رات کا اندھیرا ہر طرف چھایا ہوا تھا، اور شہر کی چمکتی روشنیوں نے گلیوں کو کسی خواب کی مانند روشن کر رکھا تھا۔ ایک پرانی اور ویران کوٹھی، جو کبھی اپنی شان و شوکت کے لیے مشہور تھی، اب وقت کے ہاتھوں اپنی جلالت کھو چکی تھی۔ دیواریں زرد پڑ چکی تھیں، چھت کے کونے جھڑنے لگے تھے، اور ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔
زاہد علی، کوٹھی کے ایک چھوٹے مگر صاف ستھرا کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ کمرے کی دیوار پر ایک پرانی تصویر لگی ہوئی تھی جس میں اس کے والد، حاجی بشیر احمد، مسکراتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ حاجی بشیر احمد شہر کے ایک مشہور تاجر تھے، جن کے پاس بے پناہ دولت تھی اور وہ اپنی سخاوت کے لیے جانے جاتے تھے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد زاہد علی کے لیے سب کچھ بدل گیا تھا۔
زاہد ایک پرانی کرسی پر بیٹھا، ایک خالی چائے کے کپ کو گھورتے ہوئے اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔ "یہ سب میرا قصور نہیں ہے،" وہ خود سے بڑبڑایا۔ "یہ دنیا ہی ایسی ہے۔ دولت کے بغیر انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔"
اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھلا، اور زاہد کا چھوٹا بھائی فراز علی اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آ رہی تھی۔ "بھائی، ہمیں جلدی کچھ کرنا ہوگا۔ قرض خواہ ہر روز دروازے پر آتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ اگر ہم نے رقم کا انتظام نہ کیا تو وہ ہماری یہ کوٹھی بھی چھین لیں گے۔"
زاہد نے ایک گہری سانس لی اور کرسی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ باہر کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے وہ بولا، "میں جانتا ہوں، فراز۔ مگر سوال یہ ہے کہ کریں تو کیا کریں؟ ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں بچا۔"
فراز نے مایوسی سے جواب دیا، "بھائی، ہمیں کوئی حل نکالنا ہوگا۔ ورنہ یہ سب ختم ہو جائے گا۔"
زاہد کچھ لمحے خاموش رہا، پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے پلٹ کر فراز کی طرف دیکھا اور کہا، "ایک راستہ ہے، مگر وہ خطرناک ہے۔ ہمیں اپنے اصولوں کو قربان کرنا ہوگا۔"
فراز چونک گیا۔ "بھائی، کیا مطلب؟ کیا آپ بھی ان لوگوں کی طرح بننا چاہتے ہیں جو دولت کے لیے ہر حد پار کر جاتے ہیں؟"
زاہد نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "فراز، یہ دنیا اصولوں پر نہیں چلتی۔ اگر ہمیں عزت اور سکون چاہیے تو ہمیں اس کھیل کا حصہ بننا ہوگا۔ دولت کے بغیر نہ عزت ہے اور نہ سکون۔"
فراز خاموش ہو گیا۔ اس کی نظریں زمین پر جمی رہیں، اور وہ سوچنے لگا کہ کیا یہ راستہ اختیار کرنا صحیح ہوگا؟
اسی دوران، دروازے پر ایک دستک ہوئی۔ زاہد نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی شخص کھڑا تھا۔ اس کا لباس نہایت شاندار تھا، اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ اس نے زاہد کو ایک سنہری لفافہ تھمایا اور پراسرار لہجے میں کہا، "یہ آپ کے لیے ہے۔ یہ آپ کی زندگی بدل سکتا ہے، اگر آپ تیار ہوں۔"
زاہد نے حیرانی سے لفافہ لیا اور دروازہ بند کر دیا۔ فراز نے بے چینی سے پوچھا، "یہ کون تھا اور یہ کیا ہے؟"
زاہد نے لفافہ کھولا۔ اس میں ایک خوبصورت دعوت نامہ تھا، جس پر سنہری حروف میں لکھا تھا:
"دولت کے کھیل میں خوش آمدید۔ اگر آپ جیت گئے، تو سب کچھ آپ کا ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ آپ کو اپنی روح بیچنی ہوگی۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔"
زاہد کے ہاتھ لرزنے لگے۔ اس کی آنکھوں میں خوف اور تجسس کے ملے جلے جذبات تھے۔ فراز نے کہا، "بھائی، آپ یہ سب مت کریں۔ ہمیں اپنی حالت میں صبر کرنا چاہیے۔"
مگر زاہد نے لفافہ مضبوطی سے تھام لیا اور سنجیدگی سے کہا، "فراز، صبر کرنے والوں کے نصیب میں کچھ نہیں ہوتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی تقدیر بدلیں۔"
یہ کہتے ہوئے زاہد نے دعوت قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں دونوں بھائیوں کی زندگی ایک ایسے سفر پر نکل پڑی، جہاں خطرات، فریب، اور آزمائشیں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
شہر کی روشنیوں میں ایک پراسرار سی کشش تھی، جو زاہد علی کے دل میں عجب سی بے چینی پیدا کر رہی تھی۔ دعوت قبول کرنے کے بعد زاہد نے وہ لفافہ احتیاط سے اپنی میز کی دراز میں رکھ دیا، لیکن اس کے اندر پیدا ہونے والی بے سکونی ختم نہیں ہو رہی تھی۔ فراز خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا، مگر اس کی آنکھوں میں تشویش کے آثار نمایاں تھے۔
اگلی صبح، زاہد کو ایک اور حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ دروازے پر ایک اور دستک ہوئی، اور جب زاہد نے دروازہ کھولا تو سامنے وہی اجنبی شخص کھڑا تھا۔ اس بار اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بکس تھا۔
"یہ بکس آپ کے لیے ہے،" اجنبی نے کہا۔ "اسے کھول کر دیکھیں۔ یہ آپ کے کھیل کا پہلا قدم ہے۔"
زاہد نے بکس لیتے ہوئے پوچھا، "یہ سب کیا ہے؟ آپ کون ہیں اور یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟"
اجنبی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "یہ سب سوالات آپ کے وقت پر واضح ہو جائیں گے۔ ابھی آپ کو صرف اپنے مقصد پر توجہ دینی ہے۔ یاد رکھیں، ہر فیصلے کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور یہ بکس آپ کے فیصلے کی ابتدا ہے۔"
زاہد نے بکس کھولا تو اس کے اندر کچھ نوٹ، ایک چمکتی ہوئی گھڑی، اور ایک چھوٹا سا کاغذ تھا۔ کاغذ پر ایک پتہ لکھا ہوا تھا، اور ساتھ ہی وقت کا تعین کیا گیا تھا۔
"یہ پتہ کیا ہے؟" زاہد نے حیرانی سے پوچھا۔
اجنبی نے ایک بار پھر پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کی قسمت آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ یاد رکھیں، وقت پر پہنچنا ضروری ہے۔"
اجنبی کے جانے کے بعد زاہد نے وہ کاغذ فراز کو دکھایا۔ فراز نے پریشانی سے کہا، "بھائی، مجھے یہ سب ٹھیک نہیں لگتا۔ یہ لوگ ہمیں کسی خطرناک کھیل میں پھنسا رہے ہیں۔"
زاہد نے فراز کو تسلی دیتے ہوئے کہا، "فراز، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ موقع ہمیں اس تباہی سے نکال سکتا ہے۔ اگر ہم یہ موقع کھو دیں تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟"
فراز نے خاموشی اختیار کی، مگر اس کے دل میں اب بھی وسوسے تھے۔
شام کو زاہد نے اس پتہ پر پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک سنسان گلی میں واقع ایک پرانی عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔ عمارت کے دروازے پر ایک بڑی سی تختی لگی ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا: "خوش آمدید: دولت کے متلاشی"۔
زاہد نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا۔ اندر کا منظر کسی خواب کی مانند تھا۔ ایک وسیع ہال، جس کی دیواریں سنہری رنگ سے مزین تھیں، اور درمیان میں ایک لمبی میز پر بیش قیمت اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ہال کے ایک کونے میں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے، جن کی نظریں زاہد پر جمی تھیں۔
ایک شخص، جو شاید اس کھیل کا میزبان تھا، زاہد کی طرف بڑھا۔ وہ لمبا، خوش پوش اور باوقار شخصیت کا مالک تھا۔ "زاہد علی، خوش آمدید!" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ "آپ نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا۔ یہ کھیل آپ کی تقدیر بدل سکتا ہے۔"
زاہد نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "یہ سب کیا ہے؟ میں یہاں کیوں ہوں؟"
میزبان نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "یہ کھیل ان لوگوں کے لیے ہے جو دولت کے حقیقی معانی سمجھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں، ہر کھیل کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ اگر آپ جیت گئے، تو سب کچھ آپ کا ہوگا۔ لیکن اگر ہار گئے، تو..." اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی، مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
زاہد کے دل میں خوف اور تجسس کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک ایسے راستے پر چل پڑا ہے، جہاں واپسی ممکن نہیں۔
رات کے گہرے سائے ہال کے اندر پھیل رہے تھے، اور زاہد علی کا دل بے ترتیب دھڑکنوں سے لبریز تھا۔ میزبان کے الفاظ اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہے تھے: "اگر آپ جیت گئے تو سب کچھ آپ کا ہوگا، لیکن اگر ہار گئے..."
زاہد نے ایک لمحے کے لیے اپنی نظروں کو گھمایا۔ ہال کے ہر کونے میں لگژری کی نشانیاں نظر آ رہی تھیں۔ قیمتی فانوس، ریشمی پردے، اور خوبصورت قالین، ہر چیز اس دنیا کی دولت کا مظہر تھی۔ لیکن ان تمام چمکتی چیزوں کے پیچھے ایک عجیب سی خاموشی چھپی ہوئی تھی، جو زاہد کو بے چین کر رہی تھی۔
میزبان نے ہلکے لہجے میں کہا، "آئیے، کھیل کے قوانین کو سمجھتے ہیں۔" وہ زاہد کو میز کے قریب لے گیا، جہاں دیگر شرکاء پہلے سے موجود تھے۔ میز کے وسط میں ایک سنہری گھڑی رکھی تھی، جس کی سوئیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔
"یہ کھیل تین مراحل پر مشتمل ہے،" میزبان نے وضاحت کی۔ "ہر مرحلے میں آپ کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا، اور ہر فیصلہ آپ کو یا تو فتح کی طرف لے جائے گا یا شکست کی طرف۔ لیکن یاد رکھیں، ہر فیصلہ آپ کی زندگی کے کسی پہلو کو متاثر کرے گا۔"
زاہد نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا، "اور اگر کوئی ہار جائے تو؟"
میزبان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ "جو ہارتا ہے، وہ اپنی آزادی کھو دیتا ہے۔ لیکن جو جیتتا ہے، وہ اس دنیا کا بادشاہ بن جاتا ہے۔"
زاہد کے اندر خوف اور تجسس کا ملا جلا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔
پہلا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔ میزبان نے ایک صندوق کھولا، جس میں تین خانے بنے ہوئے تھے۔ ہر خانے میں ایک چیز رکھی گئی تھی: ایک چمکتا ہوا سونا کا سکہ، ایک پرانی کتاب، اور ایک بند لفافہ۔ میزبان نے کہا، "آپ کو ان میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ انتخاب آپ کی ذہانت اور آپ کی تقدیر کو ظاہر کرے گا۔"
زاہد نے غور سے تینوں چیزوں کو دیکھا۔ سونے کا سکہ اسے دولت کا وعدہ کر رہا تھا، کتاب علم کی علامت تھی، اور لفافہ پراسرار تھا۔ فراز کا چہرہ اس کے ذہن میں آیا، جو ہر وقت اسے نصیحت کرتا تھا کہ جلد بازی میں فیصلے نہ کرے۔
زاہد نے گہری سانس لی اور کہا، "میں لفافہ چنوں گا۔"
میزبان نے حیرانی سے کہا، "دلچسپ انتخاب۔" اس نے لفافہ زاہد کے ہاتھ میں دیا اور کہا، "اسے کھولیے۔"
زاہد نے دھڑکتے دل کے ساتھ لفافہ کھولا۔ اس کے اندر ایک کاغذ تھا، جس پر لکھا تھا:
"زندگی کی سب سے بڑی قیمت وہ ہوتی ہے جو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اپنی آنکھوں پر یقین کرنا چھوڑیں اور اپنے دل کی سنیں۔"
زاہد الجھن میں پڑ گیا۔ یہ پیغام کیا مطلب رکھتا تھا؟ میزبان نے مسکراتے ہوئے کہا، "پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ اب آپ کو دوسرے مرحلے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔"
رات گزر چکی تھی، اور زاہد کے ذہن میں بے شمار سوالات تھے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کھیل آسان نہیں ہوگا، لیکن اسے ایک امید کی کرن نظر آ رہی تھی۔ اگرچہ یہ راستہ خطرناک تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ایک نئے سفر کی ابتدا کر چکا ہے، جہاں ہر قدم اس کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
رات کا گزر جانا صرف وقت کی گزرگاہ تھی، لیکن زاہد کے لیے یہ رات بہت بھاری تھی۔ کھیل کے پہلے مرحلے میں اس نے جو فیصلہ کیا، وہ اب تک اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ وہ لفافے کا پیغام، جو ایک معما لگ رہا تھا، اس کے دل و دماغ میں سوالات پیدا کر رہا تھا۔
صبح ہوئی تو میزبان نے تمام شرکاء کو ایک بار پھر مرکزی ہال میں بلایا۔ ہال میں پراسرار سکوت طاری تھا۔ میزبان نے سب کو خوش آمدید کہتے ہوئے اعلان کیا، "اب دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگا۔"
اس نے ایک بڑی اسکرین کی طرف اشارہ کیا، جو ہال کے درمیان نصب تھی۔ اسکرین پر ایک جنگل کا منظر دکھایا گیا، جس کے بیچوں بیچ ایک دشوار گزار راستہ تھا۔ میزبان نے وضاحت کی، "یہ جنگل تمہاری ہمت اور ذہانت کا امتحان ہے۔ ہر شخص کو ایک نشانی دی جائے گی، جو اس کے راستے کا تعین کرے گی۔ یاد رکھو، تمہاری کامیابی نہ صرف تمہاری زندگی کو بدل سکتی ہے بلکہ اس کھیل کی گہرائی کو بھی ظاہر کرے گی۔"
زاہد کو ایک چھوٹا سا کمپاس دیا گیا، جس پر ایک سرخ اور ایک نیلی سوئی تھی۔ کمپاس کو دیکھ کر وہ مزید الجھن میں پڑ گیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ کس مقصد کے لیے دیا گیا ہے۔ میزبان نے کہا، "یہ کمپاس تمہاری رہنمائی کرے گا، لیکن راستے کے دوران تمہیں اپنی عقل کا استعمال کرنا ہوگا۔"
شرکاء کو الگ الگ دروازوں سے جنگل میں بھیجا گیا۔ زاہد کے سامنے درختوں کا ایک گھنا جنگل تھا، جہاں روشنی کم اور سکوت زیادہ تھا۔ وہ کمپاس کو ہاتھ میں تھامے آگے بڑھنے لگا۔ سرخ سوئی مسلسل ایک طرف اشارہ کر رہی تھی، لیکن زاہد کا دل کہہ رہا تھا کہ نیلی سوئی کی طرف جانا بہتر ہوگا۔
راستے میں اسے کئی نشانیاں ملیں۔ پہلا اشارہ ایک قدیم درخت کے تنے پر کھدے ہوئے الفاظ تھے:
"سچائی کی تلاش میں ہار جیت نہیں ہوتی۔ صرف دل کی آواز کو سنو۔"
زاہد نے یہ پڑھ کر سوچا، "کیا میرا فیصلہ صحیح تھا؟ کیا مجھے واقعی دل کی سننی چاہیے؟"
راستے میں اسے ایک اور شرکاء ملا، جو زخمی حالت میں زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ زاہد نے اس سے پوچھا، "تم یہاں کیسے پہنچے؟"
وہ شخص کراہتے ہوئے بولا، "میں نے کمپاس کی سرخ سوئی کا پیچھا کیا، لیکن راستہ غلط نکلا۔ مجھے پتھروں اور کانٹوں نے زخمی کر دیا۔ تمہیں محتاط رہنا ہوگا۔"
زاہد نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ شخص مزید چلنے کے قابل نہیں تھا۔ زاہد نے دل میں کہا، "شاید نیلی سوئی ہی صحیح راستہ دکھائے گی۔"
کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد زاہد ایک چوٹی پر پہنچا، جہاں ایک بورڈ لگا ہوا تھا۔ بورڈ پر لکھا تھا:
"مبارک ہو، تم نے دوسرے مرحلے کا پہلا حصہ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ اب تمہیں واپس ہال پہنچنا ہوگا، جہاں تمہارا اگلا امتحان انتظار کر رہا ہے۔"
زاہد کے دل میں خوشی اور بے چینی کا ملا جلا جذبہ تھا۔ اس نے نیلی سوئی کی رہنمائی پر یقین کیا اور واپسی کے لیے سفر شروع کر دیا۔
جب زاہد ہال میں واپس پہنچا تو وہاں صرف تین لوگ موجود تھے۔ میزبان نے مسکراتے ہوئے کہا، "تم نے اپنی ذہانت اور دل کی بات سننے کا ثبوت دیا۔ لیکن یاد رکھو، ابھی امتحان ختم نہیں ہوا۔ اصل کھیل ابھی باقی ہے۔"
زاہد کی نظریں دوسرے شرکاء پر تھیں، جو تھکے ہوئے اور پریشان نظر آ رہے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ سفر آسان نہیں ہوگا، لیکن وہ جان چکا تھا کہ یہ راستہ صرف ہمت اور صبر سے عبور کیا جا سکتا ہے۔
رات کے سناٹے میں ہال کی فضا ایک غیر معمولی خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ زاہد، دوسرے شرکاء کے ساتھ، میزبان کے اعلان کا انتظار کر رہا تھا۔ میزبان نے مسکراتے ہوئے کہا، "اب وقت ہے کہ ہم کھیل کے تیسرے اور آخری مرحلے کی طرف بڑھیں۔ یہ مرحلہ تمہاری تمام صلاحیتوں کا امتحان لے گا، کیونکہ یہاں تمہاری قسمت کا فیصلہ ہوگا۔"
ہال کے درمیان میں ایک بڑی میز رکھی گئی تھی، جس پر تین سیف موجود تھے۔ ہر سیف کے اوپر ایک نمبر لکھا تھا: 1، 2، اور 3۔ میزبان نے کہا، "ان تین سیفوں میں سے ایک میں وہ چیز ہے جو تمہاری زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے۔ لیکن باقی دو میں تمہارے لیے خطرہ چھپا ہوا ہے۔ تمہیں ایک سیف کا انتخاب کرنا ہوگا، لیکن یاد رکھو، تمہارا انتخاب تمہاری قسمت پر مہر لگائے گا۔"
زاہد نے سیفوں کی طرف دیکھا۔ ہر سیف مضبوط اور پراسرار دکھائی دے رہا تھا۔ میزبان نے کہا، "اس کھیل میں تمہیں تین اشارے دیے جائیں گے۔ ان اشاروں کو سمجھنا اور ان کی بنیاد پر فیصلہ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔"
پہلا اشارہ اسکرین پر نمودار ہوا:
"جس چیز کو دیکھنے میں مشکل ہو، وہی سب سے قیمتی ہوتی ہے۔"
زاہد نے غور کیا۔ اس اشارے نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ شاید سیف نمبر 2 سب سے مناسب انتخاب ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کے گرد موجود روشنی مدھم تھی اور وہ دوسروں کی نسبت کم نمایاں نظر آ رہا تھا۔
دوسرا اشارہ میزبان نے دیا:
"خطرے کو قبول کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔"
یہ اشارہ زاہد کو ہچکچاہٹ میں ڈال رہا تھا۔ سیف نمبر 1 سب سے بڑا اور مضبوط لگ رہا تھا، لیکن شاید یہی خطرے کی نشانی تھی۔ زاہد نے دل ہی دل میں کہا، "کیا مجھے اس اشارے پر بھروسہ کرنا چاہیے؟"
تیسرا اشارہ اسکرین پر ظاہر ہوا:
"دل کی آواز ہمیشہ سچ بولتی ہے۔"
یہ اشارہ زاہد کے لیے واضح تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگرچہ اشارے متضاد تھے، لیکن دل کی آواز پر یقین کرنا ہی اصل راز تھا۔ اس نے اپنی تمام تر توجہ سیف نمبر 3 پر مرکوز کی، جو سادہ اور غیر نمایاں نظر آ رہا تھا۔
میزبان نے کہا، "اب وقت آ گیا ہے کہ تم اپنا انتخاب کرو۔ لیکن یاد رکھو، یہ فیصلہ تمہارے مستقبل کا تعین کرے گا۔"
زاہد نے گہری سانس لی اور سیف نمبر 3 کی طرف اشارہ کیا۔ میزبان نے اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "بہت خوب! آئیے دیکھتے ہیں کہ تمہاری قسمت کیا کہتی ہے۔"
میزبان نے سیف کھولا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا کاغذ رکھا تھا، جس پر لکھا تھا:
"تمہاری ہمت اور ایمان نے تمہیں کامیاب کر دیا ہے۔ یہی وہ راستہ تھا جس پر چل کر تم اپنی منزل تک پہنچے۔"
زاہد نے کاغذ کو ہاتھ میں لے کر دیکھا تو ایک دروازہ کھل گیا، جو ایک نئی دنیا کی طرف لے جا رہا تھا۔ میزبان نے کہا، "یہ تمہاری کامیابی کا انعام ہے۔ اب تم آزاد ہو اور اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتے ہو۔ لیکن یاد رکھو، تمہاری یہ جیت تمہاری ہمت اور دل کی سچائی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔"
زاہد نے قدم آگے بڑھایا، اور ایک روشن دنیا اس کے سامنے تھی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی زندگی کو بدل دے گا، لیکن اس نے یہ بھی سیکھا کہ دولت اور طاقت صرف ان کے لیے معنی رکھتی ہے جو دل کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں۔
0 تبصرے