ڈاکٹر خضر منان کو آج بڑے دنوں بعد ہسپتال میں ڈیوڈ کہ نام والی بوسیدہ سی جیکٹ پہنے وہی پرسرار سا آدمی دکھائی دیا تھا۔ ابھی کچھ وقت پہلے ہی اسے سفیان کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پہ بھوربھن گاؤں کی جانب ایک جگہ پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسے ایمبولینس میں آنے کا کہا گیا تھا۔ مطلب کچھ بہت بڑا بہت خطرناک ہو چکا تھا یا ہونے جا رھا تھا۔ وہ جلدی میں نکل رھا تھا جب ہسپتال کہ گیٹ پہ اسکی ملاقات پرسرار آدمی سے ہوئی۔ خضر اب اس سے کوئی سوال نہیں کرتا تھا۔ یہانتکہ اس نے ابھی تک اسکا اصل نام بھی معلوم نہیں کیا تھا۔
ڈیوڈ اسکی بوسیدہ جیکٹ پہ تحریر تھا لہذا اس نے اس کا یہی نام رکھ دیا۔ نجانے اس کا اصل نام ڈیوڈ ہی تھا یا کچھ اور؟ خیر ابھی یہ بحث فضول تھی۔ خضر نے یہ سوال کسی اور وقت کہ لیے رکھ چھوڑا تھا۔ خضر حتی المقدور اسے نظر انداز کرتا باہر تیار کھڑی ایمبولینس کا اگلا دروازہ کھول کہ بیٹھ گیا۔ اور یہ اندازہ لگانے میں ذرہ برابر بھی دیر نہ لگی تھی کہ ممکنہ ڈیوڈ ایمبولینس کا پچھلا دروازہ کھول کہ اندر بیٹھ چکا ہے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک تھا لہذا خضر نے اس سے کوئی سوال جواب کرنا مناسب نہ سمجھا تھا۔ ایک طرح سے اچھا ہی تھا یہ کسی کام ہی آجاتا ۔ اور اسی بہانے اس کی “صلاحیتوں” کا امتحان بھی ہو جاتا۔ خضر نے سوچتے ہوئے کندھے اچکائے۔
ابھی وہ بھوربھن جانے والے راستے ہہ پہنچے ہی تھے کہ پولیس وین تیزی سے ایک راستے کی جناب رواں دواں دکھائی دی۔
خضر جو سفیان سے فون پہ رابطے میں تھا، نے ڈرائیور کو وین کہ پیچھے ایمبولینس لگانے کا حکم صادر کیا۔ ابھی وہ تھوڑا سا ہی آگے گئے ہوں گے کہ نجانے کیسے ایمبولینس جھٹکا کھا کہ رک گئی۔ ڈرائیور نے اسے اسٹارٹ کرنے کی ناکام کوششیں کی لیکن سب بے سود۔ اس نے اتر کر اسے چیک کیا۔ سب ٹھیک تھا لیکن ایمبولینس اسٹارٹ نہیں ہو رھی تھی۔ خضر کو نجانے کیوں خطرے کی بو آرھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ سفیان اکیلا ہی نکلا ہو گا۔ وہاں امراؤ بھی تھی۔ دونوں کی جانوں کو خطرہ لاحق تھا۔ خضر کہ کاتھ پیر پھول رھے تھے۔ اب تک تو سفیان وہاں پہنچ بھی چکا ہوگا۔ نجانے وہاں کیا ہو رھا ہوگا؟
ابھی وہ یہی سب سوچ رھا تھا کہ پیچھے سے ڈیوڈ نکل کر گاڑی کہ سامنے آیا۔ اور ڈرائیور کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ کر خود اس کا معائنہ کرنے لگا۔ اس نے ڈرائیور کو ہاتھ سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا اشارہ کیا اور حیرت انگیز طور پر گاڑی یکدم اسٹارٹ ہو گئی۔ خضر نے احتیاطاً اپنے ساتھ دو ٹارچ رکھ لی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ گھپ اندھیرے میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ سفیان سے اب فون پہ رابطہ نہیں ہو رھا تھا۔ شاید یہاں سگنلز کا مسئلہ تھا۔ اب وہ کیسے اس تک پہنچے گے؟ پولیس وین بھی کہیں دکھائی نہیں دے رھی تھی۔ خضر کوہول اٹھ رھے تھے۔ اس نے گاڑی رکوا دی اور خود ہاتھ میں ٹارچ لیے نیچے اتر گیا۔ اسے سفیان تک ہر حال میں پہنچنا تھا۔ اس کی چھٹی حس بار بار کسی خطرے کا الارم بجا رھی تھی۔ وہ اور ڈیوڈ ہاتھ میں ٹارچ لیے اب سفیان کی تلاش میں پیدل ہی سرگرداں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھوربھن گاؤں سے تھوڑا دور کا علاقہ تھا۔ چٹیل میدان تھا۔ آگے گہری کھائی تھی اور سامنے سبزے سے لدے اونچے نیچے پہاڑ۔ رات کی تاریکی اپنے پر پھیلا رھی تھی۔ چاند بھی اپنی منزلیں تیزی سے عبور کرتا دکھائی دے رھا تھا۔ پولیس وین کو سفیان نے احتیاطاً کافی فاصلے پہ روکا تھا۔ وین سے سفیان تبریز برآمد ہوا۔ اس نے سفید رنگ کی شرٹ پہنی تھی اور نیچے خاکی دھاری دھار ٹراؤزر۔ شرٹ کہ اوپر بغیر بازؤں والی کالی جیکٹ تھی، ٹراؤزر کہ پیچھے ایک جانب وائرلیس سیٹ اڑسا ہوا تھا جبکہ دوسری جانب حکومت کی طرف سے دیا جانے والا پسٹل! وہ پسٹل ہاتھ میں پکڑتے احتیاط سے اس سائے کی پیروی میں قدم اٹھاتا گیا جو دھیرے دھیرے کھائی کی جانب بڑھ رھا تھا۔ درمیان میں درختوں کی ایک قطار تھی لہذا پولیس وین سائے کی نظروں کہ حصار سے اوجھل تھیں۔ سفیان قصداً اپنے ساتھ کسی سپائی وغیرہ کو نہیں لایا تھا۔ وہ اکیلا ہی ڈرائیور کہ ساتھ آیا تھا۔ وہ خطروں کا کھلاڑی مشہور تھا۔ اسی لیے یہ اس کہ لیے کوئی بڑی بات نہیں تھا۔ لیکن تب وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پہلے اس کا مقابلہ انسانوں سے ہوتا آیا تھا آج اس کہ مدِمقابل کوئی انسان نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیدا کی گئی کوئی دوسری مخلوق تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل میں امراؤ کہ غائب ہونے کہ چہمگوئیاں عروج پر تھیں۔ ابھی تک بات میڈیا تک نہیں پہنچی تھی۔ گاؤں اور گرد و نواح میں لڑکی کہ قتل کہ چرچے زور و شور سے جاری تھی۔ ایک بار پہلے بھی بھوربھن اور گرد و نواح اسی انجانے اور اندیکھے ڈر کہ زیرِ اثر آچکے تھے جس سے کچھ عرصہ پہلے وہ نبردآزما ہوئے تھے۔ جب کیتھرین کہ ظلم وستم کا شکار معصوم لوگوں کی کٹی پٹھی لاشیں ملتی تھیں۔ ہاسٹل و کالج کی جانب کوئی منہ نہیں کرتا تھا۔ یہ تو کالج کہ سربراہ برطانوی نژاد مائیکل کلارک کی کوششوں کا ثمر تھا کہ اس کہ ادارے نے پھر سے کام شروع کر دیا تھا۔ وہ وہاں کا واحد گرلز کالج و ہاسٹل تھا۔ لہذا والدین کو بھی اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کہ لیے یہ خطرہ مول لینا ہی پڑتا تھا۔
خیر سے کچھ دنوں تک امن و سکون سے وقت گزر رھا تھا کہ اچانک سے یکے بعدیگرے دو لڑکیوں کی دل دہلا دینے والی موت سے جیسے گاؤں والوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ابھی کلاسز کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا کہ کچھ والدین اپنے بیٹیوں کو ہاسٹل سے واپس لینے پہنچ گئے۔ حالانکہ بظاہر تو دونوں قتل ہاسٹل و کالج سے دور کہ علاقے میں ہوئے تھے لیکن دونوں لڑکیوں کا تعلق تو بہرحال کالج و ہاسٹل سے ضرور تھا۔ یہی چیز والدین و دیگر میں تشویش کا باعث بنی تھی۔ غرضیکہ پورا بھوربھن کا علاقہ ہی سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مائیکل کلارک جو ایک اہم حکومتی عہدے پہ بھی فائز رہ چکے تھے کہ بہت اوپر تک تعلقات تھے۔ تبھی ابھی تک ان کا کالج و ہاسٹل سست روی سے ہی سہی بہرحال چل تو رھا تھا۔ لیکن ابھی انھیں یہاں تعینات نئے پولیس افسر کی بابت پتہ لگا تھا۔ جو کسی کی نہیں سنتا تھا۔ اپنی من مانی کرنے والا۔ ایک وہی تھا جو ان کہ لیے پریشانی کا باعث بن رھا تھا اور آگے جا کر بھی مزید پریشانی کھڑی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
پہلی قتل ہونے والی لڑکی طاہرہ منیر کی والدہ ساجدہ بیگم جو پیشے کہ اعتبار سے جج تھیں پہلے پہل تو اپنی بیٹی کہ قاتل کو تختۂ دار پہ لٹکانے کہ لیے بہت متحرک نظر آرھی تھیں۔ لیکن نجانے کیوں یکدم ہی انھوں نے گہری چپ سادھ لی تھی؟ مائیکل کلارک کی جانب سے ان پہ دباؤ تو ڈالا گیا تھا لیکن بہرحال وہ بھی کوئی عام عورت تو تھیں نہیں کہ یوں اس کہ دباؤ میں آجاتی اور اپنی اکلوتی سگی اولاد کا بے دردی سے کیا گیا خون معاف کر دیتیں۔ اسی لیے ایسی باثر و باختیار خاتون کا چپ سادھ لینا جہاں سفیان کو کھلتا تھا وہیں مائیکل کلارک کہ لیے بھی لمحہ فکریہ تھا۔ لیکن جو بھی تھا مائیکل کلارک تو فی الحال مطمئن تھے کہ بلا چاھے چند دنوں کہ لیے ہی سہی ٹلی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ساجدہ بیگم نے چپ سادھ لی تھی وہیں ردا فاطمہ کہ گھر والوں نے بھی کوئی واہویلا نہیں کیا تھا۔ ردا فاطمہ کی والدہ بھی ساجدہ بیگم ہی کی طرح بھوربھن گرلز کالج و ہاسٹل سے فارغ التحصیل طالبات میں شامل تھیں۔ دونوں کی گہری دوستی بھی تیرھویں جماعت میں ہوئی تھیں۔ دونوں ہاسٹل کا کمرہ بھی شئیر کرتی تھیں۔ اور اپنی بیٹیوں کی طرح ہی ایک دوسرے پہ جان چھڑکنے والی دوستیں مشہور تھیں۔ یہ بات حیران کن تھی کہ انھی دو لڑکیوں کا قتل کیوں ہوا جن کہ مائیں بھی گہری دوست تھیں۔ اور وہ بھی اسی کالج سے تعلیم یافتہ تھیں؟ سفیان تبریز نے جب سن 1989میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی لسٹ نکلوائی تو حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اس سال تعلیم حاصل کرنے والوں میں ساجدہ بیگم اور ردا فاطمہ کی ماں عنایت بیگم کا نام بھی شامل تھا۔ مطلب جو بھی تھا سن 1989میں ہی ہوا تھا۔
گل رخ کہ آخری خط میں بھی ان کو نامزد کیا گیا تھا۔ مطلب صاف تھا۔ کچھ ایسا کام تو لڑکیوں کی ماؤں نے اپنے دور میں ضرور کیا تھا جسکا خمیازہ ان کی اولادوں کو بھگتنا پڑا۔ تبھی ساجدہ بیگم اور عنایت بیگم نے گہری چپ سادھ لی تھی۔ مطلب وہ بھی معاملے کی تہہ تک پہنچ چکی تھیں۔ تیسری جس عورت کا نام نامزد کیا گیا تھا وہ تھی شکیلا بیگم۔ تحقیقات کہ بعد یہ بات واضح ہوئی کہ شکیلا بیگم کی بیٹی نے میٹرک کا امتحان کر رکھا تھا اس نے اگے کی پڑھائی ترک کر دی تھی۔ لہذا اب اسکی شادی رچانے کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ آج کی رات اسکی مہندی تھی۔ ایک اور عورت کا نام بھی آخری خط میں تھا لیکن وہ بد قسمتی سے واضح نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان نے دیکھا کہ وہ سایہ کھائی کہ بلکل پاس جاکہ رک گیا ہے۔ چاند کی دودھیا روشنی جب اس کہ سراپے پہ پڑی تو سفیان بھی دھک سے رہ گیا۔ وہ تو کوئی مہندی کی دلہن تھی۔ جس نے پیلے رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ پیلا مہندی والا دوپٹہ اپنے اردگرد اچھے سے لپیٹ رکھا تھا۔ ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ جس میں نجانے کیا سامان بھرا ہوا تھا؟ وہ لرزتی کانپتی وہاں کھڑی جیسے کسی کا انتظار کر رھی تھی۔ امراؤ تو وہاں کہیں نہیں تھی۔
اس لڑکی نے موتیے کہ پھول والے گجرے دونوں ہاتھوں میں پہن رکھے تھے۔ صاف لگ رھا تھا کہ وہ اپنی مہندی کی رسم چھوڑ کر یہاں پہنچی ہے۔ لیکن وہ یہاں کر کیا رھی تھی؟ کوئی بھی لڑکی اپنی شادی چھوڑ کر اس ویرانے میں کیا لینے آۓ گی۔ ابھی سفیان اس سے چند ہی قدم دور تھا کہ اس نے گھوم کر اس کی جانب دیکھا۔
“آ گئے تم سلیم۔ بہت انتظار کروایا تم نے۔ جانتے بھی ہو تم کہ کتنی مشکلوں سے اپنی شادی چھوڑ کر تمھارے لیے گھر سے بھاگ کر آئی ہوں۔ اور تم ہو کہ وقت پہ پہنچ بھی نہ سکے۔ “
اس نے سفیان کو دیکھتے ہی ایک ہی سانس میں گلہ کیا۔
“سلیم۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟ محترمہ کون ہیں آپ اور یہاں اس وقت اس ویرانے میں کیا کر رھی ہیں؟”
سفیان نے اسے دیکھتے ہی پسٹل واپس ڈالا اور حیرانگی سے استفسار کرنے لگا۔ خضر اور ڈیوڈ اسے ڈھونڈتے ہوئے نجانے کہاں نکل گئے تھے۔
“کک کون ہو تم؟ اور اور سلیم کہاں ہے؟ کیا کیا ہے تم نے میرے سلیم کہ ساتھ؟ تمھیں۔۔۔۔۔ تمھیں۔۔۔۔۔۔۔ آغا جان نے تو نہیں بھیجا ؟ ہاں؟ سچ سچ بتاؤ مجھے؟”
اس نے قدم قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تھا۔
“اوہ محترمہ! کہاں جا رھی ہو تم؟ ذرا سا پاؤں سرکا تو اوپر پہنچ جاؤ گی۔ سیدھا۔۔۔۔!!!!!”
سفیان نے اس کو گھورتے ہوئے غصے سے کہا تھا۔
اب وہ ڈری سہمی سی ایک جانب کھڑی تھی۔
سفیان کو ایک لمحہ لگا کہانی سمجھنے میں۔ یہ لڑکی یقیناً اپنی شادی چھوڑ کر کسی سلیم کو ملنے کہ لیے آئی تھی۔ اور سلیم نے یا تو اسے دھوکا دیا تھا یا ابھی تک پہنچا نہیں تھا۔
“وہ ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ سلیم سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔ اس نے مجھے یہاں بلوایا تھا۔ اور اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ نجانے وہ کہاں رہ گیا ہے؟؟؟؟؟”
سفیان اس کی کہانی میں کھو سا گیا تھا۔ ٹریکر نے یہیں کی اطلاع دی تھی۔ وہ ٹریکر گاڑی میں چھوڑ آیا تھا اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ وہ اس سے بات کرنے کہ دوران مسلسل ادھر ادھر دیکھ رھا تھا۔ امراؤ کو ڈھونڈ رھا تھا۔ لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔ نجانے یہ پاگل لڑکی کہاں غائب ہو گئی ہے؟ یقیناً ہمیں دیکھکر کہیں چھپ کر بیٹھ گئی ہوگی۔ وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر کہ آیا تھا۔ جس ممکنہ لڑکی کا آج قتل ہونا تھا اسکی آج مہندی تھی۔ وہ ہمیشہ قاتل سے ایک قدم آگے رھتا تھا۔ آج بھی یہی ہوتا اگر قاتل کا تعلق بنی نوع انسان سے ہوتا۔ اور یقیناً یہ وہی لڑکی تھی۔ شکر ہے کہ ابھی تک یہ محفوظ ہے اور امراؤ اس تک نہیں پہنچی۔ صد شکر کہ سفیان نے پھرتی دکھائی۔ اسے بے اختیار خود پہ فخر محسوس ہوا تھا۔
ابھی سفیان اسی سے باتوں میں مگن تھا کہ اسے کھائی سے دور کسی کی چیخ سنائی دی۔ یہ ایک نسوانی چیخ تھی۔ رات کہ اندھیرے میں سنائی دی جانی والی چیخ نے جیسے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا۔ اس چیخ کی گونج دور دور تک سنائی دی۔
“ڈیم اٹ!”
سفیان پسٹل نکالتا چیخ کی سمت بھاگا۔ تو اسے اپنے پیچھے اونچے قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ وہی مہندی کی دلہن اب اونچا اونچا ہنس رھی تھی۔ جیسے سفیان کا مزاق اڑا رھی ہو۔ اس کہ چہرے کی رنگت یکسر بدل چکی تھی۔ وہ لٹھے کی مانند سفید چہرہ تھا۔ اس کا لباس اب وہ پیلا جوڑا نہیں بلکہ سفید کفن تھا۔ اس کہ ہاتھ میں لکڑی کہ لمبے دستے والی چھری تھی۔ جس سے تازہ سرخ خون زمین پہ تیزی سے گر رھا تھا۔ سفیان کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرھا تھا۔ اس نے بے اختیار پسٹل کا رخ اس کی جانب کیا اور گولی چلا دی۔
لیکن وہ لڑکی اب وہاں تھی ہی نہیں۔ بلکہ اس کہ پیچھے کھڑی تھی۔ اس نے دائیں بائیں ویرانے میں دیکھا کوئی بھی نہیں تھا۔ اسے اپنے پیچھے سے سسکیوں کی اواز سنائی دی۔ وہ پیچھے مڑا تو چھری کا رخ اس کی جانب کیے وہ وہی تھی۔ اس کی آنکھیں باہر ابل رھی تھیں۔ ناک کہ نتھنوں کو روئی دیکر بند کیا گیا تھا۔ وہ کیا عجیب چیز تھی؟ ایسی ویرانی اور پرسراریت تو اس نے آج تک کسی کہ چہرے پہ نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ فقط مُردوں کہ۔۔۔۔۔!!!!!!
یہ سوچتے ہی وہ جیسے اندر تک دہل گیا تھا۔ اس کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ وہاں سے غائب ہو چکی تھی۔ اور سفیان کو لگا کہ جیسے اسکی جانب بھی اسی کہ ساتھ نکل گئی ہو۔
اُدھر گولی کی آواز سنتے ہی خضر اور ڈیوڈ نے بھی سمت کا تعین کرتے دوڑے چلے آۓ۔
سفیان نے بھی فوراً چیخ کی سمت دوڑ لگا دی۔ جوں جوں وہ بھاگ رھا تھا اس کہ پیچھے آنے والی قہقہوں کی آوازیں تیز سے تیز ترین ہوتی جا رھی تھیں۔ یہ کوئی چھلاوا تھا یا کوئی بد روح تھی یا کوئی چڑیل۔ کیا تھی یہ؟
بلآخر سفیان وہاں تک پہنچ ہی گیا۔ وہاں امراؤ ہسپتال والے لباس میں آڑھی ترچھی سی بے ہوش پڑی تھی۔ اس کا لباس خون سے لال تھا۔ تازہ سرخ خون۔
وہ امراؤ کہ پاس گھٹنوں کہ بل بیٹھ گیا تھا۔ اسے خضر پہ رہ رہ کر غصہ آرھا تھا۔ جو نجانے کہاں رہ گیا تھا۔ اس نے امراؤ کی سانسیں چیک کی۔ وہ زندہ تھی۔ لیکن اس کی سانس رک رک کر آرھی تھی۔ اس کی حالت خطرے سے خالی نہیں تھی۔ اسے جلد از جلد ابتدائی طبی امداد کی ضرورت تھی۔ اس نے موبائل نکال کر خضر کو کال ملائی لیکن وہ سنگنلز ناپید تھے۔
“ڈیم اٹ!”
کہتے ہوئے ، جھنجھلاۓ ہوئے سفیان تبریز نے موبائل سائیڈ پہ گرایا۔ وہ امراؤ کو ہوش میں لانے کہ جتن کر رھا تھا۔ اس کی وین کا ڈرائیور نہ جانے کہاں رہ گیا تھا۔ اسے یہاں اکیلے آنا ہی نہیں چاھیے تھا۔ وین سے اترتے ہوئے وہ اپنی ٹارچ بھی وہیں بھول آیا۔ اب امراؤ کو یوں چھوڑ کر وہ جا بھی نہیں سکتا تھا۔ کرے تو کیا کرے؟
اتنے میں اسے اپنے پیچھے سے کسی کہ دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ آنے والوں کہ ہاتھ میں ٹارچ بھی تھی۔ وہ روشنی سفیان کہ چہرے پہ مار رھے تھے۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے غور کیا تو وہ خضر تھا اور اس کہ ساتھ کوئی اور پرسرار سے حلیے والا شخص تھا۔
“یہ کون ہے؟ شاید ایمبولینس کا ڈرائیور ہوگا۔ “
اس نے خود سے سوچا تھا۔
“کہاں رہ گئے تھے تم یار؟ اب پہنچ رھے ہو؟”
سفیان نے خضر کو دیکھتے ہی بگڑتے ہوئے کہا تھا۔ اور خضر اپنی جگہ جوں کا توں کھڑا تھا۔
اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں جیسے باہر نکل آنے کو بیتاب تھیں۔
سفیان امراؤ کہ پاس پنجوں کہ بل بیٹھا تھا۔ “تم میری بات سن بھی رھے ہو یا نہیں خضر؟”
سفیان نے اب خضر کی جانب رخ موڑ کر اٹھنا چاھا۔ لیکن اس پرسرار شخص کی بات سنکر وہیں بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔
“ہلنا مت! بیٹھے رہو۔”
اس کی آواز میں بلا کا رعب تھا۔ جو مد مقابل کو مسحور کر دیتا تھا۔ جکڑ لیتا تھا۔ اپنے حصار میں باندھ لیتا تھا۔ یہی سب ابھی سفیان کہ ساتھ بھی ہوا تھا۔ وہ اپنی جگہ بیٹھا کسما رھا تھا۔
“سفیان ۔۔۔۔ ڈونٹ۔۔۔۔۔۔ موو۔۔۔۔!!!”
اب کی بار خضر نے ہاتھ کہ اشارے سے اسے وہیں رکے رھنے کا کہا تھا۔ اور وہ یوں بیٹھا تھا کہ جیسے ابھی ہلا تو اس کہ سر پہ بیٹھا کبوتر بھک سے اڑ جائے گا۔ دور کہیں اسے دل میں پہلی بار ہلکا سا خوف محسوس ہوا تھا۔ خضر کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ بلا خوف و خطر اگر کوئی اپنی جگہ کھڑا تھا تو وہ پرسرار شخص تھا۔
سفیان نے اپنی پر تجاس طبیعت کہ ہاتھوں مجبور ہو کر ہلکا سا اوپر دیکھا تو دیکھ کر اندر تک کانپ گیا۔ وہی لڑکی جو اسے ابھی تھوڑی دیر پہلے دکھائی دی تھی اسی سفید کفن میں اس کہ عین اوپر خلا میں معلق تھی۔ اس کہ ہاتھ میں وہی لکڑی کی لمبے دستے والی چھری تھی۔ اور اس نے وہ چھری اب سفیان کہ سر پہ تان رکھی تھی۔ جیسے ابھی اس کہ سر کہ دو ٹکڑے کر ڈالے گی۔ بلکل اسی طرح اس نے ردا فاطمہ کہ سر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہوگا۔ سفیان نے بے اختیار سوچا تھا۔ اور یہ سوچتے ہی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ چکی تھی۔ ابھی وہ یہی سب دیکھ رھا تھا کہ اس پرسرار شخص کی آواز نے فضا میں گونج پیدا کی۔
“اسے مارنے سے تمھارا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ تم یہ سب کسی انتقام کہ لیے کر رھی ہو۔ مجھ سے بات کرو۔ میں تمھارا انتقام لینے میں تمھاری مدد کروں گا۔ اسے چھوڑ دو۔”
وہ خلا میں معلق اس روح سے بات کر رھا تھا۔ سفیان کو سب کوئی خواب لگا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے یہ کوئی خواب نہیں تھا۔ وہ واقعی اس وقت چٹیل میدان میں موجود تھا۔ گھپ اندھیرے میں چمکتا واحد چاند۔ سامنے پرسرار سے پہاڑ۔ اور اس کہ عین اوپر خلا میں معلق وہ کفن میں لپٹی عجیب سی لڑکی۔ کسی بھی لمحے ایک ہی وار سے اس کہ سر کہ دو ٹکڑے کر سکتی تھی۔
“نہیں ۔۔۔۔ چھوڑوں ۔۔۔۔۔ گی ۔۔۔۔ اسے ۔۔۔۔ میں۔۔۔!!!!!”
وہ اب دھیرے دھیرے سفیان کہ سر کی جانب چھری لا رھی تھی۔ اس کی آواز کسی مرد کی آواز سے مشابہت رکھتی تھی۔
“مجھے سختی پہ مجبور مت کرو۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو میں تمھیں ایک لمحے میں بھسم کر سکتا ہوں۔”
پرسرار سا شخص اب سختی پہ اتر آیا تھا۔ اس کا انداز جارحانہ تھا۔
“ تم مجھ پر وار کرو گے۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ مجھ پر۔۔۔۔۔۔”
وہ اب مزید قہر برسا رھی تھی۔ یہ کہہ کر وہ رکی نہیں اور سفیان نے دیکھا کہ آن کہ آن میں وہ امراؤ کہ جسم میں جیسے پیوست ہو گئی تھی۔ اور امراؤ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔
اب امراؤ سفیان کہ عین سامنے کھڑی تھی۔ اس کی آواز وہی تھی جو اس لڑکی کی آواز تھی۔ لیکن لب امراؤ کہ ہل رھے تھے۔ یہ سب کیا تھا۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سفیان بھی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ لمحوں میں اپنے حواسوں میں واپس آچکا تھا۔ اس نے ایک سیکنڈ کی تاخیر کیے بنا اپنا پسٹل امراؤ پہ تان لیا تھا۔
“نہیں سفیان۔۔۔۔ وہ امراؤ ہے۔۔۔۔ اسے گولی لگ جائے گی۔۔۔۔۔ پاگل پن مت کرو۔۔۔”
خضر نے بیتاب ہوتے ہوئے سفیان کو روکتے ہوئے کہا تھا۔
“ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔!!!!!!”
امراؤ کی درد ناک ہنسی کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آرھی تھی۔
“رک جاؤ لڑکے۔۔۔۔ اس پہ گولی چلانے سے اُسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں وہ لڑکی ضرور مر جائے گی۔”
پہلی بار اس پرسرار آدمی نے سفیان سے براہراستہ کوئی بات کی تھی۔
“مجھے مت بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔”
سفیان بھی اپنی مرضی کا مالک تھا۔ ان کہ کہنے میں کہاں آنے والا تھا۔
اب اس نے پسٹل امراؤ پہ تان لیا تھا۔ اور بنا سوچے سمجھے فائر کر دیا تھا۔ فضا ایک اور فائر کی آواز سے ایک بار پھر لرز اٹھی تھی۔ خضر کہ منہ سے بے ساختہ اونچی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
“ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسوانی قہقہوں کی آواز اب تیز تر ہو چکی تھی۔
(
“کہاں رہ گئے تھے تم یار؟ اب پہنچ رھے ہو؟”
سفیان نے خضر کو دیکھتے ہی بگڑتے ہوئے کہا تھا۔ اور خضر اپنی جگہ جوں کا توں کھڑا تھا۔
اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں جیسے باہر نکل آنے کو بیتاب تھیں۔
سفیان امراؤ کہ پاس پنجوں کہ بل بیٹھا تھا۔ “تم میری بات سن بھی رھے ہو یا نہیں خضر؟”
سفیان نے اب خضر کی جانب رخ موڑ کر اٹھنا چاھا۔ لیکن اس پرسرار شخص کی بات سنکر وہیں بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا۔
“ہلنا مت! بیٹھے رہو۔”
اس کی آواز میں بلا کا رعب تھا۔ جو مد مقابل کو مسحور کر دیتا تھا۔ جکڑ لیتا تھا۔ اپنے حصار میں باندھ لیتا تھا۔ یہی سب ابھی سفیان کہ ساتھ بھی ہوا تھا۔ وہ اپنی جگہ بیٹھا کسما رھا تھا۔
“سفیان ۔۔۔۔ ڈونٹ۔۔۔۔۔۔ موو۔۔۔۔!!!”
اب کی بار خضر نے ہاتھ کہ اشارے سے اسے وہیں رکے رھنے کا کہا تھا۔ اور وہ یوں بیٹھا تھا کہ جیسے ابھی ہلا تو اس کہ سر پہ بیٹھا کبوتر بھک سے اڑ جائے گا۔ دور کہیں اسے دل میں پہلی بار ہلکا سا خوف محسوس ہوا تھا۔ خضر کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ بلا خوف و خطر اگر کوئی اپنی جگہ کھڑا تھا تو وہ پرسرار شخص تھا۔
سفیان نے اپنی پر تجاس طبیعت کہ ہاتھوں مجبور ہو کر ہلکا سا اوپر دیکھا تو دیکھ کر اندر تک کانپ گیا۔ وہی لڑکی جو اسے ابھی تھوڑی دیر پہلے دکھائی دی تھی اسی سفید کفن میں اس کہ عین اوپر خلا میں معلق تھی۔ اس کہ ہاتھ میں وہی لکڑی کی لمبے دستے والی چھری تھی۔ اور اس نے وہ چھری اب سفیان کہ سر پہ تان رکھی تھی۔ جیسے ابھی اس کہ سر کہ دو ٹکڑے کر ڈالے گی۔ بلکل اسی طرح اس نے ردا فاطمہ کہ سر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہوگا۔ سفیان نے بے اختیار سوچا تھا۔ اور یہ سوچتے ہی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ چکی تھی۔ ابھی وہ یہی سب دیکھ رھا تھا کہ اس پرسرار شخص کی آواز نے فضا میں گونج پیدا کی۔
“اسے مارنے سے تمھارا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ تم یہ سب کسی انتقام کہ لیے کر رھی ہو۔ مجھ سے بات کرو۔ میں تمھارا انتقام لینے میں تمھاری مدد کروں گا۔ اسے چھوڑ دو۔”
وہ خلا میں معلق اس روح سے بات کر رھا تھا۔ سفیان کو سب کوئی خواب لگا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے یہ کوئی خواب نہیں تھا۔ وہ واقعی اس وقت چٹیل میدان میں موجود تھا۔ گھپ اندھیرے میں چمکتا واحد چاند۔ سامنے پرسرار سے پہاڑ۔ اور اس کہ عین اوپر خلا میں معلق وہ کفن میں لپٹی عجیب سی لڑکی۔ کسی بھی لمحے ایک ہی وار سے اس کہ سر کہ دو ٹکڑے کر سکتی تھی۔
“نہیں ۔۔۔۔ چھوڑوں ۔۔۔۔۔ گی ۔۔۔۔ اسے ۔۔۔۔ میں۔۔۔!!!!!”
وہ اب دھیرے دھیرے سفیان کہ سر کی جانب چھری لا رھی تھی۔ اس کی آواز کسی مرد کی آواز سے مشابہت رکھتی تھی۔
“مجھے سختی پہ مجبور مت کرو۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو میں تمھیں ایک لمحے میں بھسم کر سکتا ہوں۔”
پرسرار سا شخص اب سختی پہ اتر آیا تھا۔ اس کا انداز جارحانہ تھا۔
“ تم مجھ پر وار کرو گے۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ مجھ پر۔۔۔۔۔۔”
وہ اب مزید قہر برسا رھی تھی۔ یہ کہہ کر وہ رکی نہیں اور سفیان نے دیکھا کہ آن کہ آن میں وہ امراؤ کہ جسم میں جیسے پیوست ہو گئی تھی۔ اور امراؤ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔
اب امراؤ سفیان کہ عین سامنے کھڑی تھی۔ اس کی آواز وہی تھی جو اس لڑکی کی آواز تھی۔ لیکن لب امراؤ کہ ہل رھے تھے۔ یہ سب کیا تھا۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سفیان بھی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ لمحوں میں اپنے حواسوں میں واپس آچکا تھا۔ اس نے ایک سیکنڈ کی تاخیر کیے بنا اپنا پسٹل امراؤ پہ تان لیا تھا۔
“نہیں سفیان۔۔۔۔ وہ امراؤ ہے۔۔۔۔ اسے گولی لگ جائے گی۔۔۔۔۔ پاگل پن مت کرو۔۔۔”
خضر نے بیتاب ہوتے ہوئے سفیان کو روکتے ہوئے کہا تھا۔
“ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔!!!!!!”
امراؤ کی درد ناک ہنسی کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آرھی تھی۔
“رک جاؤ لڑکے۔۔۔۔ اس پہ گولی چلانے سے اُسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں وہ لڑکی ضرور مر جائے گی۔”
پہلی بار اس پرسرار آدمی نے سفیان سے براہراستہ کوئی بات کی تھی۔
“مجھے مت بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔”
سفیان بھی اپنی مرضی کا مالک تھا۔ ان کہ کہنے میں کہاں آنے والا تھا۔
اب اس نے پسٹل امراؤ پہ تان لیا تھا۔ اور بنا سوچے سمجھے فائر کر دیا تھا۔ فضا ایک اور فائر کی آواز سے ایک بار پھر لرز اٹھی تھی۔ خضر کہ منہ سے بے ساختہ اونچی چیخ برآمد ہوئی تھی۔
“ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نسوانی قہقہوں کی آواز اب تیز تر ہو چکی تھی۔
0 تبصرے