سلیم نامی لڑکے کہ پوسٹمارٹم رپورٹ و دیگر کی گئی تحقیقات سے یہ حقائق سامنے آۓ تھے کہ وہ بھوربھن گاؤں کی ایک لڑکی کہ عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ جس رات اس کا قتل ہوا اسی رات اس لڑکی کی مہندی کی رسم ادا کی جا رھی تھی۔ دونوں نے پلان بنایا تھا کہ وہ اسی رات بھاگ جائیں گے تاکہ لڑکی اپنی ان چاھی شادی سے بچ جائے۔
دونوں نے رات کو وقتِ مقرر پر کھائی پہ ملنے کی منصوبہ بندی کی۔ اب بد قسمتی سے لڑکا تو وقتِ مقرر پہ پہنچ گیا جب کہ اس کی دلہنیا وہاں نہ پہنچ پائی۔ وہ ا سکا انتظار کرتا رھا، اور پھر نجانے کس نے اسے چھری کی پے در پے وار کر کہ بری طرح زخمی کیا پھر کھائی میں دھیکا دے دیا۔ لڑکی تو اس کہ پاس نہیں پہنچی ہاں وہ ضرور اوپر پہنچ گیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھوربھن کہ حالات بدستور خراب تھے۔ کینیڈین حکومت کی جانب سے دباؤ عروج پر تھا۔ غیر ملکی سیاحوں کی ڈیڈ باڈیز اعزاز کہ ساتھ کینیڈا روانہ کی جا چکی تھیں۔ کینیڈا کا پاکستان میں مقیم سفیر بھی ہمراہ گیا تھا۔ وزیرِ خارجہ کی جانب سے بھوربھن آمد بھی متوقع تھی۔ وہ خود وہاں پہنچ کر حالات و واقعات کا از سرِ نو جائزہ لینا چاھتے تھے۔ انھیں پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بریفنگ بھی دی جانی تھی۔ تھانے میں اگلے دن دورہ کرنے والے وزیرِ خارجہ کہ استقبال کی تیاریاں عورج پر تھیں۔ رات قطرہ قطرہ کر کہ پگھل رھی تھی لیکن تھانے کہ انچارج آفیسر سفیان تبریز کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔ وہ تھانے سے پولیس وین میں تنہا ہی نکلے تھے اور ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔ ان کہ موبائل پہ بھی کوئی کال ریسیو نہیں کر رھا تھا۔ انھیں اگلے روز وزیرِ خارجہ کی متوقع آمد کی اطلاع دینا ازحد ضروری تھا۔
ڈاکٹر خضر منان جلد ہی آپریشن کامیابی سے مکمل کر کہ اپنے آفس واپس پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے ابھی تک آپریشن گاؤن نہیں اتارا تھا۔ جیسے ہی وہ اپنے آفس میں داخل ہوئے وہاں امراؤ اور جوزف کو اپنا منتظر پایا۔ ڈاکٹر نے چھوٹتے ہی ان دونوں سے سفیان کی بابت استفسار کیا۔ ان کی جانب سے نفی میں جواب سنکر ڈاکٹر کہ ہاتھوں کہ جیسے طوطے اڑ گئے۔ انھوں نے فوراً ایمبولینس نکلوانے کا حکم دیا اور باہر کی جانب بھاگے، ان کہ دونوں ساتھی بھی حالات کی نزاکت کو بھانپ چکے تھے وہ بھی ان کہ پیچھے لپکے۔ جلد ہی وہ لوگ جھرنے کہ پاس پہنچ گئے۔
سفیان کو ڈھونڈنے میں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ کیونکہ جھرنے کہ بلکل پاس ہی وہ آڑھا ترچھا زمین پہ گرا دکھائی دے گیا۔ اس کی شرٹ خون سے لال تھی۔ ڈاکٹر خضر اور جوزف ٹارچ کی مدد سے روشنی کر کہ اس تک پہنچے تو یہ دیکھکر دھک سے رہ گئے اس کی شرٹ خون سے لال تھی۔ خون ہنوز باریک دھاریوں کی صورت میں اس کی گردن سے رواں تھا۔ خضر نے فوراً گھٹنوں کہ بل زمین پہ بیٹھ کر اس کی شہہ رگ پہ ہاتھ رکھ کر اس کی روح کی جسم میں موجودگی کی اطلاع دی۔ اس کی سانسیں ہنوز چل رھی تھیں۔
گو کہ دشواری سے ہی چل رھی تھیں لیکن بہر حال وہ ابھی تک اس جہانِ فانی میں موجود تھا۔ ڈاکٹر خضر کو یہ دیکھکر خاصی ڈھارس ہوئی۔ اس نے جوزف کی مدد سے اسے اٹھاکر ایمبولینس میں ڈالا اور ابتدائی طبی امداد کا آغاز وہیں کر دیا۔ امراؤ ہکا بکا سی بس سب ہوتا دیکھ رھی تھی۔ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں میں آنسو تیر رھے تھے۔ سفیان کہ ایک ہاتھ میں ٹارچ تھی جبکہ دوسرے ہاتھ میں کوئی نیلے رنگ کہ بڑے سے فیروزے والا لاکٹ تھا۔ جسے اس نے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ جلد ہی وہ لوگ ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر خضر سفیان کو ایمرجینسی میں لے گئے۔ ڈاکٹر جنید کو بھی اپنی مدد کہ بلوا لیا۔ امراؤ اور جوزف اب باہر بیٹھے کسی اچھی خبر کہ انتظار میں دعائیں مانگ رھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل وکالج کہ خالی ہونے کہ بعد وہاں کیتھرین آزادانہ گھوم پھر سکتی تھی۔ اس نے مائیکل کلارک سے کیا اپنا معاہدہ توڑ ڈالا تھا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہاسٹل یا کالج میں بسنے والی مخلوق کو نقصان نہیں پہنچائے گی تاوقتکہ کوئی اس کہ کاموں میں مداخلت نہ کرے۔ لیکن اب اس نے پے در پے ہاسٹل میں بسنے والی دو معصوموں کی جانیں لی تھیں۔ مائیکل کلارک غصے سے بپھرے ہوئے تھے۔ اب تو حکومت کی جانب سے بھی کسی قسم کی امداد ملتی دکھائی نہ دے رھی تھی۔ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا۔
انھوں نے بڑی مشکلوں سے یہاں کالج و ہاسٹل کھڑا کیا تھا۔ جسے بہت بار مشکلات کا سامنا رھا لیکن وہ یوں سیل کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہر بار ان کہ تعلقات انھیں بچا لیتے تھے۔ لیکن اب کی بار تو کوئی حربہ بھی کارآمد نہیں تھا۔ اس سب کی ذمہ دار پہلے بھی کیتھرین ڈسوزا یعنی ان کہ باپ کی دوسری بیوی اور ان کی سوتیلی ماں اور اب بھی ۔ مائیکل کلارک نے بلآخر کیتھرین سے دُوبدو بات کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اگلی رات کو انھیں اس سے ملاقات کرنا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خضر ایک گھنٹا اور چودہ منٹ بعد ایمرجنسی روم سے برآمد ہوئے تھے۔ ان کہ چہرے پہ تھکاوٹ و تکلیف کہ آثار نمایاں تھے۔ انھوں نے ماسک اتارا اور تھکے ہارے مسافر کی طرح جوزف کہ پہلو میں ڈھے سے گئے۔
“آج پہلی بار مجھے احساس ہوا ہے کہ کسی اپنے کہ زخموں پہ مرہم رکھنا کس قدر تکلیف دہ عمل ہے۔ سفیان سے مجھے اتنی محبت ہوگی اس کا اندازہ مجھے آج ہوا ہے۔ اس کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو شاید مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی۔ میرا اس سے خون کا رشتہ ہرگز نہیں ہے۔ بس فقط دوستی کا رشتہ ہے۔ لیکن جذباتی وابستگی اس قدر ہے کہ اسے تکلیف میں دیکھکر میرا انگ انگ جیسے درد سے کراہ رھا ہے۔”
جوزف نے خضر کو کندھوں سے تھام کہ دلاسہ دیا۔ خضر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی بات مکمل کر رھے تھے۔ ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رھے تھے۔ امراؤ بھی انھیں دیکھکر بھاگ کر انکی سمت بڑھی اور ان کہ منہ سے نکلنے والے الفاظ سنکر وہ بھی کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
“سس سفیان ٹھیک تو ہے نا ڈاکٹر؟”
دل میں کب سے ابلتے سوال کو امراؤ نے بلآخر آواز سے نوازا تھا۔
جوزف نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ کہ اشارے سے اسے چپ رھنے کا کہا تھا۔ جوزف نے ہنوز خضر کو کندھوں سے تھام رکھا تھا۔ خضر نے سر جھکا رکھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اب ٹوٹ ٹوٹ کر ہسپتال کہ ٹھنڈے فرش پہ جذب ہو رھے تھے۔ امراؤ کا دل بھی رو دینے کا چاہ رھا تھا۔ اسے رہ رہ کر سفیان کہ معصوم اور پیارے سے بیٹے شاہ زین کا خیال آرھا تھا جس کی تصویر ایک بار سفیان نے ان سب کو دکھائی تھی۔ ابھی وہ سب نڈھال اور پژمردہ سے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایمرجنسی روم کا دروازہ کھولکر ڈاکٹر جنید برآمد ہوئے۔ امراؤ نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا۔ اس کہ چہرے پہ مرقوم خوشی دیکھکر امراؤ کا جی بے اختیار چھلانگیں لگانے کا چاھا۔
“سر پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔”
اس نے بس اتنا ہی کہا اور فوراً واپس لوٹ گیا۔ ڈاکٹر خضر بھی تڑپ کر اٹھے اور اس کہ پیچھے اندر چلے گئے۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ واپس آۓ اور جوزف اور امراؤ کو اندر جانے کا کہا۔ فی الوقت سفیان کو یہاں یہی “رشتہ دار” تھے۔ وہ سب اب سفیان کہ بستر کہ پاس جمع تھے۔ سفیان کہ چہرے سے نقاہت جھلک رھی تھی۔ اسکا بازو کینولا کی قید میں تھا۔ جبکہ دوسرے بازو پہ پلاسٹر چڑھایا گیا تھا۔ ٹانگ پہ بھی زخم آۓ تھے۔ جبکہ گردن فی الوقت پوری کی پوری سفید پٹیوں کی قید میں تھی۔ اس کہ پپوٹوں کی ہلکی سی لرزش بھی یہاں موجود اس کہ پیاروں کو بے قرار کر رھی تھی۔ کافی تگ و دو کہ بعد وہ آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہوا تھا۔
آنکھیں کھولتے ہی اس نے ڈاکٹر خضر کی جانب دیکھکر کر پھیکی سی مسکراہٹ اچھالی تھی۔ اور خضر کا دل بے اختیار سجدے میں گر جانے کو چاھا تھا۔ انھوں نے سجدۂ شکر ادا کیا بھی۔ کہ اللہ کی پاک ذات نے انھیں ان کا دوست لوٹایا تھا۔ اگرآج سفیان کو کچھ ہو جاتا تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر سکتے تھے۔ سفیان ان کہ سامنے موت کہ منہ میں گیا تھا اور وہ اسے بچانے کہ بجائے کسی دوسرے مریض کی جانب بھاگے تھے۔ شاید اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان کی یہی قربانی پسند آگئی تھی جو اس نے سفیان کو لوٹا دیا تھا۔ ورنہ آج تک جو بھی جھرنے کہ پاس گیا تھا وہ زندہ واپس نہیں آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان کہ سپاہی بھی اسے ڈھونڈتے ہوئے ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ انھیں اطلاع دی گئی تھی کہ پولیس وین فی الوقت جھرنے کہ پاس کھڑی ہے اور آفیسر سفیان ایمرجنسی میں زخمی حالت میں پڑا ہوا ہے۔ جلد ہی یہ خبر پورے ڈیپارٹمنٹ میں پھیل چکی تھی۔ سفیان نے وہ رات تو غنودگی کہ زیرِ اثر آرام کرتے گزاری۔ جبکہ اگلی صبح وہ کافی بہتر محسوس کر رھا تھا۔ اس کہ سرہانے جوزف اور خضر نجانے کب سے موجود تھے۔ خضر کی آنکھیں رتجگے کہ باعث لال ہو رھی تھیں۔ اس نے جیسے ساری رات سفیان کہ سرہانے آنکھوں میں کاٹی تھی۔ انھیں اپنے پاس دیکھکر سفیان مزید ترو تازہ ہو چکا تھا۔ اس نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔
فی الوقت اس کا ایک ہاتھ ہی کام کر رھا تھا۔ دوسرے پہ پلاسٹر چڑھا تھا۔ ناشتہ کرنے میں خضر نے اس کی مدد کی تھی۔ اتنے میں امراؤ بھی وہاں آن پہنچی تھی۔ سفیان اب تکیے سے ٹیک لگا کر سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔ گردن کہ دائیں بائیں بدستور پٹیاں بندھی تھیں۔ پلاسٹر والا بازو گود میں دھرا تھا۔
“کیسے ہو اب یار؟”
خضر نے بے قراری سے استفسار کیا۔
“شکر الحمد اللہ!”
سفیان نے اتنا ہی کہا ۔
“میرے پاس جو لاکٹ تھا وہ کہاں ہے؟”
سفیان اب موجودہ حالات میں واپس آرھا تھا۔
“بہتر ہے تم پہلے اپنے ڈیپارٹمنٹ والوں سے مل لو۔ وہ کل سے تمھارے لیے پریشان ہیں اور یہاں کہ چکر کاٹ رھے ہیں۔ پھر بات کریں گے اس موضوع پہ؟”
خضر نے سفیان کا سوال یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا۔
سفیان نے فقط سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا۔
تبھی وہ تینوں وہاں سے باہر نکل آۓ اور پولیس کی تقریباً ساری ہی نفری ایک ایک کر کہ اندر جاکر اپنے آفیسر سے ملنے لگی۔
اس مرحلے کو مکمل ہونے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔
اب دوبارہ سفیان کی اپنی ٹیم اس کہ دائیں بائیں موجود تھی۔ لیکن سفیان کا کمرہ اب کافی حد تک بدل چکا تھا۔ وہاں جا بجا پھولوں کہ انبار لگے تھے۔ تازہ پھلوں کی ٹوکریوں کہ علاوہ گیٹ ویل سون کہ کارڈز بھی دکھائی دے رھے تھے۔
خضر اور امراؤ نے ستائشی نگاہوں سے اطراف میں نگاہ دوڑائی۔
“واہ بھئی تیرے تو بڑے ٹھاٹھ ہیں۔”
خضر نے چھوٹتے ہی سفیان پہ مزاقاً طنز کیا تھا۔
جوزف نے خضر کو اشارے سے وہ لاکٹ سفیان کہ دراز سے نکالنے کا کہا۔
خضر نے سر ہلاتے ہوئے وہ لاکٹ اسے تھمایا۔
لاکٹ تھامتے ہی سفیان نے دھیرے دھیرے ساری کتھا ان تینوں کو سنائی جو دم سادھے بس اسے ہی سن رھے تھے۔ جوں جوں وہ اسکی آپ بیتی سن رھے تھے ان کہ جسم پہ تو جیسے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ انھوں نے سفیان کہ کہانی کہ اختتام پہ اسے خوب سراہا تھا۔ وہ تھا بھی سراہنے کہ قابل۔ وہ پہلا انسان تھا جو کیتھرین کا سامنا کر کہ زندہ واپس لوٹا تھا۔ اسکی بات سنکر وہ سب لاکٹ کی طرف متوجہ ہوئے۔ لاکٹ جوزف نے اپنے ہاتھ میں لیا تو ابھی بھی اس میں سے وقفے وقفے سے ایک عجیب نیلے رنگ کی روشنی نکل رھی تھی۔
جوزف نے اسکا بغور معائنہ کیا اور بلآخر اس نتیجے پہ پہنچا کہ یہ ایک جادوئی لاکٹ ہے۔ کسی دوسرے کی ہر لمحہ کی خبر رکھنے کہ لیے تیار کیا گیا ہے۔اور وہ دوسرا جو کوئی بھی ہے کیتھرین کہ لیے بہت ضروری ہے تبھی کیتھرین اس کی لوکیشن ہر لمحہ ٹریس کر رھی ہے۔ وہ دوسرا انسان کیتھرین کی اجازت اور اسے علم میں لائے بغیر کہیں فرار نہیں ہو سکتا۔ اب ظاہر ہے کیتھرین اسی کو باندھ کہ رکھے گی جو اس کی زندگی کہ لیے ضروری ہو گا۔ کیتھرین تک پہنچنے سے پہلے اس دوسرے تک پہنچنا ہوگا۔ اور یہ لاکٹ اس دوسرے تک لے جائے گا۔ جوزف نے ایک عزم سے کہا تھا۔ باقی تینوں کہ چہرے بھی یہ سنتے ہی کھل اٹھے تھے۔
“تم نے واقعی حاظر دماغی اور بہادری سے کام لیا ہے سفیان۔ آئی ایم پراؤڈ آف یو!”
جوزف نے سفیان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرِ خارجہ کا دورۂ بھوربھن ذاتی مصروفیت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔ دو دن بعد ان کی آمد متوقعہ تھی۔ مطلب پولیس ڈیپارٹمنٹ کو دو دن کی مہلت مل چکی تھی۔ سفیان نے فی الوقت خبروں سے نگاہیں چرا لی تھیں۔ وہ ان دو دنوں میں ہر حال میں کچھ کرنا چاھتا تھا تاکہ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کہ سامنے سرخرو ہو سکے۔ اور اپنے ملک کا منفی تاثر کم کر سکے۔
ایک بار اگر کیتھرین کا قلع قمع ہو گیا تو بھوربھن میں پھر پرانے والی رونق لوٹ آۓ گی۔ سیاحت کا پھر سے آغاز ہو گا۔ لڑکیوں کا کالج و ہاسٹل بھی کھُل جائے گا۔ یہ سب کیتھرین کی موت کہ بعد ہی ممکن تھا۔ اور سفیان ہر حال میں کیتھرین کو اس کہ انجام تک پہنچانا چاھتا تھا۔ اس نے یہ عزم کیا تھا کہ اگر وہ کیتھرین کو اس کہ انجام تک نہ پہنچا پایا تو وہ پولیس کی نوکری کو خیر باد کہہ دے گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دن دوپہر کو سفیان بازو پہ پلاسٹر چڑھائے جوزف کہ پیچھے پیچھے اونچے نیچے راستوں سے گزر رھا تھا۔ خضر اور امراؤ بھی ان کہ ہمراہ تھے۔ لاکٹ میں جُڑا فیروزہ انکا رہبر تھا۔ وہ انھیں راہ دکھا رھا تھا۔ اس دوسرے انسان تک پہنچا رھا تھا جس کی مدد سے ہی وہ کیتھرین کا کام تمام کر سکتے تھے۔ سب جتنا آسان لگتا تھا اتنا تھا نہیں۔ اس بات کا اندازہ سفیان کو گزشتہ رات ہی ہو گیا تھا۔ ہاسٹل کی وارڈن جمیکا بھی کئی دنوں سے غائب تھی۔
ہو سکتا ہے وہ دوسرا انسان جمیکا ہی ہو۔ غرض جو بھی تھا وہاں جا کہ ہی پتہ لگ سکتا تھا۔ وہ اب چلتے چلتے بھوربھن گاؤں کہ نسبتاً کچے علاقے میں آچکے تھے۔ لاکٹ ان کی رہنمائی کر رھا تھا۔ لاکٹ کی بتی مسلسل روشن تھی اور اس پر ایک تیر کا نشان ابھر رھا تھا۔ وہ لوگ تیر کہ نشان کہ مطابق اپنی راہ کا تعین کر رھے تھے۔ چلتے چلتے امراؤ تو اب باقاعدہ ہانپنے لگی تھی۔ ڈاکٹر خضر بھی تھک چکا تھا لیکن سفیان اور جوزف کی ہمت قابلِ تحسین تھی۔
جلد ہی تیر کا نشان معدوم ہو گیا۔ اب ایک تیز روشنی نکل رھی تھی۔ جو اس بات کا عندیہ تھا کہ وہ لوگ اپنے مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ لیکن یہاں تو خالی کھیت تھا۔ اور دور بھوسا اکھٹا کیا گیا تھا۔ نہ کوئی مکان تھا نہ کوئی کٹیا۔ سفیان نے سوالیہ نگاہوں سے جوزف کی جانب دیکھا۔ تو جوزف نے کچھ سمجھتے ہوئے سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ وہ مسلسل اطراف میں نگاہیں دوڑا رھا تھا جیسے کچھ ڈھونڈ رھا ہو۔
بلآخر ایک کونے میں اسے اپنی مطلوبہ چیز نظر آگئی۔ وہ تیزی سے اس جانب بڑھا۔ وہ ایک بڑا سا پتھر تھا۔ جوزف نے پتھر اٹھایا، لاکٹ نیچے رکھا اور پتھر کا زوردار وار کیا کہ لاکٹ میں جُڑے فیروزے کہ کئی ٹکڑے ہو گئے۔ جوں ہی فیروزہ ٹوٹا بھوسے کی جگہ ایک بوسیدہ سی کٹیا نمودار ہو گئی۔ اور کٹیا کہ باہر دو خواتین سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی رو رھی تھیں۔ ان کی سانسیں دھونکنی کی مانند چل رھی تھیں۔ جیسے وہ آخری سانسیں لے رھی ہوں۔
وہ سب آنِ واحد میں بھاگ کہ ان کہ سروں تک پہنچ گئے۔
“کک کون ہو آپ لوگ؟ اور یہاں کیا کر رھی ہو؟ کیا ہوا آپ لوگوں کہ ساتھ؟”
سفیان نے ایک ہی سانس میں سوالوں کی بوچھاڑ کر ڈالی۔
ان دونوں خواتین نے بیک وقت سر اوپر اٹھایا اور اپنے سروں پہ کھلے آسمان کو دیکھکر جیسے ان کی اٹکتی سانسوں کو روانی ملی۔ وہ یکدم اٹھکھڑی ہوئیں۔ اور اپنے محسنوں کو دیکھکر تشکر سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
جوزف کی نگاہ بھی ان خواتین پر پڑ چکی تھی۔ انھیں دیکھتے ہوئے وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدم قدم پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کہ اوسان خطا ہو چکے تھے۔ اسے دیکھکر یہی حال ان دونوں خواتین کا بھی تھا۔ امراؤ و دیگر نے جب ان میں سے ایک پر غور کیا تو انھیں صورتحال سمجھنے میں لمحہ بھی نہ لگا۔ ان میں سے ایک تو نگینہ تھی جب کہ دوسری یقیناً نگینہ کی ماں جادوگرنی وکٹوریہ ہوگی۔ جوزف کی حالت غیر ہو رھی تھی۔ یہی حال نگینہ کا بھی تھا۔ جوزف کہ دوست سمجھ سکتے تھے کہ جوزف کی ایسی حالت کیوں ہے؟
کافی وقت یونہی گزر گیا۔ خضر نے آگے بڑھکر جوزف کو سہارا دیا اور سفیان ان عورتوں کو اعتماد میں لینے لگا۔ اس نے امراؤ کو پاس موجود گھروں کی جانب دوڑایا تاکہ ان خواتین کہ لیے کچھ کھانے پینے کہ لیے لا سکے۔ امراؤ نے حکم کی تعمیل کی اور ساتھ موجود کچے گھروں میں سے ایک گھر سے مکئی کی روٹی اور پینے کہ لیے پانی لے آئی۔ دونوں خواتین نے کھانا ایسے کھایا جیسے وہ صدیوں سے بھوکی ہیں۔
کافی وقت بعد ان کی حالت سنبھلی تو سفیان کہ کہنے پہ بوڑھی خاتون نے اپنی کتھا کچھ اسطرح سنائی:
“کیتھرین نے ہم دونوں ماں بیٹی کو یہاں قید کر دیا تھا۔ آج ہم دونوں نے اس جہاں سے رخصت ہو جانا تھا۔ کیونکہ ہم تین دنوں سے بھوکی تھیں۔ پیاس سے اب تو حلق میں کانٹے چُب رھے تھے۔ جو لاکٹ آپ کہ پاس ہے اس میں کیتھرین نے ایک ایسا نظام لگا رکھا تھا جو اسے ہماری خبر دیتا تھا۔ کہ ہم کہاں ہیں؟ اس کی مرضی کہ بغیر ہم ایک انچ بھی نہیں ہل سکتے۔ یہاں سے بھاگنا تو دور کی بات ہے۔ اب ہم سے کیتھرین کہ سارے مقصد پورے ہو گئے تو اس نے ہمیں یہاں قید کر دیا۔ تاکہ ہم یہیں گھُٹ گھٹ کر مر جائیں۔اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ آپ نے وہ جادوئی لاکٹ توڑا تو ہم آزاد ہو گئے۔”
بوڑھی ماں کا اب سانس پھول رھا تھا۔
جوزف کی نگاہیں ہنوز جھکی ہوئی تھیں۔ وہ اور نگینہ نظر نہیں ملا رھے تھے۔ وکٹوریہ بھی جوزف سے شرمندہ شرمندہ دکھائی دے رھی تھی۔
“مطلب اب کیونکہ لاکٹ تباہ ہو چکا ہے تو تم لوگوں کی بابت کیتھرین کو کوئی خبر نہیں مل سکتی۔ “
سفیان نے سب کچھ سمجھتے ہوئے کہا تھا۔
“ہاں بیٹا! کیتھرین کہ جادو سے ہم آپ لوگوں کی وجہ سے آزاد ہو گئے۔ “
بوڑھی کی آنکھوں میں تشکر سے آنسو رواں تھے۔
“اماں جی! ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ کیتھرین نے بھوربھن میں بسنے والوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ اور میں یہ جانتا ہوں کہ اسے ختم کرنے کا طریقہ فقط آپ کہ پاس ہے اور کسی کہ پاس نہیں۔ تبھی اس نے آپکو جادو کہ زور سے قید کر دیا۔ “
سفیان بگڑی طبیعت کی وجہ سے ٹھہر ٹھہر کر بول رھا تھا۔ جوزف کہ تو جیسے الفاظ ہی کھو گئے تھے۔
وکٹوریہ: “کیتھرین بہت طاقتور جادوگرنی ہے۔ اس کہ جادو کا توڑ ناممکن ہے۔ ہاں اگر اس کہ حسن میں دراڑ پڑ جائے تو وہ کمزور ضرور ہو جائے گی۔ ایک بار وہ کمزور ہو گئی تو اس پہ حملہ کرنا آسان ہو گا۔ “
سفیان: “اس کہ حسن میں دراڑ کیسے ممکن ہے؟”
بوڑھی اماں کہ چھوٹتے ہی سفیان نے سوال داغا تھا۔
وکٹوریہ: “اگر کوئی اس سے زیادہ حسین اس کہ سامنے آۓ۔ اور اسے احساس دلائے کہ وہ اس میں اب وہ دم خم نہیں جو کسی زمانے میں اس کا خاصہ تھا۔”
سفیان: “یعنی اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا جائے تو وہ کمزور پڑ سکتی ہے؟”
اماں اور سفیان میں مکالمہ جاری تھا۔ وہ دونوں جیسے اپنے گرد موجود دوسرے نفوس کو یکسر فراموش کر چکے تھے۔
وکٹوریہ: “بلکل! ایسا ہی ہے۔ اس کا ہتھیار اس کا حسن ہے!”
سفیان: “یعنی اسکی جان اس کہ حسن میں قید ہے؟”
وکٹوریہ: “کہہ سکتے ہیں۔”
سفیان: “یعنی ہمیں اس سے کئی گنا زیادہ حسین چہرہ اس کہ سامنے لانا ہوگا۔ حیسن کا مقابلہ حسین ترین سے کروانا ہوگا۔ “
“لیکن اتنا حسین چہرہ ملے گا کہاں سے؟”
سفیان سوچ میں گم وکٹوریہ کو دیکھ رھا تھا تبھی اس کی نگاہوں کہ تعاقب میں اس نے نظریں گھمائیں تو اس کی نظریں بھی وکٹوریہ کی طرح امراؤ کہ حسین سراپے میں کھُب گئیں۔ جو فی الوقت ان سب سے بے نیاز کلائی پہ بندھی گھڑی پہ وقت کی سوئیوں کی حرکت دیکھنے میں مصروف تھی۔
سفیان نے اب سر تا پا اسے گھورا۔ کالی جینز اور براؤن کلر کا گھٹنوں تک آتا کرتا اور ہمرنگ لانگ سا ڈھیلا سویٹر پہنے امراؤ معصومیت کی آخری حدوں کو چھو رھی تھی۔
سفیان نے خضر کی جانب دیکھتے ہی اپنی ہنسی روکی۔ جو اسے تنبیہی نگاہوں سے گھور رھا تھا۔
“خضر: “ ایسا سوچنا بھی مت۔ ہم کیسے امراؤ کو موت کہ منہ میں دھکیل سکتے ہیں؟”
وہ روہانسا ہو چکا تھا۔
جبکہ سفیان ابھی تک مسکرا رھا تھا۔
اور امراؤ نے جو اپنا نام سنا تو سر اوپر اٹھا کر اچھنبے سے گویا ہوئی:
“کیا کسی نے مجھے کچھ کہا ہے؟”
سفیان فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔
جہاں امراؤ نے وکٹوریہ اور سفیان کی بات سنکر اچھنبے سے انھیں دیکھا وہیں جوزف کا بھی رنگ اڑ گیا۔
“نہیں۔۔۔۔ بلکل بھی نہیں۔۔۔۔ ایسا سوچنا بھی مت تم لوگ۔۔۔!!!!!”
جوزف نے پہلی بار آگے بڑھتے ہوئے مداخلت کی تھی۔
“جوزف ٹھیک کہہ رھا ہے۔ ہم کیتھرین کہ مقابلے میں امراؤ کو ہرگز نہیں بھیج سکتے۔”
جوزف کی بات سنکر خضر کو بھی جیسے ہمت مل گئی تھی۔
نگینہ بظاہر تو اس سب سے لاتعلق سی دور کھڑی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن امراؤ کہ ذکر پہ اس میں بھی جیسے یکدم وہاں ہونے والی گفتگو میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ یا یوں کہہ لیا جائے کہ جوزف کی مداخلت کہ بعد اس کا سویا اور بھٹکا ہوا ذہن بھی بیدار ہو چکا تھا۔
“امراؤ کو کیتھرین کہ مقابلے میں بھیجنا اتنا برا آئیڈیا بھی نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے اس پہ سوچا جا سکتا ہے۔”
نگینہ نے اب سر تا امراؤ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا۔
سفیان نے جوزف کی جانب معنی خیز مسکراہٹ اچھالی۔ جیسے کہہ رہا ہو “اب جناب کی کیا رائے ہے؟”
جس پہ جوزف فقط کندھے اچکا کہ رہ گیا۔ جیسے کہہ رھا ہو “اب میں کہہ بھی کیا سکتا ہوں؟”
خضر کی آنکھیں باری باری سفیان اورجوزف کہ درمیان طواف کر رھی تھیں۔ وہ شدید جھنجھلایا ہوا لگتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ لوگ مزید کچھ گفت و شنید کرتے خضر کو ہسپتال سے کال آگئی تھی۔ اسے ایمرجنسی میں بلوایا گیا تھا۔ سفیان ان سب کو لیکر اب ہسپتال کی جانب گامزن تھا۔ اس کہ دماغ میں ایک پلان گردش کر رھا تھا۔ جس پہ مزید کام کرنے کہ لیے امراؤ کا ہسپتال میں موجود کمرہ بہترین جگہ تھی۔ لہذا خضر کو مریضوں کہ جھمگٹے میں چھوڑ کر وہ سب اب امراؤ کہ کمرے میں جمع تھے۔ امراؤ کا کمرہ تھا یا کوئی کپڑوں کا بازار۔
اس نے اپنے بیڈ کہ کنارے پہ لگے راڈ پر ایک قطار میں رنگ برنگے اسکارف لٹکا رکھے تھے۔ وہاں موجود واحد الماری کہ باہر بھی اس کہ لانگ کوٹ اور سویٹرز وغیرہ ہینگرز میں لٹکے نظر آرھے تھے۔ اس کی اونی ٹوپیاں بیڈ کہ سرہانے پائینتی پہ ایک قطار میں رکھی ہوئی تھیں۔ غرضیکہ پورا کمرہ ہی اس کہ کپڑوں سے بھرا ہوا لگتا تھا۔ لیکن اس سب میں بھی اس کا سلیقہ اور ذوق جھلک رھا تھا۔ ہر چیز قرینے سے اپنی جگہ موجود تھی۔ سفیان کو یہ سب دیکھکر بے اختیار دلآویز کی یاد آئی تھی۔ وہ اپنے کمرے کو اتنا پھیلا کہ رکھتی تھی کہ اگر سفیان بستر پہ غلطی سے کوئی چیز چھوڑ کہ جاتا تو کچھ ہی وقت بعد وہ اسے وہاں نظر نہ آتی۔
کیونکہ دلآویز محترمہ وہاں اتنا کچھ پھیلا چکی ہوتیں کہ اس کی مطلوبہ چیز اس ڈھیر میں کہیں دم توڑ چکی ہوتی۔ خاصکر شاہ زین کہ بعد تو کمرہ کمرہ نہیں کباڑ خانہ لگتا تھا۔ سفیان اب سوچتے ہوئے بے اختیار مسکرا دیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیر آئی تھی۔ کل ہی اس نے دلآویز سے بات کی تھی اور اس کا دل شدت سے اسے ملنے کا چاھا تھا۔ وہ اسے کچھ دنوں کہ لیے یہاں بلانے کا سوچ رھا تھا۔ وکٹوریہ نے سفیان کو اپنی گھمبیر آواز میں مخاطب کرتے ہوئے اس کی سوچوں کہ سمندر سے اسے کھینچ کر باہر نکالا تھا۔ اگر وہ اسے باہر نہ نکالتی تو بظاہر سخت دل اور سنجیدہ نظر آنے والا سفیان شاید اپنی عزیز از جان بیوی کی یادوں میں نجانے کب تک غوطہ زن رھتا۔
کچھ ہی پل گزرے ہوں گے کہ وہ سب ایک دائرے میں وہاں بیٹھے تھے۔ انھوں نے امراؤ کو کیتھرین کا سامنا و مقابلہ کرنے پہ تیار کر لیا تھا۔ اس نے اسے بھی ایک ایڈونچر کہ طور پہ لیا تھا۔ من ہی من میں وہ اس بات پہ خوش تھی کہ اسے ڈزنی لینڈ والی ظالم جادوگرنی کہ تسلط سے معصوم لوگوں کو بچانا ہے وہ بھی ایک بہادر و نڈر شہزادی بن کر۔ اسے فی الوقت یہ سب ایک کہانی کی مانند لگ رھا تھا۔ لیکن تب وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب کر کہ وہ اپنی جان داؤ پہ لگا رھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیکل کلارک نے کیتھرین کو ملنے کہ لیے اپنے کالج والے آفس میں بلوایا تھا۔ جس کالج میں ہمہ وقت بھانت بھانت کہ لڑکیوں کا شور و غل رھتا تھا وہاں اب ویرانی اور خاموشی کا راج تھا۔ مائیکل اب کیتھرین سے دوٹوک بات کرنا چاھتا تھا۔ اس نے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔ ہسپتال میں موجود گروپ اپنی پلاننگ کرنے کہ بعد رات کو پھر سے ملنے کا کہہ کر دائیں بائیں ہو چکا تھا۔
امراؤ اب اپنے کمرے میں اکیلی تھی۔ وکٹوریہ اور نگینہ کو فی الوقت سفیان نے ہسپتال کہ ایک وارڈ میں رکنے کہ لیے کہا تھا۔ باقی لوگوں کو یہ تاثر ملا تھا کہ وکٹوریہ کوئی مریضہ ہے اور نگینہ اس کی تیماردار۔ امراؤ اب سب کہ جاتے ہی نہانے چلی گئے۔ فریش ہوکر جب واپس آئی تو نیلی جینز ، اور گھٹنوں تک آتے سفید کرتے کہ اوپر سفید ہی رنگ کا لانگ کوٹ پہن رکھا تھا۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اس کی ستواں ناک لال ہو رھی تھی۔ سر پہ بڑے اونی گولے والی ٹوپی بھی ٹھنڈ سے بچنے کہ لیے ناکافی لگ رھی تھی۔
اسے ایسے میں کافی کی طلب ہوئی تو وائیٹ جوگرز پہن کر باہر ہسپتال کہ کیفیٹیریا کی جانب نکل آئی۔ اس نے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال رکھے تھے۔ اسے آج نجانے کیوں بانو کماری کی یاد آرھی تھی۔ جو بھی تھا وہ اسکی ماں تھی۔ ماں کہ یاد آتے ہی اسے نانی بھی یاد آئی تھی۔ پھر نانی کی ڈانٹ اور صلواتیں۔ جن کی وہ عادی ہو گئی تھی۔ اب یہاں بلاشبہ وہ سب نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ان کی کمی اسے محسوس ضرور ہوتی تھی۔ کوئی ایسی لڑکی بھی تو نہیں تھی جس سے وہ دوستی کر سکے۔ ایک گل رخ ملی تھی اور وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
یہی سب سوچتے سوچتے اس نے کیفے سے کافی لی اور بھاپ اڑاتا کپ پکڑ کر باہر نکل آئی۔ سورج اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا۔ آسمان پہ کالے بادلوں کا ڈیرالگ چکا تھا۔ امراؤ نے سر اوپر اٹھایا تو بادلوں کو چہہمگوئیاں کرتے ہوئے پایا۔ جیسے سب اتنی خوبصورت اور معصوم سی لڑکی کو یوں تنہا دیکھکر محوِ گفتگو ہوں۔ چلتے چلتے وہ ہسپتال سے تھوڑا آگے نکل گئی تھی۔ اسے ایک پتھر دکھا تو اسی پر براجمان ہو گئی اور سامنے موجود نظارے سے آنکھیں کو ٹھنڈک بخشنے لگی۔ دھیما دھیما سا اندھیرا تھا۔ گھونٹ گھونٹ کافی پیتے وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ جہاں اس کی ماں بانو کماری اور اس کا باپ تھا۔ وہ ایک خوشحال زندگی گزار رھی تھی۔ اپنے ماں باپ کہ ساتھ۔ جیسے سب گزارتے ہیں۔ سب کہ سامنے باتیں کرنے والی امراؤ اب یکسر مختلف امراؤ لگ رھی تھی۔ آنکھوں کی نمی اب لال ہوتے رخساروں کی جانب محوِ سفر تھی۔ اس نے ناک سکیڑ کہ گیلی سانس اندر اتاری ہی تھی کہ اسے اپنے پیچھے کسی کہ کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ اور یہ آواز وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔ وہ گل رخ تھی۔ یہ سوچتے ہی اس کی رگوں میں جیسے خون منجمد ہوگیا۔
اس نے پیچھے دیکھنا مناسب نہ سمجھا۔ یا اس کی ہمت ہی نہ ہوئی کہ وہ پیچھے مڑ کہ حقیقت سے نگاہیں ملا سکے۔ اسے لگا تھا کہ اگر وہ ذرا سا بھی سرکی تو شاید ہمیشہ کہ لیے پتھر کی ہو جائے گی۔ گل رخ اب اس کہ عین سامنے بیٹھی تھی۔ افسردہ سی۔ اس کی آنکھوں کہ گہرے حلقے امراؤ کہ معصوم دل کو نرم کر گئے تھے۔
“مجھے سکون نہیں مل رھا امراؤ جان؟”
گل رخ اب بلکل اس کہ سامنے والے پتھر پہ بیٹھی تھی۔ اسی کی طرح گھٹنوں کہ گرد بازو حمائل کیے۔
“تم نے کہا تھا اگر میں تمھارا کام کر دوں تو تم مجھے میرے بابا کہ بارے میں بتاؤ گی۔ تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ کیوں؟”
امراؤ نے اسکی بات کو یکسر نظر انداز کر کہ اپنے دل میں نجانے کب سے مچلتے سوال کو آواز سے نوازا تھا۔
گل رخ: “تم نے تین اور لوگوں کی جان لینی تھی لیکن افسوس تم اپنا ہدف پورا نہیں کر پائی۔”
امراؤ: “کیا تم انھیں معاف نہیں کر سکتی؟ شاید تب تمھیں سکون مل جائے؟”
گل رخ: “ اس رات شکیلہ کی بیٹی کی مہندی تھی۔ اس نے سلیم سے ملنے آنا تھا اور تم نے ان دونوں کا کام تمام کرنا تھا لیکن سلیم تو آگیا اور وہ نہیں آئی۔ تو میں نے اپنے ایک ہدف سلیم پہ وار کر دیا۔”
امراؤ: اور تبھی وہاں آفیسر سفیان آگیا اور تم اسے چکما دینے مہندی کی دلہن کا روپ دھار کہ ادھر بھاگی۔ اور جب میرا جسم آزاد کیا تو میرے سامنے خون میں لت پت ایک جوان سال لڑکے کی لاش تھی۔ وہ بری طرح تڑپ رھا تھا۔ وہ بلکل گہری کھائی کہ دھانے پہ پڑا تھا۔ میں نے اٹھکر بھاگنا چاھا ، نجانے کیسے میرا پاؤں اسکے بے جان ہوتے وجود کو چھو گیا اور اس کا وجود کھائی کی نظر ہو گیا۔ “
یہ کہہ کر امراؤ مزید افسردہ ہو چکی تھی۔
امراؤ: مجھے یہ بات چین نہیں لینے دے رھی کہ میرے ہاتھوں ایک معصوم کا وجود کھائی میں گر گیا۔ مجھے اکثر خواب میں بھی اسکا خون میں لت پت وجود دکھائی دیتا ہے۔”
گل رخ: تم اسے کھائی میں نہ بھی گراتی ، اس نے مر تو ویسے بھی جانا تھا۔ اس لیے اس کہ لیے پریشان مت ہو۔ اور تم جانتی ہو اسی رات میں شکیلہ کی بیٹی کہ پاس بھی گئی تھی۔ اور تب سے اب تک وہ بستر پہ زندہ لاش بنی پڑی ہے۔”
گل رخ اب قہقہے ہوا کی نظر کر رھی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں اس کی ہنسی کا ساتھ نہیں دے رھی تھیں۔ ان میں بے سکونی تھی۔ نمی تھی۔ دکھ تھا۔
امراؤ: “یہ سب کر کہ بھی تمھیں سکون نہیں ملا نا۔ اور ملے گا بھی نہیں۔ تم سب کو معاف کر دو۔ پلیز۔”
امراؤ نے اب اس کہ سامنے منت کرنے والے انداز میں ہاتھ جوڑے تھے۔
گل رخ: “سچ کہا تم نے۔ مجھے سکون نہیں مل رھا۔ لیکن بدلے کی آگ بھی ہر لمحہ میرے سینے میں دھک رھی ہے۔”
بے اختیار اس نے سر جھکا لیا تھا۔
گل رخ: “ میں سب کو معاف کر دوں گی لیکن کیتھرین کو کیسے معاف کروں؟ اس نے میرے ساتھ ہوئے ظلم کو مزید ہوا دی تھی۔ خود کشی سے پہلے ایک رات میں اس سے کہ آفس گئی تھی۔ جہاں وہ سفید رنگ کا ایک گلوب اپنے عین سامنے رکھے اس سے باتیں کر رھی تھی۔ میرے ہاتھ میں میرے بابا کا دیا ٹیڈی بئیر تھا۔ مجھے جب بھی بابا کی یاد ستاتی تھی میں اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھتی تھی۔ وہ مجھے سکون دیتا تھا۔ مجھے اس میں اپنے بابا دکھائی دیتے تھے۔ کیتھرین نے جب مجھے اپنے آفس میں دیکھا تو اس کہ ماتھے پہ بل پڑے۔ بجائے اس کہ کہ وہ میری بات سنتی اس نے میرے ہاتھ سے میرا ٹیڈی کھینچا اور اسے دیوار پہ دے مارا۔ اور یہ کہا کہ وہ اسے اپنی بیٹی جمیکا کو بھجوائے گی۔
اس نے فوراً اپنے ذاتی ملازم کو آواز دی اور اسے حکم دیا کہ وہ جو چاھے میرے ساتھ کرے۔ کریہہ شکل والا ملازم مجھے کھنچتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گیا۔ اس کہ ارادے مجھے خطرناک لگ رھے تھے۔ ٹیڈی بئیر کا دکھ مجھے الگ سے بے چین کر رھا تھا۔ مجھے لگ رھا تھا جیسے میں نے اپنے بابا کو ایک بار پھر سے کھو دیا تھا۔ ملازم میرے ساتھ دست درازی کی کوشش کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ ملازم مجھے کمرے میں دھیکیل کہ میرے ساتھ کچھ غلط کرتا تمھارے بابا وہاں آپہنچے۔ انھوں نے مجھے اس کی قید سے آزاد کروایا اور مجھے اپنے کمرے میں جانے کا کہا۔ “
گل رخ سانس لینے کو رکی تھی۔
امراؤ: “مم میرے بابا؟ وہ یہاں کیسے آۓ؟ میرا مطلب ہے انھوں نے تمھیں بچایا؟ “
امراؤ اپنے بابا کہ ذکر پہ جذباتی ہو چکی تھی۔
گل رخ: “ہاں بلکل۔ ان سے مجھے گلے بھی بہت سے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے میری عزت بچائی تھی۔ صحیح وقت آنے پہ تمھیں ان کی بابت معلوم پڑ جائے گا۔”
امراؤ کا سر بے اختیار فخر سے اونچا ہوا تھا۔
امراؤ: “اور سلیم یقیناً اس ملازم کا بیٹا ہوگا۔”
امراؤ نے سمجھتے ہوئے کہا تھا اور گل رخ نے فقط سر کو ہلکی سی جنبش دینے پہ ہی اکتفا کیا تھا۔
امراؤ: “کیتھرین نے نہ فقط تمھارے ساتھ بلکہ اور لوگوں کہ ساتھ بھی بہت ظلم کیا ہے۔ وہ ایک ظالم جادوگرنی ہے۔ اور میں اس کا مقابلہ کرنے کہ لیے ہر حد پار کر جاؤں گی۔ چاھے اس کہ لیے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔”
گل رخ: “ تم بہت عظیم اور بڑے دل والی ہو امراؤ۔ کاش میں بھی تمھاری طرح ہوتی۔ جیسے تم نے اپنی ماں کو معاف کر دیا۔ کاش میں بھی کبھی اس قابل ہوتی کہ انھیں معاف کر سکوں۔”
کہہ کر گل رخ نے سر پھر سے گھٹنوں میں دے لیا تھا۔
خاموشی کہ طویل وقفے کہ بعد امراؤ کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سفیان نے رات کو سب کو ایک کمرے میں اکٹھا ہونے کہ لیے کہا تھا۔ امراؤ کا وہاں پہنچنا ازحد ضروری تھا۔ وہ اب جانے کہ لیے پر تول رھی تھی جب گل رخ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“ابھی اگر تم کالج میں موجود پرنسپل آفس میں جاؤ تو شاید تمھیں تمھارے بہت سے سوالوں کہ جواب مل جائیں۔ خاصکر تمھیں تمھارے بابا کہ بارے میں سب پتہ لگ جائے گا۔”
گل رخ نے اتنا ہی کہا تھا۔ پھر نجانے وہ دیکھتے ہی دیکھتے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ امراؤ نے بے اختیار جھرجھری لی تھی۔ آج تک گل رخ نے جو بھی کہا تھا سب حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا تھا۔ وہ گل رخ کی بات کو ایک بار پھر آزمانا چاھتی تھی۔ یہ سوچ کر اس کہ قدم خودبخود ہسپتال جانے کہ بجائے بھوربھن کالج کی جانب اٹھتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیکل کلارک کہ کالج والے آفس میں کیتھرین ڈسوزا مقررہ وقت پہ پہنچ چکی تھی۔ دونوں کی میٹینگ کافی دیر تک جاری رھی تھی۔ دونوں اپنا اپنا شیئر اپنی اکلوتی اولادوں کہ نام لگا چکے تھے۔ یعنی امراؤ جان اور جمیکا۔ مائیکل کلارک چاھتے تھے کہ کیتھرین اب اس جگہ سے کہیں دور چلی جائے۔ یا کم از کم ان کہ کالج و ہاسٹل میں مداخلت نہ کرے۔
ان کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔
کیتھرین کو فقط ایک ہی غصہ تھا کہ اس کہ ماضی میں جھانکنے کی کسی کی ہمت کیسے ہوئی؟ مائیکل کہ ہوتے ہوئے کوئی کیسے اس کہ ماضی تک پہنچا؟ کس نے اسے پھر سے بیدار کیا؟ اور کیوں؟ وہ فی الوقت کچھ بھی کہنا سننا نہیں چاھتی تھی۔ نہ وہ مائیکل کی جان اتنی آسانی سے چھوڑنے والی تھی۔ اس نے مائیکل کہ سامنے ایک شرط رکھی تھی کہ اگر وہ اپنی بیٹی کا شئیر بھی جمیکا کہ نام کر دیتا ہے تو ہی کیتھرین وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے رخصت ہو جائے گی ورنہ وہ لوگوں کو اتنا نقصان پہنچائے گی کہ بھوربھن کالج و ہاسٹل کا چلنا تو دور لوگ بھوربھن کی جانب رخ کرنے سے بھی ڈریں گے۔ اور مائیکل جانتا تھا کہ کیتھرین ایسا ضرور کرے گی۔ دونوں کی یہ نشست بھی بغیر کسی حتمی فیصلے کہ لڑائی جھگڑے کی نظر ہو کر برخاست ہو چکی تھی۔
بلآخر زچ ہو کر مائیکل کلارک اپنے آفس سے اٹھکر باہر چلا گیا تھا۔ کیتھرین کسی گہری سوچ میں منہمک وہیں بیٹھی تھی جب “پرنسپل آفس” کہ دروازے پہ کسی نے دستک دی۔ کیتھرین جو پہلے ہی بڑی سرخ چادر میں خود کو اچھے سے لپیٹے ہوئے بیٹھی تھی مزید سمٹ گئی ۔ اس نے چہرے کو نقاب میں مزید چھپا لیا۔ دستک دینے والا اب اندر داخل ہو چکا تھا۔ آنے والا اور کوئی نہیں امراؤ تھی۔
امراؤ نے اندر داخل ہوتے ہی اطراف میں نگاہیں دوڑائیں تھیں۔ پرنسپل کا آفس بہت پر تعیش تھا۔ سردی سے بچنے کہ لیے انگھیٹی میں لکڑیاں جل رھی تھیں۔ آفس میں بڑی سے ایک تصویر لگی تھی۔ جس کہ اوپر پریزیڈنٹ کلارک چرچل میو لکھا تھا۔ تصویر والے با رعب مرد نے بلیک ٹو پیس سوٹ پہن رکھا تھا اور ہاتھ میں قیمتی سگار اٹھایا ہوا تھا۔
“تو یہ کیتھرین کہ خاوند کی تصویر ہے۔”
امراؤ نے دل میں سوچا تھا۔ وہ تصویر والی شخصیت سے متاثر ہوئی تھی۔
سامنے موجود بڑے سے میز پہ ایک بڑی تختی رکھی ہوئی تھی۔ جس پہ کالے رنگ سے مائیکل کلارک۔ پرنسپل لکھا ہوا تھا۔
“تو یہ کلارک سر کہ بیٹے ہیں۔”
امراؤ اب اندازے لگا رھی تھی۔ نجانے میں کیوں گل رخ کی بات مان کر اس وقت کالج کہ آفس میں آگئی۔ مجھے صبح آنا چاھیے تھا۔ اس وقت بھلا کونسا آفس کھلا ہوتا ہے۔ تبھی پرنسپل سر بھی کہیں نظر نہیں آرھے۔
وہ اب قدم قدم چلتی پرنسپل کہ ٹیبل تک پہنچ چکی تھی۔ وہ کیتھرین کی وہاں موجودگی سے یکسر انجان تھی۔ یا نجانے کیتھرین نے خود کو کہیں چھپا لیا تھا۔ پرنسپل کہ ٹیبل پہ موجود ایک سفید رنگ کا پیپر ویٹ اس کی توجہ اپنی جانب کھینچ رھا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پیپر ویٹ کو اٹھا کر ہاتھوں میں پکڑتی پیپر ویٹ کہ نیچے رکھی تحریر نے جیسے اس کہ پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی۔ وہ تحریر اردو میں تھی۔ اس نے پیپر ویٹ کو پرے پھینکا اور تحریر والا سفید کاغذ اپنی آنکھوں کہ سامنے کر لیا۔ بار بار وہ تحریر پڑھ رھی تھی۔ اور ہر بار اس کی جسم میں سنسنی دوڑ رھی تھی۔ اسے کاغذ پہ بکھری تحریر نہیں بلکہ لکھائی میں دلچسپی تھی۔ وہ لکھائی ہو بہو وہی تھی جو اس کہ باپ کی تھی جب وہ اسے خط بھیجا کرتا تھا۔ یہ کاغذ بھی ہو بہو ویسا تھا۔ اس سے ویسی ہی دھیمی خوشبو آتی تھی۔ وہی کالی روشنائی سے لکھی تحریر۔ ہو بہو وہی۔
اس کا چہرہ دمک رھا تھا۔ دل تھا کہ مارے خوشی کہ پھٹ جانا چاھتا تھا۔ مطلب گل رخ نے اسی لیے اسے یہاں بھیجا تھا کہ وہ اپنے بابا کو پہچان پائے؟ اسی لیے وہ بار بار کہتی تھی کہ اس کہ بابا اس کہ آس پاس ہی ہیں۔ اور اسی لیے اس کہ بابا نے اسے اس کالج میں ایڈمشن لینے کا کہا تھا۔ کیونکہ اس کہ پرنسپل اور کوئی نہیں اس کہ بابا تھے۔ اس کہ اپنے بابا!
بابا کو پہچان لینے سے ہی وہ اس قدر جذباتی ہو چکی تھی وہ اس سے اب مل لیتے تو وہ تو شاید پاگل ہو جاتی۔ اسے یاد آرھا تھا کہ ہسپتال میں اس کی ملاقات مائیکل کلارک سے ہوئی تھی۔ لیکن تب وہ یہی سمجھتی تھی کہ وہ کالج کہ پرنسپل کی حیثیت سے اسے مل رھے ہیں۔ کاش وہ جان لیتی کہ وہ اس کہ بابا کی حیثیت سے اسکا خیال رکھ رھے ہیں۔ تبھی کالج کا فارم بھیجتے ہی اسے کنفرمیشن کی میل موصول ہو گئی تھی۔ ورنہ تو اس عمل میں ایک دو دن تو لگ ہی جاتے ہیں۔ وہ یہ سب پہلے کیوں نہ سمجھ پائی؟ کتنی پاگل تھی وہ؟ سب اسکی آنکھوں کہ سامنے ہوتے ہوئے بھی کتنا دور تھا؟
وہ اب اپنی آنکھیں پونچھتے باہر جانا چاھتی تھی۔ اسکا دل مارے خوشی کہ چھلانگیں لگانے کو چاہ رھا تھا۔ وہ جلد از جلد یہ خبر اپنے دوستوں کو سنانا چاھتی تھی۔ ابھی وہ مڑی ہی تھی کہ ایک گھمبیر نسوانی آواز نے جیسے اس کہ پاؤں میں قفل ڈال دیے تھے۔
“اس وقت یہاں کیا کر رھی ہو لڑکی؟ کون ہو تم؟ کیا نام ہے تمھارا؟”
آواز سنتے ہی وہ بری طرح بدک کہ چار قدم پیچھے ہٹی۔ بولنے والی عورت سامنے پڑے صوفے پہ اطمینان سے براجمان تھی۔ اس نے سرخ بڑی سے چادر میں اپنے وجود کو چھپا رکھا تھا۔ فقط ایک آنکھ باہر تھی۔ اس کی آنکھ اتنی خوبصورت تھی کہ امراؤ نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ عورت خود یقیناً بلا کی خوبصورت ہوگی۔
“میں امراؤ جان ہوں۔ بھوربھن کالج کہ پرنسپل مائیکل کلارک کی بیٹی۔ “
امراؤ نے غرور سے ہواؤں میں اڑتے ہوئے کہا تھا۔ ابھی ابھی ملی خوشی اس سے ہضم نہیں ہو رھی تھی۔ اور چھپائے نہیں چھپ رھی تھی۔ وہ اس خبر کو ہر جگہ نشر کر دینا چاھتی تھی۔
“اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!”
کیتھرین اس کی بات سنکر اچھنبھے سے گویا ہوئی۔ اس کہ منہ سے مارے حیرت کہ فقط اتنا ہی نکل سکا۔ وہ اب سیدھی ہو کر بیٹھ چکی تھی۔
“مائیکل جانتا ہے تم یہاں آئی ہو؟ “
وہ اب سنھبل سنبھل کہ بات کر رھی تھی۔
“ہممم۔۔۔۔۔۔ نہیں بابا کو اچانک ملکر سرپرائز دوں گی۔”
امراؤ نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اس وقت کسی اور ہی دنیا کی باسی معلوم ہو رھی تھی۔ وہ اب گول گول چکر کاٹ رھی تھی۔ خوشی تھی کہ انگ انگ سے چھلک رھی تھی۔
کیتھرین نے امراؤ کی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نجانے کیا پڑھکر پھونکا کہ وہ اس کی تابع ہوگئی۔ پہلے والی امراؤ جان نجانے کہاں غائب ہو گئی۔ یہ تو کوئی اور ہی امراؤ تھی۔ جو روبوٹ بن چکی تھی۔ جیسا جیسا کیتھرین کہہ رہی تھی وہ بلکل ویسا کر رھی تھی۔ کیتھرین نے اسے اپنے جادو کہ اثر میں لے لیا تھا۔
کافی وقت بعد جب وہ واپس لوٹی تو ہسپتال میں موجود اپنے عارضی کمرے میں اپنے دوستوں کو اپنا منتظر پایا۔ نگینہ اور وکٹوریہ بھی وہی تھیں۔
“کہاں رہ گئی تھی تم امراؤ۔ اتنا وقت برباد کر دیا تم نے ہمارا۔ اب جلدی آؤ پلاننگ کریں کیتھرین کا مقابلہ کرنے کی۔”
سفیان نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا۔
امراؤ کی نظریں ایک ہی جگہ کھڑی تھیں۔ فقط جسم حرکت کر رھا تھا۔ جیسے وہ کوئی روبوٹ ہو اور کسی کہ زیرِ اثر ہو۔ وہ چپ چاپ جا کر اپنی جگہ پہ بیٹھ گئی تھی۔
جہاں سفیان کو حیرت ہوئی وہیں خضر بھی بے چین ہوا۔ کیونکہ امراؤ عام حالات میں تو سفیان کو اچھا خاصا سنا جاتی اگر وہ اس سے ایسے بات کرتا۔ لیکن اب تو وہاں پر گہرا سکوت تھا۔ یہ معمہ کیا تھا؟
جوزف اور وکٹوریہ کی گہری نگاہیں امراؤ کی آنکھوں پہ جم چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ سفیان اس سے کچھ اور کہتا جوزف نے اس کا کندھا دبا کر اسے چپ رھنے کہ لیے کہا تھا۔ امراؤ کی نگاہیں ہنوز ایک جگہ کھڑی تھیں۔ خضر کو اب وہشت ہو رھی تھی۔
کیا امراؤ کیتھرین کہ جادو کہ اثر سے کبھی باہر آپائے گی؟ وہ کیسے کرے گی جادوگرنی کا مقابلہ، جو مقابلے سے پہلے ہی اس کہ جادو کا شکار ہو چکی تھی؟
0 تبصرے