گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 14

urdu font stories online

بھوربھن کا علاقہ ایک بار پھر ایک نئے قتل کی زد میں آچکا تھا۔ ہسپتال میں ایک جوان سال لڑکے کی لاش رکھ کہ احتجاج کیا جا رھا تھا۔ آج ہی کہ دن ہسپتال میں ڈاکٹر خضر منان کی درخواست پہ ایک نئے ڈاکٹر نے بھی چارج سنبھالا تھا۔ کیونکہ خضر منان اکیلے اتنے بڑے ہسپتال کو نہیں سنبھال سکتے تھے لہذا انھوں نے حکومت کو درخواست دے رکھی تھی کہ جلد از جلد نئے ڈاکٹر کو تعینات کیا جائے۔ آج ایک ینگ ڈاکٹر اپنا عہدہ سنبھالنے کہ لیے موجود تھا۔ جبکہ ڈاکٹر خضر منان فی الوقت ہسپتال میں موجود نہیں تھے۔

 ینگ ڈاکٹر کہ آتے ہی ایک قتل کا کیس سامنے آگیا تھا۔ یہ سلیم نامی لڑکا تھا۔ جسکی لاش کھائی سے برآمد ہوئی تھی۔ قتل کا وقت پچھلی رات بتایا جا رھا تھا۔ اسے چھری سے وار کر کہ قتل کیا گیا پھر لاش کھائی میں پھینک دی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ سلیم نامی لڑکا اتنی رات کو کھائی کہ پاس کیا کرنے گیا تھا؟ اور کون تھا جس نے اسے اتنی بے دردی سے قتل کیا تھا؟ سوالات تو بہت سے تھے لیکن پولیس کی جانب سے فی الوقت تو روایتی انداز میں ابتدائی کاروائی ہی عمل میں لائی گئی۔ غم زدہ اہلخانہ کو قابو کیا جا رھا تھا۔ تاکہ مزید حالات کی خرابی سے بچا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں اگر رابعہ ہاسٹل کی دوسری منزل کی راہداری میں واپس آؤ تو وہاں چار لوگ کمرہ نمبر گیارہ بارہ کا تالہ کھولنے کی جستجو میں جتے تھے کہ انھیں تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سنائی دی۔ آفیسر سفیان تبریز کہ ہاتھوں میں بجلی سی بھر چکی تھی۔ امراؤ ہونق شکل بنائے سب کا منہ تک رھی تھی۔ جبکہ ممکنہ ڈیوڈ آرام سے کھڑا سفیان کو اسکا کام کرتا دیکھ رہا تھا۔ ابھی آنے والا آخری سیڑھی پہ پہنچا ہی تھا کہ تالہ ایک جھٹکے سے کھلا۔ 

جہاں خضر نے اٹکی سانسیں بحال کیں وہیں امراؤ نے بھی سکھ کا سانس خارج کیا۔ پہلے تینوں مرد برق رفتاری سے اندر داخل ہوئے۔ امراؤ وہیں کھڑی تھی کہ نووارد لڑکیوں نے اسے دیکھ لیا۔ امراؤ نے انھیں دیکھکر چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے ہاتھ ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ امراؤ کی سمت بڑھتیں امراؤ فوراً کمرے کہ اندر گھس گئی۔ انھوں نے بھی کندھے اچکاتے اس سے ملنے کا ارادہ ملتوی کر ڈالا۔

اب وہ تینوں پرسرار کمرے کہ اندر کھڑے تھے۔ اندر امراؤ کا سامان تھا۔ اور دو عدد بستر تھے جن میں سے ایک بستر سلوٹ زدہ تھا۔ جو یقیناً امراؤ کا تھا جبکہ دوسرا بستر سفید بے شکن چادر اوڑھے افسردہ سا دکھائی دیتا تھا۔ کمرے میں عجیب سی پرسراریت اور گھٹن تھی۔ جو سب نے محسوس کی تھی۔ آفیسرسفیان جلدی سے اس آخری الماری کی جانب بڑھا جو گل رخ نے کھولنے کہ لیے کہی تھی۔ اور امراؤ کہ مطابق گل رخ اکثر اس الماری کو کھولے بیٹھی رھتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس میں اسکا سامان وغیرہ رکھا ہوگا تبھی وہ یہاں بیٹھی رھتی ہے۔ سفیان سب سے آگے تھے جبہ باقی تینوں اس کہ دائیں بائیں کھڑے تھے۔ سب کی سانسیں بے ترتیب تھیں اور دل مانوں اچھل کہ حلق میں آرھا تھا سوائے ممکنہ ڈیوڈ کہ۔ وہ ایسے پرسکون جیسے وہ کہیں سیر سپاٹے پہ نکلا ہو۔

امراؤ کو اسے دیکھکر ویسے ہی وہشت ہوتی تھی۔ اسی نے پیشنگوئی کی تھی کہ یہاں امراؤ کہ لیے بہت مشکل وقت آنے والا ہے۔ اور وہی ہوا تھا۔ جب سے وہ بیچاری یہاں آئی تھی ایک بھی دن سکون سے نہیں گزرا تھا۔ پڑھائی کیا خاک کرتی۔
سفیان نے الماری کھولی تو مکڑی کہ جابجا لگے جالوں اور دھول نے ان کا استقبال کیا۔ جیسے اسے سالوں سے کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو۔ سفیان کو کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ باقیوں کا حال بھی کچھ کم نہیں تھا۔ امراؤ کہ بستر پہ پڑی بیڈ شیٹ سے الماری کی گرد وغیرہ صاف کی گئی۔ تو اندر کا منظر کچھ کچھ واضح ہوا۔ اندر اوپر نیچے دو بکس رکھے ہوئے تھے۔ وہ بکس اپنی بناوٹ سے بہت بہت پرانے زمانے کہ لگتے تھے۔ ان کو جب اچھے سے صاف کیا گیا تو وہ یہ دیکھکر حیران رہ گئے کہ اوپر والے بکس پر بڑے بڑے جواہرات کندہ تھے۔ جیسے یہ شاھی بکس ہو۔ جن میں بادشاہ لوگ اپنے ہیرے جواہرات رکھتے تھے۔

“اگر کوئی خزانہ نکلا تو وہ حکومت کہ کھاتے میں جائے گا میں پہلے بتا رھا ہوں۔”
سفیان نے سب دیکھکر محظوظ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
سب کی مسکراہٹ فی الوقت غائب تھی اور اسکی جگہ گہرے اچھنبے نے لے رکھی تھی۔ سفیان نے بکس پہ پڑا بڑا سا دھاتی کنڈا اٹھایا تو اندر موجود بڑی سی کتاب دیکھکر حیران رہ گیا۔ اندر سب سے اوپر ایک بہت بڑی ڈائری نما کتاب رکھی تھی۔ کتاب کہ اوپر بھی موتی جڑے ہوئے تھے۔
“یہ تو کسی شہزادی کا خزانہ لگتا ہے۔”
امراؤ نے مچلتے ہوئے کہا تھا۔

سفیان نے اسے ایک گھوری سے نوازا اور کتاب کھولنے لگا۔
“ٹھہرو، اسے تب ہی کھولنا جب اس کہ اثرات کی تاب لانے کی صلاحیت و ہمت تمھارے اندر موجود ہو۔”
ممکنہ ڈیوڈ نے سفیان کہ ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
“جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ “
سفیان نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
“اسے کھولے بنا بھی گزارا نہیں ہے۔ اگر اس راز تک ہم نہیں پہنچے تو گل رخ سے پیچھا کیسے چھوٹے گا؟”
ڈاکٹر خضر منان نے دہائی دی تھی۔
سفیان نے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور اللہ کا پاک نام لیکر بھاری کتاب کھولنے کی غرض سے اسکی جلد اٹھا دی۔ اندر دودھیا سفید رنگ کا بڑا سا صفحہ ان کا منتظر تھا۔ وہ بلکل کورا تھا۔
“دھت تیری کی۔”
سفیان نے ہیچھے ہٹتے کہا تھا۔
“یہ تو بلکل خالی کتاب ہے۔”
خضر نے منہ لٹکاتے ہوئے کہا تھا۔
“اور میں سمجھ رھی تھی کہ ہم شہزادیوں والے دور میں پہنچ جائیں گے۔”
امراؤ نے بھی برا سا منہ بناتے اپنا دکھڑا بیان کیا تھا۔
“ہم اسی دور میں جائیں گے تم سب اس صفحے پہ اپنا اپنا دایاں ہاتھ رکھو۔”
ممکنہ ڈیوڈ نے سب کی جانب نگاہ کرتے ابرو اچکاتے کہا تھا۔
امراؤ نے بنا سوچے سمجھے صفحے پہ ہاتھ رکھ ڈالا۔ صفحے میں ایسے ارتعاش پیدا ہوا جیسے دریا میں پتھر ڈالںے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ ارتعاش گہرا ہوتا چلا جا رھا تھا۔ کسی پانی کہ بھنور کی مانند گول گول چکر کاٹ رھا تھا۔ نیچے اور نیچے تیزی سے محوِ سفر تھا۔
ڈیوڈ بھی ہاتھ رکھ چکا تھا۔ خضر اور سفیان ہونق شکل بنائے ان دونوں کو دیکھ رھے تھے۔
“یہ یقیناً کوئی جادو ہے۔”

سفیان نے ڈیوڈ کی جانب آنکھیں نکالتے ہوئے کہا تھا۔
“ہم کسی جادوئی دنیا میں جارھے ہیں کیا؟”
امراؤ نے خوشی سے مچلتے ہوئے نعرہ مارا تھا۔
اور خضر اسکی بیوقوفی و جلد بازی دیکھکر سر پیٹ کر رہ گیا۔
“اب ظاہر ہے آپ تو جائیں گے ہی جائیں گے اس بیوقوف کہ پیچھے۔۔!!!!”
سفیان نے امراؤ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے خضر پہ طنز کیا تھا۔
“بلکل!”
یک لفظی جواب دیکر خضر نے بھی اپنا ہاتھ اس صفحے پہ رکھ دیا تھا۔
سفیان انھیں دیکھر سوچ میں پڑ چکا تھا۔ وہ خضر کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ لہذا اس نے بھی بددلی سے صفحے پہ ہاتھ رکھ ڈالا۔ اور اس بھنور کا حصہ بن گیا۔ بھنور گول گول گھومتا ہوا برق رفتاری سے نیچے مزید نیچے جانے لگا۔ اور ایک وقت آیا جب یہ بھنور اتنا بڑا ہوگیا کہ ان سب کو نگل گیا۔ الماری وہیں کھلی رہ گئی اور وہ سب وہاں سے نکل کر ایک پرانی دنیا ایک پرانے دور میں پہنچ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی جنت نظیر وادی تھی۔ اور وہ سب اونچے پہاڑ کہ ایک ٹیلے پہ کھڑے نیچے دیکھ رھے تھے۔ ان کہ بلکل سامنے آب و تاب سے کھڑے پہاڑوں کہ بیچ و بیچ سے ایک میٹھے پانی کا چشمہ بہہ رھا تھا۔ جو پتھروں سے سر ٹکرا ٹکرا کہ بلآخر زمین پہ بنی ایک جھیل میں جمع ہو رھا تھا۔ جھیل کہ اردگرد سبزہ ہی سبزہ تھا۔ گویا کوئی چھوٹا سا باغ تھا۔ جہاں وہ سب کھڑے تھے وہاں ہر طرف پہاڑ تھے۔ وہ کافی اونچائی پہ تھے پھر بھی نیچے موجود چشمہ واضح دکھائی دے رھا تھا۔ پہاڑوں پہ اگے سر سبز و شاداب درخت اور سر کو چھو کر گزرتے سفید روئی کی مانند نرم سے بادل۔ واقعی جنت کا نظارہ پیش کر رھے تھے۔ 

وہ ہکہ بکہ سے یک ٹک اپنے اطراف میں نگاہ دوڑا رھے تھے۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا قدرتی حسن تھا۔
حالیہ بھوربھن بھی بلا کا خوبصورت تھا لیکن یہاں کی تو بات ہی الگ تھی۔ یہ واقعی کوئی جادؤئی دنیا تھی۔ جو شوروغل سے مبرا تھی۔ نہ آلودگی تھی اور نہ ہی کوئی بیماری۔ فقط ہریالی ہی ہریالی تھی۔ من میں بھی اور اطراف میں بھی۔
سفیان نے بے اختیار گہری سانس لیکر قدرتی حسن اور پاک صاف ہوا کو اندر اتارا تو اندر تک جیسے تازگی بھر گئی۔ خضر اور منہ کھولے کھڑی امراؤ نے بھی اسکی تائید کی۔ جبکہ ممکنہ ڈیوڈ وہاں کھڑے کسی اور ہی سوچ میں گم تھا۔
“یہ سب کیا ہے؟ ہم کہاں ہیں اور یہ سب کیا ہو رھا ہے ہمارے ساتھ؟”
سفیان نے جیسے خضر اور امراؤ کی سوچوں کو بھی آواز سے نوازا تھا۔ وہاں موجود نظارے سے نگاہیں ہٹیں تو اس نے کچھ سوچ کر سوال داغا۔ اسکا رخ ابھی بھی ممکنہ ڈیوڈ کہ بجائے حسین نظاروں کی جانب تھا۔

“یہ وہی بھوربھن ہے جہاں آپ لوگ ابھی تھوڑی دیر پہلے موجود تھے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ یہ بھوربھن آج سے تقریباً 28سال پرانہ ہے۔ یہیں سے اس کہانی کی شروعات ہوئی جو گل رخ تم لوگوں تک پہنچانا چاھتی ہے۔ لیکن یہ گل رخ کی اپنی کہانی نہیں ہے۔ یہ بات یاد رکھنا!”
جواب ممکنہ ڈیوڈ نے دیا تھا۔ ظاہر ہے مخاطب جو وہی تھا۔
اس کی بات سنتے ہی ان سب کہ اوسان خطا ہوئے۔
“یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم واپس اس دور میں پہنچ جائیں جب ہمارا وجود بھی نہیں تھا؟”
خضر نے لرزتے کانپتے سوال کیا تھا۔
“تم لوگوں کو کس نے کہا تم لوگ واپس پہنچے ہو؟”
“تم لوگ وہیں ہو ۔ بس وقت تمھارے سامنے کھل رھا ہے۔ یہ سمجھو کہ تم سب کسی سنیما حال میں بیٹھے ہو کوئی فلم تمھاری آنکھوں کہ سامنے چل رھی ہے۔ تم اس فلم کا حصہ تو نہیں ہو لیکن اس کہ کرداروں کہ حالات و واقعات تمھاری آنکھوں کہ سامنے سے گزر رھے ہیں۔ درحقیقت تم وہ کتاب پڑھ رھے ہو جو کیتھرین نے لکھی ہے۔ اسکی زندگی کی کہانی ہے۔ تم یہاں کہ کرداروں کو دیکھو گے ان کہ جذبات کو محسوس کرو گے لیکن ظاہر ہے وہ تمھیں نہیں دیکھ سکتے۔ جیسے فلم میں موجود کردار اپنے ناظرین سے بے خبر ہوتے ہیں۔”
ڈیوڈ نے تفصیل سے انھیں سمجھایا تھا۔

“اور جیسے فلم کہ کردار اپنا اپنا رول ادا کر کہ نجانے کہاں کہاں پہنچ جاتے ہیں ایسے ہی ہمیں یہاں دکھائی دیے جانے والے کردار بھی در حقیقت اب نجانے کہاں کہاں ہوں گے۔۔۔!!!!!!”
امراؤ نے یہاں کہ ٹرانس میں گم ہوتے ہوئے ڈیوڈ کی بات سمجھتے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔
“بلکل۔ “
ڈیوڈ نے یک لفظی جواب دیا تھا۔
جبکہ سفیان اور خضر نے سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ اب جو بھی ہوگا ان کہ سامنے انھیں وہ دیکھنا ہی پڑے گا۔ وہ اسے چھوڑ کر واپس نہیں جا سکتے جب تک کہ کہانی ختم نہیں ہو جاتی۔ تبھی ان کی زندگیاں پھر سے وہیں سے شروع ہوں گی جہاں سے ختم ہوئی تھیں۔
“لیکن وہاں اوپر تلے دو کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اگر اوپر والی کتاب میں کیتھرین کی کہانی ہے تو نیچے والی میں کس کی کہانی ہے؟”

سفیان نے جیسے کچھ یاد کرتے ہوئے سوال کیا تھا۔ اس کا رویہ ڈیوڈ سے نرم ہو چکا تھا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اسے اپنا رویہ نرم کرنا ہی پڑا۔ کیونکہ واحد وہی تھا جو انھیں ہر مصیبت سے نکال سکتا تھا۔ اور نکالنے کہ لیے جتن بھی کر رھا تھا۔ نجانے اس سب میں اس کا کیا فائدہ تھا؟ یہ سوال پہلے بھی سفیان کہ ذہن میں کلبلاتا تھا لیکن وہ کچھ سوچ کر اسے بعد کہ وقت کہ لیے اٹھا رکھتا تھا۔ آج بھی اس نے یہی کیا۔
ڈیوڈ: “نیچے والی کتاب میں گل رخ کی کہانی کا آخری حصہ ہے۔ وہ اسی نے لکھی ہے۔ وہ اسی کی ڈائری تھی۔”

خضر: “تو ہمیں وہی کتاب کھولنی چاھیے تھی۔ یہاں کیوں آکہ پھنس گئے ہیں ہم؟”
ڈیوڈ: “ان کرداروں کی کہانی جاننا بھی بہت ضروری تھا۔ خاصکر امراؤ کہ لیے۔ یہ اسے اس کہ باپ تک لے جائے گی۔اس کا گل رخ کی زندگی سے بھی گئرا تعلق ہے۔ یوں سمجھ لو کہ یہ فلم دیکھکر ہی اگلی فلم سمجھ آسکتی ہے۔”
جہاں امراؤ کا منہ کھلا وہیں باقی دونوں نفوس نے بھی گھوم کر ڈیوڈ کو دیکھا۔
ابھی وہ سب یہی سوچ رھے تھے کہ ڈیوڈ نے انکی توجہ پہاڑوں سے نیچے گزرتے دو کرداروں کی طرف مبذول کروائی۔ وہ ایک گندمی رنگت کی حامل جوان لاابالی سی لڑکی تھی۔ جس کہ نقوش بلا کہ خوبصورت تھے جیسے ہاتھوں سے تراشے گئے ہوں۔ اس کہ لمبے بال اس کی کمر پہ محوِ رقص تھے۔ وہ اپنے دوپٹے کو ہاتھوں میں لیکر فضا میں اڑا رھی تھی۔ اور خود آگے بھاگ رھی تھی۔ دوپٹہ اس کہ پیچھے فضا میں اٹھکلیاں کرتا ہوا کہ دوش پہ اڑتا چلا جا رھا تھا۔ وہ زندگی سے بھرپور ناری تھی۔ جس کہ انگ سے خوشی سرشاری چھلک رھی تھی۔ جیسے وہ دنیا فتح کرنے نکلی ہو اور دنیا اس کہ قدموں کی دھول بن گئی ہو۔ جیسے اس نے جو چاھا ہو وہ پا لیا ہو۔ جیسے اس کہ من کی مراد بر آئی ہو۔ جیسے اس کا محبوب اس کہ قدموں میں ہو۔

ہاں بلکل ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کہ پیچھے پیچھے ایک بانکا سجیلا بارعب نوجوان اسے پکڑنے کی ناکام کوشش میں بھاگتا ہوا آرھا تھا۔ دونوں ساتھ میں بے پناہ خوبصورت لگ رھے تھے۔ جیسے چاند سورج کی جوڑی ہو۔ ایسے کہ انھیں دیکھ کر سب کا دل کالاٹیکا لگانے کا کرے۔ انھیں نظرِ بد سے بچانے کہ لیے ہر حد پار کر جانے کا من کرے۔ وہ دونوں ایسے ہی تھے ایک دوسرے کہ ساتھ مکمل اور ایک دوسرے کہ بنا بلکل ادھورے۔ جیسے دریا کہ دو کنارے ہوں جو کبھی مل نہیں سکتے۔ اپنی سرحد عبور نہیں کر سکتے۔ ڈیوڈ کہ علاوہ باقیوں نے اس نوجوان کو دیکھا جس کا چہرہ خوشی سے چودھویں کہ چاند کہ مانند تمتما رھا تھا ، گال پہ لالی بکھری تھی، انھیں وہ دیکھا بالا سا لگا۔ جیسے کوئی اپنا اپنا ہو۔ سب نے بیک وقت مڑ کر ڈیوڈ کو دیکھا اور پھر سامنے کسی فلم کی مانند چلنے والے نظارے میں ابھرتے اس نوجوان کو۔ جو فلم کہ پردے پہ آیا تھا اور چھا گیا تھا۔ وہ وہی تھا۔ بلاشبہ وہی تھا۔ وہ ڈیوڈ تھا۔ بلکل وہ ڈیوڈ ہی تھا۔ وہ اب دیدے پھاڑے دونوں کو ملا رھے تھے۔ موازنہ کر رھے تھے۔ یہ تقریباً اڑتالیس سال پرانہ ڈیوڈ تھا۔

“یہ جوزف اور اس کا پہلا اورآخری پیار نگینہ ہیں۔”
ڈیوڈ کی آواز اس لمحے کسی گہری کھائی سے آتے محسوس ہوئی تھی۔
“تو اس کا نام جوزف ہے۔” دیگر نے بیک وقت سوچ کر زیرِ لب دہرایا تھا۔
کہانی کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ وہ سب کھڑے کھڑے تھک گئے تو اونچے ٹیلے پہ ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ امراؤ نے سفید جوگرز اور نیلی جینز کہ اوپر گھٹنوں تک آتا کرتا پہن رکھا تھا۔ کرتے کہ اوپر میڈیم لانگ فر والا سفید کوٹ تھا۔ جس کی بڑی ٹوپی کمر پہ پھینک رکھی تھی اور سر پہ اپنی اونی ٹوپی جس کا رنگ ہلکا بھورا تھا ، پہن رکھی تھی۔ اونچی پونی حسبِ عادت ٹوپی سے باہر لہرا رھی تھی۔ وہ اس عام سے حلیے میں بھی بلا کی حسین لگ رھی تھی۔ وہ خضر سے قصداً فاصلہ دیکر بیٹھی۔ تبھی خضر نے سر تا پا اسکا جائزہ لیتے اس پہ پہلی دفعہ غور کیا اور نگاہیں جھکا لیں۔

اگر سامنے چلتے مناظر کی طرف نگاہ دوڑائی جائے تو وہ دونوں منچلے ہوا کہ دوش پہ بہتے چلے جارھے تھے۔ ایک دوسرے کو پکڑنے کی سعی میں بھاگ رھے تھے۔ ان کہ کھنکھاتی ہنسی ناظرین کا دل لبھا رھی تھی۔
“اے کاش ان دونوں کو نظر نہ لگے۔ یہ ایک ساتھ کتنے حسین لگ رھے ہیں۔”
امراؤ نے گال تلے ہاتھ رکھ کہ دونوں کو دیکھ کر دعا کی تھی۔
لیکن نظر لگنا تو برحق ہے نا۔ تبھی ان پہ بھی کسی کی کالی نگاہ پڑ چکی تھی۔ اور ان دونوں کہ ساتھ کو ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے کھا گئی۔وہ نظر تھی دور اونچے محل کی چھت پہ کھڑی ایک دلنشین لڑکی کی۔ جسے جو بھی ایک نظر دیکھے دیکھتا رہ جائے۔ جسے دیکھ کہ چاند بھی خود کو چھپانے کی غرض سے بادلوں کی اوٹ میں چھپ جائے۔ وہ کیتھرین ڈسوزا تھی۔ جس کی ایک جھلک دیکھنے کہ لیے بھوربھن و گرد و نواح کہ جوان آئیں بھرتے تھے۔ 

اس پہ مر مٹنا چاھتے تھے۔ اس کہ ایک اشارے پہ اپنا سب کچھ تیاگ دینا چاھتے تھے۔ لیکن اس کی نگاہ بھی آن ٹکی تو جوزف پر۔ ایک عیسائی استاد کہ اکلوتے بیٹے پر۔ جو بھوربھن میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ جس کی آج ہی اپنی منگیتر نگینہ سے شادی طے کی گئی تھی۔ کیتھرین اگر اپنا موازنہ نگینہ سے کرتی تو ہر حال میں جیت جاتی۔ حسن کہ اعتبار سے بھی اور خاندان کہ اعتبار سے بھی۔
وہ ملکہ کیتھرین تھی۔ خوبصورت ، سرخ پھولے ہوئے گالوں والی لڑکی۔ جسے ہوا کہ دوش پہ اڑ کہ تتلیاں پکڑنا ، جگنوؤں کو مٹھی میں قید کرنا اور پھر انھیں کھلکھلاتے ہوئے کھلی فضا میں آزاد کر دینا پسند تھا۔ کیتھرین وہ تھی کہ جس کی زلفیں پہاڑیوں میں بہتے ہوئے جھرنوں جیسی تھیں۔ ویسی ہی دراز اور خم دار۔ اس کہ گالوں کی لالی کا عکس اس کہ کومل ہونٹوں پہ بھی پڑتا تھا۔

 پہاڑوں میں بسنے والی، ایک خوبصورت پری تھی۔کچھ وقت پہلے تک تو اس کی زندگی پہاڑی کی ٹیلے پہ واقع اپنے چھوٹے سے گھروندے سے شروع ہوتی، اور پہاڑوں کہ وسیع سلسلے میں اچھلتے کودتے ختم ہو جاتی۔ پہاڑ اس کی زندگی تھے۔ پہاڑوں کہ گرد موجود سبزے سے اسے عشق تھا۔ فلم میں چلنے والے منظر سے تقریباً دو ماہ پہلے ہی ایک دن کیتھرین تاحدِ نگاہ موجود سبزہ زار، اطراف میں کھڑے پہاڑوں کہ طویل سلسلوں اور وہاں پتھروں سے نکلتے ٹھنڈے میٹھے پانی کہ چشمے کہ قریب چھپ کر بیٹھی اپنے خوابوں کہ شہزادے جوزف کی بانسری سے نکلنے والی دھن پہ سر دھن رھی تھی۔ اس کہ پھولے ہوئے سرخ گال، مزید سرخ لگ رھے تھے۔ ان پہ شرم و حیا کی لالی بکھری تھی۔ وہ گال تلے ہاتھ دھرے یک ٹک دور سےجوزف کو دیکھے جا رھی تھی۔ اور من میں یہ تہیہ کر چکی تھی کہ ہر حال میں وہ اپنے دل میں کب سے پنپتے محبت کہ جذبے سے جوزف کو آگاہ کرے گی۔ وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ اس پہ وہاں کہ لارڈ کلارک چرچل میو کی نگاۂِ غلط پڑ چکی ہے۔ جو برطانوی نژاد ہے۔ اور اسے حکومت کی جانب سے ایک بڑا عہدہ بھی دیا گیا ہے۔

 برطانیہ میں جسکی لمبی چوڑی جائیداد کہ علاوہ ایک عدد بیوی بھی ہے۔ وہ ہونٹوں میں سگار دبائے اس وقت اپنے بڑے اور پر تعیش محل کہ چھت پہ کھڑا ارد گرد کہ مناظر سے لطف اندوز ہو رھا تھا جب اسے وہ حسن کہ ملکہ دکھائی دی۔ جوزف بہرحال اس کی تیز نگاہوں کہ حصار میں نہ آسکا۔ اس نے اسی وقت پاس کھڑی اپنی ذاتی میڈ وکٹوریہ کو آنکھ کہ اشارے سے قریب بلایا اور کیتھرین کا حسب نسب دریافت کیا۔ اور اسی لمحے وکٹوریہ کہ ہاتھوں کیتھرین کا رشتہ بھی بھجوا دیا۔ اور کیتھرین اس ساری کاروائی سے بے خبر جاگتی آنکھوں سے پھر وہی خواب دیکھ رھی تھی جو وہ ہمیشہ سے دیکھتی آئی تھی، پہاڑی سلسلے کہ بیچ واقع ایک بڑا اور پر تعیش محل، محل میں اٹکھلیاں کرتی شہزادی کیتھرین اور اسے دیکھ دیکھ جیتا شہزادہ جوزف۔ بس اتنا سا خواب تھا اس کا۔ شہزادیوں جیسی زندگی گزارنے کا۔ ایک بڑے محل میں رھنے کا۔ 

جوزف کی ہمسفر بننے کا۔ بس اتنا سا تو خواب تھا۔ لیکن تب وہ نہیں جانتی تھی کہ کبھی کبھی خواب اس طور بھی پورے ہو جاتے ہیں۔
اسے بڑا محل ضرور ملا۔ وہ شہزادی بھی بنی لیکن شہزادہ جوزف کی نہیں بلکہ کنگ کلارک چرچل میو کی۔ اور اب شہزادی کیتھرین دو خوبصورت دل والوں کو دیکھ کر کڑھ رھی تھی۔ حسد کی آگ میں جل رھی تھی۔ اس کی شادی کو دو ماہ گزر چکے تھے۔ یہ شادی اس کہ باپ نے زبردستی کروائی تھی۔ ظاہر ہے لارڈ کہ رشتے کو کون انکار کر سکتا تھا۔ عمروں کا اتنا بڑا فرق معنی ہی کہاں رکھتا تھا ان دونوں کہ بیچ۔ کیتھرین بھی یہ تو جانتی تھی نا کہ جوزف اسے کبھی بڑے محل کی شہزادی نہیں بنائے گا۔ اس نے بھی اس بنیاد پہ رشتہ قبول کر لیا کہ جلد ہی کنگ سے چھٹکارا پاکر جوزف کو اپنا لے گی۔ اور پھر یہی محل ہوگا۔ یہی شہزادی کیتھرین ہوگی لیکن کنگ کی جگہ شہزادہ جوزف ہوگا!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے