امی ابو نے کبھی نہ بتایا کہ فرح ہماری سگی بہن نہیں بلکہ چچازاد ہیں البتہ کبھی کبھار رشتہ داروں کی زبانی یہ بات سننے میں آتی تھی کہ فرح کی ماں کی وفات کے بعد اس کے والد نے ننھی منی بیٹی میرے والدین کو سونپ دی تھی کیونکہ انہیں بیرون ملک جانا تھا۔
کالج میں میری دونئی سہیلیاں بن گئیں۔ ایک دن کا ذکر ہے ، ہم تینوں کالج سے گھر کولوٹ رہی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ کوئی منچلا ہمارے پیچھے چلا آرہا ہے۔ یہ مولوی صاحب کا بیٹا محسن تھا۔ وہ سیدھا سادہ سا لڑکا تھا۔ جانے آج کیسے اس چیونٹی کے پر نکل آئے تھے۔ دوسرے دن بھی چھٹی کے بعد محسن کو کھڑا پایا توتشویش ہوئی۔اس کا بھلا یہاں کیا کام؟ صائمہ نے کہا کہ اپنی کسی رشتہ دار کو لینے آیا ہو گا۔ اس کی رشتہ دار تو تم ہو۔ آئمہ نے کہا اور ہم تینوں ہنس پڑیں۔ اس نے جو ہمیں اپنی جانب دیکھ کر ہنستا پایا تو بچارا غلط فہمی کا شکار ہوا۔ سمجھا ہم اسے ہنس ہنس کر خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ ہم تینوں کالج سے نکلیں اور اپنی راہ ہو لیں۔ سڑک پار کرتے وقت احساس ہوا کوئی ہمارے پیچھے سڑک پر آ رہا ہے۔ مجھ کو تپ چڑھی۔ جی چاہا جوتا اتار کر ٹھکائی کر ڈالوں، لیکن پھر سوچا کہ میں اس کی ماں سے شکایت کروں گی۔ مولوی صاحب کی بیوی خالہ اچھی ، ہمارے گھر آتی ہیں۔
اگلے روز اتفاق سے خالہ آگئی مگر میں ان کے بھولے بھالے اور اکلوتے صاحبزادے کی شکایت نہ کر سکی۔ یوں مسئلہ حل نہ ہوا اور وہ تعاقب میں دل و جان سے جٹا رہا۔ اسے دیکھ کر ہماری ہنسی نکلتی تو وہ سمجھتا ہم اس کے کرتوت پر بہت خوش ہیں۔ وہ روزانہ کالج سے گھر تک پیچھا کرنے لگا۔ اب ہم تینوں نے سر جوڑ کر سوچا کہ اس سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے۔ میرے ذہن میں ایک انوکھی ترکیب آئی۔ اس سودائی کو اسی کے سودے سے مارو، ایسے کہ اس پر یہ ظاہر کرو کہ ہم تم پر مرتے ہیں، یوں خوب بے وقوف بناؤ، جب مجنوں ہو جائے تو اسے دھتکار دو۔ میری تجویز سے آخر کار سہیلیوں نے اتفاق کیا۔ غور ہوا کہ اس بھولے مجنوں کو دام میں کیسے لایا جائے، جسے کپڑے پہنے تک کا سلیقہ نہ تھا۔ ہم نے کہا کہ ہم خط لکھ کر اس کے سامنے گرا دیتے ہیں ، دوڑ کر اٹھالے گا، اس کے بعد دیکھنا۔
خط میں نے لکھا، جس میں تحریر تھا،محسن صاحب! آپ ہم کو بہت اچھے لگتے ہیں مگر روزانہ سڑک پر ہمارے پیچھے پیچھے چلنا ٹھیک نہیں۔ اگر ہم میں سے کسی کے ابا جان نے دیکھ لیا یا آپ کے والد نے تو آپ کی خیر نہ ہو گی۔ اگر ہم سے کچھ کہنا ہے تو پارک، میں آج شام پانچ بجے سے آٹھ بجے تک ہم آپ کا انتظار کریں گے۔ میں نے ہم تینوں کے نام کا پہلا حرف بھی لکھ دیا۔ اگلے دن وہ ہمارے پیچھے کوئے کی چال چلا تو ہم ہنس اپنی چال بھی بھول گئے اور وہ خط اس کو پکڑا کر تیز تیز فٹ پاتھ پر ہو لیں۔
دو چار قدم چل کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، محسن صاحب خط کھول کر پڑھ رہے تھے۔ شکر ہے ترکیب کار گر رہی۔ اگلے دن وہ ہمارے پیچھے نہیں آیا۔ اس کا مطلب کل وہ صحرا پارک گیا اور رات آٹھ بجے تک ہمارے انتظار میں سوکھتا رہا۔ ایک دن بمشکل گزرا، اگلے روز وہ پھر پیچھے آرہا تھا۔ ہماری آواز اسے صاف سنائی دے رہی تھی۔ تبھی ہم نے یک زبان ہو کر کہا۔ آج تو اس کے باپ، مولوی صاحب کو کہیں گے اسے مزہ چکھائیں۔ یہ سن کر اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا، تبھی تیز تیز قدم اٹھاتا وہ بھاگ کھڑا ہوا۔
شام کو میں فون کے پاس بیٹھی تھی کہ گھنٹی بجی۔ میں نے فون آٹھایا، اجنبی لڑکے کی آواز تھی۔ پوچھا۔ مسٹر کس سے بات کرنی ہے ؟ آپ سے ، دیکھئے، میرے والد صاحب سے شکایت مت کیجئے گا ورنہ برا ہو گا۔ میں سمجھ گئی یہ محسن ہے۔ ٹھیک ہے ، نہیں کریں گے شکایت لیکن آئندہ ہمارے پیچھے مت آنا۔ اچھا، میں نہیں آؤں گا، لیکن آپ مجھ کو یہ بتائیے ، آپ کو کس نام سے بلاؤں ؟ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔ فرح کہہ کر بلائیے گا۔ ایسا میں نے اس لئے کہا تھا کہ اگر فرح کے نام سے کرے گا تو آپا اس کی خوب خبر لیں گی۔ آپا سنجیدہ مزاج تھیں، وہ ایسے کال کرنے والوں سے نمٹنا خوب جانتی تھیں۔ اگلے دن فون کی گھنٹی بجی۔ اتفاق کہ میں ہی فون کے قریب تھی۔ ریسیور اٹھایا، محسن صاحب تھے، پوچھ فرح ہو ؟ میں نے جواب دیا۔ جی ہاں۔ محسن ہوں میں ، پہچانا؟ کہو کیا بات ہے؟ بات تو کوئی نہیں، بس ایسے ہی بات کرنی ہے۔ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ اچھا ! شکریہ ۔ یہ کہہ کر میں نے ریسور رکھ دیا۔
اب روز فون آنے لگا۔ عصر کی نماز کے وقت ، آپی باروچی خانے ہوتیں، امی نماز پڑھ رہی ہوتیں تبھی گھنٹی بجتی، میں فون اٹھاتی، محسن صاحب، ایک دواوٹ پٹانگ باتیں کرتے اور فون رکھ دیتے۔ مجھے بھی مزہ آنے لگا۔ اس کو بے وقوف بنانے لگی۔ سوچا دو چار باتیں کرنے سے میرا کیا جاتا ہے ، لیکن وہ مذاق جن کو ہم معمولی سمجھتے ہیں کبھی کبھی سنگین صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ خبر ہوتی کہ جو مذاق میں محسن سے کر رہی ہوں وہ اس قدر سنگین ہو جائے گا کہ اس کی جان چلی جائے گی، تو ہر گزنہ کرتی۔ انہی دنوں آپا فرح کی شادی کی تاریخ ٹھہرائی گئی تو مولوی صاحب کے گھر بھی شادی کا کارڈ بھجوا دیا گیا۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ شادی کے کارڈ پر فرح کا نام دیکھ کر محسن کی سٹی گم ہوجائے گی۔ وہ یہی سمجھا کہ میری شادی ہورہی ہے۔ اس نے بوکھلا کر مجھے فون کیا۔
پہلے امی، پھر ابو نے فون اٹھایا۔ اس نے آواز سن کر بات نہیں کی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ یہ محسن ہے۔ خیر مجھے بالآخر فون اٹھانے کا موقعہ مل گیا۔ وہ آواز پہچان کر بولا۔ فرح یہ سب کیا ہے ؟ تم نے تو کہا تھا مجھ سے شادی کرو گی اور اب تمہاری شادی کے کارڈ تک چھپ گئے ہیں۔ میں مجبور ہوں محسن۔ میں نے بن کر کہا۔ ماں باپ کی یہی مرضی ہے ، بغاوت بھی نہیں کرسکتی۔ یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ اس کی آواز روہانسی تھی ۔ مجھے اس کی حالت کا اندازہ تھا۔ فون کی گھنٹیاں بجتی رہتی تھیں اور میں جان کر نہیں اٹھاتی تھی۔ جب اس بیچارے سے کچھ نہ بن پڑا تو ایک رقعہ لکھا اور میرے بھتیجے کے ہاتھ بھیج دیا کہ جا کر اپنی دلہن پھپو کو دے آؤ۔
فرح آپی مایوں بیٹھی ہوئی تھیں۔ منو تو معصوم تھا۔ اس نے رقعہ ابو کے سامنے ہی لا کر آپی کو تھما دیا اور کہا۔ پھپھو یہ سامنے والے محسن انکل نے آپ کو بھجوایا ہے۔ جب آپی نے خط کھولا تو ان کا رنگ اڑ گیا۔ کیا بات ہے بیٹی ؟ والد نے پوچھا اور رقعہ آپی سے لے کر پڑھا تو ان کا چہری متغیر ہو گیا انہوں نے پوچھا۔ یہ کیا معاملہ ہے، اللہ پاک کی قسم ! مجھے نہیں پتا کہ کس کا ہے خط۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگیں۔
ابو نے خط پڑھ کر امی کو دیا اور امی نے مجھے دیا، بولیں۔ رابو پڑھ کر سنا، کیا لکھا ہے ؟ لکھا تھا۔ جان سے پیاری فرح ! تم تو کہا کرتی تھیں کہ شادی تم ہی سے کروں گی ورنہ زہر کھا کر مر جاؤں گی اور اب کسی اور کی ہونے جارہی ہو۔ مجھے کہتی تھیں بے وفائی نہ کرنا اور اب خود بے وفائی کر رہی ہو ۔ سچ کہتا ہوں فرح اگر تم کسی اور کی ڈولی میں بیٹھیں میں جان دے دوں گا۔ تمہارا محسن۔ امی نے خط سنا ماتھے پر ہاتھ مار کر بولیں۔ ہارے ری فرح، تو بڑی چھپی رستم نکلی۔ کیا میں نے تجھے اسی دن کے لئے پالا تھا۔ وہ رونے لگیں۔ آپی بھی رونے لگیں۔ دونوں کو روتا دیکھ کر میرا دل کٹ گیا۔ ابو آپی کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ ادھر آپی کا بس نہیں چلتا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔ شادی کے گھر میں ماتم کدہ کی سی فضا ہو گئی۔
مجھ کو اور کچھ نہ سوجھا تو جھٹ مولوی صاحب کے گھر چلی گئی اور خالہ اچھی کے سامنے رونا شروع کر دیا۔ مولوی صاحب بھی گھر پر تھے۔ پوچھنے لگے ، بیٹی، کیا ہوا؟ کیوں رورہی ہو ؟ میں نے محسن کا خط آگے کر دیا اور روتی اور محسن کو بددعائیں دیتی واپس گھر لوٹ آئی۔ ایک گھنٹے بعد فون کی گھنٹی بجی، سمجھ گئی یہ محسن ہی ہو گا۔ ابو باہر چلے گئے تھے ، میں نے دوڑ کر فون اٹھا لیا۔ میرا اندازہ درست تھا۔ یہ محسن ہی تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتا میں نے اسے سنانی شروع کر دیں کہ خدا کا خوف نہیں ہے تم کو اگر اپنے عشق میں سچے ہو تو جاؤ ڈوب مرو۔ تم تو کہتے تھے کہ اگر تم نے بے وفائی کی تو جان دے دوں گا۔ تو اب دے دو نا جان، یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔
مجھے اصل میں غصہ اس بات کا تھا کہ محسن نے خط لکھ کر کیوں منو کو دیا کہ آپی کی ، امی ابو کے سامنے اتنی سبکی ہو گئی۔ وہ بھی ایسے وقت جب ان کی رخصتی ہونے والی تھی۔ تمام عرصہ انہوں نے یہاں سے پیار اور عزت پائی اور اب وداع ہوتے وقت وہ میرے والدین کی بے رخی کا دکھ دامن میں سمیٹ کر جارہی تھیں۔ وہ کونے میں بیٹھی مسلسل رو رہی تھیں اور میں چور بنی ان کو دلاسا بھی دے نہ پا رہی تھی۔ اپنا جرم کیسے قبولتی۔ ابوجو میری شامت لاتے اس کا کیا احوال لکھوں۔ آپا کو تو انہوں نے محض بے رخی سے دیکھا تو ان کا یہ حال ہو گیا تھا۔
وہ اپنی اس یتیم بھتیجی سے بہت پیار کرتے تھے جس کو پیدائش کے فورا بعد پیار سے پالا تھا۔ رخصتی کی وجہ سے میں نے زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا۔ سوچا جو ہونا تھا، ہو چکا۔ آپی کل رخصت ہو جائیں گی۔ میں محسن سے کوئی ناتا نہیں رکھوں گی اور یہ کہانی آپ ہی اب اختتام پذیر ہو جائے گی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ دل کی لگی کیا ہوتی ہے اور سچے عاشق کیا کر گزرتے ہیں کیا جانتی تھی کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ کاش مجھے اتنی عقل ہوتی تو میں محسن کو اصل بات بتا دیتی کہ فرح میں نہیں، میری آپی ہیں۔ کم از کم محسن کی جان تو نہ جاتی۔
مولوی صاحب بیچارے کو بڑھاپے میں اکلوتی اولاد کی موت کا دکھ نہ سہنا پڑا۔ آپی کی شادی والے دن جب ہمارے گھر میں ہر طرف خوشیاں بکھری ہوئی تھیں، محسن کبڑے نے ایک بار پھر ہماری خوشیوں پر پانی پھیر دیا۔ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ بارات کا استقبال کرنے کی تیاری کر رہی تھی ، اچانک گلی میں شور سنائی دیا کہ مولوی صاحب کے لڑکے کی موت ہو گئی ہے۔ ہمارے گھر میں بارات آگئی، ہم اپنی میں پڑ چکے تھے لیکن میرا دل رورہا تھا کیونکہ مجھ منحوس کی وجہ ہی سے تو ان کے گھر کا اکلوتا چراغ بجھ گیا تھا۔ کاش میں ہوش کے ناخن لیتی تو وہ جان سے نہ گزرتا۔
اس واقعہ کے بعد مجھے ہوش آگیا اور میں نے لاابالی پن کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہ دیا اور ایک سنجیدہ اور متین لڑکی بن گئی۔ اب تو بڑھاپے میں قدم رکھ چکی ہوں مگر محسن کا غم آج بھی دل میں ہے۔ اس معصوم انسان کو میں کبھی نہیں بھلا
سکتی۔
0 تبصرے