آخری گولی - پہلا حصہ

urdu font stories

جوں جوں امتحان قریب آتے جارہے تھے، سلیمان ذہنی دبائو اور گھبراہٹ کا شکار ہوتا چلا جارہا تھا۔ اس کی زندگی دو خانوں میں بٹ گئی تھی۔ تعلیمی سرگرمیاں اور پھر مجرمانہ کارروائیاں… وہ چوبیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا، جسے جاسوسی کہانیوں اور ناولوں میں مثبت اور اصلاحی کرداروں کے برعکس مجرمانہ کرداروں سے رغبت و انسیت ہو چکی تھی۔ 

ایک ناول کے کرمنل ہیرو کا کردار اس کے ذہن پر پوری طرح چھا چکا تھا، جو اپنی خُوبصورت اور حسین و جمیل محبوبہ کی طرح طرح کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کیا کرتا تھا۔ اُسے شرلاک ہومز کے برعکس، چور آرسین لوپین کا کردار زیادہ دلچسپ اور پرکشش محسوس ہوا تھا۔ سلیمان ذہین طالب علم تھا۔ اس میں آگے بڑھنے کی لگن تھی لیکن باپ کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد اس کی رُوح معاشرے کی بے رحم سڑک پر جگہ جگہ زخمی ہوئی چنانچہ وہ اپنے اخراجات اور افتاد طبع کی تسکین کے لیے کہانیوں کے مجرمانہ کرداروں کو پسند کرنے لگا۔ 

وہ نوجوان تھا اور اس کی کمزوری اس کی حسین اور خُوبرو محبوبہ عروہ تھی۔ اس کے ہونٹوں کی دلکش مسکراہٹ دل موہ لینے والی تھی۔ وہ ڈبل ایم اے کر چکی تھی اور چاہتی تھی کہ اس کا ہونے والا خاوند کم از کم ایک ایم اے تو کئے ہوئے ہو۔ عروہ ڈیفنس کے علاقے میں رہتی تھی جبکہ سلیمان محمود آباد کی متوسط آبادی میں اپنے ایک دوست کے فلیٹ میں گزر بسر کر رہا تھا۔ وہ اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ باپ کی وفات کے کچھ عرصے بعد ہی اس کی والدہ بھی ایک حادثے میں چل بسی تھیں۔ جب والد اور والدہ دونوں چلے گئے تو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُسے ایسا معلوم ہوا جیسے لوگوں کے چہروں سے طرح طرح خول اترنے شروع ہو گئے ہیں۔ 

وہ بےرحم چہروں اور سنگ دل ویرانوں میں بدل گئے ہیں۔ ایک دن وہ قسطوں پر لی ہوئی اپنی بائیک پر عروہ کی فرمائش کی تکمیل میں چلا جارہا تھا کہ صدر کے علاقے سے ڈیفنس مین روڈ پر آتے ہوئے اس کی بائیک سڑک کی کھدائی اور تنگ راستے کے باعث سیٹھ پرویز خان کی کار سے ٹکرا گئی اور کار کی باڈی پر لمبی لائن پہنچ گئی۔ پرویز خان غصے اور اشتعال کے عالم میں نیچے اترا اور اس پر سرتاپا نگاہ ڈالی۔ اس کے لمبے قد ، مضبوط جسم ، آگے بڑھنے کی لپک نے پرویز خان کا غصہ اتار دیا اور اُس نے اُسے اپنی تنظیم کا جزو بنا کر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں سلیمان، پرویز خان کی دعوت پر رات کے وقت اس کی کوٹھی میں چلا آیا۔ پرویز خان نے اُس کے سامنے ایک پروگرام رکھا۔ کمرے کی خُوبصورتی اور آراستگی نے سلیمان کو کچھ ایسا متاثر کیا کہ اس نے پرویز کے مجرمانہ پروگرام کا حصہ بننے کی ہامی بھر لی۔ 

وہ اپنی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔ اب اسے پرویز کے فون کا انتظار رہتا تھا کہ کب کوئی کام اس کے سپرد کیا جائے گا لیکن امتحان کی تیاری کے دوران اس کی توجہ بٹ گئی تھی۔ منقسم ذہن کی وجہ سے سوالات کے جوابات یاد کرنے میں دقت اور الجھن کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لہذا گھبراہٹ اور الجھن نے اضمحلال کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اسی دوران اُسے موبائل فون پر پرویز خان کا پیغام ملا کہ محمود آباد کے آخری سرے پر واقع اس پرانے آسیبی مکان میں چلے آئو، جہاں تمہیں نئے مشن کے متعلق ہدایات دی جاتی ہیں۔ یہ غیر آباد مکانوں کی قطار کے عقب میں ٹیلے پر واقع ایک ویران سا پرانا مکان تھا، جس کے جھڑے ہوئے حصے رات کے وقت خوفناک دکھائی دیتے ہیں۔ اس مکان کے متعلق مشہور تھا کہ یہ آسیب زدہ ہے اور اس کی چھت پر بھوتوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ لہذا رات کو لوگ اس طرف آتے ہوئے گھبراتے تھے۔

رات کے بارہ بجے ٹیلے کے دروازے تک جانے والی پختہ سڑک پر سلیمان کی موٹر سائیکل ہیڈلائٹس کی روشنی میں تیزی سے صدر دروازے کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اُلجھن کے عالم میں سوچ رہا تھا کہ آخر اس راستے کا انجام کیا ہو گا جس پر وہ چل نکلا تھا۔ اگر اُس کی تعلیم ادھوری رہ گئی تو وہ عروہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ عروہ… جس کی مسکراہٹ اور دلکش شخصیت پر وہ ہزار جان سے فدا ہو چکا تھا، اب اُس کی جدائی اس کے لیے سوہان روح تھی۔ ٹھنڈی اور تیز ہوا کے جھونکے شائیں شائیں کا شور مچاتے ہوئے گزر رہے تھے۔ 

جب وہ گیراج میں گاڑی روک کر باہر نکلا اور ملازم نے بیرونی دروازہ اندر سے بند کیا، اسی لمحے بادل بڑے زور سے گرجے ، جیسے آسمانوں پر کسی کی جان لی جارہی تھی۔ وہ بہادر اور دلیر لڑکا تھا۔ گولیاں چلانا، خنجر کے وار کرنا، راتوں کو اپنے مشن پر نکلنا اس کا معمول تھا مگر آج نہ جانے کیوں وہ کچھ خوف سا محسوس کر رہا تھا۔ وہ بے جان قدموں سے چلتا ہوا مختلف راہداریوں سے ہو کر باس کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ کمرا سادہ مگر صاف ستھرا تھا۔ کمرے کے وسطی مقام پر لگی بڑی اور شاندار میز کے پیچھے پرویز خان اپنی آرام کرسی پر بیٹھا جھول رہا تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں تیز چمک تھی۔ اچانک کرسی کی حرکت رُک گئی۔ 

سلیمان کو اس کی نظریں اپنے جسم میں اترتی محسوس ہوئیں ، جیسے وہ اس کا ایکسرے لے رہا ہو۔ اُس نے سلیمان پر ایک بھر پور نگاہ ڈالی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے بولا۔ کیا بات ہے ؟ آج تم کچھ سست اور اداس معلوم ہوتے ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمہارا دل و دماغ کہیں اور الجھا ہوا ہے۔ کوئی خاص بات نہیں باس ! بس امتحان سر پر ہے۔ اگر آپ اپنا پروگرام ملتوی کر دیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ سلیمان نے خشک ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ بیٹے ! معاملہ فوری نوعیت کا ہے۔ دیر ہونے پر ہمیں بڑا نقصان اُٹھانا پڑے گا اور میں اِس وقت نقصان اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ میرے نزدیک آئو۔ پرویز خان کی آواز تحکمانہ ہو گئی۔ سلیمان خان اپنی نشست سے اٹھ کر بڑی میز کے قریب آیا تو اس نے نوٹوں کی ایک بڑی گڈی اور ایک کاغذ کا پرزہ اس کی طرف پھینک دیا۔ 

سلیمان نے نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں چیزیں اٹھا لیں۔ معلومات ذہن نشین کرنے کے بعد اُس نے پرزہ اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں چھپا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹھیک ہے باس آپ کا کام ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے گھر آکر لباس بدلا۔ سوٹ کیس میں ضروری سامان رکھ کر فون پر ٹیکسی منگوائی اور ایئر پورٹ روانہ ہو گیا۔ اُس نے اپنا سر سیٹ کی پشت سے ٹکا دیا اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ آخر کیسی زندگی گزارے گا۔ اُس کے ہاتھ میں قلم ہو گا یا ریوالور ! یہ قتل و غارت کا کھیل ختم ہو گا یا نہیں ؟ اس کے آنگن میں ننھے منے بچے کھیلیں گے یا وہ بچوں کو یتیم کرتا رہے گا؟

جب ہوائی جہاز لاہور ایئرپورٹ پر اترا تو سب سے پہلے چیکنگ کے مراحل سے گزر کر باہر آنے والا سلیمان ہی تھا۔ اُس نے تیز نگاہوں سے ایئر پورٹ کا سرسری سا جائزہ لیا۔ اس کے خون میں برق سی دوڑ گئی۔ لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔ کہیں کہیں سیلفیاں بنانے کا عمل بھی دکھائی دے رہا تھا۔ سلیمان کے خون میں گرم گرم لہریں سی دوڑنے لگیں۔ 

وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بریف کیس کو مخصوص انداز میں ہلاتا ہوا ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف بڑھا۔ ایک بائیکیا وہاں تیار کھڑا تھا۔ اُس نے مسکرا کر سلیمان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دو تین ٹیکسیوں اور رکشائوں کے ڈرائیوروں نے بھی باہر نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر سلیمان انہیں نو کہہ کر بائیکیا موٹر سائیکل پر سوار ہو گیا۔ اب کی بار اس کے لیے ہوٹل میں کمرا بک کروایا گیا تھا۔ موٹر سائیکل تیزی سے سڑک پر دوڑنے لگی۔ سلیمان سفر طے کرتے ہوئے پھر ذہنی طو پر الجھ گیا کہ وہ یہ سب کچھ اپنے اخراجات کے لیے کر رہا ہے، لیکن کیا یہ صحیح ہے ؟ پھر اسے ایڈونچر کا بھی یاد آیا۔ اپنی بےرحمی اور سنگ دلی پر وہ کچھ ملول ہوا۔ وہ اپنے تعلیمی نصاب اور ادبی تحریروں میں انسانیت اور اخلاقی اقدار کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکا تھا۔ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ 

اسے یہ الفاظ بھی یاد آئے لیکن خُوبصورت افکار پر مادہ پرستی و عیش و عشرت کے جذبات نے اپنا غبار پھیلا دیا۔ اچھا مستقبل حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ میرے اعلیٰ کردار کی قدر اس معاشرے نے کیوں نہ کی؟ اگر پیسہ نہ ہو گا تو عروہ بھی میرے قریب نہیں آئے گی۔ وہ انہی سوچوں میں مگن تھا کہ بائیک رک گئی اور اس کی سوچوں کا حصار ٹوٹ گیا۔ یہ ہوٹل مون مارکیٹ کے وسطی پارک کے مشرقی کنارے پر ایک پرانے پلازہ کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس میں پارک کی جانب کے علاوہ دائیں بائیں سے بھی داخلی راستوں کے ذریعے اندر پہنچا جا سکتا تھا۔

 ہوٹل کے ہال میں نصف دائرے کے کائونٹر پر بیٹھی سنہری بالوں والی لڑکی پر خوشگوار سی نگاہ ڈال کر اُس نے بکنگ رسید دکھائی۔ لڑکی نے اُسے ایک ویٹر کے ساتھ دوسری منزل پر روانہ کر دیا۔ وہ اپنے روم نمبر ایک سو پچاس میں داخل ہوا۔ کمرا آراستہ و پیراستہ تھا۔ کمرے کی کھڑکیاں پارک کی جانب واقع تھیں۔ ویٹر کے جانے کے بعد اس نے دروازہ بند کیا اور کھڑکیاں کھول کر ٹھنڈی ہوا میں گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ پارک کی روش پر لگے ستونوں پر خُوشنما روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے باغ میں جابجا دکھائی دے رہے تھے۔ 

کچھ دیر بعد اس نے شاور لے کر تازہ دم ہو کر کھانے کا آرڈر دے دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے تیز چائے پی اور پھر سگریٹ سلگا کر گہرے گہرے کش کھینچتے ہوئے سوچنے لگا کہ کل اس کا شکار آنجہانی ہو جائے گا، پھر وہ بھی نہ بول سکے گا، منوں مٹی تلے سو جائے گا۔ اُس کے عزیز واقارب اُسے لاکھ پکاریں وہ جواب نہ دے پائے گا۔
👇👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے