ایم بی بی ایس جادو گرنی - پارٹ 2

urdu font stories 3
 
آخر کار اتوار کا دن آگیا۔ اس دن ہسپتال سے مجھے چھٹی تھی، میں دیر تک سوئی رہی۔ دوپہر کے وقت اٹھ کر میں نے شاور لیا اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنا پرس اٹھا کر باہر نکل آئی۔ گلی سے رکشہ پکڑا، اور ڈرائیور کو پتا سمجھا کر پیچھے بیٹھ گئی۔ بیس سے پچیس منٹ تک شہر کی مختلف سڑکوں پر رکشہ دوڑانے کے بعد، ڈرائیور نے مجھے میرے مطلوبہ مکان تک پہنچا دیا۔
مکان شہر کے ایسے علاقے میں تھا جہاں آبادی زیادہ نہیں تھی۔ یہ کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی تھی جو ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوئی تھی۔ مکان کے سامنے اتر کر میں نے رکشہ ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا۔ کرایہ لے کر اس نے رکشہ واپس موڑا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔
ایلس کے مکان پر پہنچ کر میں نے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد اسی عجیب صورت لڑکے نے دروازہ کھولا۔ جس کو میں ایلس کے بیٹے کے طور پر ہسپتال میں ٹریٹمنٹ دے چکی تھی۔۔۔،
مجھے دیکھ کر وہ لڑکا ایسے مسکرایا جیسے اس کو میری آمد کا پہلے سے پتا ہو ۔۔
"اندر آ جاؤ ڈاکٹر صاحبہ، سامنے کمرے میں اماں تمہارا انتظار کر رہی ہے"۔ اس لڑکے نے مجھے راستہ دیتے ہوئے کہا۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہو گئی۔
دروزے کے سامنے صحن کے بیچ "بیری" کا درخت تھا۔
میں نے بیری کے درخت کے بارے میں سنا تھا کہ اس پر جنات کا بسیرا ہوتا ہے۔
درخت کی کچھ شاخیں زمین کو چھو رہی تھیں۔ اس درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے مجھے خوف محسوس ہوا۔ جلد ہی میں کمرے میں داخل ہو گئی۔ سامنے ایک آرام کرسی پر ایلس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے ویلکم کیا اور صوفے پر بٹھا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں چائے کا ایک کپ اور کچھ بسکٹ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے شکریہ کے ساتھ چائے قبول کی اور گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔ چائے اچھی بنی ہوئی تھی۔ جب میں نے چائے ختم کی تو ایلس مجھے ساتھ لے کر ایک دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
اس کمرے کا ماحول عجیب سا تھا۔ کمرے میں دیواروں کے ساتھ الماریاں بنی ہوئی تھیں۔۔
جن کے اندر مختلف سائز کے مرتبان رکھے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان مرتبانوں کے اندر کیا رکھا ہے۔
کمرے میں ایسی بُو پھیلی ہوئی تھی جیسے مدتوں سے بند پڑا ہو۔ مجھے اس ماحول میں وحشت سی محسوس ہوئی۔ دل میں خیال آیا کہ فائزہ، اٹھو اور یہاں سے واپس چلی جاؤ۔۔۔، تم ڈاکٹر ہو، لوگوں کی مسیحا ہو، تمہارا یہ مقام ہرگز نہیں ہے کہ تم ایسے گھٹیا کام کرو۔۔
لیکن فیصل کو اپنے آگے جھکا لینے کی خواہش ہر چیز پر حاوی آ گئی۔ ایلس نے ایک الماری سے مرتبان نکالا اور اس کے اندر سے درمیانے سائز کی ایک ہڈی نکالی۔
ہڈی تقریباً ایک ہاتھ لمبی تھی اور کافی پرانی لگ رہی تھی۔ پھر اس نے وہ ہڈی میری جانب بڑھائی تو نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اسے تھام لیا۔ اس کے بعد ایلس نے دوسری الماری کھولی اور وہاں سے ایک پرانی سی کتاب نکالی۔ اس کتاب کے ٹائٹل پر انسانی کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
اور کسی اجنبی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا۔
ایلس کچھ دیر اس کتاب کو کھول کر ایک مخصوص صفحہ دیکھتی رہی۔ پھر اس نے وہ کتاب میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا کہ "یہ والی لائن" اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔
میں اس تحریر کا مطلب تو نہیں جانتی تھی لیکن اس کو زبانی یاد کرنے میں مجھے پانچ منٹ بھی نہیں لگے۔ اس کے بعد ایلس نے ایک صاف کاغذ پر نقش سا بنایا اور اوپر کچھ لکھنے لگی۔ میں نے تحریر پہچان لی۔ اس نے نقش پر وہی کچھ لکھا تھا جو مجھے زبانی یاد کروایا تھا۔
پھر اس نے مجھ سے پوچھ کر فیصل کا نام اور اس کی والدہ کا نام بھی نقش پر لکھا اور اس کاغذ کو تہہ کر کے میرے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد ایلس نے گیارہ راتوں کا خاص عمل اچھی طرح سمجھانے کے بعد مجھے واپس جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے تہہ کیا ہوا کاغذ اور بوسیدہ ہڈی اپنے پرس میں رکھی اور ان کے گھر سے نکل آئی۔
جب میں گلی میں چند قدم آگے گئی تو مجھے اپنی کمر پر عجیب کی تپش محسوس ہوئی۔
جیسے کوئی مجھے پیچھے سے گُھور رہا ہو ۔
میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو ایلس کا عجیب صورت لڑکا دروازے میں کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں مزید پھیل چکی تھیں، اور چہرے پر ایسی مسکراہٹ تھی جیسی اپنی پسند کی چیز دکھائی دینے پر آتی ہے۔ واقعی وہ شیطانوں کی پیداوار لگتا تھا۔
خوف کا احساس ہوتے ہی میرے قدموں میں تیزی آگئی۔ تھوڑی دیر بعد میں بڑی روڈ پر آگئی اور رکشہ لے کر گھر پہنچ گئی۔ تب تک شام ہو چکی تھی۔ مجھے آج رات سے ہی یہ عمل شروع کرنا تھا۔ ویسے تو یہ عمل گھر سے باہر ویران جگہ پر کرنا تھا لیکن لڑکی ہونے کی بناء پر مجھے گھر کی چھت پر عمل کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ کام پورا ہونے کی صورت میں دکھائی دینے والی نشانیاں ایلس نے مجھے بتا دی تھیں۔ رات کا کھانا میں نے جلدی کھا لیا۔
اور اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔ میرے دماغ میں عجیب طرح کے وسوسے آ رہے تھے کبھی دل کرتا کہ یہ سب کچھ شروع کرنے سے پہلے ہی چھوڑ دوں۔ لیکن فیصل کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتے ہی میرا دل انتقام کی آگ میں جلنے لگتا۔ ایسی سوچوں میں رات کے گیارہ بج گئے۔ میں نے اٹھ کر ماما کے کمرے میں جھانکا تو وہ سو چکی تھیں۔ میں نے ایلس کی دی ہوئی چیزیں اٹھائی اور چھت پر چلی گئی۔ چھت پر ایک سٹور نما کمرہ تھا۔ کمرے میں جا کر میں نے دروازہ اندر سے بند کر لیا تا کہ اگر ماما جاگ بھی جائیں تو اوپر آ کر مجھے دیکھنا لیں۔
ویسے بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اوپر آئیں گی۔ تھوڑی دیر وہاں کھڑی ہو کر میں اپنے فیصلے کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر مصمم ارادہ کر کے، نیچے فرش پر ایک کونے میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔
ایلس کے بتائے گئے طریقے کے مطابق میں نے تہہ کیا ہوا نقش زمین پر رکھا۔ اور بوسیدہ ہڈی اس کے اوپر رکھ دی۔
اس کے بعد جو تحریر میں نے زبانی یاد کی تھی وہ زیر لب پڑھنی شروع کر دی۔ یہ تحریر میں نے 328 مرتبہ پڑھنی تھی اور 41 مرتبہ پڑھنے کے بعد ہڈی اٹھا کر تعویز نما نقش کے اوپر رگڑنی تھی۔ اس طرح ٹوٹل آٹھ سرکل مکمل کرنے کے بعد 328 کی گنتی پوری ہو جانی تھی۔ مجھے یہ عمل پورا کرنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا۔
اس کے بعد میں نے ہڈی اور نقش اٹھایا اور چھت سے اتر کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اور دونوں چیزوں کو چھپا کر رکھ دیا۔ ایک دن کا عمل مکمل ہو گیا تھا۔ دس دن مزید باقی تھے۔ میں چاہتی تھی کہ جلد سے جلد باقی کے دس دن بھی گزر جائیں تاکہ دیکھ سکوں کہ اس شیطانی عمل کا کوئی نتیجہ بھی نکلتا ہے یا سب بیکار کی باتیں ہیں۔
اگلی تین راتیں بھی میں نے ایسا ہی کیا۔ اور سب کچھ خیریت سے ہو گیا۔ لیکن پانچویں رات عمل کرتے ہوئے مجھے اپنا جسم بہت تھکا ہوا محسوس ہوا۔ میرے دماغ پر بھی بوجھ تھا۔ لیکن میں پریشان نہیں ہوئی کیونکہ ایلس نے مجھے پہلے ہی بتایا ہوا تھا کہ یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اس رات جب میں سوئی تو مجھے عجیب سا خواب نظر آیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بنجر صحرا ہے جس کے درمیان میں فیصل اکیلا چلتا جا رہا ہے۔
پہلے تو وہ تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ پھر اس کے قدم آہستہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ گھٹنوں کے بل گر گیا اور رینگ رینگ کر چلنے لگا۔ اس خواب نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔ اگلے دن میں نے وقت سے پہلے ڈیوٹی ختم کر دی اور ہسپتال سے سیدھا ایلس کے گھر چلی گئی۔ میں اس سے مل کر اس عجیب خواب کی تعبیر جاننا چاہتی تھی۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد میں ایلس کے سامنے بیٹھی تھی۔
اس دن ایلس کے گھر میرے علاؤہ بھی کچھ خواتین اور مرد موجود تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ بھی عملیات کروانے اس کے پاس آئے ہوئے تھے۔
لیکن ایلس نے سب کو چھوڑ کر مجھے وقت دیا۔ تنہائی ملتے ہی میں نے اس کو رات والا خواب سنایا تو وہ مسکرا پڑی۔ اور بولی کہ ڈاکٹر صاحبہ مبارک ہو۔۔۔۔۔،
تمہارے عمل نے کام دکھانا شروع کر دیا ہے۔ فیصل کی اکڑ ٹوٹ گئی ہے اور وہ گھٹنوں کے بل جھک گیا ہے۔
بس عمل پورا ہونے کی دیر ہے کچھ ہی دنوں بعد تم کو اس کا انجام نظر آ جائے گا۔ ایلس کی بات سن کر مجھے کمینی سی خوشی محسوس ہوئی۔ اور میں اٹھ کر اپنے گھر آ گئی۔ باقی کے دن بھی دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہو بھی گئے۔
اور میرا عمل مکمل ہو گیا۔ آخری رات عمل مکمل کرنے کے بعد میں نے بوسیدہ ہڈی کو دیکھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ہڈی کی رنگت بدل چکی تھی۔ وہ اب گہرے سیاہ رنگ کی ہو گئی تھی۔ حالانکہ پہلے اس کا رنگ سفیدی مائل پیلا تھا۔ ایلس نے مجھے بتایا تھا کہ جب تمہارا عمل مکمل ہو گیا تو ہڈی کا رنگ دیکھنا، اگر تو اس کا رنگ بدل کر کالا ہو گیا تو سمجھ لینا تمہارا عمل کامیاب ہو چکا ہے۔ اور اگر رنگ نا بدلا تو تم کو تین دن مزید عمل کرنا پڑے گا۔
لیکن گیارہ دنوں میں ہی میرا عمل کامیاب ہو گیا تھا۔
اس کے اگلے دن میں نے ایلس کی ہدایت کے مطابق ہڈی اور نقش بہتے ہوئے پانی میں بہا دیے۔ اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ اب مجھے نتیجے کا انتظار تھا۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اس عمل کا نتیجہ کیسا نکلتا ہے۔ فیصل میرے لیے کیسے تڑپتا ہے؟ اور کب مجھے اس بات کہ خبر ملتی ہے۔ پھر اس واقعے کو ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔
سچی بات تو یہ تھی کہ میں گیارہ راتوں کے اس شیطانی عمل کے رزلٹ سے مایوس ہو چکی تھی۔
لیکن مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگنے والا تھا

وہ مارچ کی ایک روشن صبح تھی۔ میں نائٹ ڈیوٹی کر کے گھر آئی، اور ناشتہ کر کے سو گئی۔ جب سو کر اٹھی شام ہو چکی تھی۔ لیکن ڈیوٹی پر جانے میں ابھی چند گھنٹے باقی تھی۔ اتنے میں ماما بھی کالج سے واپس آ گئیں۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔ تبھی ہمارے گھر میں لگے لینڈ لائن فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ یہاں میں ایک بات دوبارہ واضح کر دوں کہ اس وقت موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے لیکن لینڈ لائن فون کانی گھروں میں لگ چکے تھے۔
جن میں ہمارا گھر بھی شامل تھا۔ میں نے فون اٹھایا تو میرے ہسپتال سے ایک کولیگ کا فون تھا۔ اس نے
مجھے کہا کہ فائزہ جلدی ہسپتال پہنچو، ایک مریض
سیر لیس حالت میں داخل ہوا ہے اور وہ بار بار تمہارا پوچھ رہا ہے۔ یہ سن کر میں حیران ہوئی کہ کوئی مریض میرا کیوں پوچھے گا؟ کیا وہ مجھے جانتا ہے ؟ اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ پوچھتی،
دوسری جانب سے فون رکھ دیا گیا۔
خیر ۔۔ میری ڈیوٹی کا وقت تو نہیں تھا لیکن میں جلدی سے تیار ہو کر اور ماما کو بتا کر گھر سے نکل گئی۔ راستے میں بھی یہی سوچتی رہی کہ کون سا مریض ہے جس کی حالت نازک ہے اور وہ بار بار میرا پوچھ رہا ہے؟ ذہن پر کافی زور دینے کے باوجود بھی ایسا کوئی مریض سمجھ میں نا آیا۔ تب تک میں ہسپتال پہنچ چکی تھی۔۔ وارڈ میں کولیگ میرا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا نام شازیہ تھا۔ شازیہ مجھے ساتھ لے کر ایمر جنسی میں چلی گئی۔ جہاں پر ایک بیڈ کی جانب اشارہ کر کے اس نے بتایا کہ وہ مریض لیٹا ہے، جا کر اس سے مل لو۔ میں تیز قدموں سے چلتی ہوئی اس بیڈ تک گئی۔ میرے سامنے انتہائی خراب حلیے میں ایک شخص لیٹا ہوا تھا۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی اس سے کچھ بہتر نظر آئے۔ میں اسے پہچان نا پائی۔ اچانک کسی نسوانی آواز نے میرا نام پکارا۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ خاتون جانی پہچانی لگی۔ اگلے ہی لمحے میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ خاتون کوئی اور نہیں فیصل کی والدہ حمیدہ آئنٹی تھی۔ میں اس کو کیسے بھول سکتی تھی۔ لیکن دکھ تو مجھے اس بات کا ہوا کہ میرے سامنے بیڈ پر لیٹا مریض کوئی اور نہیں فیصل ہی تھا۔ جسے میں پہچان نہیں پائی تھی۔ جی ہاں، وہی فیصل جو میری پہلی محبت تھا۔ جس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے خواب میں نے دیکھے تھے۔ جو مجھے اپنی محبت کے خوش رنگ سپنے دکھایا کرتا تھا۔ وہی فیصل جو مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا اور پھر مجھے چھوڑ کر بنا بتائے واپس سندھ چلا گیا تھا۔ اس نے مجھے دھوکا دیا تھا اور میری زندگی کو کانٹوں سے بھر کر اپنی کزن اور بچپن کی محبت سے شادی کرنے کے لیے اپنے آبائی شہر واپس چلا گیا تھا۔ آج وہ زندہ لاش کی مانند میرے سامنے پڑا تھا۔ فیصل کی والدہ میرے گلے لگ کر رونے لگی۔
وہ کافی دیر روتی رہی۔ جب اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو میں اسے ایک بینچ پر بٹھایا اور پاس رکھے واٹر کولر سے پانی کا گلاس بھر کر دیا۔ آنٹی حمیدہ نے تھوڑا سا پانی پیا اور گلاس واپس رکھ دیا۔
اس کے بعد آنٹی نے مجھے بتایا کہ سندھ واپس جانے کے بعد ہم لوگ فیصل کی شادی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ لیکن کسی وجہ سے فیصل کی شادی تاخیر کا شکار ہو گئی۔ کچھ دن کے بعد فیصل کو بخار نے آن گھیرا۔ شروع میں تو ہم اسے نارمل بخار سمجھ کر علاج کرواتے رہے۔ لیکن بعد میں اس کی طبیعت ایک دم خراب ہو ہو گئی۔ فیصل کا جسم دنوں میں لاغر ہونے لگا اور دو ہفتوں کے اندر اندر وہ بستر سے لگ گیا۔ ہم نے بہت جگہوں پر دکھایا لیکن اس کی بیماری نا تو کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں آئی اور نا ہی کسی حکیم کی۔ ایک عِلم والے نے بتایا کہ فیصل پر کسی نے جادو کیا ہے۔ اور جادو بہت سخت ہے جس کا توڑ ممکن نہیں۔ لیکن ہم ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔
فیصل کی کسی سے کوئی دشمن نہیں تھی۔ کوئی اس اس پر جادو کیوں کروائے گا؟.
لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ فیصل کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی جا رہی تھی۔ اس کے جسم کا گوشت ختم ہو گیا تھا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گیا تھا۔ لیکن تمام رپورٹس نارمل آ رہی تھیں۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ فیصل کچھ بھی کھانے پینے کے قابل نہیں رہا۔ پھر ایک دن اس کی طبیعت زیادہ بگڑنے پر ہم اسے قریبی ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹرز نے بتایا کہ فیصل کے دونوں گردے کام کرنا چھوڑ گئے ہیں۔ اس کو فوراً کراچی یا کسی بڑے شہر لے جاؤ۔ ہم فیصل کو علاج کے لیے کراچی لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے ضد کر کے کہا کہ مجھے ملتان لے جاؤ۔
وہاں جا کر ہی میرے دل کو سکون آئے گا۔ ہم اس کی ضد کو دیکھ کر اسے یہاں ملتان لے آئے۔ یہاں آتے آتے اس کی طبیعت زیادہ ہی خراب ہو گئی ہے۔ بس جب بھی وہ ہوش میں آتا، ڈاکٹرز سے کہتا کہ مجھے ایک بار ڈاکٹر فائزہ سے ملوا دو۔
سچ بات تو یہ ہے مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ جس ڈاکٹر فائزہ سے میرا بیٹا ملنا چاہتا ہے وہ تم ہو۔۔۔۔
تم کو ڈاکٹر کے روپ میں اپنے سامنے دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے۔ لیکن بیٹی، خدا کے لیے میرے بیٹے کی زندگی بچا لو۔ اتنا کہہ کر حمیدہ آنٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے آنٹی کو تسلی دی کہ حوصلہ رکھو، اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں آنٹی کو کس منہ سے بتائی کہ تمہارے بیٹے کی اس حالت کا زمہ دار کوئی اور نہیں میں ہی ہوں۔ میں نے ہی بدلہ لینے کے چکر میں اسے خطرناک کالے جادو کی آگ میں جلا دیا تھا۔ لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں نے کبھی فیصل کو موت کے منہ میں ڈالنے کا نہیں سوچا تھا۔ میں تو اس کے دل میں اپنے لیے ویسی ہی تڑپ پیدا کرنا چاہتی تھی جیسی کہ میرے دل میں اس کے لیے تھی۔ میں بس یہی چاہتی تھی کہ جس طرح میں اس کے لیے پل پل تڑپتی ہوں۔ ویسے ہی وہ بھی میرے لیے تڑپے۔
اسی مقصد کو پانے کے لیے میں ایلس کے پاس جا پہنچی تھی۔ اور اس کا بتایا ہوا گیارہ راتوں کا عمل مکمل کر کے میں بہت خوش تھی کہ اب فیصل مجھ سے محبت کی بھیک مانگنے آئے گا۔ لیکن فیصل اس طرح میرے سامنے آئے گا یہ تو میں نے کبھی نہیں چاہا تھا۔
بھیانک کالے جادو نے دو مہینے کے اندر اندر فیصل کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔ فیصل کے علاج کے لیے میں کچھ سینئر ڈاکٹرز سے ملی۔ اور اس کے لیے جو کچھ کر سکتی تھی وہ کرنے لگی۔ لیکن اس کی حالت بدستور نازک تھی۔ وہ ہوش میں نہیں تھا۔ رات کو میں فیصل کے بیڈ کے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور غور سے اسے دیکھنے لگی۔
اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔ اور اس کی زمہ دار میں تھی۔ مجھے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ کاش میں بدلہ لینے کے لیے اس حد نا جاتی۔ اگلی رات میں نے حمیدہ آنٹی کو سلا دیا اور خود زیادہ وقت فیصل کا خیال رکھتے ہوئے گزارا۔
رات کے آخری پہر میں وارڈ کا راؤنڈ کر کے دوبارہ فیصل کے پاس ایمر جنسی میں آگئی۔ تب فیصل ہوش میں تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اور وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں خاموشی سے اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ فیصل نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے، لیکن اس کی آواز مجھ تک پہنچ نا پائی۔ نقاہت کی وجہ سے وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پا رہا تھا۔ میں اپنا کان اس کے ہونٹوں کے قریب لے گئی۔ اب میں اس کی آواز سن سکتی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ فائزہ، مجھے معاف کر دینا۔ میں نے تمہارا دل دکھایا اور تمہاری سچی محبت کو دل لگی سمجھ کر وقت گزاری کرتا رہا۔ میں شاید زندہ نہیں رہ پاؤں، لیکن تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے معاف کر دینا۔ میں یہاں علاج کرانے نہیں بلکہ تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے کسی دوست کے ذریعے پتا چل گیا تھا کہ تم یہاں پر ہاؤس جاب کرتی ہو۔
اتنا کہہ کر فیصل کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ چند آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے اور گالوں پر بہہ نکلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
وہ دوبارہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے فیصل کے آنسو صاف کیے۔ اور دکھی دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ گئی۔ اگلی صبح ڈاکٹر راؤنڈ پر آئے تو انہوں نے فیصل کی میڈیکل رپورٹس دیکھیں اور اس کی حالت کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ میں جانتی تھی کہ فیصل کے بچنے کی اب ایک ہی امید ہے، اور وہ ہے اس کالے جادو کا توڑ ۔۔۔۔ میں نے فیصل کے اوپر جو شیطانی عمل کیا تھا اس کا توڑ کرنے سے فیصل کی جان بچ سکتی تھی اور وہ توڑ صرف ایلس ہی کر سکتی تھی۔ کالے جادو کی ماہر ایلس، جو شیطانی طاقتوں کی مالک تھی۔
میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اللہ کی رضا کے لیے فیصل کی مدد کروں گی۔ اور جادو کا توڑ کرنے کے لیے ایلس کو بھاری معاوضہ دینا پڑا تو بھی دوں گی۔
اس صبح ڈیوٹی ختم کر کے میں ہسپتال سے نکلی اور گھر جانے کی بجائے ایلس کے گھر کا رخ کیا۔۔۔۔ جلد ہی میں اس کے دروازے پر کھڑی تھی۔ میں نے دروازہ بجایا تو ایلس کے بیٹے نے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا اور کہنے لگا، " ڈاکٹر صاحبہ، اندر آجاؤ " میں اس کے پیچھے چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تو مجھے عجیب طرح کی تنہائی کا احساس ہوا۔۔۔
وہ شاید گھر میں اکیلا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے