کالی بکری - پارٹ 1

Urdu Font Stories - 13

قصور کے قریب ایک گاؤں میں شمشاد نامی شخص رہا کرتا تھا جو کہ بھیڑ بکریاں چراتا اور ان کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا اس کے گھر میں صرف تین ہی لوگ تھے ایک اس کی بوڑھی ماں صغریٰ بی بی اور اس کی بیوی صدیقہ اور اس کی اکلوتی بیٹی فروہ جو کہ تقریباً 22 سے 23 سال کی تھی اور وہ صدیقہ کے ساتھ مل کر گھر میں کپڑے کی سلائی کڑاھی کا کام کرتی تھی جس کی وجہ سے گھر کا گزارا تقریباً مناسب ہی چل رہا تھا ایک دن شمشاد روزمرہ کی طرح گاؤں سے باہر بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور دن میں ہی رات کا سما ہونے لگا اسی دوران اچانک بہت تیز آندھی آگئی اور ہر طرف دھول مٹی اڑنے لگی پھر اچانک ہلکی ہلکی بارش کے ساتھ ایک دم سے اونچی آواز میں بجلی کڑکی جس کی وجہ سے بکریاں گھبرا کر ادھر اُدھر بھاگنے لگیں تو شمشا انہیں قابو کرنے کے لیئے کوشش کرنے لگا لیکن ریوڑ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے شمشاد ان پر قابو نہ پا سکا اور بہت سی بکریاں وہاں سے بھاگ کر دور نکل گئیں۔

 یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے جلدی سے اپنی کمر کے ساتھ باندھی ہوئی پوٹلی سے ایک رسی نکالی اور اس رسی سے شمشاد نے سات آٹھ بکریوں کو ایک ساتھ باندھ دیا اسی دوران ایک شخص وہاں سے بھاگتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ شمشاد نے اس کو آواز دیتے ہوئے کہا ارے نصیر بھائی زرا رکو۔۔ ۔۔؟؟ یہ سنتے ہی وہ شخص شمشاد کے پاس آکر بولا ہاں جلدی بولو شمشاد بھائی موسم بہت خراب ہو رہا ہے مجھے گھر جانا ہے ۔ شمشاد نے کہا نصیر بھائی دراصل میری کافی ساری بکریاں ریوڑ سے الگ ہو کر بھاگتے ہوئے دور نکل گئیں ہیں ذرا تم یہ میری بکریوں کو میرے گھر چھوڑ دو گے۔۔۔؟؟ کیونکہ مجھے باقی بکریوں کے پیچھے جانا ہے۔۔؟؟ 

یہ سنتے ہی نصیر نے کہا اچھا اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ میں ان کو لے جاتا ہوں یہ کہتے ہوئے نصیر نے بندھی ہوئی بکریوں کی رسی شمشاد کے ہاتھ سے پکڑ لی اور بکریوں کو لے کر گھر کی طرف جانے لگا اس دوران شمشاد بھاگتا ہوا باقی بکریوں کے پیچھے نکل گیا لیکن بکریاں کہاں چلی گئیں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا پھر کافی دیر تلاش کرنے کے بعد شمشاد تھک کر ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا کیونکہ بارش آہستہ آہستہ سے تیز ہو رہی تھی تو شمشاد افسردہ ہو کر سوچنے لگا کہ آخر کار بکریاں کہاں چلے گئیں ابھی شمشاد یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اسے ایک کالے رنگ کی بکری نظر آئی جو کہ کافی بڑی اور صحت مند تھی لیکن بکری کے منہ میں کوئی مرا ہوا جانور تھا اور وہ اسے لے کر بارش میں بھیگتے ہوئے ادھر اُدھر گھوم رہی تھی اسے دیکھتے ہی شمشاد حیران رہ گیا اور خود سے کہنے لگا ارے یہ کیسی بکری ہے یہ کہتے ہوئے شمشاد اس بکری کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اس بکری کی نظر شمشاد کی طرف پڑی تو وہ بکری اس مرے ہوئے جانور کو چھوڑ کر وہاں سے دور بھاگنے لگی یہ دیکھتے ہوئے شمشاد بھی بھاگتا ہوا اس مرے ہوئے جانور کے پاس گیا تو شمشاد حیران رہ گیا ۔

کیونکہ وہاں ایک کتا مرا ہوا تھا اور اس کے جسم سے کافی سارا گوشت غائب تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے کتے کو آدھا کھا کر چھوڑ دیا ہے ابھی شمشاد اس کتے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک کہیں سے خوفناک سی چیخ کی آواز آئی جسے سنتے ہی شمشاد گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا تو اچانک اس کی نظر واپس اس کالی بکری کی طرف پڑی جو کہ بھاگتے ہوئے ایک مٹی کے ٹیلے پر چڑھ رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے شمشاد اس بکری کی طرف بھاگا تو وہ بکری اس ٹیلے سے دوسری طرف اتر گئی یہ دیکھتے ہوئے شمشاد بھی جلدی سے اس ٹیلے پر چڑھا تو اچانک شمشاد نے دیکھا کہ اس کی تمام بکریاں اس ٹیلے کے پیچھے ادھر اُدھر بھاگ رہیں تھیں یہ دیکھتے ہوئے شمشاد من ہی من بہت خوش ہوا پھر شمشاد نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے خود سے کہا وہ کالی بکری کہاں چلے گئی۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے شمشاد نے دور دور تک نظر ماری پر وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔

 اتنے میں پھر سے زور دار آواز کے ساتھ بجلی چمکی تو شمشاد جلدی نے سے ایک چھڑی کی مدد سے ساری بکریوں کو ایک ساتھ جمع کیا اور انہیں لے کر وہاں سے گھر کی طرف جانے لگا ابھی شمشاد وہاں سے کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک شمشاد کو محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے پیچھے کوئی اور بھی چل رہا ہے تو شمشاد نے فوراً مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا تو شمشاد دوبارہ اپنی منزل کی طرف چلنے لگا لیکن کچھ ہی دور جانے کہ بعد اچانک پھر سے شمشاد کو لگا کہ کوئی بالکل اس کے پیچھے چل رہا ہے یہ سوچتے ہوئے اچانک شمشاد نے ایک بار پھر سے فوراً اپنے پیچھے دیکھا تو اچانک شمشاد ڈر سے چونک گیا کیونکہ شمشاد کے پیچھے وہی کالی بکری چل رہی تھی جس کو شمشاد نے مٹی کے ٹیلے پر دیکھا تھا ۔

 اسے دیکھتے ہی شمشاد نے ادھر اُدھر دیکھا اور خود سے کہنے لگا واہ۔۔۔ یہ تو کمال ہی ہو گیا اتنی بڑی بکری تو میں نے کبھی نہیں دیکھی چلو آج قسمت مہربان ہو گئی ہے تو اسے بھی ساتھ ہی لے جاتا ہوں یہ کہتے ہوئے شمشاد نے اس بکری کو بھی اپنی بکریوں کے ساتھ ملایا تو شمشاد کی باقی بکریاں گھبرا کر اس کالی بکری سے آگے آگے بھاگنے لگیں یہ دیکھ کر شمشاد نے ہنستے ہوئے اپنی بکریوں کو آواز لگاتے ہوئے کہا ارے تم تو ایسے بھاگ رہے ہو جیسے تمہارے پیچھے کو بھیڑیا پڑ گیا ہے یہ کہتے ہوئے شمشاد نے اس کالی بکری کے کان کو پکڑ کر اسے اپنے پاس کر لیا تو باقی بکریوں نے آہستہ آہستہ سے چلنا شروع کر دیا۔ 

شمشاد نے اس کالی بکری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھا یہ سب تمہیں پسند نہیں کرتے کیونکہ تم سب سے الگ ہو لیکن جب تم ان کے ساتھ رہو گی تو یہ سب تمہارے دوست بن جائیں گے اس لیئے اداس مت ہونا یہ کہتے ہوئے شمشاد نے اس کالی بکری کا کان چھوڑ دیا اور وہ شمشاد کے ساتھ ساتھ چلنے لگی پھر کافی دیر کے بعد شمشاد بھیگا ہوا گھر پہنچا تو صدیقہ نے کہا آپ کہا چلے گئے تھے موسم کتنا خراب ہو گیا ہے مجھے تو فکر ہونے لگی تھی شمشاد نے کہا ارے کچھ نہیں وہ بس کچھ بکریاں ریوڑ سے الگ ہو چکی تھیں بس اسی چکر میں دیر ہو گئی صدیقہ نے کہا اچھا اچھا اب آپ جلدی سے کپڑے تبدیل کر کے کھانا کھا لیں یہ کہتے ہوئے اچانک صدیقہ کی نظر اس کالی بکری پر پڑی تو وہ اسے دیکھتی ہوئی اس کے قریب آکر شمشاد سے کہنے لگی ارے۔۔۔۔۔۔اتنی بڑی بکری۔۔۔۔ ؟؟ یہ کس کی بکری لے آئے ہیں۔۔۔؟؟؟ شمشاد نے کہا ارے یہ اپنی ہی ہے۔ صدیقہ نے کہا اپنی۔۔۔۔ ہے۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا ہاں پہلے کھانا کھانے دو بتا دوں گا سب کچھ۔ یہ سنتے ہی صدیقہ بکری کو دیکھتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔اور شمشاد کپڑے وغیرہ چینج کرنے چلا گیا.

 پھر شمشاد نے کھانے کے وقت صدیقہ کو اس کالی بکری کے بارے میں بتایا تو صدیقہ نے کہا یہ آپ نے کیا کِیا آپ کو ایسے ہی کسی بکری کو گھر میں نہیں لانا چاہیئے تھا اگر اس کے اصل مالک نے اسے تمہارے پاس دیکھ لیا تو وہ آپ کو چور سمجھ لے گا میں تو کہتی ہوں جیسے ہی بارش رکتی ہے اس کو وہیں چھوڑ دینا۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا ارے جہاں سے میں اسے لے کر آیا ہوں وہاں دور دور تک کوئی گاؤں کوئی مکان نہیں تھا یہ تو وہاں ویرانے میں اکیلی گھوم رہی تھی اور ویسے بھی یہ خود ہی میرے پیچھے چل کر آئی تھی تو میں اسے بھی اپنے ساتھ لے آیا پھر بھی تم کہتی ہو تو میں کل کسی سے پوچھ تاچھ کر لوں گا اگر کسی نے کہا کہ اس کی بکری کھو گئی ہے تو اس سے نشانی پوچھ کر یہ میں اسے دے دونگا۔۔ یہ سن کر صدیقہ نے کہا ٹھیک ہے ویسے بھی اتنی بڑی اور ہٹی کٹی بکری کو کوئی ایسے ہی کیسے چھوڑ سکتا ہے ضرور کوئی نا کوئی تو اسے ڈھونڈ ہی رہا ہو گا۔ 

یہ کہتے ہوئے صدیقہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اور شمشاد لیٹ کر آرام کرنے لگا اتنے میں فروہ بھاگتی ہوئی شمشاد کے پاس آئی اور شمشاد سے کہنے لگی ابو جلدی باہر چلو وہ ساری بکریاں اس کالی بکری کو دیکھ کر ادھر اُدھر بھاگ رہی ہیں انہوں نے صحن میں طوفان برپا کر رکھا ہے ۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا ارے یار مصیبت ہے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے شمشاد صحن میں گیا تو اس کی ساری بکریاں ڈر کر ایک کونے میں جمع ہو کر ایک دوسرے کو پھلاگنے کی کوشش کر رہیں تھیں اور وہ کالی بکری ان کے پاس کھڑی تھی ۔ یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے کہا پتا نہیں یہ بکریاں اس بیچاری سے اتنا ڈر کیوں رہیں ہیں یہ کہتے ہوئے شمشاد کالی بکری کے پاس گیا اور اس نے ایک رسی سے کالی بکری کے گلے میں ڈالی اور اسے باقی بکریوں سے دور باندھ دیا۔ اتنے میں فروہ نے حیرانی سے اس کالی بکری کو دیکھتے ہوئے کہا ابو ویسے یہ بکری کتنی عجیب سی ہے اس کا منہ تو دیکھو کسی شیر کی طرح کتنا بڑا ہے۔۔ 

شمشاد نے کہا ارے جب یہ خود ہی اتنی بڑی ہے تو منہ بھی بڑا ہی ہو گا نا۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی فروہ نے کہا جی ابو یہ تو ہے دیکھو ذرا اس کا سر بھی آپ کے کاندھے تک آرہا ہے اتنی بڑی بکری تو میں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔ شمشاد نے کہا ہاں میری عمر گزر گئی ہے بھیڑ بکریوں کا کاروبار کرتے ہوئے لیکن میں نے بھی آج تک اتنے بڑے قد کاٹھی کی بکری نہیں دیکھی واقعی میں یہ لاجواب ہے یہ کہتے ہوئے شمشاد نے اس بکری کی کمر پر ہاتھ پھیرا تو اچانک شمشاد نے جھٹکے سے ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا آہ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے شمشاد نے اپنا ہاتھ دیکھا تو اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے فروہ نے حیرت انگیز نظروں سے شمشاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو۔۔۔ کیا ہوا یہ خون کیسے نکل آیا۔۔؟؟ شمشاد نے اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا پتا نہیں بیٹی مجھے ایسا لگا جیسے بہت ساری سوئیاں ایک ساتھ میرے ہاتھ میں چبھ گئیں ہوں یہ کہتے ہوئے شمشاد نے دوبارہ اس بکری کی کمر پر غور سے دیکھا تو اس کی کمر پر کافی ساری سوئیاں الٹی کھبی ہوئیں تھیں جن کی نوکیں اس کے بالوں سے باہر آئی ہوئیں تھیں۔۔ یہ دیکھتے ہی شمشاد حیران پریشان ہو کر فروہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ اس کی کمر پر تو واقعی میں سوئیاں گڑھی ہوئیں ہیں ۔۔ 

یہ سنتے ہی فروہ نے بھی اس بکری کی کمر کو غور سے دیکھا تو شمشاد سے کہنے لگی۔۔ ارے ابو۔۔۔ یہ کیا چکر ہے اتنی ساری سوئیاں ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر کس نے گاڑھی ہوئیں ہیں اس بیچاری کو کتنا درد ہو رہا ہوگا نا۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا پر ایسا لگتا ہے کہ یہ سوئیاں دونوں طرف سے نوکیلی ہوں گی دیکھو ان کے اوپر بھی نوکیں ہیں جو میرے ہاتھ پر چبھی تھیں ۔ اتنے میں صدیقہ بھی شمشاد کے پاس آئی تو فروہ نے اس کو بھی ان سوئیوں کے بارے میں بتایا تو وہ بھی حیرانی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔ یہ سب کیا۔۔ ہے فروہ کے ابو۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا پتا نہیں کیا چکر ہے ہم بھی یہی دیکھ رہے ہیں۔۔ اتنے میں فروہ نے کہا ابو اب یہ باتیں چھوڑیں اور جلدی سے اس کی کمر سے یہ ساری سوئیاں نکال لیں۔۔ یہ بول نہیں سکتی پر اسے کافی درد ہو رہی ہو گی۔۔ 

یہ سنتے ہی شمشاد نے جلدی سے اس بکری کی کمر پر چبھی ایک سوئی نکالی اور اسے حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولا یہ کیسی سوئی ہے دیکھو کتنی بڑی اور دونوں سائیڈوں سے ایک جیسی ہی لگتی ہے۔۔ اتنے میں صدیقہ نے وہ سوئی شمشاد کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔۔ یہ سوئی تو بہت ہی عجیب ہے حالانکہ ہم سلائی کڑھائی کرتے ہیں لیکن ہم نے آج تک ایسی سوئی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ شمشاد نے کہا نہیں دیکھی تو اب دیکھ لو۔۔ رکو میں اور بھی دیتا ہوں یہ کہتے ہوئے شمشاد نے ایک ایک کر کے ساری سوئیاں نکال کر صدیقہ کو پکڑا دیں اور جیسے ہی اس بکری کی کمر سے ساری سوئیاں نکل گئیں تو اسی وقت بکری نے شمشاد کے ہاتھ پر نکلتا ہوا خون چاٹنا شروع کر دیا۔ 

یہ دیکھ کر شمشاد نے مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے اسے پتا چل گیا ہے کہ ہم نے اس کی مدد کی ہے اس لیئے یہ میرے ہاتھ کے زخم کو چاٹ کر میرا شکریہ ادا کر رہی ہے۔ صدیقہ نے کہا جی جی۔۔۔ وہ تو نظر ہی آرہا ہے مجھے تو یہ لگ رہا ہے وہ آپ کا خون پی رہی ہے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے صدیقہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ اتنے میں شمشاد کی ماں صغریٰ بی بی کے کانسنے کی آواز آئی تو شمشاد نے صدیقہ سے کہا ارے امی کو دوائی نہیں دی کیا۔۔۔؟؟ صدیقہ نے کہا دی تھی لیکن ان کی کھانسی ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔۔ جب رکتی ہے تو رکی رہتی ہے جب شروع ہو جائے تو رکتی نہیں ہے ہتا نہیں کیا ہوا ہے امی کو۔ یہ سن کر شمشاد نے کہا آو دیکھتے ہیں یہ کہتے ہوئے شمشاد صدیقہ کے ساتھ اپنی امی کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور ان کا حال چال پوچھنے لگا۔ صغریٰ بی بی نے کہا بیٹا میں ٹھیک ہو تم لوگ ایسے ہی میری دوائیوں پر پیسے مت ضائع کیا کرو اب میری عمر ہو چکی ہے اور میرے تو گنتی کے دن ہی رہ گئے ہیں تم لوگ میری فکر میں کیوں پڑے رہتے ہو ۔ یہ کہتے ہوئے اچانک صغریٰ کی نظر صدیقہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئیں ان سُوئیوں پر پڑی تو صغریٰ نے کہا صدیقہ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے۔۔؟؟ 

صدیقہ نے وہ سُوئیاں صغریٰ کو دکھاتے ہوئے کہا امی یہ سُوئیاں ہیں لیکن بہت عجیب سی ہیں کیونکہ ان کی نوکیں دونوں طرف ہیں یہ سنتے ہی صغریٰ نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ جلدی سے صدیقہ کی طرف کرتے ہوئے کہا دکھاؤ مجھے۔۔۔ تو صدیقہ نے وہ سُوئیاں صغریٰ کو پکڑاتے ہوئے کہا امی ذرا احتیاط سے۔۔۔ یہ بہت تیز ہیں۔۔ صغریٰ نے وہ سُوئیاں پکڑ کر انہیں دیکھتے ہوئے حیرت انگیز نظروں سے صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے گھبرا کر کہنے لگی ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ تمہیں کہاں سے ملیں۔۔۔؟؟ جلدی بتاؤ۔۔۔ صدیقہ۔۔ یہ کہاں سے ملی ہیں۔۔۔؟؟ صدیقہ نے حیرانی صغریٰ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی میں بتاتی ہوں لیکن امی ایسا اس میں کیا ہے جو آپ ان کو دیکھ کر اتنی گھبرا گئیں ہیں۔۔؟؟ صغریٰ نے ڈرے ہوئے انداز میں شمشاد اور صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ شیطانی چیزوں کو گھر سے دور رکھنے کے لیئے استعمال ہوتی ہیں۔ 

بہت پہلے کی بات ہے میری امی بتاتی تھیں کہ ان کے دور میں اکثر شیطانی چیزیں جانوروں کی شکل میں لوگوں کے گھر میں گھس جایا کرتی تھیں اور موقع ملنے پر لوگ کو موت کے گھاٹ اتار دیا کرتیں تھیں۔ پھر ایسے عامل جن کے پاس ان شیطانی چیزوں کو ختم کرنے کی طاقت کم ہوتی تھی تو وہ ان سوئیوں پر عمل پڑھ کر ان شیطانی چیزوں کے جسم میں گھڑا دیا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ شیطانی چیزیں اپنی شکل نہیں بدل پاتی تھیں اور انسانوں سے دور بھاگ کر ویرانوں میں چلے جایا کرتی تھیں۔۔ صغریٰ کی یہ بات سن کر شمشاد اور صدیقہ ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے اتنے میں صغریٰ نے صدیقہ سے کہا بیٹی اب بتاؤ یہ تمہیں کہاں سے ملیں۔۔۔؟؟ صدیقہ نے پھر صغریٰ کو ان سوئیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا یہ ایک بکری کی کمر سے نکالی ہیں۔ یہ سنتے ہی صغریٰ کانپتی ہوئے جلدی سے اٹھنے لگی تو اچانک صغریٰ کو دوبارہ کھانسی آنے لگی اور اس کا سانس پھولنے لگا تو شمشاد نے صغریٰ کو پانی پلاتے ہوئے کہا امی آپ آرام کریں ابھی پریشان مت ہوں ہم بعد میں بات کر لیں گے یہ کہتے ہوئے شمشاد وہاں سے اٹھ کر باہر صحن میں آگیا.

 جہاں فروہ اس کالی بکری کے ساتھ کھیل رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے مسکراتے ہو اپنا سر نہ میں ہلاتے ہوئے کہا امی۔۔۔ بھی۔۔۔ نا۔۔۔ پتا نہیں کیا کیا بتاتی رہتی ہیں یہ کہتے ہوئے شمشاد واپس اپنے کمرے میں چلا گیا اور کچھ دیر میں صدیقہ شمشاد کے پاس آئی تو اس نے شمشاد سے کہا۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے امی نے جو کچھ بھی بتایا کیا وہ واقعی میں سچ ہے۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے صدیقہ حیرانی سے شمشاد کی طرف دیکھنے لگی تو شمشاد نے مسکراتے ہوئے کہا ارے نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے امی اپنے بچپن کی بات کر رہیں تھیں جبکہ اب تو زمانہ کتنا بدل گیا ہے اور تم تو ایسے ہی پریشان ہو رہی ہو۔۔ یہ سنتے ہی صدیقہ نے کہا مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے کہیں وہ کالی بکری کوئی شیطانی چیز ہی نہ ہو۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا فروہ اس کے ساتھ کھیل رہی ہے اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو ابھی تک فروہ ڈر کر ہمارے پاس آچکی ہوتی۔ صدیقہ نے کہا پھر بھی پتا نہیں مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہے۔ 

شمشاد نے کہا ارے اب چھوڑو بھی یہ باتیں کچھ نہیں ہوگا بلکہ تم ایسا کرو کہ جلدی سے ایک برتن لے کر آو آج ہم اسی بکری کا دودھ نکال کر استعمال کریں گے۔ یہ سنتے ہی صدیقہ نے کہا کیا۔۔۔آپ اس بکری کا دودھ نکالیں گے۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا تو اس میں کیا برائی ہے آخر کار ہم نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی ہے تو اتنا حق تو بنتا ہے ہمارا ۔۔ اب جاؤ جلدی سے برتن لے آؤ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے شمشاد واپس اس بکری کے پاس چلا گیا اتنے میں صدیقہ ایک برتن لے کر آگئی اور شمشاد اس میں بکری کا دودھ نکالنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ برتن پوری طرح بھر گیا لیکن بکری کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے اس میں سے دودھ نکالا ہی نہیں ہے یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے حیران ہو کر صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ارے یہ تو ابھی اور زیادہ دودھ دے سکتی ہے تم ایسا کرو کہ بڑا برتن لے کر آؤ۔۔

 صدیقہ نے حیرت انگیز نظروں سے بکری کی طرف دیکھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور ایک بڑا برتن لے کر واپس آئی تو شمشاد نے اس برتن میں بھی دودھ نکالنا شروع کیا تو وہ برتن بھی پورے کا پورا بھر گیا لیکن بکری کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ یہ دیکھ کر شمشاد خوشی سے جھومنے لگا اور صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا واقعی میں یہ کوئی عام بکری نہیں یہ تو بہت ہی نایاب بکری ہے دیکھو ہمارے پاس جتنی بھی بکریاں ہیں ان سب کا دودھ بھی نکال لیں تو وہ بھی اس کے آگے کم پڑ جائے گا اور پتا ہے صدیقہ اگر میں اس بکری کو بازار میں بیچوں تو مجھے منہ مانگے پیسے مل سکتے ہیں کیونکہ اس نے بھینس کے برابر دودھ دیا ہے ۔ صدیقہ نے کہا پتا نہیں لیکن مجھے تو یہ سب بہت ہی عجیب لگ رہا ہے بھلا ایک بکری بھیسن کے برابر دودھ کیسے دے سکتی ہے۔۔؟ شمشاد نے کہا کیا تم دیکھ نہیں رہی یہ ثبوت تمہارے سامنے ہے اور اگر میں چاہوں تو ابھی مزید دودھ نکال سکتا ہوں ۔ یہ سنتے ہی صدیقہ نے کہا ارے نہیں نہیں بس کیجئے اتنا دودھ ہم نے کیا کرنا ہے یہ جو نکال لیا ہے یہ ہی دو تین دن تک چل جائے گا ۔ 

چلیں اب بس کیجئے یہ کہتے ہوئے صدیقہ نے دودھ سے بھرا برتن اٹھایا اور کچن میں چلی گئی پھر شمشاد نے جلدی سے کافی سارا چارا بکری کے آگے رکھتے ہوئے کہا یہ لو تمہارا انعام اب تم کل پھر سے اتنا ہی دودھ دینا۔۔ یہ کہتے ہوئے شمشاد کوئی گانا گنگاناتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد سب نے رات کا کھانا وغیرہ کھایا اس کے ساتھ سب لوگوں نے اس بکری کا نکالا ہوا دودھ پیا سونے چلے گئے پھر اسی رات اچانک فروہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ باتھ روم جانے کے لیئے کمرے سے نکلنے لگی تو اچانک اسے کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی فروہ نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن کمرے میں فروہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا جبکہ رونے کی آواز مسلسل آرہی تھی تو فروہ نے اس آواز پر غور کرتے ہوئے محسوس کیا کہ یہ آواز ہاہر صحن کی طرف سے آرہی ہے تو فروہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے اپنے کمرے کے دروازے تک گئی اور اس نے دروازے پر اپنا کان لگاتے ہوئے اس آواز کو غور سے سننا چاہا تو اس کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی عورت اور مرد ایک ساتھ ایک ہی لہجے میں رو رہے ہیں ۔ 

یہ سنتے ہی فروہ ڈر کر دروازے سے دور ہو گئی اور اس نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا کون۔۔۔ ہے۔۔۔؟؟ باہر۔۔۔؟؟ لیکن باہر سے کوئی جواب نہیں ملا تو فروہ نے دوبارہ اونچی آواز میں کہا بتاؤ کون۔۔۔ ہے َباہر۔۔۔۔۔؟؟ تو اچانک رونے آواز بند ہو گئی لیکن فروہ سہمی ہوئی کافی دیر تک دروازے کو دیکھتی رہی پھر فروہ نے ہمت کرتے ہوئے دروازے کی کنڈی کھولی اور آہستہ آہستہ سے دروازہ کھولتے ہوئے باہر دیکھا تو باہر بھی کوئی نہیں تھا یہ دیکھتے ہوئے فروہ آہستہ آہستہ سے چلتی ہوئی باتھ روم کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک باتھ روم کا دروازہ خودبخود کھل گیا جسے دیکھتے ہی فروہ چونکتے ہوئے وہیں رک کر ڈر سے کانپنے لگی ابھی فروہ اس دروازے کی طرف ہی رہی تھی کہ اچانک جھٹ سے دروازہ خود ہی بند ہو گیا یہ دیکھتے ہوئے فروہ وہاں سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگی تو اچانک فروہ کو پھر سے رونے کی آواز آنے لگی تو فروہ نے اپنی کانپتی ہوئی گردن کو گھماتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی نظر نہیں آرہا تھا کہ اتنے میں اچانک پھر سے زور دار آواز کے ساتھ روم کا دروازہ کھلا اسی وقت فروہ نے باتھ روم کے دروازے کی طرف دیکھا تو باتھ روم سے ایک عجیب سی عورت نکلتے ہوئے دکھائی دی جس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے اور گندے تھے اور اس کا چہرہ اس کے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا لیکن جیسے ہی فروہ نے اس کے پاؤں پر نظر ڈالی تو فروہ حیران ہو گئی کیوں اس کے پاؤں کی ایڑھیاں آگے کی طرف اور پنجے پیچھے کی طرف تھیں یہ دیکھتے ہوئے فروہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ بری طرح سے ڈرنے لگی۔

 اسی دوران فروہ نے اپنے امی ابو کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے چیخ کر سب کو بلانے کی کوشش کی لیکن اس کے منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی اتنے میں اس عجیب سی عورت نے فروہ کی طرف دیکھا تو فروہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کے پاؤں جیسے اس کا ساتھ ہی نہیں دے رہے تھے اس کی ٹانگیں ڈر کی وجہ سے تیزی سے کانپ رہی تھیں اس دوران وہ عجیب سی عورت نیچے بیٹھی اور جانوروں کی طرح ہاتھوں پیروں سے چلتی ہوئی فروہ کی طرف بڑھنے لگی یہ دیکھتے ہوئے جیسے ہی فروہ نے بھاگنے کی کوشش کی تو اچانک اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور وہ زمین پر گر گئی اسی وقت وہ عورت تیزی سے فروہ کی طرف بڑھی تو فروہ نے اسے دیکھتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف رینگنا شروع کر دیا اور جلدی سے رینگتے ہوئے اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر کھڑی ہوئی اور جلدی سے اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ بند کر دیا اور دروازے سے دو قدم پیچھے ہٹ کر اسے دیکھنے لگی کہ اتنے میں پھر سے کسی کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی جسے سنتے ہی فروہ ڈر سے لرز گئی کیونکہ اب وہ آواز بالکل فروہ کے پیچھے سے آرہی تھی اسی وقت فروہ نے نے چونک کر اپنے پیچھے دیکھا تو فروہ کے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ وہی عورت فروہ کے بیڈ پر بیٹھی ہوئی فروہ کی طرف دیکھ کر تیز تیز سانس لے رہی تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے