مریم کم سنی سے ہی اپنی ماں کے ساتھ ہمارے گھر میں کام کرتی تھی۔ وہ ایک غریب محنت کش ماں کی بیٹی تھی۔ 14 برس کی نادان زمانے کی اونچ نیچ سے واقف نہ تھی۔ دنیا کو اپنے سادہ معصوم جذبوں کے آئینوں میں دیکھتی تھی۔ تب یہ دنیا اس کو بڑی بھلی لگتی تھی۔ پہلے یہ کھاتے پیتے لوگ تھے باپ کی ذاتی دکان تھی وہ فروٹ فروش تھا۔ تبھی خالہ زکیہ نے بھلا وقت دیکھا تھا۔ ایک روز فروٹ کے ایک آڑھتی سے اللہ دتہ کا جھگڑا ہو گیا۔ یہ جھگڑا لین دین پر ہوا تھا۔ کچھ دنوں بعد ان کی ایسی دشمنی ہو گئی کہ آڑھتی کے آدمیوں نے بازار میں آ کر دکان پر بیٹھے اللہ دتہ کو سر میں گولی مار دی اور اس کو ڈھیر کر کے چلتے بنے۔
اللہ دتہ کہ قتل ہو جانے سے برے وقت نے زکیہ خالہ کے گھر اندھیرا ڈھا دیا۔ حالات یہاں تک پہنچے کہ گھر میں اناج کا ایک دانہ نہ رہا۔ لیکن مریم نے اب بھی زندگی کی تلخی کو محسوس نہ کیا۔ حالانکہ غربت کے کالے سائے جاڑے کے بادلوں کی طرح ان کے سر پر چھائے رہتے تھے۔ ابھی مریم بچی تھی ۔اس کی آرزوؤں کی دنیا میں ہلچل نہ مچی تھی۔ اس کو خود کو سنبھال کر چلنے کا شعور نہیں آیا تھا۔ روکھی سوکھی جو مل جاتی کھا لیتی۔ اوڑھنی سنبھالنے کا بھی ہوش نہیں تھا۔ ماں گھر گھر کام کرتی۔ یہ بیکار سی آنگن میں ادھر ادھر پھرا کرتی۔ کھڑکیوں سے جھانکتی کبھی چھت پر چڑھ جاتی۔ ہر جگہ تنہائی کاٹنے لگتی۔ کہیں اس کا جی نہ لگتا۔ تب دل گھر سے باہر جانے کو مچلتا۔ ماں اپنے ساتھ لے جانے سے کتراتی اور مریم یہ چاہتی کسی طرح ماں کے ساتھ لگی پھرے۔ اسے دوسروں کے گھروں میں جھانکنے سے بڑی دلچسپی تھی۔ جہاں مزے مزے کی باتیں سننے کو ملتی اور کبھی تو ایسی بھول بھلیوں جیسی باتیں کہ اس کے کان سنسنانے لگتے۔ اور وہ چہرے کو اوڑھنی سے ڈھانپ لیتی ۔
تبھی ماں گھور کر اسے دیکھتی اور کہتی ایک تو میرے پیچھے لگی چلی آتی ہے اوپر سے بڑوں میں گھس کر باتیں سنتی ہے۔ کیا یہ باتیں لڑکیوں کے سننے کی ہیں؟ خالہ زکیہ کی تین بیٹیاں تھیں جن کی خاطر وہ ہمارے گھر کے علاوہ دو اور گھروں میں بھی کام کرتی تھی۔ ان کو بیٹیاں بیا ہنے کی فکر تھی۔ جو جوان ہو چلی تھی جن کے ابھی تک کہیں رشتے طے نہ ہوئے تھے۔ ایک دن ماں نے مریم کو سمجھایا کہ جب تیری بہنوں کو رشتے کے لیے دیکھنے عورتیں آئیں تو ان کے سامنے مت آنا۔ آج کل کی عورتیں بڑی لڑکیوں کو چھوڑ چھوٹی پر نظر ڈال لیتی ہیں۔ لہذا تم اس سمے چھپ جانا۔ایک روز مریم کی خالہ آئی۔ کچھ عورتیں ان کے ساتھ تھیں اور ماں کام پر گئی ہوئی تھی۔ مریم نے دروازہ کھولا۔ اس وقت وہ نہا کر نکلی تھی اور بال سنوار کر ان میں کلپ لگا رہی تھی۔ اس کی خالہ نے جو مریم کا اجلا اجلا چمکتا ہوا چہرہ دیکھا۔ بولی ارے مریم تو تو بڑی ہو گئی ہے۔ بڑا رنگ روپ نکالا ہے۔ اچھا جا ماں کو بلا لا کہنا کہ خاص مہمان آئے ہیں۔ ضروری کام ہے مریم نادان ضرور تھی مگر ایسی باتیں سمجھ جاتی تھیں سمجھ گئی کہ کون سا ضروری کام ہے۔ یہ عورتیں جو خالہ کے ساتھ ہیں ان کی بہنوں کا رشتہ دیکھنے آئی تھیں۔
اس خیال سے وہ کھل اٹھی۔ خالا تم بیٹھو میں ابھی ماں کو لے کر آتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ دوڑتی ہوئی فہیم صاحب کے گھر گئی۔ بیل دی سیٹھ فہیم کا بیٹا باہر آیا۔ وجاہت بھائی کیا میری ماں اندر ہے؟ ہاں ہے تو؟ اس نے سپاٹ آواز میں جواب دیا۔آجاؤ وہ سامنے سے ہٹ گیا۔ مریم سیدھی غسل خانے کی طرف گئی۔ جہاں اس کی ماں اکثر کپڑے دھو رہی ہوتی تھی۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ پلٹی تو سامنے وجاہت کو کھڑے پایا۔ماں تو ادھر نہیں ہے۔ وہ ادھر ہوگی وجاہت نے کمرے کی جانب اشارہ کیا۔ وہ سمجھی ماں ابھی جھاڑ پونچ میں لگی ہے۔ مگر وہاں بھی نہ تھی۔ تب بھی لڑکی نے سب کمرے دیکھ لیے وہاں اس کی ماں تو کیا کوئی زی روح بھی نہ تھا۔ سارا گھر خالی پڑا تھا۔ وہ ادھر ادھر دیکھتی وجاہت کی طرف آئی۔ جو برآمدے میں کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہ گھر سے باہر جانے لگی تبھی وجاہت اس کے راستے میں آگیا۔ اس نے کہا پہلے میرا ایک کام کرتی جاؤ اس کے بعد باہر جانے دوں گا ۔ تم تو خواہ مخواہ ڈر رہی ہو میں تم کو کھا نہیں جاؤں گا ۔ وہ بیچاری وجاہت کو معنی خیز نگاہوں سے گھورنے لگی۔ ہٹ جاؤ صاحب گھر میں مہمان آئے ہیں۔ دیر ہو رہی ہے۔ اماں کو اگلے گھر جا کر بلانا ہے۔ ایک شرط پر جانے دوں گا۔ میرے سر میں درد ہے ذرا سا دبا دو مریم سمجھ گئی یہ شرط اتنی سادہ نہیں۔ پھر بھی چھٹکارا پانے کی خاطر اس نے کہا اچھا ٹھیک ہے کرسی پر بیٹھ جائیے میں دبا دیتی ہوں مگر مجھ کو جلدی جانے دینا خالہ میرا انتظار کر رہی ہیں۔ ابھی بات پوری بھی نہ ہو پائی تھی کہ وجاہت نے جھپٹ کر اس کی کلائی پکڑ لی۔ گرفت اتنی مضبوط تھی کہ مریم کے پسینے چھوٹ گئے وجاہت نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ جبکہ وہ ہاتھ چھڑانے کے لیے زور لگا رہی تھی کافی دیر گزر گئی ۔اچانک گیٹ پر فہیم صاحب آگئے کیونکہ ایک چابی ان کے پاس تھی۔
انہوں نے جیسے دروازہ کھولا دیکھا تو ان کا بیٹا مریم کو پریشان کر رہا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں۔ باپ کو سامنے دیکھ کر وجاہت پر تو جیسے آسمان گر پڑا سیٹھ فہیم کو دیکھ کر مریم کی جان میں جان آگئی۔ وہ ان سے جا کر لپٹ گئی اور بابا جان کہہ کر بلک بلک کر رونے لگی۔ یکایک اس کو اس وقت اپنے مرحوم باپ کا خیال آگیا کہ اگر نہ مرتے تو آج وہ اور اس کی ماں یوں در بدر نہ ہوتے۔ سیٹھ صاحب بھی سٹپٹا گئے بچی کو خود سے الگ کیا اور رونے کا سبب پوچھا وہ کیا بتاتی اس کا حلیہ اس کے بیٹے کی زیادتی کی چغلی کھا رہا تھا۔ باپ سمجھ گیا کہ یہاں کیا معاملہ ہوا ہے۔ مریم نے بھی روتے روتے سارا احوال سیٹھ صاحب کو کہہ سنایا۔ تب کھڑے کھڑے فہیم صاحب نے ایک عجیب فیصلہ کر لیا اور فون کر کے اپنی بیوی کو جلدی گھر پہنچنے کو کہا۔ جو اس وقت اپنے بھتیجے کی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ وہ گھبرا کر گاڑی میں بیٹھ گئیں اور ڈرائیور سے کہا کار جلدی چلاؤ خدا جانے گھر میں کیا آفت آ پڑی ہے جو مجھ کو شادی کے گھر سے بلا رہے ہیں۔ بیگم آگئی۔ صاف فیصلہ کر چکے تھے انہوں نے ڈرائیور کو بھیج کر مریم کی ماؤں کو بلوا لیا اور کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے۔ تمہاری لڑکی کو اپنی بہو بنانے کا۔
تم کو اس بات پر اعتراض تو نہیں اگر ہے تو بیان کر دو ہم آج شام تمہاری لڑکی کے ساتھ اپنے بیٹے کا نکاح چاہتے ہیں۔ فہیم صاحب کی بیوی اور مریم کی ماں دونوں عورتیں ہکا بکا رہ گئیں۔ ارے بھائی حیران کیوں ہو رہے ہیں اپ لوگ؟ جب میں نے گھر میں قدم رکھا کچھ ایسا احوال دیکھا کہ سمجھ گیا کہ ہمارا بیٹا مریم کو بہت پسند کرتا ہے اب ہم وجاہت کی پسند کا احترام کرتے ہوئے اس کا نکاح مریم سے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی کو اعتراض نہیں ہے تو اس بات پر تو ہمیں اپنے لڑکے کی دلی ارزو پوری کرنے دیجئے۔ سب سے زیادہ اعتراض خود وجاہت کو تھا جو ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد اب انجینئرنگ میں داخلہ لینے کے پرتول رہا تھا۔ باپ نے کہا میاں پڑھائی تو بعد میں ہوتی رہے گی اور ہم کب ابھی رخصتی کر رہے ہیں۔ رخصتی دو سال بعد ہوگی لیکن نکاح ابھی ہوگا۔ سیٹھ صاحب کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی حتی کہ ان کی بیوی اور وجاہت کو بھی نہیں وہ پیسے والے تھے تو ان کا رعب بھی بڑا تھا۔
مریم کی ماں خاموش تھی اس نے صرف اس قدر کہا سیٹھ جی یہ فیصلہ آپ نے لیا ہے تو اخر تک نبھاہ کا چارہ بھی آپ کو کرنا پڑے گا۔ یہ میری بیٹی کی زندگی کا سوال ہے۔ تم فکر نہ کرو زکیہ بہن۔ اج سے میں اس کا سرپرست ہوں۔ مریم کا بال بیکانا ہوگا۔ بس تم ہاں کہہ دو اور مریم سے بھی ہاں سننا چاہتا ہوں۔ کس کی مجال تھی جو ہاں نہ کہتا۔ زکیہ خالہ کی تو لاٹری نکل ائی تھی اور مریم کے خواب اس اونچے گھر سے وابستہ ہو گئے۔ اسی عالم میں بازار جا کے نکاح کا جوڑا لڑکی کے لیے اور شیروانی کلاہ لڑکے کے لیے خریدا۔ رات آٹھ بجے مولوی صاحب نکاح پڑھانے تشریف لے آئے مریم کو سیٹھ صاحب کی گھر ہی نکاح کا جوڑا پہنا کر ہلکا پھلکا میک اپ کروا دیا گیا اور زیورات کا ایک سیٹ بھی سیٹ فہیم نے دیا۔ کہ بچی کو پہنا دو تمام کام اللہ کی مرضی سے جھٹ پٹ ہو گئے۔ بعد نکاح دو چار قریبی لوگوں کی موجودگی میں کھانا ٹیبل پر سجا دیا گیا۔ مٹھائی کا ایک ایک ڈبہ مہمانوں کی نظر کیا گیا اور کھانا تناول فرما کر چلے گئے تو سیٹھ صاحب مریم اور اس کی والدہ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ان کے گھر چھوڑآئے۔
بزرگ بچوں کی غلطیوں کی سزا کئی طرح سے دیتے ہیں۔ لیکن سیٹھ فہیم صاحب نے جو سزا تجویز کی وہ انوکھی سزا ان کے بیٹے کے لیے ایک سبق بنی اور ایک غریب بیوہ کی بیٹی کی زندگی بھی سنور گئی۔
0 تبصرے