Subscribe Us

میری سہیلی میری سوکن

Urdu Font Stories 06

کافی عرصے سے ہمارے گھر میں کوئی تقریب نہ ہوئی تھی۔ امی نے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب کر ڈالی۔ اس تقریب کو امی ابو نے اپنی شادی کی بیسویں سالگرہ کا نام دیا۔ چونکہ کافی دنوں بعد یہ رونق ملا سجا تھا امی ابو کے دور نزدیک کے سارے ہی رشتہ داروں کو مدو کر لیا اور خرچہ بھی دل کھول کر کیا۔ کچھ مہمان رشتہ دار دوسرے شہروں سے بھی ائے تھے انہوں نے ایک دو روز قیام بھی کیا پھر وہ اپنے شہروں کو چلے گئے سوائے آنٹی روبینہ کے۔

آنٹی روبینہ میری امی کی دور کی کزن تھی۔ مگر سکول میں ساتھ پڑھا تھا اس لیے پرانی سہیلی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی میری ماں سے خوب گاڑھی چھنتی تھی۔ آنٹی روبینہ کی شادی کی صرف دو ماہ بعد طلاق ہو گئی تھی۔ تب سے وہ بغیر جیون ساتھی زندگی گزار رہی تھی۔ خوبصورت تھی دکھی ہونے کے باوجود ہنس مکھ اور خوش لباس تھیں لہذا کسی کو احساس نہ ہونے دیتی تھی کہ ان کی زندگی کس المیہ سے دوچار ہے۔ ان کی شخصیت بڑی دلکش تھی۔ تقریب میں نمایاں اور پیش پیش تھیں سبھی کی نظریں ان پر تھی انہوں نے گویا محفل کی رونق دوبالا کر رکھی تھی جب سارے مہمان رخصت ہو گئے تو ہم سب نے اصرار کیا کہ آنٹی روبینہ آپ نہ جائیے۔ ایک دو روز اور ہمارے ساتھ رہ لیں پھر چلی جائیے گا۔ امی نے بھی اصرار کیا تو آنٹی روبینہ ٹھہر گئی۔ ہم سب بہت خوش تھے ان کی باتیں اچھی لگتی تھیں بات بات پر ہنساتی تھیں کہ ہم لوٹ پھوٹ ہو جاتے تھے۔ چار دن کے بعد انہوں نے کہا کہ بھئی اب تو جانے دو کب تک یہاں رہوں گی؟ ہم نے کہا آنٹی روبینہ نہیں ایک ہفتہ بعد جانا ابھی تو صرف چار دن ہوئے ہیں ہمارا ابھی دل نہیں بھرا۔

ان کو بھی شاید ہمارا گھر اور اس کی خوشیاں زیادہ بھا گئی تھیں۔ وہ کچھ دن کے لیے اور ٹھہر گئیں۔ اسی دوران وہ ہمارے ساتھ اتنی گھل مل گئیں کہ امی نے ان کو مزید ٹھہرا لیا یہ کہہ کر وہاں کون سے تمہارے بچے رو رہے ہیں۔ اکیلا دم ہے تمہارا ابھی نہ جاؤں گی تو کیا قیامت آجائے گی۔ ہمارا گھر سونا کر کے نہ جاؤ۔ امی کی شروع دن سے ہی ایک عادت بہت بری تھی کہ وہ صبح سویرے نہیں اٹھتی تھی بلکہ 11 بجے کے بعد سو کر اٹھتی تھی۔ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے اس معمول کو انہوں نے نہ چھوڑا جس کی وجہ سے ناشتے کے لیے ابو کو ایک ملازمہ رکھنی پڑی جو صرف ہم کو اور ابو کو ناشتہ بنا کر دیتی بلکہ صبح کے سارے کام سنبھالتی تھی اس ملازمہ کا نام بلقیس تھا۔

ان دنوں بلقیس بیمار پڑ گئی وہ نہیں آ سکی تو یہ کام آنٹی روبینہ نے سنبھال لیے وہ صبح چھ بجے سے پہلے اٹھ جاتی تھی۔ فجر کی نماز اور قران شریف کی تلاوت سے دن کا اغاز کرتی تھیں پھر کچن میں گھس جاتی اور ہم سب کے لیے ناشتہ تیار کرتی ابو کے لیے بھی سوپ وغیرہ بنا کر ٹیبل پر رکھ دیتی۔ ابو کے اور ہمارے کپڑے استری کرنے ہوتے تو ہمارے لباس وقت پر تیار ملتے تھے۔ یہ ایسی سہولتیں تھیں جو خوش نصیب گھرانوں کو میسر اتی ہیں ۔  بدقسمتی سے ہماری ماں کے دیر سے بیدار ہونے کی اس عادت کی وجہ سے ابو اور ہم تینوں بہن بھائی ہمیشہ ہی بے سکونی کا شکار رہے اور نوکرانی کا ہاتھ کا بدمزہ ناشتہ کرنے پر مجبور رہے۔ ماں پر نانی اماں کی نصیحت کا بھی اثر نہ ہوتا وہ ان کو سمجھاتی تھیں کہ گھر کی مالکہ کا دیر سے بیدار ہونا گھر میں تباہی اور نحوست لاتا ہے۔ شوہر اور بچوں کو نوکروں پر مت چھوڑا کرو اور جلدی اٹھ جایا کرو۔ اب جو آنٹی روبینہ نے ہم لوگوں کواتنا سکھ اور عمدہ گرم گرم ناشتہ دیا تو ہمارا دل چاہتا تھا کہ یہ اپنے گھر کبھی نہ جائیں اور ہمیشہ ہمارے گھر رہ جائیں۔ ہم لوگوں کے دوبارہ اصرار پر وہ نہ گئیں گویا اندھا کیا چاہے دو انکھیں۔ ابو نے بھی اصرار کیا کہ روبینہ بچے اتنے مصر ہیں تو دو چار روز اور ٹھہر جاؤ۔ اگلے ہفتے میں خود تمہارا ٹکٹ کرا دوں گا۔ یوں اونگتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ملا اور وہ عورت گھر میں ہی رہنے لگی۔ بلکہ میں تو اب یہی کہوں گی کہ اس نے پاؤں پسار لیے۔

 سارا دن اپنے لچھے دار باتوں سے ہم سب کو الجھائے رکھتے ہیں امی کی بھی طبیعت روبینہ کی وجہ سے شگفتہ رہنے لگی گویا ابو اب وقت سے گھر ا جاتے اور کبھی کچھ کبھی کچھ کھانے پینے کی اشیاء سے شاپر بھر لاتے۔ گویا آنٹی روبینہ کے رہنے سے ہمارے بھی عیش ہو گئے تھے۔ امی خوش تھی کہ میرا شوہر میری سہیلی کی مہمانداری کر رہا ہے گویا میری عزت بڑھا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روبینہ بہت بعض سلیقہ تھی وہ خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ سکڑ تھی۔ گھریلو کاموں میں امی کا ہاتھ بٹاتے اور امی کے مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو رہی تھی جب گھر میں سلیقہ ہو سارے کام خوش اسلوبی سے اور وقت پر ہوں تو صاحب خانہ کا دل بھی شاد رہتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے جو ابو بگڑے بگڑے رہتے تھے وہ اب کافی خوش مزاج ہو گئے تھے اور ان کا موڈ ہر دم ٹھیک ٹھاک ہوتا تھا۔

اخر ایک دن اآنٹی روبینہ اپنے گھر واپس چلی گئی۔ ان کے جانے سے ہم بہت اداس تھے میری چھوٹی بہن جو انٹی سے بہت اٹیچ ہو گئی تھیں وہ رونے لگی۔ لگتا تھا کہ آنٹی روبینہ کے جانے سے ہمارے گھر کی رونق اور خوشی رخصت ہو گئی ہے ایک ماں تک ہم نے یہ جدائی برداشت کی ایک روز امی نے کہا اے کاش وہ نہ جاتی اس کے یہاں رہنے سے مجھے گھر کی فکر سے نجات مل گئی۔ ہمارے اصرار کرنے پر امی نے دوبارہ آنٹی روبینہ کو فون کیا وہ تو لگتا تھا کہ جیسے انتظار کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ تم لوگوں میں ایسا دل لگا تھا کہ اب اپنا گھر اچھا نہیں لگ رہا۔

ہمارا گھر آنٹی روبینہ کو جنت جیسا لگا تھا اور ہمارا محبت بھرا سلوک بھولتا نہ تھا امی نے ابو سے تذکرہ کیا کہ اگر اپ اجازت دیں تو آنٹی روبینہ کو آنے کا کہہ دوں وہ تو جیسے یہی چاہ رہے تھے بولے ہاں ہاں بلا لو۔ مجھے کیا اعتراض ہے وہ تمہاری سہیلی ہے تم جانو۔ امی نے فون کر کے انٹی کو بلوا لیا وہ بھی جیسے سامان باندھے بیٹھی تھیں فورا آگئی۔ امی نے ان کو لینے ابو کے ساتھ مجھے اسٹیشن بھیج دیا ان کے آنے سے دن پہلے کی طرح باغ و بہار سے گزرنے لگے۔ ہر وقت خوش گپیاں اور لطیفے بازی نت نئی ڈشیں اور انواع اقسام کے ہمارے پسندیدہ پکوان روبینہ انٹی کے ہاتھوں پکنے لگے۔ اب ہم ابو سے سیر کی فرمائش کرتے یا شاپنگ کی انٹی ساتھ ہوتی تو وہ فورا ہمیں لے جاتے ہم جتنی دیر سیر کرتے یا شاپنگ وہ گاڑی میں انتظار کرتے رہتے اور ذرا بھی بور نہ ہوتے امی خوش تھی کہ ان کے آدم بزار شوہر نے گھر اور بچوں پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔  روبینہ کے مبارک قدموں کے طفیل ہی صحیح اب وہ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں بھی حصہ دار بن گئے تھے۔ جس پر امی جان کو مسرت ہوتی تھی۔
 جلد ہی ہم سب کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اور ابو کچھ الجھے الجھے سے نظر آنے لگے امی سے بات چیت کم کر دی جو کام ہوتا روبینہ سے کہتے شروع میری امی کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن پھر وہ کچھ اپنی اہانت سی محسوس کرنے لگی انہیں احساس ہوا کہ جب بیٹا کالج اور بیٹیاں سکول چلی جاتی ہیں میاں دفتر وقت پر جانے کی بجائے دیر تک گھر میں رہتے ہیں امی 11 بجے بیدار ہوتی اور ابو پونے 11 بجے افس کو نکلنے لگے۔ یہ وقت وہ آنٹی روبینہ کے ساتھ گزارتے تھے جس کا شروع میں کسی کو علم نہ ہو سکا۔ گھر کے مالی نے ایک روز امی کے کان میں یہ بات ڈالی کہ بیگم صاحبہ اپ سویرے اٹھ جایا کریں کیونکہ اپ کی سہیلی اور صاحب اس ٹائم باغ میں ٹہلتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو صاحب دفتر سے جائیں اور اپ گھر سے تب امی نے اگلے دن صبح کا الارم لگا کر رکھ لیا اور جب وہ خلاف معمول جلد بیدار ہوئیں تو مالی بابا کی بات کو درست پایا۔ اب امی بجھی بجھی رہنے لگی کیونکہ شوہر کی بدلتی نگاہوں میں چھپی تحریر انہوں نے پڑھ لی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ روبینہ اپنے گھر چلی جائے لیکن وہ تھی کہ جانے کا نام نہ لیتی تھی امی کو برا لگا جب ابو اس کی بات ٹال کر روبینہ کی بات ماننے لگے۔ اس کیفیت نے میری ماں کو پریشان کر دیا پھر یہ کیفیت نے جھگڑے کی صورت اختیار کر لی۔ گھر میں تلخیاں پیدا ہو گئیں تو ابو امی میں تنزیہ کلام کا رواج بڑھنے لگا۔

 اس کے کو ہم بچے بھی محسوس کر چکے تھے ہماری پہلے والی خوشی رخصت ہو گئی تھی۔ اب امی کے ساتھ ساتھ ہم بھی چاہتے تھے کہ آنٹی روبینہ چلی جائیں مگر واحد ابو تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے۔ روبینہ کے بناؤ سنگھار میں اضافہ ہوتا گیا وہ گھر میں ایسے گھومتی جیسے گھر کی مالک ہو اس کے پاس میک اپ کا قیمتی سامان موجود رہنے لگا ظاہر ہے یہ سب ان کو کون لا کر دے رہا تھا یہ ہم سمجھ رہے تھے۔ ایک دن حد ہو گئی جب امی اچانک رات کو پیٹ میں مروڑ اٹھنے پر اٹھی تو انہوں نے روبینہ کو ابو کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا امی نے اسی وقت لڑائی شروع کر دی اور روبینہ سے پوچھنے لگی کہ تم ادھی رات کو میرے شوہر کے کمرے میں کیا کرنے گئی تھیں۔ امی کو خراٹے لینے کا مرض تھا اس وجہ سے ابو ان کے برابر والے کمرے میں سوتے تھے درمیان میں دروازہ تھا چاہتے تو دروازہ کھول دیتے چاہتے تو بند رکھتے۔ ابو نے آکر بیچ بچاؤ کرانا چاہا تو امی نے شور مچایا کہ ابھی اسی وقت اسے نکالو ابو بولے ادھی رات کو میں اس عورت ذات کو گھر سے نہیں نکال سکتا ہاں اگر تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ ۔ اس طرح لڑائی جھگڑے میں صبح کے پانچ بج گئے تب امی نے تیش میں آ کر ڈرائیور کو جگایا اور اپنا کپڑوں کا بیگ اور زیورات گاڑی میں رکھ کر ہم سے کہا کہ تم لوگ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہو یا اپنے باپ کے پاس رہنا چاہتے ہو؟
ہم تینوں بہن بھائی عجیب صورتحال کا شکار تھے امی کو روکنا اور سمجھانا چاہا لیکن وہ غصے میں پاگل ہو رہی تھی تب ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ ان کو اکیلے نہ جانے دیا جائے ہم تینوں بھی ماں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ وہ گھر چھوڑ کر نانا ابو کے گھر چلی گئیں ان کا خیال تھا کہ ابو کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا وہ ان کو منانے نانا کے گھر ائیں گے۔ مگر وہ نہیں آئے لگتا تھا شاید وہ اور آنٹی روبینہ یہی چاہتے تھے امی کے گھر چھوڑ جانے سے ان کا مسئلہ حل ہو گیا انہوں نے ہمارے گھر لوٹ آنے کا انتظار نہ کیا اور روبینہ سے نکاح کر لیا۔ ادھر مامو اور نانا نانی امی کو سمجھا رہے تھے کہ تم نے گھر چھوڑ کر بڑی غلطی کی ہے بہتر ہوگا واپس گھر چلی جاؤ۔ مگر امی بضد تھی کہ میرے بچوں کا باپ خود مجھے لینے ائے گا تب جاؤں گی۔آخر کار جب امی نے ضد نہ چھوڑی تو ایک سال بعد مامو اور نانی ابو کے پاس گئے مگر وہاں تو دنیا ہی بدل چکی تھی روبینہ ابو کی بیوی بن چکی تھی گھر کی ہر شے پر ان کا قبضہ تھا گھر کا تمام انتظام ان کی زیر نگرانی چل رہا تھا نوکر چاکر سب ان کو بیگم صاحبہ پکارتے تھے اسی کا حکم مان رہے تھے نانی جان نے ابو سے کہا یہ کیا ہے یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں تمہاری بیٹی اپنی مرضی سے خود گھر چھوڑ کر گئی ہے شاید میرے بچوں کو بھی میری پرواہ نہ تھی کہ انہوں نے رابطہ کیا اور نہ مجھ سے ملنے ائے اب سال بھر کے بعد اپ لوگوں کو مجھ سے رابطے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی یہاں پلبر میں دنیا بدل جاتی ہے ایک سال تو بہت بڑی مدت ہوتی ہے
انہوں نے اس قدر تلخ انداز سے باتیں کی کہ نانی اماں داماد کا منہ دیکھتی رہا گئیں وہ ناکام پلٹ کرآگئیں اور امی سے کہا کہ غلطی تمہاری ہے کیوں تم شوہر کا گھر چھوڑ کر یوں منہ اٹھائے چلی آئی۔ پھر سال بھر تک ضد پر قائم رہیں کہ وہ منانے ائے جبکہ چڑیا اور عورت کا تم ایک سا معاملہ ہوتا ہے چڑیا اگر گھونسلا چھوڑ دے تو چڑا اگلے دن دوسری چڑیا لے آتا ہے۔ تم نے اپنا گھونسلہ خالی چھوڑا ہی کیوں اس سوال کا جواب میری ماں کے پاس نہیں تھا ہاں اس کے بعد وہ نانا اور مامو کے گھر ہی رہیں البتہ صبح سویرے اٹھ کر اب وہ فجر کی نماز بھی پڑھتی ہیں اور 11 12 بجے تک دن چڑھے تک نہ خود سوتی ہیں اور نہ ہم کو سونے دیتی ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے