گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 10

urdu font stories


وہ ایک نکھرا نکھرا سا دن تھا جب بانو کماری کی ماں کہ گھر پہ لگے دروازے پہ ہلکی دستک ہوئی۔ یہ ان دنوں کہ بات ہے جب بانو یعقوب مسیح کی بیوی کی صورت میں اس کہ گھر رہائش رکھے ہوئے تھی۔ جب سے خیر سے وہ “گھر والی” ہوئی تھی تب سے اس کہ گھر کہ کواڑ بند ہی رھتے تھے۔ آج بھی دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس کی ماں ثریا بیگم کھانستے کھانستے دروازے پہ نمودار ہوئی اور دروازہ وا کیا۔ سامنے کا منظر اس کہ لیے ناقابلِ یقین تھا۔ 

سامنے بانو کہ دل کی دھڑکن وہ انگریزی بابو کھڑا تھا۔ جسے بانو کی زندگی سے حتی الامکان دور کرنے کہ لیے ثریا بیگم نے ہر چال چلی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ انگریزی بابو فقط دل لگی کر رھا ہے، حقیقتاً بانو کو اپنانے کا اس کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں۔ وہ ایک روز پہلے بھی یہاں آیا تھا جب بانو چودھری کفایت اللہ کی شریکِ حیات بن چکی تھی۔ تب بھی بانو کی شاطر ماں نے اس سے پیسے اینٹھ کہ اسے چلتا کیا۔ ہاں یہ خبر اسے ضرور سنا دی تھی کہ بانو کہ پیٹ میں اس کی اولاد پل رھی ہے۔ اس نے پھر آنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا۔ ثریا بیگم کو اس آس پہ پیسے تھمائے کہ وہ اسے بانو اور اس کہ ہونے والے بچے کی ہر خبر باہم ہہنچائے گی۔ وہ بانو کو اپنانا چاھتا تھا لیکن ثریا بیگم نے بانو کی شادی کی خبر سناُ کر اس کی امیدیں پہ جیسے اوس گرا دی۔

آج وہ پھر سے وہاں آیا تھا۔ آج بھی اس نے ثریا بیگم کی جیب گرم کی تھی۔ بدلے میں ثریا نے اسے اس کی بیٹی کی تصویر دکھائی تھی۔ کیونکہ اس کی بیٹی اپنی ماں کہ ساتھ یعقوب مسیح کہ گھر تھی۔ نجانے یہ خون کی گرمی تھی یا اولاد کی محبت کہ وہ انگریزی بابو اپنی نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والی گوری سے بیٹی دیکھکر اپنے آنسو روک نہیں پایا۔ اگر محبت اسی کا نام ہے تو اس لمحے اسے اپنی بیٹی سے طوفانی محبت ہوئی تھی۔ ثریا بیگم سے اسکی یہ ڈیل ہوئی تھی کہ وہ کبھی بھی اپنی بیٹی اور بانو کہ سامنے نہیں آئے گا۔ 

کیونکہ اس کی بیٹی یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ “ناجائز” ہے۔ اور نہ ہی بانو چاھتی تھی کہ اسے کبھی پتہ لگے۔ اسے بس یہی بتایا جانا تھا کہ تمھاری ماں کا ایک شوھر یعقوب سے پہلے تھا اور تم اسی کی اولاد ہو۔

ثریا بیگم جانتی تھی کہ اگر ایک بار بھی اس کی بیٹی انگریزی بابو سے ملی تو وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اس کہ ساتھ جانے کی ضد کرے گی۔ اور شہری بابو جو نجانے دنیا کہ کس ملک بستا تھا اس کی کماؤ بیٹی کو لے جائے گا کبھی نہ واپس لانے کہ لیے۔ ایسے تو ثریا بیگم کو کھانے کہ بھی لالے پڑ جاتے۔ اسی خود غرضی میں اس نے نہ صرف اپنی بیٹی سے اسکی محبت دور کی بلکہ اپنی نواسی کہ سر سے اس کہ باپ کا سایہ بھی چھین لیا۔ انگریزی بابو نے بارہا یقین دہانی کرائی کہ وہ اگر بانو اور اپنی بیٹی کو لے بھی گیا تو ثریا بیگم کو باقاعدگی سے رقم بھیجے گا۔ 

لیکن ثریا بیگم جانتی تھی کہ ایک بار اگر انگریزی بابو کہ کمزوریاں اس کہ ہاتھ تھما دیں تو ایک خطیر رقم سے وہ یقیناً ہاتھ دھو بیٹھے گی اور انگریزی بابو کہ تمام قول اقرار دھرے کہ دھرے رہ جائیں گے۔ لہذا اس نے یہ چال چلی۔ انگریزی بابو کو کبھی بھی بانو یا اسکی بیٹی سے ملنے نہ دیا۔ نہ ہی کبھی انکا اتہ پتہ بتایا۔ اسے ہر بار یہی کہا کہ بانو اس سے ملنا نہیں چاھتی۔ دوسری جانب بانو کو اس بات کی بھنک تک نہ پڑنے دی کہ انگریزی بابو کتنی بار اس کہ گھر کہ چکر لگا چکا ہے۔ اور واقعتاً ان دونوں ماں بیٹی کو اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس دن بھی جب وہ آیا تو کافی بحث و تمحیث کہ بعد ثریا بیگم نے اسے اتنی اجازت ضرور دی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو اسکی سالگرہ والے دن ثریا بیگم کل گھر کہ پتے پر خط لکھ سکے۔ لیکن وہ اپنی شناخت ہر حال میں مخفی رکھے گا۔ تاکہ اس کا اپنی بیٹی سے قلمی ہی سہی رابطہ تو بہرحال قائم رھے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ وہ اپنی بیٹی کا سارا خرچ اٹھائے گا اور ثریا بیگم کہ لیے بھی خطیر رقم ارسال کرے گا۔ اس دوران وہ یہاں دوبارہ نہیں آسکتا۔ نہ ہی وہ اپنی بیٹی یا بانو کو ملنے کی کوشش کرے گا۔

یوں اس کا رابطہ بھی برقرار رھے گا اور اس کی بیٹی اس کہ بارے میں جان بھی نہیں پائے گی۔ ہاں اتنا ضرور ہوگا کہ اس کی بیٹی کہ دل میں اپنے حقیقی باپ کو لیکر محبت پروان چڑھتی رھے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ پولیس کچھ ایکشن لیتی اور معصوم امراؤ کو ہسپتال کہ بستر پر سے گرفتار کیا جاتا، بھوبھن گرلز کالج کہ پرنسپل نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے معاملے کو اپنے طریقے سے ہینڈل کر لیا تھا۔ آفیسر سفیان تبریز کو اس کہ “اوپر” والوں سے کال کروا کہ مزید کاروائی کرنے سے فی الوقت روک دیا تھا۔ آفیسر نے کال سنتے ہی مٹھیاں بینچیں لب کاٹے لیکن سرکار کی جانب سے موصول ہونے والا آرڈر ٹالنے یا پس و پیش کرنے کی سرکاری افسروں کو اجازت بہرحال نہیں ہوتی۔ سپاہی ہاتھوں میں ہتھکڑی لہراتا رھا اور سفیان ایک کٹیلی نگاہ امراؤ جبکہ دوسری ڈاکٹر خضر منان پہ ڈال کر پاؤں پٹختا وہاں سے نکل گیا۔ خضر بھی موقع کی نزاکت کو بھانپ گیا تھا۔ 

لیکن وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ خطرہ ابھی کہ لیے ٹلا ہے۔ امراؤ کو اس مقدمے میں ایک نہ ایک دن پھنسنا ضرور ہے۔ امراؤ کی سفید ٹوپی کہ اوپر لگا اونی گولا سرخ خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ ا سکی ٹوپی پہ بھی خون کی چھینٹے تھیں۔ اس کہ لانگ کوٹ کہ اوپری حصے پہ بھی جابجا خون لگا تھا۔ سب سے پہلے خضر نے امراؤ کہ ہوش میں آتے ہی نرسز کو کہہ کر اس کہ کپڑے بدلوانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ ابھی تک بات ہسپتال کہ کمرے میں موجود افراد کہ درمیان ہی تھی اگر بات نکل جاتی تو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ وارڈن کا اپنا کمرہ اوپر بنی راہداری کی شروع میں تھا۔ وہ رات کہ تیسرے پہر جب ٹہلتے ٹہلتے راہداری میں بنے کمروں کا راؤنڈ لگانے آئیں تو امراؤ کو کمرہ نمبر گیارہ بارہ کہ باہر آڑھی ترچھی حالت میں بے ہوش پایا۔

 انھوں نے ہسپتال فون کیا اور ایمبولینس منگوائی۔ ہسپتال کا عملہ ہی اسے اسٹریچر پہ ڈال کہ ہسپتال لایا۔ یہ سارا کام خضر منان کی ہدایت پہ نہایت خاموشی سے کیا گیا تھا۔ ہاسٹل میں فی الوقت اس واقعے کا کسی کو علم نہیں تھا۔ علم تھا تو فقط ردا فاطمہ کہ قتل کا!

ردا فاطمہ بھی بارھویں پاس کر کہ اسی کالج و ہاسٹل میں تیرھویں کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ وہ بھوربھن میں اپنی خالہ کہ گھر رہائش رکھے ہوئی تھی تاوقتکہ کلاسز کا باقاعدہ آغاز نہیں ہو جاتا۔ وہ اور پہلے قتل ہونے والی طاہرہ منیر دونوں نہ صرف کلاس فیلوز تھیں بلکہ بہت اچھی سہیلیاں بھی تھیں۔ ردا فاطمہ کہ خالہ اپنی فیملی کہ ساتھ بھوربھن میں ہونے والی کسی مایوں میں شرکت کہ لیے گئی ہوئی تھی۔ ردا گھر اکیلی تھی، وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہاں نہ جاسکی۔ کاش کہ وہ چلی جاتی تو آج شاید زندہ ہوتی۔ لیکن جو ہونا ہوتا ہے وہ تو بہرحال ہوتا ہی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفیسر سفیان تبریز بھی کہاں چپ رھنے والوں میں سے تھا۔ اس نے چند ہی دنوں میں اندازہ لگا لیا تھا کہ اس پورے تھانے میں فقط دو ہی لوگ اس کہ اور اپنے پیشے کہ ساتھ وفادار و مخلص تھے۔ باقی سب یا تو ڈرپوک تھے یا بکے ہوئے تھے۔ لہذا سفیان نے اپنی چھوٹی سے ٹیم بنائی اور خفیہ طور پر اپنی تحقیات کی شروعات کی۔ ابتدائی طور پر جو معلومات اسے حاصل ہوئی تھیں ان کا لبِ لباب یہ تھا کہ دونوں لڑکیوں کی دوستی میٹرک کہ بعد اسی کالج میں ہوئی تھی۔ وہ دونوں کلاس میٹس ہونے کہ علاوہ ہاسٹل میں روم بھی شئیر کرتی تھیں۔ 

یوں دونوں کی دوستی ایک مثال بن گئی۔ سفیان نے کالج و ہاسٹل سے ان لڑکیوں کا ڈیٹا بھی نکلوا لیا تھا۔ آج قتل کہ دوسرے ہی روز دن رات کی انتھک محنت کہ بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچا تھا کہ امراؤ کا ان لڑکیوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا تھا۔ امراؤ ایک دور کہ شہر میں رھنے والی لڑکی تھی۔ ماں کا نام بانو کماری اور باپ کی جگہ گارڈین کا نام “یعقوب مسیح” تھا۔ جو چند ہی دن پہلے میٹرک کہ بعد اس کالج میں انٹر کرنے کہ لیے داخل ہوئی تھی۔ لیکن دونوں لڑکیوں کہ قتل کا پہلا شک امراؤ پہ ہی جاتا تھا وجہ وہ ثبوت تھے جو ابھی تک میسر آۓ تھے۔ امراؤ کی ٹوپی کہ اوپر لگے خون کا نمونہ بھی جب ٹیسٹ کروایا گیا تو وہ ردا فاطمہ کہ خون سے میچ کر گیا۔ اب تو شک یقین میں بدل جاتا اگر وہ آفیسر سفیان تبریز کہ علاوہ کوئی دوسرا ہوتا۔ کیونکہ وہ سفیان تبریز تھا لہذا اس نے دوسرے انداز میں سوچنا شروع کیا۔

اگر امراؤ نے ہی قتل کیا ہے تو کیا وہ اتنی بے وقوف ہے کہ قتل کہ بعد اپنی ٹوپی تک کو نہ چھپا پائی، یا کم ازکم اپنا لباس ہی بدل لیتی۔ اور دونوں بار یہ اپنے کمرے کہ باہر بے ہوش پائی گئی۔ مطلب صاف تھا کہ قتل کسی اور نے کیے اور اسے امراؤ کہ سر پہ تھوپا گیا۔ اب کس نے کیے یہ تو مزید تحقیقات سے واضح ہوگا۔ سفیان تبریز اپنے تحقیقاتی کمرے میں دو دن سے مقید تھا۔اسے کھانے پینے کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ اور تو اور اس نے تو اپنی وردی پہننے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ گرے رنگ کی ٹی شرٹ اور خاکی ٹراؤزر پہنے رف سے حلیے میں بھی غضب ڈھا رھا تھا۔ کمرہ کاغذات سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے دیوار پہ جابجا اسٹکی نوٹس چپکا رکھے تھے۔ فاسٹ فوڈ آرڈر کرتا اور کھا کہ ڈبے وہیں پھینک دیتا۔ دن اور رات میں نجانے کتنے کپ وہ چائے کہ پیتا تھا۔ ان دو کیسز کہ علاوہ بھوربھن میں ہوئی دیگر اموات نے جیسے اسے پاگل کر کہ رکھ دیا تھا۔ لیکن وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔ ابھی وہ کمرے میں پڑے واحد میز کہ اوپر دھرے کاغذات کہ پلندے میں سے ایک کاغذ پہ کچھ لکھتے ہوئے بلآخر پہلی دفعہ مسکرا دیا۔ 

یعنی وہ ایک نتیجے پہ پہنچ چکا تھا۔ امراؤ کو دونوں بار ہاسٹل لانے والے ایک ہی ہستی تھی اور وہ تھی ہاسٹل کی وارڈن۔ اور دونوں بار وارڈن نے امراؤ کا دفاع نہیں کیا تھا۔ جیسے ان کی اسٹوڈنٹ چاہے جیل چلی جائے انھیں کوئی پرواہ نہیں۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ یا وہ خود چاھتی ہیں کہ امراؤ قتل کہ مقدمے میں پھنسے یا وہ کسی کو بچانا چاھتی ہیں۔ چوکیداروں کہ مطابق تو امراؤ گیٹ انٹری آورز تک واپس نہیں پہنچی تھی نہ ہی اندراج والے رجسٹر پہ اس کہ کوئی دستخط وغیرہ تھے۔ مطلب وہ مقررہ آورز کہ بعد ہی ہاسٹل داخل ہوئی تھی۔ تبھی وارڈن کہ بقول وہ اپنے کمرے کہ باہر بے ہوش پائی گئی۔ اب چوکیدار تو یقیناً وہی بیان دیں گے جو وارڈن کہے گی۔ مطلب صاف تھا یا چوکیدار بکے ہوئے تھے یا وارڈن کہ ڈر سے غلط بیانی سے کام لے رھے تھے۔ شکوک و تحقیقات کا دائرہ وارڈن کہ گرد تنگ ہو رھا تھا۔ سفیان نے امراؤ کی معلومات جہاں تک نکلوائی تھیں وہاں تک تو وہ ایک بے ضرر سی اور ہونہار لڑکی تھی۔ باپ کا نام کہیں بھی نہیں تھا۔

 ہر جگہ یعقوب مسیح کا نام درج تھا۔ یہ ایک حیران کن بات تھی لیکن فی الحال کیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سفیان کا دل اب امراؤ کی جانب سے صاف ہو رھا تھا۔ اسے اب وارڈن کی معلومات نکلوانی تھیں۔ جو شکل اور حرکتوں دونوں سے ہی مشکوک لگتی تھی۔ وارڈن کی معلومات نکلوانے پر جو چیز سفیان کہ ہوش اڑا گئی وہ یہ تھی کہ وارڈن کی ولدیت والا خانہ بھی خالی تھا۔ ہاں لیکن گارڈین والے خانے میں ایک نام جگمگا رھا تھا جو سفیان کہ پاؤں تلے سے زمین کھینچنے کہ لیے کافی تھا۔ اسے سمجھ آگیا تھا کہ وارڈن کا تعلق امراؤ سے کہاں جا کر ملتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پرنسز کیتھرین”۔۔۔۔۔!!!!!!!!

“بڑھیا اب اپسرا کی پشت پہ کھڑی اسے پکار رھی تھی۔ میری بٹیا رانی کو معاف کر دیجیے۔ میں ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی ہوں۔ وہ جب سے آئی ہے تب سے کٹیا سے باہر نہیں نکلی۔ ہر وقت اندر پڑی رھتی ہے۔ اسے آپ سے خوف آتا ہے۔ پرانی باتوں کو بھول جائیے۔ اس نے آپکا کتنا بڑا کام کیا ہے۔ آپکی بیٹی کو باحفاظت آپ کہ پاس لیکر آئی ہے۔ اس نے آپکی بیٹی کی پرورش اپنی سگی بیٹیوں کی طرح کی۔ اسی بات کا خیال کر لیجیے۔”

بڑھیا نے کانپتے ہاتھ جوڑ رکھے تھے۔ آنکھوں سے آنسو گر رھے تھے۔ جو اس کہ جھریوں زدہ چہرے کو بگھو رھے تھے۔ اپسرا بے نیازی سے اس کی جانب پشت کیے بیٹھی تھی۔ آج اس کہ ہاتھ میں ایک آئینہ تھا۔ جو دیکھنے سے ہی جادوئی آئینہ لگتا تھا۔ اس میں اپسرا کا چہرہ دکھائی دے رھا تھا۔ لیکن یہ اپسرا کا حقیقی عکس تو نہیں تھا۔ یہ تو کسی جوان اور نہایت حسین شہزادیوں جیسی لڑکی کا چہرہ تھا۔ بڑھیا سے بہتر بھلا کون جان سکتی تھی کہ یہ چہرہ کس کا ہے؟
یہ چہرہ کیتھرین کا ہی تھا۔ لیکن تب جب وہ فقط سترہ برس کی تھی۔ آج سے ۴۸ سال پہلے والی کیتھرین!

جو حسن کی دیوی تھی۔ جس میں عیب ڈھونڈنا ایسا ہی تھا جیسے رات میں سورج کو تلاش کرنا۔ ابھی بھی آئینہ اپسرا کا وہی چہرہ اسے دکھا رھا تھا۔ اور اپسرا شاید اسی ابہام میں جی رھی تھی کہ وہ ابھی بھی سترہ برس کی وہی حسین و جمیل دوشیزہ ہے۔ کوئی بھی اسے آئینہ دکھانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا وجود سب سے ایسے مخفی تھا جیسے دن میں چاند چھپا ہوتا ہے۔ شام ڈھلے وہ بھی چاند کہ ساتھ ظاہر ہوتی تھی۔ اور جھرنے کہ پاس بیٹھی بانسری بجاتی رھتی۔ اور اس کو یاد کرتی رھتی جس نے ۴۸ سال سے اس کا چین و قرار سب چھینا ہوا تھا۔ بڑھیا کی بیٹی سے ایک غلطی سرزد ہوئی تھی ، اسی شخصیت سے دل لگانے کی غلطی جس کی عاشق کیتھرین تھی۔ کیتھرین نے پھر اسے معاف نہیں کیا تھا۔ آج اتنے سالوں بعد بھی کیتھرین کہ دل میں زخم تازہ تھا جو بڑھیا کی بیٹی “نگینہ” نے کیتھرین کو دیا تھا!

بڑھیا کی عرض گزاری کرنے کہ بعد کیتھرین نے آئینہ نیچے کیا اور بڑھیا کی جانب پورا گھومی۔ اس کا چہرہ بیک وقت خوبصورتی اور بد صورتی کا اتنا خوفناک اور بھیانک امتزاج تھا کہ دیکھنے والا کانپ کہ رہ جاتا۔ یہی حال ہر بار بڑھیا کا بھی ہوتا تھا۔ وہ تھر تھر کانپتی اپنی جگہ چھوڑ کر پیچھے ہوئی۔ تبھی کیتھرین نے اپنی پرسرار آواز میں بڑھیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“Magic mirror in my hand, who is the fairest in the land?”
“My Queen, My Princess, No Doubt, You are fairest in the land.”
جواب بڑھیا کہ بجائے نجانے کب سے انکی باتیں سنتی نگینہ نے دیا تھا جو اپنی بوسیدہ سی کٹیا کہ باہر آکر کھڑی ہو چکی تھی۔ کیتھرین نے نگینہ کا سر تا پا ایک جائزہ لیا اور سر پیچھے پھینکتے ہنستے چلی گئی۔ ا سکی ہنسنے کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر اردگرد پھیل رھی تھی۔ پرندے جو فرصت سے ٹہنیوں پہ بیٹھے اس کی سریلی دھن سننے میں مگن تھے اپسرا کو ہنستے دیکھکر کھلکھلانے لگے۔ پرنسز کو اپنی تعریف ہمیشہ سے ہی پسند تھی۔ اس کا آئینہ بھی اس کی ایسے ہی تعریف کرتا تھا۔ جیسی آج اس کی “رقیبہ” نگینہ نے کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم نے امراؤ کو ہاسٹل بھجوایا یا ابھی تک وہ ہاسپٹل میں ہی ہے؟”
سفیان اسی حلیے میں خضر کہ دفتر میں اس کہ سامنے کھڑا تھا۔ آج امراؤ کہ بارے میں بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ نرم تھا۔ خضر کو بھی شدید حیرت ہوئی لیکن وہ کمال مہارت سے اسے چھپا گیا۔

“نہیں وہ ہاسپٹل کہ ہی ایک روم میں ہے۔ ابھی ہاسٹل نہیں بھجوایا۔ وہ ابھی مینٹلی اس قابل بھی نہیں کہ وہاں جا سکے۔ اسے فی الحال سکون کی ادویات انجیکٹ کی جا رھی ہیں۔ زیادہ وقت اسکا سوتے ہی گزرتا ہے۔ جیسے ہی بہتر ہوگی اسے بجھوا دیا جائے گا۔اگر تم اس سے کوئی سوال جواب کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو میں تمھیں اسکی اجازت نہیں دوں گا۔ وہ میری پیشنٹ ہے اور ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مزید اسٹریس لے سکے۔”
خضر نے پروفیشنل انداز میں اپنی پیشنٹ کا دفاع کرتے ہوئے مدافعتی انداز اپنایا تھا۔
“تم فکر مت کرو، میں اسے ہرگز پریشان نہیں کروں گا۔ اب پریشان ہونے کی باری کسی اور کی ہے۔”
سفیان نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا تھا۔ خضر چھبتی نگاہوں سے اس کا سر تا پا جائزہ لے رھا تھا۔

“کم آن خضر! تم جانتے ہو نا کہ میں اپنے گزشتہ رویے پہ نہ تو شرمندہ ہوں گا اور نہ معذرت کروں گا۔ اس لیے مجھے ایسے گھورنا تو پلیز بند کرو۔ اور اچھی سے چائے منگواؤ پھر تمھیں تمھاری پیشنٹ اور ہاسٹل کی وارڈن کہ درمیان ملتی کڑی کہ بارے میں بتاتا ہوں۔”
سفیان نے مزے سے کہتے ہوئے خضر کہ سامنے رکھی پلیٹ سے بادام اٹھاتے اور منہ میں پھانکتے ہوئے کہا تھا۔
“تُو کبھی نہیں بدلے گا۔ بھابھی سے بھی ایسے ہی پیش آتا ہے یا وہ معذرت کروا لیتی ہیں تجھ سے؟”
خضر نے اب سفیان کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھتے کہا تھا۔
“آہ بھابھی کون وہ بندریا، مم میرا مطلب ہے دلآویز؟ وہ تو فی الوقت اپنے بیٹے شاہ زین تبریز کو سنبھالنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ انھیں کسی کی ہوش نہیں۔ اپنی بھی نہیں۔”
سفیان نے محظوظ ہوتے کہا تھا۔ تب خضر نے اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی اور بیٹے کو لیکر چھلکتی محبت کو بھانپ لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سفیان اس کا اقرار نہیں کرتا لیکن وہ اپنی بیوی کو بے حد چاھتا ہے۔ خضر بس مسکرا کر رہ گیا اور فون پہ چائے کا آرڈر دینے لگا۔
“اب بتاؤ کیا بتانے آۓ ہو؟”
خضر بھی اب سیدھا ہوکر بیٹھ گیا تھا۔
“وارڈن کہ کاغذات میں بھی والدیت کا خانہ خالی ہے اور امراؤ کہ کاغذات میں بھی۔”
سفیان نے گویا انکشاف کیا تھا۔
“دھت تیری کی۔ تو اس میں کیا قابلِ غور بات ہے؟”
خضر کا موڈ بری طرح خراب ہوا تھا۔

“قابلِ غور بات یہ ہے ڈاکٹر خضر منان کہ دونوں کہ گارڈین ایک ہی ہیں۔ مسٹر یعقوب مسیح۔ میں نے شناختی کارڈ نمبر میچ کیا ہے وہ ایک ہی یعقوب مسیح ہے جو دونوں کا گارڈین ہے!”
سفیان نے میز پہ ہاتھ رکھ کر ڈاکٹر خضر منان کہ سامنے جھکتے ہوئے کہا تھا۔ اور ڈاکٹر خضر جیسے اگلا سانس لینا بھول گئے تھے۔
تو کون ہے ہاسٹل کی وارڈن؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے