گرلز ہاسٹل - قسط نمبر 17 آخری

stories

جوزف اور وکٹوریہ نے اشارے سے سفیان اور خضر کو کچھ کہنے سے روک تو دیا لیکن خود وہ عجیب تذبذب کا شکار دکھائی دیتے تھے۔ نگینہ نے بات کو کسی حد تک سمجھتے ہوئے صورتحال کو سنبھالتے ہوئے عرض گزاری کچھ اس طرح کی:
“مجھے لگتا ہے امراؤ تھوڑا تھکی ہوئی ہے اسے آرام کرنے دیتے ہیں۔ ہم سب پھر کسی وقت آجائیں گے۔”
امراؤ یہ سب سنتے ہی بستر پر نیم دراز ہوئی اور آنکھیں موند لیں۔ باقی سب باری باری کمرے سے نکل گئے اور دروازہ بند کر ڈالا۔
اب سب لوگ نگینہ اور وکٹوریہ کو ملے ہسپتال کہ کمرے میں جمع تھے۔
“میرا وقت بہت قیمتی ہے یار۔ میں یوں تھانے سے زیادہ دیر کہ لیے غائب نہیں رہ سکتا۔ جو کرنا ہے جلدی کرو۔”
سفیان نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا۔
“اب یہ کیا نئی افتادہ سر پہ آن پڑی ہے۔ امراؤ کیوں بدلی بدلی سی لگ رھی ہے۔ جیسے یہ کسی کہ جادو کہ اثر میں ہو۔”
ڈاکٹر خضر حد درجۂ پریشانی کہ عالم میں بولتا چلا گیا۔
“مجھے یہی لگتا ہے کہ امراؤ کسی کہ زیرِ اثر ہے۔ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کہ؟ اور کب ہوا اس کہ ساتھ یہ سب؟ ہم تو اسے بلکل ٹھیک چھوڑ کہ گئے تھے۔ خضر تم ہسپتال کہ عملے سے پتہ کرو کہ امراؤ کہاں کہاں گئی؟ کس نے اسے کہیں بھی جاتے ہوئے دیکھا؟ کیا وہ ہسپتال سے باہر نکلی ؟ سی سی ٹی وی کیمراز کی فوٹیجیز بھی نکلواؤ۔ “
جوزف خضر کو کام سونپ کر اب باقیوں کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“آپ امراؤ کہ سوتے ہی اس کہ جسم کہ واضح حصوں پہ غور کریں۔ اس کہ چہرے ، ہاتھ پاؤں اور گردن کو حتی المقدور ٹٹولیں۔ جس نے بھی اثر کیا ہوگا اس نے یقیناً امراؤ کہ جسم کہ کسی حصے میں ضرور تبدیلی کی ہوگی۔ اب ظاہری حصوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو ہی حقیقت سامنے آۓ گی۔”
جوزف نے وکٹوریہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ان میں بہت وقت پہلے موجود بے تکلفی، اب عنقا تھی۔ جوزف فقط ٹیم کہ ہیڈ کی حیثیت سے انھیں ہدایات دے رھا تھا۔
وکٹوریہ نے سمجھتے ہوئے سر کو جنبش دی تھی۔ اس نے بارہا جوزف سے معافی مانگنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ جوزف کہ مدافعتی رویے نے اسے روکا تھا اور کچھ اس کی ہچکچاہٹ، راہ میں دیوار بن کہ کھڑی ہو جاتی تھی۔
وکٹوریہ اب امراؤ کہ کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ امراؤ اپنے بستر پہ آڑھی ترچھی آنکھیں موندے لیٹی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ وکٹوریہ نے اس کہ ہاتھوں اور چہرے کا جائزہ کیا۔ اسے کچھ بھی غیر معمولی دکھائی نہیں دیا۔ اس کہ پاؤں جرابوں کی قید میں تھے۔ وکٹوریہ نے اسے ہلانا مناسب نہ سمجھا اور باہر نکل آئی۔
اس کہ چہرے پہ رقم مایوسی کی داستان جوزف پہلی نظر میں پڑھ چکا تھا۔ مطلب کیتھرین نے بہت بڑی چال کھیلی ہے۔ اس نے من میں سوچا تھا۔ ایک بار پھر سب سر جوڑے بیٹھ چکے تھے۔ سب ویسا نہیں ہوا تھا جیسا انھوں نے سوچا تھا۔ گرما گرم چائے کہ بھاپ اڑاتے کپ ان کہ ہاتھوں میں تھے۔ خضر انھیں بریفنگ دے رھا تھا امراؤ ان کہ جانے کہ کچھ دیر بعد لباس بدل کر کیفے کی جانب گئی۔ وہاں سے کافی کا کپ لیکر وہ ہسپتال سے باہر نکل آئی تھی۔ اس کہ بعد ایک مریض نے اسے ایک ہتھر پہ بیٹھے دیکھا تھا۔ اس کہ مطابق وہ کافی دیر ہوا میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر باتیں کرتی رھی۔ حالانکہ سامنے کوئی بھی نہیں تھا پھر بھی وہ نجانے کس سے باتیں کر رھی تھی۔ مریض کہ مطابق امراؤ وہاں بیٹھی مسلسل باتیں کرتی رھی پھر بھوربھن جانے والے راستے پہ نکل گئی۔ اس نے بس اتنا ہی دیکھا۔
“بھوربھن میں وہ کہاں گئی ہوگی؟ وہ بھی ہم میں سے کسی کو بتائے بغیر؟” جوزف نے سوچتے ہوئے سوال داغا تھا۔
“گل رخ”
“وہ یقیناً گل رخ سے باتیں کر رھی تھی۔ تبھی مریض کو سامنے والا نظر نہیں آیا۔ وہ یقیناً گل رخ تھی۔”
سفیان نے لمحوں میں بات کہ تہہ تک پہنچتے ہوئے جیسے انکشاف کیا تھا۔
جوزف نے اس کی بات سنُکر تائید میں سر ہلایا تھا۔
“پھر تو اسے گل رخ نے ہی کہیں جانے کہ لیے کہا ہوگا۔ کہیں اس نے پھر سے کسی کا قتل۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟”
ڈاکٹر خضر نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
“نہیں۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی قتل ہوا ہوتا تو اب تک اطلاع مل چکی ہوتی۔”
سفیان نے خضر کی بات کی یکسر نفی کی تھی۔
“ہاسٹل بھی بند ہے ۔ پھر وہ کہاں گئی ہوگی؟ گاؤں میں بھی وہ کسی کو نہیں جانتی۔ ایک اس کا باپ ہی ہے یہاں۔ لیکن ہم نے ابھی تک اسے اُس کہ باپ کہ بارے میں بتایا ہی نہیں ہے۔پھر وہ کس سے ملنے گئی ہوگی؟”
خضر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
“ہم نے اسے نہیں بتایا لیکن کیا معلوم گل رخ نے بتا دیا ہو۔ اور وہ اپنے باپ سے ملنے گئی ہو۔”
جوزف نے خضر کی بات سے اپنے مطلب کی بات اچک لی تھی۔
“بلکل صحیح کہا جوزف۔ بھوربھن ہاسٹل سیل کیا گیا ہے نا۔ بھوربھن کالج تو ہر وقت کھلا رھتا ہے۔ اور مائیکل کلارک کی رہائش بھی تو کالج کہ اندر ہی ہے نا۔ وہ یقیناً کالج گئی ہوگی۔ اپنے باپ سے ملنے۔”
سفیان نے جوزف کی بات سے حتمی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا تھا۔
سب نے اسکی بات سنکر تائید میں سر ہلایا تھا۔ اور کچھ ممکن بھی تو نہیں تھا۔ گو کہ فی الوقت یہ سب ہوا میں تیر چلانے کہ مترادف تھا لیکن کچا ہی سہی، کوئی سرا تو ہاتھ آیا تھا نا۔
سفیان اور جوزف فوراً کالج جانے کہ لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گو کہ رات بہت ہوچکی تھی۔ پھر بھی مائیکل کلارک سے ملنا اب ضروری ہو گیا تھا۔ سفیان کی اس سے پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ لیکن وہ کوئی اتنی اچھی نہیں تھی کہ سفیان اسے یاد رکھتا۔ اب معاملہ امراؤ کا تھا۔ اس سے ملنا ناگزیر ہو چکا تھا۔
جلد ہی وہ لوگ بھوربھن کالج میں واقع پرنسپل کہ آفس میں پہنچ چکے تھے۔ وہاں بیٹھے چوکیدار سے انھیں خبر ملی کہ مائیکل کلارک اپنی رہائش گاہ کی جانب نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ ان سے ملنے کالج ہی کہ ایک حصے میں واقع ان کہ کوارٹر میں گئے۔ وہاں موجود ملازم نے انھیں چھوٹے مگر پر تعیش لاؤنج میں بٹھایا۔ پولیس آفیسر کی یکدم آمد نے ملازم کو بھی بوکھلا کہ رکھ دیا تھا۔ وہ جلد ہی اپنے صاحب کو بلا کر لے آیا۔
مائیکل کلارک رات والا لباس پہنے غیر آرام دہ نظر آرھے تھے۔ ان کہ تاثرات سے صاف لگ رھا تھا کہ انھیں اس وقت ڈسٹرب کیے جانا بہت برا لگا تھا۔ لیکن ان کہ تاثرات کی پرواہ کسے تھی؟
“کیا آج آپکی بیٹی امراؤ جان آپ سے ملنے آپ کہ آفس آئی تھی؟ “
سفیان نے بغیر تمہید باندھے بات کا آغاز کیا تھا۔
“شام کو”
جوزف نے لقمہ دینا ضروری سمجھا۔
مائیکل جانتا تھا کہ کیوں ، کب ، کیسے، جیسے سوالات کا وقت نہیں تھا۔ ضرور اس کی بیٹی کہ ساتھ کچھ برا ہو چکا تھا تبھی پولیس آفیسر اس کہ پاس موجود تھا۔ وہ اب سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ پہلے والے تاثرات یکدم غائب ہو چکے تھی۔ ان کی جگہ اب ایک باپ کی اپنی اکلوتی بیٹی کہ لیے لی گئی پریشانی نے لے لی تھی۔
“نہیں۔۔۔۔ امراؤ تو میرے پاس نہیں آئی۔ میں آفس میں ہی تھا شام کو۔ کیا ہوا میری بیٹی کہ ساتھ؟”
مائیکل اب خود کو اگلی ملنے والی خبر کہ لیے تیار کرنے لگا تھا۔
“آپ سارا وقت آفس میں تھے؟”
اب کی بار جوزف نے کریدا تھا۔
“ہاں تھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ پر لیکن نہیں۔۔۔ مجھ سے ملنے خاص مہمان آۓ تھے، ان سے ملکر میں وقت سے پہلے ہی وہاں سے نکل گیا تھا۔ ہو سکتا ہے امراؤ میرے نکلنے کہ بعد وہاں آئی ہو۔ “
مائیکل اب سوچ سوچ کر بول رھا تھا۔ اس کا دل انجانے خوف کی زد میں آچکا تھا۔ دور کہیں وہ یہی سوچ رھا تھا کہ امراؤ اگر کیتھرین کہ ہاتھ لگ گئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ وہ سوچنا نہیں چاھتا تھا۔ اس نے اپنا سر بے اختیار اپنے ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔ آج اسے بخوبی احساس ہوا تھا کہ جن والدین نے ہاسٹل میں اپنی جوان بچیاں کھوئی تھیں ان پہ کیا بیتی ہوگی۔
“اور وہ مہمان یقیناً کیتھرین ڈسوزا ہوگی۔”
سفیان لمحوں میں بات کہ تہہ تک پہنچ چکا تھا۔
اس کہ منہ سے کیتھرین کا نام سنتے ہی جہاں جوزف چونکا تھا وہیں مائیکل کہ بھی چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔ اس نے سر اٹھا کر اسے گھورا تھا۔ جوزف نے بھی سر گھما کر اسے دیکھا تھا۔ وہ واقعتاً اس کا معترف نظر آرھا تھا۔
“بلکل”
مائیکل نے یک لفظی جواب دینے پہ ہی اکتفا کیا تھا۔
“یقیناً کیتھرین نے وہیں امراؤ کو اپنے اثر میں لے لیا ہوگا۔”
سفیان نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
“کک ۔۔۔۔ کیا مطلب ہے آپکا؟ کیتھرین نے کیا کیا ہے میری بیٹی کہ ساتھ؟”
سفیان کہ اٹھتے ہی مائیکل بھی بے تابی سے اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا۔ وہ اب منت کرنے والے انداز میں ان سے پوچھ رھا تھا۔ سفیان کو اس وقت وہ ایک بے بس اور بیچارے باپ سے زیادہ کچھ نہیں لگ رھا تھا۔ سفیان نے جوزف کو اشارہ کیا اور جوزف نے چیدہ چیدہ لفظوں میں اسے سب بتا دیا تھا۔ سفیان پہلے ہی باہر نکل آیا تھا۔ جوزف کچھ وقت بعد اس کہ ساتھ آ ملا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بہت گہری ہو چکی تھی۔ وکٹوریہ ایک بار پھر امراؤ کہ کمرے میں موجود تھی۔ وہ اسے رات کا کھانے کھانے کہ لیے بلاوا دینے آئی تھی۔ اسے سفیان نے بھیجا تھا۔ امراؤ اس کی بات سنتے ہی آنکھیں اس پر جمائے اس کہ پیچھے ہیچھے چلتی اس کہ کمرے تک آگئی تھی۔ وہاں سب پہلے سے ہی موجود تھے۔ سفیان کی ہدایات کہ مطابق سب امراؤ کو ویسے ہی ڈیل کر رھے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ وہ بلکل نارمل ہو۔
جوں ہی سب نے کھانا کھانا شروع کیا، سفیان نے ایک بار پھر امراؤ کی جانب غور سے دیکھا۔ اس جیسے زیرک آدمی کی نگاہ سے کوئی چیز کیسے زیادہ دیر چھپی رہ سکتی تھی۔ اس نے جوزف کی جانب فاتحانہ انداز میں دیکھتے ہوئے آنکھ ماری تھی۔ اور لبوں کو گول کرتے ہوئے ایک ہی لفظ کہا تھا:
“Eyes”
جوزف نے اسکی بات سمجھ کر فوراً امراؤ کی آنکھوں میں غور سے دیکھا تھا اور وہ بھی زیرِ لب مسکرا دیا تھا۔ اس نے آنکھوں کی زبانی ہی سفیان کو داد دی تھی۔
امراؤ کی گہری نیلی آنکھیں اب ہلکی نیلی لگ رھی تھیں۔ اس کی آنکھوں کی رنگت میں تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔ مطلب کیتھرین نے اسکی آنکھوں کہ ذریعے اس پہ جادو کیا تھا۔ اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔ یہ یقیناً کوئی مصنوعی جھلی تھی۔ جو کنٹیکٹ لینزز کی طرح امراؤ کی آنکھوں میں فکس کی گئی تھی۔ اسی لمحے سفیان نے اپنی دماغ میں ایک پلان ترتیب دیا۔
سب چپ چاپ بیٹھے کھانے سے انصاف کر رھے تھے جب سفیان نے گلا کھنکھار کہ سب کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے منادی کرنے والے انداز میں کہا:
“جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کیتھرین کا کام تمام کرنے کہ لیے ہمارے پاس کل کا ہی دن ہے۔ کل ہر حال میں امراؤ نے اسکا مقابلے کرنے کہ لیے جانا ہے۔ وکٹوریہ اور نگینہ آپکی ذمہداری ہے کہ پرانے پلان کہ مطابق امراؤ کو تیار کریں۔”
اس نے دونوں ماں بیٹی کی جانب دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا تھا۔
جواباً ماں بیٹی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے فقط سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا تھا۔
سفیان ساتھ ساتھ امراؤ کہ چہرے کہ بدلتے ہوئے تاثرات کا جائزہ بھی لے رھا تھا۔ وہ معنی خیز انداز میں مسکرا رھی تھی۔ یہ مسکراہٹ امراؤ کی تھی ہی نہیں۔ سفیان کو ایسے لگا جیسے کیتھرین طنزاً مسکرا رہی ہو۔ جیسے کیتھرین اپنے پلان کامیاب ہونے اور انھیں چکمہ دینے کی خوشی میں ان پہ ہنس رھی ہو۔ اب سفیان کو یقین ہو گیا کہ یقیناً کیتھرین نے امراؤ سے سب کچھ اگُلوا لیا تھا۔ اس بات کا ذکر اس نے جوزف سے بھی کیا۔ جب تینوں خواتین ان مردوں کو وہاں چھوڑ کر امراؤ کہ کمرے میں چلی گئیں۔
“ہپناٹزم”
“امراؤ کیتھرین کی جانب سے ہپناٹزم کا شکار ہوئی ہے۔ کیتھرین نے اسے ہپناٹائز کر کہ اس کہ دل میں چھپے راز اُگلوا لیے ہیں۔ اور اسے اپنے حصار میں کرنے کہ لیے اسکی آنکھوں پہ جادوئی جھلی لگا دی ہے۔ تاکہ امراؤ وہی دیکھے جو کیتھرین اسے دکھانا چاھتی ہے۔”
جوزف نے خضر اور سفیان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ وہ تینوں مرد حضرات اب سگریٹ کہ کش لگاتے محوِ گفتگو تھے۔
“مطلب کیتھرین کو ہمارے پلان کی بابت سب معلوم پڑ چکا ہے۔ کہ ہم امراؤ کو حسین ترین بنا کر اس کہ سامنے پیش کریں گے۔ اور۔۔۔۔!!!!!!!”
خضر نے بھی اپنی عقلمندی ظاہر کرنا ضروری سمجھا۔ تبھی سفیان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
“خضر تمھیں ایک کام کرنا پڑے گا۔ میرے دماغ میں ایک پلان ہے۔ لیکن ہے رسکی۔ تمھیں امراؤ کو تھوڑے سے وقت کہ لیے گہری نیند میں لے جانا ہوگا۔ میں نے اسکی باڈی میں ٹریکر فکس کرنا ہے۔ اور مجھے کچھ سامان چاھیے ، جو قریبی شہر سے ہر صورت صبح تک مل جانا چاھیے۔ اس کہ علاوہ ہسپتال کی فارمیسی سے مجھے ایک مخصوص آئی ڈراپس چاھییں۔ سفیان نے خضر کو ان آئی ڈراپس کا نام بھی بتایا۔”
سب سنتے ہی خضر کہ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
“کیا کہہ رھے ہو یار۔ امراؤ کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور میں کسی بھی قیمت پر اس کی جان خطرے میں ڈالنے کا متعمل نہیں ہو سکتا۔ “
“اوہ بس کر یار، تجھے کیا لگتا ہے کہ میں اس کا دشمن ہوں؟ اور آپکی اطلاع کہ لیے عرض یہ ہے کہ امراؤ اب کیتھرین کی نظر میں آچکی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم پڑ چکا ہے کہ وہ مائیکل کہ اکلوتی بیٹی ہے۔ وہ ویسے بھی امراؤ کو زندہ چھوڑنے والی نہیں ہے۔ بہتر ہے ہم اس کا پلان اسی کہ مطابق چلا کر اسے چکمہ دیں۔ اور اسے اسی کہ جال میں پھنسائیں۔ “
سفیان نے خضر کی بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے تفصیلاً مستقبل قریب میں پیش آنے والے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔
جوزف نے بھی سفیان کا ساتھ دیا تھا۔ مجبوراً خضر کو ان دونوں کی بات ماننی ہی پڑی۔
جلد ہی خضر نے وکٹوریہ کہ ذریعے امراؤ کو انجکشن دیکر کچھ وقت کہ لیے بے ہوش کروا دیا تھا۔ اور سفیان کہ حکم کہ عین مطابق اس کی باڈی میں ٹریکر نصب کر دیا گیا۔ اب مسئلہ اسکی آنکھوں کا تھا۔ اس کی آنکھوں کو اس کی اجازت کہ بغیر چھیڑا نہیں جا سکتا تھا۔ امراؤ کو تیار کرنے کا سارا سامان وکٹوریہ نے سفیان کو لکھ کر دے دیا تھا۔ جسے قریبی شہر سے اگلی صبح تک آجانا تھا۔
امراؤ تقریباً ساری رات ہی جاگتی سوتی کیفیت میں رھی۔ اگلی صبح جب کافی دیر سے وہ اٹھی تو اسکی طبیعت بہت بوجھل تھی۔ باقی سارے ہشاش بشاش سے وکٹوریہ کہ کمرے میں موجود تھے۔ سارا سامان آچکا تھا۔ آج کا دن بہت بڑا اور اہم تھا۔ سفیان نے وہ ڈراپس وکٹوریہ کہ حوالے کیے اور اسے ان کا استعمال سمجھا دیا۔ امراؤ بھی جلد ہی ناشتہ کر کہ ان کہ پاس موجود تھی۔ ان میں سے کسی کہ عمل سے بھی یہ نہیں لگ رھا تھا کہ وہ اسے پہچان چکے ہیں۔ سبھی معصوم اور بھولے بنے ہوئے تھے۔ اسی لیے امراؤ بھی مطمئن تھی۔ اس کہ چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ رینگ رھی تھی۔ اس نے خود کو وکٹوریہ کہ سپرد کر دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ اسے کیتھرین کا سامنا کرنے کہ لیے تیار کرے۔
وکٹوریہ کہ کمرے میں ایک قد آور شیشے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جس کہ آگے بڑی کرسی دھری تھی۔ امراؤ فی الوقت اسی پہ براجمان تھی۔ وہ بہت دلچسپی سے وہاں موجود میک اپ کہ سامان کا جائزہ لے رھی تھی۔ اس کا سرخ شہزادیوں والا لباس بھی پہنچ چکا تھا۔ جوسفیان نے قریبی شہر میں موجود ایک دکان سے کرایے پہ منگوایا تھا۔ یہ سرخ رنگ کی پھولی ہوئی بڑی سی میکسی تھی۔ مرد حضرات اب وہاں سے جاچکے تھے۔ وکٹوریہ جو کسی زمانے میں کیتھرین کی میڈ تھی اور اس کا بناؤ سنگار کرتی تھی اب امراؤ کو حسین ترین بنانے کی جستجو میں جُتی ہوئی تھی۔ اس کہ ہاتھ کسی ماہر کی مانند تیزی سے کام کررھے تھے۔ اس نے امراؤ کہ بالوں کو کرل کیا تھا۔ کرل کی ہوئی لٹوں کو کمر پہ جھولنے کہ لیے آزاد چھوڑ دیا تھا۔ سامنے والے بالوں کو اونچا کر کہ سیٹ کیا تھا۔ پھر ان پہ بڑا سا تاج لگا دیا تھا۔ تاج میں بڑے بڑے سرخ کہ نگینے جُڑے ہوئے تھے۔ امراؤ کی کلائیوں میں بھی کڑے پہنائے گئے تھے۔ اور مخروطی انگلیوں میں بڑے نگینے والی انگھوٹیاں۔ نازک ہونٹوں پہ سرخ گلاب کہ رنگ کی لپ اسٹک سجائی گئی تھی جس سے وہ بلکل گلاب کہ پھول کی نازک سی کلی کی مانند دکھ رھے تھے۔ بناؤ سنگار مکمل ہو چکا تھا۔ امراؤ واقعی شہزادی لگ رھی تھی۔ وکٹوریہ اب اس کہ سر سے پرے ہٹی تو امراؤ نے تفاخر سے اپنے سراپے کو آئینے میں دیکھا۔ پھر کرختگی سے وکٹوریہ کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئی:
“آنکھوں میں کاجل تیرا باپ ڈالے گا؟”
وکٹوریہ کو اسی لمحے کیتھرین کی یاد آئی۔ وہ بھی اسے کاجل نہ ڈالنے پہ ایسے ہی کہا کرتی تھی۔ وکٹوریہ نے جان بوجھ کر اسکی آنکھوں کو خالی چھوڑا تھا۔ وکٹوریہ نے بمشکل مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی۔ اور کاجل کی جگہ آئی ڈراپس اٹھا لیے۔ امراؤ نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ وکٹوریہ نے اسی لمحے کا فائدہ اٹھایا اور پھرتی سے اس کہ پپوٹوں کو اٹھا کر دونوں آنکھوں میں تین تین ڈراپس ڈال دیے۔ بس پھر کیا تھا، ان ڈراپس سے امراؤ کی بڑی آنکھوں میں کھجلی شروع ہو گئی۔ وہ آنکھوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کر رھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل پانی رواں تھا۔ وہ لال سرخ ہو چکی تھیں۔ امراؤ گالیاں بکتے آنکھیں رگڑ رھی تھی۔ کھجلی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رھی تھی۔ امراؤ نے آخر کار خود وکٹوریہ کو مدد کہ لیے پکارا۔ کہ وہ اسکی آنکھوں میں ہونے والی کھجلی کا کچھ کرے۔ یہاں وکٹوریہ نے فاتحانہ مسکراہٹ نگینہ کی جانب اچھالی اوراسکی مدد کو آگے بڑھی۔ امراؤ نے خود اسے بلآخر دعوت دے ڈالی تھی۔ کیتھرین نے اپنی جانب سے تو کام پکا کیا تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی اس دفعہ اس کا مقابلہ سفیان تبریز سے ہے۔ خیر وکٹوریہ نے کمال مہارت سے اس کی آنکھوں سے وہ جھلی نکالی۔ جیسے کوئی لینز نکالتا ہے۔ اور نگینہ کہ پاس موجود ہوبہو اسی رنگ کہ لینز اس کی آنکھوں میں لگا دیے۔ اسی وقت امراؤ کہ جسم کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ جیسے وہ کسی دوسری دنیا سے اس دنیا میں واپس پہنچی ہو۔
وکٹوریہ نے اسے دیکھکر سکھ کا سانس لیا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی تھی۔ امراؤ حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رھی تھی۔ نگینہ نے فوراً باقیوں کو اندر بلایا۔ اور امراؤ کہ واپس آنے کی خوشخبری سنائی۔ ان سب کی خوشی دیدنی تھی۔ سفیان نے امراؤ کو ساری کتھا سنائی۔ کیونکہ اسے فقط اتنا یاد تھا کہ وہ بابا سے ملنے ان کہ آفس گئی تھی۔ اس سے زیادہ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔
سفیان نے اسے سمجھایا تھا کہ اب اسے مکمل طور پر ویسی ہی ایکٹنگ کرنی ہے۔ تاکہ کیتھرین کو لگے کہ وہ ابھی تک اس کہ ہاتھوں روبوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس کی لاعلمی ان کہ لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ وہ امراؤ پہ بھروسہ کر کہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرے گی جو اس کی موت کو دعوت دے گا۔ امراؤ کو اب آنکھیں اور کان کھلے رکھنے تھے۔ امراؤ نے بازو میں درد کی شکایت کی تو سفیان نے اسے ٹریکر کی بابت آگاہ کیا۔ یہی نہیں سفیان نے اس کہ سر پہ موجود تاج میں جڑے ایک نگینے کی جگہ خفیہ کیمرہ لگایا تھا۔ تاکہ وہاں کی ساری صورتحال سے وہ لمحہ بہ لمحہ آگاہ رہ سکیں۔ امراؤ کہ کان میں ایک اور آلہ نصب تھا۔ جس کی مدد سے سفیان اس سے بات کر سکتا تھا۔ وہ چھوٹا سا تھا۔ اور اس طرف وکٹوریہ نے امراؤ کہ بال گرا دیے تھے۔ تاکہ کان میں لگے آلے پہ کیتھرین کی نگاہ نہ پڑ سکے۔
“کیتھرین یہ سب پکڑ تو نہیں لے گی؟”
خضر نے بیک وقت وکٹوریہ اور سفیان کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
“وہ ابھی تک خود کو آج سے ۴۰ ۴۵ سال پہلے والی جواں سال کیتھرین سمجھتی ہے۔ اور مجھے نہیں لگتا اس دور میں ایسے گیجھڈس Gadges ملتے ہوں گے۔ اس نے جادو کا سہارا لیا ہم جدید دور کی ٹیکنالوجی کا سہارا لے رھے ہیں۔”
سفیان نے تفاخر سے کہا تھا۔
“اور یہ نئی ٹیکنالوجی بھی کونسا کسی جادو سے کم ہے۔ میلوں دور بیٹھے انسان کی نہ صرف آپ آواز سن سکتے ہیں بلکہ اسے دیکھ بھی سکتے ہیں۔”
وکٹوریہ نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے متاثر کن انداز میں کہا تھا۔
امراؤ اب اٹھکر ان سب کہ سامنے کھڑی ہو چکی تھی۔ اس کا سرخ لباس دور تک پھیلا ہوا تھا۔ آدھے بال داھنے کندھے پہ تھے جبکہ باقی پیچھے کمر پہ اٹھکلیاں کرنے میں مشغول نظر آتے تھے۔ وہ بلا کی حسین لگ رھی تھی۔ وکٹوریہ نے اسکی آنکھیں کاجل سے بھر دی تھیں۔ وہ کوئی اپسرا ، حسن کی دیوی لگ رھی تھی۔ سب کا دل جہاں اسے دیکھکر خوش تھا وہیں ایک انجانا سا خوف بھی سانپ کی مانند بل کھا کہ دلوں پہ بیٹھ گیا تھا۔ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے، کہیں کچھ انہونی نہ ہو جائے۔ بس سب پلان کہ مطابق ہوتا رھے۔ ان سب نے امراؤ کو رخصت کرنے سے پہلے دعا کی تھی۔ ان کا ارادہ نیک تھا اور نیت صاف۔ کامیابی یقیناً ان کی منتظر تھی۔
“کیتھرین کہ ٹھکانے پہ اس وقت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ خود کسی کو مدعو نہ کرے۔ امراؤ تمھیں دھیان رھے کہ تم نے بلکل ایسے ہی ری ایکٹ کرنا ہے جیسے تم اس کہ حصار میں مقید ہو۔ آنکھیں نہیں جھپکنیں۔یا اس کہ سامنے تو بلکل بھی نہیں۔ کسی روبوٹ کی طرح اس کی ہر بات ماننی ہے۔”
جوزف نے نئے سرے سے امراؤ کو نصیحت کی تھی۔
سرخ لباس سے میچنگ رنگ کہ بازو سے جھولتے بظاہر چھوٹے نظر آنے والے پرس میں سفیان نے امراؤ کو وہاں ضرورت پڑنے والے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسے بوقت ضرورت ان کہ استعمال سے بھی آگاہ کر دیا تھا۔ اب امراؤ نے اسے آئینہ دکھانا تھا۔ حقیقت کا آئینہ!
امراؤ ہتھیاروں سے لیس ہو کر دعاؤں کہ سائے تلے رخصت ہو کر بلآخر مطلوبہ مقام تک پہنچ چکی تھی۔ وہ بھوربھن کالج کا نسبتاً ویران اور سنسان گوشہ تھا۔ اسے بس کیتھرین کہ آنے تک یہیں رھنا تھا۔ کیتھرین کی دنیا میں اس کہ مدعو کیے بغیر کوئی نہیں گھس سکتا تھا۔ لہذا فی الوقت اسے جو کرنا تھا وہ انتظار تھا!
کینیڈین حکومت کی جانب سے دباؤ ابھی تک برقرار تھا۔ جو سفیان کو کسی پل چین نہیں لینے دے رھا تھا۔ اس کی نوکری کہ علاوہ اس کا اور بھوربھن کا مستقبل داؤ پہ لگا تھا۔ اب تو سیاحوں کہ نہ آنے کی وجہ سے مقامی تاجروں نے بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دے دی تھی۔ ہر طرف یہی چرچہ تھا کہ پولیس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی ہے۔ کوئی قابلِ ذکر کاروائی نہیں کی جارھی۔ اوپر سے امراؤ کو بھی اپنے ہاتھوں سے موت کہ منہ میں دھیکیل دیا گیا تھا۔ وہ چیز الگ سے بے چین کر رھی تھی۔ آج اس نے دلآویز اور شاہزین کو بھی بلوایا ہوا تھا۔ کسی بھی پل ان کی آمد متوقعہ تھی۔ اسی تناظر میں اس نے پولیس ڈپارٹمنٹ سے ملے کوارٹر کی صفائی ستھرائی کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔
امراؤ کو رخصت کر کہ سب کہ ہی منہ لٹکے ہوئے تھے۔ ہر کسی کا دل اندر سے غمزدہ تھا۔ ایسے میں ایک ہی اچھی خبر ملی تھی کہ وزیرِ خارجہ کا دورۂ بھوربھن ایک اور دن کہ لیے ملتوی ہو گیا تھا۔ یہ سنکر کم از کم سفیان نے تو سکھ کا سانس لیا تھا۔ باقی سب دھیمے رفتار سے اپنے اپنے کاموں میں بظاہر مصروف سے نظر آتے تھے۔ وکٹوریہ اور نگینہ کی رہائش کہ لیے جوزف کوئی مناسب گھر ڈھونڈنے کہ چکر میں پڑ گیا تھا۔ خضر مریضوں کہ جھمگٹے میں پھنسا ہوا تھا۔ جبکہ سفیان تھانے کی روز مرہ کاروائی میں بظاہر مشغول نظر آتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں یہاں سے جانے کہ بعد کہاں کہاں گئی؟”
نگینہ نے بلآخر جوزف کو مخاطب کرتے ہوئے کب سے اپنے دل میں ابلتے سوال کو جیسے آواز دی تھی۔ وہ اور جوزف مکان ڈھونڈنے نکلے تھے۔
“مجھے کوئی سروکار نہیں اس سب سے۔ تم دونوں ماں بیٹی نے مجھ پر شک کیا تھا۔ کہ میں نے تم دونوں کا راز افشا کیا۔ تب سے مجھے اتنا یاد ہے کہ میری زندگی کس قدر اجیرن ہو گئی تھی۔ “
جوزف نے کڑوے لہجے میں جواب دیا تھا۔ اس کہ لہجے کہ کڑواہٹ جائز تھی۔ نگینہ نے خود سے سوچا۔
“بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ “
نگینہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
“غلط فہمی نہیں غلطی کہو۔ بلکہ گناہ کہو۔ خداوند کسی پہ ناحق بہتان لگانے کو پسند نہیں فرماتا۔”
جوزف نے نگینہ کی بات کو کاٹنا ضروری سمجھا تھا۔
“اس گناہ کی بہت بڑی سزا کاٹی ہے میں نے اور اماں نے۔”
نگینہ نے سر مزید جھکاتے ہوئے کہا تھا۔
دونوں چلتے چلتے تھک گئے تو صاف میدان میں قریب قریب پڑے دو پتھروں پہ بیٹھ گئے۔
“یہاں سے جانے کہ بعد ہم پہ بہت بڑی ذمہ داری جمیکا کی تھی۔ کیتھرین کی بیٹی کی۔ مجھے کیتھرین سے بھی نفرت تھی اور اسکی بیٹی کو تو میں مار دینا چاھتی تھی۔ ہم جیسے تیسے کر کہ یہاں سے شہر تک پہنچ گئے۔ ہم ویران سے اسٹیشن پہ بے یارو مددگار پڑے تھے کہ مجھے وہاں نشہ کرتے اور جوا کھیلتے چار آدمی دکھائی دیے۔ میں نے اماں کی نیند کا فائدہ اٹھایا اور روتی ہوئی جمیکا کو ان کی گود میں ڈال دیا۔ بدلے میں انھوں نے مجھے کچھ رقم تھمائی تھی۔ انکی آنکھیں بھی خوشی سے دمک اٹھیں۔ وہ فوراً اسے لیکر وہاں سے بھاگ نکلے۔ یقیناً اسے مہنگے داموں بیچنے گئے ہوں گے۔ میں اطمینان سے ماں کہ پاس آکر بیٹھ گئی۔ جب اماں کو جمیکا کی بابت معلوم پڑا تو اماں نے تو میری خوب بے عزتی کی۔ اماں ابھی تک کیتھرین کہ خوف سے نکل نہیں پائی تھی۔ اس نے قریب موجود ہر جوے کہ اڈے کی خاک چھاننا شروع کر دی تاکہ جمیکا کہ بارے میں پتہ لگایا جا سکے۔ اماں کہ مطابق کیتھرین انھیں خواب میں آکر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتی تھی۔ خیر دن یونہی گزرتے رھے ایک دن ایک جوے کہ اڈے سے اماں کو معلوم پڑا کہ ایک آدمی جس کا نام یعقوب مسیع ہے وہ جمیکا کو جوے میں جیت کر اپنے گھر لے گیا ہے۔ اماں نے بمشکل اس کہ گھر کا پتہ حاصل کیا اور وہاں پہنچ گئی۔ اماں نے اس کہ سامنے یہی تاثر دیا کہ اماں رشتے کرانے والی مائی ہے۔ اب اماں کا روز کا معمول بن گیا۔ آۓ دن اس محلے کہ چکر کاٹتی رھتی۔ یوں اماں کی یعقوب مسیع سے بھی سلام دعا ہوگئی۔ اسکی بیوی کہ ساتھ نجانے جمیکا نے کیا کیا کہ وہ بیچاری مر ہی گئی۔ “
نگینہ سانس لینے کو رکی ہی تھی کہ جوزف گویا ہوا:
“ظاہر ہے جادوگرنی کی بیٹی تھی۔ کچھ تو اثر اس میں بھی ہوگا نا۔”
“صحیح کہا جوزف۔ ایسا ہی تھا۔ وہ بچپن سے ہی عجیب تھی۔ مجھے تو کبھی کبھار اس سے بہت ڈر لگتا تھا۔ “
نگینہ نے جوزف کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا۔
“تم ۔۔۔۔۔ تم کیسے پہنچی جمیکا کہ پاس؟”
جوزف نے اپنے مطلب کا سوال بلآخر کر ہی ڈالا تھا۔
“یعقوب کی بیوی کی اچانک وفات کہ بعد اسے اپنے اور اپنی گود لی بیٹی جمیکا کہ لیے جلد از جلد کسی عورت کی ضرورت تھی۔ اماں اسی تاک میں تھیں۔ بس اماں نے فوراً اسے میرا رشتہ پیش کر دیا بغیر یہ بتائے کہ میں ان کی اپنی بیٹی ہوں۔ یعقوب نے میرا رشتہ یہ سوچ کر قبول کر لیا کہ میرا آگے پیچھے کوئی ہے نہیں پوری زندگی اس کی خدمت گزاری میں گزار دوں گی۔ اور وہی ہوا میں جلد ہی یعقوب کی بیوی بن کر اس کہ گھر میں آگئی۔ میں نے اس کی اور جمیکا کی خدمت میں شب و روز ایک کر دیے۔ لیکن تمھاری قسم جوزف میں نے یعقوب کو دل سے اپنا شوہر تسلیم نہیں کیا۔ نہ ہی اسے مجھ سے بیوی والی تسکین میسر آئی کبھی۔ میں نے اس کا ہر ظلم ہر ستم برداشت کیا۔ اُف تک نہیں کی۔ اماں کی سخت ہدایت تھی کہ ہر حال میں جمیکا کا خیال رکھنا ہے۔ یوں دن گزرتے گئے وہ جوان ہوتی گئی۔ ایک روز اماں کہ ہاتھ کیتھرین نے جمیکا کہ لیے کافی سامان بھجوایا تھا۔ جس میں ایک سفید ٹیڈی بئیر بھی تھا۔ وہ جمیکا کو بہت پسند آیا۔ وہ ہمیشہ اسے ساتھ رکھا کرتی تھی۔ اسے استھما کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ میں نے دل و جان سے اسکی خدمت کی۔ پھر ایک روز یعقوب میری بیزار طبیعت سے تنگ آکر ایک خوبصورت عورت کو ہمارے گھر لے آیا۔ اس عورت کہ ساتھ ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی۔ اس نے ہم دونوں کو گھر سے نکال دیا۔ ہم وہاں سے اماں کہ پاس بھوربھن پہنچ گئے۔ جمیکا جوان ہو چکی تھی۔ کیتھرین نے اسے اپنے پاس رکھ لیا اور میں اماں کہ پاس جھرنے والی کُٹیا میں رھنے لگی۔ کیتھرین سے روز معافی مانگتی لیکن اس نے مجھے معاف نہیں کیا۔ وہ یہی سمجھتی تھی کہ میں نے اسے اور تمھیں الگ کیا ہے۔ میں اُس کہ اور تمھارے درمیان آئی ہوں۔”
لمبی کہانی سنا کر نگینہ بہت اداس ہو گئی تھی۔ اس کا چہرہ اس کرب کی داستان بیان کر رھا تھا جو اس نے اپنی زندگی میں ناحق برداشت کیا تھا۔
“تم اور تمھاری اماں کیتھرین سے اتنا دبتی کیوں ہو؟ تم لوگ اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟”
جوزف نے زچ ہو کر سوال کیا تھا۔
“اماں کا جادوئی گلوب کیتھرین کہ قبضے میں ہے۔ اور ینگ یانگ قبیلے کہ اصول کہ مطابق وہ گلوب اسی قبیلے میں نسل در نسل منتقل ہونا تھا۔ لیکن کیتھرین نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اماں اسکی بیٹی جمیکا کا خیال رکھیں گی تو وہ اماں کا گلوب اماں کو واپس کر دی گی۔ اماں نے اپنی اور میری زندگی اسی گلوب کہ حصول کہ لیے برباد کی۔ کیتھرین کی ہر جائز و ناجائز تمنا پوری کی۔ لیکن اس نے آخر کار ہمیں دھوکا دیا۔ گلوب بھی واپس نہ کیا اور جب ہم سے اپنا مقصد پورا ہو گیا تو ہمیں مارنے کہ لیے اس کٹیا میں ڈال کر اسے غائب کر دیا۔ وہ تو سفیان کا بھلا ہو جس کہ ہاتھ لاکٹ لگا اور ہم آزاد ہو پائے ورنہ تو کب کہ مر کھپ گئے ہوتے۔”
نگینہ کی آنکھیں اب آنسو برسا رھی تھیں۔ وہ طویل مشقت کاٹ کر آئے اس مسافر کی مانند تھی جسے منزل پہ پہنچ کر بھی منزل نہیں ملی تھی۔
“کیتھرین نے جمیکا کو اپنے پاس کیوں نہیں بلوایا؟ حالات تو بعد میں ٹھیک ہو ہی گئے تھے؟”
جوزف نے بات کہ تہہ تک پہنچنے کہ لیے سوال کیا تھا۔
“کیتھرین جب تک مکمل جادوگرنی نہ بن جاتی تب تک وہ بیٹی کہ ذمہ داری کیسے اٹھاتی؟ جب وہ مکمل جادوگرنی بن گئی تب ہی اس نے یٹی کو بھوربھن بلوایا۔”
نگینہ نے جواب دیکر جیسے جوزف کو مطمئن کیا تھا۔
“تم بتاؤ نا تم بھوربھن سے جانے کہ بعد کہاں کہاں بھٹکے؟”
نگینہ اب جوزف سے اس کی گزشتہ زندگی کی بابت دریافت کر رھی تھی۔
“راتوں رات ہم لوگ بھوربھن چھوڑ کر شہر آگئے۔ وہاں ابا کہ ایک جاننے والے رھتے تھے۔ انھوں نے ہمیں پناہ دی۔ اور بد قسمتی یا خوش قسمتی سے وہ جادو کہ کرتب دکھاتے تھے۔ بس مجھے بھی انھیں دیکھکر شوق پیدا ہوا۔ اور میں نے ان سے جادوئی کرتب سیکھنا شروع کر دیے۔ یہ شوق اتنا بڑھا کہ ان کہ گُرو تک میں نے رسائی حاصل کی۔ اور اس کی باقاعدہ تعلیم لینا شروع کی۔ جب مکمل سیکھ چکا تو واپس بھوربھن آگیا۔ تاکہ اپنے لوگوں کہ کچھ کام آسکوں۔ پھر یہاں نئے دوست بن گئے۔ بس انھی کہ معاملات میں الجھ گیا۔ دور کہیں اندر میں بھی کیتھرین سے بدلہ لینا چاھتا تھا۔ اس نے میری زندگی برباد کی تھی۔ مجھ پہ جھوٹا الزام لگایا تھا۔ ہمیں اس کی وجہ سے اپنا گھر بار سب چھوڑنا پڑا۔ میں نے اپنی ساری جمع پونجی گرو سے تعلیم سیکھنے میں خرچ کی۔اسی لیے اب ایسے حال میں رھتا ہوں۔ جوزف نے سر تا پا اپنا جائزہ لیتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہا تھا۔
“اور یہ بوسیدہ جیکٹ کہاں سے ہتھیا تھی ویسے؟”
نگینہ نے جوزف کہ کہانی سننے کہ بعد ماحول میں پیدا ہوئی تلخی کو حتی الامکان دور کرنے کی اپنی سے کوشش کرتے ہوئے کہا تھا۔
“ہا ہا ہا۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔ بس یوں سمجھ لو کہ کسی ڈیوڈ نامی بندے سے ہتھیائی ہے۔”
جوزف کا چہرہ بھی عرصے بعد کھل اٹھا تھا۔ اپنے دل میں نجانے کب سے پنپتے سوالوں کو جہاں جوابات میسر آۓ تھے وہیں اپنا دل کا بوجھ بانٹ کر خاصہ ہلکا سا ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلآویز فاطمہ سفیان بھوربھن پہنچ چکی تھیں۔ انھیں پولیس کی وین اور سفیان کی گاڑی نے ریسیو کیا تھا۔ دل شادی کہ بعد پہلی دفعہ اپنے شہر سے باہر کہیں نکلی تھی۔ اسے بھوربھن پہلی نگاہ میں ہی بہت پسند آیا تھا۔ قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے مناظر اس کہ دل کو معطر کر گئے تھے۔ موڈ یکدم خوشگوار ہو گیا تھا۔ شاہزین بھی سفیان کی باہوں میں خوب مچل رھا تھا۔ سفیان انھیں اپنے کوارٹر لے گیا تھا۔ دل کی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رھی تھیں۔ صد شکر کہ مردانہ طرز کہ لباس پہننے والی دل اب بدل چکی تھی۔ اس نے شھد کہ رنگ کا کرتا اور ہم رنگ پاجامہ پہن رکھا تھا۔ موسم کی مناسبت سے شال بھی اوڑھ رکھی تھی۔ وہ بہت بارعب خاتون لگ رھی تھی۔ سفیان اسے دیکھکر دل ہی دل میں اس کی نظر اتار رھا تھا۔ سفیان کہ دل میں امراؤ کو لیکر جو کھٹکا موجود تھا وہ اس کہ چہرے سے بخوبی عیاں تھا۔ دل نے بھی محسوس کیا تھا کہ وہ کچھ کھویا کھویا سا ہے۔ اس نے کریدا بھی۔ اور سفیان تو جیسے کسی سامع کی تلاش میں تھا۔ اس نے چیدہ چیدہ لفظوں میں اپنی شریکِ حیات کو ساری کہانی سنا ڈالی۔ جوں جوں دل کہانی سن رھی تھی اس کی دھڑکنیں بے اختیار بے ترتیب ہو رھی تھیں۔ دل تھا کہ مٹھی میں آکر مقید ہو گیا تھا۔ اسے امراؤپہ بہت ترس آیا تھا۔وہ بھی شدت سے دعاگو تھی کہ امراؤ کو کچھ بھی نہ ہو۔ ابھی وہ یہی بات کرر ھے تھے کہ امراؤ کی جانب سے سفیان کو سگنلز ملنا شروع ہو گئے۔ شاید وہ مقررہ مقام تک پہنچ گئی تھی یا پہنچائی جا رھی تھی۔ وہ فوراً الرٹ ہوا اور یکدم سب کو ہائی الرٹ کر دیا۔ کچھ ہی وقت میں وہ سب ہسپتال میں جمع تھے۔ دل اور چھوٹا شاہ زین بھی ان کہ ہمراہ تھے۔
امراؤ کہ تاج میں لگے کیمرہ سے سگنلز موصول ہو رھے تھے۔ امراؤ کہ آگے شاید کیتھرین تھی، اسکی پشت واضح تھی۔وہ اسے کہیں لیکر جا رھی تھی لیکن کہاں؟ امراؤ تو بھوربھن کالج کہ نسبتاً سنسان گوشے میں بیٹھی تھی۔ پھر وہ کہاں چلی جا رھی تھی؟ کیتھرین اسے کہاں لیکر جا رھی تھی؟ امراؤ بہترین اداکاری کا مظاہرہ کر رھی تھی۔ وہ واقعتاً کسی روبوٹ کی مانند چلتی ہوئی معلوم ہو رھی تھی۔ اس کہ کان میں لگے آلے میں سفیان مسلسل بول رھا تھا۔ اسے داد دے رھا تھا۔ اس کی ہمت بندھا رھا تھا۔ جواب میں دوسری طرف بلاشبہ خاموشی تھی لیکن یہ بھی فی الوقت غنیمت معلوم ہو رھی تھی۔ یکدم ہی ایک دروازہ سامنے آیا تھا ، وہ جیسے آجکل کہ واک تھرو گیٹز ہوتے ہیں۔ بلکل ویسا لگ رھا تھا۔ جیسے چیکنگ کہ لیے لگایا گیا ہو۔ اس کی ساخت و رنگت میں بلاشبہ بلا کا فرق تھا۔ لیکن مقصد یقیناً یہی تھا کہ اجنبی لوگوں کی اسکینگ مکمل کر کہ انھیں اندر داخل کیا جائے۔ جہاں امراؤ اسے دیکھکر ٹھٹھک کہ رکی وہیں اسے دیکھتے سب خواتین و حضرات کی جیسے سانسیں تھم گئیں۔
“ہم نے اس بارے میں کیوں نہ سوچا؟ کیتھرین کی دنیا میں داخلے کہ لیے چیکنگ ظاہر ہے ضروری تھی۔ وہ کیسے کسی اجنبی پہ اندھا اعتماد کر سکتی تھی۔ ڈیم اٹ۔ ڈیم اٹ۔۔۔!!!!!”
سفیان غصے میں شدید جھنجھلایا ہوا لگتا تھا۔ وہ اب کمرے میں دائیں بائیں چکر کاٹ رھا تھا۔ امراؤ کہ قدم ہنوز زنجیر تھے۔ جب کیتھرین نے مڑ کر اپنی گھمبیر آواز میں اسے پکارتے ہوئے کہا:
“کیا ہوا لڑکی؟ تم نے سوچ بھی کیسے لیا میری دنیا میں داخلہ تمھیں یونہی مل جائے گا؟ اور تمھارا ٹھٹھک کر رکنا صاف ظاہر کر رھا ہے کہ تم اب میرے اثر سے نکل چکی ہو۔ تم جتنی بھی تیز بن جاؤ کیتھرین تم سے ہمیشہ ایک قدم آگے رھے گی۔”
ان کی یہاں بیٹھ کہ سانسیں تھم رھی تھیں۔ امراؤ کی اب کیا حالت ہو گی وہ سب سوچ سکتے تھے۔ امراؤ نے ایک عقلمندی کا مظاہرہ کیا تھا کہ اس گیٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی کیتھرین نے جوں ہی رخ موڑا ایک ہاتھ سے جہاں کان میں لگا آلہ نوچ پھینکا وہیں تاج میں جڑے، بڑے نگینے کو جو کہ در حقیقت کیمرہ تھا، ایک جھٹکے سے نکال باہر کیا۔ انھیں وہیں گرا کر اندر داخل ہو گئی۔
جوں ہی اس نے دونوں چیزیں خود سے الگ کیں اسکرین پہ مکھیوں کی طرح بھنبھاہٹ شروع ہو گئی۔ جو کہ اس بات کی گواہ تھی کہ کیمرہ اب ٹوڑ دیا گیا تھا۔ آخری آواز جو انھوں نے سنی تھی وہ امراؤ کی تھی۔ اس نے بہت دھیمے لہجے میں یہ الفاظ ادا کیے تھے:
“خدا حافظ”
پھر ہر طرح کی آواز کا سلسلہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک شیشے سے بنا فرش تھا۔ جس پہ بڑے بڑے چوکور ڈبے بنے تھے۔ ایک ڈبہ کالا تھا ایک سفید۔ پورا فرش ہی ایسا تھا۔ ایک سفید ایک کالا چوکور ڈبہ۔ جیسے چیس کی بساط بچھائی گئی تھی۔ امراؤ نے وہاں قدم رکھا تو ارد گرد کا منظر آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا تھا۔ وہاں ہر طرف آئینے تھے۔ غرضیکہ وہ کوئی آئینوں کا محل تھا۔ تمام دیواریں ہر سائز و شکل کہ آئینوں سے بھری ہوئی تھی۔ امراؤ کو جہاں ہر آئینے میں اپنا آپ دکھائی دے رھا تھا وہیں کیتھرین کی شکل بھی دکھائی دے رھی تھی۔ جو ایک جواں سال شہزادی کی مانند لگ رھی تھی۔ امراؤ بھی بلاشبہ سرخ زمین پہ دور تک پھیلے لباس میں کوئی اپسرا لگ رھی تھی لیکن آئینے میں نظر آنے والی لڑکی اس پہ بازی لے گئی تھی۔ جوں ہی کیتھرین نے مڑ کر امراؤ کو دیکھا امراؤ کو لگا اس کا دل منہ کہ راستے باہر آگیا ہے۔ کیتھرین کی شکل اتنی کریہہ تھی کہ امراؤ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ وہ ایک انتہائی عمر کی بوڑھی عورت تھی۔ اس کا پورا جسم لرز رھا تھا۔ چہرے اور ہاتھوں پہ جھریوں کی بھرمار تھی۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اس کی جوانی کی خوبصورتی کہیں نہ کہیں ابھی تک اس کہ جھریوں زدہ چہرے سے جھانک رھی تھی۔ کیتھرین امراؤ کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت و حقارت دیکھ چکی تھی۔ اس کہ اردگرد لگے آئینے تو جادوئی تھے لیکن امراؤ کی آنکھوں میں لگا آئینہ تو جادوئی نہیں تھا نا۔ وہ تو کیتھرین کا حقیقی رخ دکھا رھا تھا۔ امراؤ کہ تاثرات دیکھکر کیتھرین غضب سے پھنکار رھی تھی۔ وہ اب تیز تیز چلتی ہوئی چیس والے فرش کہ دوسری جانب امراؤ کہ عین سامنے پہنچ گئی تھی۔ اس کا لباس بھی دور تک زمین پہ پھیلا ہوا تھا۔ وہ اور امراؤ اب چیس کہ دو کھلاڑیوں کی طرح مدِمقابل تھیں۔
“Mirror Mirror on the wall”
“Who is fairest of them all?”
کیتھرین دوسری طرف کھڑی گول گول چکر کاٹ رھی تھی۔ اس کا لباس بھی اس کہ ساتھ گول گول گھوم رھا تھا۔ وہاں سب بلاشبہ بہت شاھانہ تھا۔ کیتھرین کا گھومتا وجود ہر آئینے کا مرکز تھا۔ وہ اونچا اونچا گنگنا رھی تھی۔ وہاں موجود ہر آئینے سے پوچھ رھی تھی۔
“You our queen are fair; it is true.”
جادوئی آئینے جیسے سراپا گفتگو تھے۔ امراؤ سب دیکھکر حیرت کہ گہرے سمندر میں غوطہ زن تھی۔ آئینوں سے اپنی تعریف سنکر اس کہ رقص کرتے وجود میں جیسے بجلی سی بھر گئی تھی۔
“لڑکی آئینے جھوٹ نہیں بولتے جانتی ہو نا؟”
وہ اب براہراست امراؤ سے مخاطب تھی۔ امراؤ نے اس جیسا حسن پرست اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ مطلب صاف تھا۔ اس کی آنکھوں پہ کوئی ایسا پردہ لگا تھا جو بس اسے ہی حسین دکھاتا تھا۔ اگر آئینوں میں جادو تھا تو اس کی آنکھیں بھی یقیناً کسی جادو کہ زیرِ اثر تھیں تبھی اسے امراؤ کی خوبصورتی متاثر نہ کر سکی۔ امراؤ کہ ذہن میں جیسے جھماکے ہورھے تھے۔ کیتھرین اب پھر اپنے اردگرد لگے لاتعداد آئینوں کہ سامنے ایک مخصوص انداز سے کھڑی ہو کر سوال کر رھی تھی:
“Mirror Mirror on the wall”
“Who is fairest of them all?”
اب کی بار بھی آئینوں کی جانب سے وہی جواب آیا تھا:
“You our queen are fair; it is true……..
دیکھا کہا تھا نا آئینے جھوٹ نہیں بولتے۔
تبھی امراؤ نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا رخ آئینوں کی جانب کیتھرین والے انداز میں موڑا :
اور تبھی بلکہ تبھی ان میں سے آواز آئی:
“You our queen are fair; it is true……..But this girl is even fairer than you!”
جہاں کیتھرین کہ تیز تیز رقص کرتے قدموں کو بریک لگی تھی وہیں امراؤ نے گردن تان کر کیتھرین سے کہا تھا:
“آئینے واقعی جھوٹ نہیں بولتے۔۔۔!!!!!”
امراؤ کا زہر میں ڈوبہ نشتر بھلا کیتھرین سے کیسے برداشت ہوتا۔ جوں ہی امراؤ نے جملہ مکمل کیا آئینے بھی جیسے اس کہ ساتھ کھلکھلا کہ ہنس دیے۔ کیتھرین کا غصہ ساتویں آسماں کو چھو رھا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے لباس سمیٹتی اپنی جگہ سے ہٹی اور بگھولے کی طرح چیس فلور کہ عین وسط میں آکر کھڑی ہو گئی۔ اس کا انداز اشتعال دلانے والا اور چیلنجنگ تھا۔ امراؤ کو سفیان کی کہی بات یاد آئی تھی:
“امراؤ یاد رکھنا ، کسی بھی مقابلے کا فاتح وہی ہوتا ہے جو اپنے حواس اور اعصاب پہ قابو رکھتا ہے۔ “
امراؤ کو ہر حال میں اپنے حواس اور اعصاب قابو میں رکھنے تھے۔ بھلے کیتھرین اسے کتنا ہی اشتعال دلائے اس نے ہر حال میں خود کو ٹھنڈا رکھ کہ حکمتِ عملی وضح کرنا تھی۔ کیتھرین اب امراؤ کو بھی کسی مقناطیس کہ طرح اپنے برابر کھینچ لائی تھی۔ جیسے کھیل شروع ہونے سے پہلے دو کھلاڑی آمنے سامنے کھڑے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی قوت و طاقت کی جانچ کر رھے تھے۔ امراؤ اپنا ہدف و مقصد پھر سے ذہن میں دہرا رھی تھی۔ وہ ہرگز کیتھرین کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن اسے کیتھرین کی کمزوری ڈھونڈ کر اس پہ وار کرنا تھا۔ یہ اس کا ہدف تھا۔
اسے جادوئی گلوب کیتھرین کہ چُنگل سے نکالنا تھا۔ یہ اس کا مقصد تھا۔ کیونکہ ساری کہانی اسی گلوب سے شروع ہوئی تھی۔ وہ ایسے لوگوں کہ ہاتھ لگنا چاھیے جو ینگ یانگ کہ طرح اس کا صحیح استعمال کر کہ عوام الناس کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اسے پہلے اپنا ہدف پورا کرنا تھا پھر مقصد حاصل کرنا تھا۔ اس کہ لیے اس نے کیتھرین کا سر تا پا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس میں کچھ بھی ایسا غیر معمولی نہیں تھا۔ وہ بلکل عام انسانوں جیسی دکھتی تھی۔ بظاہر!
