کراچی کے ایک گنجان علاقے میں، جہاں تنگ گلیاں، چھوٹے چھوٹے گھر، اور ہر طرف زندگی کی جدوجہد نظر آتی تھی، وہیں ایک غریب مگر باوقار خاندان رہتا تھا۔ اس خاندان کی بڑی بیٹی ماہین تھی، جو نہایت خوبصورت، معصوم اور نرم دل لڑکی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں خواب چھپے ہوئے تھے، لیکن غربت کے کانٹے ہمیشہ ان خوابوں کو چھونے کی کوشش کرتے۔
ماہین کے والد، اختر حسین، محلے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے، جہاں وہ روزمرہ کی ضروریات کی اشیاء فروخت کرتے تھے۔ ان کی کمائی بہت محدود تھی، لیکن وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کی تعلیم کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کی بیوی، شمیم بیگم، ایک سادہ گھریلو خاتون تھیں، جو اپنی زندگی اپنے بچوں کی خدمت میں گزار رہی تھیں۔ ماہین کے دو چھوٹے بہن بھائی بھی تھے، جو اسکول میں پڑھتے تھے اور ہر وقت کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔
ماہین کے لیے زندگی ہمیشہ ایک چیلنج رہی تھی۔ وہ اپنے والدین کی تکلیف کو دیکھتی، لیکن اپنی معصوم مسکراہٹ کے پیچھے اپنے دل کی بےچینی کو چھپانے کی کوشش کرتی۔ اس نے ہمیشہ اپنی تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا اور محنت سے پڑھائی کرتی رہی۔ کالج کے دنوں میں، وہ اپنی کلاس کی سب سے ذہین طالبہ تھی، اور اساتذہ اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے۔
لیکن غربت کے سائے ہمیشہ اس کے خوابوں پر منڈلاتے رہے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اسکول یا کالج کی فیس ادا کرنے کے لیے والدین کو قرض لینا پڑتا۔ اس کے باوجود، ماہین نے کبھی ہار نہیں مانی۔ وہ ہمیشہ امید رکھتی تھی کہ ایک دن وہ اپنی محنت سے اپنے خاندان کی تقدیر بدل دے گی۔
ماہین کی خوبصورتی کی چرچا پورے محلے میں تھی۔ وہ سانولی رنگت کی مالک، لیکن اس کا چہرہ ایسے چمکتا تھا جیسے کسی چاندنی رات میں دھوپ کی کرنیں ہوں۔ اس کی شخصیت نہایت دلکش اور معصوم تھی، جس نے اسے سب کی توجہ کا مرکز بنا دیا تھا۔ لیکن ماہین کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی توجہ صرف اپنی تعلیم اور اپنے خوابوں پر تھی۔
ایک رات، جب ماہین اپنی ماں کے ساتھ باورچی خانے میں کام کر رہی تھی، اس کی ماں نے اداسی سے کہا، "ماہین، بیٹا، ہم تمہیں زیادہ کچھ نہیں دے سکتے، لیکن ہم تمہارے لیے دعا کرتے ہیں کہ تم ہمیشہ خوش رہو اور اپنی محنت کا پھل پاؤ۔"
ماہین نے اپنی ماں کے ہاتھ تھامے اور مسکرا کر کہا، "امی، آپ کی دعا ہی میرے لیے سب کچھ ہے۔ ایک دن ہم سب اس غربت سے نکل جائیں گے۔"
یہی وہ امید اور حوصلہ تھا جو ماہین کو باقی لڑکیوں سے الگ بناتا تھا۔ لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں جلد ہی کچھ ایسا ہونے والا ہے جو اس کے خوابوں کو ایک نئے امتحان میں ڈال دے گا۔
ماہین کی محنت اور لگن کا پھل اس وقت ملا جب اسے کراچی کے ایک معروف بینک میں نوکری مل گئی۔ یہ نوکری اس کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھی۔ غربت کے گہرے سائے میں، یہ ایک روشنی کی کرن تھی۔ پہلی بار اس کے والدین کے چہرے پر سکون اور فخر کے جذبات نمایاں تھے۔
نوکری کا پہلا دن ماہین کے لیے بہت اہم تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر تیار ہوئی، سفید شلوار قمیص اور نیلے دوپٹے میں وہ نہایت دلکش لگ رہی تھی۔ اس نے آئینے میں خود کو دیکھا اور زیر لب کہا، "ماہین، آج سے تمہاری محنت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔"
ماہین کے والد اختر حسین نے اسے دعا دی اور کہا، "بیٹا، ہمیشہ ایمانداری سے کام کرنا اور اپنی عزت کا خیال رکھنا۔" شمیم بیگم نے اسے گلے لگایا اور کہا، "اللہ تمہیں ہر برائی سے بچائے۔"
بینک کا ماحول ماہین کے لیے نیا تھا، لیکن اس نے جلد ہی خود کو اس ماحول میں ڈھال لیا۔ اس کے ساتھی کارکن اس کی محنت اور خوش اخلاقی کی تعریف کرتے تھے۔ ہر روز وہ دفتری امور کو سیکھنے اور اپنی مہارت کو بڑھانے کی کوشش کرتی۔
جب پہلی تنخواہ اس کے ہاتھ میں آئی، تو وہ خوشی سے نہال ہو گئی۔ اس نے اپنی تنخواہ اپنے والدین کے ہاتھ میں رکھی اور کہا، "یہ سب آپ کی دعاؤں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔" والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، اور وہ بار بار اپنی بیٹی کو دعائیں دے رہے تھے۔
ماہین کی نوکری نے گھر کی مالی حالت کو کچھ بہتر کر دیا تھا، لیکن زندگی کی مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں۔ وہ روز دفتر جاتی، لیکن راستے میں کئی بار اسے عجیب نظروں اور خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ اکثر خود کو ان تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے دعا کرتی۔
ایک دن دفتر سے واپسی پر، اس نے محسوس کیا کہ ایک موٹر سائیکل سوار اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، لیکن اس نے اپنے حوصلے کو برقرار رکھا اور گھر کی طرف بڑھتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ کراچی جیسے شہر میں تنہا لڑکی کے لیے ہر قدم ایک آزمائش ہے۔
لیکن ماہین کی زندگی میں ابھی ایک بڑا طوفان آنا باقی تھا، ایک ایسا طوفان جو اس کی زندگی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دے گا۔
کراچی کے ہجوم سے بھری زندگی میں، دن کا شور اور رات کی خاموشی اپنے الگ الگ قصے رکھتے تھے۔ ایک دن جب ماہین دفتر میں زیادہ دیر تک کام کرنے کی وجہ سے رات گئے واپس لوٹ رہی تھی، تب وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ رات اس کی زندگی کا رخ بدل دے گی۔
ماہین بس اسٹاپ پر کھڑی اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی۔ رات کافی ہو چکی تھی، اور گلیاں ویران لگ رہی تھیں۔ روشنی کے چند بلب دور دور تک جل رہے تھے، لیکن ان کی روشنی ناکافی تھی۔ ماہین کے دل میں کچھ عجیب سا خوف محسوس ہو رہا تھا، مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور دعا پڑھنے لگی۔
کچھ دیر بعد ایک سیاہ گاڑی اس کے قریب آ کر رکی۔ گاڑی میں بیٹھے چار آدمیوں نے ماہین کو گھورنا شروع کر دیا۔ ان کی نظروں سے ماہین کو خطرے کا احساس ہوا، اور وہ فوراً وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف جانے لگی۔ لیکن جیسے ہی وہ قدم بڑھاتی، وہ گاڑی اس کے پیچھے آتی۔ اچانک ایک آدمی گاڑی سے نکلا اور تیزی سے اس کے قریب آیا۔
ماہین کے قدم رک گئے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، اور پھر وہ پوری طاقت سے دوڑنے لگی۔ وہ آدمی اس کے پیچھے لپکا اور دوسرے آدمیوں نے اسے پکڑنے میں مدد کی۔ ماہین چلائی، مدد کے لیے پکارنے لگی، لیکن آس پاس کوئی نہ تھا۔
انہوں نے اسے پکڑ کر گاڑی میں ڈال دیا۔ ماہین نے بہت مزاحمت کی، لیکن وہ تعداد میں زیادہ اور جسمانی طور پر مضبوط تھے۔ گاڑی میں بیٹھے ان لوگوں کی آوازوں میں خوفناک قہقہے اور مکروہ باتیں سنائی دے رہی تھیں۔
گاڑی ایک ویران علاقے کی طرف جا رہی تھی، جہاں کوئی روشنی نہیں تھی۔ یہ ایک سنسان جگہ تھی، جس کے چاروں طرف خالی میدان اور جھاڑیاں تھیں۔ گاڑی کے رکنے کے بعد ان لوگوں نے ماہین کو گھسیٹ کر باہر نکالا۔ وہ اپنی پوری طاقت سے چھوٹنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن ان کے ہاتھ مضبوط تھے۔
انہوں نے ماہین کو زمین پر پھینکا اور اس کے قریب آنے لگے۔ ماہین نے چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکارا، لیکن اندھیری رات میں اس کی آواز کہیں کھو گئی۔ خوف اور بے بسی کے عالم میں، وہ اللہ سے دعا کرنے لگی۔
اور پھر اچانک ہوا میں عجیب سی سرسراہٹ ہوئی۔ زمین ہلکی سی لرزنے لگی، اور ایک گہری آواز نے اندھیرے کو چیر دیا۔ وہ آواز کسی انسان کی نہیں تھی، بلکہ کسی اور مخلوق کی لگتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی تیز ہوا کا جھونکا آیا، اور ایک دھندلی سی شبیہ نمودار ہوئی۔
یہ شبیہ ایک پراسرار اور خوفناک جِن کی تھی، جو دیکھنے میں انتہائی طاقتور اور غضبناک لگ رہا تھا۔ وہ جِن ان آدمیوں کی طرف بڑھا، اور اس کے ساتھ ہی وہ لوگ خوف کے مارے کانپنے لگے۔ جِن نے اپنی گرجدار آواز میں کہا، "یہ معصوم لڑکی تمہارے رحم و کرم پر نہیں ہے۔ اب تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا ملے گی!"
ماہین خوف اور حیرت کے عالم میں زمین پر بیٹھی دیکھ رہی تھی کہ وہ پراسرار جن کس طرح ان آدمیوں کے اوپر قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ وہ چاروں آدمی، جو ابھی کچھ لمحے پہلے تک بے خوف اور مغرور دکھائی دے رہے تھے، اب کانپتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن جن نے اپنی طاقت سے انہیں زمین میں گرا دیا۔
جن کی گرجدار آواز اندھیرے میں گونج رہی تھی، "تم لوگوں نے معصوم لڑکی پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کی؟ اب تمہیں اس کی سزا ملے گی!" اس کے ساتھ ہی جن نے اپنے ہاتھ اٹھائے، اور ایک غیر مرئی طاقت نے ان چاروں کو دور پھینک دیا۔ ان میں سے کچھ بے ہوش ہو گئے، اور باقی خوف سے چیختے ہوئے بھاگ گئے۔
0 تبصرے