لوگ ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بنتے ہیں، لیکن میں ایم بی بی ایس کے بعد جادوگرنی بن گئی۔ . میرا نام فائزہ ہے اور میرا تعلق ملتان کے ایک پوش علاقے سے ہے۔ یہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ میں ملتان کے ایک مشہور میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے چوتھے سال میں پڑھ رہی تھی۔ میں اپنی تعریف خود نہیں کروں گی، بس اتنا بتا دیتی ہوں کہ کالج میں میری دوست لڑکیاں قسم اٹھا کر کہا کرتی تھیں کہ فائزہ جیسی خوبصورت لڑکی نا تو میڈیکل کالج میں ہے اور نا ہی پورے ملتان شہر میں۔ میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔
اللہ نے مجھے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ سفید رنگت اور لمبے قد سے نواز رکھا ہے۔ میرے سامنے اچھے خاصے خوبصورت اور جوان لڑکے بھی نہیں بچتے۔ میری ماما ایک کالج میں پروفیسر تھیں۔ اور والد اسلام آباد میں بزنس کرتے تھے۔ والد ہفتے یا پندرہ دن بعد ہی گھر آتے تھے۔ اور چھٹی کا ایک دن گزار کر واپس چلے جاتے۔ میرا زیادہ وقت ماما کے ساتھ گزرتا تھا۔ ایک صبح میں کالج جانے کے لیے گھر سے نکلی تو سامنے والے گھر کے باہر ایک لڑکا لان میں پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ مجھے پہلی نظر میں ہی وہ لڑکا خاصا خوبصورت لگا۔ میں نے اس لڑکے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگلے دن میں نے کالج جاتے ہوئے دوبارہ اسے دیکھا۔ اس دن بھی وہ ہاتھ میں پائپ پکڑے، اپنی سوچوں میں گم پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ جب میں ان کے لان کے سامنے سے گزری تو اچانک پانی کا پائپ میری جانب اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے سارے کپڑے گیلے ہو گئے۔ گھبراہٹ میں میری تو چیخ ہی نکل گئی۔ لڑکے کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔ چونکہ میرے کپڑے پانی سے بھیگ چکے تھے۔ اس لیے میں کالج نہیں جا سکی اور غصے سے پاؤں پٹختی ہوئی گھر واپس چلی گئی۔ ماما شام کو پڑھا کر گھر آئیں تو میں نے ان کو ساری بات بتائی، واقعہ سن کر ماما بہت ہنسی۔
ماما نے بتایا کہ وہ لوگ ہمارے محلے میں نئے آئے ہیں اور ان کا تعلق سندھ کے کسی شہر سے ہے۔ اس لڑکے کے والد ایک وفاقی ادارے میں ملازم ہیں۔ اور وہ لوگ ٹرانسفر ہو کر ملتان میں آئے تھے۔ رات کو ہم لوگ کھانا کھانے بیٹھے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو باہر ایک عورت کھڑی تھی۔ اس کے ہمراہ ایک لڑکا بھی تھا۔ میں دیکھتے ہی اس لڑکے کو پہچان گئی۔ یہ وہی تھا جس نے صبح جانے انجانے میں پانی ڈال کر میرے کپڑے بھگو دیے تھے۔ اب وہ اپنی والدہ کے ساتھ معذرت کرنے ہمارے گھر آیا تھا۔ کافی سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ ماما کو تو وہ لوگ بہت پسند آئے۔ عورت کا نام حمیدہ اور لڑکے کا نام فیصل تھا۔ تھوڑی گپ شپ کرنے اور چائے پینے کے بعد وہ لوگ چلے گئے۔ جانے کیوں میں اس لڑکے کے بارے میں سوچنے لگی۔
اور سوچتے سوچتے سو گئی۔
اگلے دن بھی کالج جاتے وقت میں نے فیصل کو باہر کھڑے پایا۔ اور پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ فیصل صرف مجھے دیکھنے کے لیے پودوں کو پانی دینے کے بہانے گلی میں آتا ہے۔ ایک دن جب میں پاس سے گزری تو فیصل نے مجھے سلام کیا۔ میں سلام کا جواب دے کر آگے بڑھ گئی۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ سارے راستے میں اس کے بارے میں سوچتی رہی۔ کچھ دن بعد کی بات ہے کہ کالج جاتے ہوئے فیصل نے میرے قدموں کے قریب ایک تہہ کیا ہوا خط پھینکا۔ پہلے تو میں نظر انداز کر کے گزرنے لگی، لیکن کچھ سوچ کر خط اٹھا لیا۔ اور کتاب کے اندر رکھ کر کالج چلی گئی۔ دراصل میں بھی دل کے ہاتھوں مجبور تھی اور دیکھنا چاہتی تھی کہ خط کے اندر کیا لکھا ہے۔ کلاس میں جا کر میں ایک کونے میں بیٹھ گئی اور خط نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ فیصل نے لکھا تھا
کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ اور روزانہ مجھے دیکھنے کے لیے پودوں کو پانی دینے باہر آتا ہے۔ ان دنوں موبائل فون اتنے عام نہیں ہوئے تھے۔ البتہ تار والے فون کچھ گھروں میں لگ چکے تھے۔ اس لیے بات چیت کا بڑا ذریعہ خط و کتابت ہی تھا۔ میں نا تو پیار محبت جیسی باتوں پر یقین رکھتی تھی اور نا ہی خراب کردار کی مالک تھی۔ پھر بھی فیصل میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی۔
میں نے خط کو سنبھال کر رکھ لیا۔ اگلی صبح میں تیار ہو کر کالج کے لیے نکلی، تو میری نظریں فیصل کو ڈھونڈ رہی تھیں لیکن وہ باہر نظر نا آیا۔ یہ بات معمول کے خلاف تھی۔ نا جانے کیوں مجھے اسے دیکھنے کی طلب ہونے لگی۔ جب مزید دو دن بھی اس کی جھلک نظر نا آئی تو میں بے چین سی ہو گئی۔ پڑھائی میں دل نا لگا تو اس دن کلاسیں چھوڑ کر گھر آگئی۔ اور بنا کچھ کھائے چھت پر چلی گئی۔ وہاں مجھے وہ نظر آ گیا۔ فیصل کا گھر گلی کی دوسری جانب ہمارے گھر کے برابر تھا۔ چھتوں کے درمیان زیادہ فاصلہ بھی نہیں تھا۔ مجھے سامنے دیکھ کر وہ چلتے ہوئے تھوڑا قریب آیا اور رک کر میری جانب دیکھنے لگا۔ میں بھی بے اختیار اسے دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے مسکرا کر اشارہ کیا تو میں بھی جواب میں مسکرا دی۔ اس کے بعد تو یہ معمول بن گیا۔ کالج جاتے ہوئے بھی میں فیصل کو دیکھتی اور واپس آ کر چھت پر چلی جاتی، جہاں وہ میرا انتظار کر رہا ہوتا۔ ایک دن فیصل نے چھوٹے سے پتھر کے ساتھ خط باندھ کر میری جانب پھینکا۔ میں نے فوراً اٹھا کر کھولا،
اور پڑھنا شروع کر دیا۔
فیصل نے خط میں لکھا تھا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ اس نے اتوار کے دن مجھے ایک پارک میں ملنے کا کہا تھا۔ میں خط لے کر چھت سے نیچے آگئی۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آ رہے تھے۔ میں نے لڑکیوں سے سنا تھا کہ مردوں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ خاص طور پر اکیلے میں ان سے ملنے جانا تو سے غلطی ہوتی ہے۔ لڑکے بے وفا ہوتے ہیں اور معصوم لڑکیوں کو استعمال کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔
اور پڑھنا شروع کر دیا۔
فیصل نے خط میں لکھا تھا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ اس نے اتوار کے دن مجھے ایک پارک میں ملنے کا کہا تھا۔ میں خط لے کر چھت سے نیچے آگئی۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آ رہے تھے۔ میں نے لڑکیوں سے سنا تھا کہ مردوں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ خاص طور پر اکیلے میں ان سے ملنے جانا تو سے غلطی ہوتی ہے۔ لڑکے بے وفا ہوتے ہیں اور معصوم لڑکیوں کو استعمال کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔
دوسری طرف میرا دل مجھے مجبور کر رہا تھا کہ ایک بار فیصل سے مل لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ سلجھا ہوا لڑکا ہے۔ کوئی غلط حرکت نہیں کرے گا۔ خیر کافی دیر سوچنے کے بعد میں نے اس سے ملنے کا پروگرام بنا لیا۔ اتوار والے دن میں نے ماما کو بتایا کہ میں کالج کی ایک دوست کو ملنے جا رہی ہوں۔ گھر سے نکل کر یں نے رکشہ لیا اور مقررہ وقت پر پارک کے اندر پہنچے گئی۔
فیصل گیٹ پر میرا انتظار کر رہا تھا۔ ہم دونوں ایک تنہا گوشے میں جا کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر تو خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فیصل نے مجھے کہا کہ فائزہ ۔۔، میں پہلی نظر میں ہی تمہاری محبت کا شکار ہو گیا تھا۔ اب تمہارے بنا جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میرے دل میں اس کے لیے کوئی جذبہ پہلے سے موجود تھا تبھی مجھے اس کی باتوں پر یقین آگیا۔ فیصل بہت مہذب طریقے سے پیش آیا۔ اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کی جو مجھے ناگوار لگتی۔ اس ملاقات کے بعد میرے دل میں فیصل کی محبت جاگ گئی۔ فیصل میری پہلی محبت تھا اور آخری بھی۔ میں دن کا زیادہ وقت اس کو سوچتے ہوئے گزارتی تھی۔ ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے ہم چھت پر بھی چلے جاتے، اور اشاروں سے باتیں کرتے۔ فیصل نے وعدہ کیا کہ بہت جلد وہ مجھے اپنی دلہن بنا لے گا۔ زندگی ایک دم سے رنگین ہو گئی تھی۔ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ یہاں تک کہ میں نے ایم بی بی ایس کا آخری سال بھی پاس کر لیا۔ اس کے بعد میری ہاؤس جاب شروع ہوئی تھی۔ ایک دن فیصل نے مجھے گھر سے باہر بلایا،
اور بتایا کہ اس کے والد کا تبادلہ ہو گیا ہے اور وہ لوگ سندھ میں اپنے آبائی شہر چلے جائیں گے۔
یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ میں فیصل کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ میں نے فیصل سے صاف صاف کہہ دیا کہ اب ہم دور نہیں رہ سکتے۔ یا تو مجھ سے شادی کرو اور مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ یا پھر میری جاب شروع ہونے تک انتظار کرو۔ اس کے بعد تھا کہ ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں ۔ گے۔ میرا خیال تھا کہ فیصل مجھ سے شادی کے لیے فوری طور پر مان جائے گا۔ لیکن اس نے میری دونوں باتیں ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ نا تو ابھی شادی کر سکتا ہے اور نا ہی ملتان میں مزید رک سکتا ہے۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ واپس چلا جائے گا۔ اس کا انکار سن کر میری جان پر بن آئی۔ لیکن میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔ اس دن کے بعد فیصل مجھ سے دور دور رہنے لگا۔ میں اس سے ملنے کے لیے تڑپ رہی تھی۔
ایک دن موقع پا کر میں فیصل کے گھر چلی گئی۔ فیصل گھر پر نہیں تھا۔ اس کی چھوٹی بہن اقراء سے مل کر مجھ پر انکشاف ہوا کہ فیصل کی منگنی بچپن میں اس کی خالہ زاد سے ہو چکی ہے۔ اور سندھ میں واپس جاتے ہی شادی ہو جائے گی۔ اقراء نے یہ بھی بتایا کہ یہ شادی فیصل کی پسند سے ہو رہی ہے۔۔۔ وہ لڑکی فیصل کی محبت ہے اور فیصل خود بھی جلد از جلد اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہ باتیں سن کر میں تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔ اقرا نے مجھے چائے آفر کی، لیکن یہ سب کچھ جان کر میں چائے کیسے پی سکتی تھی۔؟ مجھ سے یہ باتیں برداشت نہیں ہوئیں اور میں بے بسی کی تصویر بن کر گھر واپس آگئی۔ اگر تو اقراء کی کہی باتیں سچ تھیں تو میں فیصل کو کسی صورت معاف نہیں کر سکتی تھی۔ میرے جذبات سے کھیلنا معمولی بات نہیں تھی۔ میں یہ سب کچھ برداشت نا کر پائی اور پریشانی سے مجھے بخار چڑھ گیا۔ ہر وقت میرے ذہن پر ایک ہی بات سوار رہتی کہ فیصل مجھے دھو کہ کیسے دے سکتا ہے؟
کیا میں اتنی گئی گزری ہوں کہ اس نے وقت گزاری کر کے مجھے چھوڑ دیا؟ میں جتنا سوچتی میرا دماغ اسی قدر خراب ہونے لگتا۔ میں کچھ ہی دنوں میں نفسیاتی مریضہ بن گئی اور خود کشی کرنے کا ارادہ کر لیا۔۔ مجھے لگا کہ اپنی جان لے کر ہی میں اس تکلیف سے نجات پاسکتی ہوں۔ خود کشی کرنے کے لیے ایک رات میں چپکے سے اٹھی اور کچن کی جانب چل دی۔۔
کچن میں جا کر میں نے چھری اٹھائی اور اپنے کمرے میں آگئی۔ میرا ارادہ تھا کہ چھری سے ہاتھ کی نس کاٹ لوں گی۔ میں نے چھری اپنے بازو پر رکھی، اور آنکھیں بند کر لیں۔ میں کچھ دیر میں تک اپنے فیصلے پر عمل کرنے کا سوچتی رہی لیکن پھر میرے دل میں خیال آیا کہ مرنے سے پہلے ایک بار فیصل سے مل لوں، ہو سکتا ہے اقراء نے مجھے غلط بتایا ہو۔ ضروری نہیں ہوتا کہ کانوں سنی ہر بات سچ ہو جائے۔ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے فیصل سے ملنا چاہیے۔ اس سے بات کر کے ہی مجھے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ میں نے چُھری واپس کچن میں رکھ
دی اور جا کر بستر پر لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔
خودکشی سے تو میں باز آ گئی، لیکن اپنے اندرونی دُکھ پر قابو نا پا۔سکی اور رات بھر روتی رہی۔ اگلے دن سے میں نے فیصل سے ملنے کی کوشش شروع کر دی لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ اب وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتا۔ یا تو نظر ہی نا آتا، اگر کہیں دکھائی دے جاتا تو نظر انداز کر کے گزر جاتا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے کچھ مہینوں کے لیے میرے ساتھ دل لگی کی تھی۔ لیکن میں دل سے اس کے ساتھ مخلص تھی۔ اسی بات کا دکھ مجھے مارے جا رہا تھا۔ ایک دن میں نے فیصل کے نام خط لکھا اور اسے کہا کہ آج شام چھے بجے تک پارک میں اسی جگہ پہنچ جانا، جہاں پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
اگر وہاں نا آئے تو میری موت کے زمہ دار تم ہو گے۔ موقع ملتے ہی وہ خط گلی میں فیصل کے سامنے پھینک کر میں گھر چلی آئی۔ میری دھمکی کام کر گئی۔ شام کو میں پارک میں پہنچی تو فیصل وہاں موجود تھا۔ میں نے ملتے ہی اس سے پوچھا کہ میرا قصور کیا ہے؟۔ اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کرنی تھی تو مجھے اس راستے پر کیوں ڈالا ؟ فیصل کے پاس میرے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ اس کی بہن اقراء نے جو کچھ مجھے بتایا تھا میں نے ساری باتیں کھول کر اس کے سامنے رکھ دیں تو فیصل کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے حقیقت پتا چل جائے گی۔ میں نے فیصل سے کہا کہ تمہارا جھوٹ اور دھوکہ معاف کر دیتی ہوں لیکن میں تمہارے علاؤہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی۔ اگر مجھ سے شادی نا کی تو میری موت کے زمہ دار تم ہو گے۔ فیصل نے سوچنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔ جس کے بعد میں گھر واپس آگئی۔ میں اسے خالی دھمکی دے کر نہیں آئی تھی بلکہ حقیقت میں سوچ لیا تھا کہ اگر فیصل نے مجھ سے شادی نا کی تو اس بار میں اپنے آپ کو ختم کر لوں گی۔ سکول اور کالج لائف میں سینکڑوں لڑکے میری طرف مائل ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض تو شادی کرنے میں سنجیدہ بھی تھے لیکن میں نے کسی کو منہ نہیں لگایا۔ لیکن جس مرد کو میں دل سے پیار کرتی تھی اس نے میرے جذبات سے کھیل کر مجھے چھوڑ دیا تھا اور یہ بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی
تھی۔ گھر آ کر میں بے چینی سے دن گزار نے لگی۔
مجھے اچھی یاد ہے وہ اتوار کی صبح تھی۔ میں سو کر اٹھی تو ماما نے بتایا کہ سامنے والے لوگ گھر چھوڑ کر سندھ واپس لوٹ گئے ہیں۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا اور حقیر محسوس ہوا۔ جس شخص نے مجھے اپنی محبت کے جال میں پھنسایا تھا، وہ بنا بتائے چھوڑ کر بہت دور جا چکا تھا۔ یہ باتیں سوچ سوچ کر میری ذہنی حالت اور خراب ہو گئی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ فیصل نے میرے ساتھ وقت گزاری کی ہے۔ ٹھکرائے جانے کا دکھ مجھے اندر سے کھانے لگا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ جو فیصل مجھے جان سے عزیز لگتا تھا مجھے اس سے نفرت ہونے لگی۔ اتنی زیادہ نفرت کہ میرے اندر اس سے انتقام لینے کی آگ بھڑک اٹھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں انتقام کیسے لوں
.
مجھے نا تو اس کے گھر کا پتا معلوم تھا اور نا ہی میں سینکڑوں میل دور اس کے پیچھے جاسکتی تھی۔ ماما بھی میری حالت دیکھ کر پریشان رہتیں۔ لیکن وہ ور کنگ وومین تھی۔ اس کا سارا دن کالج میں پڑھاتے گزرتا اور گھر آ کر بھی وہ کتابوں میں الجھی رہتی۔ میری کوئی بہن بھی نہیں تھی کہ اپنے دل کا حال اس کے سامنے رکھ سکوں۔ اسی دوران ہسپتال میں میری ہاؤس جاب شروع ہو گئی۔
روزانہ مریضوں کو تکلیف میں دیکھ دیکھ کر مجھے اپنی تکلیف کم لگنے لگی۔ اور خود کشی کرنے کا خیال وقتی طور پر میرے دل سے نکل گیا۔ نئی مصروفیت کی وجہ سے فیصل کی یاد کم آتی تھی ۔ لیکن جب بھی فرصت کے لمحات میسر آتے، مجھے اس کی یاد ستانے لگتی۔ بھلے میرے دل میں اس کے لیے نفرت تھی لیکن میں اس کو بھلا نہیں پاتی تھی۔ ایک دن وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران، میں ایک مریض لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔ لڑکے کی عمر پندرہ سولہ سال کے قریب تھی۔ اس کے چہرے کے خدو خال عجیب سے تھے۔ میں زیادہ دیر اس کے چہرے کو دیکھ نا پائی کیونکہ مجھے وحشت سی ہونے لگی تھی۔
اس لڑکے کو پیٹ میں درد کی شدید شکایت تھی اور الٹی نہیں رک رہی تھی۔ اس لڑکے کی ماں بھی ساتھ تھی۔
مجھے نا تو اس کے گھر کا پتا معلوم تھا اور نا ہی میں سینکڑوں میل دور اس کے پیچھے جاسکتی تھی۔ ماما بھی میری حالت دیکھ کر پریشان رہتیں۔ لیکن وہ ور کنگ وومین تھی۔ اس کا سارا دن کالج میں پڑھاتے گزرتا اور گھر آ کر بھی وہ کتابوں میں الجھی رہتی۔ میری کوئی بہن بھی نہیں تھی کہ اپنے دل کا حال اس کے سامنے رکھ سکوں۔ اسی دوران ہسپتال میں میری ہاؤس جاب شروع ہو گئی۔
روزانہ مریضوں کو تکلیف میں دیکھ دیکھ کر مجھے اپنی تکلیف کم لگنے لگی۔ اور خود کشی کرنے کا خیال وقتی طور پر میرے دل سے نکل گیا۔ نئی مصروفیت کی وجہ سے فیصل کی یاد کم آتی تھی ۔ لیکن جب بھی فرصت کے لمحات میسر آتے، مجھے اس کی یاد ستانے لگتی۔ بھلے میرے دل میں اس کے لیے نفرت تھی لیکن میں اس کو بھلا نہیں پاتی تھی۔ ایک دن وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران، میں ایک مریض لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔ لڑکے کی عمر پندرہ سولہ سال کے قریب تھی۔ اس کے چہرے کے خدو خال عجیب سے تھے۔ میں زیادہ دیر اس کے چہرے کو دیکھ نا پائی کیونکہ مجھے وحشت سی ہونے لگی تھی۔
اس لڑکے کو پیٹ میں درد کی شدید شکایت تھی اور الٹی نہیں رک رہی تھی۔ اس لڑکے کی ماں بھی ساتھ تھی۔
وہ عورت بنا آنکھیں جھپکے، مسلسل مجھے دیکھ رہی تھی۔ جب میں لڑکے کا چیک اپ کر کے اسے انجیکشن دے چکی تو اس عورت نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ،
تم جتنی خوبصورت ہو، قسمت نے تمہارے ساتھ اتنا ہی بڑا مذاق کیا ہے۔ جس شخص نے تم کو دھوکا دیا ہے اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔ وہ ایک دن اپنی حرکت پر ضرور پچھتائے گا۔ اس عورت کی بات سن کر میں حیران رہ گئی۔ نا تو میں اس عورت کو جانتی تھی اور نا ہی اسے پہلے کبھی دیکھا تھا۔ لیکن اس نے مجھے ایسی بات کہی تھی جو صرف میں ہی سمجھ سکتی تھی۔ میں نے اس عورت سے پوچھا کہ تمہاری بات کا مطلب کیا ہے؟ وہ کہنے لگی کہ میں اُس بد نصیب لڑکے کی بات کر رہی ہوں، جو تم کو چھوڑ کر دور چلا گیا ہے۔ تمہیں دھوکہ دے کر وہ خود بھی خوش نہیں رہے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے وہ زیادہ دیر دنیا میں نا رہے۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اس عورت کی باتوں سے عجیب سا خوف آیا۔ لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے اسے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے تنہائی میں میری بات سن لو۔ چونکہ انجیکشن لگنے کے بعد اس عورت کا عجیب صورت لڑکا سکون سے سو گیا تھا۔ اس لیے وہ عورت بھی مطمئن ہو کر میرے ساتھ چل پڑی۔ میرا رخ ہاسپٹل کی کنٹین کی جانب تھا۔ وہاں ایک کونے میں بیٹھ کر میں نے دو چائے کا آرڈر دیا، اور اس عورت کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ میرے چہرے پر ابھی تک الجھن تھی لیکن وہ عورت مسکرا رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں عجیب کی پر اسراریت تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتی۔۔، اس عورت نے مجھے خود ہی سب کچھ بتا دیا جو میرے اور فیصل کے درمیان معاملہ رہ چکا تھا۔ اس کی باتوں میں اتنی سچائی تھی کہ مجھے اس سے خوف محسوس ہونے لگا۔ عورت کا نام ایلس تھا۔ وہ عیسائی عورت تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ کالے علوم کی ماہر ہے اور چہرے دیکھ کر لوگوں کے حالات معلوم کر لیتی ہے۔ ایلس نے میرے ماضی، خاص طور پر فیصل اور میرے تعلق کے بارے میں بہت کی باتیں سچ بتائی تھیں۔ ایلس کے بقول دور دور سے لوگ اس سے تعویز لینے آتے ہیں۔
اور ہر طرح کا کام وہ گارنٹی سے کر سکتی ہے۔
جو سب سے عجیب بات مجھے لگی وہ یہ تھی کہ ایلس نے شادی نہیں کی تھی اور اس کا بیٹا ( جو ہسپتال کے بیڈ پر پڑا تھا ) شیطانی علوم کی طاقت سے پیدا ہوا تھا۔ یہ بیٹا شیطانوں کا لاڈلا تھا۔ یہ بات اس قدر خوفناک تھی کہ میں اس کی تفصیل پوچھنے کی ہمت نا کر سکی۔
کالے علوم کی ماہر اس عورت سے گفتگو کر کے میرے دل میں خیال آیا کہ میں اس کے علم سے فائدہ اٹھاؤں اور کالے علم کے ذریعے فیصل کو ایسا سبق سکھاؤں کہ میرے بے چین دل کو قرار آ جائے، میرے دل میں انتقام کی مدہم ہوتی آگ ایک دم سے بھڑک اٹھی۔۔۔۔۔۔۔
،
میں نے ایلس سے کہا کہ تم میرے حالات جانتی ہو، جب سے فیصل مجھے چھوڑ کر گیا ہے میں ایک رات بھی سکون کی نیند نہیں سو سکی۔ اس نے خود ہی مجھ سے محبت کا اظہار کیا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ میرے جذبات سے کھیلنے کے بعد مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ تم کوئی عمل کرو کہ فیصل میرے لیے ایسے تڑپے جیسے میں اس کے لیے تڑپتی ہوں۔ ایلس میری بات سن کر مسکرا دی۔ اس نے میز پر آگے کو جھک کر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے اوپر رکھا، اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی کہ ڈاکٹر صاحبہ فکر نا کرو، اس لڑکے کو میں ایسی آگ میں جلاؤں گی کہ وہ پل پل تڑپے گا۔ عمل میں بتاؤں گی، کرنا تم کو پڑے گا۔ لیکن میں اس کام کا بھاری معاوضہ وصول کرتی ہوں۔ میں نے ایلس سے کہا کہ پیسوں کی فکر نا کرو، بس میرا کام کر دو۔ جتنے پیسے تم کہو گی میں تم کو دے دوں گی۔
میں نے ایلس سے کہا کہ تم میرے حالات جانتی ہو، جب سے فیصل مجھے چھوڑ کر گیا ہے میں ایک رات بھی سکون کی نیند نہیں سو سکی۔ اس نے خود ہی مجھ سے محبت کا اظہار کیا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ میرے جذبات سے کھیلنے کے بعد مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ تم کوئی عمل کرو کہ فیصل میرے لیے ایسے تڑپے جیسے میں اس کے لیے تڑپتی ہوں۔ ایلس میری بات سن کر مسکرا دی۔ اس نے میز پر آگے کو جھک کر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے اوپر رکھا، اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی کہ ڈاکٹر صاحبہ فکر نا کرو، اس لڑکے کو میں ایسی آگ میں جلاؤں گی کہ وہ پل پل تڑپے گا۔ عمل میں بتاؤں گی، کرنا تم کو پڑے گا۔ لیکن میں اس کام کا بھاری معاوضہ وصول کرتی ہوں۔ میں نے ایلس سے کہا کہ پیسوں کی فکر نا کرو، بس میرا کام کر دو۔ جتنے پیسے تم کہو گی میں تم کو دے دوں گی۔
ایلس کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی کہ ڈاکٹر صاحبہ، مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں شیطانی علوم کی ماہر ہوں۔ پیسہ میرے ہاتھوں کی میل ہے۔ تم توجہ سے میرے بچے کا علاج کرو، میں تمہارا کام بِلا معاوضہ کر دوں گی۔ میں نے اس کی بات مان لی۔ فیصل سے بیوفائی کا بدلہ لینے کا بھوت میرے سر پر سوار ہو چکا تھا۔ میں نے ایلس کے گھر کا مکمل ایڈریس لکھ کر اپنے پرس میں ڈال لیا۔ اور چائے پینے کے بعد ہم دونوں وارڈ میں واپس آگئیں ۔۔۔
ساری رات میں نے ایلس کے بیٹے کا اچھے طریقے سے خیال رکھا۔ اس رات ڈیوٹی ختم کر کے میں گھر واپس آئی تو میرا بے قرار دل قدرے بہتر محسوس کر رہا تھا۔ میں فیصل سے انتقام لینے کا سوچ کر اندر سے پُر سکون ہو گئی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اس کے لیے تڑپتی رہوں اور وہ اپنی پسند کی جگہ شادی کر کے مزے کی زندگی گزارے۔ اگلے دن میں ڈیوٹی پر گئی تو معلوم ہوا کہ ایلس کا عجیب صورت بیٹا ٹھیک ہو چکا تھا۔ اسے ہسپتال سے چھٹی مل گئی تھی۔
بس وہ مجھ سے ملنے کے لیے ابھی تک گھر نہیں گئی تھی۔ میں نے ایلس سے وعدہ کیا کہ اتوار والے دن میں اس کے گھر لازمی آؤں گی۔
ایلس نے بتایا کہ اتوار کی صبح میں عبادت کے لیے گرجا گھر جاتی ہے۔ تم دو پہر کے بعد آ جانا، میں گھر پر ہی ملوں گی۔ اس کے بعد وہ اپنے عجیب صورت بیٹے کو لے کر گھر چلی گئی۔ اور میں بے چینی سے اتوار کا انتظار کرنے لگی۔۔
0 تبصرے