میری یہ میری زندگی کی حقیقی کہانی ہے۔ میں شہر میں رہنے والی تھی اور میری شادی گاؤں میں ہوئی۔ میں بہت خوش تھی کیونکہ میرا شوہر مجھے بے پناہ چاہتا تھا۔ ایک روز جب میں کپڑے سلائی کر رہی تھی تو گاؤں کی ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی، “کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟” میری اصرار پر اس نے بات بتائی۔ میرے تو خوشی کے پر پھڑپھڑا گئے تھے مگر جو بات اس نے بتائی، اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے اور میں اسے اس خاتون کی زندگی کی زبان سے سنا رہی ہوں۔ کہانی شروع کرتے ہیں۔ بیس سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی۔ میرا شوہر میرا خیال رکھتا تھا اور مجھ سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ وہ گاؤں کے رہنے والے تھے جبکہ میں شہر کی پرورش پائی ہوئی لڑکی تھی۔ اس کے باوجود وہ میری قدر کرتا تھا — میں پڑھی لکھی اور شہری ہونے کے باوجود اس کے ساتھ گاؤں کا طرزِ زندگی اختیار کر رہی تھی۔
ان دنوں ہمارے گاؤں میں نہ بجلی تھی اور نہ صاف پانی۔ ٹی وی اور پنکھے تو دور کی بات ہیں؛ ٹھنڈا پانی پینے کو بھی میسر نہیں تھا۔ شادی سے پہلے میں اپنے ماموں کے گھر شہر میں رہتی تھی جہاں ہر سہولت تھی۔ وہاں سے آنا میرے لیے ایک بڑا فرق تھا۔ میرے شوہر نے آٹھویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا اور وہ گاؤں کے اسکول گئے تھے۔ اس لحاظ سے خاندان کے مطابق میں اپنے شوہر سے زیادہ تعلیم یافتہ تھی، مگر اصل بات تو پیار اور محبت کی ہوتی ہے۔ اگر انسان کو سچی محبت مل جائے تو وہ دیہات میں بھی خوش رہ سکتا ہے اور ویرانے میں بھی اپنی جنت آباد کر سکتا ہے۔ میں نے بھی اپنے شوہر کی محبت کی بدولت اس ویرانے میں اپنی جنت آباد کر رکھی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ شوہر کے ہوتے مجھے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری زمین تھوڑی سی تھی مگر ہم محنت سے کام کرتے تھے۔ اگر فصل اچھی ہو جاتی تو سال بھر کا گزارہ ہو جاتا۔ شہر جیسی سہولتیں تو نہیں تھیں، خاص طور پر جب کوئی بیمار ہوتا تو پریشانی بڑھ جاتی۔ بعض اوقات تو مریض شہر کے اسپتال پہنچنے سے پہلے راستے میں دم توڑ دیتا تھا۔ اس کے باوجود میں دیہات میں خوش تھی — یہاں سکون تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ مجھے اپنے شوہر کی محبت حاصل تھی۔ زندگی میں سکون کے سوا میں نے کبھی کسی چیز کی خواہش نہیں کی۔
میرے شوہر میرا بہت خیال رکھتے تھے، چاہے وہ ٹریکٹر چلا رہے ہوں یا دودھ کے کام میں مصروف ہوں — ان کا دھیان ہمیشہ میری طرف رہتا تھا۔ وہ خوش اخلاق اور مزاحیہ انسان تھے۔ گھر آ کر لطیفے سناتے اور مجھے ہنساتے رہتے۔ ایک دن جب وہ ٹریکٹر لے کر کھیتوں میں گئے اور کام ختم کر کے اپنے ڈیرے پر بیٹھ گئے، میں کسی کام سے باہر نکلی تو دیکھا کہ دو عورتیں ہماری زمین سے مٹی اٹھا رہی تھیں۔ جب میں ان کے قریب گئی تو ایک نے دوسری سے کہا، “دیکھو یہ زمین والی ہے، یہیں سے مٹی لے لو۔” دوسری عورت نے اکڑ کر میری طرف دیکھا اور کہا، “میں تو یہی مٹی لے جاوں گی۔” اس نے پھر ٹوکری اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔
اس کی بات سن کر میرے کان لال ہو گئے۔ مٹی لینے سے میں نے انکار کیوں کرنا تھا؟ مگر جب اس نے اکڑ کر بات کی تو مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے غصے میں پکار کر کہا، “یہاں سے ایک ذرا بھی مٹی نہیں لے جا سکتی — ٹوکری واپس کرو!” اس پر وہ بولی، “نہیں، میں الٹوں گی نہیں، دیکھتی ہوں تو کیا کرتی ہو!” یوں ہم دونوں میں تلخ کلامی شروع ہوگئی۔ دوسری عورت بیچ بچاؤ کر رہی تھی کہ، “بی بی، ہم تو نور بنانے کے لیے مٹی لے رہے ہیں، آخر بات کو بڑا کیوں کر دیتی ہو؟ ایک ٹوکری مٹی سے کیا ہوتا ہے؟” مگر میری ناراضگی بڑھ گئی۔
میرے شوہر اسی وقت قریب آ گئے۔ مجھے وہ عورت سے جھگڑتے دیکھ کر وہ بھی آگئے اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ میں نے شکایت انداز میں پوری بات بتائی۔ جمشید (میرے شوہر) بولے، “میں گھر کے اندر تھا، میں خود اس سے نمٹ لوں گا — اس نے تمہاری اجازت کے بغیر مٹی اٹھائی ہے۔” ان کی بات سن کر مجھے خوشی ہوئی اور میں نے دوبارہ اس عورت کو برا بھلا کہا اور گھر اندر آ کر چلی گئی۔ میرا موڈ بُرا ہو گیا تھا؛ سوچا تھا کہ جمشید ضرور اس مغرور عورت کو سمجھا دیں گے مگر دل کو قرار نہ آیا۔
میں دروازے سے جھانکتی رہی اور دیکھتی رہی۔ حیرت انگیز طور پر وہ عورتیں میرے شوہر سے باتیں کر رہی تھیں اور وہ خود مٹی بھری ٹوکریاں ان کے سروں پر رکھ رہے تھے۔ یہ منظر میرے لیے دوزخ کا نظارہ تھا۔ میرے دل میں آگ لگ گئی۔ سوچنے لگی کہ جو میں نے سوچا وہ غلط ثابت ہوا — وہ میرا ساتھ دینے کے بجائے ان کے ساتھ مل گیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے سارا کچھ بدل گیا۔ میں چُپ نہیں رہ سکی، غصہ جو پہلے کم آتا تھا، اس بار بے قابو ہو گیا۔ ایک لمحے کو میں نے شدید غصہ محسوس کیا کہ کاش میرے ہاتھ میں کوئی ہتھیار ہوتا۔
جب جمشید کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ شرمندہ سی نظر کے ساتھ میری طرف آئے۔ عورتیں بھی مسکرا کر خوش نظر آئیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ ان عورتوں کے رویے میں شانِ بے نیازی بھی تھی، جیسے کسی کامیابی کا غرور۔ وہ دن ایسے گزرے کہ جمشید گھر واپس نہیں آئے اور نہ دوپہر کا کھانا کھایا — وہ اپنے ڈیرے سے قریبی زمیندار کے ڈیرے پر چلے گئے۔ میں رات بھر غصے اور فکر میں جاگتی رہی، شاید وہ جلدی لوٹ آئیں تو میں انہیں منا کر سکوں، مگر وہ دیر تک نہ آئے۔ جب وہ آخرکار رات گئے گھر آئے تو بغیر کوئی وضاحت کیے سیدھے سو گئے۔ میں نے سوچا کہ شاید جھگڑے کے ڈر سے وہ ایسا کر رہے ہوں گے اور صبح مجھے منا لیں گے۔
اگلی صبح جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ ویسے ہی برتاؤ کر رہے تھے جیسے کل کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ مجھے ان کی محبت کی عادت تھی مگر آج مجھے یہ درد برداشت کرنا پڑا۔ میں نے کچھ دن ان سے ناراضگی ظاہر کی مگر انہوں نے مجھے منا نے کی کوشش نہیں کی۔ جب دل کی تکلیف بڑھ گئی تو میں خود ہی ان کو منانے لگی، مگر وہ لاپرواہ بنے رہے۔ اب میرے منانے پر بھی وہ ماننے کو تیار نہیں تھے، جیسے قصور میرا ہو نہ کہ ان کا۔
رفتہ رفتہ وہ دیر سے گھر آنا معمول بنا بیٹھے۔ اگر میں پیار سے روٹھتی یا شکوہ کرتی تو اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ باتیں مختصر اور بے رونق ہو گئیں۔ بچے ان کی گود میں بیٹھتے مگر انہیں توجہ نہیں ملتی تھی، بلکہ اکثر انہیں جھڑکتے تھے۔ ان کے بدلے ہوئے رویے نے مجھے پریشان کر دیا تھا — سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ میں اپنے اور بچوں کے کپڑے خود سلائی کرتی تھی۔ ایک روز، جیسا کہ روز کا معمول تھا، میں برآمدے میں بیٹھ کر کپڑے سی رہی تھی کہ دیہات کی ایک عورت پھر میرے پاس آئی۔ کچھ کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ بولی، “ارے، کیا تمہیں کچھ معلوم ہے؟” میں نے کہا، “کیا مطلب؟” وہ کہنے لگی، “تمہارے گھر والا کسی اور عورت سے تعلق رکھتا ہے، دونوں کھیتوں کے کنارے، نہر کے پاس ملتے ہیں۔”
یہ سن کر میرے ہاتھ سلائی کی مشین کے ہتھّے پر جم گئے اور میں اس عورت کے منہ کو گھورنے لگی۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہیں۔
جمشید کے بدلے ہوئے رویے کے باعث مجھے بھی اس عورت کی بات میں کہیں نہ کہیں صداقت محسوس ہونے لگی۔ میں نے اس عورت سے پوچھا، “کیا نام ہے اس عورت کا؟” وہ بولی، “سعدیہ۔ اس کی سہیلی سلمہ ہے۔” میں نے اگلا سوال کیا، “کیا وہ بھی ساتھ ہوتی ہے؟” عورت نے کہا، “ہاں، کبھی کبھار وہ بھی ساتھ آتی ہے۔”
یہ سن کر میں سکتے میں آ گئی۔ سمجھ گئی کہ یہ وہی عورت ہے جو ہماری زمین سے مٹی اٹھانے آئی تھی، جسے میں نے برا بھلا کہا تھا۔ کیا بات یہاں تک پہنچ گئی ہے؟ میں سوچنے لگی کہ جمشید مجھ سے سیدھے منہ بات کیوں نہیں کرتے۔
ساری رات انگاروں پر کٹی، آنکھوں سے آنسو رکتے نہ تھے۔ اگلے روز میں نے جمشید کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ نہر کے کنارے جنگل کی طرف گئی، جہاں ہر طرف درخت ہی درخت تھے۔ کچھ ہی لمحوں بعد میں نے دیکھا کہ ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کے پاس وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں دبے پاؤں چلتی ہوئی کشتی کی دوسری طرف جا بیٹھی اور ان کی باتیں سننے لگی۔
وہ ایک دوسرے میں ایسے مگن تھے کہ میرے آنے کا انہیں احساس تک نہ ہوا۔ جمشید سعدیہ سے کہہ رہے تھے:
“سعدیہ، میں کوئی راستہ نکال رہا ہوں۔ ہم دونوں جلد ہی شادی کر لیں گے۔”
یہ سن کر میرا بدن کانپنے لگا۔ میں مزید کچھ نہ سن سکی، بس گم صم وہیں بیٹھی رہ گئی۔ سعدیہ کہہ رہی تھی:
“تم میرے باپ کو دو چار بیگے زمین دے دو، دیکھنا وہ فوراً راضی ہو جائے گا۔ میں اب چلتی ہوں، بھائی گھر آ گیا تو ہوش میں آ جائے گا۔”
یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔ کچھ دیر بعد جمشید بھی کشتی سے اٹھ کر اپنے ڈیرے کی طرف چل دیے۔ تبھی ان کی نظر اچانک مجھ پر پڑی۔ میری زرد صورت دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ میں نے سب سن لیا ہے۔ وہ پلٹ کر میرے قریب آئے، جبکہ سعدیہ دوسری سمت نکل گئی۔ وہ بھی پلٹ پلٹ کر جمشید کو دیکھتی جا رہی تھی۔
جمشید نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور سہارا دیتے ہوئے گھر لے آئے۔ تمام راستے میں میری زبان بند رہی، جیسے میں بے جان لاش ہوں۔ گھر پہنچ کر صحن میں چارپائی پر بیٹھتے ہی میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
مزید پڑھیں |
“جمشید! تم مجھے کب سے دھوکہ دے رہے ہو؟”
انہوں نے مجھے پانی پلایا مگر میری کسی بات کا جواب نہ دیا۔ جب میں زور زور سے چلانے لگی تو وہ بولے:
“ہاں، میں اس سے ملتا ہوں، تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟”
میں نے غصے سے کہا:
“میں تمہاری بیوی ہوں، مجھے پوچھنے کا حق ہے۔ یہ بھی کہ تم کسی غیر عورت سے کیوں ملتے ہو؟”
مگر شرمندہ ہونے کے بجائے وہ کھل کر بولے:
“کیا مرد دوسری عورت کو نکاح میں نہیں لا سکتے؟ اگر وہ اسے پسند آ جائے؟”
میں نے لرزتی آواز میں پوچھا:
“کیا تم دوسری شادی کرنے جا رہے ہو؟”
وہ کہنے لگے:
“ہاں، کروں گا۔ اور مجھے حق ہے۔ رہنا ہے تو رہو، نہیں رہنا تو اپنے ماموں کے گھر چلی جاؤ!”
ان کی دو ٹوک بات نے میرے دل پر پہاڑ توڑ دیے۔ میں روتی رہی مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی اور دوسری چارپائی پر لیٹ کر سو گئے۔
اگلی صبح میرا ان سے پھر جھگڑا ہو گیا۔ میں نے کہا:
“آج جلدی گھر آ جانا، دوپہر کا کھانا یہیں کھانا۔”
وہ بولے:
“اگر آیا تو ٹھیک، ورنہ میرا انتظار نہ کرنا۔”
اور واقعی وہ گھر نہ آئے۔ پھر یہ معمول بن گیا۔ ہفتوں یہی ہوتا رہا۔ میں کچھ نہ کر سکی، بس روتی رہی۔ جانتی تھی کہ اگر جھگڑوں گی تو وہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ میں کیا کرتی؟ ہر دم روتی اور دیواروں سے باتیں کرتی۔
آخر کار ایک روز میں تنگ آ کر دونوں بچوں کو ساتھ لے کر میکے آ گئی۔ میرے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے ماموں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا تھا کیونکہ میری ماں کی دوسری شادی ہو گئی تھی۔
ایک ماہ گزر گیا مگر جمشید نے نہ کوئی خبر لی اور نہ مجھے لینے آئے۔ آخر کار ممانی کے سمجھانے پر مجبور ہو کر میں خود ہی واپس لوٹ آئی۔ ممانی نے کہا تھا:
“عورت چڑیا کی طرح ہوتی ہے، اگر اپنا گھونسلا چھوڑ دے تو چڑا دوسری لے آتا ہے۔ تم اپنا گھر چھوڑنے کی غلطی مت کرنا۔”
مگر جمشید تو جیسے اسی موقع کی تلاش میں تھے۔ جب میں نے گھر میں قدم رکھا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ وہی عورت، جسے میں نے زمین سے مٹی بھی نہیں لینے دی تھی، آج میرے گھر کی مالکن بنی بیٹھی ہے۔ جمشید گھر پر نہیں تھے، مگر ان کی نئی دلہن میرے سامنے کھڑی تھی اور طنز کے لہجے میں کہہ رہی تھی:
“آؤ آؤ، سفر سے آئی ہو، پانی تو پی لو!”
مزید پڑھیں |
آج اس بات کو دس برس بیت چکے ہیں۔ جمشید نے آج تک پلٹ کر خبر نہ لی۔ یہ وہی جمشید تھے جو ایک لمحہ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ جن کی محبت پا کر میں خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب عورت سمجھتی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ ان کی محبت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے، مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ عورت کی محبت اور قربانی مٹی سے بھی سستی سمجھی جاتی ہے۔
سچ ہے — مرد ذات کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کے دل کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کاش میرا باپ زندہ ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ آج نہ باپ ہے اور ماں بھی اپنے گھر کی ہو چکی ہے۔ ان کا شوہر انہیں میکے آنے نہیں دیتا۔
میں آج بھی اپنے ماموں اور ممانی کے گھر پڑی ہوں اور اپنے نصیبوں کو رو رہی ہوں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ تمام بہنوں اور بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔
(ختم شد)
0 تبصرے