عارف گیسٹ ہاؤس کے باورچی خانے میں کھڑا تھا، کملا کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دبا ہوا۔ “تم نے انتخاب کیا۔ اب اس کے ساتھ جیو۔” الفاظ اس کے ذہن میں گونج رہے تھے، ہر لمحے کے ساتھ اس کے عزم کو کمزور کرتے ہوئے۔ اس کی بازو پر موجود نشان اب اس کے سینے تک پھیل چکا تھا، اس کی جلد کے نیچے ایک سیاہ، گھماؤ دار نقش حرکت کر رہا تھا، جیسے کوئی زندہ چیز اس کے جسم کو اپنا گھر بنا رہی ہو۔ وہ جانتا تھا کہ لعنت اب اس کے اندر ہے، اس کے خون میں، اس کی روح میں۔ لیکن وہ ہار ماننے والا نہیں تھا۔
اس نے اپنا بیک پیک اٹھایا، اس میں باقی رہ جانے والی چیزیں چیک کیں: ٹارچ، چھری، اور وہ کلہاڑی جس سے اس نے پتھر کو توڑا تھا۔ ریکارڈر اب بھی اس کی جیب میں تھا، لیکن اس نے اسے چھونے سے گریز کیا۔ اسے ڈر تھا کہ وہ سرگوشیوں کے بجائے اپنی ہی آواز کو ایک اجنبی، غیر فطری لہجے میں سنے گا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ باہر دھند اب ہلکی تھی، لیکن اس کی جگہ ایک عجیب سی خاموشی نے لے لی تھی—ایک ایسی خاموشی جو موت سے بھی بدتر تھی۔
قصبہ ایک بھوتوں کا شہر بن چکا تھا۔ گلیاں خالی تھیں، گھروں کے دروازے کھلے ہوئے، لیکن اندر کوئی نہیں تھا۔ رمیش، پنڈت جگدیش، اور دوسرے قصبے کے لوگ—وہ سب اب لعنت کا حصہ تھے، ان کے جسم مردہ لیکن حرکت کرنے والے، ان کی دودھیا آنکھیں اسے بلاتی ہوئی۔ عارف نے اپنی نظریں زمین پر رکھیں اور جنگل کی طرف چل پڑا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اس کی آخری لڑائی ہے۔ یا تو وہ لعنت کو توڑ دے گا، یا وہ اس کا حصہ بن جائے گا—ہمیشہ کے لیے۔
جنگل اسے ایک پرانے دشمن کی طرح استقبال کر رہا تھا۔ درختوں کے سائے اب اور لمبے تھے، ان کی شاخیں اس کے کپڑوں کو چھوتی ہوئی، جیسے وہ اسے روکنا چاہتی ہوں۔ دھند پتلی تھی، لیکن ہوا میں ایک عجیب سی گرمی تھی، جیسے جنگل خود سانس لے رہا ہو۔ سرگوشیاں واپس آ گئی تھیں، لیکن اب وہ اس کے اندر سے آ رہی تھیں، اس کے دل کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ۔ اس نے اپنی ٹارچ جلائی، لیکن روشنی کمزور تھی، جیسے جنگل اسے نگل رہا ہو۔
وہ کھنڈر تک پہنچا، جہاں گڑھا اب ایک سیاہ، چپچپے مادے سے بھرا ہوا تھا—وہی مادہ جو پتھر کی دراڑ سے نکلا تھا۔ ٹوٹا ہوا پتھر اب بھی گڑھے کے بیچ میں تھا، اس کے ٹکڑوں پر سرخ دھبے چمکتے ہوئے۔ لیکن کچھ بدل گیا تھا۔ گڑھے کے گرد ہوا وائبریٹ کر رہی تھی، اور زمین کے نیچے سے ایک گہری، گھرگھراتی آواز آ رہی تھی، جیسے کوئی بہت بڑی چیز جاگ رہی ہو۔
عارف نے اپنی کلہاڑی مضبوطی سے پکڑی اور گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہو گیا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا، لیکن اس کا عزم پختہ تھا۔ اس نے اپنی نوٹ بک نکالی اور اسے زمین پر رکھ دیا۔ اگر وہ یہاں مر گیا، تو کم از کم کوئی اس کی کہانی پڑھے گا۔ اس نے اپنا ریکارڈر نکالا اور بولنا شروع کیا۔ “یہ میرا آخری پیغام ہے۔ میں نے پتھر کو توڑ دیا، لیکن لعنت آزاد ہو گئی۔ اب یہ مجھ میں ہے۔ لیکن میں اسے روکوں گا۔ کسی نہ کسی طرح۔”
اس نے ریکارڈر بند کیا اور گڑھے میں اترنا شروع کیا۔ چپچپا مادہ اس کے گھٹنوں تک پہنچ گیا، اس کی جلد کو جلاتا ہوا۔ وہ پتھر کے ٹکڑوں تک پہنچا اور اپنی کلہاڑی اٹھائی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ وار کرتا، سرخ آنکھوں والی ہستی دوبارہ ظاہر ہوئی، اس کا دھوئیں سا جسم گڑھے کے اوپر تیرتا ہوا۔ اس بار اس کا چہرہ زیادہ واضح تھا—ایک عجیب، غیر انسانی چہرہ، جس کی آنکھیں خون کی طرح چمکتی تھیں۔
“تم… نہیں… جیت… سکتے…” اس کی آواز ایک طوف.NORTH کی طرح تھی، ہر لفظ عارف کے جسم کو ہلاتا ہوا۔ “یہ… ہمارا… ہے۔ یہ… ہمیشہ… ہمارا… رہے گا۔”
عارف نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف کی جگہ ایک عجیب سا سکون تھا۔ “اگر یہ تمہارا ہے، تو تمہیں اس کے لیے قیمت ادا کرنی ہوگی۔” اس نے اپنی چھری نکالی اور اپنی ہتھیلی پر ایک گہرا کٹ لگایا۔ اس کا خون چپچپے مادے میں گرا، اور ایک لمحے کے لیے، سب کچھ ساکت ہو گیا۔
ہستی چیخ اٹھی، اس کا جسم ہوا میں لہراتا ہوا۔ گڑھے کا مادہ ابلنے لگا، اس سے بھاپ اٹھتی ہوئی۔ عارف نے موقع دیکھا اور کلہاڑی سے پتھر کے ٹکڑوں پر وار کیا، ایک کے بعد ایک، جب تک کہ وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں نہ بٹ گئے۔ ہر وار کے ساتھ، ہستی کی چیخیں بلند ہوتی گئیں، اور گڑھے کا مادہ تیزی سے بہتا ہوا اسے نگلنے لگا۔
لیکن لعنت اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹنے والی تھی۔ شکلیں—قصبے کے لوگ، اب مردہ لیکن حرکت کرنے والے—دھند سے ابھریں، ان کی تعداد سینکڑوں میں۔ وہ عارف کی طرف بڑھے، ان کے ہاتھ اسے پکڑنے کے لیے بڑھتے ہوئے۔ اس نے کلہاڑی گھمائی، ان کے جسموں کو کاٹتا ہوا، لیکن وہ رُک نہیں رہے تھے۔ ان کی دودھیا آنکھیں اسے گھورتی ہوئی، جیسے وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہوں۔
عارف کا جسم تھکاوٹ سے چور تھا، اس کا خون گڑھے میں بہہ رہا تھا۔ اس نے اپنی بازو پر نظر ڈالی، جہاں نشان اب اس کے پورے جسم پر پھیل چکا تھا، اس کی جلد کو ایک سیاہ، چمکدار نقش سے ڈھانپتا ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ لیکن اس نے ایک آخری بار کلہاڑی اٹھائی اور ہستی کی طرف بڑھا۔
“یہ ختم ہوگا!” وہ چیخا، اس کی آواز جنگل میں گونجتی ہوئی۔ اس نے کلہاڑی ہستی کے دھوئیں سے جسم میں گھونپ دی، اور ایک لمحے کے لیے، سب کچھ سفید ہو گیا۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا، اور عارف پیچھے گرا، اس کا جسم گڑھے کے کنارے پر ٹکراتا ہوا۔
جب اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، ہستی غائب تھی۔ شکلیں زمین پر گر چکی تھیں، ان کے جسم اب ساکت، ان کی دودھیا آنکھیں بند۔ گڑھے کا چپچپا مادہ خشک ہو چکا تھا، اور پتھر کے ٹکڑے اب صرف گرد میں بدل چکے تھے۔ جنگل خاموش تھا، سرگوشیاں ہمیشہ کے لیے غائب۔
عارف ہانپتا ہوا لیٹا رہا، اس کا جسم درد سے چیخ رہا تھا۔ اس نے اپنی بازو پر نظر ڈالی۔ نشان اب بھی وہاں تھا، لیکن اس کی چمک ختم ہو چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ لعنت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی—وہ اس کے اندر رہے گی، ہمیشہ۔ لیکن اس نے اسے روک دیا تھا، کم از کم ابھی کے لیے۔
وہ گڑھے سے باہر نکلا، اس کے قدم لڑکھڑاتے ہوئے۔ اس نے اپنی نوٹ بک اور ریکارڈر اٹھایا اور قصبے کی طرف چل پڑا۔ جب وہ گیسٹ ہاؤس پہنچا، کملا دروازے پر کھڑی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک۔
“تم نے کیا، نا؟” اس نے پوچھا، اس کی آواز میں ایک ہلکی سی حیرت تھی۔
عارف نے سر ہلایا۔ “یہ ختم ہو گیا۔ لیکن… میں کبھی وہی نہیں رہوں گا۔”
کملا نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر سر جھکا لیا۔ “کوئی بھی نہیں رہتا۔”
عارف نے اپنا بیک پیک اٹھایا اور قصبے کے بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا۔ دھند اب مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی، اور آسمان پر پہلی بار سورج کی روشنی چمک رہی تھی۔ جب وہ بس اسٹاپ پر پہنچا، ایک پرانی بس اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈرائیور، وہی بوڑھا آدمی جس نے اسے خرم پور لایا تھا، نے اسے دیکھا اور خاموشی سے سر ہلایا۔
عارف بس میں چڑھا، اس کی نظریں پیچھے جنگل کی طرف اٹھیں۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھولے گا—نہ دھند کو، نہ سرگوشیوں کو، نہ اس لعنت کو جو اب اس کے اندر سانس لے رہی تھی۔ بس چل پڑی، خرم پور کو پیچھے چھوڑتی ہوئی، لیکن عارف کی بازو پر موجود نشان ہلکی ہلکی چمک رہا تھا، جیسے یہ اسے یاد دلا رہا ہو کہ لعنت کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی۔
اس نے اپنا ریکارڈر نکالا اور ایک آخری پیغام ریکارڈ کیا۔ “میں نے لعنت کو روک دیا۔ لیکن اس کی قیمت میری آزادی تھی۔ اگر کوئی یہ سن رہا ہے… خرم پور مت جاؤ۔ کبھی نہیں۔”
اس نے ریکارڈر بند کیا اور کھڑکی سے باہر دیکھا۔ جنگل اب ایک دھندلا سا سایہ بن چکا تھا، لیکن اسے لگا کہ وہ سرگوشیاں سن سکتا ہے—ہلکی، لیکن موجود، ہمیشہ اس کا انتظار کرتی ہوئی۔
[ختم شد]
0 تبصرے