کیتھرین کی آنکھوں پہ لگی جھلی امراؤ کو نظر آچکی تھی۔ تبھی کیتھرین کو اپنا آپ جوان نظر آتا تھا۔ آئینے واقعی جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن کیتھرین کی آنکھوں پہ چڑھا پردہ ضرور اسے گمراہ کرتا ہے۔
خیر دونوں کھلاڑی اب ہاتھ ملا کر واپس اپنی اپنی جگہ جا چکے تھے۔ کھیل شروع ہوا چاھتا تھا۔ وہ دونوں اب ایک دوسرے سے دور کھڑی تھیں۔ درمیان میں چیس بورڈ کی شکل کا شیشے کا فرش تھا۔ کیتھرین نے نہ جانے کیا پڑھکر پھونکا کہ عین فرش کہ درمیان والا کالے رنگ کا خانہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ایک لمبا سا اسٹینڈ بر آمد ہوا۔ اس اسٹینڈ پہ ایک چوکور شیشے کا بکس دھرا تھا۔ جس کہ اندر ایک بڑا سا گلوب تھا۔ یقیناً یہ جادوئی گلوب ہوگا۔ امراؤ نے دل میں سوچا تھا۔
“اسے جیت سکتی ہو تو جیت لو!”
کیتھرین نے گلوب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے چیلنج کیا تھا۔ امراؤ کو ایک ایک خانے پہ پاؤں رکھ کر آگے بڑھنا تھا۔ کوئی خانہ اسے ایک قدم اندر دھنسا دیتا اور کوئی ایک قدم آگے دھکیل دیتا۔ یوں وہ دھنستے ہوئے یا تو اس فرش کی اندر چلی جاتی یا پھر قدم قدم بڑھتے اس گلوب تک پہنچ جاتی۔ کیتھرین اب زمین پہ بیٹھ چکی تھی۔ وہ مزے سے امراؤ کا نظارہ کر رھی تھی۔ امراؤ کا مقصد اس کہ قریب ہی تھا۔ لیکن تب وہ وہ نہیں جانتی تھی کہ بظاہر قریب نظر آنے والا مقصد در حقیقت کتنا دور ہے!
اس نے غور سے نیچے موجود شیشے کہ فرش کو ایک بار پھر دیکھا۔ اس میں کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا۔ سفید اور سیاہ چوکور خانے ساتھ ساتھ جڑے تھے۔ وہ اب کس خانے پہ قدم رکھے؟ اس نے آنکھیں بند کی اور قدم اٹھا دیا۔ پہلا قدم سفید خانے کی جانب اٹھا تھا۔ اس کہ قدم اٹھانے سے شیشے کہ فرش پہ ہلکی سی جنبش ہوئی تھی اور بس۔ باقی سب ویسا ہی تھا۔ “یہ تو بہت آسان ہے۔ میں یونہی قدم قدم بڑھتی اس گلوب کو حاصل کر لوں گی۔”
امراؤ نے من ہی من میں خوشی سے کودتے ہوئے سوچا تھا۔
اب اس نے اگلا قدم بنا سوچے سمجھے اٹھایا تھا۔ وہ کالے رنگ کا چوکور خانہ تھا۔ جس پہ اس کا بایاں پاؤں پڑا تھا۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔!!!!!! جوں ہی اس نے پاؤں رکھا تھا ایک ہلکا سا دھماکا ہوا اور وہ خانہ ایک لیول نیچے گر گیا ۔ امراؤ اب شیشے کہ فرش سے ایک لیول نیچے پہنچ چکی تھی۔ اس ایک زوردار جھٹکا لگا تھا۔ وہ بمشکل لڑکھڑاتے ہوئے سنبھلی تھی۔ مطلب سب اتنا آسان نہیں تھا جتنا دکھائی دیتا تھا۔ کوئی نہ کوئی چکر ضرور تھا۔ امراؤ اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔ اسے ایک لیول گرتا دیکھکر کیتھرین قہقہے لگا کر ہنستی چلی گئی تھی۔ ہاں آئینے ضرور اس خوبصورت شہزادی کو ہارتا دیکھکر اداس ہوئے تھے۔
امراؤ اب قدرے سنبھل چکی تھی۔ اس نے لمبی سانس خارج کی اور اگلا قدم اب کی بار سفید خانے پہ رکھا ۔ اب کی بار پہلے سے بھی زیادہ زوردار دھماکا ہوا۔ وہ دو لیول نیچے دھنستی چلی گئی۔ وہ بری طرح لڑکھڑائی تھی۔ اس کا بھاری دور تک پھیلا لباس اب اسے تنگ کر رھا تھا۔ وہ اب وہ بری طرح بوکھلائٹ کا شکار ہوئی تھی۔ کیا معلوم یہ کیتھرین کی چال ہو؟ اور سارے خانے ہی اندر چلے جاتے ہوں؟ اگر میں ایسے ہی اندر دھنستی چلی گئی تو میں تو بلکل غائب ہو جاؤں گی۔ پھر میں اپنی دنیا میں جیسے واپس جاؤں گی۔ وہ سچ میں روہانسی ہو چکی تھی۔ کیتھرین کی ہنسی اس بار مزید جی دار تھی۔
امراؤ نے اپنے رہے سہے اوسان مجتمع کیے اور اگلا قدم سیاہ خانے پہ رکھا۔ اب کی بار بھی وہی ہوا۔ وہ مزید نیچے گری۔ اس کی ٹانگیں اب تقریباً فرش کہ اندر دھنس چکی تھیں۔ کیتھرین کہ قہقہے اسے زہر لگ رھے تھے۔ اس کہ آنسو اس کہ گالوں کو بگھونے لگے تھے۔ اس نے آنسوؤں سے لبریز ہلکی نیلی آنکھوں سے نیچے دیکھنا چاھا تو اسے سب دھندلا دکھائی دیا۔ وہ اب کالے خانے پہ بمشکل کھڑی تھی۔ باقی فرش سے وہ تین درجے نیچے تھی۔ اس کی ایک اور غلطی اسے مزید نیچے پہنچا دیتی۔ اور ایک ٹھیک قدم ایک لیول اوپر لے آتا۔ اب جو بھی کرنا تھا نہایت سوچ سمجھ کہ کرنا تھا۔ اس نے ایک بار فرش کو غور سے دیکھا۔ کچھ تو تھا فرش میں جو اس کی نگاہوں سے اب تک اوجھل تھا۔ تبھی اسے اپنے بازو پہ بندھے پرس کا خیال آیا۔ کیتھرین جب اپنے آئینوں کی جانب متوجہ تھی۔ ان سے سوال و جواب کر رھی تھی۔ انھیں یہ احساس دلانے میں مشغول تھی کہ ان کی پسندیدہ شہزادی کیسے خود کو موت کہ منہ میں دھیکیل رھی ہے۔ امراؤ کہ لیے موقعہ اچھا تھا۔ اس نے بیگ دھیرے سے کھولا اور بیچ میں سے سفیان کا دیا چھوٹا سا شیشہ نکالا۔ اس کی دوسری جانب چھوٹی ٹارچ تھی۔ امراؤ نے ٹارچ کی روشنی شیشے کہ فرش پہ لگائی۔ تو چند خانے تو چمک اٹھے جبکہ باقی مزید بجھ گئے۔ یہ دیھککر امراؤ کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔ مطلب وہ ٹھیک سوچ رھی تھی۔ سارے خانے ایک سے نہیں تھے۔ ان خانوں میں کوئی نہ کوئی بھید ضرور پوشیدہ تھا۔ لیکن اب اسے چمکتے خانے پہ اگلا قدم رکھنا تھا یا بجھے خانوں پہ۔ یہ سوال ابھی بھی اس کا منہ چڑا رھا تھا۔ کیونکہ اسے فی الوقت “کرو یا مرو” والی صورتحال کا سامنا تھا۔ ایک بھی غلط قدم اسے ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے ان بھول بھلیوں میں دفن کر سکتا تھا۔ اس نے پھر غور سے دیکھا گلوب والے اسٹینڈ کہ پاس بنے خانوں پہ روشنی مرکوز کی تو وہاں نزدیک موجود ایک کالا اور ایک سیاہ خانہ بھی وہی راگ الاپ رھے تھے۔ ایک شدید چمک رھا تھا ایک بلکل بجھ گیا تھا۔ اب اسے کیا کرنا چاھیے؟ اس نے چمکتے خانے اچھے سے دماغ میں بٹھا لیے تھے۔ اس نے فیصلہ لے لیا تھا۔ اسے چمکتے خانوں پہ پاؤں رکھ کر آگے بڑھنا تھا۔ پھر جو ہوتا دیکھا جائے گا۔ وہ اپنا لباس اب دونوں ہاتھوں سے تھامے اپنا پاؤں اس دلدل سے نکال کر آگے بڑھانے کی تگ و دو میں جُت گئی تھی۔ تبھی بلکل تبھی اس اپنے بائیں جانب کوئی کھٹکا محسوس ہوا۔ اور فرش میں موجود سفید خانوں میں کسی کی شبیہ دکھائی دی۔ وہ کوئی جانی پہچانی شکل تھی۔ لیکن کون تھی یہ خاتون؟ یہاں کچھ وقت پہلے تو اس کہ اور کیتھرین کہ علاوہ کوئی نہیں تھا؟ پھر یہ کہاں سے آگئی تھی۔ اس نے بڑھتا ہوا قدم وہیں منجمد کیا اور بائیں جانب دیکھا۔ کیتھرین اپنے دائیں جانب لگے آئینوں کی جانب متوجہ تھی۔ امراؤ کو وہاں اس کہ ہاسٹل کی وارڈن جمیکا ہاتھ میں سفید ٹیڈی بئیر اٹھائے کھڑی دکھائی دی۔ جمیکا نے سر پہ ہوڈ گرا رکھا تھا۔ اس کا سیاہ رنگ کا لباس پاؤں کو چھو رھا تھا۔ لباس کہ ساتھ منسلک بڑی سی ٹوپی سے اس نے سر اور آدھا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ وہ قصداً ایسے مقام پہ کھڑی تھی کہ سامنے والے آئینے میں اس کی شبیہ نہ دکھائی دے۔ امراؤ نے اس کی جانب دیکھتے ہی منہ کھول لیا۔ لیکن اس نے امراؤ کو سامنے موجود اس ریت گراتے شیشے کہ برتن کی جانب متوجہ کیا۔ جس سے ریت تیزی سے گر رھی تھی جو اس بات کا عندیہ تھا کہ اس کہ پاس ہر لحظہ وقت کم ہو رھا ہے۔ اس کی موت زندگی کو جیسے کھینچ رھی ہے۔ امراؤ نے تو اس جانب دیکھا ہی نہیں تھا نہ ہی کیتھرین نے اسے وقت کی کمی کی بابت بیشتر آگاہ کیا تھا۔ امراؤ کو کیتھرین پہ بے تحاشہ غصہ آیا تھا۔ ابھی بھی آدھا وقت گزرا تھا آدھا ابھی بھی باقی تھا۔
جمیکا نے دوسرا اشارہ اس دیوار پہ لکھی ایک عبارت پہ کیا۔ جہاں جمیکا کھڑی تھی:
“She is blessed with beauty and voice; Lost and found makes the kingdom rejoice.”
اور تبھی جمیکا تو نجانے کہاں غائب ہو گئی۔ امراؤ اسے ڈھونڈتی ہی رھی۔ لیکن اسے نجانے زمیں کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ امراؤ نے سر جھٹک کہ اب سامنے موجود تیزی سے گرتی ریت کی جانب اپنی توجہ مبذول کی۔ وہ بار بار اس لائن کو دماغ میں دہرا رھی تھی۔
She is blessed with beauty and voice.
بیوٹی کا مقابلہ تو اس نے بیوٹی سے کر ہی لیا تھا۔ مسئلہ وؤائس کا تھا۔ تبھی امراؤ کہ دماغ میں ایک خیال آکہ گزر گیا۔ ان خانوں کی حقیقت اسے جو ذات بتا سکتی تھی وہ کیتھرین تھی۔ کیتھرین قصداً دور بیٹھی تھی کیونکہ وہ بھی ان خانوں پہ ہوئے جادو کا شکار ہو کر اندر جا سکتی تھی ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے۔ امراؤ کو کرنا فقط یہ تھا کہ کسی بھی طرح کیتھرین کو اسکی جگہ سے اٹھا کر اپنے پاس فرش پہ بلانا تھا۔ اب ظاہر ہے کیتھرین وہاں قدم ہرگز نہیں رکھے گی جو جگہ اسے اندر لے جائے۔ لیکن کیتھرین اٹھے گی کیسے؟ کیا ہے کیتھرین کی کمزوری؟ کیا کھینچ کہ لائے گا اسے ؟ اور وہ وجہ یقیناً وؤائس تھی۔ کیتھرین کی کمزوری خوبصورت آواز میں گایا گیت تھا یا پرسوز دھن۔ اسے تبھی یاد آیا جوزف نے بھی اس کہ بیگ میں کچھ ڈالا تھا۔ اس نے اللہ کا پاک نام لیکر بیگ میں ہاتھ ڈالا تو اس کا ہاتھ لکڑی کہ ایک بالشت سے کچھ زیادہ ڈنڈی پہ پڑا ۔ یہ کیا تھا؟ اس نے جب اسے اپنی آنکھوں کہ سامنے کیا تو وہ بانسری تھی۔ جوزف کی بانسری۔ جسے وہ نگینہ کہ لیے بجاتا تھا اور کیتھرین اس کی آواز پہ مدہوش جاتی تھی۔ اسی بانسری کہ پیچھے ہی تو وہ جوزف پہ مر مٹی تھی۔ اور یہی سننے کہ لیے وہ بے تابی سے جھرنے کہ پاس بیٹھا کرتی تھی۔ اور وہ خود بھی تو اکثر دھن بجاتی تھی۔ اب ساری کہانی اسے سمجھ آگئی تھی۔ وہ اگر جوزف کی بانسری بجائے گی تو کیتھرین آپے سے باہر ضرور ہو گی۔ اور امراؤ کو فقط کیتھرین کی جانب سے مدھوشی میں کی گئی ایک غلطی کا انتظار تھا۔ اس نے فوراً بانسری لبوں سے لگائی اور بجانا شروع کی۔ گو کہ وہ کوئی ماہر تو تھی نہیں۔ پھر بھی جوزف کی بانسری میں نجانے ایسا کیا جادو تھا کہ وہ خود اچھی دھن بجا رھی تھی۔ امراؤ کو ہمت ملی۔ اس نے آنکھیں موند کر بانسری بجانا شروع کی۔ اسے اپنے بقا کی جنگ خود لڑنا تھی۔ اور وہ اسکا آغاز کر چکی تھی۔ کیتھرین نے دھن سنتے ہی آئینوں کو چھوڑ کر بے اختیار امراؤ کی جانب دیکھا۔ امراؤ ایک آنکھ کھول کہ کیتھرین کہ متوقعہ ردِ عمل کا جائزہ لے رھی تھی۔ کیتھرین کی ایک نگاہ امراؤ پہ تھی اور دوسری مسلسل گرتی ریت پہ۔ نجانے اسے کیا ہوا کہ اس نے ریت والے شیشے کہ بنے آلے کو الٹا کر دیا۔ یعنی وقت کی گنتی پھر سے شروع کر دی گئی تھی۔ امراؤ نے سکون کی سانس خارج کی۔ اب وہ ہمت مجتمع کرتی نئے سرے سے بانسری کی دھن بجا رھی تھی۔ کیتھرین کہ قدموں میں اچانک ہی حرکت ہوئی، وہ اپنے دور تک پھیلے لباس کو سنبھالتی سہج سہج کہ قدم اٹھاتی آگے آئی اور چیس فلور کو ڈانس فلور سمجھ کہ محوِ رقص ہو گئی، کسی مجذوب کی مانند۔ کسی ناکام عاشق کی مانند۔ وہ گول گول چکر لگا رھی تھی۔ اسکا لباس بھی اس کہ ساتھ گول گول گھوم رھا تھا۔ اس نے دونوں بازو فضا میں بلند کر رکھے تھے۔ وہ اب والہانہ انداز میں چکر لگا رھی تھی۔ امراؤ نے اب اپنے پھنسے پاؤں کی جانب دیکھا۔ وہ آگے تو نہیں بڑھ سکتی تھی لیکن اپنے قدموں کہ نشانات پہ پیچھے تو جاسکتی تھی نا۔ وہ اب پیچھے جانا شروع ہوئی۔ کیونکہ کیتھرین کہ تھرکتے قدم اب آگے بڑھ رھے تھے۔ وہ گلوب تک پہنچ چکی تھی۔ گلوب کی دوسری جان امراؤ کا ایریا شروع ہوتا تھا۔ امراؤ کی نظر مسلسل اس کہ بڑھتے قدموں پہ ٹکی تھی۔ ایک نگاہ اس نے گرتی ریت پہ بھی رکھی ہوئی تھی۔ اسے فی الوقت تسلی تھی کہ وقت چاھے اپنی رفتار سے چل رھا ہے لیکن ابھی وقت اس کہ ہاتھ میں ہے۔ یا یوں کہہ لیا جائے کہ ابھی اس کا وقت چل رھا ہے۔ اس کی سانس اب گو کہ پھولنے لگی تھی۔ وہ تھک رھی تھی لیکن اس کا عزم جوان تھا اور ارادہ چٹان۔ کیتھرین اب مکمل طور پر اس دنیا سے بیگانہ ہو چکی تھی۔ اس کہ قدم اب امراؤ کہ حصے پہ پہنچ چکے تھے۔ وہ ہنوز گول گول گھوم رھی تھی۔ امراؤ کو اچھے سے وہ روشن حصے یاد تھے۔ اب دیکھنا فقط یہ تھا کہ کیتھرین کن حصوں پہ پاؤں جماتی ہے۔ امراؤ یہ دیکھکر حیران رہ گئی کہ کیتھرین وہاں بھی ایسے ہی رقص کر رھی تھی جیسے اپنی طرف والے حصے میں بے فکری سے گھوم رھی تھی۔ ہو سکتا ہے کیتھرین پہ جادو اثر نہ کر رھا ہو؟ ظاہر ہے اس کہ اپنے ہاتھوں سے کیا جادو اس پر کیسے اثر کر سکتا تھا؟ امراؤ بھی کتنی بے وقوف ثابت ہوئی تھی۔ اتنی سی بات وہ سمجھ نہیں پائی۔ اسے جمیکا پہ رہ رہ کر غصہ آیا تھا۔ اس نے ہی اس کی توجہ اس جملے کی جانب مبذول کروائی تھی۔ لیکن ایک منٹ کیا تھا اس جملے کا دوسرا حصہ؟
“Lost and found makes the kingdom rejoice.”
“گمشدہ اور ملنے سے بادشاھی خوش ہوتی ہے۔”
لاسٹ اینڈ فاؤنڈ۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
دھن ہنوز امراؤ کہ لبوں سے ادا ہو رھی تھی۔ کیا کھو گیا تھا کیتھرین سے؟ جوزف؟ اس کی دھن؟ اس کا پیار؟ اس کی بیٹی؟ دھن تو اسے واپس مل گئی۔ اور بیٹی بھی۔ پھر اسے کیا نہیں ملا؟ جوزف؟
جوزف کہ ملتے ہی کیتھرین کیا بدل جائے گی؟ میں اب جوزف کو کہاں سے لاؤں؟
کیتھرین کہ رقص کرتے قدموں میں مزید تیزی آچکی تھی۔ امراؤ کی دھن اب ہلکی ہو رھی تھی۔ اس کی سانسیں جیسے اٹک رھی تھی۔ اور تیزی سے گرتی ریت۔ اسے خوف کا احساس دلا رھی تھی۔ امراؤ اب دھن بجاتی آگے بڑھ رھی تھی۔ پہلے اپنے قدموں پہ واپس آئی اور پھر آنکھیں موند کہ روشن حصوں پہ پاؤں رکھنا چاھا۔ تبھی اس نے آئینے میں دیکھا۔ وہ روشن حصے آئینے میں بجھے ہوئے تھی۔ جبکہ ٹارچ کی وجہ سے نظر آنے والے بجھے حصے روشن تھے۔ تو یہ تھا لاسٹ ایڈ فاؤنڈ۔۔۔۔!!!!!!!
کھو کہ پا لینا۔۔۔۔۔۔!!!!!! یا بھول کہ یاد کر لینا۔
امراؤ نے دھن جاری رکھی اور آئینے میں دیکھتے ہوئے وہاں روشن نظر آنے والے خانوں پہ قدم قدم بڑھتی رھی۔ کیتھرین ابھی بھی شاھانہ ناچ پیش کر رھی تھی۔ امراؤ اب کامیابی سے آگے بڑھ رھی تھی۔ جلد ہی وہ گلوب والے اسٹینڈ تک پہنچ گئی۔ ریت اپنی رفتار سے گر رھی تھی۔ امراؤ نے ایک نگاہ پیچھے گول گول گھومتی کیتھرین پہ ڈالی۔ اور دوسری سامنے اسٹینڈ پہ شیشے کہ چوکور سے بکس میں پڑے بڑے سے گلوب پہ۔ اب یہ شیشے کا بکس کیسے کھلے گا؟ وہ گلوب پہ کیسے ہاتھ ڈالی گی؟ کیتھرین نے اسے یہاں تک پہنچا دیکھ لیا تو وہ تو اسے لمحوں میں جلا کر راکھ کر دے گی۔ اسے جوبھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا۔ اس نے چاروں طرف گھوم کہ اسے چوکور ڈبے کو دیکھا، وہ بلکل بند تھا۔ کیسے کھلے گا یہ اب؟
تبھی اس کی نگاہ شیشے کہ اسٹیند پہ کندھی عبارت پہ پڑھی:
“She is the princess stand for their own; Speak the secret through a piece of stone.”
“وہ ان کی اپنی شہزادی ہے۔ پتھر کہ ٹکڑے کہ ذریعے راز بولیں۔”
“پتھر کا ٹکڑہ”؟ کہاں ہے پتھر کا ٹکڑہ؟
اس نے مڑ کر کیتھرین کی جانب بغور دیکھا۔ سر تا پا بغور اس کا جائزہ لیا۔ بانسری ہنوز اس کہ لبوں سے چپکی ہوئی تھی۔ اس نے کیتھرین کہ خلا میں بلند ہاتھوں کو دیکھا۔ اس کی انگلیوں میں مقید بڑے نگینے والی انگوٹھیاں جاذبِ نظر تھیں۔
“اوہ” امراؤ کہ لبوں یکدم پھسلا۔ فرطِ جذبات میں اس نے بلآخر بانسری لبوں سے ہٹائی۔ تبھی جہاں کیتھرین کہ تیز تیز رقص کرتے قدموں کو بریک لگی وہیں امراؤ کہ ہاتھ بھی سُن ہوئے۔ ریت اب تقریباً ختم ہو رھی تھی۔ کیتھرین ایک جھٹکے سے امراؤ کہ سر تک پہنچ چکی تھی۔ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رھی تھی۔ تبھی اسے کیتھرین کہ عقب میں وہ دکھائی دی۔ ہُڈ میں چہرہ چھپائے کھڑی جمیکا!
وہ امراؤ کی جانب دیکھکر والہانہ انداز سے مسکرا رھی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں امراؤ کہ لیے داد پوشیدہ تھی۔ امراؤ نے کیتھرین کہ حملے سے قبل ہی اس کا انگوٹھی والا ہاتھ زوردار جھٹکے میں شیشےپہ دے مارا۔ نگینہ جوں ہی شیشے کہ چوکور ڈبے کو لگا ایک دھماکا سا ہوا۔ شیشے کی کرچیاں دور تک اڑتی ہوئی گئیں۔ گلوب اب بلکل واضح تھا۔ امراؤ کی پہنچ سے ایک بالشت دور۔ گلوب کہ نظر آتے ہی کیتھرین نے بے اختیار اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔ وہ چیختے ہو دور بھاگ رھی تھی۔ لیکن یہ کیا جوں ہی وہ چیس فلور پہ پہنچی اس کہ پاؤں اندر دھنستے چلے گئے۔ امراؤ جو کچھ لمحے پہلے بے یقین سے کھڑی تھی، یکدم جیسے سارا قصہ سمجھ گئی۔ شیشے کی دیوار ٹوٹنے سے جادو ٹوٹ چکا تھا۔ گلوب اب آزاد تھا۔ تو یہ جگہ بھی ہر طرح کہ جادو سے آزاد ہو چکی تھی۔ کیتھرین نے چہرہ اس لیے چھپایا تھا تاکہ وہاں ہر طرف لگے آئینوں میں وہ اپنا چہرہ نہ دیکھ پائے۔ وہ جتنے قدم پیچھے اٹھاتی اتنا ہی اندر دھنستی چلی جاتی۔ امراؤ اسے دیکھ رھی تھی تاسف سے۔ پشیمانی سے۔ امراؤ اب خود کو قدرے محفوظ جگہ پہ کھڑا کرچکی تھی۔ کیتھرین اس کہ سامنے گہرائی میں ڈوب رھی تھی۔ وہ جتنا نکلنے کی کوشش کرتی، جہاں جہاں پاؤں رکھتی وہ اندر ہی اندر گھسی چلی جا رھی تھی۔ اس کی چیخوں سے در و دیوار لرز رھےتھے۔ امراؤ نے اب اپنے بیگ میں سے پانی کی بوتل نکالی۔ وہ پانی دور سے کیتھرین کہ ہاتھوں پہ پھینکا۔ وہ فقط یہ چاھتی تھی کہ کیتھرین اپنا چہرہ ایک بار ہی سہی آئینے میں ضرور دیکھ لے۔ اور وہی ہوا۔ پانی ہاتھوں پہ پڑتے ہی اس نے ہاتھ اپنےچہرے سے دور کیے۔ اور سامنے لگے آئینے جیسے اسے دیکھتے ہوئے قہقہے لگانے لگے تھے۔ امراؤ کو بھی اس کی حقیقی شکل آئینے میں نظر آرھی تھی۔ جو اتنی خوفناک و کربناک تھی کہ اسے بھی ابکائی آگئی۔ اس نے ایک نگاہ اپنے جھریوں زدہ چہرے پہ ڈالی۔ اور دوسری نگاہ آئینے میں نظر آتے اس جوان حسین و جمیل اپسرا کہ عکس پہ۔ اور اسی لمحے اس نے آخری زوردار چیخ بلند کی۔ تمام آئینے تڑاخ تڑاخ کی آواز سے ایک ایک کر کہ ٹوٹنے لگے۔ امراؤ نے بے اختیار اپنے ہاتھوں سے چہرہ ڈھک لیا۔ کیتھرین کی دلسوز چیخیں اب آسمان کو چھو رھی تھیں۔ امراؤ نے چہرے سے نگاہ ہٹا کہ اس کی جانب دیکھا تو اسے دیکھکر زبردست جھٹکا لگا۔ کیتھرین جل رھی تھی۔ اسے آگ لگی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ جھلسا ہوا تھا۔ سامنے موجود آئینے کی کرچیوں میں اس کا عکس ابھی بھی واضح تھا۔ امراؤ نے بھاگ کر ایک بڑی کرچی اٹھائی اور اسکا رخ جلتے ہوئے چہرے والی کیتھرین کی جانب موڑ دیا۔ رہی سہی کسر اس عمل نے پوری کر دی۔ اس کہ حلق سے آخری دلخراش چیخ بلند ہوئی اور اسکا جلتا ہوا وجود زمین میں دھنستا چلا گیا۔ تبھی وہاں موجود در و دیوار ایک ایک کر کہ گرنے لگے۔ جیسے زوردار طوفان آگیا ہو یا زلزلے کہ اثرات ہوں۔ امراؤ نے یکدم گلوب کو اٹھانا چاھا لیکن وہ یہ دیکھکر ششدر رہ گئی کہ وہاں گلوب کا نام و نشاں تک نہیں تھا۔ کہاں گیا گلوب؟ امراؤ مارے حیرت کہ فوت ہو جانا چاھتی تھی۔ وہاں گلوب تو موجود نہیں تھا مگر سفید رنگ کا ٹیڈی بئیر ضرور پڑا تھا۔ جو یقیناً گل رخ کا تھا۔ امراؤ نے فوراً اسے اٹھا کر سینے سے لگایا۔ در و دیوار اب اس قدر تیزی سے لرز رھے تھے کہ امراؤ کا وہاں کھڑا ہونا دوبھر ہو چکا تھا۔ وہ اب اپنی زندگی کہ لیے اسی سمت بھاگی جس سمت وہ کیتھرین کہ ہمراہ چل کر آئی تھی۔ وہاں پہنچی ہی تھی کہ ساری جادوئی عمارت زمین بوس ہو گئی۔ امراؤ تب تک واک تھرو گیٹ عبور کر چکی تھی۔ اسے عبور کرتے ہی اس زوردار چکر آیا اور وہ زمین پہ گرتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن بعد!
امراؤ ہشاش بشاش سی ہسپتال کہ بستر پہ بیٹھی ہوئی ناشتہ کر رھی تھی۔ اس کہ اطراف میں باقیوں کہ علاوہ دل آویز فاطمہ سفیان بھی موجود تھی۔ اور اسکا بیٹا شاہزین تو پیاری سی امراؤ کی گود سے ہلنے کا نام ہی نہیں لے رھا تھا۔ امراؤ انھیں آپ بیتی سنا چکی تھی۔ سب اس کی بہادری و دیدہ دلیری کہ دل سے معترف نظر آتے تھے۔ وہ ان سب میں کسی ملکہ عالیہ کی مانند بیٹھی ہوئی تھی۔
“میں نے ناکہ بندی تو کروا دی تھی لیکن جمیکا پھر بھی چکمہ دیکر نکل گئی۔”
سفیان نے جو ابھی وہاں پہنچا تھا، اور ابھی تک ہولیس یونیفارم میں تھا، آتے ہی اطلاع دی تھی۔
“مطلب گلوب جمیکا لیکر بھاگی تھی؟”
امراؤ نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔
“بلکل۔”
جوزف نے جواب دیا تھا۔
“لیکن اسے اتنے تردد کی ضرورت کیونکر پیش آئی، وہ اپنی ماں سے خود بھی تو لے سکتی تھی نا؟”
امراؤ روہانسی ہو چکی تھی۔
“جادوگرنی کسی کی بھی سگی نہیں ہوتی امراؤ۔ اپنی بیٹی کی بھی نہیں۔ اور جمیکا کبھی بھی خود سے کیتھرین کہ ذریعے گلوب حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ اسی لیے جب تم وہاں گئی تو اسے بھی موقع مل گیا۔ اور یوں اس نے دور رہ کر تمھاری مدد کی اور تمھارا کام آسان کیا۔”
جوزف نے وضاحت دی تھی۔
“اور اپنا کام بھی!”
سفیان نے لقمہ دینا ضروری سمجھا تھا۔
“لیکن کوئی بات نہیں۔ ہماری امراؤ نے بہت بہادری دکھائی۔ بھئی اسکو انعام تو ملنا چاھیے۔”
خضر نے آگے بڑھتے ہوئے امراؤ کا دفاع کیا تھا۔
“ہاں ہاں بھئی!”
سفیان نے بھی خضر کا مذاق اڑانا جیسا اپنے لیے فرض قرار دیا تھا۔
“ہماری نہیں آپکی امراؤ!”
جوزف نے خضر کہ کان میں ہنسی دباتے کہا تھا۔
جس پہ وہ کھسیانہ سا مسکرا دیا تھا۔ تبھی مائیکل کلارک دروازہ ناک کر کہ اندر داخل ہوئے۔ وہ سارے وہاں سے تتر بتر ہوگئے۔ اب دونوں باپ بیٹی تنہا تھے۔
مائیکل نے آگے بڑھکر امراؤ کو گلے سے لگایا تھا کافی دیر تک دونوں بے آواز روتے رھے تھے۔ کافی دل کی باتیں تھیں جو انھیں کرنا تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرِ خارجہ بھوربھن کا دورۂ کر کہ مطمئن واپس گئے تھے۔ کیتھرین کی موت کی خبر زبانِ زدِ عام تھی۔ بھوربھن کالج و ہاسٹل کو پھر سے کھول دیا گیا تھا۔ والدین اپنی بیٹیوں کو لیکر جوق در جوق واپس پہنچ رھے تھے۔ سفیان تبریز اور امراؤ کو بہادری کا مظاہرہ کرنے پہ سرکاری طور پر انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس موقعہ پر امراؤ کی ماں بانو کماری کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مائیکل کلارک بھی وہیں تھے۔ اپنی بیٹی کہ کارنامے پہ سینہ پھُلائے کھڑے تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو بھرے مجمعے کہ سامنے اپنایا تھا۔ اپنے ماں باپ کو ایک ساتھ دیکھنے کا امراؤ کا دیرینہ خواب پورا ہو چکا تھا۔ تبھی اسے گل رخ کی جھلک دکھائی دی تھی۔ جو اسے اپنے ماں باپ میں گھرا دیکھکر خوشی سے کھل اٹھی تھی۔ اس نے سفید ٹیڈی بئیر اٹھا رکھا تھا۔ جو امراؤ ہاسٹل کہ کھلتے ہی کمرہ نمبر گیارہ بارہ میں اس کہ بیڈ کہ اوپر رکھ آئی تھی۔ امراؤ مطمئن تھی کہ اب گل رخ اسے پریشان نہیں کرے گی۔ اسے سکون مل گیا تھا۔ اس نے امراؤ کو ہاتھ بھی ہلایا تھا۔ امراؤ نے بھی اسے دیکھکر خلا میں ہاتھ بلند کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ وقت بعد:
خضر نے مائیکل کلارک سے امراؤ کہ لیے بات کر لی تھی۔ گو کہ دونوں کی عمروں میں تھوڑا فرق تھا لیکن مائیکل نے خضر کو زبان دی تھی کہ امرؤ کی میڈیکل کی پڑھائی شروع ہونے سے پہلے دونوں کا نکاح کر دیا جائے گا۔ ابھی چھوٹی سی منگنی کی رسم ادا کی جائے گی۔ بھوربھن میں سیاحت کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ جہاں سیاحت واپس آئی تھی وہیں کاروبار بھی لوٹ آۓ تھے۔ لوگ خوشحال ہو چکے تھے۔ آفیسر سفیان تبریز کا خضر اور امراؤ کی منگنی میں شمولیت کہ بعد تبادلہ دوسرے دور دراز علاقے میں کیا گیا تھا۔ جہاں کسی جادوگرنی کی طرف سے کاروائی کی خبریں ملی تھیں۔ جوزف بھی سفیان کہ ہمراہ گیا تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ جادوگرنی جمیکا کہ علاوہ کوئی نہیں ہو سکتی!
ختم شد !!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے