گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 9

urdu font stories

امراؤ کی روداد سنتے ہی جہاں ڈاکٹر خضر منان کہ حالت غیر ہوئی وہیں آفیسر سفیان تبریز چوڑے ماتھے پہ گہرے بل ڈالے امراؤ کی جانب بڑھا۔ امراؤ کی اب اسکی جانب پشت تھی۔ ڈاکٹر خضر نے سفیان کو آنکھ کہ اشارے سے وہیں مطمئن کھڑے رھنے کا عندیہ دیا۔ سفیان کی چال سے نہیں لگ رھا تھا کہ وہ ڈاکٹر کی بات ماننے کا ارادہ رکھتا ہے۔ متوقعہ قاتل اس کہ عین سامنے بیٹھا تھا اور وہ اس پہ گرفت ڈالنے سے قاصر تھا۔ وہ ڈاکٹر کو اب شعلہ بارنگاہوں سے گھور رھا تھا۔ جیسے کہہ رھا ہو “ مجھے میرا کام کیوں نہیں کرنے دے رھے؟”

وہ بمشکل ضبط کیے وہیں کھڑا پیچ و تاب کھاتا رھا۔ جب کہ امراؤ اس سب سے بے خبر و انجان بنی اپنی کتھا سناتی رھی۔ ڈاکٹر خضر ہمہ تن گوش رھے لیکن سفیان کہ جارحانہ تاثرات بار بار ان کا دھیان بھٹکا رھے تھے۔ وہ امراؤ سے ایکسکیوز کرتے سفیان کی جانب آۓ اور اسے بازو سے پکڑ کر باہر لے جاتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔ امراؤ نے پورا گھوم کر دروازے کی جانب نا سمجھی سے دیکھا۔ تب تک وہ دونوں دوست وہاں سے جا چکے تھے۔
“کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ؟ کیوں اتنا جذباتی ہو رھے ہو؟”
ڈاکٹر خضر نے چھوٹتے ہی سفیان سے کہا تھا۔

“ابھی بھی تم مجھ سے پوچھ رھے ہو خضر کہ میرے ساتھ، ایک پولیس آفیسر کہ ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ جبکہ تم جانتے ہو کہ قتل جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث مجرم میرے سامنے بیٹھا ہے۔”
سفیان نے اپنا بازو چھڑاتے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا۔
“کیسے ثابت ہو گیا ہے وہ اسٹوڈنٹ مجرم ہے؟ کیا ثبوت ہے تمھارے پاس؟”
ڈاکٹر خضر بھی اب جارحیت پہ اتر آۓ تھے۔
“ثبوت؟ لائیک سیرئسلی ڈاکٹر خضر منان؟ ابھی بھی آپ مجھ سے ثبوت مانگ رھے ہیں؟”

سفیان نے عادتاً بھڑکتے ہوئے کہا تھا۔
“وہ اس وقت میری پیشنٹ ہے آفیسر سفیان تبریز۔ اور آپ اسے بغیر وارںٹ کہ نہ گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ بے وجہ پریشان کر سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر خضر نے بھی اسی کہ لہجے میں جواب دیا تھا۔ اب دو دوست آمنے سامنے نہیں کھڑے تھے بلکہ وہ اپنے متعلقہ پیشے میں کمال کی مہارت رکھنے والے دو پیشہ ور افراد تھے۔ جنہیں اپنے پیشے سے جنونی محبت تھی، بلکہ یوں کہنا چاھیے کہ عشق تھا۔
“ٹھیک ہے۔ میں تمھاری “مریضہ” کو تمھارے “ہسپتال” میں ڈسٹرب نہیں کروں گا۔ ایک بات یاد رکھنا خضر، اگر اس نے بھاگنے کی کوشش کی یا ہوشیاری دکھائی تو میں بھول جاؤں گا کہ ہم کبھی دوست بھی تھے۔”

سفیان اب روایتی پولیس آفیسر والا لہجہ و رویہ اختیار کیے ہوئے تھا۔
“تم بے فکر ہو جاؤ۔ اس اسٹوڈنٹ کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ نہ یہ کہیں بھاگے گی اور نہ ہی کوئی اور الٹی سیدھی حرکت کرے گی۔ “
ڈاکٹر خضر نے بھی اپنے پیشے سے وفاداری نبھاتے ہوئے کہا تھا۔ کیونکہ تب امراؤ ان کی مریضہ کی حیثیت سے آئی تھی، اس کا راز راز رکھنا انُ پہ فرض تھا۔ لیکن بد قسمتی سے تب وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی امراؤ کہ لیے لی جانے والی گارنٹی انھیں کتنی مہنگی پڑنے والی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سرِ شامُ ہی دور جھرنے کہ پاس سے سریلی بانسری کی آواز فضا میں معلق ہو کر کانوں میں چاشنی گھول رھی تھی۔ جہاں جہاں تک آواز جا رھی تھی چرند پرند مست سے سر دھن رھے تھے۔ جوں ہی ذرا اندھیرا بڑھا تو پرندوں نے نہ چاھتے ہوئے بھی اپنے اپنے گھروں کی جانب رختِ سفر باندھا۔ آواز کا حصار ہی ایسا تھا کہ وہ نکلنا نہیں چاھتے تھے۔ لیکن مجبوری آڑے آرھی تھی۔ وہ بار بار اپنی نھنھی نھنھی گردنیں پیچھے گھما کہ اس اپسرا کو دیکھ رھے تھے۔

 جس کا سفید لباس دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ جس کہ فقط پشت کی زیارت ہی ان بیچارے عاشقوں کو نصیب ہوتی تھی۔ لیکن عاشق کا کیا ہے، محبوب کی ذرا سی جھلک بھی دکھائی دے جائے تو بات بنُ جاتی ہے۔ ان کہ ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش تھا۔ پہاڑیوں میں بسنے والے وہ پرندے اس اپسرا کی دھن کہ دیوانے تھے۔ سرِ شامُ ہی ٹہنیوں پہ آکر براجمان ہو جاتے اور اپسرا کی دھن میں کھو سے جاتے تھے۔ لیکن ہائے رے بد نصیبی کہ وقتِ معین پہ اٹھکر گھروں کو بھی لوٹنا ہوتا تھا۔ یہ عجیب دستور زمانے نے بنایا تھا۔ ان کا بس چلتا تو جب تلک اپسرا وہاں براجمان رھتی وہ بھی وہیں ڈیرا ڈالے رھتے بھوکے پیاسے!

ابھی وہ پرندے شکستہ دل لیکر وہاں سے اڑنے کو پر تول رھے تھے کہ انھوں نے کالی سیاہ چادر میں لپٹی ایک عورت کو دیکھا جو دور والی پہاڑی سے تیزی سے اترتی چلی آرھی تھی۔ جس کا رخ وہاں بنی جھونپڑی کی جانب تھا یا شاید اپسرا کی جانب۔ لیکن اس کی رفتار کی تیزی سے یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہے۔ پرندوں نے جب اسے دیکھا تو سر جوڑے سرگوشیاں کرنے لگے۔ وہ عورت اب جھونپڑی کہ باہر کھڑی تھی۔ کہ فوراً ہی جھونپڑی کہ اندر سے ایک بڑھیا اور ایک درمیانی عمر کی خاتون برآمد ہوئیں۔ بڑھیا کو تو وہ وہاں اکثر دیکھا کرتے تھے لیکن یہ درمیانے عمر کی خاتون نجانے کون تھی؟ جو کالی چادر والی عورت سے کچھ گفت و شنید کر رھی تھی۔ پھر کالی چادر والی وہاں سے ہٹ کر بڑھیا کو اپنے ساتھ لیکر اس اپسرا کی جانب بڑھتی چلی گئیں۔ اور اپسرا اس سب سے انجان و لاپرواہ اپنی دھن میں مگن ، اپنی دھن بجائے جارھی تھی۔ بس پرندوں نے اتنا ہی منظر اپنی چھوٹی آنکھوں میں بھرا اور پھڑپھڑاتے ہوئے اپنے گھروں کی جانب بجھے دل لیکر اڑ گئے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امراؤ نے جب ڈاکٹر کو اپنے زخم دکھائے تو چند لمحوں کہ لیے وہ بھی ششدر رہ گئے۔ یہ واقعی کتے کہ پنجوں کی کھرونچیں تھیں۔ انھوں نے امراؤ کہ سامنے اپنی حیرانی حتی الامکان حد تک چھپائے رکھی۔ وہ نہیں چاھتے تھے کہ امراؤ کو کسی اور بات کی بھنک بھی پڑے۔ انھوں نے نہایت سادہ سے انداز میں اس سے پوچھا تھا:
“اسٹوڈنٹ! کتے سے کہاں مڈ بھیڑ ہو گئی آپکی؟”
ساتھ ہی ساتھ سوالیہ انداز میں اس کہ چہرے کہ بدلتے تاثرات کی جانچ بھی کر رھے تھے۔

وہ جانتی تھی کہ اس کہ ساتھ روپذیر ہونے والے حالیہ واقعات پہ کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔ لیکن نجانے کیوں اس کا دل ڈاکٹر خضر پہ اعتماد کرنے کو چاھا۔
“یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ ڈاکٹر۔ مجھے تو بس خواب میں ہی کتے کی بھونکنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں رات نجانے کب سے بے ہوش تھی۔ میری آنکھ تو آپ کہ سامنے اسی ہسپتال کہ بیڈ پہ کھلی تھی۔ میں تو خود آپ سے پوچھنے چلی آئی تھی کہ کیا آپ نے میرے یہ زخم نوٹ نہیں کیے تھے جب مجھے یہاں لایا گیا؟”

اس کہ علاوہ امراؤ نے چیدہ چیدہ الفاظ میں پرسرار گل رخ سے اپنے ملنے کہ کہانی بھی سنا دی تھی۔ ڈاکٹر نے اس کی بات پورے ہوش و حواس میں سنی اور پھر ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔ امراؤ کو ان کہ ہنسنے کی وجہ تو سمجھ نہ آئی لیکن اس نے یہ ضرور نوٹ کر لیا تھا کہ ہنستے ہوئے ڈاکٹر صاحب بہت حسین لگتے ہیں۔
لیکن در حقیقت ڈاکٹر خضر منان کی واقعی ہوائیاں اڑی تھیں۔ اسٹوڈنٹ کو دیکھکر کہیں سے بھی نہیں لگ رھا تھا کہ وہ جھوٹ بول رھی ہے یادانستہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رھی ہے۔ اگر چھپا رھی ہوتی تو یہاں اپنے پاؤں سے چل کر آتی ہی کیوں؟”

ڈاکٹر نے اپنے تئیں سوچا تھا۔
امراؤ نے جب ڈاکٹر کو کسی گہری سوچ میں منہمک پایا تو ہلکا سا گلا کھنکھار کہ انھیں اپنی جانب متوجہ کیا۔
“نہیں ہم نے ایسا کچھ بھی نوٹس نہیں کیا۔ اگر کرتے تو آپکو اسی وقت ویکسینیشن لگوا دیتے۔ آپ کا بلڈ پریشر لو تھا۔ جس کی وجہ سے آپ بے ہوش ہوئی تھیں۔ بس آپکو ایک دو ڈرپس لگوا دی تھیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا تھا آپکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “بظاہر”!
آخری لفظ ڈاکٹر نے لمبا وقفہ لیکر کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔
امراؤ نے ناسمجھی سے انھیں دیکھتے ہوئے ابرو اٹھا دیے۔
ڈاکٹر نے دانستہ اسے نظر انداز کیا اور نرس کو کال کر کہ بلا لیا تاکہ سے ویکسینیشن دی جاسکے۔
کال کاٹ کر وہ اپنی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتی معصوم سے اسٹوڈنٹ کو دیکھتے گویا ہوئے:

“اسٹوڈنٹ! آپ نے کسی واقعے کو لیکر شدید اسٹریس لیا ہے۔ اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہمیں اپنے ساتھ عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے دکھائے دیتے ہیں۔ اور ہم ان واقعات کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ان سے دور کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سب یا تو کسی گہرے صدمے کا اثر ہے یا آپ نے کوئی شدید نوعیت کی پریشانی لی ہے۔ کسی بھی بات کو اپنے اعصاب پہ بری طرح سوار نہ کریں۔ یہ بھوربھن ہے۔ یہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو انسان کہ وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ بھی یہاں آنے کہ بعد ایسا بہت کچھ ہوا ہے۔ لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ ریلیکس رھیں۔ اور اپنے کمرے میں جاکر آرام کریں۔ اور جہاں تک اس پرسرار لڑکی کا تعلق ہے تو اسے اگنور کریں۔ یا اس سے دوستی کریں یہ سب آپکی صوابدید پر منحصر ہے۔ ویسے ایسے پریشان حال لوگوں سے دوستی کرنا اور ان کا غم بانٹنا کبھی کبھی ہمارے لیے سکون کا موجب بنتا ہے۔ آگے آپکی مرضی!”

ڈاکٹر خضر منان نے نہایت پروفیشنل انداز سے امراؤ کو ڈیل کیا تھا۔ وہ چاھتے تھے کہ امراؤ سے ڈیوڈ کہ بارے میں بھی پوچھ لیں، لیکن نجانے کیا سوچ کر وہ چپ ہو گئے۔ انھوں نے اسے بتایا تھا کہ جینز کی وجہ سے کتے کہ نوکیلے دانت اس کی اسکن کہ اندر نہیں جا سکے۔ فقط باہر سے ہی لگ کر نکل گئے۔ ڈاکٹر نے اسے پھر بھی ویکسینیشن دینے کہ لیے کہہ دیا تھا۔ کچھ پین کلرز بھی دیں اور سکون کی چند ادویات۔
کاش کہ ڈاکٹر خضر امراؤ کی بات کو سیرئسلی لیتے تو ایک اور معصوم دوشیز موت کی وادی میں اترنے سے بچ جاتی۔ پر جو ہونا ہوتا ہے وہ تو بہرحال ہوتا ہی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امراؤ وہاں سے نکل کر ٹہلنے نکل گئی۔ وہ ہاسٹل جانے سے قصداً کترا رھی تھی۔ وہ ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ اسے گل رخ کہ ساتھ رھنا چاھیے یا اس سے حتی المقدور دوری اختیار کرنی چاھیے؟

وہ یہی سوچتے ہوئے ان اونچی نیچی پہاڑیوں اور سبزے سے لبریز میدانوں میں بلا مقصد گھومتی رھی۔ اکا دکا گاؤں کہ لوگ اپنے کاموں کی غرض سے آتے جاتے دکھائی دیے۔ شام کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلا رھا تھا۔ اس نے بلآخر سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اسے گل رخ کو ایک موقعہ اور دینا تھا۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر خضر کی بات بلکل سچ ہو۔ میں یونہی گل رخ پہ شک کر رھی ہوں۔ میں بھی ایک بات کو لے کر بیٹھ ہی جاتی ہوں۔ لیکن گل رخ نے بتایا کہ یہاں کوئی بھی اسے منہ نہیں لگاتا اسے دیکھکر منہ پرے کر لیتے ہیں۔

 کالج یا ہاسٹل میں اسکا کوئی بھی دوست نہیں ہے۔ لیکن کالج کی کلاسز تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئیں۔ تو وہ کالج کیسے جانے لگی؟ اور جہاں تک رھی بات ہاسٹل کی تو ابھی تو میری بھی کسی سے جان پہچان یا دوستی وغیرہ نہیں ہوئی۔ بس یونہی آتے جاتے جو سلام دعا ہو جاتی تھی وہ تو الگ بات تھی۔ تو گل رخ نے اتنی جلدی سب سے بد دل کیسے ہو گئی؟ کچھ تو بات ہے، مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ گل رخ یہاں بہت پہلے سے رہ رہی ہے۔ اگر پہلے سے رہ رہی ہے تو ابھی تک فرسٹ ائیر میں ہی کیوں ہے؟ ایسے بہت سے سوالات نے امراؤ کا دماغ خراب کیا تھا، پر جو بھی تھا اسے ہر حال میں ان سوالات کہ جوابات تلاشنے تھے۔ جو اسے فقط ایک ہی ہستی سے مل سکتے تھے اور وہ تھی وارڈن!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وارڈن سے ملنے کا سوچ کر تیز تیز قدموں سے ہاسٹل کی جانب رواں دواں تھی۔ اسے ہاسٹل کہ بند ہونے سے پہلے چیک ان بھی کرنا تھا۔ ابھی وہ ہاسٹل سے چند ہی قدم دور تھی کہ اسے ایک کالی چادر اچھے سے لپیٹے ایک عورت دکھائی دی۔ جو ہاسٹل گیٹ کہ باہر بیٹھے چوکیداروں کہ سر تک پہنچ چکی تھی۔ امراؤ کو وہ عورت بہت پرسرار سی لگی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ چوکیدار اسے اندر نہیں جانے دیں گے۔ اپنی متجسس طبیعت کہ ہاتھوں مجبور امراؤ بھی اب تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں پہنچ جانا چاھتی تھی۔ کہ آگے جاکر معلوم کرے یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ عورت کون ہے؟ کہاں سے آرھی ہے؟ اور ہاسٹل میں کس سے ملنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ وہ بھی اس وقت جب ملاقاتی گھنٹے ختم ہو چکے تھے۔

لیکن جب تک وہ وہاں پہنچتی حیرت انگیز طور پر وہ عورت چوکیداروں سے خود کو کلئیر کروا کر گیٹ سے اندر بھی داخل ہو چکی تھی۔ امراؤ ہانپتے کانپتی چوکیداروں تک پہنچی تو یہ دیکھکر دھک سے رہ گئی کہ دونوں چوکیدار پھٹی پھٹی نگاہوں سے خلا میں گھور رھے تھے۔ امراؤ نے انھیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ تو جیسے کھلی آنکھوں سے خوابِ خرگوش کہ مزے لے رھے تھے۔ ان دونوں کی گود میں ایک کالے رنگ کا کپڑا گرا تھا۔ امراؤ نے جب دور سے اُس عورت کو دیکھا تھا تو اس نے ہاتھ میں پکڑی کوئی چیز ان دونوں چوکیداروں کی آنکھوں کہ سامنے لہرا کہ ان کی جانب اچھالی تھی۔ لیکن وہ تب یہ نہیں دیکھ پائی تھی کہ وہ چیز کیا تھی؟ لیکن اب وہ جان گئی تھی کہ وہ کوئی کالے رنگ کا کپڑا تھا۔ جو اس عورت نے جیسے ہی ان آدمیوں کہ سامنے لہرایا نجانے انھیں سانپ کیوں سونگھ گیا؟ 

امراؤ انھیں اسی حال میں چھوڑ کر بھاگتی ہوئی اس عورت کہ پیچھے آئی، جو اب وارڈن روم میں گھس رھی تھی۔ اور امراؤ کو یہ سمجھنے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں لگی کہ یہ عورت وارڈن ہی ہے۔ جو اسے پہلی نظر میں ہی پرسرار لگی تھی۔ وہ اس پرسرار عورت سے کسی دوسری پرسرار لڑکی کہ بارے میں کیا پوچھتی؟ لہذا اس نے اس سے کچھ بھی پوچھنے کا ارادہ ترک کر کمرہ نمبر گیارہ بارہ کی طرف دوڑ لگا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیٹ پہ بیٹھے چوکیداروں کو نجانے کب ہوش آیا تو انھوں نے بدک کہ ادھر ادھر دیکھا۔ پھر سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے سے استفسار کرنے لگے۔ یہ ان کہ ساتھ ہوا کیا تھا؟ کچھ لمحوں کہ لیے انھیں لگا تھا کہ وہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن اب وہ ایک دم سے جیسے زندہ ہوکر آگئے تھے۔
“شاید یہ نئی ڈالی ہوئی نسوار کا اثر ہے۔۔۔!!!!”

ایک چوکیدار نے پہلو میں تھوکتے ہوئے دوسرے سے کہا تھا۔ اور دوسرا فقط تائید میں سر ہلاتا ہوا گیٹ کہ اندر آنے اور باہر جانے والوں کہ اندراج کا رجسٹر لیکر وارڈن کہ کمرے کی جانب چلا گیا۔
اسے وارڈن کو یہ بتانا تھا کہ ہاسٹل سے گئی ہوئی چار لڑکیاں تو وقت پر واپس پہنچ گئی تھیں۔ لیکن فرسٹ ائیر کی ایک لڑکی امراؤ جان مقررہ وقت تک واپس نہیں آئی تھی۔ وہ اب گیٹ بند کر کہ، گیٹ کی اندرونی جانب موجود اپنے کمروں میں جانے کا ارادے رکھتے تھے۔ ان رجسٹرز پہ وارڈن کہ سائین لینے ضروری تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام لڑکیاں میس سے کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں واپس آچکی تھیں۔ کل سے کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا۔ لہذا میس میں انھیں ٹائم ٹیبل تھما دیا گیا تھا۔ جس کہ مطابق کھانے کھانے کہ فوراً بعد نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر انھیں سوجانا تھا۔ کوئی بھی لڑکی مقررہ وقت کہ بعد اپنے کمرے سے باہر دکھائی دی جاتی تو اس کہ خلاف کاروائی کی جانی تھی۔ لہذا لڑکیاں اپنے اپنے کمروں میں دبک کہ بیٹھ گئی تھیں۔ انھیں کل کی تیاری بھی تو کرنا تھی!

ہاں میس میں لگنے والی اٹینڈنس میں فقط امراؤ ہی تھی جو غائب تھی۔ چوکیداروں کہ علاوہ لڑکیوں کا ایک جمِ غفیر بھی اس بات کا چشم دید گواہ تھا کہ امراؤ اس رات بھی ہاسٹل میں موجود نہیں تھی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امراؤ نے جونہی راہداری میں قدم رکھا تو وہاں گہرا سناٹا پایا۔ لگتا ہے تمام لڑکیاں کھا پی کہ سو گئی تھیں۔ تمام کمروں کی بتیاں بھی گُل ہو چکی تھیں۔ چلو میں کل اپنا کمرہ بدل لوں گی۔ آج آخری بار گل رخ کہ ساتھ جیسے تیسے رہ لیتی ہوں۔ امراؤ نے اپنے تئیں سوچا تھا۔ فقط کمرہ نمبر گیارہ۔بارہ ہی تھا جسکی بتی جل رہی تھی۔ وہ دروازہ دھکیلتے اندر داخل ہوئی تو گل رخ کو سفید لباس میں اپنے بستر پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھے ہوئے پایا۔ جبکہ اس کہ بستر پر بریانی کی بھاپ اڑاتی پلیٹ رکھی ہوئی تھی۔ جو اس بات کی غماز تھی کہ گل رخ کو احساس تھا کہ اس نے کھانا نہیں کھایا ہوگا۔ امراؤ کو اس پر بے ساختہ پیار آیا تھا۔ 

وہ منہ میں پانی بھرتے بریانی کی جانب متوجہ ہوئی۔ ابھی وہ پہلی چمچ بھر کر منہ کہ قریب ہی لیکر گئی تھی کہ اس نے چیخ مار کر چمچ بمعہ پلیٹ دور پھینک دی۔ کیونکہ چمچ میں کسی لڑکی کہ ہاتھ کی چھوٹی انگلی تیر رھی تھی۔ چمچ چاولوں سے نہیں بلکہ خون سے بھری ہوئی تھی۔ وہ چیختے ہوئے باہر جانے کو بھاگی۔ اس نے بارہا دروازہ کھولنا چاھا لیکن وہ ہر بار ناکام ہو رھی تھی۔ اب اس نے دھڑا دھڑ دروازہ پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اونچا اونچا کسی کو مدد کہ لیے پکار رھی تھی۔ لیکن وہاں تو جیسے سب گونگے بہرے تھے۔ اس سے دروازہ بھی نہیں کھل رھا تھا۔ ابھی تو دروازہ کھل گیا تھا ، تو اب اسے کیا موت پڑ گئی ہے؟ وہ خود سے سوچے چلی جا رھی تھی۔

“کیوں ناکام کوششیں کرنے میں لگی ہو امراؤ جان؟”
وہی پرسرار آواز اسے اپنے پیچھے سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے گھوم کہ دیکھا تو کفن میں لپٹی وہ گل رخ تھی۔ اس کہ ہاتھ میں لکڑی کہ دستے والی لمبی سی چھری تھی۔ جس سے خون کہ قطرے ٹپ ٹپ کرتے گر رھے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کہ دوسرے ہاتھ میں ایک اور کٹی ہوئی انگلی تھی۔ جو یقیناً کسی دوشیزہ کی تھی۔ امراؤ منہ کھولے اسے دیکھ ہی رھی تھی کہ گل رخ نے تقریباً دھاڑتے ہوئے چھری فضا میں بلند کی اور امراؤ کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح اس کی آنکھ پھر سے ہسپتال کہ بستر پہ کھلی تھی۔ اب کی بار اس بیڈ کہ آس پاس نہ فقط ڈاکٹر خضر منان ، اور نرسز تھیں بلکہ وہی والا پولیس افسر بھی تھا جو اس دن ڈاکٹر کہ کمرے میں بیٹھا کام کر رھا تھا۔ اس کہ ساتھ ایک سپاہی بھی تھا جس کہ ہاتھ میں ہتھکڑی تھی۔ جو وہ امراؤ کہ سامنے ایسے لہرا رھا تھا جیسے اسے پہنانے کو بیتاب ہو۔ اور امراؤ نے جو خبر آنکھ کھولتے ہی سنی تھی وہ یہ تھی کہ کل رات ایک اور جوان لڑکی کا قتل ہو چکا ہے!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے