جب حمیدہ کی شادی ہوئی اس کی عمر صرف سولہ سال تھی۔ جب وہ چارسال کی تھی تو اس کی منگنی اس کے دادا، دادی نے اپنے چھوٹے بیٹے کے لڑکے سے لے کر دی تھی۔ یوں وہ اپنے چچا کی بہوبنی۔
حمیدہ کی شادی کے کچھ ماہ بعد ہی اس کے دادا، دادی باری باری انتقال کر گئے۔ سسرال میں اس کا چاؤ انہی کی وجہ سے تھا ورنہ اس کا شوہر بہرام اس کو پسند نہیں کرتا تھا، وہ پہلے دن سے ہی حمیدہ سے شادی کے خلاف تھا اور اس کی وجہ بھی تھی۔ بہرام زیادہ تر اپنے ننھیال میں رہا تھا۔ اس کی بڑی کہ خالہ بیوہ تھی اور ماں اس کو خالہ کی خبر گیری کے لئے برابر والے گائوں بھیجا کرتی تھی۔ خالہ کی لڑکی ثمینہ بہرام کو پسند تھی۔ وہ ثمینہ کو دل سے چاہتا تھا۔ ماں سے بھی اس نے کئی بار کہا تھا کہ کسی طرح تم میری شادی ثمینہ سے کروا دو. ماں نے ہمیشہ یہی جواب دیا، بیٹا میں مجبور ہوں۔
تمہارے دادا، دادی ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ حمیدہ ان کی پوتی ہے ، ان کے جیتے جی تم اس خیال کو دل سے نکال دو۔ یہ بات درست تھی کہ گائوں میں رشتے بزرگ بچپن میں ہی طے کر دیا کرتے ہیں اور ان کے طے کیے ہوۓ رشتوں کو ان کے بچے رد نہیں کر سکتے۔ حمیدہ بہرام کی منگ کہلائی تھی۔ اب اس کی شادی یاتو بہرام سے ہو سکتی تھی یا پھر موت سے ، کوئی دوسرا اس کو بیاہنے نہیں آسکتا تھا۔ بہرام کی ماں جانتی تھی کہ اس کی بہن کی لڑکی اس کے گھر کی بہو کسی صورت میں نہیں بن سکتی۔ اس کے میکے والوں کو اس کے سسرال میں ایسے ہی کم لفٹ ملتی تھی۔ حالانکہ وہ دل سے چاہتی تھی کہ دیورانی کی لڑکی کے بجائے اس کی بہن کی بیٹی اس کے گھر کا سنگھار ہے۔ لیکن یہ بات انہوئی تھی اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو بھی خاموش کر دیا اور خود بھی کبھی اس بات کو لب پر نہ لائی کہ اس میں سوائے تنازعوں کے کچھ نہ رکھا تھا۔
پھر حمیدہ کی بہرام سے شادی ہوئی تو مارے باندے سے بہرام نے اس بندھن کو قبول کیا۔ اس نے حمیدہ کو دل سے بیوی تسلیم ہی نہ کیا- پہلے روز اس کا رویہ حمیدہ کے ساتھ نہایت روکھا، پھیکا اور اہانت آمیز تھا- وہ اس کی بہت کم پروا کر تا- دیر سے گھر آتا ا ور ا س کے کام میں نقص نکالتا رہتا۔ ماں اس کا کرب سمجتھی تھی، باقی لوگ اس کو سمجھا تے کہ اس کی یہ عادتیں اچھی نہیں ہیں۔ حمیدہ ایک صابر لڑ کی تھی ، وہ سب کچھ سہتی اور کسی سے کوئی شکوہ نہ کرتی، اس کو اپنے شوم بہرام سے بے پناہ محبت تھی ۔ وہ اس کی بے رخی کو بھی اس کی عنایت سمجھتی تھی۔
جب تک دادا، دادی زندہ رہے حمیدہ کی کچھ قدر و قیمت رہی۔ ساس اس سے اچھا سلوک کرتی رہی۔ جونہی ان کی آنکھ بند ہوئی، اس کے برے دن آگئے۔ بہرام کا باپ بڑا بھائی تھا اور حمیدہ کا باپ چھوٹا تھا، زمین کا کرتا دھرتا بڑا بھائی قرار پایا۔ لہذا حمیدہ کے میکے والے ہر لحاظ سے بہرام کے گھر والوں سے دب کر ر ہنے پر مجبور ہو گئے۔
اپ ساسنے بہو کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناڈالا، جب وہ اس کے بیٹے کی من چاہی نہ تھی تو پھر اس کی چہیتی کیسے بن جاتی ۔ حمیدہ ساس کی خدمت کرتی مگر وہ اس لڑکی کو کسی طرح خاطر میں نہ لاتی تھی۔ تمام وقت اس کے گلے غمازے کرتی رہتی۔
دیہات کے گھروں میں بہت کام ہوتا ہے۔ زمیندار لوگ تو یہ کام اپنے مزارعوں کی عورتوں سے کراتے ہیں مگرجولوگ دوچار بیگھ کے مالک ہیں ان کی عورتیں خود چکی پستی ، دھان کوٹتی، گھاس کاٹتی، فصل کی بوائی میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی، جانوروں کی دیکھ بھال ، دودھ دوہنا، لسی بلونا ، بان بٹنا ، چار پائیاں بننا ، غرض ہر کام عورت ہی کو کر نا پڑتا ہے ۔ حمیدہ کے ساس، سسر بہت بڑے زمیندار نہیں تھے مگر چھوٹے زمینداروں میں ان کا شمار ضرور ہوتا تھا۔ ان کی عورتیں گھر سے باہر کھیتوں میں کام کرنے نہیں جاتی تھیں ، گھر کے اندر بھی مزارعوں اور کسانوں کی عورتیں آ کر کام کر جاتی تھیں۔ مگر حمیدہ کی ساس گھر کے اندر کے سارے کام حمیدہ سے ہی کرواتی تھی، پھر بھی یہی کہتی رہتی تھی کہ میری بہو بد سلیقہ ہے، پھوہڑ ہے ، کوئی کام ڈھنگ سے کرنا نہیں جانتی- بھلا میرا لڑکا گھر سے بھاگے نہ تو کیا کرے۔
حمیدہ کے میکے تک یہ باتیں پہنچتی تھیں مگر وہ چپ تھے۔ شرافت کی وجہ سے کسی صورت اپنی لڑکی کی طلاق نہیں چاہتے تھے۔
انہیں حالات میں حمیدہ کی ایک بیٹی پیدا ہو گئی۔ اس نے ماں بنتے ہی بیوی ہونے کے مان سے منہ موڑ لیا۔ اب وہ سراپا ممتا بن گئی- اپنی بیٹی کے پیار میں گم ہو گئی۔ پہلے وہ برہام کی بے رخی پر دکھتی اور کڑھتی تھی۔ اب ایسا کھلونا قدرت نے اس کی گود میں ڈال دیا تھا کہ اس میں کھو کر وہ باقی ساری محرومیاں بھلا بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی ادھوری زندگی سے
سمجھوتا کر لیا- جانتی تھی کہ آخر کہاں جانا ہے مر کر ہی تو اس گھر سے نکلنا ہے ۔
جن دونوں حمیدہ کی بچی دس ماہ کی تھی۔ حمیدہ کی نند کی شادی کی تقریب ہوئی۔ شادی والے روز بچی کی طبیعت خراب تھی ، اس کو بخار تھا، سردیوں کی آمد تھی۔ اس بدلتے موسم کا جھٹکا حمیدہ کی بچی رانو کو لگا- وہ شادی کے کاموں میں لگی ہوئی تھی مگر دل بچی میں اٹکا ہوا تھا۔
دیہات میں گھر بڑے اور کھلے ہوتے ہیں ۔ ساس کے کمرے کے سامنے شادی میں آئی ہوئی عورتیں بیٹھی تھیں ۔ مراثنیں ڈھولک پر گیت گارہی تھیں رت جگا ہو رہا تھا۔ برابروالے صحن میں حمیدہ اور بہرام کا کمرہ تھا۔ درمیان میں چھوٹی سی مٹی کی دیوار تھی۔ دونوں طرف کے صحن کافی بڑے بڑے تھے۔ حمیدہ ساس کے کمرے میں بیٹی کو گود میں لیے بیٹھی تھی ،اچانک بچی رونے لگی۔ اس کا جسم بخار سے پھنک رہا تھا۔ حمیدہ کو خیال آیا وہ اپنے کمرے میں جا کر دوائی کی شیشی اٹھا لائے اور بیٹی کو پلادے تو شاید بچی کو کچھ سکون ملے اور وہ سو جائے۔
رانو کو وہ ایک عورت کی گود میں دے کر چلی گئی ۔ ساس کے کمرے کے سامنے کا صحن پار کر کے وہ اپنے صحن میں آئی ۔ دونوں صحنوں کی لمبائی چوڑائی علیحدہ علیحدہ دو ہزار مربع گز ہو گی۔ دیہات میں بجلی نہیں ہوتی، جہاں رت جگا ہو رہا تھا- گھر کی ساری لالٹینیں وہیں جل رہی تھیں۔ حمیدہ والے صحن میں مکمل اندھیرا تھا، وہ اندھیرے میں چلتی ہوئی اپنےکمرے میں پہنچی- اس نے طاقچے میں ہاتھ سے ماچس کو ٹٹولا کہ وہیں طاق میں رکھے مٹی کی د یے کو جلادے اور پھراس کی روشنی میں دوا کی شیشی اٹھا کر لے جائے- د یے کو باہر نہیں لے جاسکتی تھی کیونکہ صحن میں دیا بجھ جاتا تھا، یوں بھی اس کے صحن میں ساس والے صحن کی روشنی مدھم ہو کر آرہی تھی۔
حمیدہ نے د یا جلایا اور اس تختے کی طرف ہاتھ بڑھایا جو دیوار میں نصب تھا اور جس پر دوا کی شیشی رکھی تھی ، اچا نک اس کی نظرچارپائی پر پڑی- وہاں کوئی شخص پگڑی منہ سر لپیٹے بیٹھا نظر آیا۔ اس نے دیے کی روشنی میں اس کا چہرہ دیکھنا چاہا، اس کا یہی خیال تھا کہ کوئی اپنا ہی آدمی شادی کے ہنگامے سے تھک کر یہاں آ بیٹھا ہے۔ یہ بہرام ہو سکتا ہے یا اس کا چھوٹا بھائی ہو گا۔ نہیں تو اس کا کوئی چاچے، مامے کا لڑکا ہے اس کا سسر ہے۔ ایسا ہی رشتہ ذہن میں رکھتے ہوئے جب اس نے دیے کو اس کے چہرے کے سامنے کیا تو وہ شخص گبھرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ کوئی اجنبی تھا، اس کے ہاتھ میں خون آلود کلہاڑی تھی۔
اس سے پہلے کہ حمیدہ کچھ کہتی- وہ اجنبی بولا۔ اے عورت! چپ رہ شور نہ مچانا، مجھے پناہ دے- مجھ سے اپنے دشمن کا خون ہو گیا ہے ۔ لوگ میرے پیچھے ہیں ۔ وہ میرا تعاقب کر رہے تھے۔ میں ان سے بچتا بچاتا ہوا ادھر آنکلا ۔ شادی کا گھر دیکھ کر میں یہاں آیا ہوں۔ اگر تم نے کسی کو آواز دی تو میں پکڑا جانوں کا مگر ایسا ہو نے سے پہلے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا۔
حمیدہ تو جاں سے لرز کر رہ گئی۔ وہ بولی ۔ یہ شادی کا گھر ہے۔ یہاں بہت لوگ ہیں۔ ابھی کوئی نہ کوئی ادھر ضرور آئے گا۔ ہر چیز گھر کی میرے ہی کمرے میں رکھی ہے ۔ کسی کو جس شے کی بھی ضرورت ہوئی وہ لینے آئے گا اور تم پکڑے جو گے- بہتر ہے تم یہاں سے نکل جائو۔ اجنبی نے کہا کہ اب میں سامنے سے گزر کر واپس نہیں جا سکتا۔ ساری بارات باہر بیٹھی ہے ۔ اس وقت جب میں ان کے درمیان میں سے گزرا تھا تو کسی نے دھیان نہیں دیا۔ وہ مجھے شادی کے گھر کا کوئی مرد سمجھے ہوں گے مگر اب میں سامنے سے نکلوں گا تو وہ میرا چہرہ ضرور دیکھ لیں گے ۔ میرے لیے بہت خطرہ ہے-
حمیدہ بولی اچھا تم جدھر سے یہ بیٹھو تمہاری مرضی میں تو چلتی ہوں۔ اس نے جلتے ہوئے دیے کو طاق میں رکھ دیا اور خود باہر نکلنے لگی- خوف سے اس وقت اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ابھی وہ دہلیز پر قدم نہ رکھ پائی تھی کہ اجنبی اس کے پیچھے آکر کہنے لگا کہ مجھے اپنے گھر کی پچھلی دیوار بتا- میں ادھر سے باہر کود جاتا ہوں۔ لیکن خبردار جو تم نے میر ذکر کسی سے کیا۔ حمیدہ جلدی سے کمرے سے باہر آ گئی وہ منہ سے کچھ نہ بولی ۔۔ اس نے دیوار کی طرف اشارہ کیا اور پھر وہ وہاں سے بھا گ پڑی ۔
اجنبی شخص گھر کی پچھلی دیوار کی طرف بھاگا اور وہاں سے باہر کود گیا، یہ منظر حمیدہ کی ساس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، کیونکہ جب رانو بہت رونے لگی تو شادی میں آئی ہوئی اس عورت نے جس کی گود میں حمیدہ بچی لٹا آئی تھی۔ حمیدہ کی ساس کو بلا کر بچی کو تھما دی کہ یہ چپ نہیں ہو رہی، اس کی ماں دوا لینے اپنے کمرے میں گئی ہے ۔ اس بچی کو کندھے پر ڈالے جب اپنے صحن کی طرف آنے لگی توبیچ دیوار میں اسی جگہ کہ جہاں درمیان میں دروازے جتنی جگہ کھلی ہوئی تھی، مگر دروازہ نہ تھا۔ وہ ٹہر گئی، اس نے دیکھا کہ اس کی بہو کے کمرے میں دیے کی مدھم روشنی میں ہی اس نے پہلے اپنی بہو کو ایک مرد کے ساتھ بات کرتے پھر اس کو دیوار کی طرف اشارہ کرتے بھی دیکھا۔ حمیدہ تواس طرف بھاگ کر آرہی تھی مگر وہ اجنبی جس نے پگڑی سے اچھی طرح اپنا منہ لپیٹ رکھا تھا دیوار کو کر باہر جا چکا تھا-
ساس نے حمیدہ کو وہیں پکڑ لیا۔ پوچھنے لگی یہ شخص کون تھا۔ کوئی اپنا تھا تو گھر کے دروازے سے کیوں نہیں باہر گیا- جبکہ باہر کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ گھر کی پچھلی دیوار سے کیوں گیا ہے ۔ یہ کیا معاملہ ہے۔ حمیدہ بوکھلا گئی- وہ ڈری سہمی کچھ نہ بول سکی۔ سوائے اس کے کہ مجھے نہیں پتا وہ کون تھا اماں- میں جب دوا لینے گئی تو وہ میرے کمرے میں بیٹھا تھا۔ اتنا سننا تھا کہ ساس نے حمیدہ کے بال کھسوٹ لیے اس کو گھسیٹی ہوئی اندھیرے میں لے گئی اور دو چار لا تیں اور مکے مار کر بولی۔ بد بخت بد کردار- تیرے یہ کرتوت کہ تو سمجھی کہ ہم شادی کے ہنگامے میں ہیں، مجھے کوئی نہ دیکھے گا۔ سچ بتا تو نے کس یار کو بلایا تھا۔ کس کو اپنے کمرے میں ملاقات کا ٹائم دیا تھا۔ نجانے تو کب سے اس کے ساتھ اندر کمرہ بند کرے بیٹھی تھی- بچی رو رو کر ہلکان ہو گئی اور تو– بتا کون تھا، وہ بہو کومارتی جاتی تھی اور حمیدہ واپس یہی کہتی تھی کوئی نہیں اماں، مجھے کچھ پتا نہیں کون تھا ماں۔
ساس اس مبہم جواب سے مطمئن نہ ہو سکی ۔۔ وہ یہی کہتی رہی کہ تجھ سی بدچلن عور تیں یہی کرتی ہیں۔ سمجتھی ہیں شادی میں مل لینا اچھا موقع ہے ، کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی صورت سے کتنی معصوم نظر آتی ہے۔ ٹہر جا آبھی میں بتاتی ہوں۔ بہرام اور ساری برادری کو۔
پھر وہ رات ہی نہیں ساری زند گی حمیدہ پر بھاری ہو گئی۔ صبح ساس نے پہلے بیٹی کو رخصت کیا، پھر بہو کو۔ مگر بیٹی کو ڈولی میں اس کا گھر آباد کرنے کے لئے روانہ کیا اور بہو کو گھر بدر ہونے کے لئے گھر سے بے گھر کر دیا۔
آج بھی رو کر جب حمیدہ کہتی ہے کہ مجھے کچھ پتا نہیں وہ کون تھا تو سب اس پر ہنستے ہیں اور کوئی اس کی بات کا یقین نہیں کرتا۔
0 تبصرے