اندھے شوہر کی دیوانی بیوی

Urdu Moral Stories

میں دنیا کی اُن بدقسمت لڑکیوں میں سے ایک تھی جن کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور جو اپنی ممانی کے رحم و کرم پر تھی۔ ماموں بھی خاص مہربان نہیں تھے، البتہ کبھی کبھار خیال رکھ لیتے تھے اور اپنی بیٹیوں کو مجھ سے زیادہ محبت دیتے تھے۔ ماموں کی زندگی زیادہ نہ تھی، اس لیے وہ بھی قضاۓ الہی سے چل بسے۔

ماموں کے دنیا سے جانے کے بعد ممانی نے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا۔ پہلے بھی وہ زیادہ مہربان نہیں تھیں، لیکن جو تھوڑا بہت لحاظ وہ ماموں کا کر لیا کرتی تھیں وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر انہوں نے مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے، گھر کی ملازمہ کو نکال دیا اور تمام گھر کی ذمہ داری میرے سر ڈال دی۔ حالانکہ میری عمر اس وقت صرف اٹھارہ سال تھی۔ مرتے کیا نہ کرتے — میں بے سہارا لڑکی جیسی بن گئی۔ ممانی نے جو کہا، میں نے ویسا ہی کیا۔

ممانی کا پینتیس سالہ بیٹا مجھ پر فریفتہ ہو گیا۔ ممانی اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتیں کہ جس لڑکی سے وہ بچپن سے نفرت کرتی رہی ہوں وہی ان کی بہو بن جائے۔ اپنے شاندار بیٹے کے لیے ممانی نے کتنے سپنے سجائے ہوئے تھے — وہ اپنے بیٹے کے لیے کوئی ڈاکٹر بہو لانا چاہتی تھیں، کسی اُونچے خاندان سے۔ اور میں تو غریب لڑکی تھی، جس کے والدین نہیں تھے اور جسے جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ ایک واحد خوبی جو میرے پاس تھی وہ میرا حسن تھا۔ میں انتہائی حسین تھی — اتنی حسین کہ جب آئینے میں خود کو دیکھتی تو حیران ہو جاتی کہ کیا واقعی یہ میں ہوں؟ یہ میری صورت، یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں، یہ میرے ہونٹ ہیں۔ میں اپنا چہرہ چھو کر اپنے حسن کو دیکھتی رہتی۔

مگر میرا حسن کچن اور گھر کی نظر ہو گیا۔ ممانی کا بیٹا مجید میرے حسن کا دیوانہ بن گیا۔ اس نے ممانی سے کہا کہ وہ صرف مجھ سے ہی شادی کرے گا۔ دو سال تک ممانی کا سارا ملبہ مجھ پر ڈال دیا گیا کہ میں نے ان کے بیٹے کو بھانسا (پیار کر لیا) ہے۔ میں ہر وقت ڈری ہوئی رہتی، دعا کرتی کہ جلدی میری شادی ہو جائے تاکہ میں اس عذاب سے نکلو۔ میں ہرگز ممانی کے بیٹے سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، کیونکہ ممانی کے بیٹے سے شادی کرنے کا مطلب تھا ایک بار پھر وہی جہنم جیسی زندگی جو میں بالکل بھی نہیں چاہتی تھی۔ میں اس گھر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتی تھی اور واپس نہیں آنا چاہتی تھی۔

اسی دوران میرے لیے ایک رشتہ آیا۔ ممانی نے فوراً ہاں کر دی۔ چیک، منگنی، پھر بیاہ ہو گیا۔ ان لوگوں نے جہیز کے نام پر ایک روپیہ بھی نہیں لیا؛ میرے کپڑے بھی انھوں نے بنوا کر دیے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ مجھے اتنا اچھا سسرال ملا جس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں تھی۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات میری ساری خوشی ہوا ہو گئی جب مجھے میرے شوہر کے متعلق ایک ایسی حقیقت کا علم ہوا جسے سن کر میرا سر پکڑ کر رہ گیا۔ میں دلہن کے روپ میں سجی سنوری بیٹھی تھی اور شوہر ولید کا انتظار کر رہی تھی۔ ولید اندر داخل ہوئے، میرا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئے، مگر مجھے کسی انہونی کا احساس ہوا۔

انہوں نے پوچھا کہ میں دیکھنے میں کیسی ہوں۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا اور کہا: "خود گھونگٹ اُٹھا کر دیکھ لیں میں کیسی ہوں۔" وہ ہنس پڑے۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیوں ہنس رہے ہیں اور کیوں میرا گھونگٹ اُٹھا کر نہیں دیکھ رہے۔ میں نے خود گھونگٹ اٹھا کر اُن کی طرف دیکھا — وہ سامنے دیکھ رہے تھے، میری طرف دیکھ ہی نہیں رہے تھے۔ میرا دل ڈوب گیا۔ میں نے پوچھا: "کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ کیا آپ اس شادی سے خوش نہیں ہیں؟" وہ پھر ہنسنے لگے۔ مجھے ان کے رویے میں کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔

میں سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ اس طرح کیوں ہنس رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید وہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں، یا اُن کی شادی زبردستی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا: "کیا آپ کسی اور کو پسند کرتے تھے؟" وہ دوبارہ ہنسے۔ اب میرا دماغ خراب ہونے لگا۔ یہ کیا طرزِ گفتگو تھا؟ اگر میں انہیں پسند نہ بھی آتی تو کم از کم سچ بتاتے۔ میرا دل کسی گہری کھائی میں گر گیا۔ میری کوشش تھی کہ وہ ایک بار میرا چہرہ دیکھ لیں تو یقیناً اُس لڑکی کو بھول جائیں گے جس سے وہ محبت کرتے تھے، یا پھر کوئی بھی بات دیکھنے کے بعد سب بھول جائیں گے، کیونکہ میں بہت خوبصورت تھی۔ مگر وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف دیکھ رہے تھے اور میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں سمجھتے تھے۔

میں تو اسی سوچ کے ساتھ آئی تھی کہ اپنے شوہر اور سسرال کی اتنی خدمت کروں گی کہ مجھے واپس ممانی کے پاس جانا نہ پڑے۔ اچانک ولید نے کہا: "کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ میں دیکھ نہیں سکتا؟" مجھے لگا وہ مذاق کر رہے ہیں۔ میں حیران ہو کر بولی: "یہ مزاق کا وقت نہیں، مجھے اس طرح کا مذاق پسند نہیں۔" میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کا احترام کرتی ہوں، آپ کی آنکھوں کی نورِ سلامت رہے، آپ کی محبت میرے لیے عبادت کی مانند ہے۔ میں نے فرمانبردار اور وفادار بیوی بن کر ان سے کہا۔

ولید پھر بولے: "ناذنین، یہ دنیا بہت بےوفا ہے۔ اگر کسی میں کوئی خوبی ہو تو دنیا اُس سے محبت کرتی ہے، مگر اگر کسی میں کمی ہو تو یہ دنیا بےوفا ہو جاتی ہے۔ میں تمہیں بتا دوں کہ میں تمہاری محبت کے لائق نہیں ہوں، کیونکہ میں اندھا ہوں۔" انہوں نے کہا کہ سب نے کہا ہے کہ تم بہت حسین ہو، مگر افسوس کہ میں تمہارے حسن کو دیکھ نہیں سکتا۔ ولید یہ سب کہہ رہے تھے، اور مجھے ابتدا میں احساس نہ ہوا کہ یہ مذاق نہیں بلکہ سچائی ہے۔ جب مجھے حقیقت کا علم ہوا تو میری دنیا ایک پل میں گِر گئی۔

میں پھٹی آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ میرے سپنوں کا محل زمین بوس ہو گیا۔ میں کیا سوچ کر یہاں آئی تھی؟ وہ انسان تو دیکھ ہی نہیں سکتا — اور جو نہیں دیکھ سکتا وہ میرا سہارا کیسے بن سکتا ہے؟ اسے تو خود چلنے کے لیے سہارے کی ضرورت تھی۔ میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوا تھا — یہ دھوکہ میری ممانی اور میرے سسرال والوں نے کیا تھا۔ میں غصے سے بھڑک اٹھی: "کیا آپ لوگوں کو شرم نہیں آئی؟ غریب، مسکین، یتیم لڑکی کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کرتے ہیں!" میں نے غصے سے کہا۔

ولید بولے کہ تمہاری ممانی کو معلوم تھا کہ میں دیکھ نہیں سکتا، انہوں نے تمہیں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تم راضی ہو۔ مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا: "میں راضی ہوں؟ کیا میں کسی ایسے انسان سے شادی پر راضی ہو سکتی تھی جو دیکھ ہی نہیں سکتا؟" میں تو اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آئی تھی۔ اب میرے پاس واپس جانے کا راستہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس جہنم میں دوبارہ نہیں جاؤں گی — اب میں کہاں جاؤں؟ میں زور زور سے رونے لگی۔ پتہ نہیں وہ خاموشی سے اپنے بستر پر سو گئے۔ ولید نے مجھ سے مزید کوئی بات نہیں کی، وہ جلدی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ میں حیران و پریشان جاگتی رہی۔ رات کے کسی پہر میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگی تو ولید سو رہے تھے۔ جاگنے کی آواز پر وہ بھی جاگ گئے، پھر انہوں نے سہارا تلاش کیا، مگر میں اتنی غصے میں تھی کہ میں نے انہیں سہارا دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

وہ کمرا ان کا تھا۔ اندازے کے مطابق وہ واش روم چلے گئے، پھر تھوڑی دیر بعد باہر نکلے۔ میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے مجھے پکارا: "ناذنین، کیا تم یہاں ہو؟" میں کمرے میں موجود تھی مگر میں نے جواب نہ دیا۔ میرا دل ٹوٹ چکا تھا۔ میں بیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس پر یہ ظلم ہوا تھا — میری حالت کا اندازہ دوسرے شاید نہ کر سکیں، جو تکلیف ہے وہ جوتا پہننے والا ہی جانتا ہے۔ میری تکلیف صرف مجھے معلوم تھی۔ دن ایسے ہی گزرنے لگے۔ میرا سسرال میں دل نہ لگا — وہ شخص جس کے سہارے میں آئی تھی وہ کسی کام کا نہ تھا۔

میری ساس نے کہا کہ تمہاری ممانی کو ہم نے ہر حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ تم راضی ہو۔ انہوں نے کہا کہ تم انسانی ہمدردی کی خاطر ولید سے شادی کرنا چاہتی ہو اور تم وارث دو گی۔ یہ سن کر مجھے احساس ہوا کہ میرے سسرال والوں کا کوئی قصور نہیں تھا — انھوں نے میری ممانی کو اندھیرے میں نہیں رکھا، بلکہ میری ممانی نے مجھے اندھیرے میں رکھا۔ تو پھر کیا ضرورت تھی کہ آپ نے اپنے اندھے بیٹے کی شادی میرے ساتھ کروائی؟ میں نے غصے سے اپنی ساس کو کہا۔ انہوں نے جواب دیا تو مجھے بھی غصہ آیا۔

میں ایسی پتھر دل اور بے حس لڑکی ہرگز نہیں تھی، لیکن حالات اور واقعات نے مجھے پتھر دل بنا دیا تھا۔ پہلے ممانی کے رویے نے مجھے سخت کر دیا، اور شادی کے بعد ملنے والی اس دھوکے نے مجھے بے حس بنا دیا تھا۔ دوسروں کے جذبات اور احساسات کی مجھے کوئی پرورش نہیں رہی تھی — میرے جذبات چکنا چور ہو گئے تھے۔ میں ٹوٹ چکی تھی اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ پھر بھی میں نے بہت کوشش کی دل لگانے کی مگر دل نہیں لگا۔ میں چاہتی تھی کہ میرے حسن کی قدر کی جائے، میری تعریف کی جائے اور مجھے میرا حق ملے۔ مگر میں ہر وقت روتی رہتی۔ ولید بند کمرے میں میری سسکیاں سنتے اور مجھے چپ کروانے کی کوشش کرتے، مگر مجھے ان کا وجود ہی اپنے سامنے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ میری شخصیت منفی ہو گئی تھی۔

اسی دوران ولید نے کہا کہ وہ شہر سے کہیں دور جا رہے ہیں اور واپسی میں دیر ہو سکتی ہے، وہ ڈرائیور کے ساتھ جا رہے تھے۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ میں کوئی کام نہیں کر رہی تھی کیونکہ مجھے بہت غصہ تھا؛ سارا کام نوکرانی کرتی تھی۔ یہاں ہر سہولت تھی مگر میرے دل کی خوشی نہیں تھی۔

ادھی رات کو پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھلی، میں کچن میں آئی پانی پینے کے لیے، کہ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ میں چیخ نہ سکوں۔ پھر کسی نے کہا: "تم بہت خوبصورت ہو، میں نے جب سے تمہارے حسن کو دیکھا ہے تب سے تمہارا دیوانہ ہوں۔"

اُج تمہارا شوہر گھر پر نہیں ہے—حالانکہ وہ دیکھ نہیں سکتا—لیکن پھر بھی اُس کی غیر موجودگی میں میں چاہتا تھا کہ تم سے کھل کر اپنی محبت کا اظہار کر سکوں۔ میں تمہیں بتا دوں کہ میں تمہارے پڑوس میں رہتا ہوں۔ روزانہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے تمہیں بالکنی میں کھڑا دیکھتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ تم جیسی حسین لڑکی کی شادی ایک ایسے انسان سے ہو گئی جو تمہارا حسن دیکھ ہی نہیں سکتا۔

میرے کان کے قریب سرگرشی انداز میں وہ بولتا جا رہا تھا۔ میں نے آنکھیں گھما کر دیکھا تو اس نے نقاب پہنا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں نمایاں تھیں۔ میں قسمت اور حالات کی ماری ہوئی لڑکی تھی؛ جب کسی اور کے منہ سے اپنے لیے تعریف سنی تو مجھے بہت اچھا لگا۔ بجائے اس کے کہ میں اس کی باتوں پر غصہ کروں، مجھے اس کی باتیں اچھیں لگیں — اور ایسی باتیں ہی میں سننا چاہتی تھی جو میرے حسن کی تعریف کریں۔

میں نے اشاروں میں کہا: "مجھے بولنے دو۔" اس نے میرے منہ سے ہاتھ ہٹا دیا۔ میں نے پوچھا: "تم کون ہو؟" اس نے بتایا: "میں تم سے محبت کرتا ہوں اور روزانہ تمہیں دیکھتا ہوں۔" میں نے کہا: "یہاں سے چلے جاؤ، میرا شوہر آ جائے گا۔" اس نے کہا: "مجھے تمہارے شوہر کا علم ہے، وہ کل صبح ہی آئے گا۔" پھر بھی مجھے اپنی ساس کا خوف تھا۔ اس رات میں نے اسے بھگا دیا۔

لیکن اب جب بھی ولید کام سے کہیں جاتا، وہ آ جاتا۔ نہ جانے اس نے کون سا چور راستہ بنایا ہوا تھا۔ پہلے وہ کچن میں آ جاتا تھا اور اب میرے کمرے کی کھڑکی پھلانگ کر اندر آ جاتا۔ ہم دونوں باتیں کرتے، اور وہ میرے حسن کی تعریف کرتا رہتا۔ میں سنتی رہتی اور مجھے اچھا محسوس ہوتا۔ مگر وہ ہمیشہ نقاب پہنتا رہا۔ میں نے کئی بار کہا کہ نقاب ہٹا کر مجھے اپنا چہرہ دکھاؤ، لیکن وہ کہتا: "وقت آنے پر دکھاؤں گا۔"

اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں — آنکھوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک خوشرو نوجوان ہے۔ آنکھوں سے بھی زیادہ اس کی باتیں دل کو چھو لینے والی تھیں؛ وہ بظاہر ایک گرفتارِ غازی سا معلوم ہوتا تھا۔ میں اس کی محبت بھری باتوں کی عادی ہو گئی تھی۔ وہ سارا دن فون کر کے بھی محبت بھری باتیں کرتا۔ میری زندگی میں جب کسی چیز کی کمی تھی وہ مجھے وہی چیز دے رہا تھا۔ لیکن ایک نامحرم سے یہ محرمیت حد سے زیادہ تھی۔ جو میرا محرم تھا، وہ تو حد درجہ احتیاط سے بات کرتا — کبھی بھی کوئی فحش حرکت نہیں کی۔

کافی عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ولید کی غیر موجودگی میں وہ آ جاتا، ہم باتیں کرتے۔ کبھی اس نے کوئی غلط حرکت نہیں کی۔ مگر میری عقل پر شیطان نے پردہ ڈال دیا تھا؛ مجھے یہ خوف تک نہ تھا کہ کوئی اجنبی شخص میرے کمرے تک آ سکتا ہے اور پھر کچھ غلط بھی کر سکتا ہے۔ کسی اجنبی پر اعتبار کرنا کتنا خطرناک تھا! میرا شوہر تو صرف آنکھوں سے اندھا تھا، مگر میرا دل بھی اندھا ہو چکا تھا — میری روح سب کچھ اندھی ہو چکی تھی۔ میں خود کو بتا بھی نہیں پا رہی تھی کہ میں کتنا غلط کر رہی ہوں۔

ایک رات ہم باتیں کر رہے تھے کہ ولید کی کال آئی کہ وہ پہنچنے والا ہے۔ میں حیران ہوئی کہ وہ اچانک کیسے آگیا۔ میں نے اس سے کہا کہ کہیں چھپ جاؤ کیونکہ ولید کی گاڑی کی آواز سنائی دی اور وہ اندر داخل ہو چکا تھا۔ اس نے کہا: "مجھے چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟ تمہارا شوہر تو دیکھ ہی نہیں سکتا۔" یہ سن کر مجھے بھی ہنسی آگئی۔ میں نے کہا: "واقعی، جب وہ دیکھ ہی نہیں سکتا تو کیا ضرورت ہے؟" پھر اس نے کہا کہ وہ جا رہا ہے اور وہ چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد ولید اندر آئے۔ میں نے کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے سلام کیا، میں نے جواب دیا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔ میں نے لائٹ بند کی اور مطمئن ہو کر آنکھیں بند کیں، سونے کی کوشش کرنے لگی۔ مجھے محسوس ہوا کہ ولید سوئے نہیں تھے؛ وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر اچانک بولے: "ناذنین، تمہیں معلوم ہے میرے والد بھی اندھے تھے اور میری ماں بے حد حسین تھیں۔"

ولید بولتے گئے: "خاندان والوں کے دباؤ میں آ کر میری ماں نے میرے والد سے شادی تو کر لی، لیکن اُن کے اندر ایک دوسرا رشتہ تھا — وہ کسی اور آدمی کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں۔ جب میں پیدا ہوا تو ماں نے اپنا دل مجھ سے لگا لیا تھا، مگر پھر ان کا دل مجھ سے اٹھ گیا، انہوں نے اپنا دل کہیں اور لگا لیا۔ میرے والد کی غیر موجودگی میں روزانہ ہی کوئی غیر شخص ہمارے گھر آتا اور میری ماں اس سے باتیں کرتی رہتی تھیں، اور میں سنتا تھا مگر کچھ کہتا نہیں تھا۔"

