فائر کی آواز کافی دیر تک کانوں میں گونجتی رہی تھی۔ اس سناٹے میں ابھری کوئی بھی آواز دیر پااثر رکھتی تھی یہ تو پھر فائر کی آواز تھی۔ خضر نے بے اختیار کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھی۔ جبکہ گل رخ کے قہقہوں سے فضا گونج رہی تھی۔ ادھر ممکنہ ڈیوڈ سفیان کو ساتھ لیے زمین بوس ہوچکا تھا۔جوں ہی سفیان نے فائر کرنے کے لیے ہاتھ بلند کیا اسی لمحے ڈیوڈ نے جست لگا کے سفیان کے اوپر چڑھائی کی اور اسے لیتا ہوا زمین پہ گرا۔ سفیان جیسے ماہر نشانہ باز کا نشانہ خطا ہوا کیونکہ وہ اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھا اور گولی امراؤ کو لگنے کے بجائے ہوا کی نظر ہوئی۔ خضر نے نجانے کب سے اٹکی سانس بحال کی تھی۔ ادھر امراؤ لے جسم پے تسلط قائم کیے ہوئے گل رخ ابھی تک اپنے بد صورت قہقوں سے ماحول میں عجیب سا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ سفیان قدرے جھنجھلایا ہوا تھا۔
یہ کیا بد تمیزی ہے ؟؟
تم نے ان ڈیوٹی پولیس آفیسر پہ چڑھائی کی ہے۔ انجام جانتے ہو اس کا؟
سفیان اب آو دیکھا نہ تاو ڈیوڈ پر چڑھ دوڑنا چاھتا تھا۔وہ تو خضر نے بمشکل بچاو کیا۔ گل رخ اس معصوم لڑکی کی جان چھوڑ دو۔ اس نے تمھارا کیا بگاڑا ہے کیا دشمنی ہے تمھاریاس سے ۔ تم کسی اور کا جسم بھی تو استعمال کرسکتی تھی اپنے مقصد کے لیے تو پھر امراؤ کیوں؟
"امراؤ"! امراؤ ہی تو میرا اصل ہد ہے امراؤ کا کوئی قصور نہیں امراؤ کے باپ کا ہے جو اس کالج و ہاسٹل کا سربراہ ہے۔
" برطانوی نژادمائیکل کلارک"!
اس نے میرے ساتھ ہوئی تمام نہ انصافیوں کو دبایا۔اور مجھے موت کے منہ میں دھکیلا۔ اس کی بیٹی کو اذییت دینا مجھ پہ واجب ہو ہوگیا ہے۔
جہاں ڈیوڈ کا منہ کھلا وہی سفیان اور خضر بھی آنکھیں پھاڑے گل رخ کو دیکھ رہے تھے۔
"تو امراؤ مائیکل کلارک کی بیٹی ہے""""!
سفیان اور خضر نے زیر لب دہرایا۔
" تم چاھتی کیا ہو""
ڈیوڈ نے زچ ہو کہ کہا ۔
"بدلہ""!
"اور کون ہے تمھاری لسٹ میں""!
ممکنہ ڈیوڈ اور امراؤ کے جسم میں مقید گل رخ جیسے وہاں موجود دیگر نفوس کو فراموش کر چکے تھے۔سفیان اب کپڑے جھاڑتا خضر کے پاس آن کھڑا ہوا تھا ۔ "اس کا دماغ تو نہیں خراب؟؟ کس قدر بد لحاظ آدمی ہے تم کیوں اسے برداشت کر رہے ہو۔ چپ کھڑے رہو سفیان وہ جو کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے۔ ہمیں ہر حال میں امراؤ کو بچانا ہے میں اسے کھونا افورڈ نہیں کر سکتا۔ آخری بات خضر نے قدرے جذباتی ہو کر کہی۔ وہ روہانسا ہو چکا تھا۔اس کی بات سنتے ہی سفیان نے کچھ سمجھتے ہوئے سر تا پاؤں اس کا جائزہ لیا اور اسے چھیڑتے ہو بولا"!
" تو بات یہاں تک پہنچ گئی ویسے کب ہوا یہ سب""!
اور خضر اتنے مشکل وقت میں سفیان کے منہ سے ایسی گفتگو کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔
میں تمھارا بدلہ لینے میں تمھاری ہر طرح مدد کروں گا۔ تم امراؤ کو بخش دو۔
"ڈیوڈ نے جیسے آخری پتہ پھینکا تھا""!
مجھے قبول ہے ۔
تم ابھی اس کے جسم کو آزاد کرو اور مجھے بتاو مجھے کیا کرنا ہے۔ ڈیوڈ نے اسے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا۔
" رابعہ ہاسٹل کی دوسری منزل کمرہ نمبر گیارہ بارہ میں دیوار سے لگی الماری میں سارے راز دفن ہیں۔ وہیں آجانا سب پتہ لگ جائے گا۔
امراؤ کے منہ سے آخری الفاظ یہی ادا ہوا تھا اور وہ دھڑم سے زمین پہ گری تھی۔ سفیان اور خضر بھاگ کر اس کی طرف پہنچے مگر وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔خضر نے فورا ڈیوڈ کو ایمبولینس آگے لانے کو کہا ۔اور وہ اور سفیان سٹریچر لینے بھاگے انھیں جلد از جلد امراؤ کو ہسپتال منتقل کرنا تھا۔
اگلے دن سفیان ساجدہ بیگم کے گھر بیٹھا تھا۔جہاں انہوں نے ردا فاطمہ کی والدہ عنایت بیگم اور تیسری لڑکی جمیلہ کی والدہ جمیلہ بیگم کو مدعو کر رکھا تھا۔اکثر ملنا ملانا چلتا رہتا تھا ۔لیکن آج سفیان نے خاص مقصد کے تحت ان کو اکھٹا کیا تھا۔بوسیدہ سی ایف آئی آر میں جو تین نام درج تھے وہ انہیں تین خواتیں کے تھے اور چوتھا نام مٹا ہوا تھا۔چلو تینو سے ملاقات تو کی جائے باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔یہی سوچ کر سفیان وہاں بیٹھا گرم چائے اپنے حلق میں اتار رہا تھا۔
چائے پی کر اب وہ پوری طرح سے ساجدہ بیگم کی طرف متوجہ ہوا۔
" مجھے بتائیے 1989میں ایسا کیا خاص ہوا تھا۔آپ بھی جان گئی ہونگی تب آپ کے جانب سے کی گئی غلطی کی سزا آپ کی بیٹی کو بھگتنی پڑی۔
بیٹی کے ذکر پہ ساجدہ بیگم کی آنکھیں نمناک ہو چکی تھی اور لہجہ غمگین۔
" مجھے کیسے بھول سکتا ہے وہ سال"" وہ بھیانک سال" جس نے آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ""!اور آخر کار میری بیٹی کو کھا کر دم لیا۔
ساجدہ بیگم نے اپنی رواداد کچھ اس طرح سنائی""!
میں نے میٹرک کے بعد انٹر کے لیے بھن گرلز کالج میں ایڈمشن لیا والدین دور تھے لہذا مجھے ہاسٹل کا انتخاب کنا پڑا۔ شروع سے ہی میں شریر مشہور تھی۔ ہر ایک کے ناک میں دم کرنے والی ۔یہاں آکر ہاسٹل میں موجود سنئیر لڑکیوں نے مجھے خوب تنگ کیا۔ جیسے ہر کالج میں ہوتا ہے ۔سنئیرز جونئیرز سے مختلف کام کرواتے ہیں۔ان کی ریگنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ میں تھی تو بہت ہوشیار لکین پھر بھی سنئیرز کے عذاب سے بچ نہیں پائی۔اس وقت میں نے سوچ لیا تھا کہ اپنے جونئیرز کو میں نہیں بخشوں گی۔اپنے سارے بدلے ان سے لوں گی۔اور میں نے اس پہ عمل بھی کیا۔وقت گزرتا گیا پھر رابعہ ہاسٹل جہاں اب فقط انٹر کی طالبات رہائش رکھتی ہیں۔ پہلے وہیں سب لڑکیاں بنا تقسیم کے رہتی تھی۔
میں تب تیرھویں میں تھیں۔ جب مجھے وہ کمر گیارہ بارہ الاٹ ہوا۔میرے ساتھ وہاں عنایت اور شکیلہ بھی تھی۔ہم تینوں کی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔پھر کلاس بھی ایک ہی تھی تو دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔تب بھی ہر کمرے میں بیک وقت چار لڑکیاں رک سکتی تھی۔ ہم تین بڑے آرام سے رہ رہی تھی اور نہیں چاہتی تھ کوئی چوتھی آئے۔ تبھی ہماری قسمت پھوٹی اور گل رخ نامی ایک لڑکی انٹر کی طالبہ ہمارے کمرے میں آگئی۔وہ لیٹ ایڈمیشن تھی اور اس کے لیے کوئی جگہ بھی خالی نہیں تھی ۔لہذا ہمیں چارونا چار اسے اپنے کمرے میں جگہ دینی پڑی۔
لیکن ہم نے بھی تہیہ کرلیا کے اسے ہر حال میں بھگانا ہے۔اور اس کی شروعات ہم نے اول روز سے ہی شروع کر دی تھی۔ ہم نے اسے تنگ کیا یہاں تک کے ٹارچر بھی کیا ۔
ساجدہ بیگم سانس لینے کو رکی ان کی آواز بھیگ رہی تھی۔ ندامت ان کے چہرے سے عیاں تھی ۔
"" فیزیکلی بھی"" اور "" مینٹلی بھی""!!!
عنایت بیگم نے ان کے الفاظ کا اضافہ کیا تھا۔ ہم سارے کام اسی سے کرواتی تھی ۔کپڑے دھونا۔ برتن دھونا۔ کبھی میس کا کھانا پسند نہ آتا تو بھی اسی سے بنواتے ۔
ہمارا یونیفارم بھی وہی استری کرتی تھی ۔
شکیلہ بیگم نے لقمہ دیا۔
سفیان ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے باری باری تینوں خواتین کے چہروں کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہا تھا ٹیپ ریکارڈر سامنے میز پہ پڑا تھا۔ ان کی کہی باتیں لفظ بہ لفظ ریکارڈ ہو رہی تھی۔
""لیکن وہ تھی بڑی عجیب سی ساری ساری رات بیٹھ کر سوچتی رہتی یا پھر روتی رہتی کبھی کبھی تو خلا میں دیکھ کر باتیں بھی کرتی۔ کبھی ہنستی کبھی روتی ۔ بہت عجیب سی تھی ۔ سائیکو سی۔ہر وقت "بابا" "بابا" کی گردان جاری رکھتی۔پڑھائی پہ بلکل دھیان نہیں دیتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے اپنے سر سے اتار کر یہاں پھینک دیا۔ کبھی بھی کوئی اس سے ملنے نہیں آتا تھا۔ بس اس کے ہاسٹل و کالج کی فیس ہی بھری جاتی تھی ۔وہ ہمارے کام کرتی تھی۔تو بدلے میں ہم اسے پانچ روپے دے دیا کرتے تھے۔۔
"شکیلہ بیگم نے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا"۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے اسے تیز بخار تھا وہ نیم بے ہوشی جیسی کیفیت میں تھی بابا بابا بڑبڑا رہی تھی۔اور کہہ رہی تھی میں نے اپنی ماما کو مارا ہے۔ انہوں نے بابا کی جگہ چاچا کو دے دی ہے۔ بابا کو مروانے میں ماما کا بھی ہاتھ ہے ۔بابا میں نے آپ کا بدلہ لے لیا میں نے دونوں کو مار دیا""!
ایسا لگ رہا تھا کوئی اس کے سامنے بیٹھا ہو اور وہ اس سے محو گفتگو ہو ۔اسے کالج اور ہاسٹل میں ہمارے علاوہ کو ئی منہ بھی نہیں لگاتا تھا۔ ہر طرف سے اسے دھتکار ہی ملتی تھی اور تو اور وارڈن بھی اس دور بھاگتی تھی۔ہر جگہ یہ مشہور تھا کہ یہ مرے ہوئے باپ سے باتیں کرتی ہے۔کچھ کے مطابق رو اس کے دادا دادی نے اسے جان بوجھ کر یہاں بھیجا تھا۔ ورنہ اسے چاچا اور ماں کے قتل میں جیل جانا پڑتا۔
آپ لوگوں نے اس کے ساتھ کیا بھیانک کیا کہ اس نے خودکشی کی"؟
""مجھے وہ دن نہیں بھولتا عید کی آمد آمد تھی۔سب لڑکیاں اپنے اپنے گھروں کو جا رہی تھی۔چھٹیوں کی خوشی میں سب ہواؤں میں اڑ رہی تھی سوائے گل رخ کے۔ وہ بہت بے چین تھی اس کے پاس عید کے لیے نہ اچھے کپڑے تھے نہ چھٹیوں میں جانے کے لئے گھر۔ہم نے اسے تنگ کرنے کا پلان بنایا۔ایک بڑے سے ڈبے میں گھاس پھوس بھرا۔ اس کے اوپر اچھا ساکور چڑھایا اور اسکی غیر موجودگی میں اس کے بیڈ پہ رکھ دیا اور اوپر لکھ دیا ۔فار گل رخ فرام یور فادر۔
ہم چھپ کے اس کا انتظار کرنے لگے جوں ہی وہ آئی باکس پہ اپنے باپ کا نام دیکھ کر اس کی دیونگی دیدنی تھی۔پاپا اپکو پتا تھا نہ کہ عید پہ پہنے کو میرے پاس اچھے کپڑے نہیں ہیں۔ آپ نے میرے لیے کپڑے بھیجے میں جانتی ہو اس بھری دنیا میں آپ ہی کو میرا خیال ہے۔باقی سب تو جھوٹے مطلبی ہیں۔
وہ عجیب جنونی ہو رہی تھی اس کے ہاتھ تیز تیز کام کر رہے تھے اس کی حالت دیکھ کر مجھے بھی حیرت کا جھٹکا لگا۔
جوں جوں وہ پیکٹ کھولتی جارہی تھی۔اس کا چہرہ مسرت سے کھل رہا تھا۔ آخر جب اس نے پیکنگ کھول ر اندر ہاتھ ڈالا تو سوائے گھاس پھوس کے اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا اس کی توقعات کا بری طرح خون ہوا۔ ہمارے علاوہ یہ نظارہ کھڑکی سے کافی لڑکیوں نے دیکھا۔سب اس پر ہنس رہے تھے اس کا چہرہ بری طرح اترا ہوا تھا ۔اس وقت وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہی تھی۔اس نے آنکھوں میں شعلے بھرتے ہوئے سب کی طرف دیکھا۔
مجھے لگتا ہے میرا باپ میرے ساتھ ہے۔پر آج معلوم پڑا میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اپنے ماں باپ سے ملکر اپنے سوالات کے جواب حاصل کر سکوں۔اور تم تینوں کو میں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔ تمھارے ساتھ وہ ہوگا جسکا تم نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوگا۔ آج تم لوگوں نے مجھ سے میرے جینے کی وجہ میرے جینے کی آخری امید بھی چھین لی۔ مجھے یہ بتا دیا میرا باپ واقعی مر چکا ہے۔
" اس نے یہ سب سنا کر دروازہ ہمارے منہ پہ مارا تھا۔خود کو اندر مقید کرلیا تھا۔ ہم تینوں یہ بھی اس کا نفسیاتی حربہ سمجھ کر اسے وہی چھوڑ کر نیچے آگئے۔ ہمیں اپنے گھر جانا تھا وہی خوشی سر چڑھی ہوئی تھی ہمیں نہیں پتا اس کے ساتھ کیا ہوا۔ یا اس نے اپنے ساتھ کیا کیا۔ ہاں جب سارے کمرے خالی ہوگئے ۔ اور کمرہ نمبر گیارہ بارہ کا دروازہ نہیں کھلا تو چوکیداروں نے اسے تیسرے دن توڑا تو اس کی بدبو دار لاش پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی۔ یہ کہتے ہی ساجدہ بیگم نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ایک فسوں تھا جو ٹوٹا تھا۔ سفیان کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوئے محسوس ہوئے۔
پھر یقینأ ایف آئی آر درج کروائی گئی ہوگی ۔ لیکن مائکل کلارک کی وجہ سے وہ صرف فائلوں میں دبی رہ گئی۔ سفیان نے خود سے کہانی کو اختتام سے نوازا تھا۔
" بلکل ایسا ہی ہوا تھا""! ایف آئی آر تو درج ہوئی تھی پولیس کو اس کا اخری خط بھی ملا تھا ۔جس میں ہمارے نام تھے لیکن اس کے پیچھے آنے والا کوئی نہیں تھا۔ لہذا سب بوسیدہ فائلوں کی نظر ہوگیا۔
شکیلہ بیگم نے بات پوری کی ۔
" اس ایف آئی آر میں چوتھا نام کس کا تھا ""!
سفیان نے کچھ سوچتے ہوئے باری باری تینوں نفوس کے جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
اس پر تینوں خواتین گڑبڑا گئی ۔ بے اختیار ان کے چہروں کے زاویے بدلے۔
وہ____ وہ ______تب جو ہاسٹل کی وارڈن تھی۔
ساجدہ بیگم نے نہایت سوچ سوچ کر کہا تھا
"کون تھی وارڈن ؛؛ سفیان نے دو ٹوک انداز میں پوچھا تھا۔
" کیتھرین ڈسوزا""!
تینوں نے یک زبان ہو کر کہا تھا ۔ ان کے لہجوں میں کچھ عجیب سا خوف تھا۔ جو سفیان کی سمجھ سے فی الوقت بالا تر تھا ۔ "اوہ" شاید یہی نام تھا ایف آئی آر میں بھی اس نے یہ کہتے ہی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور اس آیف آئی آر کی تصویر دیکھی تصویر کو زوم کیا تو وہ مٹا مٹا سا نام کیتھ ____سوزا____ لکھا ہوا تھا۔مطلب یہ کیتھرین ڈسوزا ہی ہے۔ سفیان نے زیرلب دہرایا۔
امراؤ اگلے دن حشاش بشاش تھی ۔ پچھلے دن کی تھکاوٹ سے وہ آذاد نظر آرہی تھی۔ ڈاکٹر خضر جلد ہی باقی مریضوں سے فارغ ہو کر اب امراؤ کے بستر کے پاس کھڑے تھے ۔
اسے دیکھ کر انہیں جہاں خوشی ہوئی۔ وہی اس کے والد کا سوچ کر ایک سی عجیب تشویش نے گھیرا۔
"" امراؤ کو اس کے والد کے بارے میں کیسے بتایا جائے۔ ۔ ۔
ڈاکٹر خضر منان تب سے یہی سوچے جارہے تھے۔
اس سے پہلے وہ امراؤ سے کچھ کہتے وارڈ بوائے نے آکر اطلاع دی کے کوئی پیشنٹ امراؤ سے ملنے آئے۔ ڈاکٹر خضر اٹھ کر باہر چلے گئے۔ وہ یہ ضرور دیکھنا چاھتے تھے کہ کون وہ صاحب ہے جو امراؤ سے ملنا چاھتے ہیں۔ ابھی وہ دروازے پر ہی پہنچے تھے کہ ٹو پیس سوٹ پہنے انہیں ایک انگریز درمیانی عمر کا آدمی کھڑا اپنی گھڑی پہ وقت دیکھ رہا تھا۔ایک ٹانگ بھی مسلسل ہلا رہا تھا۔جیسے اس کا وقت بہت قیمتی ہو یااسے کہیں اور بھی جانے کی جلدی ہو۔ یہ یقینا پروفیسر مائیکل کلارک ہوں گے۔ یعنی بھور بھن کالج و ہاسٹل کہ منتظم اعلی۔ یعنی امراؤ جان کے والد محترم ۔
ڈاکٹر نے ان سے مصافحہ کیا۔ امراؤ کی صحت کے بارے میں بتایا ۔ ابھی وہ کچھ اور کہنا ہی چاہ رہے تھے۔ کہ ہاسٹل کی وارڈن وہاں برامد ہوئیں۔ انہوں نے نیلے رنگ کے لباس کے اوپر
لانگ کوٹ پہن رکھا تھا۔
ہیل کی ٹک ٹک ہسپتال کی راہداری میں دور تک سنائی دے رھی تھی۔ وہ دونوں بظاہر تو امراؤ سے ملنے آئے تھے
لیکن در پردہ ان کا امر اؤ سے کیا کام تھا یہ تو ڈاکٹر صاحب نہیں سمجھ پاۓ۔ وہ دونوں تھوڑی ہی دیر امر اؤ کہ کمرے میں رکے جلد ہی واپس چلے گئے۔ اور ڈاکٹر خضر منان یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ امر اؤ کو کیسے اس کہ والد کہ بارے میں بتایا جاۓ ؟ وہ حیران تھے کہ امراؤ کہ والد نے ابھی تک اسے خود میں کیوں نہیں بتایا؟ جہاں تک امر اؤ نے انھیں اپنے بارے میں بتایا تھا تو اسے اس کہ والد نے ہی ای میل پہ اس کا لج میں ایڈمشن لینے کا کہا تھا، نہ فقط کہا تھا بلکہ فارم بھی خود ہی ارسال کیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ چاھتے ہیں کہ امر اداسی کالج میں تعلیم حاصل کرے۔ یایوں کہہ لیا جائے کہ ان کی نگاہوں کہ سامنے رھے۔ پھر ایسا کیا تھا کہ وہ اپنی شناخت مخفی رکھے ہوۓ تھے؟
“ آپ یقین جانئے آفیسر ، جب سے گل رخ کی خود کشی کی خبر ملی تھی، تب سے ایک رات بھی سکون سے نہیں گزری میری۔ میرے والد ین نے مجھے باہر بھجوادیا۔ تعلیم مکمل کی لیکن گل رخ خوابوں میں آکر مجھے پریشان کرتی رھی۔ تب تک کرتی رھی جب تک کہ میری بیٹی کو وہ کھا نہیں گئی۔ وہ ہمیشہ خواب میں آکر مجھے یہی کہتی تھی کہ جو ظلم وستم میں نے اس پر کیسے ہیں وہ ان کا بدلہ ضرور لے گی۔ اور اس طور لے گی کہ میں جیتے جی مر جاؤں گی ۔ اور وہی ہوا جیسا اس نے کہا تھا۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی وفات کہ بعد میں واقعی جیسے جیتے جی مر گئی ہوں۔”
ساجدہ بیگم اب پھوٹ پھوٹ کر رور ھی تھیں۔ سفیان بری طرح گڑ بڑا گیا تھا۔ اس کہ سامنے بیٹھی خواتین کا قصور اتنا چھوٹا نہیں تھا کہ اسے معاف کر دیا جاتا۔ انھوں نے ایک مینٹلی ڈیپریس لڑ کی کو اس قدر ٹارچر کیا کہ بلاآخر اس نے تنگ آکر موت کو گلے لگالیا۔ “ میری ردا ڈا کٹر بنا چاھتی تھی۔ وہ بہت ذہین تھی۔ میری جان بستی تھی اس میں ۔اسے جب بھی دیکھتی تھی نجانےکیوں مجھے اس میں گل رخ کا چہرہ کبھی کبھی دکھائی دیتا تھا۔ جیسے وہ مجھ پر ہنس رھی ہو ۔ جس رات ردا کی موت ہوئی۔
اس رات مجھے گل رخ خواب میں آئی تھی ۔
وہ مجھے دیکھکر قہقہے لگار ھی تھی۔ اس نے میرے سامنے میری بیٹی کہ سر کہ دو ٹکڑے کر دیے۔ میری آنکھوں کہ سامنے میری ردا کو موت کہ منہ میں اتار دیا۔ سکون پہلے ہی نہیں تھا میری زندگی میں ۔ ردا کو دیکھ کر جو سکھ مجھے نصیب ہو تا تھاوہ بھی چھین لیا اس ظالم نے ۔ ” اب کی بار عنایت بیگم اپنی بیٹی کہ غم میں آنسو بہار ھی تھیں۔ “ میں نے اپنی بیٹی کو اس لیے میٹرک سے آگے نہیں پڑھایا کہ کہیں وہ اس ظالم لڑکی کا شکار نہ ہو جائے۔ اس کی شادی جلد ہی طے کر وادی۔ ابھی رات کو اس کی مہندی تھی۔ اس رات مجھے گل رخ دکھائی دی۔ نجانے وہ میرا خواب تھا یا حقیقت تھی ۔ وہ میری بیٹی کہ بستر کہ آس پاس منڈلا رھی تھی۔ میری بیٹی تیار ہو رھی تھی۔ وہ کمرے میں نہیں تھی۔ جیسے ہی وہ مہندی والے لباس میں کمرے میں داخل ہوئی اس کہ بستر کہ پاس ٹہلتی وہ گل رخ نجانے کہاں غائب ہو گئی۔ میری بیٹی اپنے پلنگ پر بیٹھی اور اب تک اٹھ نہیں پائی۔
کل اس کی بارات تھی لیکن وہ اپنے بستر سے ایسا لگی ہے کہ پھر اٹھ ہی نہیں پائی۔ نہ ہی رھی ہے نہ مر رھی ہے۔ نہ کھاتی ہے نہ بات کرتی ہے ۔ ہے ۔ زند شادی ٹوٹ گئی۔“ آنکھیں پھاڑے چھت کو گھوری ان کی ہے۔ اس کی بارات گھر آنے سے پہلے ہی اس کی
شکیلہ بیگم کہ آنسو بھی ان کہ رخساروں کو بگھورھے تھے ۔ تینوں خواتین ماضی میں جان بوجھ کر کی گئی اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت رھی تھیں۔
وارڈن اور پر نسپل کسی کام کہ سلسلے میں بیرون شہر کی جانب اکھٹے ہی نکلے تھے۔ یہ اچھا موقع تھا ہاسٹل کہ کمرہ نمبر گیارہ بارہ کی تلاشی لینے کا۔ گل رخ کہ مطابق وہاں بنی الماری میں کچھ تو ایسا تھا جو ان کہ لیے جاننا از حد ضروری تھا۔
اب تو ممکنہ ڈیوڈ نے گل رخ سے وعدہ بھی لے لیا تھا کہ وہ اس کی مد دضرور کرے گا۔ اس لیے انھیں ہر حال میں
وہاں جانا تھا۔ اور اگلے دن صبح کا وقت دھاوا بولنے کہ لیے مختص کیا گیا تھا۔ صبح ہوتے ہی امراؤ کو لیکر ڈاکٹر خضر منان ڈیوڈ اور آفیسر سفیان تبریز ہاسٹل کی جانب روانہ ہوۓ ۔ کیونکہ پیر کا دن تھالہذ اساری طالبات تو کالج کہ لیے نکل چکی تھیں۔ میں کہ ملازم اپنا کام نپٹا کر وہیں ستار ھے تھے ۔مسئلہ چوکیداروں کا تھا، جو گیٹ پہ بیٹھے پہرادے رھے تھے۔ انھیں چکمہ دینا مکنہ ڈیوڈ کہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ سب حقیقت حال سے آگاہ کر دیا تھا فقط ایک ہی بات چھپائی تھی وہ تھی اس کہ والد محترم کی شناخت والی !
اشارہ کیا۔ سفیان اپنی نوکری داؤ پہ لگا کر ان کا ساتھ دے رھا تھا۔ اگر اس کہ ڈیپارٹمنٹ کو پتہ لگتا کہ وہ ایسی حرکتیں کر رھا ہے تو اسے معطلی کہ آرڈرز مل چکے ہوتے ۔ پہلی بار وہ سفیان تبریز نہیں بلکہ دلآویز سفیان کا شوہر لگ رھا تھا۔ وہ اسے یہ سب کر تا دیکھتے تو خوشی سے چھلانگیں مارتی۔ خیر وہ باآسانی رابعہ ہاسٹل کہ اندر پہنچ چکے تھے ۔ سب سے پہلے وارڈن کا آفس تھا۔ امر اذانھیں گائیڈ کر رھی تھی۔ سفیان نے وہاں جانے کا ارادہ فی الوقت مؤخر کر ڈالا اور امر اؤ کہ پیچھے پیچھے سب او پر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگے ۔ وہ آخری سیڑھی پہ پہنچے ہی تھے کہ دور رکھے استری اسٹینڈ بھی ایک لڑکی کھڑی کوئی کپڑے استری کرتے دکھائی دی۔ سفیان جو پہلے ہی جھنجھلایا ہوا تھا اس اچانک کی آفت کو دیکھکر ٹھٹھک کر رکا اور خضر کی جانب مڑتے ہوۓ کہا:
“ اب اس لڑکی کو دیکھو۔ ماں باپ یہاں پڑھنے بھیجتے ہیں اور یہ کلاسز بنک کر کہ ہاسٹل میں چھپی بیٹھی ہے۔” جو اب میں خضر نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور معنی خیز لہجے میں گویا ہوا:
مت بھولو سفیان تبریز کہ ہم نے خود ساتھ میں کتنی کلاسز بنک کی ہیں۔” اس کی بات سنکر سفیان کھسیانا سا ہنسا۔ اور ممکنہ ڈیوڈ نے پیچھے مڑ کر دونوں دوستوں کو ایک سخت گھوری سے نوازا۔ امراؤ نے ڈیوڈ کو دیکھکر سر ہلایا اور قدم قدم چلتی اس لڑکی کی جانب بڑھنے لگی۔ اس کو کندھوں سے پکڑ کر اس طرح کھڑا کیا کہ اس کی باقی سب کی جانب پشت تھی۔ امراؤ نے اسے باتوں میں الجھایا اور تینوں مرد آگے پیچھے راہدارای میں بھاگتے ہوۓ آخری کمرہ نمبر گیارہ بارہ تک بآسانی پہنچ گئے۔ امراؤ بھی جلد ہی لڑ کی سے جان چھڑا کہ کر تے ہو ئے ہیں ۔ وب کو دیکھر کر جتا تا ہوا آگے بڑھا اور امراؤ کہ سر سے پن نکال کر تالے کو کھولنے میں جت گیا۔ تو آپ کو یہ کام بھی آتا ہے ؟” خضر نے طنز کر ناضروری سمجھا تھا۔
تو تو کیا سمجھتا ہے میں اتنے عرصے سے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جھک مار تارھا ہوں ؟ ” اس کی بات کو ممکنہ ڈیوڈ نے بہت انجوائے کیا اور ہنستا چلا گیا۔
وہ پہنتے ہوۓ بہت دلکش لگتا تھا۔ یہ بات سفیان نے محسوس کی تھی۔ اس کہ دل میں اب ڈیوڈ کولیکر کافی نرمی بھر چکی تھی۔ابھی وہ سب وہیں کھڑے تھے کہ انھیں کسی کہ تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے کی آواز آئی۔ چاروں کہ جہاں ہاتھ شل ہوۓ وہیں سانسیں بھی تھم گئیں۔
0 تبصرے