چھوٹی بھابھی اور سایہ


چھوٹی بھابھی اور سایہ – درد، خوف اور انتقام کی سچی کہانی

رائٹر: فرزانہ خان 

میرا نام امتیاز ہے… لیکن اصل میں یہ میرا نام نہیں ہے۔ اصل نام میں یہاں نہیں بتاؤں گا اور نہ ہی اپنے گاؤں کا نام بتاؤں گا، کیونکہ جو واقعہ میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ ایسا واقعہ ہے کہ اگر لوگوں تک پہنچ گیا تو مجھے پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس لیے بس یہ سمجھ لیں کہ میں سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہوں، جہاں کی زندگی آج بھی بڑی سادہ اور دیہاتی ہے۔ کھیتوں کی خوشبو، مٹی کی مہک اور دور دور تک پھیلی ہریالی… بس یہی ہمارا گاؤں ہے۔

ہمارے گاؤں میں ہندو لوگ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں، دن رات زمین میں پسینہ بہاتے ہیں، اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ بڑے محنتی لوگ ہیں، اور جتنے سیدھے دل کے لوگ میں نے دیکھے ہیں، ان میں یہ سب سے آگے ہیں۔ ہم مسلمان بھی ان کی عزت کرتے ہیں اور وہ بھی ہمیں بھائی سمجھتے ہیں۔ ایک طرح کا سکون اور بھائی چارہ ہے ہمارے علاقے میں، جیسے پرانی کہانیوں میں سننے کو ملتا ہے۔

اسی گاؤں میں میرا ایک دوست ہے، راجیش۔ وہ ہماری ہی عمر کا لڑکا ہے۔ بچپن سے ساتھ ہیں، اسکول میں بھی ساتھ پڑھتے تھے، کھیل کود میں بھی ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ خاص طور پر کرکٹ کا تو اسے جنون کی حد تک شوق تھا۔ ہم اکثر شام کو کھیتوں کے پاس بنے خالی میدان میں کھیلا کرتے تھے۔ کبھی میں بولنگ کرتا، کبھی وہ بیٹنگ… اور کبھی کبھار تو گاؤں کے بڑے لڑکے بھی آجاتے اور میچ پورا گاؤں دیکھتا تھا۔

راجیش نے یہ کہانی مجھے خود سنائی تھی، لیکن اس نے یہ کبھی نہیں چاہا تھا کہ میں یہ کسی اور کو بتاؤں۔ وہ بس یونہی باتوں باتوں میں ایک دن دل ہلکا کرنے لگا اور میں نے خاموشی سے ساری باتیں سن کر اپنے دل میں محفوظ کر لیں۔ آج جب میں آپ کو یہ سب سنانے بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا خوف بھی ہے اور ایک بوجھ بھی۔ کیونکہ یہ سب کچھ سو فیصد سچ ہے۔

راجیش کا ایک بڑا بھائی بھی ہے… ہم اسے وِجے کہتے ہیں۔ وِجے ہم سب سے تھوڑا بڑا ہے، لیکن بہت ہی خوش اخلاق اور نرم مزاج آدمی ہے۔ جب بھی ملتا ہے، مسکرا کر بات کرتا ہے اور ہمارے ساتھ کبھی کبھار کرکٹ کھیلنے بھی آجاتا تھا۔ کچھ سال پہلے وِجے کی شادی ہوئی تھی۔ ان کے ہاں ایک روایت ہے کہ وہ شادی گاؤں کے اندر یا رشتے داروں میں نہیں کرتے، ہمیشہ کسی دوسرے علاقے میں رشتہ تلاش کرتے ہیں۔ یہی رسم ہے ان کی برادری میں، اور میں نے اس بارے میں زیادہ کبھی سوال نہیں کیا۔

راجیش نے بتایا تھا کہ بھابھی بہت ہی خوبصورت تھیں… نام ان کا سُنیلا تھا۔ گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، لمبے بال، اور باتوں میں اتنی نرمی کہ ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ شادی کے بعد جب وہ ہمارے گاؤں آئیں تو سب نے ان کا خوب استقبال کیا۔ راجیش کی ماں تو ان سے اتنا پیار کرتی تھی کہ جیسے اپنی بیٹی کو گھر لے آئی ہو۔ سُنیلا بھی نہایت ملنسار لڑکی تھی۔ وہ سب سے ہنس کر ملتی، بات چیت کرتی اور کبھی کبھی ہمارے محلے کی عورتوں کے ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرنے نکل جاتی، صرف اس لیے کہ سب لوگ یہ نہ کہیں کہ نئی بہو آرام پسند ہے۔

گاؤں کی زندگی سیدھی سادی ہوتی ہے، اور سُنیلا نے بھی جلد ہی سب کو اپنا بنا لیا تھا۔ اکثر شام کو وہ اپنے شوہر وِجے سے کہتی کہ مجھے میکے لے چلو، اور وِجے بھی بڑے پیار سے اسے وہاں چھوڑ آتا یا ساتھ لے آتا۔ ایسے ہی کئی مہینے ہنسی خوشی گزر گئے۔ میں جب بھی راجیش کے گھر جاتا، تو دیکھتا کہ پورا گھر ہنسی خوشی میں ڈوبا ہوا ہے۔ کبھی چولہے پر چائے کی خوشبو آ رہی ہوتی، کبھی ہنسی مذاق چل رہا ہوتا، اور کبھی سب لوگ مل کر بیٹھ کر باتوں میں مگن رہتے ۔

لیکن ایک بات تھی… جو ان کے دل میں چھپی ہوئی تھی۔ شادی کے کئی مہینے گزرنے کے باوجود بھی اولاد نہیں ہو رہی تھی۔ سُنیلا کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ اس کے گود میں ایک بچہ ہو، اور وِجے کی ماں بھی اس کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ شروع میں سب نے زیادہ پرواہ نہیں کی، لیکن وقت گزرتا گیا اور پریشانی بڑھتی گئی۔ وِجے اور اس کے گھر والے جگہ جگہ علاج کے لیے گئے، تعویذ کروائے، ڈاکٹروں سے مشورے لیے، لیکن کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔

اس مسئلے کی وجہ سے کبھی کبھار گھر میں چھوٹے موٹے جھگڑے بھی ہو جاتے تھے۔ کبھی وِجے چپ رہتا، تو کبھی سُنیلا اکیلی بیٹھی آنسو بہا رہی ہوتی۔ لیکن پھر بھی دونوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کم نہیں ہوئی تھی۔ وِجے ہمیشہ کہتا، "وقت کا کھیل ہے… بھگوان چاہے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

راجیش کہتا تھا کہ ان دنوں بھی ان کے گھر میں خوشحالی کی کوئی کمی نہیں تھی۔ کھیت خوب چل رہے تھے، فصلیں وقت پر کٹتی تھیں، اور پیسوں کی کبھی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن سُنیلا کی آنکھوں میں جو اداسی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی، وہ ہر کسی کو دکھائی دینے لگی تھی…

 اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، یہ میرا اصل نام نہیں ہے۔ اصل نام نہیں بتا سکتا کیونکہ جو کچھ میں سنانے جا رہا ہوں، وہ ایسا معاملہ ہے کہ اگر کسی نے پہچان لیا تو میرے لیے مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ یہ سب کچھ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا، جہاں کی ہوا میں اب بھی مٹی کی خوشبو بسی ہوئی ہے، جہاں کھیتوں میں صبح سورج نکلنے سے پہلے ہل چلنے لگتے ہیں اور جہاں شام کو درختوں کے پیچھے ڈوبتا سورج گاؤں کو سنہری روشنی میں نہلا دیتا ہے۔

جیسے میں نے پہلے بتایا، میرے دوست راجیش کا گھر بھی ہمارے گاؤں میں ہی ہے۔ ان کا خاندان کھیتی باڑی کرتا ہے اور زمیندار قسم کے لوگ ہیں، جن کی زمینیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا۔ برسات کا موسم آیا تو اتنی بارشیں ہوئیں کہ کھیتوں میں لگی زیادہ تر فصلیں خراب ہو گئیں۔ کئی دنوں تک بارش برستی رہی، کھیتوں میں پانی کھڑا ہو گیا، اور جو فصل کٹائی کے قریب تھی، وہ گل کر ختم ہو گئی۔ راجیش اکثر پریشان حال کھیتوں کے کنارے کھڑا دکھائی دیتا تھا۔ وہ کہتا، "امتیاز بھائی، اس سال تو بس نقصان ہی نقصان ہوا… محنت بھی گئی اور فصل بھی۔"

راجیش نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے سوچا کہ اب کچھ اور کرنا چاہیے، تاکہ گھر کا نظام چلتا رہے۔ اس نے بازار کے قریب کھاد اور دوائیوں کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی، جو فصلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ شروع میں تو کام ٹھیک چلا، لیکن کچھ عرصے بعد مندی آ گئی، قرض بڑھنے لگے اور وہ دکان زیادہ نہ چل سکی۔ ادھر اس کا دوسرا بھائی، وِجے، یعنی وہی جس کی شادی ہوئی تھی، اس نے محلے کے بیچوں بیچ ایک بڑی سی جنرل اسٹور جیسی دکان کھول لی تھی۔ وِجے کی محنت رنگ لائی اور وہ دکان چل نکلی۔ آج بھی وہ دکان چل رہی ہے، اور میں جب بھی جاتا ہوں تو اکثر دور سے دیکھ لیتا ہوں کہ وِجے دکان کے باہر بیٹھا گاہکوں سے بات کر رہا ہوتا ہے۔

لیکن سچ کہوں تو اب میں ان کے گھر جانا چھوڑ چکا ہوں۔ اب میں بڑا ہو گیا ہوں، ایک نوجوان بن گیا ہوں، اور مجھے لگتا ہے کہ اب وہاں بار بار جانا ٹھیک نہیں۔ لیکن ایک وقت تھا جب میں ان کے گھر اکثر جایا کرتا تھا۔ راجیش اور میں کھیلا کرتے، گپ شپ لگاتے، اور کبھی کبھی ان کی بھابھی… جی ہاں، سُنیلا… ہمیں چائے یا لسی پلا دیا کرتی تھیں۔

مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد ہے۔ بڑی حسین عورت تھی، اتنی خوبصورت کہ گاؤں کی لڑکیاں بھی اس جیسی بننے کی کوشش کرتی تھیں۔ لیکن بات صرف خوبصورتی کی نہیں تھی، سُنیلا کے دل میں ایک عجب کشادگی تھی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ خاص محبت سے پیش آتی تھی۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتا، وہ مسکرا کر کہتی، "السلام علیکم، امتیاز!"

پہلی بار تو مجھے حیرت ہوئی، دل ہی دل میں سوچا کہ ایک ہندو عورت مسلمانوں کو سلام کیوں کر رہی ہے؟ پھر مجھے کسی نے بتایا تھا کہ ایسے وقت میں وعلیکم السلام کہنا مناسب نہیں، لیکن نہ جانے کیوں، میں کبھی نہ کہہ پاتا۔ بس ہاتھ کے اشارے سے یا دبی آواز میں جواب دے دیتا۔ وہ ہمیشہ کہتی، "بیٹھو، کچھ کھا لو، کچھ پی لو"، لیکن میں زیادہ وقت وہاں نہیں گزارتا۔ شاید شرم آتی تھی یا پھر اس بات کا احساس کہ میں ابھی چھوٹا ہوں اور زیادہ وقت بیٹھنا مناسب نہیں۔

اب تو وقت بدل گیا ہے، میں بڑا ہو گیا ہوں، نوجوان ہو گیا ہوں۔ اس لیے اب میں ان کے گھر جانا کم کر دیا ہے، لیکن وہ دن… وہ دن کبھی بھول نہیں سکتا۔ وہ مجھے ہمیشہ بڑے پیار سے بلاتی تھی، جیسے اپنا چھوٹا بھائی ہو۔

راجیش کے گھر کی حالت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی تھی۔ برسات کے بعد زمینوں نے دوبارہ سنبھلنا شروع کیا، نئی فصلیں اچھی ہونے لگیں۔ وِجے کی دکان بھی چل رہی تھی، اور راجیش بھی اپنی چھوٹی سی دکان کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اس کی قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ کاروبار بیٹھ گیا۔ میں نے بھی نوٹ کیا تھا کہ اس کے بعد وہ کچھ غلط صحبت میں پڑ گیا، لیکن یہ ایک الگ داستان ہے، جو میں کبھی اور سناؤں گا۔

اصل کہانی تو کچھ اور ہے… اور وہ اس وقت شروع ہوئی جب ان کے گھر ایک بہت بڑا صدمہ آیا۔

راجیش کی ماں… جسے ہم سب "کاکی" کہتے تھے، اور جو سُنیلا سے بے انتہا محبت کرتی تھیں… اچانک دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھیں، لیکن کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یوں اچانک سب کو چھوڑ جائیں گی۔ ان کے جانے کے بعد پورے محلے میں اداسی چھا گئی۔ میں جنازے میں نہیں گیا، کیونکہ ان کے رسومات ہماری شریعت سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کے جنازوں میں کچھ عجیب و غریب رسمیں کی جاتی ہیں، جن سے میں ہمیشہ دور رہتا ہوں۔ پانچ وقت کا نمازی ہوں، اس لیے بھی ان چیزوں میں قدم نہیں رکھتا۔ بس دور سے ہاتھ ہلا کر تعزیت کر لی اور چپ چاپ گھر آ گیا۔

لیکن میں جانتا ہوں کہ سب سے زیادہ دکھ سُنیلا کو ہوا۔ وہ عورت جو ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی، سب کا خیال رکھتی تھی، سب کو خوش رکھتی تھی… اچانک خاموش ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کی چمک جیسے بجھ گئی تھی۔ کاکی کا سایہ ہٹنے کے بعد وہ جیسے اکیلی رہ گئی تھی۔ میں کئی بار راجیش سے پوچھتا، "بھابھی کیسی ہیں؟" تو وہ بس سر جھکا کر کہتا، "ٹھیک ہیں… بس خاموش رہتی ہیں اب زیادہ تر۔"

کاکی کے جانے کے بعد اس گھر کی فضا بدل گئی تھی۔ وہ ہنسی خوشی جو کبھی ہر کونے میں بکھری رہتی تھی، وہ خاموشی میں بدل گئی۔ شام کے وقت جب میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ کر ان کے صحن کی طرف دیکھتا، تو وہ پہلے جیسی رونق نظر نہیں آتی تھی۔ سُنیلا کبھی کبھی اکیلی بیٹھ کر صحن کے کنارے آسمان کو تکتے رہتی، جیسے کسی کھوئی ہوئی امید کو ڈھونڈ رہی ہو…

یہ تو تھا ان کی زندگی کا ایک پرسکون اور خوشیوں بھرا منظر… تھوڑا سا سوچا کہ آپ کو بتا دوں تاکہ آپ کو سمجھ آ سکے کہ اصل کہانی کہاں سے بدلی۔ اب آتا ہوں اصل واقعے کی طرف… وہ خوفناک واقعہ، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، اور جو آج بھی جب یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔

کاکی، یعنی راجیش اور وِجے کی ماں، جو اس گھر کی جان تھیں، ان کے جانے کے بعد سب کچھ جیسے بدلنے لگا۔ کاکی کے ہوتے ہوئے سب کچھ ایک ترتیب میں تھا۔ گھر میں خوشی تھی، ہنسی تھی، سکون تھا… اور سب سے بڑھ کر، سُنیلا کے لیے ایک ماں جیسا سہارا تھا۔ لیکن جب کاکی دنیا سے رخصت ہوئیں، تو وہ سہارا بھی ختم ہو گیا۔

راجیش اکثر کہتا تھا، “امتیاز بھائی، کاکی ہوتیں تو یہ سب نہ ہوتا… بھابھی کو سنبھال لیتیں، ان کو حوصلہ دیتیں… لیکن اب تو وہ بالکل اکیلی رہ گئی ہیں۔”

سچ بات یہ ہے کہ کاکی کے جانے کے بعد سُنیلا کی زندگی میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے ایک حساس لڑکی تھی، لیکن اس وقت اس کے دل کی کیفیت کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی دل ہی دل میں ٹوٹ رہی تھی، لیکن اب حالات اور بگڑنے لگے۔

وِجے… یعنی اس کا شوہر… جو کبھی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا، اب اکثر ناراض رہنے لگا تھا۔ یہ بات بھی مجھے راجیش نے ہی بتائی تھی۔ ایک دن میں نے راجیش کو گاؤں کی دکان کے پاس بیٹھے دیکھا تو اس کے چہرے سے ہی پریشانی ٹپک رہی تھی۔ میں نے پوچھا، “کیا ہوا راجیش؟ اتنا پریشان کیوں ہے؟”

اس نے گہری سانس لے کر کہا، “امتیاز بھائی… بھائی کہتے ہیں کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ بھابھی کو پتہ چل گیا ہے… وہ بہت پریشان ہیں… روتی رہتی ہیں…”

میں سن کر سکتے میں آ گیا۔ میں نے کہا، “راجیش… یہ کیا کہہ رہا ہے؟ وِجے بھابھی جیسی عورت کو چھوڑ دے گا؟”

راجیش نے سر جھکا لیا، “چھوڑنے کی بات نہیں کر رہا، لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھے اولاد چاہیے… اور وہ… بھابھی… وہ بالکل ٹوٹ گئی ہیں اندر سے۔ کل رات وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں، راجیش، میں یہ شادی نہیں ہونے دوں گی… نہیں کسی کو یہاں پر لانا چاہتی… پتہ نہیں وہ عورت آ کر کیسا سلوک کرے گی میرے ساتھ… میں آپ کے بھائی سے بہت پیار کرتی ہوں… لیکن میں کیا کر سکتی ہوں…”

یہ بات سن کر دل جیسے دہل گیا۔ میں نے راجیش سے کہا کہ اس کو سمجھاؤ، دلاسہ دو، لیکن میں جانتا تھا کہ یہ دلاسے عارضی تھے۔ کیونکہ جب ایک بار مرد کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ گھر میں اولاد نہ ہونا صرف عورت کی غلطی ہے، تو پھر کچھ بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

راجیش نے کئی بار اپنے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وِجے جیسے ضد پر آ گیا تھا۔ کہتا تھا کہ میں اپنی زندگی کے خواب پورے کرنا چاہتا ہوں، اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آ سکتی۔

گاؤں میں بھی آہستہ آہستہ یہ بات پھیلنے لگی۔ لوگ چپکے چپکے بات کرنے لگے۔ کچھ عورتیں کہتیں، “بیچاری سُنیلا… اتنی اچھی ہے، پھر بھی قسمت نے ساتھ نہیں دیا…” کچھ لوگ وِجے کو برا بھلا کہتے، تو کچھ کہتے کہ “مرد کا حق ہے کہ دوسری شادی کرے…”

لیکن جو بھی تھا، اصل تکلیف سُنیلا کو ہو رہی تھی۔ اس کا دل روز بروز ٹوٹ رہا تھا۔ میں اب ان کے گھر کم ہی جاتا تھا، لیکن کبھی کبھار راجیش سے بات ہو جاتی تھی تو وہ کہتا، “بھابھی اب اور بھی خاموش ہو گئی ہیں… بس اکیلی بیٹھی رہتی ہیں… کبھی کبھی رات کو میں سنتا ہوں وہ دبے دبے لہجے میں روتی ہیں…”

مجھے یاد ہے، ایک دن شام کو راجیش نے بتایا کہ سُنیلا نے روتے ہوئے اس سے کہا، “راجیش… میں نے وِجے کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی… کاکی کے جانے کے بعد میں نے یہ گھر بھی سنبھالا… سب کچھ کیا… لیکن شاید بھگوان نے میری قسمت میں یہ دکھ لکھ دیا ہے… میں جانتی ہوں وہ اب مجھے نہیں چاہتا جیسے پہلے چاہتا تھا…”

یہ سب سن کر میرا دل کٹ سا گیا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا؟ بس دعا کر سکتا تھا کہ اللہ کوئی راستہ نکال دے۔

پھر وہ دن بھی آ گیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ وِجے نے دوسری جگہ رشتہ دیکھ لیا۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ان کی برادری میں وہ اپنوں میں شادی نہیں کرتے، ہمیشہ باہر سے رشتہ طے کرتے ہیں۔ تو اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ کہیں کسی دوسرے گاؤں میں بات چلی اور چند ہفتوں میں رشتہ پکا ہو گیا۔

راجیش نے مجھے بتایا، “بھائی نے ہاں کر دی ہے… اگلے مہینے شادی طے کر دی ہے…”

یہ سن کر میرے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے۔ میں نے کہا، “راجیش… بھابھی کو پتہ ہے؟”

راجیش نے سر ہلایا، “ہاں… پتہ ہے… بہت روئی ہیں وہ… مجھ سے کہا کہ راجیش، میں برداشت نہیں کر سکتی… لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں… بھائی ضد پر اڑ گیا ہے…”

اب وہ دن قریب آ رہے تھے۔ گاؤں کے لوگ بھی تیاریاں دیکھ کر باتیں کرنے لگے تھے۔ کوئی کہتا، “یہ وِجے نے اچھا نہیں کیا…” تو کوئی کہتا، “چلو دوسری بیوی آ جائے گی تو گھر کا چراغ جل جائے گا…”

لیکن میں جانتا تھا کہ سُنیلا کے دل پر کیا گزر رہی تھی۔ میں اس وقت بڑا ہو چکا تھا، اب ان کے گھر جانا ویسے بھی مناسب نہیں لگتا تھا، لیکن کبھی کبھی راجیش سے خبر لے لیتا تھا۔ اور جب راجیش مجھے بتاتا کہ بھابھی آج بھی میرا نام پوچھتی ہیں، کہتی ہیں، “امتیاز کیسا ہے؟” تو دل میں ایک عجیب سی کسک اٹھتی تھی۔

شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی… گاؤں میں رونق لگنے لگی تھی، لیکن سُنیلا کی آنکھوں میں وہ رونق کبھی نہیں آئی۔ وہ ایک دم خاموش ہو گئی تھی، جیسے کسی نے اس کی زندگی کی ساری روشنی چھین لی ہو۔ راجیش کہتا تھا، “امتیاز بھائی… وہ اب کسی سے بات بھی نہیں کرتیں… بس چھت پر بیٹھی آسمان دیکھتی رہتی ہیں…”

اور پھر… وہ دن آ ہی گیا… شادی کا دن… جب سب کچھ بدلنے والا تھا، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اصل کہانی تو اب شروع ہونے والی تھی…

شادی کی وہ رات گاؤں میں ایک تہوار جیسی تھی۔ چراغاں سے گھر جگمگا رہا تھا، ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ ڈھول تاشے بج رہے تھے، رشتہ دار خوشی سے جھوم رہے تھے، اور محلے کے لوگ ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلا رہے تھے۔ وِجے کے گھر کا صحن خوشبوؤں سے مہک رہا تھا، رنگین کپڑوں میں لپٹے لوگ مسکراتے چہروں کے ساتھ مبارکباد دے رہے تھے۔

لیکن ان سب ہنگاموں کے بیچ، ایک چہرہ ایسا تھا جو چپ چاپ بیٹھا تھا… وہ چہرہ تھا سُنیلا کا۔ وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، لیکن جیسے اس کے اندر کی آواز مر چکی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ تو تھی، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سا خالی پن، جیسے دل کے اندر کوئی جنگ چھڑ چکی ہو لیکن زبان پر ایک لفظ نہ آ رہا ہو۔ وہ شادی کی رسمیں دیکھتی رہی، مہندی کے رنگ، چوڑیوں کی کھنک، گیتوں کی آوازیں، لیکن اس کے دل میں صرف ایک سوال تھا… “کیا میں اب اس گھر میں ایک بوجھ بن کر رہ جاؤں گی؟”

دلہن کا نام پریا تھا۔ پریا… ایک ایسی لڑکی جو پہلی ہی نظر میں سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی۔ گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، بھرپور جسم، اور ایک نرمی جس نے سب کو اپنا دیوانہ بنا دیا تھا۔ میں نے خود اسے شادی کے دن دیکھا تھا، اور دل ہی دل میں سوچا تھا کہ واقعی وہ سُنیلا سے زیادہ حسین تھی۔ گاؤں کے لوگ بھی یہی کہتے تھے، “راجو بھائی نے کمال کر دیا… دلہن تو پری جیسی ہے!”

شادی کی تمام رسومات خوشی خوشی مکمل ہوئیں۔ رات ڈھلتی گئی، محفل ختم ہوئی، اور سب اپنے اپنے کمروں میں سو گئے۔ گھر میں ایک سکون سا چھا گیا۔ لیکن اس سکون کے پیچھے ایک طوفان چھپا تھا، جو کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

دو مہینے ایسے گزر گئے جیسے وقت نے پر لگا لیے ہوں۔ پریا کے آنے سے گھر میں ایک الگ رونق آ گئی تھی۔ سب اس کی عزت کرتے تھے، خاص طور پر وِجے، جو ہر وقت اس کے ارد گرد منڈلاتا رہتا۔ گاؤں میں لوگ باتیں کرنے لگے تھے کہ اب اس گھر میں صرف پریا کا راج ہے۔ سُنیلا ایک کونے میں سمٹ کر رہ گئی تھی، لیکن کسی نے اس کی خاموشی کو محسوس نہیں کیا۔

پریا کی قسمت دیکھو، شادی کے چند ہفتوں بعد ہی یہ خبر پھیل گئی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ جیسے ہی یہ خبر گھر میں پہنچی، جشن کا سماں بندھ گیا۔ محلے کی عورتیں مبارکباد دینے آئیں، مرد وِجے کو شاباش دینے لگے، اور سب نے کہا کہ “یہی تو چاہیے تھا… اب گھر کا چراغ جلنے والا ہے!”

لیکن اسی خوشی کے شور میں ایک دل چپ چاپ ٹوٹ رہا تھا… وہ دل سُنیلا کا تھا۔

سُنیلا ایک شریف اور روایتی عورت تھی۔ وہ کبھی کسی کے آگے بولتی نہیں تھی، ہمیشہ سب کا احترام کرتی تھی۔ لیکن پریا… وہ الگ مزاج کی لڑکی تھی۔ جیسی بھی تھی، مگر اس کا چلن کچھ خاص اچھا نہیں تھا، یہ بات راجیش اکثر مجھے بتاتا تھا۔ کہتا تھا، “امتیاز بھائی… یہ نئی بھابھی ظاہری طور پر تو بڑی اچھی لگتی ہیں، لیکن ان کا دل اتنا صاف نہیں ہے… بھائی کے پیچھے پیچھے تو رہتی ہیں، لیکن باقی سب سے بات کرنے کا انداز کچھ عجیب ہے۔”

میں سنتا رہتا، خاموش رہتا، کیونکہ میرا کام بس اتنا تھا کہ سنوں اور حالات کو سمجھوں۔

وقت گزرتا گیا، اور اب وہ دن قریب آ گیا جب پریا کو ماں بننے کی خوشخبری ملنے والی تھی۔ سب تیاریوں میں لگ گئے تھے۔ وِجے کی ماں تو دنیا سے جا چکی تھی، ورنہ وہ یہ سب بڑے جوش سے کرتیں، لیکن گھر کے دوسرے لوگ بھی پوری محبت سے ہر رسم ادا کر رہے تھے۔

راجیش اکثر مجھ سے بات کرتا تھا، “امتیاز بھائی… بھابھی (سُنیلا) اب بالکل بدل گئی ہیں… بس خاموشی ہے ان کے اندر… میں کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن سمجھ نہیں آتا کہ کیسے ان کا درد کم کروں…”

ایک رات، جب سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے، ایک واقعہ ہوا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ رات کے قریب بارہ بجے راجیش نے مجھے بتایا، “امتیاز بھائی… میں موبائل پر فلم دیکھ رہا تھا، جب اچانک مجھے لگا کہ کمرے میں کچھ ہلچل ہو رہی ہے۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ بھابھی، یعنی سُنیلا، آہستہ آہستہ کچن کی طرف جا رہی ہیں۔ میں نے پوچھا، ‘بھابھی، اس وقت؟ سب خیریت تو ہے؟ آپ کو کچھ چاہیے؟’ وہ رکی، میری طرف دیکھ کر زبردستی مسکرائیں اور کہا، ‘نہیں راجیش… تم سو جاؤ… مجھے کچھ نہیں چاہیے…’ میں نے ضد کی، لیکن وہ بار بار یہی کہتی رہیں کہ سب ٹھیک ہے۔”

راجیش نے آہ بھرتے ہوئے کہا، “مجھے اس وقت بھی لگا کہ کچھ غلط ہے، لیکن میں سمجھ نہیں پایا… میں تھک بھی گیا تھا، اس لیے بستر پر آ کر سو گیا…”

صبح ہوئی، تو گھر میں قیامت برپا تھی۔

راجیش کی آنکھ رونے کی آواز سے کھلی۔ وہ دوڑتا ہوا باہر آیا اور دیکھا کہ صحن میں لوگ جمع ہیں، عورتیں بین کر رہی ہیں، اور مرد حیرانی اور خوف سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ میں بھی شور سن کر ان کے گھر پہنچا، اور جو منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا، وہ آج بھی میری روح کو کانپنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

سُنیلا فرش پر پڑی ہوئی تھی… اس کا دوپٹہ سینے سے ہٹا ہوا تھا، چہرہ نیلا پڑ چکا تھا، اور منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، جیسے موت کے آخری لمحے میں بھی وہ چیخ رہی ہوں، فریاد کر رہی ہوں۔

سب لوگ سکتے میں تھے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ راجیش بھاگتا ہوا آیا، اس نے کانپتی آواز میں کہا، “یہ… یہ زہر ہے… اس نے زہر پی لیا ہے…”

پھر سب کو یاد آیا… ان کے گھر میں کھیتوں کے لیے رکھی جانے والی وہ زہریلی دوائیاں، وہ کیمیکلز، جو اگر ذرا سا بھی جسم میں چلا جائے تو جان بچنا مشکل ہوتا ہے۔ سُنیلا نے وہ پوری بوتل پی لی تھی۔

کچھ عورتیں رونے لگیں، کوئی سینہ کوبی کرنے لگا، لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ سانسیں جو چند لمحے پہلے تک چل رہی تھیں، اب ہمیشہ کے لیے رک گئی تھیں۔

مجھے لگا جیسے زمین میرے پیروں تلے سے کھسک گئی ہو۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا… اس کی کھلی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو، جیسے وہ دنیا کو آخری بار الوداع کہہ رہی ہو۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون بھی تھا، جیسے وہ دکھوں سے نجات پا گئی ہو، لیکن ساتھ ہی ایک اذیت کا نشان، جیسے وہ لمحہ لمحہ تڑپ کر موت کے حوالے ہوئی ہو۔

گھر میں ایک ہو کا عالم تھا۔ خوشیوں سے جگمگاتے اس گھر میں اب صرف ماتم رہ گیا تھا۔ وہ آوازیں، وہ قہقہے، وہ خوشی کے لمحے… سب جیسے اچانک کہیں غائب ہو گئے تھے۔

بڑی بھابھی کے گزرنے کے بعد گھر کا ماحول بالکل بدل گیا تھا۔ شروع میں تو سب لوگ خاموش تھے، جیسے کوئی سوگ کی کیفیت میں ہو، لیکن وقت گزرتا گیا اور سب اپنی اپنی زندگی میں واپس لوٹنے لگے۔ البتہ، راجیش نے ایک دن مجھے بتایا، "امتیاز بھائی، حیرت کی بات ہے… چھوٹی بھابھی پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔"

میں نے حیرانی سے پوچھا، "کیسے اثر نہیں ہوا؟"

راجیش نے گہری سانس لے کر کہا، "ہاں، وہ نہ تو روئی، نہ سوگ منایا، بس بس واجبی سے دو چار آنسو بہائے، اور بس… بلکہ یوں لگا جیسے دل ہی دل میں خوش ہو گئی ہو۔"

مجھے یہ سن کر عجیب لگا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ بڑی بھابھی کی موت کتنی دل دہلا دینے والی تھی۔ لیکن سچ یہ تھا کہ چھوٹی بھابھی کا مزاج ہی کچھ اور تھا۔ راجیش نے مزید بتایا، "امتیاز بھائی، اس کا چال چلن آج بھی ویسا ہی ہے… گاؤں کے مردوں کے سامنے ایسے چلتی ہے جیسے کوئی بے حیائی کی علامت ہو۔ نہ میرے ساتھ اس کی بنتی ہے، نہ وہ کسی کی عزت کرنا جانتی ہے۔ بڑی بھابھی میں جتنا اخلاق تھا، یہ اس کا الٹ ہے۔"

بڑی بھابھی کے انتقال کو دو مہینے گزر چکے تھے کہ عجیب و غریب واقعات شروع ہو گئے۔ شروع میں کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی، لیکن پھر حالات بگڑنے لگے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ چھوٹی بھابھی کے کمرے میں اس کے زیورات یا کپڑے بکھرے ملتے، کبھی کوئی چیز کمرے سے باہر پھینک دی جاتی، اور کبھی رات کے وقت وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ جاتی اور چیخنے لگتی۔

ایک رات اس نے روتے ہوئے کہا، "میرا کوئی گلا دبا رہا ہے… کوئی میرا دم گھونٹنے کی کوشش کر رہا ہے!"

شروع میں سب نے اسے وہم سمجھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ واقعات بڑھنے لگے۔ اس کا چہرہ زرد پڑنے لگا، آنکھوں کے نیچے گہرے سائے اتر آئے، اور وہ ہر وقت سہمی سہمی رہتی۔ اکثر اپنے میکے چلی جاتی اور کئی دن تک وہیں رہتی، لیکن جیسے ہی واپس آتی، وہی واقعات پھر شروع ہو جاتے۔

گاؤں والے بھی باتیں کرنے لگے۔ کچھ لوگ سرگوشیوں میں کہتے، "یہ سب بڑی بھابھی کی روح کا بدلہ ہے… اس کی موت جتنی دردناک تھی، اتنا ہی شدید اس کا غصہ بھی ہے۔ وہ سکون سے نہیں سو سکتی جب تک اپنی بے عزتی کا حساب نہ لے لے۔"

یہ باتیں جب چھوٹی بھابھی کے کانوں تک پہنچیں تو وہ اور بھی خوفزدہ ہو گئی۔ اب وہ رات کو اکیلی رہنے سے ڈرتی تھی، کمرے کے دروازے اچھی طرح بند کر کے سوتی، اور اکثر شوہر کو بھی زبردستی اپنے ساتھ کمرے میں بٹھا لیتی۔ لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتے جا رہے تھے۔

راجیش نے ایک دن مجھے بتایا، "امتیاز بھائی… یہ سب مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔ رات کو اکثر یہ ایسی چیخیں مارتی ہے کہ میں خود ڈر جاتا ہوں۔ وہ چیختی ہے کہ کوئی میرا گلا دبا رہا ہے، کوئی میرا دم گھونٹ رہا ہے۔ لیکن جب میں کمرے میں جاتا ہوں، تو کچھ بھی نہیں ہوتا، سب خاموش ہوتا ہے۔"

میں نے پوچھا، "تمہیں کبھی کچھ نظر آیا؟"

راجیش نے نفی میں سر ہلا دیا، "نہیں… کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ ہر بار یہی کہتی ہے کہ کوئی ہے جو مجھے ستا رہا ہے۔"

ایک رات میں نے خود سنا کہ وہ اور کوئی اجنبی عورت کمرے میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہی تھیں۔ وہ عورت شاید کوئی عاملہ یا تعویذ دینے والی تھی۔ چھوٹی بھابھی رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی، "جب بھی میں وِجے کے قریب جاتی ہوں، جیسے ہی شوہر کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں… کوئی مجھے دھکا دے دیتا ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے جیسے کوئی میرے منہ پر تھپڑ مارتا ہے۔ میں بہت ڈر گئی ہوں… مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔"

وہ عورت آہستہ آہستہ اسے تسلی دے رہی تھی، "دیکھ بیٹی، یہ جو کچھ بھی ہے، بدلہ ہے… وہ تجھ سے خوش نہیں ہے… لیکن فکر نہ کر، میں تعویذ دوں گی، پڑھائی کروں گی، سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

لیکن کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ کئی مرتبہ عامل بلائے گئے، تعویذ اور دھاگے دیے گئے، لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ حالات دن بہ دن بگڑتے جا رہے تھے، اور خوف کا سایہ اس گھر پر گہرا ہوتا جا رہا تھا۔

گھر میں خوف کی فضا دن بہ دن گہری ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی بھابھی کے جانے کے بعد جو سکون اور زندگی کا معمول رہ گیا تھا، وہ اب بالکل ختم ہو چکا تھا۔ سبھی لوگ ایک انجانے خوف میں مبتلا تھے، اور چھوٹی بھابھی کی حالت تو سب سے زیادہ خراب تھی۔

ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ جو بھی سایہ یا آسیب ہے، وہ گھر سے نکل جائے۔ گاؤں کے چند بزرگوں نے مشورہ دیا، "عامل کو بلاؤ، تعویذ لگواؤ، گھر کی ہوا صاف کراؤ۔" ہم نے ایسا ہی کیا۔ ایک نہیں، دو نہیں، کئی عامل اور پنڈت بلائے گئے۔ ہر کوئی اپنے طریقے سے عمل کرتا، تعویذ دیتا، کچھ پانی پر پھونک مارتا اور کہتا، "اسے پی لو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔" مگر سچ یہ ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہ ہوا۔ نہ ماحول بدلا، نہ وہ خوف ختم ہوا جو گھر کے کونے کونے میں سرایت کر گیا تھا۔

مجھے آج بھی وہ رات ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔ راجیش میرے پاس بیٹھا تھا اور کہہ رہا تھا، "امتیاز بھائی، میں نے ایک فلم تم سے لی تھی، وہی دیکھنے بیٹھا تھا۔" ہم دونوں فلموں کے شوقین تھے، خاص طور پر انگریزی ہارر یا ایکشن فلمیں ہمیں زیادہ پسند تھیں۔ لیکن اس رات جو کچھ ہوا، وہ کسی فلم سے زیادہ خوفناک تھا۔

راجیش نے بتایا کہ وہ فلم دیکھتے دیکھتے تھکن کے مارے صوفے پر ہی سو گیا تھا۔ رات کے تقریباً دو بج رہے تھے جب اچانک ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نے اسے جگا دیا۔ شروع میں اسے لگا کہ شاید خواب دیکھ رہا ہے، لیکن آواز دوبارہ آئی — کمزور، بے بسی سے بھری ہوئی۔

وہ چونک کر اٹھ بیٹھا اور آواز کے پیچھے لپکا۔ کمرے کا دروازہ جیسے ہی کھولا، وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا جو آج بھی سوچ کر اس کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ چھوٹی بھابھی، جس کا شوہر وجے اس رات گھر پر نہیں تھا، چھت کے پنکھے سے دوپٹے کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی۔ اس کے پیر ہوا میں بُری طرح پھڑپھڑا رہے تھے اور اس کے منہ سے عجیب گھٹی ہوئی آوازیں نکل رہی تھیں، جیسے وہ کسی ان دیکھی طاقت سے لڑ رہی ہو۔

راجیش بتا رہا تھا، "امتیاز بھائی، میں پل بھر کے لیے سن ہو گیا۔ یقین مانو، میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ مجھے لگا جیسے میں خواب میں ہوں، لیکن پھر جیسے ہی اس نے ایک بار پھر زور سے چیخ ماری، میں دوڑ کر آگے بڑھا۔"

وہ فوراً دوسرے کمروں کی طرف بھاگا، سب کو جگایا، اور ہم سب نے مل کر اسے نیچے اتارا۔ دوپٹہ اس کے گلے میں گہرائی تک دھنس گیا تھا، نشان واضح تھے، جیسے کسی نے جان بوجھ کر زور سے کھینچا ہو۔

زمین پر لٹکائے جانے کے بعد بھی اس کے جسم کی لرزش ختم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی، سانس پھول رہی تھی اور آنکھوں میں ایسا خوف تھا جیسے وہ موت کو سامنے سے دیکھ آئی ہو۔ بار بار یہی کہہ رہی تھی، "مجھے کوئی گھسیٹ کر لے جا رہا تھا… میں چیختی رہی، چلاتی رہی… تم لوگوں کو بلاتی رہی… لیکن کسی نے نہیں سنا!"

میں نے حیرانی سے کہا، "تمہاری آواز تو میں نے ابھی سنی تھی، جب تم زور زور سے چیخ رہی تھیں… اس سے پہلے تو کچھ بھی نہیں سنائی دیا۔"

راجیش نے بھی یہی کہا کہ فلم دیکھتے دیکھتے کب آنکھ لگ گئی، اسے پتہ ہی نہیں چلا، لیکن اس وقت جب آواز آئی تو وہ اتنی مدھم تھی کہ جیسے کسی نے دبانے کی کوشش کی ہو۔

صبح کے قریب جب سب کچھ ذرا پرسکون ہوا، وجے بھی گھر آ گیا۔ جیسے ہی اس نے سب دیکھا اور سنا، وہ بھی سکتے میں آ گیا۔ چھوٹی بھابھی اس وقت تک رو رہی تھی اور ایک لمحہ بھی اس گھر میں رہنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ دہلیز پر کھڑی بار بار کہہ رہی تھی، "مجھے یہاں سے لے جاؤ… اگر میں یہاں رہی تو میں مر جاؤں گی… میں یہاں نہیں رہ سکتی!"

گھر کے باقی لوگ بھی سکتے میں تھے۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ راجیش کی آنکھوں میں وہ منظر جیسے نقش ہو گیا تھا، اور اس کے لہجے میں وہ خوف آج بھی محسوس ہوتا تھا جب وہ مجھے یہ واقعہ سنا رہا تھا۔

وہ کہانی، جو پہلے ہمیں محض افواہ لگتی تھی، اب حقیقت بن کر سب کے سامنے کھڑی تھی — خوفناک، دردناک اور ناقابلِ یقین حقیقت۔

اس رات کا منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے نقش ہے، جیسے سب کچھ ابھی اسی لمحے ہو رہا ہو۔ گھر میں خوف اور بےچینی کی فضا پہلے ہی پھیلی ہوئی تھی، لیکن اس دن معاملہ اور زیادہ سنگین ہو گیا۔ چھوٹی بھابھی کے حمل کو ساتواں مہینہ چل رہا تھا، اور صرف تین یا چار مہینے باقی رہ گئے تھے۔ ہر کوئی پریشان تھا، کیونکہ ہر گزرتی رات کے ساتھ اس پر ہونے والے حملے اور بھی شدت اختیار کر گئے تھے۔

وجے، جو اس کا شوہر تھا، ان دنوں زمینوں کے معاملات میں پھنسا ہوا تھا اور اکثر رات کو گھر نہیں آ پاتا تھا۔ اس دن بھی وہ کسی بڑے پنڈت سے ملنے گیا ہوا تھا تاکہ کوئی حل نکل سکے۔ جاتے ہوئے وہ چھوٹی بھابھی کو سمجھا کر گیا تھا:

"بس آج کی رات برداشت کر لو، میں صبح تک آ جاؤں گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پنڈت جی بھی ساتھ آ رہے ہیں، وہ سب سنبھال لیں گے۔"

شام ڈھلنے کے بعد جیسے ہی اندھیرا چھایا، گھر میں ایک عجیب سا سکوت چھا گیا۔ ہم سب نے زبردستی چھوٹی بھابھی کو کمرے میں بٹھایا، اور کوشش کی کہ وہ اکیلی نہ ہو۔ دل میں خوف تو سب کے تھا، لیکن امید یہی تھی کہ پنڈت جی آئیں گے اور سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔

رات تقریباً آٹھ بجے کے قریب پنڈت جی آ پہنچے۔ وہ ایک دبلا پتلا مگر رعب دار شخص تھا، لمبی سفید داڑھی اور ماتھے پر تلک لگائے ہوئے۔ وہ اندر آتے ہی رک گیا، جیسے کچھ محسوس کر رہا ہو۔ اس نے گھر کے صحن کو غور سے دیکھا، پھر ہلکی آواز میں بولا:

"یہاں ہوا بہت بھاری ہے… کوئی ایسی طاقت ہے جو چین سے نہیں بیٹھی۔"

ہم نے اس کو کھانے کے لیے بلایا۔ وہ خاموشی سے کھاتا رہا، لیکن اس کی نظریں بار بار چھوٹی بھابھی کی طرف اٹھ جاتیں، جیسے وہ کچھ دیکھ رہا ہو جو ہمیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کھانے کے بعد وہ بولا:

"مجھے سب سچ سچ بتاؤ، یہ لڑکی کون ہے، اور تمہارے گھر میں کیا ہوا تھا۔"

راجیش نے اسے ساری کہانی سنائی — بڑی بھابھی کی شادی، اس کی خوبصورتی، سب کا اس سے پیار، اور پھر اچانک اس کا یوں زہر پی کر مر جانا۔ ہم نے اسے بتایا کہ کس طرح وہ ساری رات تڑپتی رہی اور صبح دم توڑ گئی۔

پنڈت جی نے آنکھیں بند کر کے لمبی سانس لی اور پھر دھیمے لہجے میں کہا:

"یہ روح چین سے نہیں بیٹھی۔ جس طرح اس کی موت ہوئی، جس اذیت سے گزری، اس نے اس کی آتما کو بے سکون کر دیا ہے۔ وہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ اس گھر میں کوئی دوسری عورت آئے۔ یہ لڑکی…" — اس نے چھوٹی بھابھی کی طرف اشارہ کیا — "یہ اس کے لیے سب سے بڑی نفرت کا باعث ہے۔ وہ اسے برداشت نہیں کر پا رہی، اور وہ چاہتی ہے کہ یہ بھی وہی انجام دیکھے جو اس نے دیکھا تھا۔"

یہ سنتے ہی گھر میں خاموشی چھا گئی۔ سب کے چہرے زرد ہو گئے۔ چھوٹی بھابھی تو جیسے پتھر کی مورت بن گئی تھی، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔

مزید پڑھیں

پنڈت جی نے پھر کہا:

"میں آج رات یہاں رہوں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ اس روح کو قابو میں لے کر یہاں سے نکال دوں، لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔"

رات جیسے ہی گہری ہوئی، پنڈت جی نے اپنا عمل شروع کر دیا۔ گھر کے صحن میں سب کو بٹھایا گیا، اور دیے جلائے گئے۔ منتر پڑھنے کی آواز گونجنے لگی، فضا میں ایک عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہونے لگی۔ کبھی کھڑکیاں زور سے بند ہو جاتیں، کبھی کمرے کے دروازے خود بخود کھلنے لگتے۔ چھوٹی بھابھی کئی بار کانپنے لگی، جیسے کسی نے اسے چھوا ہو، لیکن پنڈت جی مسلسل منتر پڑھتا رہا۔

تقریباً تین گھنٹے تک عمل چلتا رہا۔ آخرکار پنڈت جی نے گہری سانس لی اور بولا:

"میں نے اسے قید کر دیا ہے۔ اب یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ لیکن یاد رکھو، اس کا دکھ بہت گہرا ہے، دعا کرتے رہنا تاکہ اس کی روح کو سکون مل جائے۔"

مزید پڑھیں

اس رات کے بعد جیسے گھر کی ہوا بدل گئی۔ چھوٹی بھابھی کی حالت دن بدن بہتر ہونے لگی۔ اس نے اپنا حمل سکون سے پورا کیا اور ایک صحت مند بیٹے کو جنم دیا۔ سب نے شکر ادا کیا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔

وقت گزرتا گیا۔ ایک سال کے اندر اندر اس نے جڑواں بیٹیوں کو بھی جنم دیا، جو آج بڑی ہو کر اسکول جانے لگی ہیں۔ کبھی کبھی میں انہیں وجے کی دکان پر دیکھ لیتا ہوں — ہنستی مسکراتی، بلکل عام بچوں کی طرح۔

راجیش اب دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا ہے، کھیتوں میں فصلوں کی دوائیوں کا کاروبار کر رہا ہے۔ زندگی جیسے معمول پر آ گئی ہے، لیکن وہ خوفناک راتیں… وہ لمحے جب ہم نے اپنی آنکھوں سے عجیب و غریب واقعات دیکھے، آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے، اور ایسے گناہوں سے بچائے جو کسی کی روح کو بے سکون کر دیں۔ کیونکہ جو کچھ میں نے دیکھا اور جھیلا، وہ میں اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

(ختم شد)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے