گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 11

urdu font stories

انگریزی بابو نے اپنی بیٹی امراؤ جان کو ہر سال اسکی سالگرہ پہ خط بھیجنے کا سلسلہ ایسا شروع کیا کہ پھر وہ تھم نہ سکا۔ یوں امراؤ کی بھی قلمی ہی سہی اپنے باپ سے دوستی ہوگئی۔ وہ جواب نہیں دے سکتی تھی کیونکہ خط پہ کبھی بھی واپسی کا پتہ درج نہیں ہوتا تھا۔ اس کہ لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اتنی بڑی دنیا میں کوئی ایسی ہستی بھی تھی جو فقط اس کہ لیے سوچتی تھی۔ ماں اور نانی سے ہر پل ملی دھتکار اور ڈانٹ نے اسے باغی بنا ڈالا تھا۔ یہ اس کہ باپ کہ ہی الفاظ تھے جو اسے ٹھنڈا کرتے تھے۔ اس کی دل جوہی کرتے تھے۔ وہ اس کا استاد بھی تھا اور اس کا سایہ بھی۔ اسی کی بھیجی رقم سے وہ اپنی پسند کی ہر چیز خریدنے کہ قابل ہوئی تھی۔ ذاتی استعمال کی چیزوں میں اس کا ذوق اعلیٰ تھا۔ اس کا معیارِ زندگی قابلِ رشک تھا۔ تبھی جو بھی اس سے ملتا اس کا گرویدہ ہو جاتا۔

باپ کی بات امراؤ کہ لیے مانوں پتھر پہ لکیر کا درجہ رکھتی تھی۔ باپ کہ ہی حکم پہ امراؤ نے بغیر سوچے سمجھے بھوربھن جانے کی ٹھانی تھی۔ کہیں نہ کہیں اس کہ دل میں یہ بات سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی تھی کہ بھوربھن میں اسکی ملاقات اس کہ باپ سے ضرور ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضر منان نے قتل سے اگلے دن ہی ردا فاطمہ کا پوسٹ مارٹم کر کہ رپورٹ تیار کر لی تھی۔ اس وقت خضر اور سفیان پوسٹ مارٹم رپورٹ میز پہ رکھے اس پہ تبادلۂ خیال کرنے میں مصروف تھے۔ سفیان نے جو نئی بات خضر کہ گوشگزار کی تھی وہ یعقوب مسیح کا بیک وقت امراؤ اور وارڈن کا گارڈئین ہونے کی تھی۔ جسے ڈاکٹر خضر نے بمشکل ہضم کیا تھا۔ مطلب وارڈن یونہی امراؤ کہ پیچھے ہاتھ دھو کہ نہیں پڑی ہوئی۔ دونوں کا ماضی میں کوئی گہرا کنکشن رہ چکا ہے۔ اب وہ بھی مبہم سا ہی سہی بہرکیف سامنے تو آیا تھا۔ اس کو کریدنا سفیان کا کام تھا۔ فی الوقت وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پہ بحث کر رھے تھے۔ اس لڑکی کا قتل بھی پچھلی لڑکی کی طرح کسی تھز دھار چھری سے کیا گیا تھا۔

 فرق صرف یہ تھا کہ اس کہ ایک ہاتھ کی چھوٹی جب کہ دوسرے ہاتھ کی شھادت والی انگلی بے دردی سے کاٹی گئی تھی۔ اس کہ سر کہ بیچ و بیچ چھری سے وار کیا گیا تھا۔ یہی اس کی موت کا سبب بھی بنا تھا۔ کسی جیتے جاگتے انسان کہ سر کہ دو ٹکڑے کرنا بلاشبہ بہت دل گردے کا کام تھا۔ اور یہ کوئی لڑکی تو بہرحال نہیں کر سکتی تھی۔ وہی کر سکتا تھا جسکی مقتولہ سے جانی دشمنی ہو۔ اور کرنے والا بھی کمال کی قوتِ حوصلہ رکھتا ہو۔ لیکن امراؤ کی ٹوپی اور لباس پہ ملنے والا خون مقتولہ کہ خون کہ سیمپلز سے میچ کر چکا تھا۔ سب کچھ واضح ہوتے ہوئے بھی نجانے کیوں اتنا دور تھا؟ کیا تھا جو سفیان مس کر رھا تھا۔ سرا ہاتھ آکہ ہی نہیں دے رھا تھا۔

“اگر سب وارڈن نے کیا تھا تو اس کی چالاکی اور ہوشیاری کی داد دینے پڑے گی۔ ایسی پلاننگ کی گئی ہے کہ کوئی بھی لوپ ہول نہیں چھوڑا گیا۔”
خضر نے کوئی سترویں دفعہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھکر تبصرہ کیا تھا۔
“ایسا ہو ہی نہیں سکتا خضر کہ قاتل اپنا نشان نہ چھوڑے۔ چاھے وہ کتنا بھی ہوشیار کیوں نہ ہو اس کی کوئی نہ کوئی کمزوری تو ضرور ہوتی ہے۔”
سفیان نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے، اطمینان سے جواب دیا تھا۔
“جو بھی یہ کام کر رھا ہے اس کی یقیناً لڑکیوں سے جانی دشمنی ہے۔ اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ یہاں تھمے گا نہیں۔

 یہ گہرے انتقام کا چکر ہے۔ جب تلک قاتل اپنا انتقام نہیں لے لیتا وہ چین سے بیٹھنے والا نہیں۔ سب سے پہلے ان دونوں لڑکیوں اور وارڈن میں کوئی کنکنشن ڈھونڈنا ہوگا۔ اور اگلے شکار تک پہنچنے سے قاتل کو روکنا ہوگا۔ جو ہو گیا وہ تو واپس نہیں آسکتا لیکن میں اب بھوربھن میں ایک خون کا قطرہ بھی گرا دیکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا خضر۔ “
سفیان نے آخری بات قدرے جذباتی ہوتے ہوئی کہی تھی۔
“میں جانتا ہوں تم کتنے پریشان ہو۔ فکر مت کرو۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اب مزید معصوم لوگوں کو قاتل کا نشانہ نہیں بننا چاھیے۔ ورنہ میں کم از کم خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا۔”
خضر نے پریشان کن لہجے میں گویا اقرار کیا تھا۔
“میں بھی!”

سفیان نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے دھیرے سے کہا تھا۔ اس کا لہجہ خضر کو اندر تک کاٹ گیا تھا۔
خضر بھی اس کہ ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ سردی کی وجہ سے ہسپتال میں مریضوں کا رش لگا ہوا تھا۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے لوگ بیمار پڑ رھے تھے۔ لہذا خضر کو مسیحائی کہ فرائض کی انجام دہی کہ لیے بھی جانا تھا۔
“امراؤ کہ لیے کیا حکم ہے تمھارا؟ اسے یہیں رکھا جائے یا ہاسٹل جانے کی اجازت دے دی جائے؟”
خضر نے باہر جاتے سفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
“تم اس سے پوچھ گچھ کرو۔ کیونکہ مجھ سے وہ خوف کھاتی ہے مجھے کچھ نہیں بتائے گی۔ جو بھی وہ بتا سکے۔ کیا معلوم کہ اس سے ملی معلومات ہمارے کسی کام آسکیں۔ لیکن یہ سب تمھیں بہت دھیان سے کرنا ہوگا۔ وہ بہت جذباتی لگتی ہے، کہیں کچھ الٹا سیدھا نہ کر بیٹھے۔”
سفیان نے خضر کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
“تم فکر نہ کرو۔ اسے میں سنبھال لوں گا۔ تم بس قتل ہوئی لڑکیوں کہ مابین تعلق ڈھونڈو ہمیں اگلے شکار کو ہر حال میں بچانا ہے۔”
خضر نے سفیان کہ کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا تھا۔
سفیان نے فقط سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔ اور دروازہ کھول کہ ایک نئے عزم سے باہر نکل گیا۔ بہت سے ادھورے کام اس کہ منتظر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیتھرین کی ہنسی کی گونج بہتے جھرنے کی گونج سے کہیں زیادہ تھی۔ نگینہ اب کیتھرین کہ سامنے کھڑی تھی۔ گو فاصلہ ابھی بھی بہت زیادہ تھا۔ اور اسے ختم کرنے کی جرات نہیں کر سکتی تھی۔ جو بھی تھا وہ دونوں ماں بیٹی کیتھرین کی محتاج تھیں۔
“میں نے اپنی بیٹی جمیکا تمھاری حفاظت میں دی تھی وکٹوریہ!”
کیتھرین اب یکدم سنجیدہ ہو گئی تھی۔ اس کا رخ تھر تھر کانپتی بڑھیا کی جانب تھا۔
“مائی کوئیں! بھوربھن کہ حالات بہت خراب تھے۔ قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ آپ جانتی ہیں تب جمیکا کو یہاں رکھا جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس کا باپ اسے پاگل کتے کی طرح ڈھونڈ رھا تھا۔ تبھی حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میں نے اسے دوسرے شہر جانے والے قافلے کہ ساتھ بھجوا دیا تھا۔”

بڑھیا کہ جس کو کیتھرین وکٹوریہ کہ نام سے مخاطب کر رھی تھی، نے لرزتے کانپتے ماضی کہ جھروکوں میں جھانکتے ہوئے بات مکمل کی تھی۔
“مام نے آپکی بیٹی کو ڈھونڈ بھی تو نکالا نا۔ میں نے اپنی ساری جوانی ایک ان چاھے مرد کہ ساتھ گزار دی۔ آپکی کی بیٹی کی حفاظت کو حد درجۂ مقدم رکھا۔ میں جانتی تھی کہ اس کا باپ اسے بھوربھن میں ٹکنے نہیں دے گا۔ اپنے ساتھ دوسرے ملک لے جائے گا۔”
“مائی پرنسز! آپ نے بھی اپنی بیٹی کی جدائی برداشت کی اور میں نے بھی اپنی ماں سے دوری اختیار کی۔ “
نگینہ نے وضاحت دیتے ہوئے کیتھرین کہ چہرے کہ ممکنہ تاثرات کا جائزہ لیتے کہا تھا۔
“تم نے جو برداشت کیا وہ تمھارے کرموں کا پھل تھا نگینہ۔ جو گستاخی تم نے کی تھی اس کی تو اس سے بڑھکر سزا ہونی چاھیے۔ جوانی رائیگاں کرنا تو کچھ بھی نہیں۔”

کیتھرین نے زخمی تاثرات چہرے پہ سجائے نگینہ سے کہا تھا۔ اس ہستی کی یاد کی پرچھائیاں اسے پھر سے بے قرار کر گئی تھیں۔ اس نے بانسری ہونٹوں میں دبائی اور اپنی دھن میں مگن ہو گئی۔ نگینہ نے اس کی آنکھوں سے روانی سے بہتے آنسوؤں کو دیکھکر اندازہ لگایا تھا کہ کیتھرین کو جوزف سے جنونی محبت ہے۔ بلکہ عشق ہے۔ جوزف کا خیال آتے ہی اس کہ جسم میں بھی سنسنسی دوڑ گئی۔ وہی تو ایک شخص تھا جو کسی دور میں نگینہ کہ گن گاتے نہ تھکتا تھا۔ اور کیتھرین اس کی دیوانی تھی۔ نگینہ اور جوزف ساتھ میں کتنے خوش تھے۔

 پھر نجانے کہاں سے کیتھرین بیچ میں آگئی اور سب کچھ تباہ ہو گیا۔ کیتھرین یہ برداشت کر بھی کیسے سکتی تھی کہ جسے وہ دل دیے بیٹھی ہے وہ اسکی نوکرانی کی بیٹی سے محبت کرے۔ وکٹوریہ اور نگینہ، کیتھرین کی خادماؤں میں سے تھیں۔ اور مالکن کا حکم ماننا ان پہ فرض تھا۔ اسی لیے انھوں نے وہی کیا جو کیتھرین نے انھیں کرنے کو کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضر کہ پاس سے آکر سفیان اپنے تحقیقاتی کمرے میں مقید ہو چکا تھا۔ اسے ہر حال میں قتل ہوئی لڑکیوں کہ مابین کوئی ایسا کنکشن ڈھونڈنا تھا جو اسے اگلے قتل ہونے والے امیدوار تک لے جائے۔ ان دونوں کو تو وہ نہیں بچا پایا لیکن اگلے کو تو بچا سکتا تھا نا۔ اور اس کہ لیے وہ ہر حد پار کر جانا چاھتا تھا۔ ابھی وہ یہی سب سوچ رھا تھا کہ میز پہ رکھا اس کا ذاتی موبائل تھرتھرا اٹھا۔ یقیناً یہ بندریا ہوگی۔ اسے نجانے کیوں چین نہیں آتا۔ اس نے جھنجھلاتے ہوئے سوچا تھا۔ لیکن یہ بات وہ بھی جانتا تھا کہ بندریا کا اس طرح اسکی پرواہ کرنا اسے اند رتک نہال کر دیتا تھا۔ لیکن اظہار کرنا تو سفیان تبریز کی گھٹی میں ہی نہیں تھا۔ اس نے چہرے پہ مصنوعی رعب طاری کرتے موبائل اٹھایا تو خضر کا نام جگمگا رھا تھا۔ “دھت تیری کی” بے اختیار اس کہ منہ سے پھسل گیا۔

“سفیان ! ایک بات تو تمھیں بتانا ہی بھول گیا میں۔ ابھی اپنی ڈائری کھولی تو مجھے یاد آیا۔ پہلی قتل ہونے والے لڑکی کہ منہ سے حالتِ نزع میں چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلے تھے۔ جنہیں میں نے قلمبند کر لیا تھا کہ کہیں بھول نہ جائیں۔”
خضر نے گویا نیا انکشاف کیا تھا۔
“کک کیا تھے وہ الفاظ؟”
سفیان نے بے تابی سے کہا تھا۔
“لڑکی۔۔۔۔۔ ہاسٹل۔۔۔۔۔۔۔ نیلی۔۔۔۔۔پونی۔۔۔۔۔9۔۔۔8۔۔۔۔9۔۔۔۔1”
“اف خضر اتنی اہم بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی؟ “
سفیان اب مزید جھنجھلا گیا تھا۔
“بس یار نہیں رھا دماغ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
ابھی خضر مزید بات کر رہی رھا تھا کہ سفیان نے کال کاٹ دی۔
“یہ بھی نا!”

خضر نے موبائل کو دیکھتے ہوئے کہا اور اسٹوڈنٹ کی خیریت دریافت کرنے کا سوچ کر اٹھکھڑا ہوا۔
ادھر سفیان نے ان الفاظ کو ایک صفحے پہ لکھ لیا تھا۔ وہ بارہا انھیں دہرا تھا۔ اپنے تئیں ان میں کوئی کنکنشن ملانے کی سعی کر رھا تھا۔ لیکن سب بے سود جا رھا تھا۔ مقتولہ نے یقیناً قاتل کہ بارے میں اشارہ دیا تھا۔ قاتل کا حلیہ بتایا تھا۔ ظاہر ہے مرنے والا قاتل کا حلیہ ہی بتا کر جاتا ہے۔
پہلا لفظ ہے “لڑکی”

مطلب قاتل کوئی لڑکی ہے۔ اب اگر وارڈن نے قتل کیا ہے تو وہ تو لڑکی نہیں ہو سکتی۔ اس کہ لیے تو عورت کا لفظ استعمال ہونا چاھیے۔ بہرحال آگے دیکھتے ہیں!
دوسرا لفظ ہے “ہاسٹل”
مطلب قاتل کا تعلق ہاسٹل سے ہے۔ جو وارڈن بھی ہو سکتی ہے اور امراؤ بھی۔ یا کوئی اور ہاسٹل میں رھنے والی لڑکی جس سے وارڈن نے یا کسی اور نے یہ کام کروایا ہو۔
تیسرا لفظ ہے “نیلی”
نیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب بلیو۔
نیلا لباس ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ نیلا کوئی بیگ ہو سکتا ہے۔۔۔۔ نیلا ۔۔۔۔ نیلا اور کیا ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟؟؟؟؟

ابھی وہ یہی سب سوچ رھا تھا کہ موبائل کی بیپ بجی۔ واٹس ایپ پہ نیا میسج آیا تھا۔ اس کی شریکِ حیات کی جانب سے۔ اس نے مسکرا کہ میسج کھولا تو شاہ زین تبریز کی تصویر سامنے تھی۔ وہ ہو بہو اپنے باپ کی طرح تھا۔ پیشانی پہ ہمہ وقت غصہ دھرا رھتا۔ ابھی بھی وہ اپنے باپ کو ہی گھور رھا تھا۔ سرخ و سفید پھولے گالوں اور چمکتی نیلی آنکھوں والا شاہ زین سفیان کہ دل کا قرار تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس کا دل شدت سے اسے پیار کرنے کو چاھا۔ جلد ہی شہر کا چکر لگانا پڑے گا۔ اس نے سوچا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں سے اسے جیسے عشق تھا۔ بڑی پلکوں والی گہری نیلی آنکھیں۔ وہ انھی میں کھویا تھا کہ اسے کچھ یاد آیا۔ ایسی ہی نیلی آنکھیں کسی اور کی بھی تھیں۔ پر کس کی۔ اس نے کل پرسوں ہی تو کسی کی ایسی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اس نے موبائل سائیڈ پہ رکھ دیا تھا۔ ذہن پہ زور دے رھا تھا۔ کس کس سے ملا تھا وہ پچھلے چند دنوں میں؟؟؟؟

“خضر سے اور اس کہ ہسپتال میں چند مریضوں کو اس نے دیکھا تھا یا وارڈن کو۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کتے کا شکار امراؤ کو بھی دیکھا تھا۔ اسی کی آنکھیں نیلی تھیں۔ بلکل اسی کی آنکھیں پر کشش تھیں بلکل شاہ زین کی آنکھوں جیسی۔ تبھی مقتولہ کہ اخری الفاظ اسے یاد اۓ۔
“نیلی”
مطلب امراؤ؟ نہیں نہیں۔؟ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔!!!!!
سفیان بے یقینی سے سر دائیں بائیں مار رھا تھا۔
ادھر ہسپتال میں خضر منان اب امراؤ کہ بستر کہ پاس بیٹھے تھے۔ امراؤ کو گرم گرم سوپ کہ چمچ بھر بھر کر منہ میں ڈال رھی تھی۔ وہ اب کافی بہتر اور ہشاش بشاش لگ رھی تھی۔ بلآخر وقت آگیا تھا کہ خضر منان امراؤ سے اس کا بیان لے سکیں۔ جس کی ذمہداری سفیان نے ان کہ کندھوں پہ ڈالی تھی۔ امراؤ نے گل رخ کہ بارے میں پہلے بھی خضر منان کو بتایا تھا۔ اب بھی اس نے ہاسپیٹل سے ہاسٹل جانے سے لیکر وہاں موجود چاولوں کی پلیٹ اور پھر چمچ میں دھری انگلی اور خون دیکھنے سے ساری روداد دھیرے دھیرے خضر منان کہ گوشگزار کر دی۔ خضر جوں جوں اسکی کہانی سن رھے تھے ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رھی تھیں۔ یہ سب ناقابلِ یقین تھا۔

“چچ چوتھا لفظ ہے “پونی”!
سفیان کی آواز حلق میں آکر ہی دم توڑ رھی تھی۔ شواہد ایک بار پھر امراؤ کی جانب اشارہ کر رھے تھے۔ کیا قاتل نے کوئی مخصوص پونی پہن رکھی تھی؟ نیلی ہو سکتا ہے آنکھیں نہ ہوں پونی ہو؟ یا پونی میں کچھ خاص ہو۔ کچھ منفرد۔ گھوم پھر کہ سفیان کی سوئی امراؤ پہ ہی آکر رک رھی تھی۔

اسے خواب کی مانند یاد آرھا تھا جب اس نے امراؤ کو دیکھا تھا تو اس کی سفید اونی ٹوپی میں کمال مہارت سے سوراخ کر کہ اس کی بھورے بالوں کی اونچی پونی کو باہر نکالا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ کام اس نے خود کیا تھا۔ اب ریڈی میڈ تو ایسی ٹوپیاں ملنے سے رھیں۔ یہ وہ عجیب بات تھی جس نے سفیان کی توجہ بھی کھینچی تھی۔ ہو سکتا ہے مقتولہ نے بھی اسی کا ذکر کیا ہو؟
سفیان اب واقعتاً کانپ رھا تھا۔

اُدھر امراؤ ساری آپ بیتی سنا کر ڈاکٹر خضر کہ تاثرات کا جائزہ لے رھی تھی جو ناقابلِ بیان حد تک بدل چکے تھے۔ ڈاکٹر خضر کسی روبوٹ کی مانند اٹھے اور امراؤ کو آرام کرنے کا مشورہ دیکر وہاں سے نکل آۓ۔
سفیان نے اب آخری لفظ کو زیرِ لب دہرایا تھا۔
“۔9۔۔۔۔8۔۔۔۔۔۔9۔۔۔۔۔1”
یہ تو سال کی طرف اشارہ ہے۔ مقتولہ کی عمر تو اس سال سے کافی کم تھی۔ امراؤ بھی ابھی کافی چھوٹی تھی۔ تو اس سال میں ایسا کیا خاص ہوا تھا کہ مقتولہ نے اس کا ذکر کیا ؟ یقیناً کچھ بڑا ہوا ہوگا۔ مگر کہاں ؟ بھوربھن گاؤں میں؟ یا کالج میں؟ یا ہاسٹل میں؟
یہ سوچتے ہی اسے نے اپنی تھانے کہ سب سے پرانے اور عمر رسیدہ پولیس والے کو بلوایا۔ اگر کچھ بہت خاص اور قابلِ ذکر ہوا ہوگا تو انھیں یقیناً پتہ ہوگا۔
“چاچا جی، آپ یہاں کتنے عرصے سے ہیں؟”
سفیان نے سگریٹ ہونٹوں میں دباتے چاچا کریم دین سے پوچھا تھا۔ جب وہ کسی معاملے میں بری طرح پھنس جاتا تو سگریٹ خودبخود جیسے اس کی انگلیوں میں آجاتا تھا۔

گو کہ چاچا کریم دین سپائی تھا۔ اور سفیان کا یہ اسٹائل نہیں تھا کہ وہ کسی سے اتنا فری ہوکر بات کرتا۔ لیکن حالات کی نزاکت نے اسے ایسا کرنے پہ مجبور کیا تھا۔
اور چاچا کریم دین کی اتنے بڑے افسر کی بے تکلفی دیکھر باچھیں کھل چکی تھیں۔
“صاحب جی! ہم تو یہاں پیدا ہوا۔ ہمارے باپ دادا یہیں پیدا ہوئے یہیں دفن ہیں۔ ہم بھی یہیں دفن ہوگا۔ آپ بتاؤ کیوں پوچھ رھے ہو؟”
چاچا بھی بڑا گھاگ آدمی تھا۔ جانتا تھا کہ بڑا آفسر جو بغیر مطلب کہ کسی سے بات کرنا گوارا نہیں کرتا اس کہ ساتھ اتنا بے تکلف یونہی نہیں ہو رھا ہوگا۔
“کریم دین! مجھے بتاؤ سن 1989 میں ایسا کوئی خاص واقع رونما ہوا تھا؟ بھوربھن گاؤں میں؟ یا بھوربھن گرلز کالج یا ہاسٹل میں؟ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہو؟ یا اخباروں میں کوئی خاص خبر شائع ہوئی ہو؟ “
سفیان اب اپنی پہ اتر آیا تھا۔
“سن 1989 میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب جی اس کہ لیے تو پرانہ ریکارڈ چیک کرنا پڑے گا۔ آئیں میرے ساتھ ریکارڈ روم میں چلتے ہیں۔ ویسے بھوربھن میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ سن کہ روح لرز جائے۔ اب اسی سال کیا ہوا یہ تو ریکارڈ دیکھکر ہی پتہ چلے گا۔ “

کریم دین کہہ کر بیٹھا نہیں بلکہ سفیان سے آگے آگے ریکارڈ روم کی طرف چل نکلا۔ روم کا تالہ کھولا اور سفیان کو اندر آنے کی دعوت دی۔ ریکارڈ روم تھا یا کوئی کباڑ خانہ۔ سفیان کو تو کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ صاحب جی آپ باہر رہیں، میں سن ۱۹۸۹ کی فائل لیکر آپ کہ پاس آتا ہوں۔ کریم دین نے سفیان کو دیکھتے ہی دہائی دی۔
سفیان فقط سر ہلا کر باہر نکل گیا۔
کچھ ہی وقت گزرا ہو گا کہ بوڑھا کریم دین پورے سال کی گرد سے اٹی فائلیں اٹھاۓ سفیان کہ پاس پہنچ گیا۔ جلد ہی فائلوں پر سی مٹی جھاڑی گئی اور ان کی ورق گردانی کا آغاز ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کن سوچوں میں گم ہو۔ پیاری امراؤ جان؟”
امراؤ جو اپنے ماضی میں کھوئی ہوئی تھی اس پرسرار اور جانی پہچانی آواز پہ بوکھلا کہ اٹھ بیٹھی۔ سامنے گل رخ سفید کفن پہنے کھڑی تھی۔ اتنا تو امراؤ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ جب بھی وہ امراؤ کہ سامنے ایسے حلیے میں آتی تھی اگلے دن امراؤ بے ہوش پائی جاتی اور کسی لڑکی کا قتل ہو چکا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر خضر منان کہ توسط سے جو اسے اب تک معلوم پڑا تھا وہ یہی تھا کہ واسطہ یا بلواسطہ امراؤ کا دونوں اموات سے تعلق ثابت ہوتا ہے۔ کہیں یہ گل رخ اس کہ جسم پہ حاوی ہو کر اسی سے تو قتل نہیں کروا رھی؟ مطلب میں اب قاتل بن چکی ہوں۔ وہ بھی دو معصوم لڑکیوں کی؟

“کک کیا بگاڑا ہے میں نے تمھارا؟ یا ان دونوں نے جنہیں تم نے میری توسط سے مار ڈالا؟ کیوں پیچھے پڑی ہو میرے؟ کب جان چھوڑو گی میری تم؟ “
امراؤ کہ اندر جو لاوا پچھلے دنوں سے پک رھا تھا وہ بلآخر پھٹ پڑا تھا۔
“تمھارے انھی سوالات کا جواب دینے آئی ہوں میں یہاں۔ بس تین قتل اور کرنے ہیں تمھیں۔ اس کہ بعد تم آزاد ہو۔۔۔۔ اور میں بھی۔۔۔۔۔!!!!”
آخری فقرہ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔
“تت تم مر چکی ہو نا؟”
امراؤ نے اپنے اندر کب سے پنپتے سوال کو آواز سے نوازا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان اب تک تین سگریٹ پی چکا تھا۔ اس کا عملہ تیزی سے کام کر رھا تھا۔ زمین پہ صفحوں کا انبار سا لگا تھا۔ اس سال چھوٹی موٹی چوریاں ہوئی تھیں۔ یا کوئی پل پر سے گر کر مرا تھا۔ کچھ بھی ایسا قابلِ ذکر واقعہ نہیں مل رھا تھا۔ سفیان اب بری طرح جھنجھلایا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ خضر کو فون ملا کر امراؤ کی کوئی اپ ڈیٹ لیتا ۔ کریم دین نے ایک صفحہ اس کی جانب لہراتے ہوئے جوش سے کہا۔
“مل گیا سر جی۔”

سفیان نے موبائل نیچے کیا اور جھپٹ کہ صفحہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ وہ بوسیدہ سی کوئی ایف۔آئی۔آر تھی۔ سفیان کو سب واضح تو نہیں دکھائی دیا ہاں اتنا پتہ لگ رھا تھا کہ بھوربھن گرلز ہاسٹل میں ہوئی کسی لڑکی کی موت کی ایف آئی آر تھی۔ اور موت کی وجہ میں چھری سے گلا کاٹ کر خود کشی کرنا لکھا تھا۔ مقتولہ کہ نام والے خانے میں مٹا مٹا سا “گل رخ” لکھا تھا۔

مطلب گل رخ نامی لڑکی نے خود کشی کی تھی۔ اس میں گل رخ کہ ہاتھ سے لکھے گئے آخری خط میں نامزد کی گئی لڑکیوں کہ نام تھے۔ جن کہ رویے سے تنگ آکر اس نے خود کشی کی تھی۔ جوں جوں سفیان نام پڑتا گیا اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی گئیں۔کیونکہ دو وہی نام تھے جو قتل ہوئی لڑکیوں کی ماؤں کہ تھے۔ مطلب سفیان ٹھیک سمجھا تھا۔ یہ سب کچھ بدلہ لینے کہ لیے کیا جا رھا تھا۔ یہ سب کر کون رھا تھا؟ گل رخ نےتو خود کشی کر لی تھی۔ پھر کون اس کی جگہ بدلہ لے رھا ہے؟ امراؤ؟ امراؤ کا گل رخ سے کیا تعلق؟

نامزد لڑکیوں میں سے دو کی بیٹیاں قتل ہو چکی تھیں۔ اگلی لڑکی کی بیٹی ممکنہ شکار تھی۔ اسے ہر حال میں بچانا تھا۔ سفیان نے اسکا نام نکلوایا اور ہاسٹل انتظامیہ کو بھجوایا تاکہ اس 1989میں پڑھنے والی اس لڑکی کا ریکارڈ نکلوایا جا سکے۔ شک کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔ سب امراؤ کر رھی تھی یا اس سے کروایا جا رھا تھا۔ وہی اسے اگلے شکار تک لے کر جا سکتی تھی۔ اسے روکنا ضروری تھا۔ یہ سب سوچتے ہوئے سفیان نے پولیس وین نکلوائی اور ہسپتال کی جانب نکل کھڑا ہوا۔ وہ امراؤ کی لوکیشن ٹریک کر رھا تھا۔

 کیونکہ ڈاکٹر خضر منان کہ ذریعے اس نے امراؤ کہ بازو میں ٹریکر نصب کروا دیا تھا۔ اور امراؤ کو لگتا تھا کہ کہ وہ کینولا اتار کر لگائی گئی ٹیپ ہے۔ جس کہ نیچے در حقیقت ٹریکر چھپا تھا۔ سفیان نے وین کا رخ آدھے راستے سے بدلوا لیا۔ کیونکہ ٹریکر کہ مطابق امراؤ بھوربھن گاؤں کی جانب اپنے اگلے شکار کو ختم کرنے کہ لیے تیزی سے بڑھ رھی تھی!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے