا۔ اس مشن میں کھو جی اللہ دتا کے علاوہ کان سٹیبل فاروق میرے ہمراہ تھا۔ اللہ دتا نے نہایت ہی ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ 'ملک صاحب! چونکہ کھرا اٹھانے کی ابتدا ہے اس لیے میں یہ کام اسی مقام سے شروع کروں گا جہاں لوٹ مار کا یہ واقعہ پیش آیا ہے ورنہ جنگل کے اندر گھسنے کا ایک اور آسان اور مختصر راستہ بھی ہے۔“
اعجاز حسین نے مجھے بتایا تھا کہ اللہ دتا گردونواح کے تمام علاقوں کا حافظ ہے اور مذکورہ
جنگل بھی انہی علاقوں میں شامل تھا۔ میں نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے فوراً خیال
آرائی کی۔
تمہارا مطلب ہے ، فرید نگر کی جانب سے....؟
آپ کا اندازہ بڑی حد تک درست ہے ۔ وہ اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے بولا۔
"لیکن میں عام لوگوں کے سفری راستے کی بات نہیں کر رہا۔ وہ لمے بھر کو گہری سانس لینے کی
غرض سے متوقف ہوا پھر اضافہ کرتے ہوئے بتانے لگا۔
جائے واردات تک پہنچنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے رکھاں والی کے جنوب مغرب میں لگ بھگ آدھا میں سفر کر کے جسکانی پور پہنچنا ہو گا اور پھر جسکانی پور سے کم از کم چار میل آگے جنگل کے اس جنوبی کونے میں جہاں لوٹ مار کا یہ واقعہ پیش آیا ہے جبکہ وہ ایک مرتبہ پھر رکا، ایک بوجھل سانس خارج کی اور اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے بولا۔
جبکہ اگر ہم رکھاں والی سے، عام مسافروں والے راستے پر شمال میں سفر کرتے ہوئے فرید نگر پہنچیں تو یہ فاصلہ چار میل ہوگا اور فرید نگر سے دو میل کے فاصلے پر مغرب میں جنگل شروع ہو جاتا ہے لیکن اگر میرے بتائے ہوئے راستے پر رکھاں والی سے شمال مغرب کی سمت سفر کره تو زیادہ سے زیادہ چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم جنگل کے مشرقی کنارے کو چھولیں گے
لیکن اللہ دتا کے خاموش ہونے پر میں نے کہا۔ "مسئلہ وہی ہے کہ ہمیں تفتیش کا
آغاز جائے وقوعہ ہی سے کرنا ہوگا .... ہیں نا؟“
""
جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ وہ تائیدی انداز میں بولا۔
”ویسے تمہاری فراہم کردہ معلومات اور تمہارے مشاہدے و تجربے کو میں قدم قدم پر استعمال کروں گا۔ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”ہوسکتا ہے، کھرا اٹھانے کے اس عمل کے دوران میں کسی مرحلے پر ہمیں اس روٹ کو بھی استعمال اور اختیار کرنا پڑ جائے ، جس کا
ذکر ا بھی تم نے کیا ہے!“ ”جی ہاں ۔“ اس نے پر سوچ انداز میں گردن ہلائی ۔ ایسا ممکن ہے...
تین افراد پر مشتمل ہمارا یہ مختصر سا قافلہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ ہمارے پاس کل دو گھوڑے تھے۔ ایک پر میں سوار تھا اور دوسرے گھوڑے پر اللہ دتا اور فاروق۔ میرے ذہن میں یہ بات کسی پھانس کے مانند چبھ رہی تھی کہ ہمارے پاس صرف آدھا دن بیچا ہے۔ رات کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے ہمیں کھوج کا زیادہ سے زیادہ کام نمٹانا ہوگا۔ تاریکی چھا جانے کے بعد ظاہر ہے، اس کام کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس سوچ کے پیش نظر ہم نے ممکنہ حد تک تیز رفتاری سے گھوڑے دوڑائے اور لگ بھگ ڈیڑھ بجے دوپہر ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں گزشتہ روز چھ ڈاکوؤں کے گروہ نے ایک مذموم کارروائی کر کے بھری پڑی برات کو لوٹ لیا تھا۔ کھوجی اللہ دتا کو میں چونکہ پہلے ہی ساری تفصیل سے
آگاہ کر چکا تھا لہذا اس نے واردات کے مقام پر پہنچتے ہی اپنا کام شروع کر دیا۔
اللہ دتا چونکہ ایک تجربہ کار اور ماہر کھوجی تھا لہذا اس نے کھوجتی ہوئی نظر سے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور صرف پانچ منٹ کی تکنیکی چارہ جوئی کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ چھ گھڑ سواروں نے جائے واردات سے شمال کی جانب رخ کیا تھا۔ یہ بات تو ہمارے علم میں تھی لیکن میری اور اللہ دتا کی جان کاری میں ایک بڑا واضح فرق تھا۔
میرے پاس براتیوں کی فراہم کردہ معلومات تھیں جبکہ کھو جی اللہ دتا نے جائے وقوعہ کی
زمین کا جائزہ لینے کے بعد یہ فتویٰ صادر کیا تھا کہ چھ گھڑ سوار جنگل کی شمالی سمت میں گئے تھے۔
الغرض کھو جی اللہ دتا کی تقلید میں ہم دونوں بھی آگے بڑھنے لگے۔اس دوران میں میرے اور فاروق کے بیچ باہمی گفتگو بھی جاری تھی البتہ اللہ دتا اس بات چیت میں بالکل حصہ نہیں لے رہا تھا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھا۔ وہ وقفے وقفے سے بڑے ماہرانہ انداز میں جنگل کی زمین کا جائزہ لیتا معنی خیز انداز میں سر کو اثباتی جنبش دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ایک خاص قسم کا ولولہ اور عزم پایا جاتا تھا جیسے وہ ڈاکوؤں کا کھرانہ نکال رہا ہو بلکہ ” کے ٹو کی چوٹی سر کرنے میں مصروف ہو .....!!
ہم نے زیادہ تر پیدل اور بیچ بیچ میں گھوڑوں پر بھی سواری کی۔ دن کے تین بجے تو میرے اندازے کے مطابق ہم کوئی دو میل تک جنگل میں آچکے تھے۔ اللہ دتا گاہے بہ گا ہے مجھے اپنی کار کردگی سے بھی آگاہ کرتا جارہا تھا۔ اس نے ابتدا ہی میں مجھے بتا دیا تھا کہ شمال کی جانب سفر کرنے والے گل دس گھوڑوں کا کھر الا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ان میں چار وہ گھڑ سوار ہوں گے جنہیں میں نے ڈاکوؤں کے تعاقب میں جنگل کی سمت دوڑایا تھا اسی لیے جب اللہ دتا ایک مقام پر رک کر سوالیہ نظر سے مجھے دیکھنے لگا تو میں اس سے پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
"کیا ہوا اللہ دتا۔ کیا کوئی خاص بات ہے؟“
ہاں جی ۔ اس نے اثبات میں گردن ہلائی ۔ بات تو خاص ہی ہے جناب۔ اتنا کہہ کر وہ گھٹنوں کے بل جھکا اور بغور اس زمین کا جائزہ لینے لگا، میں نے اضطراری لہجے میں پوچھا۔
بات کیا ہے اللہ دتا ؟“
وہ سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے بولا ۔’ملک صاحب ! ہم پچھلے دو گھنٹوں سے گھوڑوں کے جس کھرے کا تعاقب کرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں، اس مقام سے ان کی دو ٹولیاں بن گئی ہیں ۔ اس نے بات کے اختتام پر زمین کی جانب اشارہ کیا۔ میں نے قدرے الجھن زدہ لہجے میں استفسار کیا۔’ دوٹولیوں سے تمہاری کیا مراد
ہے؟اس نے جنگل کی مغربی جانب یعنی جہاں ہم کھڑے تھے وہاں سے بائیں طرف اشارہ
کرتے ہوئے بتایا ۔ چھ گھڑ سوار یہاں سے اس رخ کو مڑے ہیں جبکہ باقیوں کا کھر ابتا تا ہے کہ وہ
سہ دستور شمال کی سمت گئے ہیں۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے . وہ لمحے بھر کے لیے متوقف
ہوا پھر ایک گہری سانس خارج کرنے کے بعد دوبارہ گویا ہوا۔
یہاں سے سیدھا آگے جانا ہے یا جنگل کے مغربی حصے میں چھ گھڑ سواوں کے کھرے
کا تعاقب کرنا ہے؟“ جن گھوڑوں کا کھر اسیدھا شمال کی جانب گیا تھاوہ یقیناً میری بھیجی ہوئی پولیس پارٹی ہی کے افراد تھے لہذا ان کے تعاقب کی کوئی تک نہیں بنتی تھی البتہ ، چھ گھڑ سواروں کا کھر امیری دلچسپی کا باعث تھا۔ ان لمحات میں میرے ذہن میں جنگل کے اندرون کے حوالے سے وہ گفتگو گھوم رہی تھی جو آج صبح میرے اور اے ایس آئی اعجاز حسین کے بیچ ہوئی تھی۔ میں نے اس کی روشنی میں اللہ دتا سے تصدیقی انداز میں پو چھا۔ تم تو اس جنگل اور اس کے گردو نواح کے چپے چپے سے واقف ہو؟“
جی ہاں ملک صاحب ..... اس نے بڑی رسان سے جواب دیا۔
میں نے پوچھا۔ اگر ہم یہاں سے چھ گھڑ سواروں کے تعاقب میں بائیں جانب یعنی جنگل کے مغربی حصے کی طرف بڑھتے ہیں تو لگ بھگ پانچ میل کے بعد یہ جنگل ختم ہو جائے گا۔ اگر میں غلط نہیں سوچ رہا تو جنگل کے اختتام سے ایک سیدھا راستہ کوٹ فرمان علی کی طرف جاتا
ہے...... ہیں نا ؟
آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں ملک صاحب ! وہ تصدیقی انداز میں گردن ہلاتے
ہوئے بولا ۔ " جنگل کے مغربی کنارے سے کوٹ فرمان علی کا فاصلہ کوئی چھ میل ہے۔" تو ٹھیک ہے۔ میں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ”ہم بائیں جانب مڑ رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے، یا انہی چھوڈا کو ؤں کا کھرا ہے جنہوں نے گزشتہ روز برات پر ہلہ بول کر لوٹ مار مچائی
اللہ دتا نے اتفاق کرنے والے انداز میں گردن کو حرکت دی اور ہم بائیں طرف مڑکر جنگل میں آگے بڑھنے لگے۔ میں نے کھوجی سے پوچھا۔ اللہ دتا! جیسا کہ تم نے بتایا کہ یہاں سے جنگل کے مغربی کنارے تک کم و بیش پانچ میل کا فاصلہ ہے۔ اس وقت سہ پہر کے تین بجے ہیں۔ تیرے اندازے کے مطابق ہم کتنے بجے تک جنگل سے باہر نکل جائیں گے ؟ دیکھیں جی . وہ مربیانہ لہجے میں بولا ۔ اگر ہم لوگ با قاعدہ کسی راستے پر سفر کر
رہے ہوں اور درمیان کہیں رکیں بھی نہیں تو ہمیں یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے میں طے کر لینا چاہیے لیکن یہاں صورت حال مختلف ہے. وہ رکا، ایک گہری سانس خارج کی پھر اپنے بیان کو
جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ایک تو جنگل کے اندر کوئی باقاعدہ راستہ نہیں بنا ہوا، دوسرے ہم رک رک کر آگے
بڑھ رہے ہیں لہذا ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمیں اس جانب جنگل کے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں ساڑھے تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔“
یعنی جب ہم جنگل سے باہر نکلیں گے تو رات کے ساڑھے چھ سات بج چکے ہوں
گے؟ میں نے سوالیہ نظر سے اللہ دتا کی جانب دیکھا۔
”میرے خیال میں، ہم آٹھ بجے سے پہلے جنگل کو نہیں چھوڑ سکیں گے ۔ وہ فلسفیانہ انداز میں بولا۔ میں نے وقت اور فاصلے کا جو حساب ابھی آپ کو بتایا ہے وہ دن اور روشنی سے مشروط ہے۔ اس وقت تین بج چکے ہیں اور آج کل پونے چھ بجے سورج غروب ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس نقطے کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ تاریکی چھا جانے کے بعد ہمارے سفر کی رفتار اور سمت کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے، ہم راہ بھٹک کر کہیں کے کہیں نکل جائیں اور میرا آٹھ بجے کا بتایا ہوا وقت بھی غلط ثابت ہو جائے .....
اللہ دتا کی بیان کردہ باتیں اگر چہ خاصی خطر ناک تھیں تاہم میں انہیں پُر از حقیقت سمجھتا تھا۔ وہ کچھ بھی غلط نہیں کہ رہا تھا میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔ اللہ دتا ! تم اپنا کام جاری رکھو ۔ اللہ بہتر کرے گا۔“
ایک مرتبہ پھر ہمارا کھوج بھرا سفر شروع ہو گیا۔ تھوڑا آگے آنے کے بعد کانسٹیبل فاروق نے اطلاع دینے والے انداز میں مجھ سے کہا۔ ”ملک صاحب ! ہم ڈیڑھ بجے جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔ وہاں سے یہاں تک پہنچنے میں ہمیں ڈیڑھ گھنٹا لگ گیا ہے۔
ہاں ہاں، مجھے پتا ہے۔ میں نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کہ دیا۔ " تم
مجھے کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہو؟“
”جناب! آپ میرے افسر ہیں اور مجھ سے زیادہ سمجھدار بھی ہیں ... ایک منٹ فاروق!‘ میں نے ایک مرتبہ پھر قطع کلامی کی اور گہری سنجیدگی سے کہا۔
عقل اور سمجھ کا تعلق افسری اور ماتحتی سے نہیں بلکہ یہ دماغ کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ انسان بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک عاقل اور سمجھ دار انسان منفی سوچ کے زیر اثر ہلاکت خیز تخریبی کارنامے انجام دے سکتا ہے جبکہ مثبت سوچ کا حامل انسان ہمیشہ تعمیری اور انسانیت کی بھلائی کے حوالے ہی سے منصوبہ بندی کرے گا۔“ میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں ملک صاحب! میرے خاموش ہونے پر اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا ۔ دراصل آپ عمر ، عہدے اور تجربے میں مجھ سے سینئر ہیں نا اس لیے میں نے کہا تھا کہ آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ میں درحقیقت آپ کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ ہمیں کھوج کے سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ یہ رات ہمیں جنگل میں نہیں گزارنی رات کی تاریکی پھیلنے سے پہلے ہمیں جنگل سے باہر نکلنا ہو گا ۔“ تمہارے ذہن میں بہت اچھا پوائنٹ آیا ہے فاروق!‘ میں نے سراہنے والے انداز میں کہا۔ لیکن یہ مت سمجھنا کہ میں اس نقطے کو بھولے بیٹھا ہوں۔ میں نے ایک ایک منٹ کا حساب رکھا ہوا ہے۔ ساڑھے بارہ بجے ہم نے تھانا چھوڑا اور پونے ایک بجے ہم جسکانی پور کے نزدیک سے گزرر ہے تھے پھر جیسا کہ تم نے دیکھا ، ڈیڑھ بجے ہم جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے لیکن یہاں سے ہماری رفتار لگ بھگ پیادوں جیسی ہو گئی اور اب سہ پہر کے تین سے کچھ وقت آگے بڑھ چکا ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ چار سوا چار بجے تک آگے بڑھنا ہے پھر وہاں کوئی پکی نشانی لگا کر ہم واپسی کا سفر اختیار کریں گے ۔ میں نے تھوڑا توقف کیا پھر سلسلہ بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا۔ واپسی کے سفر میں چونکہ ہمیں کسی کا کھرا اور نہیں اٹھانا ہوگا لہذا یہ سفر نسبتاً تیز رفتاری سے طے ہوگا اور ہم لگ بھگ چار گھنٹے کے کھوجی سفر کو محض ڈیڑھ ، پونے دو گھنٹے میں طے کر کے جائے وقوعہ پر پہنچ جائیں گے۔ میرے اندازے کے مطابق ، جب ہم جائے واردات پر پہنچیں گے تو رات کا آغاز ہو چکا ہوگا یعنی کم و بیش چھ سوا چھ بجے ہوں گے۔ میں نے ایک مرتبہ پھر وقفہ دیا اور اضافہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر پونے سات بجے جسکانی پور میں اور پورے سات تھانے کی چار دیواری میں قدم
رکھنے کے بعد یہیں گے۔ ہم ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھائیں گے۔ عشا کی نماز ادا کریں گے اور مزے کمائیں گے۔ اگلے روز صبح ہی سے جنگل کا رخ کریں گے اور اس مرتبہ ہم اللہ دتا کے بنائے ہوئے راستے سے جنگل میں داخل ہوں گے کیونکہ ہماری تفتیش کا ایک رخ متعین ہو چکا ہے۔ ہم جب تک کی کارکردگی سے اپنے نئے سفر کا آگاز کریں گے اور چل سو چل ... کا نسٹیبل آنکھیں پھاڑ کر ہکا بکا میری صورت دیکھے جارہا تھا۔ میں خاموش ہوا تو اسے
ہوش آگیا، بڑی تیزی سے پلکیں جھپکانے کے بعد اس نے مجھ سے پو چھا۔ ملک صاحب! آپ اتنے اعتماد سے کس طرح باتیں کر لیتے ہیں؟“ کیا مطلب؟" میں نے گھور کر اس کی طرف دیکھا۔ مطلب یہ کہ ... وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔ آپ نے کھٹا کھٹ انگلیوں پر اگلے چوبیس گھنٹے کا شیڈول گنوادیا ہے جیسے یہ سب کچھ آپ کی نوک زبان پر رکھا ہو۔ آپ کے لیجے سے جو اعتماد جھلکتا ہے، اس سے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہو بہو ایسا ہی ہو گا بھی ! ہماری گفتگو کے دوران میں کھوجی اللہ دتا ہم سے بے نیاز اپنے ٹیکنیکل کام میں مصروف تھا۔ اس کے انداز اور حرکات وسکنات سے لگتا تھا جیسے وہ اپنے کام کے علاوہ اس دنیا میں موجود ہر شے کو فراموش کر بیٹھا ہو۔ اس کا یہ عمل اپنے کام سے سچی لگن کا مظہر تھا۔
میں نے فاروق کے الجھن نما سوال کے جواب میں اللہ دتا کی جانب اشارہ کرتے
ہوئے کہا۔ ” فاروق ... اس اللہ کے بندے کو دیکھ رہے ہو؟“
اس نے کھوجی کی طرف دیکھا اور متذبذب لہجے میں بولا ۔ جی !
...تمہاری تمام تر الجھنوں اور سوالات کا جواب اس کے عمل میں پوشیدہ اور اس کی حرکات و سکنات سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ " میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ انسان اگر سچی لگن اور کڑی محنت سے کسی کام میں ہاتھ ڈالے اور اس مقصد کے لیے اس کی نیت بھی صاف ہو تو کامیابی یقیناً اس کے قدم چومتی ہے اور یہ کامیابی جو ہوتی ہے نافاروق ! میں نے ڈرامائی انداز میں توقف کیا پھر جملوں کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
یہ اگر یکے بعد دیگرے انسان کے حصے میں آنے لگے تو اس کے اندر خود بخود اعتماد کی قوت پیدا ہو جاتی ہے، پھر وہ بڑے اعتماد سے بڑی بڑی باتیں ایسے کرنے لگتا ہے جیسے کسی نے اسے اس بات کے لیے کوئی گارنٹی اور وارنٹی وغیرہ دے رکھی ہو ۔ اتنا بتا دوں تمہیں کامیابی کے حصول کے سلسلے میں ، میں بڑا خوش قسمت واقع ہوا ہوں ۔“
یوں محسوس ہوتا تھا ، مجید کھرل نے تھانے کے عملے کو اپنے سامنے زبان کھولنے سے خاص طور پر منع کر رکھا تھا۔ میرے دوستانہ انداز کو دیکھتے ہوئے فاروق کی جھجک جاتی رہی۔ وہ خاصے حوصلے کے ساتھ مجھ سے مستفسر ہوا۔ فرض کریں ملک صاحب! اگر آپ کا سوچا ہوا نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ آپ کی محنت،
لگن اور نیت میں کوئی فرق نہیں مگر وہ کامیابی آپ کے ہاتھ نہیں آتی جس کی توقع پر آپ سارا کھٹ
راگ پھیلاتے ہیں تو ؟
تو پھر اللہ مالک ہے. میں نے بے ساختہ جواب دیا۔
میں کچھ سمجھا نہیں جناب ... وہ سوالیہ نظر سے مجھے دیکھنے لگا۔
میری بات دھیان سے سنو فاروق ! میں نے گمیھر لہجے میں کہا۔ اگر قدرت نے سب کچھ انسان ہی کے ہاتھ میں دے دیا ہوتا تو پھر وہ قادر مطلق کس سے کھیلتا۔ تقدیر کے ہاتھوں میں انسان ایک کھلونے کے مانند ہے۔ کسی بھی کھلونے کو ایک حد تک اختیار ہوتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح انسان کو حاصل اختیار بھی محدود ہے ۔ اسے اسی اختیار کے اندر رہتے ہوئے خلوص نیت، کچی لگن، انتھک کوشش اور کڑی محنت کے ساتھ کھیلنا چاہیے ... اور اگر اس سب کے باوجود بھی اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو پھر اسے اپنا معاملہ اسی قادر مطلق پر چھوڑ دینا چاہیے جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور نیتوں کے احوال پہچانتا ہے.... جب ہی میں نے تم سے کہا ہے تو پھر اللہ مالک ہے!“
وہ عقیدت بھری نظر سے مجھے دیکھنے لگا۔
یہ بات میرے تجربے میں آئی ہے اور اسی لیے تجربے کی بات میں آپ تک بھی پہنچا رہا ہوں کہ زندگی کے تمام تر معاملات میں چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ، اللہ کی مرضی اور خوشی کو ضرور شامل رکھنا چاہیے اور اگر کوئی معاملہ اختیار اور گرفت سے باہر نکلنے لگے تو اسے اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ دو پروردگار کسی بھی بندے کا برا نہیں چاہتا کیونکہ ہر بندہ اس کا بندہ ہے اور کوئی بھی اپنی شے کو نقصان پہنچتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ؟
چار بجے کے قریب مجھے اپنے راستے میں ایک ایسی چیز دکھائی دی جس نے میرے رگ بے میں سنسنی سی دوڑا دی۔ اس وقت تک ہم ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار ہو چکے تھے کہ اب ہمیں واپسی کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔ میں نے فاروق کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے کہا۔ ”دیکھو وہ درختوں کے بیچ کیا پڑا ہے؟“
میں نے یہ سوال محض اپنے خیالات کی تصدیق کے لیے پوچھا، ورنہ میں تو ایک نظر دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ وہ کیا ہوسکتا ہے۔ فاروق نے میری توقع کے عین مطابق جواب دیا ۔ اس کی آواز میں خاصا اضطرار پایا جاتا تھا۔
ملک صاحب ... مجھے تو یہ کوئی سوٹ کیس لگتا ہے....!
بالکل درست ۔ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ” اور مجھے یقین ہے کہ یہ وہی سوٹ کیس ہوگا جو سلح ڈاکو برات میں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے ...!
ہماری باہمی سنسنی خیز گفتگو نے کھوجی اللہ دتا کو بھی مذکورہ سوٹ کیس کی جانب متوجہ کر دیا تھا لہذا وہ پہلی فرصت میں کھوج کھرے کا کام چھوڑ کر ہماری معیت میں ان درختوں کی طرف
بڑھنے لگا جدھر وہ سوٹ کیس پڑا نظر آ رہا تھا۔
چند لمحات کے بعد ہم مذکورہ سوٹ کیس کے ”سٹر“ پر کھڑے تھے ۔ وہ ایک سوایک فیصد وہی سوٹ کیس تھا جس کے بارے میں امیر بخش اور ستار حسین نے مجھے تفصیلا بتایا تھا۔ گرے، ریڈ اور بلیک کلر کے استعمال سے تیار کردہ چیک دار ریگزین کا وہ سوٹ کیس منہ کھولے اپنی تباہی اور بربادی کی کہانی سنارہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق وہ ڈاکو غروب آفتاب کے قریب اس مقام پر پہنچے ہوں گے۔ وہ دن کی آخری روشنی میں اس کا جائزہ لینے کے بعد ہی آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے مذکورہ چیک دار سوٹ کیس کی لمبائی لگ بھگ تین فٹ ، چوڑائی پونے دو فٹ اور گہرائی کم از کم نو انچ تھی۔ اتنے بڑے سائز کے سوٹ کیس کو رات کی تاریکی میں اٹھائے پھرنا اور وہ بھی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر گھنے جنگل میں کوئی آسان کام نہیں تھا لہذا انہوں نے اسی مقام پر سوٹ کیس کا تیا پانچا کر ڈالا تھا۔ سوٹ کیس کو دلہن والی بیل گاڑی پر سوار کرانے سے پہلے یقینا لاک کیا گیا ہوگا اور اس
کی چابیاں بھی کسی ذمے دار شخص نے اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہوں گی ۔ ڈاکوؤں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ چاہیوں کی تلاش میں وقت ضائع کرتے لہذا بیچ جنگل میں انہوں نے اس سوٹ کیس کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا تھا۔
میں نے جائے وقوعہ ثانی پر صرف پندرہ منٹ صرف کیے پھر اس مقام پر پائے جانے والے دو گھیر دار درختوں پر مخصوص نشانات بنائے تا کہ کل جب ہم اس جگہ سے اپنی کھوج والی کارروائی کو آگے بڑھا ئیں تو نہیں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پھر پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد ہم وہاں سے واپس آگئے ۔ مضروب اور گھائل“ سوٹ کیس کو میں اس کے باقی ماندہ مکینوں سمیت اپنے ساتھ لانا نہیں بھولا تھا۔واپسی کے سفر میں بھی ہمارے درمیان ہلکی پھلکی گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔ موضوع ظاہر ہے، وہی نصف درجن ڈاکو اور ان کی شرمناک کارروائی ہی تھا۔ جب ہم جائے وقوعہ سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھے تو دھوپ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا مگر تناور اور گھنے درختوں نے اس کی الوداعی کرنوں کے راستے میں اپنے ٹھنڈے ٹھار وجود کی رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔ فضا میں اچانک خنکی کا تناسب بڑھ گیا تھا۔
ہم میں سب سے زیادہ عمر کھوجی اللہ دتا کی تھی۔ وہ چند سال پیشتر ساٹھ کے ہند سے کو لات مار کر آگے بڑھ چکا تھا اور اب بھی وہ ہمارے ساتھ چلتے ہوئے ... سردی کولات مارتا ہواہی دکھائی دیتا تھا۔ ہم دونوں تو مناسب گرم لباس پہن کر ہی تھانے سے نکلے تھے لیکن اللہ دتا اپنے ٹریڈ مارک ململ اینڈ کمپنی لباس ہی میں ملبوس تھا لہذا میں پوچھے بنانہ رہ سکا
اللہ دتا! تم عمر میں مجھ سے کافی بڑے ہو۔ کیا میں تمہیں چاچا اللہ دتا کہہ کر پکار
بڑے شوق سے جناب ! وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔ اس میں پوچھنے کی کون
کی بات ہے۔ سب لوگ مجھے دتا چا چاہی کہتے ہیں ۔ آپ بھی کہہ لیا کریں۔
ٹھیک ہے۔ میں نے دوستانہ انداز میں کہا ۔ لیکن میں تمہیں دتا چا چا نہیں بلکہ چاچا اللہ دتا کہوں گا یا پھر صرف چاچا کسی کے نام کو بگاڑ کر پکارنا اچھی بات نہیں ۔" جو مرضی جناب کی ... وہ سادگی سے بولا۔
چاچا! ایک بات تو بتاؤ میں نے اصل مقصد کی طرف آتے ہوئے کہا۔ "تمہیں واقعی سردی نہیں لگتی یا پھر برداشت کرتے ہو .... اور دوسروں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہو کہ موسم کوئی بھی ہو تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ؟..
مجھے تو لگتا ہے جناب فاروق نے مذاق کے رنگ میں کہا۔ چاچا جی نے بلی کھا رکھی ہے
وہ دونوں ایک ہی گھوڑے پر سوار تھے۔ گھوڑے کی لگام فاروق کے ہاتھ میں تھی اور اللہ د تا اس کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جبکہ میں زخمی سوٹ کیس کے ساتھ دوسرے گھوڑے پر سوار تھا۔ کھوجی نے فاروق کی چوٹ کا برانہیں منایا اور اپنے پہلے دانتوں کی نمائش کرنے کے بعد دھیمے لہجے میں بولا۔ ' ملک صاحب ! بات صرف احساس کی ہے۔ انسان گرمی اور سردی کو جتنا زیادہ محسوس کرتا ہے، یہ موسم اس پر اتنے ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں بھی انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتا لہذا یہ بھلے مانس بھی مجھے زیادہ تنگ نہیں کرتے ۔“ مگر میں اتنی آسانی سے اس کی جان چھوڑنے والا نہیں تھا۔ اضطراری لہجے میں، میں نے اس سے پوچھا۔ چاچا! اگر تم اپنی صحت کا راز بلکہ برداشت کا راز مجھے نہیں بتانا چاہتے تو تمہاری مرضی ہے۔ ورنہ میں نہیں مان سکتا کہ محض محسوس کرنے یا نہ کرنے سے موسموں کی شدت اثر انداز ہوتی ہو ۔ اب دیکھونا میں نے چند سیکنڈ کا توقف کر کے ایک گہری سانس لی پھر اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ”میں نے اچھے خاصے گرم کپڑے پہن رکھے ہیں لیکن پھر بھی میں سردی محسوس کر رہا ہوں۔ میرے مقابلے میں تم ململ کے کرتے میں ہو اور موسم کی شدت سے بے نیاز دکھائی دیتے ہو۔ میں کس طرح یہ تصور کر سکتا ہوں کہ فضا میں اس وقت ٹھنڈک بالکل نہیں ہے؟ وہ کسی فلسفی کے انداز میں بولا ۔ اگر کسی گرم کپڑے میں سردی کو روکنے کی صلاحیت
ہوتی تو وہ سردی کا مقابلہ کرتے ہوئے کبھی ٹھنڈا نہ ہوتا۔ کیا ہم سردی کے موسم میں کسی گرم کپڑے کو چھو ئیں تو وہ ہمیں گرم محسوس ہوتا ہے؟ نہیں نا! اس نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب بھی دیا پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
اسی طرح موسم گرما میں اگر ہم کسی کاٹن کے ہلکے پھلکے لباس کو چھو کر دیکھیں تو وہ ہمیں برف کی ڈلی کے مانند ٹھنڈا محسوس نہیں ہوگا۔ یہ سارا چکر حرارت کے اخراج کا ہے تھانے دار صاحب؟
حرارت کا اخراج ! میں نے چونکے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔ ” یہ کون سا
چکر ہے؟“
وہ وضاحت کرتے ہوئے بولا۔ انسان کا جسم ہر وقت حرارت خارج کرتا رہتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنی ضرورت کے مطابق اس اخراج پر کنٹرول حاصل کر لے تو پھر اسے سردیوں میں نہ تو گرم کپڑے پہننے کی حاجت رہتی ہے اور نہ ہی گرمیوں میں وہ باریک لباس کی طرف دوڑتا ہے۔ گرم لباس جسم میں سے خارج ہونے والی حرارت کو روک کر ہمیں گرمائش پہنچاتا ہے۔ وہ بذات خود گرم نہیں ہوتا۔ اسی طرح باریک اور ہلکا پھلکا کپڑا ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ وہ جسمانی حرارت کو اخراج کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرتا ہے۔“ چاچا تمہاری بات دل کو لگتی ہے اور ذہن بھی اسے تسلیم کرنے کو آمادہ نظر آتا ہے۔" میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ لیکن جسم سے خارج ہونے والی حرارت پر کنٹرول کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے، ذرا اس کی بھی تو وضاحت کر دو؟“ بہت سادہ ساعمل ہے لیکن اس کے لیے مشق کی ضرورت ہے ۔ وہ بڑی رسان سے بولا ۔ اگر انسان اپنی سانسوں پر کنٹرول حاصل کر لے تو پھر اسے زندگی کے بیشتر معاملات پر خود بخود کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔ سانس کھینچنے اور چھوڑنے میں اگر تو ازن قائم ہو جائے تو سمجھو، ستے
خیران ...... پھر میری فرمائش پر اس نے سانس لینے کی وہ مخصوص تیکنیک بھی مجھے بتادی جس کی مناسب مشق کے بعد جسم سے ہیٹ کے اخراج کو کنٹرول کر کے سات قسم کی خیریت حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ بڈھا بابا ایک بنا بنا یا تجربہ کار یوگی تھا!
تو تمہارا مطلب یہ ہے کہ تم نے کوئی بلی ولی نہیں کھائی ہوئی ...؟ فاروق نے پر اشتیاق لہجے میں سوال کیا۔
میں نے پوچھا۔ ”ہاں چا چا یہ بلی کھانے کا کیا شوشہ ہے؟“
وہ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا ۔ یہ شوشہ میں نے بھی سن رکھا ہے۔ کہتے ہیں، اگر کوئی انسان بلی کا گوشت کھا لے تو پھر اسے برف کے پہاڑ پر بیٹھ کر بھی سردی محسوس نہیں ہوتی لیکن میرا خیال ہے کہ اس بات کی حقیقت قصے کہانی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ “ ہم اسی طرح بات چیت کے سہارے ٹھیک سات بجے رات تھانے پہنچ گئے ۔
اگلے روز ہم تینوں اپنے مشن پر روانہ ہونے ہی والے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔سامان پر تورات ہی سے اچھے خاصے بادل نظر آ رہے تھے لیکن یہ توقع نہیں تھی کہ بارش بھی ہو جائے گی۔ اصولی طور پر یہ بارش ہمارے مشن کے لیے بہت خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتی اسی لیے
فاروق نے تشویش ناک انداز میں کہا۔
لے جی ، ہو گیا کباڑا ... اس بارش نے تو ہماری محنت پر پانی پھیر دیا ہے!“ برخوردار! میں نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔ بارش کا کام ہی پانی پھیرنا
ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ کسی نے زمین پر محنت کر رکھی ہے یا نہیں ۔“ لیکن جناب ہمارا مشن کیسے آگے بڑھے گا ۔ فاروق اس بارش سے خاصا پریشان دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے اب تک کھرا اٹھانے کے سلسلے میں جو کار کردگی دکھائی ہے اس کے آگے راستہ بند ہو گیا ہے۔ زمین گیلی ہو جانے کے باعث جنگل میں مزید کھرانکالنا ممکن نہیں رہے گا۔ اگر ایک آدھ دن بارش نہ ہوتی تو ہم اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہوتے۔“
قدرت کے کاموں کا اپنا ایک مخصوص شیڈول ہے فاروق ! میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ بارش جو بوندا باندی سے شروع ہوئی تھی ، اب شدت پکڑتی نظر آ رہی تھی ۔ اور وہ قادر مطلق اپنے معاملات کا شیڈول تیار کرتے ہوئے کسی سے صلاح مشورہ نہیں کرتا۔ اس کی مرضی ہے کہ بارش ہو تو بارش ہوکر رہے گی اللہ اللہ خیر لا...
پتر تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ دتا نے فاروق کی طرف دیکھتے ہوئے تسلی بھرے انداز میں کہا۔ ”میں نے ان ڈاکوؤں کا جہاں تک کھرا اٹھایا ہے اس کی روشنی میں اپنے تجربے کی بنا پر کہ سکتا ہوں کہ وہ بدمعاش لٹیرے مغربی سمت میں سیدھے سفر کرتے ہوئے جنگل سے باہر نکلے ہوں گے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ انہوں نے کوٹ فرمان علی کا رخ کیا ہوگا۔ اس نے چند لمحے رک کر دو چار گہری سانسیں لیں پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
میں کسی قسم کا دعویٰ تو نہیں کر رہا لیکن مجھے امید ہے،اگر تھانے دار صاحب کوٹ فرمان
علی سے اپنی باقاعدہ تفتیش کا آغاز کریں تو کامیابی کی کوئی کرن نظر آ سکتی ہے۔
فاروق نے بد ولی سے کہا۔ ”ہاں ایسا اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر وہ لوگ جنگل میں سے نکلنے کے بعد سید ھے فرمان علی کے کوٹ گئے ہوں اور یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ وہ جنگل کے کنارے کے ساتھ ساتھ کہیں اور بھی تو نکل سکتے ہیں..
".ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے فاروق! یہاں تو صرف امکانات کی بات ہو رہی ہے۔“
میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ "تم اپنے ذہن کو زیادہ نہیں الجھاؤ۔ ان شا اللہ ! ہمیں اپنی تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نظر آ ہی جائے گی۔“ ان شاء الله ... کھوجی اللہ دتا نے نہ دل سے کہا۔
اسی لمحے کا نسٹیبل منظور میرے کمرے میں داخل ہوا اور اطلاع دینے والے انداز میں آ کر مجھے بتایا۔ ملک صاحب! چار بندے آپ سے ملنے آئے ہیں۔“ کون ہیں وہ لوگ ! میں نے سوالیہ نظر سے کانسٹیبل کی جانب دیکھا۔ اور اس برستی
بارش میں وہ کہاں سے آئے ہیں؟“ ”جناب! ان کا تعلق اسی برات سے ہے جسے ڈاکوؤں نے لوٹ لیا تھا۔‘ کانسٹیبل منظور
نے جواب دیا۔
ہو... میں نے ایک بوجھل سانس خارج کرتے ہوئے جلدی سے کہا۔ ”ٹھیک ہے، انہیں اندر بھیج دو۔“
میں ایک بات کا ذکر کرنا بھول گیا کہ کل رات جب ہم جنگل سے واپس لوٹے تھے تو اے ایس آئی اعجاز حسین میرے انتظار میں، تھانے میں موجود تھا اور اس کی زبانی مجھے پتا چلا تھا کہ سہ پہر میں جن متاثرین برات کو میں نے تھانے میں بیانات کی غرض سے بلوایا تھاوہ نہیں پہنچے تھے۔ اس بات پر مجھے حیرت ہوئی تھی لیکن یہ سوچتے ہوئے میں نے اس معاملے کو ایشو بنانے کی کوشش نہیں کی کہ شادی والا گھر ہے۔ ہوسکتا ہے، وہ لوگ کسی بھی وجہ سے نہ آپائے ہوں۔ ویسے یہ عجیب سا
محسوس ہو رہا تھا کہ وہ صاف موسم میں تو آئے نہیں اور برستی بارش میں ادھر آ نکلے تھے۔ کانسٹیبل نے جن چار ملاقاتیوں کا ذکر کیا تھا ، وہ اگلے ہی لمحے میرے کمرے میں داخل ہو گئے ۔ ان میں سے دو تو امیر بخش اور ستار حسین تھے اور باقی دو جھارا اور جھورا تھے۔ چودھری سلطان کے ان دو خاص بندوں کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا کیونکہ وہ لوگ دو روز پہلے برات میں شامل
نہیں تھے اور میں نے جائے وقوعہ پر امیر بخش اور ستار حسین کو خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ وہ گواہی اور بیانات کے لیے اپنے ہمراہ ان معتبر افراد کو لے آئیں جو برات میں شامل اور اس اندوہ ناک واقعے کے چشم دید گواہ ہوں۔ یہ ساری بھاگ دوڑ میں ڈاکوؤں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہی کر رہا تھا۔ ہر حال میں نے نہیں بیٹھنے کے لیے کا۔ وہ بیٹھ چکے تو ستار حسین نے مجھ سے پوچھا۔ " تھانے دار صاحب! ان مردود ڈاکوؤں کا کوئی سراغ ملا کہ نہیں ؟
سراغ تو ملا ہے ستار حسین ... ! میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
کیا سراغ ملا ہے سرکار؟ جھارا نے بے تابی سے پوچھا۔
میں جھارا کی بے چینی پر چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ میں نے سراغ کے حوالے سے ستار حسین کو بتایا تھا اور مزید سوال بھی اس کو کرنا چاہیے تھا یا زیادہ سے زیادہ امیر بخش مجھ سے یہ بات پوچھ سکتا تھا۔ جھارا کی بے کلی بے سبب تھی لہذا میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جھارا تم تو غالبا اس برات میں شامل نہیں تھے جس پر مسلح ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا؟“ ”جی ہاں، یہ بات میں نے آپ کو پرسوں بھی بتائی تھی ۔ وہ جلدی سے بولا ۔ ” میں اور جھورا چودھری صاحب کے ایک ضروری کام سے ایک دن پہلے ہی ادھر کوٹ فرمان علی گئے ہوئے تھے اس لیے جبار حسین کی شادی میں شریک نہیں ہو سکے تھے ۔“
کوٹ فرمان علی ! میں نے زیر لب دہرایا۔
جھارا کی پیش کردہ وضاحت نے مجھے یاد دلایا کہ پرسوں جب اعجاز حسین نے کوٹ فرمان علی کا ذکر کیا تو میں چونکا کیوں تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے میں نے یہ نام پہلے بھی کہیں سنا ہے کہاں؟ یہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں آیا تھا اور اب مجھے اچھی طرح یاد آ گیا تھا کہ پہلی مرتبہ میں نے یہ نام جھورا اور جھاراہی سے سنا تھا۔
کیا ہوا تھانے دار صاحب! امیر بخش نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ آپ کوٹ فرمان علی کے ذکر پر اس طرح چونک کیوں گئے ۔ کیا ڈاکوؤں کے اس سراغ کا تعلق کسی حوالے سے کوٹ فرمان علی سے جڑا ہوا ہے؟“
امیر بخش نے بڑا کانٹے دار اور بر وقت سوال کیا تھا لیکن چونکہ میرا ذ ہن جھورا اور جھارا
کی طرف سے ٹھٹک چکا تھا لہذا اپنے چونکنے کا سبب بیان کرنے کے بجائے میں نے الٹا اسی کو لتاڑ
ڈالا۔ امیر بخش ! شاید تم لوگوں نے میری ہدایت کو یاد نہیں رکھا۔ یاد ہے، جائے وقوعہ پر میں
نے تمہیں کیا تاکید کی تھی ؟
جی مجھے یاد ہے، اچھی طرح یاد ہے۔ امیر بخش کے بجائے ستارحسین نے جواب دیا۔ لیکن جناب! ہم چودھری صاحب کی بات بھی نہیں ٹال سکتے ۔ چودھری سلطان ہمارے گاؤں کے مالک و مختار ہیں۔ انہوں نے ہی اپنے ان خاص بندوں کو ہمارے ساتھ بھیجا ہے۔“لیکن تم لوگ تو گزشتہ روز سہ پہر میں یہاں آنے والے تھے ! میں نے قدرے
خشک لہجے میں کہا " کیا یہ تاخیر بھی چودھری سلطان ہی کے کہنے پر کی گئی ہے؟" نہیں جناب! ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ نفی میں گردن ہلاتے ہوئے جلدی سے بولا۔ وہ ہوا کچھ یوں تھا کہ کل ولیمے کی تقریب میں چودھری صاحب کو آنے میں دیر ہو گئی اسی وجہ سے کھانا بھی وقت مقررہ سے لیٹ شروع کیا گیا۔ جب ہم لوگ ویسے سے فارغ ہوئے تو ساڑھے تین بج چکے تھے اس لیے ہم نے آپ کی طرف آنے کا پروگرام کینسل کر دیا۔ آج صبح ہی صبح ہم سلطان آباد سے روانہ ہو گئے تھے لیکن جسکانی پور پہنچے تو بارش شروع ہو گئی اس لیے بھیگتے بھاگتے یہاں پہنچے ہیں حالانکہ وہ سانس ہموار کرنے کے لیے متوقف ہوا پھر بات مکمل کرتے ہوئے بولا۔
" حالانکہ امیر بخش نے بہت زور مارا کہ جسکانی پور میں رک کر بارش تھمنے کا انتظار کرتے ہیں پھر تھا نے چلیں گے لیکن میں نے اس کی بات نہیں مانی اور دیگر لوگوں کو جسکانی پور میں چھوڑ کر ہم ادھر آ گئے ہیں۔“
دیگر کون لوگ؟“ میں نے چونک کر اس سے پوچھا۔
وہ جی صاعقہ اور جبار بھی ہمارے ساتھ آئے ہیں ۔“ وہ وضاحت کرتے ہوئے بولا۔
وہ ایک رواج ہوتا ہے نا جناب ... کہ دلہا اور دلہن ویسے کے بعد دلہن کے گھر میں ملنے کے لیے
آتے ہیں۔“
ہوں ... ! میں نے معنی خیز انداز میں ہنکارا بھرا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
جھورا نے جلدی سے کہا۔ ” جناب! آپ ہماری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ دلہا دلہن سکانی پور آ رہے تھے ۔ چودھری صاحب نے ان کی حفاظت کی خاطر باڈی گارڈز کے طور پر ہمیں
بھی ساتھ بھیج دیا ہے...... میرا دماغ ان لمحات میں بڑی تیز رفتاری سے سوچ رہا تھا۔ جھورا اور جھارا، جبارحسین کی شادی میں اس لیے شریک نہیں ہو سکے تھے کہ ایک روز قبل چودھری نے انہیں اپنے کسی ضروری کام سے کوٹ فرمان علی بھیج دیا تھا۔ امیر بخش اور ستار حسین کل سہ پہر میں محض اس لیے مجھ سے ملنے تھانے نہیں آسکے تھے کہ ادھر سلطان آباد میں چودھری سلطان کو ولیمے کی تقریب میں پہنچنے میں تاخیر ہوگئی تھی اور اب جھورا اور جھارا ان لوگوں کے ساتھ محافظ کی حیثیت سے یہاں پہنچ گئے تھے ممکن ہے، یہ سب کچھ اتفاقیہ ہو لیکن میری چھٹی حس بار بار مجھے احساس دلا رہی تھی کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ چودھری سلطان اور اس کے خاص بندے جھورا اور جھارا کرداروں کے حوالے سے غیر اہم نہیں ہیں۔ چھٹی حس کی پکار چونکہ واضح نہیں ہوتی اسی لیے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ انہی تمام تر الجھن زدہ خیالات کے ساتھ میں نے جھورا کی وضاحت کے جواب میں کہا ۔ " جوان! میں آپ لوگوں کی وجہ سے بالکل پریشان نہیں ہوں۔ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ تم دلہا دلہن کے ساتھ آگئے ۔ کاش! دو روز پہلے تم دونوں برات میں بھی شامل ہوتے تو پھر تم جیسے مسلح بہادروں کی موجودگی میں ڈاکوؤں کو دم مارنے کی جرات نہ ہوتی اور دونوں خاندان اس تباہی اور
بربادی سے بچ جاتے۔“جھارا نے کہا۔ ” جناب ! جو برائی مقدر میں لکھی ہو وہ آ کر ہی رہتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے
کہ سب کی جانیں محفوظ ہیں ۔“
اور عزتیں بھی ۔ جھورا نے گرہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”اس برات میں دلہن کے علاوہ اچھی خاصی عورتیں اور لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ اگر وہ بد معاش کسی قسم کی بدتمیزی پر اتر آتے تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے ۔“
میں نے ان کے ذہنوں کو پُر سکون رکھنے کی خاطر ایک خاص مقصد سے کہا۔ ”آپ لوگ کہ رہے ہو ۔ بس وہ کیا کہتے ہیں جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے میں نے لمحاتی
توقف کیا پھر اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
"میرا خیال ہے ، اب بیانات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ تم سب لوگ باہر جا کر برآمدے میں بیٹھو میں باری باری تمہیں اپنے پاس بلاتا ہوں۔“
وہ چاروں اٹھے اور کوئی سوال کیے بغیر میرے کمرے سے باہر چلے گئے ۔ میں نے فاروق سے کہا۔ 'فاروق! میں ان دونوں جھورا اور جھارا نامی مسٹنڈوں کی مکمل نگرانی چاہتا ہوں ۔ وہ کہاں جاتے ہیں، کس کس سے ملتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، مجھے سب پتا چلنا چاہیے ۔ کیا تم سادہ لباس میں رہتے ہوئے یہ ڈیوٹی سر انجام دے سکتے ہو؟ میں نے لمحاتی توقف کر کے ایک گہری سانس کھینچی پھر اضافہ کرتے ہوئے پوچھا۔ اگر تم اس ٹاسک کے لیے تیار ہو تو فوراً مجھے بتاؤ تم چاہو تو اپنے ساتھ کسی قابل بھروسا کا نسٹیبیل کو بھی رکھ سکتے ہو مجھے نتائج چاہئیں مثبت نتائج تم میری بات سمجھ رہے ہوتا ؟"
.......
جی سمجھ رہا ہوں بلکہ اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جو شیلے انداز میں بولا۔ مجھے یہ چیلنج منظور ہے لیکن اس کام کے لیے مجھے ابھی اور اسی وقت سلطان آباد روانہ ہونا
ہوگا۔ میں نے سوالیہ نظر سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بولا۔
جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں سن گن لینے سلطان آباد سے ادھر آئے ہیں لہذا جلد ہی واپس بھی جائیں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ ستار حسین اور دلہا دلہن کے ساتھ ہی جائیں گے۔ اگر یہ کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہیں جیسا کہ آپ کو خدشہ ہے اور مجھے بھی شک ہے تو اس معاملے کے ڈانڈے سلطان آباد سے کوٹ فرمان علی تک دیکھے جاسکتے ہیں لہذا ان پر نگاہ رکھنے کے لیے مجھے فوری طور پر اس علاقے کی طرف نکلنا ہوگا۔ ویسے بھی ...
اس نے چند لمحات کا توقف کر کے ایک سکون آور گہری سانس لی پھر اضافہ کرتے ہوئے بولا ۔ ادھر سلطان آباد میں میری ایک خالہ رہتی ہے۔ مجھے وہاں کھپنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ میں اپنے ساتھ کا نسٹیبل صدیق کو لے جاؤں گا۔ آپ بالکل بے فکر ہو جائیں۔ میں آپ کی توقع پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا ملک صاحب
فاروق بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ملک صاحب ! اللہ دتا نے ماہرانہ انداز میں کہا۔ میں
بھی انہی خطوط پر سوچ رہا ہوں کہ یہ جھورا اور جھارا بلا مقصد یہاں تک نہیں آئے ۔ ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے فاروق کی تجویز مناسب ہے۔“
تو ٹھیک ہے۔ میں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ "میری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔ تم جب چاہوں روانہ ہو سکتے ہو۔“ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے انداز میں بڑا جوش اور ولولہ پایا جاتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی اللہ دتا نے بھی سیٹ چھوڑ دی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔ ملک صاحب ! آپ تنہائی میں بیٹھ کر باری باری ان لوگوں کے بیانات لیں، میں بعد
میں آپ سے بات کروں گا ۔“ ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ اور سب سے پہلے امیر بخش کو میرے پاس بھیج دو۔“ انہوں نے میری ہدایات پر عمل کیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد دلہن کا چاچا امیر بخش میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے نہایت ہی مختصر الفاظ میں اسے بتایا کہ چودھری سلطان کے بھیجے ہوئے دونوں بندوں پر مجھے شک ہے۔ اگر وہ راز داری کا وعدہ کرے تو میں اسے چند اہم باتیں بتانا چاہتا
ہوں۔وہ فوراً میرے خیالات کی گرفت میں آ گیا اور گہری سنجیدگی سے بولا ۔’ تھانے دار صاحب! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے بھی یہ بندے اچھے نہیں لگے۔ کوئی بات اس لیے نہیں کی کہ کہیں ستار کو بری نہ لگ جائے ۔ آپ مجھ پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ میں مرتے مر جاؤں گا لیکن آپ سے کیے ہوئے وعدے پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا ۔“ " شاباش مجھے تم سے یہی امید تھی امیر بخش ! میں نے تعریفی نظر سے اسے دیکھا
اور کہا۔ "آؤ، اب میں تمہیں وہ سراغ دکھاتا ہوں جس کا تھوڑی دیر پہلی میں نے ذکر کیا تھا۔ وہ ہمہ تن گوش ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے وہ ٹوٹا پھوٹا سوٹ کیس ملاحظے کے لیے اس کے سامنے رکھ دیا جو ہمیں گھنے جنگل سے ملا تھا۔ وہ سوٹ کیس کو دیکھتے ہی پہچان گیا اور تشویش بھرے لہجے میں بولا۔ یہ سوٹ کیس ہم نے ہی صاعقہ کے ساتھ بھیجا تھا۔ اس کے اندر قیمتی ملبوسات اور چند زیورات رکھے ہوئے تھے مگر اب تو یہ بھا ئیں بھا ئیں کر رہا ہے۔ اس کا سامان کہاں گیا
اور یہ آپ کو کہاں سے ملا ہے؟“
میں نے اس کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ وہ سوٹ کیس ہمیں کہاں سے ملا تھا پھر کہا۔ ”اس کا سامان وہی لٹیرے اپنے ساتھ لے گئے ہیں جنہوں نے دو روز پہلے تمہاری بھتیجی کی برات کو لوٹا تھا۔ میں نے کھوجی کی مدد سے ڈاکوؤں کا جو کھر انکلوایا ہے اس کے مطابق وہ لوگ جنگل کے مغربی کنارے سے باہر نکل کر کوٹ فرمان علی کی طرف گئے تھے اور .... یہ دونوں سرکاری سانڈ بھی شادی سے ایک دن پہلے چودھری سلطان کے کسی کام سے ادھر ہی گئے ہوئے تھے اس لیے میں اس کیس کی کڑیاں ملانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔“ میں آپ کی بات کو بڑی وضاحت سے سمجھ گیا ہوں تھانے دار صاحب۔“ وہ ٹھوس
لہجے میں بولا ۔ اب یہ بھی بتا دیں کہ مجھے باہر جا کر ان لوگوں سے کیا کہنا ہے؟“ سوٹ کیس کا کوئی ذکر نہیں کرنا۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ میں نے ڈاکوؤں کا جو کھرا اٹھایا ہے اس کے مطابق وہ لوگ جنگل کے شمالی کنارے سے باہر نکل کر چک سیف کی طرف گئے ہیں اور یہ کہ اب میں ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے چک سیف میں چھاپا مارنے والا ہوں۔ میں بھی انہیں یہی بتاؤں گا۔ اس طرح وہ مطمئن رہیں گے اور مجھے ان کی اصلیت تک پہنچنے کے لیے زیادہ
دشواری نہیں اٹھا نا پڑے گی۔"
ٹھیک ہے جی ۔ وہ اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے بولا ۔ بتا ئیں ، میں باہر جا کر
کس کو آپ کے پاس بھیجوں؟“
اپنے ہم منصب ستار حسین کو میں نے ٹھہرے ہو، لہجے میں کہا۔
وہ اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
میں نے پروگرام کے مطابق ستار حسین کو ٹریٹ کیا اور اس کے بعد جھورا اور جھارا کو ایک ساتھ اپنے پاس بلا لیا۔ وہ اس بات پر الجھے ہوئے تھے کہ میں ان کے بیانات کیوں لینا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ تم لوگ برات میں شامل تو نہیں تھے لیکن میں سمجھتا
ہوں کہ دوسرے لوگوں کی طرح تمہاری یہی خواہش ہوگی کہ خودسرڈاکوؤں کا وہ شیطانی ٹولا جلد از
جلد قانون کی گرفت میں آجائے ۔“
”جی ہاں بالکل بالکل وه به یک زبان ہو کر بولے ”ہم بھی یہی چاہتے
......
پھر انہوں نے بڑے اشتیاق سے اس سراغ کے حوالے سے استفسار کیا جس کا میں ان کے سامنے ذکر کر چکا تھا اور میں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں چک سیف والی کہانی سنا کر مطمئن کر دیا پھر پوچھا۔ ” چودھری سلطان نے آپ لوگوں کو کوٹ فرمان علی کس کام سے بھیجا تھا؟“ جواب دینے سے پہلے انہوں نے معنی خیز نظر سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر جھورا نے سنبھلے ہوئے لہجے میں بتایا۔ ادھر کوٹ فرمان علی میں چودھری صاحب کی چھوٹی بیٹی بیاہی ہوئی ہے۔ اس کا نام صفورا اور اس کے شوہر کا نام چودھری خلیق ہے۔ چودھری سلطان نے اپنی بیٹی کے لیے چند تحائف بھیجے تھے جو ہم وہاں پہنچانے گئے تھے۔ بس اتنی سی بات ہے۔“
اچھا اچھا میں نے سرسری سے لہجے میں کہا پھر درخواست کرنے والے انداز میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے اضافہ کیا ۔ جھورا جھارا تم لوگ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا اور اگر ان ڈاکوؤں کے بارے میں کوئی سن گن ملے تو فوراً مجھے اطلاع دینا۔“
وہ دونوں میرے بچھائے ہوئے جال میں آگئے اور بڑی مکاری سے مسکراتے ہوئے یکے بعد دیگرے بولے ۔ ” آپ فکر ہی نہ کریں جناب ... اس سلسلے میں ہم آپ سے پورا تعاون کریں گے۔“ میں نے انہیں جانے کی اجازت دے دی اور ایک فوری خیال کے تحت اللہ دتا کو اپنے پاس بلا لیا۔ وہ میرے سامنے حاضر ہونے کے بعد بولا۔ حکم ملک صاحب!“ جھورا اور جھارا کا کھرااٹھانا ہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہ ہو۔“ میں نے انہیں مطلق احساس نہیں ہونے دیا جناب ! وہ معنی خیز لہجے میں بولا ... کیا مطلب .....؟ الفاظ میرے حلق میں اٹک کر رہ گئے ۔میں نے کانسٹیبل فاروق کو بھی سلطان آباد جانے سے روک دیا ہے ۔“ وہ بدستور معنی خیز لہجے میں بولا ۔ ” آپ کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔“ تم کہنا کیا چاہتے ہو اللہ دتا ؟ " میری الجھن میں اضافہ ہو گیا۔
یہی کہ وہ گمبیر انداز میں بولا۔ آپ ابھی اپنی کرسی سے اٹھیں اور اس سے پہلے کہ وہ دونوں شکرے تھانے کے احاطے سے باہر قدم رکھیں، انہیں ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ چھ ڈاکوؤں کے اس گروہ میں یہ دونوں بھی شامل تھے ...
جب جھورا اور جھارا میرے کمرے میں مصروف تھے تو کھوجی اللہ دتا نے تھانے کے مختلف حصوں میں سے ان کا گھر ا حاصل کر لیا تھا۔ یہ کام اس نے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا۔ جنگل کے جس مقام پر ہمیں دو سوٹ کیس پڑا ملا تھا، ادھر ان ڈاکوؤں کے قدموں کے نشانات بھی پائے گئے تھے۔ انہوں نے گھوڑوں سے نیچے اترنے کے بعد ہی سوٹ کیس کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ وہ کھرا اللہ دتا کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا لہذا اسے جھورا اور جھارا کے کھرے کو شناخت کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوئی۔
جب جھورا اور جھارا کوزیر تفتیش لا کر میں نے چند فارمولے آزمائے تو ان دونوں کی زبانوں کے قفل کھل گئے اور انہوں نے اپنے کالے کرتوتوں کی ساری کہانی تفصیل سے بیان کر دی۔ ان کی نشاندہی پر میں نے ان کے مزید چار ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا۔ ان چاروں کا تعلق کوٹ
فرمان علی نامی گاؤں سے تھا۔ اسی تفتیش کے دوران میں سب سے زیادہ سنسنی خیز انکشاف یہ ہوا کہ ان ڈاکوؤں اور لٹیروں کی مکمل پشت پناہی چودھری سلطان کیا کرتا تھا اور لوٹ مار کے اس کاروبار میں وہ ان کا
برابر کا حصے دار بھی تھا۔
میں نے اس کیس کے تمام منفی کرداروں کو ان کے جرائم کے مطابق سزائیں دلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں مزید جتنا عرصہ بھی اس علاقے میں رہا، چوری اور ڈکیتی کی کوئی واردات سننے اور دیکھنے میں نہیں آئی۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ چور کو نہیں مارو اس کی ماں کو ختم کرو تا کہ آئندہ کوئی چور پیدا نہ
ہو۔ میں نے بھی اسی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے ڈاکوؤں کی اماں جان چودھری سلطان کو جیل کی
دیواروں کے پیچھے پہنچا دیا تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے