اس کے باز و چاندنی ہی کی طرح دمک رہے تھے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کا ایک اچھا سا جائزہ لیتے ہی میرے دل و دماغ سے گنجے لڑکے کا خوف حرف غلط
کی طرح مٹ گیا۔
میں غیر ارادی طور پر آگے بڑھ کر اس کے قریب اکڑوں بیٹھ گیا اور غیر ارادی طور پر ہی اپنا لرزتا ہوا ہا تھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ اصولاً اسے چونک پڑنا تھا لیکن وہ چونکے بغیر گھٹنوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی رہی۔ میری سماعت سے اس کتے کے رونے کی منحوس آواز بھی بدستور ٹکراتی رہی تھی ۔
کون ہو تم ۔ رو کیوں رہی ہو۔ میں ہمدردانہ لہجے میں بولا نہ جانے کیوں میرے ذہن سے یہ احساسات ہی مٹ کر رہ گئے تھے کہ آدھی رات کو ایک جوان و خوبصورت لڑکی اس آسیبی عمارت میں فرسٹ فلور پر کیا کرنے آئی ہے؟ کیوں آئی ہے؟ اور کیسے آئی ہے جبکہ مجھے اس کی آمد یا موجودگی کا احساس تک نہیں ہو سکا۔
اس نے آہستگی سے اپنا چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا ۔ اف خدایا ۔ اس کے سوگوار حسن نے میرے خرمن حیات پر بجلیاں کسی گرا کر رکھ دیں اس کی بڑی بڑی اورانتہائی پرکشش آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی چمک رہے تھے اور اس کا گلاب کو شرما دینے والا حسین چہرہ اداسیوں کے حصار میں جکڑا ہوا محسوس ہوا یوں لگا جیسے اس کے ملکوتی حسن و جمال نے مجھے ہپناٹائز کر دیا ہو۔ میں پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
کیا تم میری مدد کرو گے۔“ اس نے غیر یقینی لہجے میں کہا۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ تم کہو تو میں اس پر مر مٹنے والے لہجے میں بولا ۔ اس کے چہرے پر مسرت کی روشن پر چھائیاں سی امڈ آئیں پھر اس سے پہلے کہ وہ اپنا مسئلہ یا دکھ بیان کرتی، تختوں کی بنی ہوئی سیڑھیوں کی چرچراہٹ کے ساتھ دھب دھب کرتے، سیڑھیاں چڑھتے قدموں کی دھمک سے پورا برآمدہ تھر تھرا کر رہ گیا۔
وہ وہ آرہے ہیں ۔ لڑکی خوفزدہ ہو کر میرے قریب آ گئی۔
وہ وہ مجھے مار ڈالیں گے مجھے بچا لو۔ تم نے تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ بولو۔ کیا تم میری مدد کرو گے وہ حد درجہ خوفزدہ تھی اور مجھ ہی میں سمٹنے لگی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا یا کوئی فیصلہ کر پاتا۔ دوڑتے اور لپکتے قدموں کی آوازیں میرے قریب پہنچ کر رک گئیں ۔
میں قریب پہنچنے والوں کی طرف متوجہ ہوا ایک ہی نظر میں دیکھتے ہی میرے ذہن پر میرے دل پر بجلیاں سی گر پڑیں میری آنکھوں کے گرد ہزاروں رنگین چنگاریاں کی رقص کرنے لگیں۔
یہ وہی چاروں وہی دراز قد قوی ہیکل وحشی تھے جنہیں میں نے گزشتہ شب خواب میں دیکھا۔ یہ وہی تھے جنہوں نے مجھے اسٹاف روم کی ٹیبل سے اٹھا کر گیلری میں پٹک دیا تھا۔ ان کے کمر کے گرد سرخ رنگ کے کمر بند سے نیام دار تلواریں اب لٹکی ہوئی تھیں مزید روح فرسا منظر یہ تھا کہ۔ ایک کے ہاتھ میں کسی جوان العمر شخص کا کٹا ہوا سر تھا ۔ جس سے خون بہہ رہا تھا۔ دوسرے کے دونوں ہاتھوں میں شاید اسی مقتول کے کٹے ہوئے بازو تھے۔ تیسرے کے کندھے پر لے پر مقتول کی دو کٹی ہوئی ٹانگیں تھیں اور چوتھے نے بے سر، بے بازو اور بے ٹانگوں والا دھڑ پکڑ رکھا تھا۔ مجھے پورا اسکول گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ شدت خوف سے میری آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں ۔
وہ مجھ سے ہٹ کر دیوار سے لگی تھر تھراتی رہی اور گھگھیاتی رہی۔ وہ چاروں ہم شکل تھے اور مجھے نظر انداز کر کے لڑکی کی طرف ہی متوجہ رہے۔
مجھے مت مارو - مت مارو مجھے میں آئندہ چھپ
چھپ کر برگد کے نیچے کسی سے ملنے نہیں جاؤں گی ۔“ میں صرف دیکھ اور سن رہا تھا مجھ میں تو حرکت کرنےکی بھی سکت نہیں تھی ، حسینہ کو چار بھیا تک وحشیوں سے بچانا تو بہت دور کی بات تھی وہ بلبلا رہی تھی کہ ان میں سے ایک نے کئے ہوئے اعضاء وہیں پر پھینکے اور تلوار کھینچ کر بڑے ہی بھیانک انداز میں لڑکی کے سر کے بال پکڑ لئے اور ایک ہی وار میں لڑکی کا سرتن سے الگ کر دیا۔
اس کا سر دھڑ سے الگ ہو کر میرے قدموں میں آن گرا اس کے ساتھ ہی لڑکی کا جسم بھی لہراتے ہوئے گر پڑا۔
بے ساختہ میرے لبوں سے ایک جگر خراش چیخ نکل گئی۔ ہو سکتا ہے میری چیخ دور دور تک گونجتی چلی گئی ہو لیکنان چاروں سفاک و جلا د انسانوں کے بھیا تک قہقہوں میں دب کر رہ گئی ۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ان کے حلق سے نکلنے والے کھو کھلے تہ ہے۔ اف کاش میں دوسری رات ہی رستم کے کہنے پر اپنی ضد چھوڑ دیتا۔ان لرزه بر اندام کر دینے والے قہقہوں کے درمیان حسینہ کی کربناک چیخیں بھی ایک مسلسل گونج لیے ہوئے تھی اور یہ انتہائی گنگ کر دینے والا منظر تھا۔
میری پتھرائی ہوئی نظریں از خود فرش کی طرف جھک گئیں اور پھر جو منظر میں نے دیکھا وہ میرے لئے مزید اعصاب شکن ثابت ہوا۔ میں گھگھیا تا رہ گیا۔
لڑکی کی کٹی ہوئی گردن سے بے تحاشا خون بہہ رہا تھا اسکے باوجود اس کے چہرے پر تازگی تھی اور اس کی غیر متحرک نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ ایک بار پھر قدموں کی دھمک شروع ہو گئی۔ میں نے غیر ارادی طور پر نظریں اٹھائیں اور ان چاروں جلا دوں کو قہقہے لگا کر واپس جاتے دیکھ کر شک و شبہے کی باقی گنجائش بھی ختم ہو گئی۔
یہ اسکول واقعی آسیبی تھا اور میرے ارد گرد جو کچھ ہو رہا تھا۔ آسیبی کرشمہ سازی ہی تھی۔ وہ قاتل بدستور قہقہے بکھیرتے ہوئے جا رہے تھے اور میں ان کی دور ہوتی پیٹھ دیکھ رہا تھا۔
اچانک زمینوں کے قریب پہنچ کر وہ چاروں رک گئے ۔ یوں لگا جیسے وہ زینے اترنے ہی والے ہیں لیکن = ہوا میری سوچ کے برعکس ان کی گردنیں یا سر اس طرح گھوم - پڑے کہ ان کے چہرے تو پیٹھ کی طرف ہو گئے اور سر سینے کی ۔ طرف ۔ ان چاروں کی انگارہ برساتی آنکھیں اب مجھ پر ۔ مرکوز ہو کر رہ گئیں۔
بہت اچھا کیا تم نے نوجوان ۔ وہ چاروں بیک - زبان بولے ۔ کہ اس بھکارن کی جان بچانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ نیچے صحن میں اپنے چاہنے والے کے ساتھ بیٹھی ۔
گل چھرے اڑا رہی تھی ۔ گھر سے بھاگی ہوئی تھی ۔ جب ۔ تک ہم نے اس کے یار کے ٹکڑے کئے اس وقت تک یہ تمہارے پاس پہنچ چکی تھی۔
اگر تم نے اسے بچانے کی حماقت کی ہوتی تو ہم تمہارا تو قیمہ ہی بنا دیتے۔ نہ صرف یہ کہ قہقہے معدوم ہو گئے بلکہ وہ چاروں بھی اس طرح او جھل کی ہو گئے جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ان کے غائب ہوتے ہی لڑکی کا سر بریدہ جسم جو اس کے اپنے ہی خون میں لت پت تھا چند لمحے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہنے کے بعد ساکت ہو گیا۔ اس کے وجود کے بے حس و حرکت ہوتے ہی اس کے کٹے ہوئے سر سے چیخوں کا سلسلہ بھی معدوم ہو گیا اور اس کی آنکھیں بھی بند ہو گئیں۔
واقعی انسانوں کی اس ہری بھری دنیا میں خیر کے ساتھ شر بھی موجود ہے میں نے آنکھیں کھول دیں اور ... ایک مزید ہو شر با منظر دیکھ کر ایک بار پھر میرا دل اچھل کر میرے حلق میں آ گیا۔ کہ مقتول حسینہ اپنے پیروں پر کھڑی تھی۔ اس نے اپنا کٹا ہوا سر اپنے ہی ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ مجھ ہی کو تک رہی تھی۔ تم نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ مجھے بچا نہ سکے۔ اس لئے میں تم سے روٹھ کر جا رہی ہوں ۔ کٹے ہوئے سر کے ہونٹوں سے آواز نکلی اور وہ اسٹور روم کا دروازہ کھول کر اسٹور میں داخل ہو گئی میں نے گھبرا کر اپنا چہرہ پھیر لیا اور یہ دیکھ کر مجھ پر پھر سے سکتہ طاری ہو گیا کہ زمین پر خون کا معمولی سا دھبہ تک نہ تھا۔ میں آہستگی سے اٹھ کر سٹاف روم کی طرف بڑھ گیا۔ اچانک میرے حلق سے ایک بار پھر کراہ نکلی ۔ وجہ وہ ٹکر تھی جو درمیان میں حائل کسی ان دیکھے وجود سے ہوئی اس قدر شدید تھی کہ میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور تیورا کر ایک اور دھماکے سے گر پڑا۔
گرتے ہی میں نے حائل وجود کی طرف نظریں اٹھائیں۔ اب وہ غائب وجود نہ تھا۔ اسے دیکھتے ہی میرادماغ جھنجھنا اٹھا۔ میری رگوں میں خون منجمد ہو گیا اور خوف سے میری آنکھوں کے ڈھیلے ابھر پڑے۔
وجہ وہی لڑکی تھی جو اپنے کٹ ہوئے سر کو بالوں سے پکڑے میری راہ میں حائل تھی ۔ اس کی آنکھوں سے خوف سا اہل رہا تھا۔ وہ میری ہی طرف تک رہی تھی اور اس کی گردن سے تازہ گاڑھا خون بے تحاشہ بہتے ہوئے فرش پر گر رہا تھا ۔
☆☆☆
تو نے کہا تھا نا تو میری مدد کرے گا۔ پھر تو نے میری مدد کیوں نہیں کی۔ وہ پھٹی ہوئی کھوکھلی آواز میں بولی ۔ اس کی آواز کی وحشت نے میرے دل پر کچوکے سے لگا دیئے۔
کیوں میری مدد کیوں نہیں کی ۔ وہ چلائی۔ یوں لگا جیسے پورے برآمدے میں کئی بلیاں باہم جھپٹ پڑی ہوں ۔ وہ قدم قدم میری طرف بڑھتی رہی اور میں زمین پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کی طرف کھسکتا رہا۔ مجھے اپنی موت یقینی محسوس ہوئی میں سرکتا رہا اور وہ میری طرف بڑھتی رہی۔ اچانک میری نظریں کانچ کی ٹوٹی ہوئی پلیٹ کے ایک حصے پر پڑی میں نے فوری طور پر ایک فیصلہ کر لیا۔ میں نے جھپٹ کر کانچ کی پلیٹ کا آدھا حصہ اٹھا لیا اور پوری قوت سے اس کے کٹے ہوئے سر پر دے مارا۔
اف خدایا ۔ میری پھینکی ہوئی پلیٹ اس کے چہرے سے ٹکراتے ہی اس کے لبوں سے ایسی دلخراش چیخ نکلی کہ بالائی منزل کے تمام کلاس رومز جھنجھنا اٹھے ۔ ذرہ ذرہ کانپ کر رہ گیا۔ سر بریدہ وجود گر پڑا اور کڑک پتے کی طرح کا پنپنے لگا۔ میں نے موقع غنیمت جانا، اٹھا اور سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگا دی
پکڑو۔ اسے پکڑو یہ بھاگ رہا ہے۔“ اس کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ میں نے پشت پر دوڑتے قدموں کی بھاری دھمک سنی۔ مڑ کر دیکھا تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔
وہ ان ہی چار میں سے دو حبشی تھے جو اپنی تلواریں لہراتے ہوئے میری طرف لپک رہے تھے گو کہ وہ ہوا کہ سی تیزی سے دوڑ رہے تھے لیکن حیرتناک بات یہ تھی کہ وہ میرے قریب نہیں پہنچ پا رہے تھے جبکہ میں زمینوں کے قریب پہنچ کر رک چکا تھا۔ اچانک مجھے اپنی پشت پر بھاری قدموں کی دھم دھم سنائی دی میں نے مڑ کر دیکھا بقیہ دو حبشی تلواریں سوتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ یا اللہ میری مدد کر ، مجھے حوصلہ عطا فرما...
میں نے دھڑکتے دل سے دعا مانگی اور زمینوں پر سے اترنے کا ارادہ ترک کر کے برآمدے کی اس حد بندی دیوار کی طرف بڑھ گیا جو فرش سے چار پانچ فٹ اونچی تھی اور سکول گراؤنڈ کے رخ تھی ، ویسے ہی میں نے دیوار کے پار زمینی جائزہ لیا۔ سامنے ہی برگد کی چھاؤں میں وہی جوڑا بیٹھا ہوا نظر آیا جسے میں اسکول میں داخل ہوتے وقت دیکھا تھا۔ اے میں چلایا۔ میری آواز سن کر وہ دونوں چونک کر میری طرف متوجہ ہو گے۔ اف میرے خدایا ان کے چہرے دیکھتے ہی میرے ذہن کے گویا پر نچے اڑ گئے ۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے سینے تک کے جسم تو گوشت پوست کے تھے لیکن چہرے ہڈیوں کا ڈھانچے۔ ان کی آنکھوں کے گڑھے ساٹھ وولٹ کے سرخ بلب کی طرح سلگ رہے تھے۔ ان کی ناک اور منہ کے گڑھوں سے آگ کی لپیٹیں سی نکل رہی تھیں۔ مجموعی طور پر یوں سمجھئے کہ وہ دونوں بھی آسیب تھے۔ میں نے گھبرا کر رخ موڑ لیا اور ..... دو کی بجائے چار وحشیوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ دونوں وحشی بھی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے ساتھیوں سے جاملے ہیں۔ صرف یہی نہیں وہ گنجا اور چڑی پہنے لڑکا بھی ان میںموجود تھا۔ اور حسینہ کا کٹا ہوا سر اٹھا کر اس کے دھڑ پر ٹکانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ چاروں وحشی حسینہ کو سہارا دے کر اٹھنے میں مدد دے رہے تھے۔ موقع غنیمت جان کر میں نے سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگا دی ۔ گو کہ سیڑھیاں گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ چاند بھی بڑی حد تک جھک چکا تھا اس لئے چاندنی کا عکس بھی زمینوں پر نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ اس کے با وجود میں بڑی تیزی سے زینے اترتا چلا گیا گراؤنڈ فلور پر پہنچتے ہی میں نے جیسے ہی اسکول پھاٹک کی طرف دیکھا تو ۔ سامنے سے میرے دوست اور چند محلے دار ٹارچ ، بتیاں اور لالٹینیں اٹھائے اسکول میں داخل ہو رہے تھے
☆☆☆
پورا ایک ہفتہ میں تیز بخار میں مبتلا رہا۔ آٹھویں روز میں جب مکمل طور پر ہوش و حواس میں تھا تو رستم نے مجھ سے سوال کیا ! اظہر ہوا کیا تھا ؟“
رستم ۔ جو کچھ میں نے دیکھا، اللہ سے التجا ہے کہ میرا کوئی دشمن بھی نہ دیکھ پائے۔ کاش میں نے تمہاری بات مان لی ہوتی ۔ میری بات ۔“ رستم حیران کن لہجے میں بولا ۔ پھر میں نے ہاں رستم کہہ کر ساری کہانی کہہ ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ خود رستم بھی وہاں موجود تھا۔کیا کہہ رہے ہو ا ظہر ۔ میں تو کراچی گیا ہوا تھا۔ اس وقت پہنچا ہوں۔ جب اکثر محلے دار تمہاری تلاش میں اسکول کی طرف جانے کی تیاری کر رہے تھے۔“تم صحیح کہہ رہے ہو رہے ہو رستم اور جھوٹا یا اور جھوٹا میں بھی نہیں ہوں۔ نہ جانے وہ جن تھا یا کوئی نیک روح جو رستم بن کر مجھے بے جا ضد سے روکنے کے لئے آیا تھا آج سے میں دل و جان سے تسلیم کرتا ہوں کہ دنیا میں ارواح نیک کے ساتھ شر شیطان ، بھوتپریت بھی موجود ہیں ۔“لیکن رستم ۔ میں حیران ہوں کہ آپ لوگ یا محلے دار اسکول تک پہنچے کیسے؟“میں بتلاتی ہوں تمہیں ۔ امی کی آواز سن کر میں ان کی طرف متوجہ ہو گیا۔
جس روز تم کیچڑ میں لت پت تھے ۔ اس روز تمہاری غیر موجودگی میں میں نے تمہاری فیکٹری کو فون کیا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ تم نے نائیٹ ڈیوٹی نہیں کی۔میں نے شکیل اور سکندر کو بلوا کر جب انہیں کریدا تو پتہ چلا کہ تم دو راتیں آسیبی اسکول میں گزار چکے ہو۔ یہ سن کر ہی میرا ماتھا ٹھنکا اور میں چپکے سے تمہارے باتھ روم میں دبک گئی۔شب بارہ بجے جب میں باتھ روم سے نکلی تو تم بستر پر نہیں تھے۔ حالانکہ تم نے بڑی چالاکی سے خود کو بستر پر ہی سویا ہوا پوز کیا تھا۔دو بجے تک میں نے شکیل اور سکندر کے ذریعے چند لوگوں کو جمع کر لیا اس کے باوجود وہ تین بجے سے پہلے روانہ نہ ہو سکے۔مزید نصف گھنٹہ رستم کی اچانک آمد میں ضائع ہو گیا اور جب وہ اسکول پہنچے وہیں تو تمہیں بدحواسی میں دوڑتے ہوئے دیکھا۔ اب تم بتلاؤ گے کہ وہ کیا حالات تھے جن سے دو چار ہو کر شیر کا سادل رکھنے والا میرا بیٹا بدحواس ہو گیا میں نے ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر امی کے بے حد اسرار پر میں نے انہیں اسٹاف روم میں گزاری ہوئی تین بھیانک راتوں کی تفصیل مکمل طور پر سنا دی اور ساتھ میں یہ بھی تسلیم کر لیا کہ بدروحیں، چڑیل، جن بھوت کا وجود بھی ہے اور اب وہ کبھی ان سے انکاری نہیں ہوگا۔
ختم شد
ختم شد
0 تبصرے