جب ولید نے یہ الفاظ ادا کیے تو میری جان نکل گئی۔

یہ تو میری ہی کہانی تھی جو مجھے سنائی جا رہی تھی۔ یعنی میری ساس کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا، اور میری ساس نے وہی ظلم میرے ساتھ دہرایا۔ نہ جانے کیوں مجھے احساس ہوا کہ میری ساس نے اپنی محرومی کا بدلہ مجھ سے لیا ہے۔

ولید پھر بولنا شروع ہوا تو میں ہمہ تن گوش ہو گئی، لیکن مجھے کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ میرا بچپن ختم ہو گیا، یہاں تک کہ میرا لڑکپن اور پھر جوانی آگئی۔ وہ شخص نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ پھر صرف میں اور میری ماں تھے، اور میری ماں نے دوسرا بچہ پیدا کرنے کی زحمت نہیں کی۔

میرے والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ساری زندگی میرے والد کو پتہ نہ چل سکا کہ ان کی غیر موجودگی میں کوئی شخص ان کے گھر آتا اور ان کی بیوی سے باتیں کرتا تھا۔ پھر میری ماں اتنی ڈھیٹ بن گئی کہ انہیں والد کی موجودگی اور غیر موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میرے والد کے سامنے بھی وہ شخص ہمارے گھر آتا اور میری ماں اسے دوسرے کمرے میں لے جاتی۔ ان کی باتوں کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی۔

اس عرصے میں مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ میری ماں کا کوئی کزن تھا جو ان سے بے حد محبت کرتا تھا۔ مجھے اپنے والد کا دکھ ہوتا، لیکن میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔ تم جانتی ہو، میں پیدائشی اندھا نہیں تھا۔ میں بچپن میں دیکھ سکتا تھا اور اپنی ماں کی حرکات و سکنات اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہتا تھا۔ آہستہ آہستہ میری بینائی ختم ہونے لگی کیونکہ یہ اندھا پن مجھے میرے باپ کی طرف سے وراثت میں ملا تھا۔ جب میں لڑکپن کو پہنچا تو بالکل اندھا ہو چکا تھا۔

مجھے خوشی تھی کہ اب میں دیکھ نہیں سکتا تھا کہ میری ماں کیا کرتی ہے۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ مجھے دوسروں کی خاطر اپنی زندگی برباد نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے میں نے اپنا علاج شروع کیا۔ ناظرین، شادی کی رات جب میں نے تمہیں دیکھا تو تمہارے حسن کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

یہ کہتے کہتے ولید خاموش ہو گئے اور ان کی بات سن کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ وہ تو اندھے تھے، پھر انہوں نے میرا حسن کیسے دیکھ لیا؟ میں ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور اندھیرے میں ان کے وجود کو دیکھنے لگی جو سائے کی طرح نظر آ رہا تھا۔

"آپ نے مجھے کیسے محسوس کیا؟ آپ تو دیکھ نہیں سکتے!" میری آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ یہ کیا کہہ رہے تھے؟ کیا وہ دیکھ سکتے تھے؟ یا پھر وہ میرے ساتھ کوئی مذاق کر رہے تھے؟

ولید بولے: "میں نے لڑکپن کے بعد اپنی آنکھوں کا علاج شروع کیا تھا۔ میرے ساتھ زیادہ مسئلہ نہیں تھا، تھوڑے سے علاج اور آپریشن کے ذریعے میری بینائی واپس آ گئی، اور میں سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔ اسی وقت میری ماں نے میری شادی کا فیصلہ کیا۔ میں نے خاموشی سے ان کا فیصلہ قبول کر لیا۔ تمہاری تصویر مجھے میری ماں نے دکھائی کیونکہ وہ مجھے اب تک اندھا سمجھتی تھی۔ میں نے ان سے کچھ کہا بھی نہیں، میرا دل تو ان سے اٹھ چکا تھا۔"

"جب ہماری شادی ہوئی تو میں دیکھ سکتا تھا۔ میں نے تمہیں دیکھا تھا لیکن میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم کس طرح کی بیوی ثابت ہوتی ہو — بے وفا ہو کر میرے اندھے پن کا مذاق اڑاؤ گی یا میرا سہارا بنو گی۔ لیکن تمہارا رویہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے تمہیں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تمہارے سامنے اندھے پن کا ناٹک میں نے صرف ایک ہی مہینہ کیا اور اسی ایک مہینے میں تم نے مجھے چھوڑ کر اپنا کاشف بھی بنا لیا۔"

ولید کی بات سن کر میرے تو سر پر آسمان گر پڑا۔ میرے قدموں تلے زمین نکل گئی۔

ناظرین، وہ نقاب پوش کوئی اور نہیں، میں ہی تھا۔ ان کی بات سن کر مجھ پر غشی طاری ہونے لگی۔ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں اپنی قسمت پر کیسے ماتم کروں؟

"آپ نے یہ سب میرے ساتھ کیوں کیا؟" میں نے ہمت کر کے ولید سے سوال کیا۔

ولید اٹھے، کمرے کی لائٹ آن کی، دراز سے نقاب نکالا اور اپنے چہرے پر پہن لیا۔ میں نے دیکھا، یہ وہی شخص تھا جو مجھ سے ملنے آتا تھا۔ میں اپنے شوہر سے اس قدر نفرت میں مبتلا ہو گئی تھی کہ کبھی غور نہیں کیا کہ نقاب کے پیچھے جو آنکھیں تھیں وہ میرے شوہر کی ہی آنکھیں تھیں۔

"ناظرین، اگر میں شادی کے بعد کسی حادثے میں اندھا ہو جاتا تو کیا تم کسی اور سے روابط استوار کر لیتیں؟" ولید کے سوال نے مجھے شرمندہ کر دیا۔ میرے پاس بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ میرا دل چاہتا تھا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔

مجھے اس نقاب پوش سے محبت ہو گئی تھی، اور پھر وہ میرا شوہر ہی نکلا۔ اب میں کہاں جاتی؟

ولید نے کہا: "میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ میں حالات کا مارا ہوا انسان تھا جس نے اپنی ماں کی بے وفائی دیکھی تھی اور اسی کی سزا ایک معصوم لڑکی کو دینا چاہ رہا تھا، اسے آزما کر۔ لیکن آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے غلط کیا۔ میں تمہیں معاف کرتا ہوں کیونکہ میں تمہارے کردار کو جان گیا ہوں۔ تم نے غیر مرد سے صرف باتیں کیں، اپنی حدود کا خیال رکھا۔ تمہارے احساسات و جذبات میں پاکیزگی ہے، میں نے تنہائی میں دیکھ لی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا کہ تمہیں صرف محبت بھری باتوں کی ضرورت تھی۔ تمہارے اندر کوئی برائی نہیں تھی، صرف ایک احساسِ کمتری تھا اور بس۔"

مزید پڑھیں

"ناظرین، میں تمہیں کیا خاک معاف کروں گا؟ بلکہ میں تو اس قابل ہی نہیں کہ تمہیں معاف کر سکوں۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ میں تم سے معافی مانگوں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔ غلط تم نے نہیں بلکہ میں نے کیا۔ میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا، تمہیں آزمائش میں ڈال کر اور کسی اور کی سزا تمہیں دے کر۔"

یہ سن کر میں روتے ہوئے ان سے معافی مانگنے لگی۔ میں نے انہیں معاف کر دیا، اور وہ بھی مجھے معاف کر بیٹھے۔ ہم انسان خطا کے پتلے ہیں، غلطی سے پاک صرف خدا کی ذات ہے۔

مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ولید اندھے نہیں تھے، اندھی تو میں تھی۔ آج خدا نے ولید کے ساتھ مجھے بھی بینائی عطا کر دی تھی۔ میں اس کی شکر گزار تھی۔ اس رات ہم دونوں نے مل کر خوشگوار ازدواجی زندگی کی بنیاد رکھی اور ہم بہت خوش تھے۔

سچ کہتے ہیں، خدا کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں۔

(ختم شد)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے