گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 15

 urdu font stories online

وہ سب اسی پہاڑی ٹیلے پہ بیٹھے جوزف اور نگینہ کو آنکھوں سے اوجھل ہوتا دیکھتے رھے تحیر سے۔ تبھی حالیہ جوزف نے گلا کھنکھار کہ بات کا آغاز کیا۔ اس نے انھیں کیتھرین کی لکھی تحریر کچھ اس طرح پڑھ کر سنائی، جوں وہ کتھا سنا رھا تھا ان تینوں کو لگ رھا تھا وہی مناظر ان کہ سامنے کسی فلم کی مانند چل رھے ہیں۔ وہ سن بھی رھے تھےاور اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رھے تھے۔

“کیتھرین کی کالی نگاہ جوزف اور نگینہ کی زندگیوں کو کھا گئی تھی۔ وہ لاڑد کلارک چرچل کی لاڈلی بیوی تھی۔ یعنی بھوربھن کی ملکۂ عالیہ تھی۔ اس کہ آنکھ کہ ہلکے سے اشارے سے سر قلم ہو سکتے تھے۔ لارڈ اس کی محبت میں اس قدر دیوانہ ہو چکا تھا کہ اسے اور کوئی دکھائی ہی نہ دیتا تھا۔ وہ تو یہ بھی نہ جان پایا کہ کیتھرین اس کہ محبت کا جھوٹا دم بھرتی ہے۔ وہ تو فقط اپنے اونچے خوابوں کی تکمیل کہ لیے اس کہ ساتھ محوِ سفر تھی۔ لارڈ کو برطانیہ سے ایک اچھی خبر ملی تھی کہ اسکی بیوی کا حمل ٹھہر چکا ہے۔ یہ خبر اس نے اپنی شادی کہ پندرہ سال بعد سنی تھی۔ جسے سننے کہ لیے اس کہ کان ترس گئے تھے۔ 

اس دن وہ بہت خوش تھا۔ کیتھرین کی قدر و قیمت اس کہ دل میں مزید بڑھ گئی تھی۔ وہ اسے اپنے لیے خوش قسمت تصور کرنے لگا۔ اسے برطانیہ اپنی بیوی کہ پاس جانا تھا۔ لہذا وہ کیتھرین سے اجازت طلب کر کہ برطانیہ کہ لیے نکل گیا۔ کیتھرین ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھی۔ ہر ماہ چند دنوں کہ لیے لارڈ برطانیہ کا چکر لگاتا تھا۔ کبھی بیوی سے ملنے تو کبھی کسی حکومتی کام کی غرض سے۔ لیکن ہفتے کہ اندر ہی واپس آجاتا تھا۔ اس بار اس کا ارادہ شاید تھوڑے لمبے عرصے کہ لیے رھنے کا تھا۔ تبھی کیتھرین خوشی کہ مارے ہواؤں میں اڑ رھی تھی۔ لارڈ کہ سامنے کیتھرین اپنا دوسرا روپ رکھتی تھی۔ جبکہ اس کہ پیچھے تو وہ کوئی اور ہی کیتھرین ہوتی تھی۔ اسے اپنے حسن پہ ناز تھا۔ اور لارڈ کی شب و روز کی تعریف نے اسے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ لارڈ کہ جاتے ہی وہ گردن میں سریا ڈال کر پر تعیش محل کی چھت پہ کھڑی ہو جاتی۔ اور محل کہ نیچے موجود گاؤں و دیگر گرد و نواح کہ لوگوں کی قسمت کہ فیصلے کرتی۔

 لوگ اسے جھک جھک کہ سلامی پیش کرتے۔ اس کا ہر روز دربار لگا کرتا تھا۔ جس میں وہ کسی مغرور ملکہ کی طرح براجمان ہوتی تھی۔ سر پہ ہیروں سے جڑا تاج پہن کر دور زمین پہ پھیلے لباس کو سنبھالتی جب وہ دائیں بائیں قطار در قطار دھری کرسیوں کہ بیچ سے گزر کر سیڑھیوں کہ اوپر رکھے اپنے تخت کی جانب بڑھتی تو لوگ آنکھیں پھاڑے یک ٹک اسے گھورا کرتے تھے۔ وہ کیا تھی اور کیا بن گئی تھی۔ اس کہ حسن کو تو جیسے چار چاند لگ چکے تھے۔ دیگر ملازماؤں کہ علاوہ لارڈ کی ذاتی میڈ وکٹوریہ ہمہ وقت اس کہ ساتھ رھتی تھی۔ وکٹوریہ کو دیگر گھریلو نسخوں کہ علاوہ جادو کا بھی علم تھا۔ اور کیتھرین نے یہ بات تب جانی جب وکٹوریہ کو ایک دن اس کہ کمرے میں کسی سفید گولے کو سامنے رکھے اس سے باتیں کرتے سنا۔ کیتھرین ٹھٹھک کر وہیں رک گئی اور اس کی حرکتوں کو نوٹ کرنے لگی۔ وکٹوریہ کو اس گولے میں کوئی شبیہ دکھائی دے رھی تھی۔ اور وہ گولے میں ابھرتی تصویر کو دیکھ کر ہو بہو ویسا کچھ بنا رھی تھی۔ 

شاید کوئی آئینہ تھا۔ وکٹوریہ کہ ہاتھ اب تیزی سے کام کر رھے تھے۔ جوں جوں اس کا کام مکمل ہو رھا تھا اس کا چہرہ مارے خوشی کہ تمتما رھا تھا۔ یعنی وکٹوریہ جادوگرنی ہے۔ کیتھرین نے زیرِ لب یہ بات دہرائی تھی۔ اس کا چہرہ یہ سوچتے ہی خوشی سے کھل اٹھا تھا۔ وہ وکٹوریہ کو استعمال کر کہ اپنے بہت سے کام نکلوا سکتی تھی۔

کافی وقت پہلے بھوربھن کہ قریب میں ایک جادوگر قبیلہ “ینگ یانگ” کہ نام سے آباد تھا۔ وہ جادو کی مدد سے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے تھے۔ ان کہ سربراہ کا نام ینگ یانگ تھا۔ اسی کہ نام پہ بعد ازاں قبیلے کا نام رکھا گیا۔ ان کا تعلق مشرقی جاپان سے تھا۔ بیمار کا علاج ہو یا کسی عورت کی خوبصورتی میں اضافے کرنا ہو۔ ینگ یانگ کہ پاس ہر مسئلے کا حل جادو کی صورت میں موجود تھا۔ لیکن ان کہ جادو کی بھی کچھ سرحدیں کچھ قواعد وضوابط تھے۔ جن کو عبور کرنے کا مطلب تھا سر عام جنگ کرنا۔ ان کہ قبیلے کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو جادو کو اپنی دولت بڑھانے اور کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کہ لیے استعمال کرنا چاھتے تھے۔ لیکن ینگ یانگ کا رعب و ڈر آڑے آتا تھا۔ دھیرے دھیرے ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انھوں نے اپنا ایک الگ جتھہ بنا لیا۔

 وہ ینگ یانگ کہ مخالف ہو گئے۔ اور اسے مارنے کی تدبیریں کرنے لگے۔ اس سے پہلے انھوں نے اس سے کافی حد تک جادو سیکھ لیا۔ اب چونکہ وہ بوڑھا ہو چکا تھا لہذا اس نے اپنا جادو اس تاکید کہ ساتھ دوسروں میں منتقل کرنا شروع کیا کہ جادو سے صرف اچھا کام لینا ہے۔ دکھی لوگوں کہ دکھ کو دور کرنا ہے۔ کسی کو مصیبت میں نہیں ڈالنا ورنہ بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ یہ بات تب کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ انھیں اپنا معیارِ زندگی بہتر سے بہترین کرنے کی ایسی لالچ لگی کہ انھوں نے پہلے ینگ یانگ کو قتل کیا پھر سرِ عام اپنا جادو لوگوں کہ خیر و بد کہ لیے بھاری پیسوں کہ عوض استعمال کرنا شروع کر دیا۔ وکٹوریہ ینگ یانگ کی اکلوتی بیٹی کی بیٹی تھی۔ یعنی اس کی نواسی تھی۔ 

تب وہ چھوٹی سی تھی جب ینگ یانگ نے آخری سانسیں بھرتے اسے اپنی کتاب اور اس جادوئی گلوب کہ بارے میں بتایا۔ اور اسے یہ مشورہ دیا کہ ان چیزوں کو لیکر یہاں سے نکل جائے۔ تب وکٹوریہ فقط دس برس کی تھی۔ ا سکی ماں کا انتقال ہو چکا تھا اور باپ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ فقط نانا ینگ یانگ ہی اسکا سہارا تھا۔ اس کہ مرتے ہی وکٹوریہ نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عقل سے کام لیا اور دونوں چیزیں اٹھا کر بھاگ نکلی۔ ینگ یانگ قبیلہ پیسے بنانے میں اتنا اندھا ہوگیا جادو کا ہر غلط استعمال کیا۔ چاھے وہ کسی کی جان لینا ہو یا میاں بیوی میں طلاق کروانا۔ وہ بھاری رقم لیکر لوگوں کہ کام کرنے لگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک دن ایسا آیا کہ ان کا جادو ان پر الٹا پڑنا شروع ہو گیا۔ انھیں مختلف موذی بیماریوں نے آگھیرا۔ لوگ ان سے دور بھاگنے لگے۔

 وہ تنِ تنہا سسکتے کانپتے روتے پیٹتے رھے۔ ان کہ جسم کہ ہر حصے سے سفید مائع بہتا رھتا۔ جس سے اتنی بدبو اٹھتی کہ دس میل تک بھی کوئی انسان کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ لوگوں نے ان کہ اطراف سے اپنے گھروں کو خالی کرنا شروع کیا۔ اور جہاں موجودہ بھوربھن گاؤں ہے وہاں آباد ہونے لگے۔ وہ قبیلہ یہاں نیچے آباد تھا۔ جہاں وہ جھرنا ہے۔” جوزف نے ٹیلے کہ نیچے اشارہ کیا جہاں کچھ وقت پہلے نگینہ اور جوان جوزف بھاگ رھے تھے۔
“مطلب وکٹوریہ ینگ یانگ کی قبیلے کی واحد سروائیور تھی۔”
امراؤ نے سوچتے ہوئے سوال کیا تھا۔

“بلکل۔ فقط وہی تھی جو بچ پائی۔ کیونکہ اس نے جادو کا غلط استعمال نہیں کیا تھا۔ باقی سب اپنی موت آپ مر گئے۔ یوں ینگ یانگ قبیلے کا اختتام ہوا۔”
حالیہ جوزف نے بات مکمل کر کہ سب کہ تاثرات کا جائزہ لیا تھا۔
“کیتھرین نے وکٹوریہ کو کیسے استعمال کیا؟”
سفیان نے جوزف کی بات مکمل ہوتے ہی سوال داغا تھا۔

“ہاں۔ میں وہی بتانے لگا تھا۔ کیتھرین دیکھ چکی تھی کہ وکٹوریہ کہ پاس جادوئی گلوب موجود ہے۔ وہ اسکی مدد سے اپنی بیٹی کو اسکی شادی پہ دینے کہ لیے ایک نایاب اور قیمتی تحفہ تیار کر رھی تھی۔ جو ایک چھوٹا سا آئینہ تھا۔ اس آئینے کی خاصیت یہ تھی کہ وہ آپکو بہت خوبصورت اور ہمیشہ جوان دکھاتا تھا۔ کیتھرین جیسی حسن پرست کو یہ کہاں گوارا تھا کہ وہ اس آئینے کو کسی اور کہ ہاتھوں کی زنیت بننے دیتی وہ بھی اپنی رقیبہ نگینہ کہ۔ اس نے دھڑلے سے دروازہ کھولا اور وکٹوریہ کہ سر پہ پہنچ گئی۔ اس سے پہلے کہ وکٹوریہ سنبھلتی اس نے اُس کہ کاتھ سے آئینہ چھین لیا۔ اور اسے تنبیہ کی کہ اگر اس نے کیتھرین کہ خلاف منہ کھولا تو وہ سب کو بتا دے گی کہ وہ ایک جادوگرنی ہے۔ اور بھوربھن کہ لوگ اسے زندہ جلا دیں گے۔ کیونکہ انھوں نے قبیلہ ینگ یانگ کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا تھا۔ تب سے انھیں جادو اور جادوگروں سے نفرت تھی۔ 

وہاں ینگ یانگ قبیلے کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جانے لگا تھا۔ جادو کو مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ ایسے میں اگر وکٹوریہ کی اصلیت کھلتی کہ وہ ینگ یانگ کی نواسی ہے تو اس کہ ساتھ ساتھ اسکی نگینہ کا وہ حال ہوتا جو وہ سوچ کر ہی اند رتک کانپ گئی۔ اس کا راز اس طور افشا ہوگا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ پر اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ کیتھرین وہ آئینہ لیکر اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ تب سے اب تک وہ آئینہ اسی کہ قبضے میں ہے۔ وہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ وہ کیتھرین کو حسین و جمیل دکھاتا ہے۔ اور وہ اسی زعم میں مبتلا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسی ہی رھے گی۔ اسے اپنا حسن دنیا کی ہر دوسری شے سے زیادہ عزیز ہے۔ ہر کہانی کی بلا کی طرح اس بلا کی جان بھی کسی شے میں قید ہے۔ کسی طرح کیتھرین سے اگر وہ شے لیکر تباہ کر دی جائے تو شاید وہ ختم ہو جائے۔ “
جوزف نے بات مکمل کر کہ سر جھکا لیا تھا۔ وہ بہت افسردہ دکھائی دیتا تھا۔
“مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رھا آپ سے یہ پوچھنا لیکن مجبوری آڑے آرھی ہے۔ آپکی اور نگینہ کی شادی کیوں نہ ہو سکی؟”
خضر نے ڈرتے ڈرتے جوزف سے سوال کیا تھا۔

“ہماری شادی طے تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کیتھرین مجھ سے اس قدر پیار کرتی ہے کہ وہ نگینہ کو ہی مجھ سے دور کر دے گی۔ کیتھرین نے وکٹوریہ سے جادو سیکھنا شروع کر دیا۔ وہ زبردستی اسے چھت پہ لے جاتی اور اس سے جادو سیکھتی۔ وکٹوریہ کہ پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو ملکہ کیتھرین اس کا راز سب کہ سامنے کھول دیتی۔ اور ظاہر ہے کہ ملکہ کہ آگے اسکی بات کون سنتا۔ اور تب بھوربھن میں جادوگر اور اس کہ گھر والوں کو زندہ جلانے کی سزا مقرر تھی۔ اسی ڈر سے وکٹوریہ کیتھرین کی بات مانتی گئی۔ جوں جوں وہ اسے سیکھا رھی تھی اس کا اپنا علم کمزور پڑ رھا تھا۔ اور کیتھرین مضبوط سے مضبوط تر بنتی گئی۔ ایک وقت آیا کہ وہ ایک جادوگرنی بن گئی۔ اور وکٹوریہ فقط ایک میڈ بن کہ رہ گئی۔ ایسے میں لارڈ کی بھی بھوربھن واپسی ہو گئی۔ 

پھر کیتھرین اس کہ ساتھ مصروف ہوگئی۔ اسے اس کی موجودگی میں نہ جادوسیکھنے کا موقع مل سکتا تھا اور نہ اسے آزمانے کا۔ تبھی کیتھرین کو یہ خوشخبری ملی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ یہ باقی سب کہ لیے تو خوشی کی خبر تھی ماسوائے کیتھرین کہ۔ اسے تو ابھی لارڈ کو ختم کر کہ جوزف کو اپنانا تھا۔ یہ بچہ کہاں سے بیچ میں آگیا تھا۔ جس دن ہماری شادی تھی اس دن وکٹوریہ کام پہ محل نہیں گئی تھی۔ کیتھرین نے ایک منصوبہ نجانے کب سے بنا رکھا تھا۔ اس نے اپنے مخبر کہ ذریعے وکٹوریہ اور نگینہ کی حقیقت گاؤں میں مشہور کر دی کہ یہ دنوں قبیلہ ینگ یانگ کی چشم و چراغ ہیں اور جادو جیسے گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں۔ انھیں سخت سے سخت سزا دی جانی چاھیے۔ اس نے وکٹوریہ کا گلوب پہلے ہی قبضے میں لے رکھا تھا۔ وکٹوریہ کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب کیتھرین نے کروایا ہے۔ جس نے خبر نشر کی اس نے ہر جگہ میرا نام بتایا ۔ یوں وکٹوریہ اور نگینہ کو لگا کہ میں نے نگینہ کا راز افشا کیا ہے۔ 

کیونکہ نگینہ مجھے اپنی اور اپنی ماں کی حقیقت بہت پہلے بتا چکی تھی۔ اور میں نے سب جانتے ہوئے نگینہ کو قبول کیا تھا۔ میں اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ میں اپنی صفائیاں دیتا رہ گیا لیکن وکٹوریہ نے ہماری شادی ہونے سے پہلے ہی ختم کر دی۔ نگینہ بھی مجھ سے متنفر ہوگئی۔ اور وہ دونوں اپنا گھر بار چھوڑ کر کیتھرین کہ محل میں چلی گئیں۔ کیونکہ گاؤں والے ان کہ خون کہ پیاسے ہو چکے تھے۔ راتوں رات میرے گھر والے بھی مجھے لیکر شہر بھاگ گئے۔ یوں نگینہ کہ ساتھ زندگی گزارنے کا میرا خواب پل بھر میں چکنا چُور ہو گیا۔ “
جوزف کی آنکھیں شدتِ برداشت کی وجہ سے لال ہو رھی تھیں۔ امراؤ نے دیکھا کہ وہ بمشکل اپنے آنسو روک پایا ہے۔ شاید مردانگی آڑے آرھی تھی۔ امراؤ کو بھی اپنے گال بھیگے محسوس ہوئے۔ ماحول میں عجیب افسردگی سی چھا گئی تھی۔
“لارڈ کو کیسے راستے سے ہٹایا کیتھرین نے؟”
سفیان نے ماحول کو بدلنے کہ لیے بات کا رخ موڑنا چاھا۔

“میرے جانے کہ بعد محل کہ ایک ملازم سے میرا رابطہ قائم رھا۔ وہ میرا جگری دوست تھا۔ اس نے بتایا کہ لارڈ تب برطانیہ تھا اور اس کی پہلی بیوی سے اس کا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ جب یہ سارا قصہ وقوع پذیر ہوا۔ مزید اس کہ مطابق وکٹوریہ اور نگینہ کیتھرین کی کنیزیں بن گئیں۔ وہ دن رات ان سے مشقت کرواتی رھتی۔ خاصکر نگینہ سے تو اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ شادی ٹوٹنے کہ بعد نگینہ ویسے بھی جیتے جی مر ہی چکی تھی۔ رہی سہی کسر کیتھرین نے پوری کر دی۔ وقت گزرتا رھا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ لارڈ جب واپس آیا تو اسے کیتھرین کی جادوئی سرگرمیوں کی بھنک پڑ گئی۔ کیتھرین کی بیٹی بھی انھی دنوں پیدا ہوئی۔ 

لارڈ نے اپنی بھوربھن میں موجود جائیداد آدھی کیتھرین سے پیدا ہوئی بیٹی جمیکا جب کہ آدھی اپنے برطانیہ والے بیٹے مائیکل کلارک کہ نام لگا دی۔ یہ بات فی الوقت کیتھرین سے چھپی ہوئی تھی۔ اس نے پہلے ہی لارڈ کا کافی پیسہ و دیگر قیمتی مال و متاع محل کہ ایک سنسان حصے میں موجود کمرے میں جمع کرنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے کہ لارڈ کیتھرین سے سوال جواب کرتا کیتھرین نے اپنے ایک وفادار کہ ذریعے لارڈ کو محل میں ہی قتل کروا دیا۔ تب حکومت کی جانب سے اتنے بڑے عہدے پہ فائز برطانوی نژاد آفیسر کہ پرسرار قتل کی تحقیقات کی غرض سے محل کو سیل کر دیا گیا۔ کیتھرین کی گرفتاری کہ لیے چھاپے مارے گئے لیکن نجانے اسے زمیں کھا گئی کہ آسمان نگل گیا۔ محل کہ ملازم بھی راتوں رات وہاں سے فرار ہونے لگے۔ عجیب بھاگم بھاگ مچی ہوئی تھی۔ 

برطانیہ کی جانب سے پاکستانی حکومت پہ دباؤ بڑھتا جا رھا تھا کہ قتل کی تحقیقات کروائی جائیں۔ لیکن جو بھی محل میں داخل ہوتا اگلے دن اس کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوتی۔ اس کہ علاوہ بھوربھن میں بھی خوف و ہراس پھیلانے کی غرض سے کیتھرین نے لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنا شروع کردیا۔ وہ اکثر محل کی چھت پہ عجیب سے حلیے میں ٹہلتی دیکھی جاتی۔ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ یہاں کوئی آسیب ہے۔ شاید کیتھرین کا آسیب ہے۔ یوں محل کی جانب جانے سے ہر انسان کترانے لگا۔ اور لارڈ کا قتل ایک معمہ بن گیا۔”
ابھی جوزف نے بات ختم کی ہی تھی کہ خضر بول پڑا:
“پھر جمیکا کا کیا ہوا؟”

جس رات لارڈ کا قتل ہوا اسی رات کیتھرین نے جمیکا کو وکٹوریہ اور نگینہ کہ سپرد کیا ۔ اور انھیں فی الفور علاقے سے بھاگ جانے کو کہا۔ یوں وہ دونوں اس بچی کو لیکر راتوں رات بھوربھن سے غائب ہو گئیں۔ کیتھرین خود نہیں بھاگ سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ یہاں سے نکلی تو ضرور پکڑی جائے گی۔ اور اسے تو محل سے عشق تھا۔ وہ محل کو کیسے چھوڑتی۔ یوں اس نے خود محل میں رکنے کو ترجیع دی۔ اور ابھی تک وہ محل میں ہی بستی ہے۔”
جوزف نے تسلی سے بات مکمل کی۔
“اوہ وہی محل جو اب بھوربھن کالج و ہاسٹل ہے۔”
سفیان نے اس کی بات سنتے ہی کچھ سمجھتے ہوئے کہا تھا۔
“بلکل وہی۔”
جوزف نے دوٹوک انداز میں جواب دیا تھا۔
“یقیناً مائیکل کلارک یہاں اپنا حصہ وصول کرنے پہنچا ہوگا۔ پھر اسی نے محل کھلوا کر یہاں کالج بنوایا۔”

خضر نے بات کہ تہہ تک پہنچتے ہوئے کہا تھا۔
“بلکل! اور اسکی کیتھرین سے ڈیل ہوئی ہوگی کہ وہ اسے پناہ دے گا۔ بدلے میں کیتھرین اسے یہاں کالج بنانے دے۔ تبھی کیتھرین ہاسٹل میں کچھ عرصہ وارڈن کہ طور پر بھی کام کرتی رھی۔ کیونکہ جو بھی تھا محل پہ آدھا حق اس کی بیٹی جمیکا کا بھی تھا۔ تبھی مائیکل کلارک نے اسے زیادہ تنگ نہیں کیا۔”
سفیان نے خضر کی ادھوری بات مکمل کی تھی۔
“لیکن کیتھرین لڑکیوں کا قتل کیوں کرتی تھی وہ بھی اتنا بھیانک؟”
امراؤ نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
“کیتھرین کو اپنی سے زیادہ حسین کوئی بھی قبول نہیں ہے۔ وہ اب تک اسی زعم میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی ہے۔ کیونکہ اسکا آئینہ اسے وہی دکھاتا ہے۔ اب لڑکیوں کی اموات کیوں ہوئیں اس کی ایک سے زیادہ وجوھات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو کیتھرین کو اپنے جادو کہ لیے اور خود کو ہمیشہ ایسے ہی جواں رکھنے کہ لیے جوان اور خوبصورت لڑکیوں کا خون درکار ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ انھیں قتل کر کہ خون کا قطرہ قطرہ نچوڑ لیتی ہے۔ “

اس کی بات سنکر تینوں نے بے اختیار جھرجھری لی۔
“دوسری وجہ یہ ہے کہ شاید کوئی لڑکی ہاسٹل گھومنے کہ چکر میں اس کی قیام گاہ تک پہنچ گئی ہو۔ یا اس کہ جادو میں نہ چاھتے ہوئے مداخلت کی کوشش کی ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ کیتھرین کو کوئی لڑکی خود سے زیادہ خوبصورت لگی ہو اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے اس کا خون کر دیا ہو۔”
جوزف ممکنہ وجوہات بتا کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھکھڑا ہوا۔
“یہ سب باتیں تم ہمیں پرانے بھوربھن میں بھی بتا سکتے تھے۔ یہاں آنے کی کیا وجہ تھی؟”
سفیان نے اکتاتے ہوئے جوزف سے کہا تھا۔

“بتا سکتا تھا۔ ایک تو مجھے ڈر تھا کہ تمُ لوگ میرا یقین نہیں کرو گے جب تک اپنی آنکھوں کہ سامنے سب ہوتا ہوا نہیں دیکھو گے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ کیتھرین کی ڈائری جوں ہی کھولی گئی اس کو الارم پہنچ گیا ہوگا کہ کوئی اس کہ ماضی میں داخل ہو چکا ہے۔ اس سے مقابلہ کرنے کہ لیے اسے جگانا ضروری تھا۔ اور تیسری وجہ ۔۔۔۔!!!!!!!”
یہ کہہ کر جوزف چپ ہوگیا۔
“تیسری وجہ یقیناً نگینہ کا دیدار کرنا ہوگی۔”
خضر نے مسکراہٹ چھپاتے تبصرہ کیا تھا۔
“کیتھرین کو الرٹ کرنے کا مقصد کیا تھا آپکا؟
سفیان نے خضر کی بات نظر انداز کرتے سنجیدگی سے سوال کیا تھا۔
“جب تک وہ جاگے گی نہیں اسکا مقابلہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کا مقابلہ نہیں ہوگا تو اموات کا سلسلہ رکے گا نہیں اور نہ گل رخ کو سکون میسر آۓ گا۔”
“اب آگے ہمیں کرنا کیا ہے؟”
خضر نے فلم کہ ٹرانس سے باہر نکلتے ہوئے کہا تھا۔

“سب سے پہلے تو کیتھرین کو اس کہ محل میرا مطلب ہے موجودہ کالج و ہاسٹل، اس کی رہائش گاہ سے نکالنا ہوگا۔پھر ہی ہم وہاں کی تلاشی لیکر اس چیز تک پہنچ سکتے ہیں جس میں ملکہ کی جان مقید ہے۔ ایک بار وہ ہمارے ہاتھ لگ جائے پھر کیتھرین جیسی جادوگرنی کا مقابلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ ویسے تو اس کہ مقابلے میں آنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔”
جوزف نے آگے کا لائحہ عمل بیان کیا تھا۔
“کیتھرین شام سے پہلے جھرنے کہ پاس بیٹھ کر بانسری بجاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا وہ کہاں سے آتی ہے اور کہاں غائب ہو جاتی ہے۔ وہ اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑتی۔”
“یہ جھرنا وہیں ہے نا جہاں کافی وقت پہلے قبیلہ ینگ یانگ آباد تھا؟ “
جوزف کی بات سنکر خضر نے سوال کیا تھا۔
جوزف: “ہاں بلکل یہ جھرنا وہیں ہے۔ “
“وہاں ایک کٹیا بھی ہے ، جہاں وکٹوریہ رھتی ہے۔ تو ہو سکتا ہے کہ وہی کٹیا وکٹوریہ کہ نانا ینگ یانگ کی رہائش رھی ہو کسی زمانے میں۔ “
جوزف نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
“جو بھی ہے اس کٹیا اور محل میرا مطلب ہے کالج و ہاسٹل کی تلاشی بہت ضروری ہے۔ تبھی کہانی کا اختتام ہو سکتا ہے۔”
سفیان نے ایک عزم سے کہا تھا۔

سلیم کہ قتل کہ بعد اموات کا سلسلہ رکا نہیں تھا۔ بلکہ بڑھ گیا تھا۔ ہاسٹل میں رھنے والی دو بہنوں کا اندوہناک قتل بھوربھن میں خوف و ہراس پھیلانے کہ لیے کافی تھا۔ ہاسٹل کو ہنگامی بنیادوں پہ خالی کرا لیا گیا تھا۔ بھوربھن کالج میں غیر متناعی مدت کہ لیے تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ تمام ہی والدین اپنی بیٹیوں کو لینے کہ لیے پہنچ چکے تھے۔ حالات مائیکل کلارک کہ قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ حکومت پہ پریشر بڑھ چکا تھا۔ اور وہی پریشر اب مائیکل کلارک پہ منتقل ہو چکا تھا۔ لوگ مشتعل ہو چکے تھے۔ بھوربھن کو بلکل ویسے ہی حالات کا سامنا تھا جیسے آج سے کافی عرصہ قبل لارڈ کلارک چرچل میو کہ قتل پہ تھا۔ 

زندگی اجیرن ہو کہ رہ گئی تھی۔ دور دور تک اب یہ قصہ مشہور ہو رھا تھا کہ بھوربھن میں کوئی خونخوار چڑیل رھتی ہے۔ جو انسانوں خاصکر جوان لڑکیوں کا خون پیتی ہے۔ یہ سن سن کر سیاحوں نے وہاں آنا جان ترک کر دیا تھا۔ نتیجتاً حکومت کو سیاحت کی مد میں ملنے والی اچھی خاصی رقم سے ہاتھ دھونا پڑ رھا تھا۔ اور موجودہ حکومت کہ حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ اتنا بڑا نقصان برداشت کر سکتی۔ لہذا پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ پولیس کہ جوانوں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی تھیں۔ جن میں آفیسر سفیان تبریز بھی شامل تھا۔ اس نے دو دن کی چھٹی کی درخواست دے رکھی تھی۔ جو منظور ہونے کہ بعد منسوخ ہو گئی تھی۔ واحد ہسپتال سی ایم ایچ میں بھی ایمرجنسی نافذ تھی۔ 

کالج و ہاسٹل کہ قریب رھنے والوں سے علاقہ خالی کروانا شروع کر دیا گیا تھا کیونکہ جوں ہی سورج ڈوبتا ہاسٹل کی چھت سے بڑے بڑے نوکیلے پتھر نیچے گرائے جاتے۔ جس سے کالج کہ قریب گاؤں کہ کچے گھروں میں بسنے والوں کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ کالج و ہاسٹل میں ہر وقت ہُو کا عالم ہوتا۔ سورج ڈوبتے کہ بعد رات گئے ہاسٹل کی چھت پہ اس سفید اپسرا کو بہت بار دیکھا گیا۔ وہ فلک شگاف قہقہے لگاتی اور ہاسٹل کی چھت کی چھوٹی سی فصیل پہ کمال مہارت سے چلتی رھتی۔ نجانے وہ انسان تھی یا کوئی چڑیل۔ جو بھی تھی نہایت خطرناک و بھیانک تھی۔

جھرنے کہ قریب جانے والا راستہ بھی سیل کر دیا گیا تھا۔ وہاں موجود کٹیا میں رھنے والی بڑھیا اور اسکی بیٹی کی تلاش میں جب وہاں چھاپا مارا گیا تو وہاں فقط اندھیرا تھا۔ لگتا تھا دونوں ماں بیٹی ڈر کر اپنے سازوسامان سمیت فرار ہو چکی ہیں۔ فی الوقت تو سارے اقدامات اندھیرے میں ہاتھ مارنے کہ مترادف تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوزف کہ علاوہ باقی تینوں کو اب واپس اپنی دنیا میں جانے کہ لالے پڑ گئے تھے۔ بہت سے ادھورے کام ان کہ منتظر تھے۔ وہاں تینوں کہ فون بھی کام نہیں کر رھے تھے۔ انھوں نے جوزف کو واپس چلنے کا کہا تاکہ وہاں جاکر کوئی تدبیر لڑائی جا سکے اور کیتھرین جیسی بلا سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ جوزف نے ایک بھرپور ٹیم بنائی تھی جس میں ایک پولیس کا بڑا آفیسر تھا، ایک ماہر سرجن تھا اور ایک ذہین و خوبصورت ہاسٹل و کالج کہ سربراہ کی بیٹی امراؤ جان تھی۔ ان کا ارادہ نیک تھا اور عزم سچا۔ وہ ہر حال میں کیتھرین کا کام تمام کرنا چاھتے تھے۔ تب وہ نہیں جانتے تھے کہ ایک جادوگر کا مقابلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا وہ لوگ اب تک سمجھ رھے تھے۔ اس میں کسی کی جان بھی جا سکتی تھی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب نے وہیں ٹیلے پہ کھڑے کھڑے ہی جوزف کہ حکم پہ آنکھیں بند کیں ، جوزف نے نجانے کیا پڑھکر پھونکا کہ ان کہ جسموں کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور جب آنکھیں کھولیں تو خود کو حالیہ بھوربھن کہ ایک پہاڑی ٹیلے پہ پایا۔ علاقہ بلاشبہ وہی تھا لیکن در حقیقت بہت کچھ بدل چکا تھا۔ وہ سب جوزف کہ ہمراہ ہسپتال کی جانب جانے لگے۔ تاکہ حالات و واقعات کا جائزہ لیا جا سکے۔

 جوزف نے خطرے کی بو محسوس کر لی تھی اور اس سے سفیان کا ڈھکے چھپے لفظوں میں آگاہ بھی کر دیا تھا۔ لہذا انھوں نے سب سے پہلے ہسپتال جانے کی ٹھانی۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہسپتال کہ باہر بھوربھن کہ لوگوں کا لاشیں رکھکر احتجاج جاری تھا۔ جہاں سفیان کہ ہاتھ پاؤں پھولے وہیں خضر کی حالت بھی غیر ہوئی۔ وہ دو جوان لڑکیوں کی کٹی پھٹی لاشیں تھیں۔ ان کہ جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا تھا۔ انھوں نے انٹر کرنے کہ لیے کالج و ہاسٹل میں داخلہ لیا تھا۔ دونوں سگی بہنیں تھیں۔ نجانے کیسے وہ کیتھرین کہ عتاب کا نشانہ بن گئیں۔ سفیان جوں ہی موجودہ دور میں واپس آیا اس کا موبائل بار بار بجتا رھا۔ اسے اوپر والوں کی مسلسل کالز آرھی تھیں۔ جو اسے ہر حال میں حالات کو قابو کرنے کا حکم دے رھے تھے۔
لواحقین لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کروانے دے رھے تھے بہت مشکل سے علاقے کہ عمائدین نے انھیں قائل کیا۔ 

پچھلی رات ہوئے سلیم نامی لڑکے کا پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا۔ اب خضر کی مدد کہ لیے نہ صرف عملہ بڑھا دیا گیا تھا بلکہ ایک ینگ ڈاکٹر جنید عالم بھی موجود تھا۔ رات تک تینوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس تیار کر لی گئیں اور جوان لاشوں کو آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ لڑکیوں کا تعلق بھوربھن سے دور والے علاقے میں تھا۔ ان کہ نڈھال لواحقین ان کی ڈیڈ باڈیز اپنے ساتھ وہیں لے گئے تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی ہر دل نوحہ کناں۔ سیاحت مفقود ہو کر رہ گئی تھی۔ اور ساتھ ہی بھوربھن مین بسنے والی مقامی تاجروں و گھریلو صنعت کاروں کا کاروبار بھی ٹھپ ہو گیا تھا۔ انھیں تو اب کھانے کہ لالے پڑ گئے تھے۔ پولیس کہ اعلیٰ افسران کی رات گئے میٹنگ بلائی گئی۔ جس میں سفیان تبریز کو بھی ہر حال میں شرکت کہ لیے کہا گیا۔ وہاں بھی ظاہر ہے ان پہ دباؤ ڈالا گیا کہ ہر حال میں حالات کو قابو کریں تاکہ علاقے کو جلد از جلد سیاحوں کہ لیے کھولا جائے۔

ابھی رات والی اموات کا غم بھولا نہیں تھا کہ جھرنے کہ پاس سے دو اور لاشیں برآمد ہوئیں۔ وہ ایک غیر ملکی جوڑا تھا۔ جو شاید شادی کہ بعد ہنی مون منانے کہ لیے پاکستان کہ اس علاقے میں موجود تھے۔ وہ کوہ پیما تھے اور کوہ کمالیہ کہ وسیع و عریض پہاڑی سلسلوں پہ کوہ پیمائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اپنے ارادے کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان دونوں کہ سامان سے ان کہ پاسپورٹ و دیگر دستاویزات برآمد ہوئی تھیں۔ ان کہ نام جان ٹیری اور روز ٹیری تھے۔ ان کا تعلق کینیڈا سے تھا۔ 

جان ٹیری کینیڈا کا ماہر کوۂ پیما تھا۔ اس نے اپنی مختصر سی زندگی میں کافی ریکارڈ بنا رکھے تھے۔ کینیڈا کی حکومت کو جب یہ خبر ملی تو وہاں تو جیسے بھونچال آگیا۔ اور ظاہر ہے پاکستان کیسے اس بھونچال کی اثرات سے بچ سکتا تھا؟ کینیڈا نے اپنے سفیر کو احتجاجاً واپس بلا لیا تھا۔ وہاں سے پاکستانی سفیر کو بھی احتجاجی مراسلہ دیکر ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ بہیمانہ انداز میں قتل ہونےوالا جان ٹیری کو عام انسان نہیں تھا۔ 

وہ گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام کندا کروانے والا پہلے کینیڈین کوۂ پیما تھا۔ کینیڈا میں ملک گیر احتجاج کیا جا رھا تھا۔ جان ٹیری کہ قاتلوں کو گرفتار کر کہ تختۂ دار پہ لٹکانے کا مطالبہ عروج پر تھا۔ نتیجتاً پاکستانی حکام کی بھی نیندیں غارت ہو چکی تھیں۔ پولیس انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی تھی۔ یہ تو صد شکر کہ میڈیا کہ وہاں آنے پر پابندی تھی ورنہ تو کیا سے کیا ہو جانا تھا۔ دنیا بھر میں پاکستان کا منفی امیج جا رھا تھا۔ جو سیاحت کہ علاوہ دیگر شعبوں میں بھی پاکستان کہ لیے نقصان کا باعث تھا۔

سفیان تبریز کو “کرو” یا “مرو” کہ آرڈرز جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کا فیوچر اسٹیک پہ تھا۔ اگر وہ مطلوبہ قاتلوں کو گرفتار کر کہ ہونے والے بہیمانہ قتل کہ سلسلے کو نہیں روکے گا تو اسے مجبوراً استعفیٰ دینا پڑے گا۔ نہ فقط استعفیٰ بلکہ تاحیات پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جاب کہ لیے اسے نااہلی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اطلاعات و تحقیقات کہ مطابق کوۂ پیما ہفتہ قبل ہی وہاں پہنچے تھے۔ وہ لوگ مقامی ہوٹل میں رہائش رکھے ہوئے تھے۔ اور حادثے کہ وقت جھرنے کہ قریب موجود تھے۔ نجانے اتنی پابندیوں کہ باوجود وہ لوگ جھرنے تک کیسے پہنچے؟ جان کی باڈی کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا۔ وزنی پتھر سے سر کچل کر اسے ہلاک کیا گیا تھا۔ 

اس کا دماغ بھی کھوپڑی سے نکال لیا گیا تھا۔ جبکہ روز ٹیری کہ خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا گیا تھا۔ اس کہ سرخ نیل پالش سے آراستہ لمبے ناخن بھی اس کہ کومل ہاتھوں سے کھینچ کر الگ کیے گئے تھے اور لاش کہ اطراف میں سجا کر رکھے گئے تھے۔ اذیت ناک و درد ناک موت مارا گیا تھا معصوم جوڑے کو۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جاتی کم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان تب ہسپتال میں خضر کہ پاس بیٹھا تھا ، وہ حالیہ قتل ہوئے جوڑے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بابت گفتگو کر رھا تھا جب اسے اوپر والوں کی جانب سے حتمی کال موصول ہوئی۔ جس میں اس کہ اعلیٰ حکام نے اسے عہدے سے فی الفور استعفیٰ دینے کا کہا تھا۔ کیونکہ ان کہ بقول وہ کچھ بھی نہیں کر رھا تھا۔ اور ایسے اتنے بڑے عہدے پہ جمے رھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ یہ سنتے ہی جہاں سفیان کی نسیں پھولیں وہیں خضر کی ہوائیاں بھی اڑ چکی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ سفیان ایسی ذلت کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گا۔ اس وقت سفیان کی جو حالت تھی اس سے کسی بھی قسم کی خیر کی توقع تو بہرحال نہیں کی جا سکتی تھی۔
“میں اب اس کیتھرین کو نہیں چھوڑوں گا۔ “

سفیان نے پھولے تنفس کہ ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔ اس کا ارادہ خطرناک تھا۔
“صبر کرو سفیان! جوزف لائحہ عمل تیار کر رہا ہے ۔ تم جانتے ہو کیتھرین پہ یوں ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ کوئی عام عورت نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کی جادوگرنی ہے۔ اسکا مقابلہ تم اکیلے نہیں کر سکتے۔ ہمیں جوزف کہ اگلے اشارے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ فقط وہی ہے جو ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کہ گُر بتا سکتا ہے۔ “
خضر نے سفیان کو بازؤں سے تھام رکھا تھا۔ وہ اسے کسی بھی قیمت پہ جانے نہیں دے سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سفیان اکیلا ہی کیتھرین کا مقابلہ کرنے کہ لیے نکل سکتا تھا۔ اور پھر جو ہونا تھا خضر اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاھتا تھا۔

“چھوڑو مجھے خضر۔ میں بچہ نہیں ہوں جو تمھاری ان باتوں میں آجاؤں گا۔ مجھ پر بہت پریشر ہے تم جانتے ہو۔ مجھے اپنا آپ منوانا ہے ہر حال میں۔ میرے ہوتے ہوئے بھی اتنے معصوم لوگ جان سے ہاتھ دھو رھے ہیں، میرے ملک کا امیج بیرونی دنیا میں بری طرح متاثر ہو رھا ہے اور تم مجھے کہہ رھے ہو کہ میں آرام سے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کہ جوزف کا انتظار کروں؟”

“تاکہ کوئی دوسرا معصوم موت کی وادی میں اتر جائے۔ تمیں یاد ہے جوزف نے کہا تھا کہ کیتھرین جاگ جائے گی۔ ہم نے اس کہ ماضی میں مداخلت کی ہے خضر، وہ اب بری طرح بپھر چکی ہے۔ ایک پاگل شیرنی کی طرح۔ اگر ابھی بھی اسے نہ روکا گیا تو وہ بھوربھن کو تہس نہس کر دے گی۔ اور میں یہ سب اپنی آنکھوں کہ سامنے ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔”

سفیان نے پھولتی سانسوں کہ درمیان جذباتی انداز میں ساری بات مکمل کی تھی۔ اور اپنی سنا کر وہ رکا نہیں تھا بلکہ خضر سے ہاتھ چھڑاتا اپنا پسٹل ٹراؤزر کی پچھلی جیب میں اڑستا وہ نکل کھڑا ہوا تھا۔ خضر اس کہ پیچھے بھاگا لیکن وہ اس کہ ہاتھوں سے نکل کہ جا چکا تھا۔ وہ پولیس وین میں اکیلا ہی آیا تھا اور خضر نےدیکھا تھا کہ پولیس وین سائرن بجاتی ہوئی بھوربھن کی سمت نکل گئی تھی۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ اور اس وقت کیتھرین جھرنے کہ پاس موجود ہوتی تھی۔ خضر کا دل بری طرح کانپ رھا تھا۔ سفیان جان بوجھ کر اپنا موبائل خضر کی میز پہ رکھ کر گیا تھا۔ خضر جانتا تھا وہ اس وقت جھرنے کہ پاس کیتھرین کا مقابلہ کرنے ہی گیا ہوگا۔ وہ بھی تنِ تنہا۔ اسے اب فقط جوزف کا انتظار تھا۔ کیونکہ وہ جوزف سے خود تو رابطہ کر نہیں سکتا تھا۔ جوزف خود ہی اس سے ملنے آتا تھا۔ 

ہسپتال میں مریضوں کا رش لگ چکا تھا۔ وہ اتنے مریضوں کو جنید کہ سپرد کر کہ سفیان کہ پیچھے نہیں جا سکتا تھا۔ اسے ابھی دوپیچیدہ آپریشنز بھی کرنے تھے۔ خضر کو سمجھ نہیں آرھا تھا وہ کرے تو کیا کرے؟ کس سے مدد طلب کرے۔ ابھی وہ یہی سوچے جا رھا تھا کہ وارڈ بوائے اسے اطلاع دینے آیا کہ آپریشن تھیٹر میں مریض کو پہنچا دیا گیا تھا۔ اس کی حالت غیر ہورھی تھی۔ خضر کو فی الفور وہاں پہنچنا چاھیے۔ خضر کا دماغ ہنوز سفیان میں اٹکا تھا۔ وہ اب سفیان کہ پیچھے جائے یا مرتے ہوئے مریض کو دیکھے؟
“سر آپ سوچ کیا رھے ہیں؟ آپ کی ذرا سے تاخیر کسی کی جان لے سکتی ہے۔”
وارڈ بوائے نے اسے اسکی سوچوں سے کھینچ کر نکالا تھا۔
وہ بنا سوچے اب وارڈ بوائے کہ پیچھے آپریشن تھیٹر کی جانب بھاگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جوزف خضر کہ کمرے میں برآمد ہوا تھا۔ خضر کو وہاں نہ پاکر وہیں اس کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی اسے بیٹھے کچھ ہی پل سرکے تھے کہ امراؤ وہاں نمودار ہوئی۔ اس نے ہاسٹل بند ہونے کہ بعد ہسپتال میں رہائش رکھ لی تھی۔ ہسپتال میں ڈاکٹرز و نرسز کی رہائش کہ لیے کمرے بنائے گئے تھے۔ انھی میں سے ایک میں امراؤ بھی رہ رھی تھی۔ تا وقتکہ کوئی اور بندوبست نہیں ہو جاتا۔ جوزف اور امراؤ حالیہ بھوربھن کی صورتحال پہ تبادلۂ خیال کر رھے تھے۔ اس بات سے انجان کہ ان کا ساتھی سفیان تبریز خود کو موت کہ منہ میں دھیکیلنے کہ لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان نے اپنی وین جھرنے سے کافی دور ہی کھڑی کر دی تھی۔ رات کا اندھیرا اپنے پر پھیلا چکا تھا۔ وہ اپنے ساتھ چھوٹی ٹارچ لایا تھا۔ یہ ٹارچ دلآویز کی تھی۔ اور وہ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ یہ سرخ رنگ کی تھی اور اس کی ایک جانب بلب سا لگا تھا جو سیلز کی مدد سے روشن ہوتا تھا جبکہ دوسری جانب ایک خانہ تھا جس کو اگر کھولا جاتا تو وہاں ایک چھوٹا سا آئینہ چسپا کیا گیا تھا اور ایک طرف جگہ خالی تھی جہاں وہ اپنی لپ اسٹک رکھا کرتی تھی۔ سفیان سے شادی کہ بعد وہ اپنی طراش خراش کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھا کرتی تھی۔ 

اسی لیے اس نے ٹارچ کی ایسی سیٹنگ کی تھی۔ ابھی لپ اسٹک والا خانہ تو خالی تھا۔ اور وہاں سفیان نے دلآویز اور شاہزین کی چھوٹی سے تصویر لگا رکھی تھی۔ تصویر میں دلآویز نے چھوٹے سے شاہزین کو اٹھا رکھا تھا۔ سفیان نے آئینے والا خانہ جلدی میں بند کیا۔ وہ اسے جب بھی کھولتا تھا دلآویز اور شاہزین کی یاد ہوا کہ جھونکے کی مانند اس کی جسم کو معطر کر جاتی تھی۔ ہر مشکل محاذ پہ جانے سے پہلے وہ انھیں ضرور الوداع کہتا تھا۔ اب بھی اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں لیکن فرض ادا کرنا بھی ضروری تھا۔

اس نے جھرنے کی جانب قدم بڑھا دیے تھے۔ جھرنے سے پانی گرنے کا شور یہاں تک آرھا تھا۔ یہاں عجیب سی پرسراریت کا راج تھا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رھا تھا کیتھرین کی بانسری کی آواز سفیان کی کانوں میں رس گھول رھی تھی۔ سفیان کہ قدم خود بخود اس جانب کھینچتے چلے گئے۔ وہ اب اونچے نیچے پہاڑی راستوں پہ دیوانہ وار بھاگا چلا جا رھا تھا۔ وہ شیریں آواز اسے اپنی جانب بلا رھی تھی۔ وہ اس وقت آپے سے باہر تھا۔ ہاتھ میں ٹارچ جوں کی توں روشن تھی لیکن سمت کا تعین نجانے کون کر رھا تھا۔ جلد ہی وہ نیچے جھرنے کہ پاس پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ سفید چاند کا گولہ وہاں بیٹھی تاحدِ نگاہ پھیلے سفید لباس میں ملبوس اپسرا کہ عین اوپر جگمگا رھا ہے۔ چاند کی دودھیا روشنی میں اس اپسرا کا عکس نیم واضح تھا۔ کیونکہ اس نے اپنا رخ ترچھا رکھا تھا۔ سفیان اب اسے دیکھنے کہ لیے مرا جا رھا تھا۔ اس میں عجیب سی مقناطیسی کشش تھی۔ 

جو مدِ مقابل کو اپنی جانب کھینچ رھی تھی۔ سفیان بھی اس کہ حصار میں بندھتا چلا گیا۔ تبھی اپسرا نے بانسری لبوں سے ہٹائی۔ اور یہی لمحہ تھا جب سفیان تبریز ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔ وہ بلاشبہ ایک مضبوط اعصاب کا حامل قوی مرد تھا۔ اس نے سر کو دائیں بائیں جھٹکا تو خود کو وہاں پاکر جیسے اسے ایک پل میں ساری کہانی سمجھ آگئی۔ اس کا ہاتھ ٹراؤزر میں اڑسے اپنے پسٹل کی جانب گیا۔ بلکل تبھی اپسرا ایک جھٹکے سے اٹھی اور سفیان پہ حملہ آور ہو گئی۔ اس نے سفیان کو گلے سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا تھا۔ سفیان کہ پاؤں زمین کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ وہ اب خلا میں معلق تھا۔ اس کی سانسیں اٹک رھی تھیں۔ اس کی گرفت ہاتھ میں پکڑے پسٹل پہ ڈھیلی پڑی اور وہ لمحوں میں اس کہ ہاتھ سے سلپ ہو کر زمین بوس ہو گیا۔ سفیان نے ٹارچ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس نے ٹارچ پہ اپنی گرفت حتی المقدور مضبوط رکھی اور ایک جھٹکے میں ٹارچ اپسرا کہ منہ پہ ماری۔ 

جس سے اس کا چہرہ مزید واضح ہوا۔ اسے دیکھتے ہی سفیان جیسے بہادر مرد کہ منہ سے بھی ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی۔ کیونکہ وہ تھی ہی اتنی ڈراؤنی۔ وہ اب سفیان کی گردن میں اپنے نوکیلے ناخن اتار رھی تھی۔ خون کی باریک لکیریں اس کی گردن سے ہوتے ہوئے نیچے کی جانب محوِ سفر تھیں۔ وہ ابھی بھی اپنے حواسوں میں تھا۔ اس کی نگاہ اپسرا کہ گردن میں لٹکتے ایک بڑے سے لاکٹ کی طرف پھسلی۔ جس میں ایک بڑا سا فیروزہ جُڑا تھا۔ فیروزے میں سے عجیب رنگ کی روشنی تھوڑی تھوڑی دیر بعد نکل رھی تھی۔ سفیان ہنوز خلا میں معلق تھا۔ اس کا خون اب مزید تیزی سے نکل رھا تھا۔ جوں جوں خون نکل رھا تھا اس کا جسم ڈھیلا پڑ رھا تھا۔ اس نے اب ہاتھ پاؤں مارنا چھوڑ دیے تھے۔ 

اپسرا اسے اوپر اور اوپر خلا میں اٹھا رھی تھی۔ سفیان کو اپنی موت دکھائی دینے لگی۔ اسے آخری خیال اپنی بیوی اور بچے کا آیا۔ وہ جان چکا تھا کہ اب اسے اس جادوگرنی کہ چنگل سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس نے آخری بار اپنی بیوی کا دیدار کرنے کی غرض سے بمشکل ٹارچ والا ہاتھ اوپر اٹھایا تاکہ وہاں آئینے کہ ساتھ لگی اس کی تصویر دیکھ سکے۔ خون اب مزید تیزی سے بہہ رھا تھا۔ اس کا جسم ادھ موا ہو رھا تھا۔ گردن میں جیسے بیک وقت سینکڑوں گرم سریے پیوست کر دیے گئے تھے۔ اس کی ہمت پھر بھی قابلِ ستائش تھی۔ اس نے لرزتا ہاتھ اوپر اٹھایا۔ چاند کی روشنی میں اپنی بیوی اور بیٹے کا آخری دیدارا کرنا چاھا تبھی آئینے والا خانہ کھلا، آن کی آن میں تصویر نیچے گری اور آئینہ سفیان کہ ہاتھ میں رہ گیا۔ آئینے کا رخ اپسرا کی جانب ذرا سا ہوا تو اس کی فلک شگاف چیخ خلا کی نظر ہوئی۔ 

سفیان کو پل بھر میں بات سمجھ آگئی۔ اپسرا کی گرفت اب سفیان کی گردن پہ ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ سفیان نے رہی سہی ہمت مجتمع کر کہ آئینے کا رخ پوری طرح اپسرا کی جانب موڑا۔ اور یہی وقت تھا جب اپسرا نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔ اور نتیجتاً سفیان کو خلا میں چھوڑ دیا۔ نقاہت کہ سبب ہانپتا کاپنتا سفیان اب آئینے کا رخ مزید اپسرا کہ چہرے کی جانب موڑ رھا تھا۔ یہ جادوئی آئینہ تو تھا نہیں جو اپسرا کو اس کی جوانی دکھاتا۔ اس آئینے نے اپسرا کو اس کی اصل ڈراؤنی شکل دکھائی۔ چاند کی روشنی میں گو کہ وہ نیم واضح تھی پھر بھی اپسرا اس کی تاب نہ لا سکی۔ اور اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر بھاگنا چاھا۔ 

جیسے ہی اسنے چہرے پہ ہاتھ رکھنے کی غرض سے سفیان کو چھوڑا تھا تبھی سفیان نے ایک جھٹکے سے اس گلے میں لٹکتے لاکٹ کو کھینچ کر اتار لیا تھا۔ اپسرا کا چہرہ اب جل رھا تھا۔ جیسے اس پہ آگ لگ گئی ہو۔ وہ کراہ رھی تھی۔ اس کی چیخوں سے بھوربھن کی پہاڑیاں تک لرز اٹھی تھیں۔ سفیان مزید اس کہ پیچھے بھاگنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اس کا خون ابھی بھی تیزی سے بہہ رھا تھا۔ اس کی شرٹ خون سے تر تھی۔ اس کی گردن میں ابھی تک جیسے گرم سلاخیں دھنسی ہوئی تھیں۔ اپسرا تو نجانے کہاں غائب ہو گئی لیکن سفیان تبریز ایک ہاتھ میں آئینہ جبکہ دوسرے ہاتھ میں اپسرا سے چھینا لاکٹ مضبوطی سے تھامے ہوش و خرد سے بیگانہ بے یارومددگار وہیں پڑا رہ گیا!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے