سکول کی بھیانک رات - پارٹ 2

urdu stories online 13

حسب عادت صبح ہی صبح میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنا بستر سمیٹا لالٹین اٹھائی اور اسٹاف روم سے نکل کر خالی کلاس رومز پر اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے زینے اترتا چلا گیا۔
 
مجھے حیرت بھی تھی کہ اسکول میں کوئی چوکیدار نہیں جبکہ اسکول کے مختصر گراؤنڈ کے ایک کونے میں چوکیدار کا کوارٹر موجود تھا۔ میں اسکول کی عمارت سے نکل کر درمیانی فاصلہ عبور کر کے گھر پہنچ گیا۔
بستر وغیرہ رکھنے کے بعد نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد چلا گیا اور ساڑھے آٹھ بجے تک تمام ضروریات سے فارغ ہو کر فیکٹری کی جانب روانہ ہو گیا ۔ .
میں دن بھر لال اسکول میں گزاری ہوئی رات کے متعلق سوچتا رہا تھا میں جان چکا تھا کہ گزشتہ شب اسکول میں پیش آنے والے حالات انسانی نہ تھے۔ ضرور اسکول عمارت میں کچھ ہے۔
 
میرے دل و دماغ پر ایک ضدی سوار ہو چکی تھی۔ میں، ہر صورت میں اسکول کے پر اسرار حالات سے پردہ چاک کر لینے کو بے چین سا ہو گیا تھا۔ شب کے نو بجے ہی میں ڈنر سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر ٹہل لگانے کے بعد اپنے کمرے میں جا گھسا۔
شب گیارہ بجے میرے گھر والے پوری طرح نیند کی آغوش میں سمٹ گئے تو میں نے روانگی کی تیاری شروع کر دی اور پھر بارہ بجے میں دبے قدموں اپنے گھر سے چل دیا۔ اسکول عمارت میں پہنچنے کے بعد گزشتہ شب کےاحساسات کو سمیٹتے ہوئے میں اسٹاف روم میں پہنچ گیا۔ 
 
میں آج کی رات ہر صورت میں لیٹرین ڈور کا تالا توڑنے کا تہیہ کر چکا تھا۔ اس مقصد کے لئے میں متعلقہ اوزار بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ میں نے لالٹین برابر میں رکھی اور چھینی نکال کرتا لے پر رکھی اور چھینی کے سرے پر ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ سناٹے کے باعث ہر ضرب کی آواز برآمدے کی وسعتوں سے گزرتی ہوئی چہار سو پھیل کر رہ جاتی تھی پھر چوتھی ضرب لگانے کے لئے میں نے جو نہی ہتھوڑے والا ہاتھ بلند کیا ، سناٹے میں زینے چڑھنے سے ابھرنے والے مخصوص چوں ۔۔ اوں ۔۔۔ اوں کی آواز کی گونج سن کر میں نے گردن گھما کر برآمدے کے سرے کی جانب دیکھا۔
 
لیکن ۔۔ سوائے دبیز اندھیرے کے مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ میں نے اپنی توجہ دوبارہ تالے کی طرف مرکوز کر دی اور ایک بھر پور ضرب لگائی کلک کی آواز کے ساتھ ہی تالاٹوٹ کر کنڈی کے سوراخ میں جھو سا رہ گیا میں نے تالا نکال لیا اور بھر پور قوت صرف کر کے زنگ آلود کنڈی کھولنے لگا۔
یہ کیا کر رہے ہو ا ظہر ۔ ایک مردانہ آواز سن کر میں بری طرح اچھل پڑا اور گردن موڑے آنکھیں پھیلائے ٹوکنے والے کو دیکھنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
کیوں توڑا ہے تالا “ آواز دوبارہ بلند ہوئی ۔
 
اس کے ساتھ ہی میں نے ایک قد آدم پر چھائیں کو قریب ہوتے محسوس کیا۔
اب کی بار ٹوکنے والے کی آواز میں پہچان چکا تھا۔ یہ آواز میرے جگری دوست رستم کی تھی ۔“ بے ساختہ میں سکون کی سانس لیتا رہ گیا۔ سنائے اندھیرے اور انجانے خدشات نے خوف کی جو مدھم پر چھائیاں میرےدل و دماغ پر مسلط کر رکھی تھیں، سو بڑی تیزی سے چھٹ گئیں۔ میں جانتا تھا کہ وہ چار روز قبل ہی اپنے کسی ذاتی کام سے کراچی گیا ہوا تھا۔ وہ آگیا ہوگا ۔ اسے سکندر اور شکیل سے میری انوکھی ضد کا پتہ چل چکا ہو گا اسی لئے وہ سنسان اسکول میں چلا آیا ہو گا۔
رستم کہاں ہو تم ۔ میرے لہجے میں بھاری پن کے ساتھ بہت زیادہ مسرت بھی تھی لیکن کوشش کے با وجود میں اس کے نقوش دیکھنے میں ناکام رہا۔ وہ صرف احساس کی حد تک میرے سامنے تھا۔
 
تمہارے سامنے ہی ہوں۔ آ جاؤ ۔ سیدھے بڑھتے آؤ۔“
میں نے قدم بڑھا دیئے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ مجھ سے چند قدموں کے فاصلے پر کیوں رک گیا ہے۔ میں بڑھتا رہا۔ محسوس یونہی ہوا کہ رستم سے قریب ہو رہا ہوں لیکن ۔ رستم مجھ سے اتنے ہی فاصلے پر رہا۔ جانے میں نے
کتنے قدم بڑھا دیئے لیکن رستم کی پرچھائیں کو بھی پاسکا۔ اور پھر میرے ذہن پر جھنجھلاہٹ سوار ہونے ہی جا رہی تھی کہ اچانک میں نے بازو پر کسی کی مضبوط گرفت محسوس کی۔
ابھی میں کچھ سوچنے بھی نہیں پایا تھا کہ رستم نے مجھے کھینچ لیا حالانکہ جسمانی قوت میں میں رستم سے دگنا ہی تھا۔ تاہم میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔
کیا کھا لیا ہے رستم ۔ بڑی قوت آگئی ہے تم میں ۔“
میں نے ہنستے ہوئے کہا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور مجھے بازو سے پکڑے ایک کلاس روم میں داخل ہو گیا۔ میں اس کی صرف گرم گرم سانسیں ہی محسوس کر رہا تھا۔ اس کے وجود کو دیکھنے میں ناکام ہی رہا۔
اسٹاف روم میں چلتے ہیں رستم “ وہاں لالٹین روشن ہے۔ آرام سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ یہاں بہتاندھیرا ہے۔ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ میں صرف رستم کی موجودگی کو محسوس کر رہا تھا۔
باتیں یہاں بھی ہو سکتی ہیں اظہر ۔ ہم ایک دوسرے کی آواز سن رہے ہیں یہی غنیمت ہے۔“ رستم نے جواب دیا اور میں نے کوئی تعرض نہ کیا۔
دو تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں میں رستم کو دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا ۔
بس ہو گیا معلوم تم صرف یہ بتلاؤ کہ یہاں کیوں آئے ہو خواہ مخواہ کسی کو پریشان کرنے سے تمہیں کیا ملے گا۔
جانے یہ میرے محسوسات تھے یا حقیقت کہ میں نے رستم کے لہجے میں کرختگی محسوس کی ۔ شاید اسے میرا یہاں آنا پسند نہیں آیا تھا۔
میرے بھائی۔ میں کیوں کسی کو پریشان کرنے لگا اور پھر یہاں ہے ہی کون جسے میں یا میری موجودگی پریشان کرے گی۔ میں تو صرف رات گزار نے آیا ہوں۔ سورج نکلنے سے پہلے چلا جاؤں گا۔ میں نے روایتی لہجے میں کہا۔
میری مان لے۔ چپکے سے گھر چلے جاؤ ۔“ اس بار رستم کے لہجے میں کرختگی کے ساتھ سنجید گی بھی تھی۔
 
کیا صرف یہی کہنے کے لئے آئے ہو۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
اٹھا ہو۔ رستم کے لہجے سے یوں لگا جیسے کوئی کٹ کھنا کتاغرا
ہاں ہاں میں یہی کہنے کے لئے آیا ہوں ۔“
پورے کمرے میں اس کی غراہٹ نما آواز گونج کر رہ گئی اور میں نے یوں محسوس کیا کہ میرا دل پھٹ پڑے گا۔
میری سانسیں بکھر کر رہ جائیں گی۔ ایک لمحہ کے لئے تو میرا پورا وجود جھر جھرا کر رہ گیا لیکن دوسرے لمحے میں اپنےاعصاب پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
تم کیوں ناراض ہو رہے ہو رستم ۔ تم جانتے ہو کہ میں جو کچھ ٹھان لوں ، کرگزرتا ہوں۔“
چلا جا یہاں سے۔ تیرے لئے یہی بہتر ہے۔“
رستم کا ایک ایک لفظ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی ضرب بن کر برسنے لگا تھا ۔
آخر اسے کیا تکلیف پہنچ رہی ہے۔ اس کا لہجہ اور انداز کیوں تیر بن کر میرے دل میں چبھتا ہوا محسوس ہوا۔
 
اس کے انداز و لہجے نے میرے دل و دماغ پر بھونچال سا طاری کر دیا تھا۔
چلا جاؤں گا رستم ۔ میں کوئی مستقل رہنے کے لئے یہاں نہیں آیا ۔ میں حتی المقدور اپنے دل کی دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے بولا ۔
لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تم کیوں مجھے یہاں سے بھگانا چاہتے ہو۔ دو راتیں ۔ آج اور کل کی دو راتیں ہر حالت میں مجھے یہیں گزارتی ہیں ۔“ اپنا منشاء بیان کرنے کے بعد میں رستم کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ ٹھیک ہے اظہر ۔ اگر تو یہی چاہتا ہے تو یہی سہی ۔“
چند لمحوں بعد اس کی آواز ابھری۔ جس ڈیسک پر ہم بیٹھے تھے وہ ہلکی سی چرچراہٹ سے ہل کر رہ گیا۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ رستم میرے برابر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے
 
اگلے ہی لمحے قدموں کے ہلکے سے دھماکوں نے میرے اندازے کو یقین میں بدل دیا رستم ۔ میرا جگری دوست مجھ
سے ناراض ہو کر جا رہا تھا۔ میں نے بھی اسے منانے یا روکنے کی کوشش نہیں کی۔ میں بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ اور اسٹاف
روم کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ میں چند ہی قدم بڑھنے پایا تھا کہ ایک نئے احساس نے میرے وجود میں سنسناہٹ طاری کر دی اور وہ احساس یہ تھا کہ کوئی میرے ساتھ ساتھچل رہا تھا ۔
لک، کون رستم؟ ہلکی سی کپکپاتی آواز میں پکارتے ہوئے میں نے اندھے کی طرح اپنے ہاتھ لہرانے شروع کر دیئے۔ رستم کا نام میں نے اس لئے پکارا تھا کہ صرف وہی تو ایک ایسا دوست ہے جو ہر سکھ اور مشکل گھڑی میں میرا ساتھ دیتا رہا تھا۔ وقتی طور پر اگر وہ مجھ سے خفا بھی ہو گیا تو مجھے اس ویران اسکول کے پر ہول سناٹوں میں تنہا چھوڑ کر نہ گیا ہو اور میرے ساتھ ساتھ ہی لگا رہا ہو۔
لیکن میرے ہاتھ اندھیرے میں لہراتے رہ گئے ۔ کسی وجود کو چھونے میں مجھے کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہی میری پکار کا کوئی جواب دیا گیا۔
 
ایک انجانے خوف نے پہلی بار مجھے اپنے احاطے میں لے لیا۔ اس کے باوجود اپنی تمام قوت گویائی استعمال کرتے ہوئے میں نے آواز لگائی ۔
رستم میرے دوست اگر تم یہیں ہو تو پلیز مجھے جواب دو۔ اگر کسی بھی وجہ سے جواب نہیں دینا چاہتے تو تمہیں قسم دیتا ہوں کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ کر چلے جاؤ۔ اندیشوں میں مبتلا نہ کرو مجھے ۔ میری آواز ایک سرے سے دوسرے سرے تک گونجتی ہوئی معدوم ہو گئی مگر جواب نہیں ملا۔
سامنے روشن لالٹین کا دھندلایا ہوا اجالا تھا۔ قریب پہنچ کر میں نے لالٹین اٹھائی اور اسٹاف روم کی طرف بڑھ گیا ۔ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر رات کا سوا ایک بج رہا تھا۔
 
ذرا سی دیر ستا لینے کے خیال سے میں لیٹرین کی کنڈی کھولنے کا ارادہ ترک کر کے ٹیبل صاف کرنے لگا۔ چادر بچھا کر تکیہ رکھا اور سکون سے لیٹ گیا۔ لیٹا ہی تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ لمبی چوڑی ٹیبل میں ہلکی ہلکی لرزش سی ہورہی ہے۔
چونکہ میری آنکھیں بوجھل بوجھل سی ہو رہی تھیں اور ذہن پر ہلکی سی غنودگی بھی طاری تھی اس لئے میں اسے اپنا واہمہ سمجھا لیکن جیسے ہی چرچراہٹ کی مہیب آواز سے میز سرکتی ہوئی اندازا چند فٹ ہی پرے کھسکی میں کراہتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔
 
میری آنکھیں پھیل گئیں، سینہ تیزی سے پھول پھول کر پکنے لگا، میرے نتھنے پھیل پھیل کر سمٹنے لگے اور میرے سے پسینے کے سوتے پھوٹ پڑے۔
لک، کون ہے۔ کون ہے کمرے میں “ میں اکھڑی اکھڑی سانسوں کے درمیان بولا ۔ بولا ہی تھا کہ ٹیبل کو پھر ایک زبردست جھٹکا لگا۔ یوں لگا جیسے کسی انجانی قوت نے ٹیبل کو ٹھو کر رسید کر دی ہو۔ میں عالم خوف میں چلاتے ہوئے الٹ کر اک دھماکے سے فرش پر گر پڑا۔
 
میرا لباس فرشی گرد سے لت پت ہو گیا۔ میرا دل بندر والے کی ڈگڈگی سی بن گیا۔ یوں لگا جیسے میرا دل سینے کی ہڈیاں توڑ کر ابل پڑے گا۔ میرے جسم کی کپکپی کا یہ عالم تھا کہ اٹھنے کی کوشش میں میں بار بار گر پڑتا۔ اچانک اسٹاف
روم میں دیوار کے ساتھ ٹکی ہوئی چند کرسیاں خود بخود معلق ہوتی چلی گئیں ۔ یہ انوکھا منظر دیکھتے ہیں میں ساری چوکڑی ۔بھول گیا۔ میری گھگی بندھ گئی
کھٹاک کی لرزہ بر اندام کر دینے والی آواز سے ساری معلق کر میاں فرش سے ٹک گئیں اور میں فرش ہی پر پڑا ہو ا مرگی کے مریض کی طرح پھڑ پھڑاتا رہا۔ پھر وہی سناٹا ،
وہی ویرانی اور وہی وحشت پورے سٹاف روم پر حاوی ہو گئی۔ دس منٹ گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا۔ اب تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی کہ ....
اسکول آسیبی ہے۔ تاہم ندامت کے شدید احساس کےساتھ میرا ایک یہ احساس بھی مجھے جھنجھوڑتا رہا کہ میں بھاگوں گا نہیں ۔ خواہ میرا دل حلق سے اہل نہ پڑے میں بھاگوں گا نہیں۔ میرے دوست میرا جینا دو بھر کر دیں گے۔
 
ندامت کا احساس مجھے پیوند زمین کر دے گا۔ میں نے آج کی رات یہی بسر کرنی ہے۔ مزید ایک رات بھی گزار ہی لوں گا نہیں جاؤں گا۔ اس وقت تک جب تک آسیب کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔ ان خیالات نے میری ہمت بندھائی، میرا عزم بڑھایا اور میں اٹھ کھڑا ہوا۔ چادر درست کی، تکیہ ٹیبل پر رکھا اور لالٹین کی لو ذرا سی بڑھا کر دوبارہ ٹیبل پر لیٹ گیا۔ معا چیز۔۔ چوز ۔ چز کی مدھم آوازیں سن کر میں ایک پھر چونک کر اٹھ بیٹھا آپ یقین جائیے کہ اس بار میرے دل و دماغ پر کسی قسم کے خوف کی بجائے تجس سوار ہو گیا اور میں متلاشی نظروں سے چاروں طرف تکنے گا جیسے کہ لالٹین روشن تھی اور اس کی دھندلاتی ہوئی روشنی پورے اسٹاف روم میں بکھری ہوئی تھی اس لئے میری نظریں کرسیوں اور دیواروں کا طواف کرتی ہوئی تختہ - سیاہ پر مرکوز ہو گئیں۔
 
چز چرز کی آواز وہیں سے اٹھ رہی تھی۔ صاف محسوس ہوا کہ چاک سے بلیک بورڈ پر رگڑ ڈالی جا رہی ہے۔ اور چیز ۔ ۔ چزز - چز کی آوازی چاک کی رگڑ سے پیدا ہو رہی ہے۔
 
تجس کناں میں ایک بار پھر میز سے اتر پڑا۔ سورۃ مبارک کی تلاوت میری زبان پر جاری تھی۔ میں نے لالٹین - بھی اٹھالی تھی جس کی روشنی میں میرا اپنا سایہ دیوار پر دیو کی و طرح لہرا رہا تھا۔
تختہ سیاہ کے قریب پہنچ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ - ابھر آئی۔ اس لئے کہ یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پورا تختہ سیاہ بڑی ترچھی لکیروں سے بھرا ہوا تھا۔ کسی قسم کی کوئی آواز بھی سنائی باتنہیں دی۔ لہذا میں لا پرواہی سے سر جھٹک کرو ہیں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
 
میں نے سوچا کہ باہر برآمدے میں برسوں سے بند لیٹرین کا تالا تو میں نے توڑ ہی دیا ہے۔ کیوں نہ کنڈی بھی کھول دوں اور جائزہ لوں کہ لیٹرین کو کیوں بند رکھا گیا تھا۔
یہی سوچ کر میں لالٹین اٹھا کر کر ہی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
ذرا دیر بعد ہی میں کنڈی کھولنے میں مصروف ہو گیا۔ پانچ ہی منٹ میں کنڈی کھول دی اور کواڑ پر لاتیں مارنی شروع کر دیں۔
میری ہر ضرب پر دھب دھب کی آواز سنائے میں کسی ڈھول کی آواز طرح گونج کر رہ جاتی ۔ ایک ارتعاش سا پیدا ہو جاتا ماحول پر تاہم میری کوشش رائیگاں نہیں گئی اور کواڑ کھل گیا۔ کھٹاک کی زور دار آواز بھی ہوئی تھی۔
جب میں نے لالٹین اٹھا کر اندرونی جائزہ لیا تو میرے لبوں سے ایک طویل سانس نکل گئی۔ کیونکہ جسے میں لیٹرین سمجھے ہوئے تھا وہ لیٹرین نہیں بلکہ اسٹور روم تھا۔ اسٹور میں ٹوٹے پھوٹے فرنیچر کے علاوہ اگر کوئی چیز تھی تو وہ تھے سینکڑوں کا کروچ۔
 
میں نے فورا ہی کواڑ بھیڑ دیا ، کنڈی چڑھادی اور چھینی ہتھوڑا اور لالٹین اٹھا کو دوبارہ اسٹاف روم میں پہنچ گیا۔ لالٹین زمین پر ہی رکھ دی اور اچک کر ٹیبل پر چڑھ کر چت لیٹ گیا۔
گزرے ہوئے واقعات پر غور کرتے ہوئے آہستہ آہستہ مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ ممکن ہے میں نیند کی
وادیوں میں ڈوب جاتا کہ ایک ...... ایک خوفناک غراہٹ سنتے ہی میرے ذہن پر چھائی ہوئی تمام غنودگی مٹ گئی اور میں ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے