سکول کی بھیانک رات - پارٹ 3

urdu font stories

گزرے ہوئے واقعات پر غور کرتے ہوئے آہستہ آہستہ مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ ممکن ہے میں نیند کی وادیوں میں ڈوب جاتا کہ ایک ... ایک خوفناک غراہٹ سنتے ہی میرے ذہن پر چھائی ہوئی تمام غنودگی مٹ گئی اور میں ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
 
وہ خونی آنکھوں والا بھورا بلا تھا جو ٹیبل کی یا میری پائنتی جانب کی کرسی پر بیٹھا مجھ ہی کو خون اگلتی آنکھوں سےتک رہا تھا۔ یکبار میرا دل اچھل کر حلق میں آٹکا۔ میں نے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ باؤلا بلا جب کسی سوتے ہوئے انسان پر حملہ کرتا ہے تو اپنے دانت اس کے نرخرے میں ہی ڈبو دیتا ہے۔
یہی وہ سوچ تھی جس نے مجھے بہت زیادہ خوفزدہ کیا ساتھ ہی میرے لہو میں جدو جہد کی گرمی دوڑا کر رکھ دی۔
 
غاؤں ۔ بلے کی غراہٹ پھر گونجی ۔ اس نے اپنے سامنے والے دونوں پیر جھکا دیئے۔ اس کا کب ابھر آیا اور وہ مجھ پر جمپ لگانے کے پوز میں آ گیا۔
غاؤں ۔۔۔ ---- تیسری غراہٹ کے ساتھ ہی اس نے مجھ پر جمپ لگا دی ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر میں نے ٹیبل سے فرش کی طرف خود کو گرا دیا۔
گرایا ہی تھا کہ بلا زن سے ٹیبل سے گزر کر چند فٹ کے فاصلے پر فرش پر جا ٹکا اور فورا ہی روح فنا کر دینے والی آواز میں غراتا ہوا میری طرف گھوما۔ وہ گھوما ہی تھا کہ میں
نے ہاتھ لمبا کر کے سرہانے رکھا ہوا ہتھوڑا اٹھا لیا۔ میک اس
لمحے بلے نے مجھ پر دوسرا جمپ لگا دیا۔ فوراً ہی میرا ہتھوڑے والا ہاتھ گھوم گیا۔ میں نے فرش پر ہی کروٹ بدلی اور میرے ہتھوڑے کی ضرب بلے کے پیٹ پر پڑی۔
ضرب پڑتے ہی بلا اذیت ناک آواز میں غراتے ہوئے فرش پر گرا اور گرتے ہی گٹھڑی کی طرح گڈمڈ ہو گیا جبکہ میں ہتھوڑے پر گرفت مضبوط کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔
بلے کی تڑپ دیکھ کر مجھے رحم بھی بہت آیا لیکن یہ میری اپنی زندگی کا معاملہ تھا۔ سنبھالا لیتے ہی میں نے تڑپتے
ہوئے بلے کو پیر کی ایک زبردست ٹھوکر رسید کر دی۔ میں اس پر ہتھوڑے سے بھی وار کرنے والا تھا کہ بلا تڑپتے اور گرتے پڑتے دروازے کی طرف دوڑ پڑا۔
شکر ہے تیرا اے اللہ “ کہتے ہوئے میں نےلالٹین اٹھائی اور دروازے پر پہنچ کر دالان کا جائزہ لیا۔ جہاں تک لالٹین کی ملگجی روشنی کا تعلق تھا ۔ مجھے بلا کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
 
مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اسکول نہیں بلکہ اسٹاف روم آسیبی ہے۔ اسی روم ہی میں تو میری بہن کی مس کو دھکا لگا تھا۔ یہ سب کچھ دل سے تسلیم کر لینے کے باوجود میں ڈھیٹ بن کر پڑا رہا۔ میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر سٹاف روم واقعی آسیبی ہے تو میں آسیب کو دیکھے بغیر اپنا ارادہ بدلوں گا ہی نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آسیب بذات خود عاجز ہو یہاں سے کہیں اور چلا جائے۔
انہی خیالات میں گم میری آنکھ لگ گئی اور مجھے نیند آ گئی۔ سونے کے بعد بھی میرا تحت الشعور جاگتا رہا۔ میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا چار دراز قد و قوی ہیکل انسان اسٹاف روم میں داخل ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان کی رنگت کو سلے کی طرح سیاہ تھی بلکہ ان کے لباس بھی سیاہ تھے۔ ان کی آنکھیں عام انسانی آنکھوں سے چار گنا بڑی تھیں اور آگ کی طرح دہک رہی تھیں ۔ ان کی ناک اور ہونٹ حد درجہ بھدے تھے۔ ہر ایک کی کمر سے سرخ رنگ
کے چوڑے کمر بند بندھے تھے اور کمر بند سے نیام دار تلواریں لڑکائے ہوئے تھے ۔ وہ میری ٹیبل کے قریب پہنچ
یا گئے اپنا ایک ایک ہاتھ بڑھا کر مجھے ٹیبل سے اٹھا لیا۔ میں ان کے ہاتھوں کے لمبے لمبے اور نو کیلے ناخن بھی دیکھ چکا
تا تھا۔ ہاں تو انہوں نے مجھے بستر سمیت اٹھا لیا اور اسٹاف تے روم سے نکل کر سنسان برآمدے میں کافی فاصلے تک چلتے رہنے کے بعد اپنے ہاتھ کھینچ لئے اور غائب ہو گئے ۔
 
خلا میں معلق میرا وجود ان کے ہاتھ ہٹاتے ہی زمین کی جانب گرنے لگا اور ... ایک دھماکے سے میں گر پڑا۔ نے گھبراہٹ کے باعث میں نے آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیںکھولتے ہی میرے وجود نے ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے محسوس کئے ۔ میری خوابیدگی تحت الشعور سے جمپ کر کے میرے شعور کو بیدار کر گئی۔ میں نے محسوس کیا نہ تو میں ٹیبل پر ہوں اور نہ ہی اسٹاف روم میں ہوں بلکہ میں تو بالائی منزل کی اس گیلری میں پڑا ہوں جہاں کھڑے ہو کر اسکول کی طالبہ اطراف سے لطف انداز ہوتی رہتی رہیں۔
تو کیا وہ میرا خواب نہیں تھا ؟“ میں اپنے اندوہناک سوالوں پر غور ہی کر رہا تھا کہ میرے کانوں میں مسجدوں سے گونجنے والی اذانوں کی آواز میں ٹکرائیں۔
☆☆☆
دو پہر کو لنچ ٹائم پر امی ہی نے مجھے بیدار کیا تھا۔ میں جب پوری طرح جاگ پڑا تو امی کی کرسی پر بیٹھے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ میری حیرت اپنی جگہ لیکن امی کو محو حیرت اور پلکیں جھپکائے بغیر اپنی طرف گھورتے پا کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ السلام علیکم امی. میں نے مسکراتے ہوئے
سلام کیا۔
 
و علیکم السلام ۔ یہ تمہار الباس، چہرہ، سر کے بال اور ہاتھ پیر مٹی سے لتھڑے ہوئے کیوں ہیں ۔“
سوال ایسا تھا کہ میرا ذ ہن جھنجھنا کر رہ گیا۔ غلطی میری ہی تھی ، میں صبح اسکول سے نکلنے کے بعد اپنے بستر سمیت
جب گھر پہنچا تو میرا ذہن شب کے حالات کی باعث اور نیند کے دباؤ سے بالکل ہی بوجھل ہو چکا تھا۔ اگر معمول کے مطابق بستر رکھنے کے بعد نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد چلا جاتا تو وضو کر لینے سے میرے ہاتھوں اور پیروں کی مٹی ضرور دھل جاتی لیکن ۔ ذہنی دباؤ کے باعث میں نماز پڑھے بغیر سو گیا تھا۔
امی وہ وہ فیکٹری میں کام کاج کی زیادتی نے = میرا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ میں نے فوری طور پر بات بنائی۔د تم اب جھوٹ بولنے لگے ہو ۔ امی غصیلی آواز
میں بولیں
دنن نہیں امی میں بھلا کیوں جھوٹ بولنے
لگا میں لڑکھڑاتی زبان سے بولا۔
فیکٹری سے تو تم پانچ بجے ہی آگئے تھے۔“
نا۔ نائیٹ ڈیوٹی ہو گئی تھی ناں میری ۔ ایک جھوٹ
کو نبھانے کیلئے مجھے مزید جھوٹ پر جھوٹ بولنے پڑے۔
تو کیا تم رات بھر اپنے کمرے میں نہ تھے؟“
کیسے ہوتا امی۔ میں تو رات بھر فیکٹری میں تھا۔“
ہوں۔ چلو اٹھو پہلے نہا دھو کر کپڑے بدل لو ۔ امی غصے سے بولیں۔ اور اٹھ کر میرے کمرے سے چل دیں۔
میں نے امی کے چہرے اور لہجے میں صاف محسوس کیا کہ انہیں میری کسی بات کا یقین نہیں آیا۔
 
دس ہی منٹ میں میں غسل وغیرہ سے فارغ اور پانچ کھا کر باہر چلا گیا میں نے دوستوں سے ملاقات کی۔ فیکٹری کو فون کر کے اپنی غیر حاضری کی اطلاع کر دی اور دن بھر سوچتا رہا کہ شکیل اور سکندر دوراتوں میں آسیبی اسکول گئے تھے یا۔
جواب انکار میں ملا۔ اس وقت تو مجھے انتہائی تعجب
ہوا۔ جب میں یہ معلوم کر چکا کہ رستم کراچی سے لوٹا ہی نہیں
ہے۔ عشاء تک میں نے گھر کے بھی تین چار چکر لگا لئے تھے۔
مجھے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ امی میرے جھوٹ کو بھول چکی تھیں۔
ڈنر کے بعد میں اپنے کمرے میں مقید ہو کر رہ گیا۔ محض یہ تاثر چھوڑنے کے لئے کہ میں جلد ہی سو جانا چاہتا ہوں۔ یہاں اتنا اور بتلا دوں کہ میرے کمرے کا دوسرا دروازہ باہر گلی کی طرف کھلتا ہے جو بعض اوقات بطور بیٹھک بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
بستر پر دراز ہونے کے بعد میں اسکول کے حالاتہی کے متعلق سوچتا رہا۔ نہ جانے کیوں مجھے شبہ ہونے لگا تھا کہ میرے ساتھ ہونے والے واقعات کا محور اسکول کی عمارت کے اصل مالک رام چندر لعل ہے۔ جس کا مقدمہ کافی طول پکڑ چکا تھا اس لئے اس نے اساتذہ اور طالبات کو خوفزدہ کرنے کے لئے کوئی چکر چلا رکھا ہو۔
لیکن یہ سب کچھ چکر ہو ہی نہیں سکتا۔ تمام کمروں کے ڈیسکوں کا بجنا ، رستم کی آواز ٹیبل کا از خود آگے پیچھے کھسکنا۔
 
بلے کا اچانک نمودار ہو کر مجھ پر حملہ کر دینا ۔ سب سے اہم یہ کہ میں ایک خواب دیکھتا ہوں اور بیدار ہوتے ہیں خود کو اسٹاف روم سے باہر گیلری میں پاتا ہو۔
میری جبلی غیرت جاگ پڑی۔ میں اپنے دوستوں کو بتلا چکا تھا کہ میں نے دو راتیں اسکول میں گزار لی ہیں اور آج میرے ضد کی تیسری اور آخری رات ہے۔ اگر میں اپنا ارادہ ملتوی کر دیتا ہوں تو احساس ندامت سے اپنے دوستوں کا سامنا نہیں کر سکوں گا۔
 
میں اس وقت تک دم سادھے اپنے کمرے میں پڑا رہا جب تک میرے پورے گھر کو سناٹے نے اپنی لپیٹ میں نہ لے لیا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ سب ہی گہری نیند سو چکے ہیں تو میں آہستگی سے اٹھ بیٹھا۔ دراز سے پینچ سورۃ نکال کر جیب میں رکھا اور قرآن حکیم کو چوم کر چپکے سے بیرونی دروازے سے نکل گیا۔ آج میں نے بستر اٹھانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔
گلی کافی چوڑی تھی ۔ گلی کی سڑک بھی پختہ ہے۔ میں نے دائیں بائیں کا جائزہ لیا اور ہر ممکن احتیاط سے اپنی راہ چل دیا۔
 
دس پندرہ منٹ میں میں اسکول گیٹ پر پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر مجھے لالٹین چھوڑ دینے پر افسوس سا ہونے لگا گو کہ ستاروں بھرے آسمان پر چودھویں کا چاند براجمان تھا۔پورے کا پورا ماحول چاندنی کی لپیٹ میں تھا اس کے باوجود چاندنی اسکول کے کمروں میں تو داخل نہیں ہو سکتی۔ اپنے اطراف کا جائزہ لینے کے بعد میں آہستگی سے گراؤنڈ نما محن میں داخل ہو گیا۔ بائیں جانب جہاں برگد کا بوڑھا درخت تھا ، وہاں کافی اندھیرا تھا۔ لیکن چاند کی مدھم اور رومان پرور روشنی میں میں نے ایک جوڑے کو بیٹھے ہوئے دیکھ لیا۔
 
وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھے تھے ان سے کوئی چند قدموں کے فاصلے پر چوکیدار کا ویران اور مقفل کواٹر بھی واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ میں انہیں ڈسٹرب کئے بغیر دبے قدموں سے اسکول کی اصل عمارت میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی میں ویران اور پر ہول برآمدہ عبور کر کے اسٹاف روم میں پہنچ گیا۔ برگد کے بوڑھے درخت تلے خوش گپیوں میں مصروف جوڑے کی موجودگی نے میری کافی ڈھارس بندھا ہی ہوئی تھی۔ اسٹاف روم کی فضا ویسی ہی ہولناک تھی جیسی گزشتہ دو راتوں میں رہی تھی۔ اندھیرا ، سناٹا اور وحشت ہی وحشت برس رہی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں اسٹاف روم کی پوری وسعتوں سے واقف تھا اسلئے میں ذرا سی دشواری کے بعد اس بڑی سی سلاخوں دار کھڑ کی کی طرف بڑھ گیا جو دوسری جانب کے پلے گراؤنڈ کی طرف کھلتی تھی۔
 
بڑھتے وقت میں نے کسی کتے کی آواز بھی سنی اور جب میں نے کھڑکی کے دونوں پٹ کھول دیئے تو نیچے گراؤنڈ میں مجھے وہ کتا نظر آ گیا جو کھڑ کیوں ہی کی طرف منہ اٹھائے منحوس آواز میں رو رہا تھا۔ میں نے سامنے والی تین کھڑکیاں کھول دیں۔ کھولی ہی تھیں کہ پشت پر کسی چیز کے گھسٹنے کی آواز سن کر ہلکی سی کراہ کے ساتھ میں پلٹا ۔۔ یہ دیکھ کر میرا دل دھک سے ہو کر رہ گیا کہ ایک سات آٹھ سالہ بچہ کرسی کھینچتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بالکل گنجا تھا۔ اس نے صرف چڑی پہن رکھی تھی ۔ گورا چٹابھی تھا اور جسمانی طور پر کافی صحت مند تھا۔
 
”اے لڑکے میں بے ساختہ بول پڑا۔ میری آواز اسٹاف روم کے سناٹے میں گونج سی لے کر خود میرے لئے سوہان روح بن گئی ۔
کہاں لے جاہے ہو کرسی ۔ کون ہو تم اور یہاں کیسے آئے ۔ گھبراہٹ کے باعث میں سب کچھ کہہ گیا۔
بچے نے کوئی جواب نہ دیا ۔ بدستور کرسی کھینچتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھتا رہا اور میں نے نفسیاتی دباؤ سے بے خود ہو کر بنا سوچے سمجھے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
ناں تو ناں سہی ۔“ اس نے معصوم کی آواز میں صرف اتنا ہی کابل اور میری طرف دیکھے بغیر کرسی چھوڑ کر دروازے سے نکل گیا۔ مجھے احساس ہی نہیں رہا کہ میں نے اس کی کلائی پکڑی ہوئی ہے اور اس کا ہاتھ بالکل کسی ربڑ کی طرح کھنچا چلا جا رہا ہے۔
پھر جونہی میری نظریں میرے ہاتھ کی گرفت پر پڑیں، میرے لبوں سے ایک دلدوز کراہ نکل گئی۔ میرے رگ و ریشے میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی اور میں نے اس کی کلائی چھوڑ دی۔
وہ لمبا ہاتھ میری کلائی سے چھوٹنے کے بعد لڑکے کی طرف ہی کھنچتا چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ جب اسٹاف روم میں پہنچ گیا ہوں تو ان عجائبات سے بچنے کے لئے کیوں ناں دروازہ اندر سے بند کرلوں۔ مگر نہیں۔ دروازہ بند کر دینے
سے میرا وہ مقصد تو پورا ہونے سے رہا جس کے لئے میں یہاں آیا تھا۔ لیکن اچانک ایک سکتی آواز کی مدھم سی گونج نے میرا دھیان تقسیم کر دیا ۔ سکتی نسوانی آواز اسٹاف روم کے قرب و جوار ہی سے ابھر رہی تھی۔ جیسے کوئی عورت روتے روتے سسکیاں بھرنے لگی ہے۔
میرے ذہن سے ہر قسم کا تصور از خود مٹ گیا۔ میں ۔نے بھر پور قوت ارادی کے بل پر اپنی ہمت مجتمع کی اور اسٹاف روم سے باہر آگیا۔
☆☆☆
وہ عورت یا لڑکی ہی تھی جو دائیں جانب اسٹور روم کی دیوار کی طرف منہ کئے ، گھٹنوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔ وہ مکمل سفید لباس میں تھی۔ اس کا سر برہنہ تھا۔ اور سر کے بال اس قدر لمبے تھے کہ اس کی پیٹھ سے جھکتے ہوئے گدلے فرش تک بچھ گئے تھے اس کا جسم جھٹکے لے رہا تھا اور یہ جھٹکے اس کے سکنے کے باعث ہی لگ رہے تھے۔
اس کے برہنہ باز و چاندنی ہی کی طرح دمک رہے تھے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کا ایک اچٹتا سا جائزہ لیتے ہی میرے دل و دماغ سے گنجے لڑکے کا خوف حرف 
غلط کی طرح مٹ گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے