درد کی ڈائری – ایک بیوی کی آخری خواہش
تحریر: فرزانہ خان
آج پہلی رات تھی۔ بستر پر پھول سجائے گئے تھے۔
نبیلہ اور کامران کی شادی ہوئی تھی۔
شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی تھی۔
نبیلہ بیڈ پر بیٹھی تھی، کیمرا مین تصاویر بنا رہا تھا۔ وہ کبھی دائیں سر کرتی کبھی بائیں طرف۔
سب لوگ نئے تھے، ہر چہرہ اجنبی تھا۔
کامران پاس بیٹھا تھا۔
محلے کے سب لوگ دلہن دیکھنے آئے ہوئے تھے۔
نبیلہ نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔
رات کے بارہ بج چکے تھے، وہ بہت تھک چکی تھی۔
بھوک سے برا حال تھا۔
سب چلے گئے۔
دروازہ بند ہوا تو کامران نبیلہ کے پاس بیٹھا۔
"آپ ایسا کریں چینج کر لیں، تھک گئی ہوں گی۔"
نبیلہ نے ڈریس چینج کیا۔
بھوک سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی،
لیکن کیا کر سکتی تھی؟ کامران کو اس کی تھکن سے کیا لینا دینا؟
وہ محبت بھری باتیں کہاں کرنا چاہتا تھا۔
نبیلہ پر اپنی مردانگی کا رعب ڈالتے ہوئے بولا:
"دیکھو مجھے تماشے اچھے نہیں لگتے۔
میری باتیں کان کھول کر سن لو، میں بار بار یہ باتیں نہیں دہراوں گا۔
گھر کے سارے کام تمہارے ذمے ہیں، کھانا بنانے سے لے کر جھاڑو صفائی تک۔
سن رہی ہو نا؟"
نبیلہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
وہ سوچ رہی تھی کوئی گفٹ دے گا، کوئی محبت بھری بات کرے گا،
لیکن کامران کو تو بس نبیلہ سے کام کروانے کی فکر تھی۔
شادی کے دن گزر گئے۔
ہاتھ میں جھاڑو، مقدر میں کچن لکھ دیا گیا۔
نبیلہ کی جھٹانی ان کی رشتہ دار تھی، لیکن یہ غیروں میں بیاہ دی گئی تھی۔
نبیلہ کھانا بنانا، صفائی کرنا، کپڑے، برتن، سب کام کرتی۔
جب تھک کر ٹوٹ جاتی تو رات کو شوہر کے نخرے اٹھانے پڑتے۔
کامران بہت روکھے لہجے میں بات کرتا تھا۔
رات ڈنر ہوا۔
اپنے کمرے میں چلے گئے۔
نبیلہ کامران کے پاس بیٹھ گئی۔
"کامران! شادی کو تین مہینے گزر گئے ہیں، آپ مجھے کہیں گھمانے نہیں لے گئے۔"
کامران حیرت سے نبیلہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"گھمانے؟ مطلب کہاں جانا ہے تم نے؟"
اس نے اتنے روکھے لہجے میں پوچھا کہ نبیلہ سہم گئی۔
"کامران! آپ کیوں اتنے غصے سے بات کرتے ہیں مجھ سے؟"
کامران ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا:
"نبیلہ! جاو میرے کپڑے استری کرو، دماغ نہ خراب کرو میرا۔
سارا دن کا تھکا ہوا ہوں میں۔"
نبیلہ پیروں کی طرف بیٹھ گئی۔
"اچھا چلیں آپ لیٹ جائیں، میں آپ کو دبا دیتی ہوں۔"
کامران لیٹ گیا۔ نبیلہ کامران کو دبانے لگی۔
کامران سو گیا۔
وہ کامران کے پیروں کو اپنی گود میں رکھ کر سوچ رہی تھی:
"کامران! میں نے شادی سے پہلے بہت دکھ دیکھے ہیں، مجھے محبت چاہیے،
آپ کا ساتھ چاہیے۔
آپ کیوں میری آنکھوں سے میرا درد نہیں سمجھ پاتے؟"
اصل میں نبیلہ کی ماں نہیں تھی۔ سوتیلی ماں کے ساتھ پلی تھی اور سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہوتا ہے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
نبیلہ نے بہت دکھ سہے تھے۔
یہاں ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ نبیلہ بیس سال کی تھی اور کامران چھتیس سال کا۔
یوں لگتا تھا جیسے نبیلہ سے جان چھڑانی تھی ان لوگوں نے۔
وہ قدموں کے ساتھ لپٹی اپنے ہمسفر سے احساس کی بھیک مانگ رہی تھی۔
صبح وہ فجر سے پہلے جاگ جاتی۔
ناشتہ بنانا، سب کے لیے تیاری کرنا اس کی ذمہ داری تھی۔
وہ اپنا درد کسی پر ظاہر نہ ہونے دیتی۔
وہ بس اپنے گھر میں آباد ہونا چاہتی تھی، کامران کا ساتھ چاہیے تھا اسے۔
اکثر کبھی تھکن سے برتن نہ دھو پاتی یا جھاڑو وقت پر نہ لگا پاتی تو ساس اسے لاکھوں باتیں سناتی۔
وہ اپنے لب سی کر ہر طعنہ برداشت کر جاتی۔
"کامران! مجھے ہر مہینے پانچ ہزار دے دیا کریں نا۔"
کامران نے زہر آلود نگاہوں سے دیکھا۔
"خیر ہے نا؟ پانچ ہزار کیوں چاہیے تم کو؟"
نبیلہ نے پیار سے کہا:
"کامران! میں عورت ہوں نا، میری ضروریات ہوتی ہیں۔
پیسے پاس ہوں تو کبھی بازار جاوں تو اپنے لیے کچھ خرید لیا کروں۔
اب میں آپ کے بھائی سے تو یہ باتیں کہہ نہیں سکتی۔"
کامران کو نہ جانے کیوں ایک چڑ سی تھی نبیلہ سے۔
اس نے غصے میں کہا:
"نبیلہ! دیکھو میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ تمہیں الگ سے دے سکوں۔
جو چاہیے ہو امی سے کہہ دیا کرنا، وہ لا دیا کریں گی۔
الگ سے خرچہ چاہیے اسے!"
نبیلہ کامران کے پاس بیٹھ گئی۔
"کامران! آپ نہ دیں مجھے کچھ، میں آپ کے ساتھ خوش ہوں۔
بس آپ مجھ سے پیار سے بات کیا کریں۔
مجھے پیار سے آواز دیا کریں، میرا نام پیار سے پکارا کریں۔
قسم خدا کی میں سب کچھ بھول جایا کروں گی، دن بھر کی تھکن اور پرانے درد۔
بس آپ مجھے محبت سے پکارا کریں۔"
کامران نے وقتی طور پر مسکرا کر کہا:
"تو پیار سے ہی تو رہتا ہوں تمہارے ساتھ۔"
نبیلہ ناز اٹھانے والے لہجے میں بولی:
"کامران! آپ نہیں کرتے پیار سے بات مجھ سے، آپ بس غصہ ہی دکھاتے ہیں۔
کامران! یہ دیکھیں میری برتھ ڈے تھی، میں نے آپ کا نام اپنے ہاتھ پر مہندی سے لکھا ہے۔"
کامران جیسے بیزار سا ہو رہا تھا۔
نبیلہ پیار سے باتیں کر رہی تھی لیکن کامران دل میں کہہ رہا تھا:
"کیا پاگل پلے پڑ گئی ہے میرے، اس کو کیا کہوں میں؟"
نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ بے رخی کرتا تھا۔
انہوں نے نیا گھر بنانا تھا، گاوں کے لوگ تھے۔
کامران نے نبیلہ سے کہا:
"نبیلہ! آج رات اینٹیں آ جائیں گی، تم ہماری مدد کرنا، اینٹیں گھر میں پھینکنی ہیں۔"
نبیلہ نے دن بھر گھر کے کام کیے، پھر رات کو اینٹیں اٹھا اٹھا کر گھر میں پھینکتی رہی۔
رات کے تین بج گئے۔
کام ختم ہوا۔
اس کا جسم درد اور تھکن سے بے جان ہو رہا تھا۔
کامران لیٹ گیا۔
نبیلہ پاس گئی:
"کامران! پلیز میرا سر دبا دیں نا، مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔"
کامران نے کروٹ بدلی:
"یار! جاو پیناڈول کھا لو، مجھ سے دبایا نہیں جاتا۔"
وہ بستر پر لیٹ گئی۔
نہ جانے کیوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ رو رہی تھی، اسے بہت درد ہو رہا تھا۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر سانس روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کامران پاس سو رہا تھا۔
وہ درد سے سو نہ سکی۔
فجر کی اذان ہوئی تو آنکھ لگی۔
ابھی سوئی ہی تھی کہ ساس گالیاں دے رہی تھی:
"میڈم سوئی ہوئی ہے، شرم ہی نہیں ہے، ٹائم دیکھو!"
کامران بھی برہم ہوا۔
"نبیلہ! شرم ہے تم کو؟ ٹائم دیکھو! امی خود ناشتہ بنا رہی ہیں اور تمہاری آنکھ نہیں کھلتی!"
نبیلہ کیا کہتی؟
اب کامران کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا نبیلہ مر رہی ہے یا درد میں۔
وہ خاموش ہوئی اور کچن میں چلی گئی۔
سارا کام کیا، حال کافی خراب تھا۔
کسی سے کچھ نہ کہا۔
شادی کو تین سال گزر گئے لیکن اولاد نہیں تھی۔
ان تین سالوں میں ایک سانس بھی سکون کی نہ لی تھی اس نے۔
نئے گھر کا کام شروع کیا۔
وہ مزدوروں کی طرح کام کرنے لگی۔
دن بھر سب کے لیے کھانا بناتی،
پھر کبھی اینٹیں اٹھا کر دیتی تو کبھی مٹی۔
چار مہینے اس نے مزدوری کی۔
گھر تیار ہوا۔
کامران کے ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ کامران سے دور تھی۔
کامران اس سے دور رہنے لگا۔
دن کی دوری سے راتوں کی دوری بھی بڑھ گئی۔
اب اولاد نہ ہونے کے طعنے سننے پڑتے۔
ایک ڈر سا اسے ستانے لگا۔
کامران تو پہلے ہی دکھ دیتا تھا، اب طعنے الگ۔
ان دنوں کہیں چھپ کر کامران کی دوسری شادی کی باتیں ہونے لگیں۔
وہ سب کے رویے سمجھ رہی تھی۔
کچھ تو غلط ہو رہا تھا۔
نبیلہ ایک نوکرانی سے بڑھ کر کچھ نہ تھی۔
وہ لب سیے بیٹھی تھی۔
اسے خوف تھا کہیں کامران مجھے چھوڑ نہ دے۔
لیکن جھٹانی کی بیٹی نے بتایا:
"آنٹی نبیلہ! ماما کہہ رہی تھیں کہ کامران چاچو کی شادی کرنی ہے، نئی آنٹی لانی ہے۔"
نبیلہ سمجھ چکی تھی کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
لیکن وہ خاموش رہی۔
کامران کمرے میں بیٹھا چہرے پر کریم لگا رہا تھا۔
نبیلہ پاس گئی:
"آج کل بہت کریم لگا رہے ہیں، بڑے سوہنے لگ رہے ہیں آپ۔"
نبیلہ کامران کے کندھے پر سر رکھ کر بولی:
"کامران! آپ خوش رہیں ہمیشہ۔
میں نماز پڑھ کر آپ کے لیے بہت دعائیں مانگتی ہوں۔"
"آپ کی زندگی کی دعا مانگتی ہوں،
آپ کے ساتھ ہی تو میرا سب کچھ ہے۔"
جیسے وہ ایک درد دل میں چھپا کر خود کو سمجھا رہی ہو کہ "کامران مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔"
اور پھر وہ دن آ ہی گیا۔
لڑکی والے کامران کے گھر آئے۔
ساس نے سختی سے کہا:
"کھانا بناو اور اپنے کمرے میں چلی جاو، سامنے نہ آنا منحوس!"
وہ یہ سب بے رخی سمجھ رہی تھی۔
شادی کے بعد ایک بات سیکھ لی تھی —
درد کو چھپانا، خاموشی سے رونا، اور گلے شکوے نہ کرنا۔
پیچھے پلٹ کر دیکھتی تو سوتیلی ماں تھی، جو کبھی واپس قبول نہ کرتی۔
سامنے کامران کی دوسری شادی تھی، جو کسی بھی وقت اسے دھکے دے کر نکال سکتا تھا۔
کامران کا رشتہ طے ہوا۔
کچھ دنوں میں ہی وہ دوسری بیوی کو بیاہ کر لے آیا۔
جس کمرے میں وہ کامران کے ساتھ رہتی تھی، آج اس کمرے میں کامران کی بانہوں میں کوئی اور تھی۔
نبیلہ کو الگ سے ایک کمرہ دے دیا گیا۔
وہ حسرت بھری نگاہوں سے سب دیکھتی رہتی۔
کامران اپنی نئی دلہن کو مری گھمانے لے گیا۔
وہ بہت خوش تھا،
لیکن ایک دیمک تھی جو نبیلہ کو اندر ہی اندر کھا رہی تھی۔
گھر کے دن بھر کے کام،
رات کی تنہائیاں،
بے پناہ درد،
اور سب کی لاپرواہی —
یہ سب اسے موت کے قریب لے جا رہے تھے۔
نئی دلہن کو سب پیار کرتے،
لیکن نبیلہ ایک کونے میں پڑی جیسے بس زندگی کے آخری دن گن رہی تھی۔
پھر ایک رات وہ کمرے میں سوئی تھی۔
آج درد برداشت نہ ہو رہا تھا۔
سر کا درد شدید تھا۔
اس نے دونوں ہاتھ سر پر رکھے اور چیخنے لگی۔
سب اپنے کمروں میں سو چکے تھے۔
وہ کامران کو آوازیں دیتی رہی،
لیکن کامران دوسری بیوی کی بانہوں میں سو رہا تھا۔
نبیلہ زمین پر گر گئی، تڑپنے لگی۔
نہ جانے کتنی آوازیں دی تھیں اس نے۔
اور آخرکار وہ سکون کی نیند سو گئی۔
دنیا چھوڑ گئی۔
صبح ساس گالیاں دے رہی تھی:
"کمینی آج بھی نہیں اٹھی ناشتہ بنانے کے لیے!"
کامران نے آواز دی:
"امی نبیلہ کو بولو ہمارا ناشتہ کمرے میں بھیج دے۔"
ساس بولی:
"وہ منحوس سو رہی ہے ابھی تک!"
"سونے دو آج اسے، کوئی نہ جائے اس کے کمرے میں!"
دوپہر کا وقت ہو گیا۔
سب اپنے کاموں میں مصروف تھے،
لیکن نبیلہ کمرے سے باہر نہ آئی۔
آخرکار ساس کمرے میں گئی۔
دیکھا تو نبیلہ اوندھے منہ زمین پر پڑی تھی۔
ساس نے شور مچا دیا۔
سب اکٹھے ہو گئے۔
نبیلہ اکڑ چکی تھی۔
اس کی لاش کو چارپائی پر ڈالا گیا۔
آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے۔
سب حیران تھے کہ اچانک کیسے مر گئی۔
اسے دفنا دیا گیا، جنازہ ہوا۔
کوئی آنکھ نہ روئی۔
ایک دن کمرے کی صفائی کرتے ہوئے کامران کی دوسری بیوی کو کچھ رپورٹیں اور دوائیاں ملیں۔
وہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔
نبیلہ کو برین ٹیومر تھا۔
نہ جانے کب سے وہ یہ درد سہہ رہی تھی۔
ایک ڈائری بھی ملی،
جس میں نبیلہ نے اپنے دکھ لکھ رکھے تھے۔
ڈائری کے چند جملے یہ تھے:
"کامران مجھ سے روٹھا رہتا ہے، میری طرف دیکھتا بھی نہیں۔
آج میں نے سارا دن مزدوری کی، کامران نے مجھے ٹھنڈا پانی پلایا، میں بہت خوش ہوں۔
کامران کہتا ہے میں بہت اچھی ہوں،
پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھ سے دور رہتا ہے۔
آج میں اس کے لیے تیار ہوئی تھی، خود کو سنوارا تھا،
لیکن پاگل نے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا۔
پھر میں ناراض بھی نہیں ہوئی۔
وہ بہت ڈانٹتا ہے، کچھ کہوں تو۔
مجھے جان لیوا بیماری ہے،
لیکن میں کامران کو نہیں بتاؤں گی،
وہ پریشان ہو جائیں گے۔
ہمارا گھر بن کر تیار ہو گیا۔
میں نے اپنا کمرہ بہت سجایا۔
کامران کی شادی کر رہے ہیں۔
مجھے گھر سے نکالا تو کہاں جاؤں گی میں؟
میرا تو کوئی ہے بھی نہیں۔
بس نوکرانی بن کر مرنے تک یہی رہوں گی۔
کامران اپنی دلہن سے بہت پیار کرتا ہے،
اسے برگر لا کر دیا۔
میں نے کہا مجھے بھی لا دو،
کہتا ہے تم برتن دھو جا کر، دماغ نہ خراب کرو میرا۔
بھلا میں نے برگر ہی تو مانگا تھا۔
آج صبح سے سانس رک رہی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے میرا وقت قریب آ گیا۔
کاش کامران کی بانہوں میں مر سکتی۔
کاش کامران میرا درد سمجھتا۔
مجھے سینے سے لگاتا، میں سکون سے مر جاتی۔
کامران! آپ کبھی میری یہ ڈائری پڑھیں،
تو خود کو میری موت کا ذمہ دار نہ ٹھہرانا۔
میں بہت پیار کرتی ہوں آپ سے۔
بس نصیب سے ہار گئی ہوں۔
شاید میری قسمت میں خوشیاں نہیں لکھی تھیں۔
اور ہاں پاگل! ایک برگر ہی تو تھا،
کنجوس! تم مجھے لا دیتے تو کیا ہو جاتا؟
ڈانٹنے کی کیا ضرورت تھی؟
اپنی دوسری بیوی کا خیال رکھنا۔
جب آپ کے ہاں اولاد ہو،
تو میری قبر پر ضرور آنا ایک بار۔
تمہاری نبیلہ۔
مجھے بہت درد ہو رہا ہے،
اب لکھا بھی نہیں جا رہا کامران۔
دل چاہ رہا ہے آپ کے پاس آ جاؤں، لیکن..."
اس کے بعد سب کچھ ادھورا رہ گیا۔
نبیلہ خاموشی سے مر گئی۔
کامران ڈائری پڑھ کر بہت رویا،
لیکن اب رونے کا کیا فائدہ؟
وہ بیچاری نہ جانے کتنا روئی تھی۔
کامران اس کی قبر پر قدموں کی طرف بیٹھ کر معافی مانگنے لگا،
لیکن اب معافی مانگتا یا کچھ بھی کرتا،
وہ کہاں لوٹ کر آنے والی تھی۔
ایسی نہ جانے کتنی نبیلہ آج بھی ہیں،
جو اپنے ہمسفر کی بے رخی پر جی رہی ہیں۔
جو درد سہتی ہیں، شکوہ نہیں کرتیں۔ 💔
ارے بے قدرو!
اپنی ہمسفر کو محبت سے دیکھ ہی لیا کرو۔
خدا کی قسم وہ ہر درد، ہر دکھ بھول جاتی ہے۔
اس سے پہلے کہ کوئی نبیلہ دنیا سے چلی جائے،
اور جب تک آپ کو سمجھ آئے دیر ہو چکی ہو،
یاد رکھنا —
قیامت کے دن محشر میں پوچھا جائے گا۔
یہ پڑھنے کے بعد اگر آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے ہیں،
تو کمنٹ میں ضرور بتائیں۔
0 تبصرے