حق مہر جو بیوی نے ادا کیا
تحریر: فرزانہ خان
ایک شوہر جس نے اپنی بیوی کو 40 ہزار روپے کے لیے کسی غیر مرد کے پاس بھیج دیا ایک سچی کہانی
کہانی جو میں آپ کو سنانے لگی ہوں یہ اصل میں میری ایک سہیلی کی کہانی ہے لیکن یہ ہمارے پورے معاشرے کی صحیح تصویر ہے۔ کسی کا انجام کچھ ہوتا ہے اور کسی کا کچھ اور ہی ہوتا ہے لیکن میری سہیلی کی کہانی کا انجام پڑھ کر آپ معلوم نہیں کیا محسوس کریں۔ بہر حال انجام عجیب و غریب ہے جس کو اخلاقیات اور مذہب کے ٹھیکیدار بالکل پسند نہیں کریں گے۔ میں اپنا تبصرہ کیے بغیر آپ کو کہانی
سنا دیتی ہوں۔
بیٹیوں والوں کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ بیٹی کے لئے امیر کبیر گھرانہ ملے۔ جو چیزیں دیکھنے والی ہوتی ہیں وہ بالکل نہیں دیکھی جاتیں۔ یہ تو ایک جوا ہوتا ہے بعض اچھے لوگ بڑے نکل آتے ہیں بعض بڑے لوگ بڑے اچھے ثابت ہوتے ہیں۔ میری سہیلی کے لئے بھی اس کے ماں باپ نے ایک امیر گھرانہ ڈھونڈ لیا اور رشتہ طے ہو گیا۔ پھر شادی ہو گئی۔
ہم نے اپنی اس سہیلی ناظرہ کو جب اپنے دولہا کے ساتھ کار میں بیٹھے بازار جاتے دیکھا تو ہم سب سہیلیوں نے رشک کیا کہ گھر اور خاوند ملے تو ایسا ملے۔ ناظرہ کا خاوند اچھی شکل و صورت والا اور اچھی طبیعت والا آدمی تھا۔ اس کا ذاتی کاروبار تھا جو لاکھوں کا تھا۔ ناظرہ کے ماں باپ بھی بہت خوش تھے لیکن ناظرہ اتنی خوش نظر نہیں آتی تھی جتنا کہ اسے خوش ہونا چاہئے تھا۔ میں اس کی ہمراز سہیلی ہوں۔ ہم . نے اکٹھے بی۔ اے کیا تھا۔ میں نے ایک روز ناظرہ سے پوچھا کہ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ اپنی ازدواجی زندگی میں کچھ کمی محسوس کر رہی ہے۔ اس نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا کہ کچھ مزا نہیں آرہا۔ میں نے اس کے دل سے بات نکالنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے کوئی ٹھوس شکایت نہ کی صرف اتنا اور کہا کہ میرے
خاوند کی شکل و صورت جتنی اچھی ہے اگر وہ اتنا ہی زندہ دل ہوتا تو زندگی کا مزا آجاتا۔
چھ سات ماہ بعد میری بھی شادی ہو گئی اور میں اپنے خاوند کے ساتھ اپنے گھر سے سینکڑوں میل دور چلی گئی۔ کبھی میکے آنا ہو تا تو ناظرہ کے ساتھ مختصر سی ملاقات ہو جاتی اور کبھی یہ بھی نہ ہوتی۔ جو سہیلیاں ملتی تھیں ان سے میں ناظرہ کے متعلق ضرور پوچھتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ ناظرہ پریشان تو نہیں لیکن خوش بھی نہیں۔
دو سال بعد مجھے اپنی امی کا خط ملا جس میں انہوں نے لکھا کہ ناظرہ نے اپنے خاوند سے طلاق لے لی ہے اور دوسری شادی کرلی ہے۔ میں نے ان الفاظ کو کئی بار پڑھا مجھے اپنی آنکھوں پر شک ہوتا تھا کہ لکھا ہوا کچھ اور ہے اور میں کچھ اور پڑھ رہی ہوں۔ سات آٹھ مہینوں بعد میں میکے آئی۔ ناظرہ کا اتا پتا معلوم کیا۔ وہ اپنے ہی شہر میں تھی۔ میں یہ سن کر حیران ہوئی کہ اس نے طلاق اور شادی کا فیصلہ اپنے ماں باپ سے پوچھے بغیر کیا تھا۔
یہاں آپ ضرور کہیں گے کہ ناظرہ آزاد خیال اور کوئی ایسی ویسی لڑکی ہوگی۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ وہ صاف ستھرے کردار کی لڑکی تھی اور اس کے خیالات بڑے ہی اچھے تھے۔ کنواری لڑکیاں مل بیٹھتی ہیں تو اپنے ہونے والے خاوندوں کے بارے میں ضرور باتیں کرتی ہیں اور کچھ لڑکیاں غلط باتیں بھی کر گزرتی ہیں۔ ناظرہ نے کبھی ایسا ویسا لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ صرف یہ کہا کرتی تھی کہ خاوند چاہے غریب ہو ، بد صورت ہو ، جیسا کیسا بھی ہو ، محبت کرنے والا ہونا چاہئے۔ میں تو صرف یہ دیکھوں گی کہ میرے خاوند کے دل میں میری محبت ہے یا نہیں۔ یہ الفاظ وہ محاورے کی طرح بولا کرتی تھی کہ میں پیٹ پوجا کی نہیں روح کے پیار کی قائل ہوں۔
میں پہلی فرصت میں ناظرہ کے دوسرے خاوند کے گھر پہنچی۔ گھر آسانی سے مل گیا اور ناظرہ اکیلی مل گئی۔ اب میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کا حسن تھا لیکن اب میں نے اس کی آنکھوں میں ایسی چمک دیکھی جیسے اس کی آنکھیں بھی مسکرا رہی ہوں میں نے اس سے
پوچھا کہ ناظرہ ! یہ تم نے کیا کیا؟ اس نے جو جواب دیا وہ میں آپ کو اپنے الفاظ میں سناتی ہوں۔ اس نے بڑی لمبی بات سنائی تھی۔ میں ذرا مختصر بتاتی ہوں۔
اس کا پہلا خاوند جتنا خوبرو اور امیر تھا اتنا ہی تنگ نظر اور پیسے کا پجاری تھا۔
شادی کے فوراً بعد اس نے پہلی حرکت یہ کی کہ ناظرہ کو سلامی کے جو چار پانچ ہزار روپے ملے تھے وہ خاوند نے ایک ایک پیسے کا حساب کر کے اس سے لے لئے۔ پھر اس نے دونوں طرف کے زیورات اپنے سامنے رکھ کر گنے، ایک کاغذ پر ان کی با قاعدہ لسٹ بنائی اور اٹھا کر بنک کے لاکر میں رکھ آیا۔ ناظرہ کے کانوں میں چھوٹے چھوٹے بندے اور انگلی میں صرف اکیلی انگوٹھی رہ گئی۔
جب پاکستان بنا میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی۔ میرے ابا جان ہندوؤں کی کاروباری ذہنیت کی باتیں سنایا کرتے تھے تو میں کہا کرتی تھی کہ یہ مبالغہ ہے۔ ہندوؤں کے اس محاورے کو میں صرف محاورہ سمجھا کرتی تھی کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے ، لیکن اب نا ظرہ نے اپنے خاوند کی باتیں سنائیں تو مجھے ماننا پڑا کہ پیسے کا پیار اور کاروباری پن انسان کو کتنی پستی میں گرا دیتا ہے۔ اس نے بتایا کہ شادی کے فوراً بعد خاوند نے ایک نوکر کو چھٹی دے دی اور ناظرہ سے کہا کہ اب تم آگئی ہو اس لئے دوسرے نوکر کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ گھر میں صرف ایک نوکرانی رہ گئی۔ ہانڈی روٹی ناظرہ کرنے لگی لیکن اس کا خاوند شام کو آکر پورا حساب لیتا تھا کہ ہانڈی روٹی پر کیا خرچ آیا ہے۔ نوکرانی کو اگر ناظرہ تازہ روٹی اور سالن دے دیتی تو خاوند مصیبت کھڑی کر دیتا۔
اس طرح کی بیشمار باتیں ہیں جو ناظرہ مجھے سناتی رہی۔ ان سے صاف پتہ چلا که ناظرہ کے خاوند کو صرف پیسے سے پیار تھا۔ صحیح معنوں میں اس کا ایمان یہ تھا کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔ اگر آپ مزید وضاحت چاہتے ہیں تو میں آپ کے پرچے کا ہی حوالہ دے دیتی ہوں کہ ہندوؤں کا ایک اصول یہ ہے جو پنڈت چانکیہ نے انہیں دیا ہے کہ اگر تمہیں اپنا نقصان ہوتا نظر آئے تو اپنی بیوی کو بھی چھوڑو اور نقصان سے بھاگو۔ یہ سمجھ لیں کہ بس یہ تھا ناظرہ کا خاوند ۔ اگر کبھی اسے کار میں بٹھا کر کہیں لے جاتا تو ناظرہ کو یہ ضرور بتاتا کہ ایک بوتل یا سوا بوتل یا ڈیڑھ بوتل
پینٹرول لگ گیا ہے اور یہ ضرور کہتا تھا کہ اب آٹھ دس دن تک کار کو ذہن سے نکال دینا۔
ناظرہ کے خاوند میں یہ ایک عجیب عادت تھی کہ ناظرہ کو اپنے تین چار دوستوں کے گھروں میں ضرور لے جاتا تھا۔ ناظرہ کہتی ہے کہ وہ دراصل میری نمائش کرتا تھا کہ دیکھو میری بیوی کتنی خوبصورت ہے۔ اگر کوئی دوست اس کے گھر آجاتا تو اس کی زبانی آؤ بھگت خوب کرتا تھا لیکن صرف ایک بوتل منگوا کر دوست کو پلا دیتا تھا۔
ناظرہ نے ڈیڑھ برس بڑی مشکل سے کاٹا۔ ایک روز خاوند نے اسے کہا کہ کراچی ایک مال اترا ہے۔ اگر وہ میرے ہاتھ لگ جائے تو ڈیڑھ لاکھ کا منافع ہو سکتا ہے۔ میں نے حساب کیا ہے۔ میرے پاس رقم ہے لیکن چالیس ہزار کم پڑتے ہیں۔ تم اپنے گھر سے کچھ رقم لا دو۔
ناظرہ اپنے ابا جان سے دس پندرہ ہزار تو لا ہی سکتی تھی لیکن اس خیال سے کہ یہ شخص رقم ہضم کر جائے گا اور واپس نہیں کرے گا کہہ دیا کہ اس کے ابا جان کے پاس تو دو چار سو روپیہ بھی دینے کے لئے نہیں۔ خاوند نے کہا کہ وہ جن سے کچھ رقم ادھار لے سکتا تھا ان سے بھی اب ملنی مشکل ہے۔ ::
ناظرہ نے کوئی دلچسپی نہ لی۔ ویسے ہی اس کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی اور وہ مختلف ذرائع سوچتا رہا جہاں سے رقم مل سکتی تھی۔ آخر اسے ایک آدمی یاد آیا ۔ دیکھو ناظرہ !" خاوند نے کہا ۔ صرف ارشد ہے جو دینا چاہے تو ایک لاکھ روپیہ بھی دے سکتا ہے۔ اس کی اکیلی جان ہے۔ بیوی کو وہ طلاق دے چکا ہے۔ تم اسے اچھی طرح جانتی ہو۔ وہ کئی بار ہمارے گھر میں آیا ہے لیکن وہ رقم دے گا نہیں"۔
"کیوں؟"۔ ناظرہ نے پوچھا ۔ وہ تو مجھے بڑا اچھا آدمی لگتا ہے۔ تم اسے کہو تو سہی"۔
نہیں وہ انکار کر چکا ہے"۔ خاوند نے کہا۔ "اگر تم اس کے پاس جاؤ تو شاید تمہیں دے دے"۔
ناظرہ مجھے بتاتی ہے کہ اسے یہ بات اچھی نہ لگی۔ خاوند کے ساتھ اس کے
, دوستوں کے پاس بیٹھنا کچھ اور بات ہوتی ہے لیکن اکیلے کسی غیر مرد کے پاس جانا ناظرہ کو اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ ناظرہ نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا لیکن خاوند ناظرہ کے پیچھے ہی پڑ گیا۔ یہاں تک کہ ان کی آپس میں تو تو میں میں ہو گئی۔ ناظرہ کے سینے میں، اس کیچڑ خاوند کے خلاف غبار بھرا ہوا تھا جو اُس نے کبھی بھی نکالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو کھاتی رہتی تھی۔ ازدواجی زندگی میں یہ ان کا پہلا جھگڑا تھا۔
خاوند نے اسے ڈرانے کے لئے یہ الفاظ کہہ دیے کہ میں تمہیں عیش کراتا ہوں۔ اگر میں تمہیں گھر سے نکال دوں تو تمہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔
یہ الفاظ چنگاری کی طرح ناظرہ پر گرے۔ ناظرہ بے قابو ہو گئی۔ اس کے منہ میں جو آیا اس نے خاوند کو کہہ ڈالا۔ اسے ہندو بنیا بھی کہا۔ یہودی بھی کہا۔ پیسے کا پجاری بھی کہا۔
بات بہت بڑھ گئی لیکن ناظرہ کا خاوند آخر کار بیوپاری آدمی تھا۔ اس نے صلح صفائی کی باتیں شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ ناظرہ کو ٹھنڈا کرتے کرتے یہاں تک لے آیا کہ وہ ارشد کے پاس ایک بار چلی جائے اور اس سے چالیس ہزار روپیہ ایک مہینے کے وعدے پر قرض لے آئے۔
ناظرہ اسی وقت چلی گئی لیکن وہ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ اس کا دماغ چکرا رہا تھا۔ وہ دراصل اس گھر سے اور اس خاوند سے تھوڑی سی دیر کے لئے دور چلی جاتا چاہتی تھی۔ ارشد کو وہ جانتی تھی کہ وہ زندہ دل آدمی ہے اور اچھا آدمی ہے۔ ارشد سے اسے کوئی ایسا ویسا خطرہ نہیں تھا۔
ارشد اسے گھر میں اکیلا مل گیا۔ ناظرہ کو دیکھ کر وہ کچھ حیران سا ہوا اور کچھ خوش بھی ہوا۔ اس نے پوچھا نا ظرہ تم اکیلی کیسے؟
چالیس ہزار روپیہ قرض لینے آئی ہوں"۔ ناظرہ نے کہا۔ ” دے سکیں یا نہ دے سکیں جواب دے دیں"۔
مین دے تو ضرور دوں" ارشد نے کہا۔ "تمہیں میں انکار نہیں کر سکتا۔ اپنی ذات کے لئے چالیس کی بجائے اسی ہزار مانگو حاضر کروں گا لیکن تمہارے
سیٹھ کو ایک پیسہ نہیں دوں گا۔ اسے کہو کہ پہلے جو دس ہزار روپیہ دو سال سے میرا دبار رکھا ہے وہ واپس کرو"۔
وہ اپنی جان دے دے گا۔ ناظرہ نے کہا۔ "رقم نہیں دے گا"۔
یہاں سے ناظرہ نے اپنے خاوند کے لیچڑ پن کی باتیں شروع کر دیں۔ وہ بیچاری جلی بھنی ہوئی تھی۔ ارشد نے اسے اس کے خاوند کی وہ باتیں سنائیں جو ناظرہ کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ ارشد نے کہا کہ وہ تو گندی نالیوں میں سے مچھلیاں پکڑنے والا انسان ہے۔ میں حیران ہوں کہ تم جیسی لڑکی اس کے ساتھ کس طرح گزارہ کر رہی ہے۔
ناظرہ کے آنسو نکل آئے۔ اس نے مجھے یہ سارا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ ارشد کچھ ویسے بھی اسے اچھا لگتا تھا جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ارشد ہنسنے ے ہنسانے کی باتیں کیا کرتا تھا۔ ناظرہ نے اپنا دل کھول کر ارشد کے آگے رکھ دیا۔ وہ کہتی ہے ک ارشد کو وہ ایک ایسا مرد نہیں سمجھتی تھی جو اسے غلط معنوں میں اچھا لگا ہو۔ وہ بتاتی ہے کہ ارشد کی نیت بھی کچھ ایسی ویسی نہیں تھی۔ وہ ہمراز سہیلیوں کی طرح باتیں کرتے رہے ناظرہ نے یہ باتیں اپنی ماں کے ساتھ بھی کبھی نہیں کی تھیں۔ صرف ایک بار اس نے ماں سے کہا تھا کہ امی ! کس گھٹیا آدمی کے پلے تم نے مجھے باندھ دیا ہے۔ اس کی امی نے اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا اور کہا تھا کہ تم عرب کے بادشاہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی؟ خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہیں اتنا امیر اور اتنا خوبصورت خاوند مل گیا ہے۔ اس کے بعد ناظرہ نے ماں کے ساتھ کبھی بھی اپنے خاوند کی کوئی بات نہ کی۔
ارشد نے اس کی باتیں اور شکائتیں اتنی دلچسپی اور اتنی ہمدردی سے سنیں کہ ناظرہ نے ازدواجی زندگی میں پہلی بار روحانی سکون محسوس کیا۔ اس سکون کا اثر تھا که ناظرہ کے آنسو بہنے لگے۔ پھر وہ سسکیاں لینے لگی۔ ارشد اس کے پاس آبیٹھا اور اپنا بازو اس کے کندھے پر رکھ کر اس طرح اسے اپنے ساتھ لگا لیا جس طرح ماں اپنے روتے ہوئے بچے کو گود میں لے لیتی ہے۔ ناظرہ نے روحانی سکون سے بڑھ کر بھی کچھ محسوس کیا۔
جب ناظرہ کا غبار آنسوؤں نے نکال دیا تو ارشد اس سے ہٹ کر پرے جا
بیٹھا۔
ناظرہ حیران ہوئی کہ ارشد کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھے یقین نہیں آتا کہ کوئی مرد کسی عورت کا دکھ سن کر رو بھی سکتا ہے۔ ناظرہ نے کہا۔
" تمہاری حیرت پر مجھے حیرت نہیں ہوئی" ارشد نے کہا۔ "مجھے اپنی قسمت پر رونا آگیا تھا۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہوں۔ تمہیں شاید وجہ معلوم نہیں ہو گی۔ لمبی بات کیا سناؤں۔ وہ بھی پیسے کی پجارن تھی۔ خدا نے میرے کاروبار میں خوب برکت ڈالی ہے۔ پیسے کی کمی نہیں لیکن وہ پیسہ ہی پیسہ کرتی رہتی تھی۔ میں اسے کہا کرتا تھا کہ میری تمام کمائی تمہارے لئے ہے لیکن عجیب لڑکی تھی کہ پیسے کا ہی پیار تھا"۔
تو کیا اسے یہ احساس نہیں تھا کہ آپ کا پیسہ اس کے گھر میں رہتا ہے ؟؟ -ناظرہ نے کہا اور اس سارے روپے پیسے کی مالک وہی تھی"۔
وہ اپنے ماں باپ کا گھر بھر رہی تھی" - ارشد نے کہا۔ "مجھے اس چکر میں ڈال کر کہ میں بہت خرچ کرتا ہوں وہ پیسے اُڑا کر اپنے ماں باپ کو دے آتی تھی۔ میں یہ دیکھتے ہوئے بھی یہ ظاہر کرتا تھا کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کیا کر رہی ہے وہ مجھے بالکل ہی بدھو اور انجان سمجھنے لگی۔ اُس کا پیار بالکل کاروباری تھا۔ پیار کے معاملے میں میں کچھ جذباتی ہوں اور سچے پیار کی اتنی ہی ضرورت محسوس کرتا ہوں جتنی جسم خوراک کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ ماں کا پیار اس کے ساتھ قبر میں دفن ہو گیا پیچھے ایک بہن رہ گئی تھی۔ وہ بھی تین سال ہوئے اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔ والد صاحب پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ میں ان سب کا پیار اپنی بیوی سے مانگتا تھا لیکن اسے پیسے سے پیار تھا۔ ایک بار اسی طرح جس طرح تمہارے خاوند کو کچھ رقم کی ضرورت آپڑی ہے۔ مجھے صرف دس ہزار کی کمی محسوس ہوئی۔ بڑا اچھا سودا تھا۔ میں کسی سے قرض لینے کو پسند نہیں کرتا۔ بیوی سے کہا کہ اپنا زیور دے دوں میں بنک میں رکھ کر دس پندرہ ہزار روپیہ لے لوں ۔ اس نے صاف انکار کردیا۔ میں نے تمہارے خاوند سے کہا کہ میرا دس ہزار واپس کر دو۔ مہینے ڈیڑھ مہینے بعد پھر لے لینا۔ اس نے کہا کہ ابھی ابھی میری شادی ہوئی ہے۔ ساری رقم ادھر
لگ گئی ہے .....
" مجھے بڑا غصہ آیا۔ میں نے دوسرے دن اپنی بیوی کو غصے سے کہا کہ اپنا تمام زیور نکالو۔ اس نے کہا کہ وہ تو کل شام اپنی ماں کے پاس چھوڑ آئی ہوں۔ میں پہلے ہی بھڑ کا ہوا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ ابھی اٹھو اور تم بھی ماں کے پاس چلی جاؤ۔ بس یہاں سے بات بڑھی اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ میں نے اسے گھر بھیج کر پیچھے طلاق نامہ بھیج دیا .....
ناظرہ ! اگر روپے پیسے سے پیار مل سکتا ہے تو میرے پاس جتنی رقم ہے اور یہ مکان بھی میں پیار کے ایک بول کی خاطر دینے کے لئے تیار ہوں۔ کیا تم مجھے پیار دے سکتی ہو؟ میں تمہیں یہ صاف بتادوں کہ مجھے تمہارے جسم اور تمہارے حسن کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ میں صرف یہ بھیک مانگتا ہوں کہ جس طرح آج تم نے مجھے اپنی سنائی ہیں اور میری سنی ہیں اسی طرح کبھی کبھی آجایا کرو۔ میں تمہارے قریب نہیں بیٹھوں گا۔ تمہیں اپنے سامنے بٹھاؤں گا۔ مجھے ماں کا پیار دو۔ مجھے بہن کا پیار دو۔ مجھے ایک عورت کا پیار دو جس کے بغیر مرد ریگستان میں چلتا اور پیاس سے مرتا ہوا مسافر بن جاتا ہے۔ میں تمہیں چالیس ہزار روپیہ دے دیتا ہوں۔ یہ اپنے خاوند کو دے دینا اور اسے کہنا کہ یہ بیشک واپس نہ کرے لیکن تمہیں کبھی کبھی میرے پاس آنے کی اجازت دے دیا کرے"۔
ارشد صاحب ! ناظرہ نے کہا۔ ”وہ اس قدر کمینی ذہنیت کا آدمی ہے کہ چالیس ہزار روپیہ دیکھ کر مجھے کہے گا کہ ہر روز چلی جایا کرو"۔
ناظرہ کہتی ہے کہ اس نے اور ارشد نے ایسی جذباتی فضا پیدا کر دی جیسے اس کا ذہنی توازن بالکل ہی بگڑ گیا ہو۔ ناظرہ نے تیزی سے ہاتھ ارشد کی طرف پھیلا کر کہا لاؤ چالیس ہزار میں کل پھر تمہارے پاس آؤں گی"۔
ارشد نے دوسرے کمرے میں جاکر چالیس ہزار روپیہ نکالا۔ آکر ناظرہ کے حوالے کر دیا۔ ناظرہ نے کچھ بھی نہ کہا۔ شکریہ بھی ادا نہ کیا اور اٹھ کر چلی گئی۔
اپنے گھر پہنچی تو اس کے خاوند نے سب سے پہلی بات یہ منہ سے نکالی ۔ "رقم لے آئی ہو ؟"
"ہاں" ناظرہ نے کہا " لے آئی ہوں" اس نے چالیس ہزار کے نوٹ خاوند کو دکھائے اور کہا ۔ یہ رقم اس شرط پر تمہارے ہاتھ میں دوں گی کہ پہلے طلاق لکھ کر میرے ہاتھ میں دے دو ۔
وہ احمقوں کی طرح ہنس پڑا۔
میں مزاق نہیں کر رہی سیٹھ صاحب ! - ناظرہ نے کہا اور دوسرے کمرے میں جا کر لیٹر پیڈ اور قلم اٹھالائی۔ خاوند کے آگے رکھ کر بولی ۔ طلاق لکھو۔ رقم لے لو۔
خاوند کچھ دیر اسے مذاق سمجھتا رہا لیکن ناظرہ کے چہرے پر اور اس کے بولنے کے لب و لہجے میں قہر و عتاب اور نفرت دیکھ کر اس نے طلاق لکھ دی۔ ناظرہ نے مجھے بتایا کہ خاوند نے اس سے ڈر کر طلاق نہیں لکھی تھی۔ اسے چالیس ہزار روپیہ نظر آرہا تھا۔ طلاق لکھ کر اس نے کہا ۔ یہ لو اور جاؤ ۔ رقم میرے حوالے کرو اور یاد رکھو کہ میں یہ رقم واپس نہیں کروں گا"۔
ناظرہ اپنے گھر چلی گئی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس نے اپنے زیورات اپنے خاوند سے کس طرح نکلوائے لیکن ماں اور باپ نے ناظرہ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ ناظرہ نے انہیں کہا کہ میں اس گھر میں صرف تین ماہ کی عدت پوری کروں گی۔ اگر آپ لوگوں کو میرا وجود گوارا نہیں تو میرا ٹھکانہ موجود ہے۔ میں گھر سے اس طرح نکل جاؤں گی کہ آپ لوگ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
ماں نے اُسی رات ناظرہ کے دوسرے رشتے کی باتیں شروع کر دیں۔ وہ کہنے لگی کہ اب وہ ناظرہ کو اس سے بھی زیادہ امیر آدمی کے ساتھ بیا ہے گی۔ ناظرہ چپ رہی۔
دوسرے دن وہ ارشد کے گھر چلی گئی اور اسے طلاق نامہ دکھایا۔ لو ارشد صاحب ! ناظرہ نے کہا۔ "آپ نے مجھے کہا تھا کہ کبھی کبھی آیا کرو لیکن میں ہمیشہ کے لئے آگئی ہوں۔ کیا آپ کو قبول ہے"۔
ارشد چکرا گیا۔ ذرا سنبھل کر بولا کہ فوراً" تو شادی نہیں ہو سکتی۔ ناظرہ نے اسے بتایا کہ وہ عدت اپنے ماں باپ کے گھر پوری کرے گی اور جس روز تین مہینے پورے ہو جائیں گے، وہ اگلے روز اس کے پاس آجائے گی۔ وہ نکاح خواں کا انتظام کر رکھے۔
ان تین مہینوں میں وہ ارشد سے ملتی رہی اور اس کی ماں اس کے لئے کوئی دو سرا رشتہ تلاش کرتی رہی اور اس کا خاوند مشهور کرتا رہا کہ ناظرہ بد چلن ہے لیکن ناظرہ یوں سب کچھ سن کر ٹالتی رہی جیسے مکھیوں کو اڑایا جاتا ہے۔ تین مہینے پورے ہوئے تو ناظرہ نے اپنا اٹیچی کیس اٹھایا اور ماں سے کہا کہ میں جارہی ہوں۔
کہاں جا رہی ہو ؟ ماں نے کہا۔
اپنے دوسرے خاوند کے پاس ناظرہ نے کہا اور ماں پر سکتہ طاری کر کے وہ نکل گئی۔
آج پانچ سال ہو گئے ہیں۔ ناظرہ کو دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ اس سے بڑھ کر خوش و خرم عورت
اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
فرینڈز اگر اپ کو یہ کہانی اچھی لگی ہو تو ہمیں فیس بک پر ضرور بتائیں ایک خوبصورت تبصرے کے ساتھ
0 تبصرے