ہمارے علاقے میں ایک لال اسکول تھا ۔ اس اسکول کے بارے میں بھی یہی مشہور تھا کہ یہ اسکول نا صرف آسیب زدہ ہے بلکہ جنات، بھوت پریت، چڑیلوں اور بدروحوں کا مسکن ہے۔ میری چھوٹی بہن فوزیہ بھی لال اسکول میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھی۔ فوزیه اکثر و بیشتر لال اسکول میں ہونے والے کسی نہ کسی نا قابل یقین اور خوفناک واقعے کو بیان کرتی نظر آئی تھی۔ جسے سن کر میرے گھر والے نا صرف یقین کر لیتے تھے بلکہ کچھ خوف زدہ بھی ہو جایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے آسیب زدہ اسکول ہے۔ یہی کچھ ہوگا۔
بس تم یہ سال پورا کر لو ہم تمہیں اس اسکول سے نکلوا دیں گے ۔ میری امی کچھ زیادہ ہی ڈر جایا کرتی تھیں اور میں صرف نہیں کر رہ جاتا تھا۔
ایک دن فوزیہ اسکول سے آئی تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
خیریت تو ہے؟“‘ امی اس کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئیں میں جو دو پہر کے کھانے کے لئے گھر آیا ہوا تھا فوزیہ کی طرف دیکھتا رہ گیا۔
آج میں نے اپنی آنکھوں سے ایک حیرت انگیزمنظر دیکھا۔ ہماری مس رضیہ پیریڈ ختم ہونے کے بعد مجھے اپنے پیچھے اردو کی کاپیاں لانے کا کہہ کر کونے میں بنے
اسٹاف روم کی طرف چل دیں۔ میں نے پوری کلاس کی لڑکیوں سے کاپیاں لے کر جمع کیں اور میں رضیہ کو دینے اسٹاف روم کی طرف چل پڑی۔ میں رضیہ فری پیریڈ ہونے کی وجہ سے ذرا اپنا حلیہ درست کر رہی تھیں۔ میں میز پر کا پیاں رکھ کر ترتیب دینے لگی۔ میں رضیہ نے اپنے لمبے بال کھولے اور کنگھی کرنے لگیں۔ کنگھی کرتے ہوئےاچانک وہ زور سے چیخ پڑیں۔
میں نے جو گھبرا کر ان کی طرف دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی ان دیکھے وجود کے ہاتھ نے مس رضیہ کے بالوں کو پشت کی طرف سے مضبوطی سے پکڑ لیا ہو ان کا سر پیچھے کی طرف اس حد تک جھک گیا تھا جیسے پیٹھ سے جا لگا ہو اور پیشانی کی طرف سے ان کے بال بری طرح کھینچ کر رہ گئے تھے درد و تکلیف کی زیادتی سے ان کا چہرہ لہو رنگ ہو رہا تھا اور اپنےدونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کو پکڑے یوں مچل رہی تھیں جیسے ان دیکھے وجود کی گرفت سے نکلنا چاہ رہی ہوں ۔ مس رضیہ کو اس قدر تکلیف میں دیکھ کر میں تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔ ابھی میں نے ان کی طرف ایک قدم ہی بڑھایا تھا کہ دفعتاً ایسا لگا جیسے اسی ان دیکھے وجود نے انہیں بری طرح باہر کی جانب دھکیل دیا ہو۔ دھکا اس قدر شدید تھا کہ میں رضیہ چابی والے کھلونے کی طرح بغیر رکے دوڑتی ہوئی ہماری کلاس کے قریب جا کر زور سے گریں اور بے ہوش ہو گئیں ۔
ان کی ناک سے خون بہنے لگا تھا اور ان کے بال بری طرح بکھرے اور اکھڑ گئے تھے۔ بخدا اگر یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی یقین نہ کرتی لیکن اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ لال اسکول آسیب زدہ ہے۔ یہ کہہ فوزیہ رونے لگی میں نے اسے ۔ گلے سے لگا کر پیار کیا اور اسے ڈھیروں تسلیاں دینے لگا مجھے یقین تھا کہ فوزیہ جھوٹ نہیں بول رہی تھی کیونکہ وہ بے تحاشہ ڈری ہوئی تھی لیکن جانے کیوں آسیب والی بات بھی مجھ سے ہضم نہ ہو پارہی تھی۔
شام کو اپنے دوست شکیل اور سکندر سے ملا تو انکے لیوں پر بھی یہی واقعہ تھا۔ گویا گزشتہ واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی پورے علاقے میں گردش کر کے رہ گیا تھا ۔
میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں لال اسکول میں تین راتیں گزاروں گا۔ میں بھی تو دیکھوں کہ وہ کیا چیزیں ہیں جنہوں نے پورے اسکول میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے ۔“ میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ لال اسکول میں تین راتیں گزارنے کا سن کر شکیل اور سکندر حیران سے ہو کر رہ گئے تھے اور غیر یقینی نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ اوئے ہوش کر۔ کیوں عین جوانی اور کنوارے پن میں وقت سے پہلے مرنا چاہتا ہے۔“ سکندر نے مجھے ڈرا کر باز رکھنا چاہا۔ اگر مرا نہیں تو پاگل ضرور ہو جائے گا۔“‘ شکیل نے بھی یقینی لہجے میں کہا۔
تم لوگ جانتے ہو میں بھوت پریت ، چڑیل اور بد روحوں پر یقین نہیں رکھتا ہوں ۔ لیکن میں تنہا ان بہت سارے لوگوں کو قائل بھی نہیں کر سکتا جو آسیب وغیرہ پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اسی لئے میں محض اپنے دل کی تسلی کے لئے لال اسکول میں تین راتیں گزارنا چاہتا ہوں۔ میں آج رات سے ہی ابتدا کروں گا۔ میں نے کہا۔ سکندر اور شکیل نے مجھے روکنے اور باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی لیکن میں نے اپنے ارادے میں کسی قسم کی ترمیم نہ کی ۔
یہ ہماری بات نہیں مانے گا۔ اگر رستم اسے روکتانا تو یہ فورا رک جاتا ۔ انہوں نے میرے جگری دوست رستم کا مجھے طعنہ دیا جس کی میں نے کبھی کوئی بات نہ ٹالی تھی۔ لیکن اگر رستم بھی اس وقت ہوتا اور مجھے لال اسکول میں تین راتیں گزارنے والے فیصلے سے باز رکھتا تو میں اس کی بات بھی نہ مانتا کیونکہ مجھے اپنے دل کی تسلی کرنی تھی۔
میں نے اپنے گھر والوں سے اس بات کو پوشیدہ ہی رکھا کیونکہ انہیں لال اسکول کے آسیب زدہ ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہ تھا۔ رات کے بارہ بجے جبکہ پورے علاقے پر سناٹے کا راج قائم ہو گیا میں خاموشی سے اٹھ کرباہر کی جانب چل دیا۔ ایک لالٹین ، ایک تکیہ اور دو چادریں بھی میں نے اٹھا لیں اور دبے قدموں گھر سے باہر آگیا ۔میں ایک پرانی فلم کا نغمہ گنگناتا ہوا لال اسکول کی جانب بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔اور میرے ہاتھ میں جلتی لالٹین کی روشنی بھی بس غنیمت ہی تھی۔ لال اسکول کے داخلی دروازے پر دباؤ ساڈالا ۔ ۔ چوں اوں اوں کی بھیا تک آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا اور میں اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہو گیا ۔ پوری عمارت پر موت کا سا سناٹا اور تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔
ہواؤں سے ملنے والے درختوں کی شائیں شائیں اور قدموں تلے آکر دم توڑنے والے سوکھے پتوں کی چررر چرار محسوس کیے بغیر میں عمارت کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا چلا جا رہا تھا۔ کئی بار مجھے یہ گزرا کہ کوئی میرے پیچھے آرہا ہے لیکن میں جانتا تھا یہ محض میرا وہم ہے اس لئے میں نظر انداز کئے عمارت کے اندرونی حصے میں داخل ہو گیا۔وسیع برآمدہ میرے قدموں کی دھمک سے گونج اٹھا ٹھک ٹھک۔ میں قدم بہ قدم سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگا۔
سناٹا اس قدر گہرا تھا کہ میں اپنے دل کی دھڑکنیں بھی با آسانی شمار کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک عجیب سی نا معلوم وحشت اور اداسی نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر سیڑھیوں پر قدم رکھا چیں ایس ایس کی آواز بلند ہوئی اور تھوڑی دیر کے لئے سناٹا منتشر ہوا۔ سالہا سال سے استعمال ہونے اور کوئی مرمت کا کام نہ ہونے کی وجہ سے سیڑھیوں کے درمیانی تختے ڈھیلے پڑ چکے تھے۔ کیلیں زنگ آلود ہو کر گر پڑی تھیں ۔ سیڑھیاں چڑھنے ھنے اور وسیع برآمدہ طے کرنے کے بعد میں بالآخر سٹاف روم کے دروازے تک پہنچ گیا دروازے کے قریب رک کر میں نے دو چار قدم کے فاصلے پر بنی لیٹرین کی طرف سرسری نظر ڈالی اور اگلے ہی لمحے اسٹاف روم کا دروازہ کھولے اندر داخل ہو گیا۔
سٹاف روم میں ایک بڑی میز اور چھ کرسیاں رکھیں تھیں ۔ داخلی و خارجی ایک ہی دروازہ تھا اور ایک کھڑکی تھی جو باہر میدان کی طرف کھلتی تھی لیکن اس وقت بند تھی میںنے تمام خوفناک واقعات اسی سٹاف روم اور مقفل لیٹرین سے متعلق سنے تھے۔ اس لئے میں نے سوچ لیا تھا کہ میں رات سٹاف روم میں ہی گزاروں گا۔ میں نے اسٹاف روم سے باہر آکر لیٹرین کے مقفل دروازے پر نظریں جما دیں میرے دماغ میں لیٹرین سے متعلق سنے گئے تمام واقعات گونجنے لگے۔ فوزیہ کے مطابق دو تین لڑکیوں نے یہ بتایا تھا کہ جب وہ اپنی ضرورت پوری کرنے لیٹرین میں داخل ہوئیں تو ان کے سروں پر لیٹرین کی چھت سے تازہ اور گاڑھے خون کے کئی قطرے آکر ٹپکے تھے، کئی لڑکیوں نے لیٹرین کے اندر لمبے لمبے بالوں والی ایک بھیانک صورت کالی سیاہ عورت کو دیکھا تھا۔
کسی نے لیٹرین کے ایک کونے میں صاف شفاف کپڑوں میں لیٹے ہوئے ایک نومولود وجود کو ہنستے اور ہاتھ پاؤں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ غرضیکہ نا قابل یقین واقعات کا ایک سلسلہ تھا جو اسکول میں خوف و ہراس پھیلانے کا سبب بنا ہوا تھا۔ اسی خوف و ہر اس کو کم کرنے کے لئے لیٹرین کو ایک موٹا سا تالا لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لیٹرین کے بند ہوتے ہی خوفناک واقعات کا سلسلہ بھی بند ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بقول شخصے واقعات میں مزید شدت پیدا ہو گئی جن میں ایک واقعہ میں رضیہ کو بالوں سے پکڑ کر دھکیلنے والا بھی تھا۔
چوں اوں اوں ... لکڑی کی سیڑھیوں سے بلند ہوئی آواز نے میری توجہ بٹالی۔ میں نے اپنی جگہ کھڑے ہی کھڑے گردن گھما کر برآمدے کے سرے کی طرف دیکھنا چاہا لیکن سوائے گہرے اندھیرے کے مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔۔۔ دفعتا دھپ دھپ کرتے قدموں کی آواز بلند ہوئی۔ ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی میری طرف ہی بڑھا چلا آ رہا ہو لیکن تاریکی کے باعث میری نظریں کسی بھی وجود کودیکھنے سے قاصر تھیں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی قدموں کی چاپ سن کر میں بجلی کی سی تیزی سے اسٹاف روم کی جانب لپکا اور جھپٹا مار کر لالٹین اٹھائے اس تیزی سے دوبارہ باہر آیا۔
کون ہے؟ “ میری آواز برآمدے کی وسعتوں
میں گونجتی ہوئی معدوم ہو گئی۔ کوئی جوابی آواز نہ ابھری اور نا ہی کوئی دکھائی دیا برآمدے کی وسعتوں میں ہولناک خاموشی اور لالٹین کی زرد روشنی کے علاوہ اگر کوئی آواز تھی تو وہ میرے اپنے تنفس کی آواز تھی۔ میں نے بے خوفی سے سر جھکایا اور دوبارہ اسٹاف روم کی طرف جانے کیلئے قدم اٹھایا ہی تھا کہ دھپ دھپ بھا گئے قدموں کی آواز ایک بار پھر سنائی دی لیکن اس بار آواز قریب آنے کے بجائے دور جاتی محسوس ہوئی ۔ یعنی وہ جو کوئی بھی تھا مجھے ہوشیار پا کر بھاگ کھڑا ہوا تھا ۔
جانے کیوں مجھے یقین سا تھا کہ یہ شرارت سکندر یا شکیل کی ہو سکتی تھی۔ جو مجھے ڈرا کر یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دینے کے لئے متحرک ہو گئے ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ دونوں اس قسم کی شرارتیں مسلسل تین راتوں تک یونہی کرتے رہیں گے۔ اسٹاف روم میں آکر میں نے لالٹین دوبارہ میز پر رکھی اور کرسی کی جانب ہاتھ بڑھا کر جو نہی اپنا بستر یعنی ایک تکیہ اور دو چادریں اٹھانا چاہا میرا ہاتھ اپنی جگہ رک سا گیا اور آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی ۔ کیونکہ بستر کرسی پر نہ تھا ۔ کرسی بالکل خالی پڑی تھی۔ میں نے بستر کہاں رکھا تھا ؟ ۔ ابھی میں یہ یاد کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ میں نے کوئی نرم سی چیز اپنے پیروں کے نیچے رکھی محسوس کی۔ میں نے جھک کر دیکھا تو وہ میرا تکیہ تھا ۔ چادریں اسٹاف روم سے باہر لیٹرین کے بند دروازے کے قریب پڑی ہوئی ملیں جو یقینا اس وقت میرے پاؤں سے لپٹ کر یہاں تک پہنچی تھیں جب مجھے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔
میں نے چادریں جھٹک کردوبارہ کرسی کی بجائے میز پر رکھیں اور اسٹاف روم کے کونے میں پڑے ایک کپڑے کے ٹکڑے کو اٹھا کر میز کے گرد صاف کرنے لگا تا کہ سونے کی تیاری کر سکو۔ ابھی میں میز صاف کر کے فارغ ہی ہوا تھا کہ سناٹے کا سینہ چیرتی ہوئی ایک بے حد کرخت اور نا قابل برداشت آواز پوری عمارت میں گونج کر رہ گئی ۔ یہ آواز ڈیک سرکانے کی آواز تھی۔ جو اچانک بلند ہو کر میرے دل کی دھڑکنوں کو بھی اتھل پتھل کر گئی تھی۔ چند لمحوں تک میں اس آواز کے رکنے کا انتظار کرتا رہا لیکن جب ڈیسک بدستور سرکائے جاتے رہے تو میں نے غصے سے لالٹین اٹھائی اور برآمدے میں چلا آیا یوں لگ رہا تھا آواز پہلے نمبر پر بنے کمرے سے آرہی ہو میں نے قدم تیز تیز اٹھائے اور پہلے کمرے میں داخل ہو گیا ۔ لالٹین کو سر تک بلند کر کے میں نے اسکی محدود روشنی میں پورے کمرے کا جائزہ لیا لیکن کسی کو نہ پا کر میرے لبوں سے طویل سانس آزاد ہو کر رہ گئی۔ ڈیسک بھی بدستورترتیب سے رکھے ہوئے تھے اور ایک دم آواز آنی بھی بند ہو گئی تھی۔
تمام کلاسز کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں جھلایا ہوا سا دوبارہ اسٹاف روم میں آگیا اور ہر قسم کے خیالات کو ذہن سے جھٹک کر میں نے لمبی سی میز پر اپنا بستر لگا دیا اور میز پر چڑھ بیٹھا ۔
ابھی میں نے بستر سے پیٹھ ٹکائی ہی تھی کہ ایک بار پھر سناٹے میں شگاف پڑنے شروع ہو گئے ۔ دھنا دھن ڈیسک بجنے لگے جیسے چند شریر لڑ کے بھاگ پکڑ میں مصروف ہو گئے ہوں۔
میں دم سادھے پڑا رہا۔ یہ سوچ کر کہ سکندر اور شکیل کے لگائے ہوئے شریر لڑ کے کب تک اوردھم مچاتے رہیں گے۔ اگر میں لالٹین لے کر باہر نکلا بھی تو وہ روشنی دیکھ کر ادھر ادھر دبک جائیں گے۔ بالآخر خود ہی تھک ہار کر اپنی ناکامی پر شرمندہ ہو کر چلے جائیں گے۔
یہی سوچ کر میں نے ان کی شرارتوں پر لاحول پڑھی اور کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں۔ میری کلائی واچ کا ریڈیم ڈائل دو بجے کا احساس دلا رہا تھا۔
میری کوشش بے سود ثابت ہونے لگی۔ آپ خود سوچئے کہ دھبا دھب کی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی ہوئی آواز میں کب سونے دیتی ہیں۔ میرا تو گویا ذہن پھٹنے لگا تھا۔ کانوں میں شگاف سے پڑنے لگے تھے۔ پورا اسکول جھن جھنے کی طرح بجنے
لگا تھا۔
اف خدایا ۔۔۔۔ میں کربناک آواز نکالتے ہوئے اٹھ بیٹھا اور گھٹنوں میں دے کر دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس دیں لیکن میری یہ کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی۔ دھما کے تھے کہ بڑھتے ہی رہے یوں لگا جیسے تمام کلاسوں کے ڈیسک بجائے جارہے ہوں۔ایک بار پھر ابدی سکوت چھا گیا۔ جو کچھ ہوتا رہا وہ مجھے محض ایک خواب سا محسوس ہوا پھر میرے ذہن پر غنودگی سوار ہوگئی اور میں نیند کی آغوش میں سمٹتا چلا گیا۔
0 تبصرے