Subscribe Us

محبت کا بدلہ

urdu font stories

زریں، مہر جان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ بے پناہ حسن کی مالک تھی۔ دیکھنے والوں کی نظریں اس کے حسین چہرے پر جمکر رہ جاتی تھیں ، لیکن اس کی ماں ، ہماری پڑوسن، نہایت چالاک عورت تھی۔ اس کی تیزی طراری سے محلے کی عورتیں پناہ مانگتی تھیں ، اس سے زیادہ میل جول نہیں رکھتی تھیں، تاہم وہ خود ملنے جلنے کی بہت شوقین تھی، کبھی کسی کے ہاں میٹھے چاول پکا کر بھجوا دیتی ، کبھی مٹھائی، کبھی کوئی اور سوغات، اس طرح وہ زبردستی الفت بڑھا لیتی۔ 

گلاب، زریں کے ماموں کا لڑ کا تھا، جو ان کے گھر میں رہتا تھا۔ اس کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ ایک بار ان سے ملنے آیا، تو مہر جان نے اس کو واپس نہ جانے دیا۔ کہا کہ وہاں تم کو گھر جیسا آرام نہیں ہے، میں تم کو ماں جیسا سکھ دے سکتی ہوں ۔ گلاب اس کی باتوں میں آ گیا۔ اس نے نوکری چھوڑی اور پھوپھی کے گھر میں رہنے لگا۔ یہاں اسے کافی کوشش کے بعد ملازمت مل گئی۔ وہ ساری تنخواہ لا کر مہرجان کے ہاتھ پر رکھ دیا کرتا تھا، اس لئے وہ اس کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتی اور اس کو ہر وقت یہ جتلاتی کہ وہ اس کا بھتیجا ہی نہیں، ہونے والا داماد بھی ہے۔ 

اس بات پر وہ نوجوان بہت خوش تھا۔ اس کو زریں اچھی لگتی تھی۔ وہ اس من موہنی لڑکی کو شریک زندگی بنانا چاہتا تھا۔ زریں ایک پاکیزہ خیال لڑکی تھی۔ گلاب بھی اس کو ایک اچھی اور نیک لڑکی سمجھ کر ہی اس سے محبت کرتا تھا۔ وہ بھی شادی سے قبل منگیتر کے احترام کا قائل تھا۔ مہر جان جانتی تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے پاکیزہ محبت کرتے ہیں ، تب ہی وہ ان کو بات چیت سے منع نہیں کرتی تھی۔ چھ سال کا طویل عرصہ گزر گیا اور مہر جان، گلاب کو یہی آسرا دیتی رہی کہ آج نہیں تو کل میں اپنی لڑکی کی شادی تم سے کر دوں گی۔ وہ بھی پھو پھی کی باتوں پر اعتبار کیے ہوئے تھا، مگر ایک دن زریں نے اُس کو بتایا۔ تم اتنے عرصے سے میری ماں کے ہاتھوں بے وقوف بن رہے ہو۔ وہ کبھی تم سے میری شادی نہیں کرے گی۔ وہ صرف تمہاری تنخواہ لینے کے لیے ایسا کہتی ہے۔ تمہاری تنخواہ سے وہ میرے لیے نئے نئے جوڑے اور سنگھار کا سامان خریدتی ہے، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میں تمہاری کمائی سے بنایا ہوا جہیز کسی اور کے گھر لے جائوں۔

 یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟ میں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پھپھو کے خیالات میرے بارے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ تبدیل ہو نہیں سکتے ، تبدیل ہو چکے ہیں۔ رات ماں ، میرے بابا سے یہی مشورہ کر رہی تھیں کہ وہ میری شادی اصغر سے کریں گی۔ یہ بات میں نے خود اپنے کانوں سے سنی ہے۔ اصغر بہت امیر آدمی ہے، تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکو گے۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو زریں ! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ کہتے ہوئے گلاب نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا، جیسے اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہو۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ زریں نے معصومیت سے کہا۔ اصغر نے پچاس ہزار روپے صرف بات پکی کرنے کے لیے بطور مٹھائی بھجوائے، جو ماں نے واپس نہیں لوٹائے۔ تو سمجھو کہ بات پکی ہو ہی گئی ہے۔ بس کرو زریں ! میں اب زیادہ نہیں سن سکتا، پھر بھی ایسا نہیں کر سکتی۔ میں جان پر کھیل جائوں گا، مگر تم کو کسی اور کی دلہن نہیں بنے دوں گا۔ تم میری منگیتر ہو، تمہیں اب مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ کہتا ہوا وہ پریشان سا باہر نکل گیا۔

اس روز وہ گھر نہ لوٹا۔ نہ جانے کہاں ، کس حال میں رہا ؟ اگلے دن دوپہر کو وه خسته حال سا گھر میں داخل ہوا۔ اس وقت مہر جان کا شوہر ڈیوٹی پر گیا ہو ا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی ، جب کہ زریں غسل خانے میں تھی۔ گلاب ، پھو پھی کی پاس بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا۔ پھو پھی ! کیا یہ سچ ہے کہ تم زریں کی شادی اصغر سے کر رہی ہو۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور بولی۔ ہاں ، تم نے ٹھیک سنا ہے۔ مگر کیوں ؟ یہ کہہ کر وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ہماری مرضی، زریں ہماری بیٹی ہے ، ہم جس سے چاہیں اس کی شادی کریں۔ مگر پھو پھی تم کہا کرتی تھیں کہ اپنی کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرو گی۔ ہاں ، وہ اس وقت کی بات تھی، اب وہ سے نہیں رہا ہے۔ لیکن گلاب تو بچپن سے میری منگیتر ہے۔ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتی ہے اور آپ جانتی ہیں کہ میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں ، پھر کس بات کی سزا مجھ کو دینا چاہتی ہو۔ 
بکواس بند کرو۔ میری بیٹی کے بارے میں ایسے نازیبا الفاظ اب کبھی دوبارہ اپنے منہ سے مت نکالنا، ورنہ کھڑے کھڑے گھر سے باہر نکال دوں گی۔ تمہارا نکاح تو نہیں ہوا اس کے ساتھ ، جو اس طرح حق جتلانے چلے آ گئے ہو۔ تو اتنا عرصہ تم نے مجھے بے وقوف بنائے رکھا ؟ گلاب نے دانت پیس کر کہا۔ مگر یاد رکھنا پھو بھی، تم کو اس دھوکے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مجھے دھمکیاں دیتا ہے بد بخت ! نکل جا ابھی میرے گھرے ، ورنہ پولیس میں رپورٹ لکھوا دوں گی۔ مہر جان نے جوتا اٹھایا اور مارنے کو لپکی ، تب ہی گلاب بھی مشتعل ہو گیا اور اس نے سامنے پڑی ہوئی سبزی کاٹنے والی چھری اٹھالی ۔ مہر جان چیخنے لگی اور چھری چھینے کو لپکی تو گلاب نے اسے دھکا دیا اور دروازے کو باہر سے کنڈی لگا کر تیزی سے غسل خانے کی طرف آیا۔ ان دنوں دیہاتوں میں اکثر غسل خانوں میں دروازے نہیں ہوتے تھے۔ 

گلاب نے صحن سے آواز دی۔ زریں جلدی باہر نکلو، میں نے تمہاری ماں کو کمرے میں بند کر دیا ہے۔ یہی موقع ہے ، ہم شہر جا کر شادی کر لیتے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائوں گی، امی کے کمرے کا دروازہ کھول دو۔ زریں بے وقوف نہ بنو، ایسا موقع پھر نہیں آئے گا۔ جو بھی ہو، میں تمہارے ساتھ کبھی بھی گھر سے نہیں بھاگوں گی۔ اس نے فیصلہ سنا دیا اور غسل خانے سے باہر نہیں نکلی۔ وہ کافی دیر اُس کی منت کرتا رہا، بالآخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو طیش کے عالم میں اس نے زریں کو غسل خانے سے گھسیٹا اور اس پر چھری سے وار شروع کر دیے۔ 
اُدھر زریں کی چیخ و پکار سن کر مہر جان کمرے میں تڑپتی اور شور مچاتی رہی، مگر اس کی مدد کو باہر نہ آسکی۔ گلاب زریں پر وار پر وار کرتے ہوئے یہی کہتا کہ اگر تم میری نہیں ہو سکتیں تو کسی اور کی بھی نہیں ہونے دوں گا۔ زریں بری طرح لہو میں نہا چکی تھی۔ اس کے ہاتھوں پر بے شمار زخم آئے تھے کیونکہ وہ ہر وار پر چھری کو پکڑنے کی کوشش کرتی تھی۔ پوسٹ مارٹم کے مطابق اس کے جسم پر چالیس اور چہرے پر چودہ زخم آئے تھے۔ ہتھیلیوں پر تو لا تعداد تھے۔ واردات کے بعد گلاب نے تھانے جا کر خود کو پیش کر دیا۔ دو سال تک وہ سینٹرل جیل میں رہا۔ اس کو سزائے موت ہونا تھی۔ ایک دن اس کا دوست آصف اس سے ملاقات کو آیا۔ گلاب نے بتایا کہ فلاں تاریخ کو مجھے پھانسی دی جائے گی۔ آصف تم اپنے دوست کو ساتھ لے آنا اور پھانسی کے بعد میری لاش وصول کر لینا، کیونکہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ پھانسی والے دن آصف چند دوستوں کو ساتھ لے آیا۔ 

ملاقات کے وقت گلاب کا چہرہ مر جھایا ہوا تھا۔ اسے اپنے کیے پر شدید افسوس تھا۔ کہتا تھا جذبات میں آکر نا حق اپنی حسین وجواں منگیتر کا خون کر ڈالا اور خود بھی جواں سالی میں پھانسی کے تختے کو اپنا مقدر بنا لیا۔ آصف نے اس سے تسلی کے بول کہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ دوست نے ڈھارس دی، کہ گلاب ڈرو نہیں۔ تم اپنے کیے کا کفارہ ادا کر کے جارہے ہو تو اس رحیم و کریم سے امید رکھ کر اس دنیا سے جانو کہ وہ تمہارے گناہ کو بخش دے گا، شاید یہی تمہارا مقدر تھا۔ آصف بھی رو رہا تھا، ملاقات ختم ہو گئی۔
چند منٹ بعد آصف کا نام پکارا گیا۔ اس نے لاش وصول کی اور گلاب کی وصیت کے مطابق کوشش کی کہ اسے زریں کی قبر کے قریب کہیں دفنا یا جائے، لیکن اس قبرستان میں کہیں جگہ نہ مل سکی تو دوسرے قبرستان میں اسے دفنا دیا گیا۔ یہ بھی شاید اللہ کی مرضی تھی کہ مرنے کے بعد بھی وہ زریں سے دور ہی رہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے