Subscribe Us

دولت کی ہوس

urdu stories online

نادیہ ایک غریب گھرانے کی معصوم لڑکی تھی، جس کا دل ہمیشہ بڑے خوابوں کی آماجگاہ بنا رہتا۔ اس کا تعلق ایک ایسے گھر سے تھا جہاں غربت ہر گوشے میں چھپی ہوئی تھی۔ اس کے والد ایک فیکٹری میں مزدوری کرتے تھے اور ان کی محدود آمدنی سے گھر کا خرچ چلانا انتہائی مشکل ہوتا۔ چھوٹے سے کمرے میں سجی ٹوٹی پھوٹی چیزیں، کھانے کے لیے ناکافی سامان، اور روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیسوں کی کمی، یہ سب نادیہ کے دل میں ایک چبھتے ہوئے سوال چھوڑ جاتے: "کیا زندگی ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟"

غربت کے ماحول نے نادیہ کے دل میں کڑواہٹ بھر دی تھی۔ اسے اپنی حالت سے نفرت تھی اور وہ کسی بھی قیمت پر اس زندگی سے چھٹکارا چاہتی تھی۔ جب وہ اپنے ہم عمر دوستوں کو خوبصورت لباس پہنے، بڑی گاڑیوں میں گھومتے، اور خوشحال زندگی گزارتے دیکھتی، تو اس کا دل حسرتوں سے بھر جاتا۔ وہ دل ہی دل میں یہ سوچتی کہ کب وہ بھی ایسے لباس پہن سکے گی، کب وہ بھی امیر بنے گی، اور کب لوگ اسے بھی رشک بھری نظروں سے دیکھیں گے۔ یہ خیالات اس کے دل میں دولت کی لالچ اور بڑی زندگی جینے کی تڑپ کو مزید بڑھا دیتے۔ غربت کی تلخیوں کے بیچ نادیہ کی آنکھوں میں دولت اور عزت کی چمک تھی، مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ ان خوابوں کی قیمت کیا ہوسکتی ہے۔

نادیہ ایک جوان اور پرکشش لڑکی تھی، جس کی سانولی رنگت اس کے حسن کو مزید منفرد بناتی تھی۔ غربت کے باوجود، اس کے دل میں اپنے خوابوں کی ایک دنیا آباد تھی۔ اس کے چہرے کی معصومیت اور جسم کے خدوخال اکثر لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے، لیکن نادیہ خود ان باتوں سے بے خبر تھی۔ ایک دن وہ اپنے والد اکرم کے ساتھ بازار گئی، جہاں وہ کچھ ضروری سامان خریدنے آئے تھے۔ اکرم کی پیشانی پر فکرمندی کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ نادیہ کا کالج میں داخلے کا خواب ان کی محدود آمدنی کے باعث پورا ہونا آسان نہیں تھا، مگر وہ اپنی بیٹی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔

بازار میں، اکرم کے فیکٹری مالک ملک شہباز کی نظر ان پر پڑی۔ ملک شہباز ایک امیر، مگر عیار اور جہاں دیدہ شخص تھا۔ اس نے اکرم کو اپنی طرف بلایا اور پوچھا، "یہ لڑکی کون ہے؟" اکرم نے فخریہ جواب دیا، "یہ میری بیٹی نادیہ ہے۔ یہ کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے، لیکن میں ابھی فیس اور اخراجات کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔" نادیہ، جو اپنے والد کے پیچھے کھڑی تھی، نے سلام کیا۔

ملک شہباز نے نادیہ کو ایک نظر دیکھا اور اس کے چہرے پر چھپی غربت کے آثار اور دل میں دبی حسرتوں کو فوراً بھانپ لیا۔ اس نے نادیہ کی آنکھوں میں وہ خواب دیکھ لیے، جو ہر غریب لڑکی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے دیکھتی ہے۔ وہ اس کی جوانی اور معصومیت سے متاثر ہوا، مگر اس کی نیت میں کھوٹ تھا۔ ملک شہباز نے اپنی جیب سے کچھ پیسے نکالے اور نادیہ کی طرف بڑھا کر کہا، "بیٹا، ان سے کچھ خرید لو۔"

نادیہ کے دل میں حسرتوں کے طوفان تھے، اور ان پیسوں کو دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے جھجکی، مگر غربت کی تنگی نے اسے مجبور کر دیا۔ اس نے پیسے لے لیے اور اپنے والد کی طرف دیکھا۔ اکرم شرمندہ تو ہوا، لیکن کچھ کہہ نہ سکا۔ وہ اپنے حالات کی کمزوری کے باعث خاموش رہا۔

یہ لمحہ نادیہ کے لیے اہم تھا۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پائی کہ یہ مدد تھی یا کوئی جال، مگر اس کے دل میں امیر ہونے کی خواہش مزید بڑھ گئی۔ یہ واقعہ اس کے لیے ایک موڑ ثابت ہونے والا تھا، جس نے اسے اپنی حسرتوں کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا، بغیر یہ سوچے کہ یہ راستہ اسے کہاں لے جائے گا۔

ملک شہباز کی پیش کش نے نادیہ اور اس کے والد اکرم کی زندگی میں ایک نئی امید کی کرن جگا دی۔ غربت کی سختیوں اور خوابوں کی تشنگی میں یہ بات کہ ملک شہباز نادیہ کے کالج میں داخلے میں مدد کرے گا، ان کے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ اکرم اور نادیہ دونوں خوشی سے نہال تھے۔ نادیہ نے پہلی بار اپنے خوابوں کو حقیقت کے قریب محسوس کیا۔ وہ رات نادیہ کے لیے خاص تھی۔ وہ دیر تک جاگتی رہی، اپنے خوابوں کی دنیا میں کھوئی رہی، اور ملک شہباز کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی تمام حسرتیں اب پوری ہونے والی ہیں۔

اگلی صبح اکرم کو فیکٹری سے چھٹی ملی۔ نادیہ نے صبح سویرے اٹھ کر اپنی تیاری شروع کر دی۔ اس نے اپنی الماری میں سے سب سے اچھا لباس نکال کر پہنا، جو شاید اس کی زندگی کے چند خوشگوار لمحوں کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس نے سادہ مگر دلکش انداز میں اپنے آپ کو سنوارا، کیونکہ وہ اس دن کو اپنی زندگی کا اہم دن مان رہی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنی جھجھک کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اور اپنے دل میں خوشیوں کی ایک دنیا سجائے بیٹھی تھی۔

اکرم، جو عام طور پر فکر مند اور خاموش رہتا تھا، آج خوش نظر آ رہا تھا۔ اسے لگا جیسے ملک شہباز کی مدد سے اس کی بیٹی کی زندگی بدل سکتی ہے۔ دونوں باپ بیٹی وقت پر تیار ہو کر حویلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ نادیہ کے دل میں جوش اور مسرت تھی، لیکن ساتھ ہی اس کے ذہن کے کسی کونے میں ایک انجان سی بے چینی بھی تھی، جسے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

ملک شہباز، بظاہر ایک مددگار اور سخی انسان، حقیقت میں ایک چالاک اور عیاش شخص تھا۔ اس کا کام دوسروں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی خواہشات پوری کرنا تھا۔ نادیہ اور اکرم کے ساتھ اس کی مہربانی بھی اسی خودغرضی کا حصہ تھی۔ اس نے اپنے منشی کے ساتھ مل کر ایک چالاکی بھرا منصوبہ تیار کیا۔

صبح جب اکرم اور نادیہ حویلی پہنچے تو ملک شہباز نے بہت گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ اس نے نادیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا، "بیٹا، تم بہت خواب دیکھنے والی لڑکی لگتی ہو۔ تمہارے خواب پورے ہوں گے، یہ میرا وعدہ ہے۔" نادیہ، جو پہلے ہی ملک شہباز کی مدد سے متاثر تھی، مزید متاثر ہو گئی۔

ملک شہباز نے منشی کو اشارہ کیا اور اکرم سے کہا، "داخلے کے لیے کچھ رسمی کارروائی باقی ہے، اس کے لیے منشی کے ساتھ کالج جانا ہوگا۔ وہاں فارم بھرنے اور فیس جمع کرانے کا انتظام کیا جائے گا۔" اکرم نے فوراً حامی بھری، کیونکہ وہ اپنی بیٹی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا تھا۔

اکرم نے نادیہ سے کہا، "بیٹی، تم یہاں حویلی میں رک جاؤ، میں جلدی واپس آؤں گا۔ تب تک اپنا خیال رکھنا۔" نادیہ نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔ اس کے دل میں کوئی شک نہیں تھا، کیونکہ وہ اپنے والد کی نیت اور ملک شہباز کی مدد پر بھروسہ کر رہی تھی۔ اکرم نادیہ کو حویلی میں چھوڑ کر منشی کے ساتھ روانہ ہو گیا۔

اکرم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب ایک جال تھا۔ وہ یہ سوچ کر خوش تھا کہ آج اس کی بیٹی کا ایک خواب پورا ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت اس کے تصور سے بالکل مختلف تھی۔

نادیہ حویلی میں اکیلی رہ گئی۔ اس نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حویلی کے آس پاس کا جائزہ لینا شروع کیا۔ حویلی کی شاندار تعمیرات اور عیش و آرام نے اسے حیران کر دیا۔ وہ بڑے بڑے کمرے، خوبصورت فرنیچر، اور قیمتی آرائشی اشیاء دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ غربت میں پلی بڑھی نادیہ کے لیے یہ سب ایک نئی دنیا تھی۔

ملک شہباز دور سے اس کی بیتابی اور حیرت کو دیکھ رہا تھا۔ سترہ سالہ نادیہ، جو آج اپنی زندگی کے سب سے اچھے کپڑوں میں ملبوس اور دلکش انداز میں تیار ہو کر آئی تھی، اس کے دل میں شیطانی خیالات کو جنم دے رہی تھی۔ اس کی نیت خراب ہونے لگی تھی، اور وہ اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے کی تیاری کرنے لگا۔

ملک شہباز نادیہ کے قریب آیا اور نرم لہجے میں کہا، " آؤ، میں تمہیں حویلی کے خاص حصے دکھاتا ہوں، جہاں عام طور پر کوئی نہیں جا سکتا۔ یہ تمہارے لیے خاص موقع ہے۔" نادیہ، جو حویلی کی خوبصورتی سے پہلے ہی متاثر تھی، فوراً راضی ہو گئی۔ وہ ملک شہباز کے ساتھ چل پڑی، اس بات سے بے خبر کہ وہ ایک خطرناک جال میں پھنسنے والی ہے۔

ملک شہباز نادیہ کو حویلی کے ایک الگ اور پرآسائش حصے میں لے گیا، جہاں عام نوکروں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہاں کی خاموشی نادیہ کو کچھ عجیب سی لگ رہی تھی، لیکن وہ اس ماحول میں کھوئی ہوئی تھی۔ اچانک، ملک شہباز نے نادیہ کا ہاتھ تھام لیا۔ نادیہ شرم سے جھجک گئی، لیکن اسے یہ سب اچھا بھی لگ رہا تھا۔ غربت کی زندگی میں کسی کی توجہ اور تعریف نے اس کے دل میں ایک عجیب سا جذبہ پیدا کر دیا تھا۔

ملک شہباز نے نادیہ کی طرف ایک گہری نظر ڈالی۔ نادیہ کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے جذبات واضح تھے۔ وہ، جو ہمیشہ غربت اور محرومی کی دنیا میں جیتی آئی تھی، آج خود کو ایک شاہانہ ماحول میں پا کر کسی خواب جیسی دنیا میں محسوس کر رہی تھی۔

ملک شہباز، جو نادیہ کی معصومیت اور دولت کے لیے بے قراری کو بھانپ چکا تھا، نرمی سے بولا، "نادیہ، تم بہت خوبصورت ہو۔ لیکن تمہاری یہ خوبصورتی غربت میں چھپ کر رہ گئی ہے۔ تمہارے جیسی لڑکی کو ہمیشہ ایک شاندار زندگی گزارنی چاہیے۔"

نادیہ نے جھجکتے ہوئے جواب دیا، "آپ بہت مہربان ہیں، ملک صاحب۔ لیکن ہماری قسمت میں شاید ایسا کچھ نہیں لکھا۔"

ملک شہباز نے مصنوعی ہمدردی کے ساتھ کہا، "قسمت کو ہم بدل سکتے ہیں، نادیہ۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں وہ سب کچھ دے سکتا ہوں جس کی تمہیں تمنا ہے۔ پیسہ، عزت، اور ایک ایسی زندگی جس کا تم نے خواب دیکھا ہے۔"

یہ بات سن کر نادیہ کے دل میں ایک عجیب سی خوشی جاگی۔ وہ سوچنے لگی کہ شاید یہی موقع ہے جس کا وہ برسوں سے انتظار کر رہی تھی۔ لیکن وہ اندر ہی اندر تھوڑی پریشان بھی تھی۔

ملک شہباز نے مزید کہا، "میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، لیکن پہلے یہ وعدہ کرو کہ تم کسی سے ذکر نہیں کرو گی۔" نادیہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا، "جی، آپ جو کہیں گے، وہی ہوگا۔"

ملک شہباز نے نادیہ کے قریب ہو کر اس کے ہاتھ تھام لیے اور بولا، "میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" یہ سن کر نادیہ حیران رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔

"شادی؟" نادیہ نے حیرت سے پوچھا۔

ملک شہباز نے یقین دلانے والے انداز میں کہا، "ہاں، نادیہ۔ میں تمہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن اس کے لیے تمہیں مجھ پر مکمل بھروسہ کرنا ہوگا۔"

نادیہ، جو غربت اور حسرتوں سے تنگ آ چکی تھی، اس پیشکش کو قبول کرنے کے بارے میں سوچنے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ ملک شہباز کی دولت اور رتبہ اسے وہ سب کچھ دے سکتا ہے جس کی وہ ہمیشہ سے خواہش مند تھی۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نادیہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ ملک شہباز نے ایک لمحے کے لیے مسکراتے ہوئے کہا، "یہ تمہاری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ ہوگا۔"

ملک شہباز نے نادیہ کو اپنے قریب کیا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، "تمہیں کسی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج سے تمہاری تمام مشکلات ختم ہو جائیں گی۔"

ملک شہباز نے اپنی شاطر چالاکی سے نادیہ کو اپنے جال میں پھنسایا اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ نادیہ نے خود کو دولت اور عیش و آرام کی لالچ میں اس کے حوالے کر دیا، لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی اور خوف پیدا ہو گیا۔

نادیہ نے ملک شہباز کیساتھ ساری حدیں پار کر لیں تھیں، جب سب کچھ ہو چکا تھا، نادیہ کے دل میں خوف اور شرمندگی کے طوفان نے جنم لیا۔ وہ گھبرا رہی تھی، لیکن اسے اپنا چہرہ بھی اجنبی سا لگ رہا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی دولت کی لالچ میں کچھ ایسا کر بیٹھی ہے جو اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے۔

نادیہ کو ملک شہباز کے الفاظ یاد آ رہے تھے، "یہ ہماری زندگی کا راز رہے گا، کوئی اسے جان نہیں پائے گا۔" لیکن ان الفاظ سے اسے سکون نہیں ملا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر یہ راز کھل گیا تو اس کے والد اور معاشرے کا سامنا کیسے کرے گی؟

نادیہ نے خود سے کہا، "کیا میں نے واقعی اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی؟ کیا دولت اور عیش و آرام کے خواب دیکھنے کی قیمت میری عزت تھی؟"

وہ حویلی کے کمرے میں بےچینی سے ٹہل رہی تھی۔ ملک شہباز اب اپنی کامیابی پر مطمئن تھا اور ایک کونے میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ نادیہ کی حالت دیکھ کر بھی وہ اس کی شرمندگی کو نظرانداز کر رہا تھا۔

نادیہ نے اس سے کہا، "ملک صاحب، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ یہ سب ہماری زندگی کے لیے اچھا ہوگا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی برباد کر دی ہے۔"

ملک شہباز نے ایک گہری سانس لی اور بولا، "نادیہ، زندگی میں کچھ فیصلے مشکل ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو، تم نے جو کیا ہے، وہ صرف اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے تھا۔ اور میں تمہارے خواب پورے کروں گا۔ بس تمہیں مجھ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔"

لیکن نادیہ کے دل میں بھروسہ کم اور خوف زیادہ تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس دلدل میں پھنس چکی ہے، جہاں سے نکلنا ممکن نہیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اپنے والد کا سامنا کر سکے گی؟ کیا وہ اپنی زندگی کو دوبارہ سدھار سکے گی؟

نادیہ نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا، اور شروع کے دنوں میں اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی زندگی کے خواب پورے ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ، ملک شہباز کے وعدے پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ وہ روز کالج جاتی، لیکن اس کے دل میں بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے وہ رات یاد آتی جب اس نے اپنی عزت اور خوابوں کو ملک شہباز کے جھوٹے وعدوں کے حوالے کر دیا تھا۔

ایک دن نادیہ کو اپنی طبیعت میں عجیب سی تبدیلی محسوس ہوئی۔ اس نے کئی دنوں تک نظرانداز کیا، لیکن آخرکار اسے یقین ہو گیا کہ وہ ماں بننے کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ احساس اس کے لیے خوفناک تھا۔ اس نے فوراً ملک شہباز سے ملنے کا فیصلہ کیا۔

نادیہ نے کالج سے چھٹی لی اور سیدھی حویلی پہنچ گئی۔ لیکن وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ ملک شہباز تو اپنی بیوی کے ساتھ دبئی جا چکا ہے، اور واپسی کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ یہ سن کر نادیہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ حیرت اور صدمے کی کیفیت میں حویلی کے دروازے پر کھڑی رہ گئی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ جس پر بھروسہ کر رہی تھی، وہ ایک دھوکہ باز نکلا۔

نادیہ پریشان حال واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔ اس کے دل میں باپ کی عزت اور سماج کی باتیں گونجنے لگیں۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اس کا راز فاش ہو گیا تو اس کے باپ کے لیے یہ کتنی بڑی بدنامی کا باعث بنے گا۔ اس رات وہ سو نہ سکی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کے تمام مناظر گزر رہے تھے۔ وہ اپنی غلطیوں پر پچھتاتی رہی، لیکن اب وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

اگلے دن نادیہ نے کالج جانا چھوڑ دیا۔ اس کی ماں، جو دنوں سے بیٹی کے رویے میں تبدیلی محسوس کر رہی تھی، آخرکار اس سے پوچھ بیٹھی، "نادیہ، کیا بات ہے؟ تم کالج کیوں نہیں جا رہی؟"

نادیہ نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی، لیکن اس کی آنکھوں میں چھپی بےچینی اور شرمندگی ماں سے چھپی نہ رہ سکی۔ ماں نے گہرے دکھ کے ساتھ نادیہ کو دیکھا اور دھیرے سے کہا، "بیٹی، کیا تم نے کسی کے ساتھ... کچھ غلط کر لیا ہے؟"

نادیہ کی آنکھیں جھک گئیں۔ اس کی خاموشی ماں کے لیے سب کچھ واضح کر گئی۔ ماں کو ایک لمحے کے لیے لگا کہ دنیا ختم ہو گئی ہے، لیکن اس نے اپنی بیٹی کے سامنے خاموشی اختیار کر لی۔ وہ جانتی تھی کہ اب نادیہ کو الزام دینے کا وقت نہیں ہے، بلکہ اسے سہارا دینے کی ضرورت ہے۔

نادیہ خود سے نفرت کرنے لگی۔ اسے اپنے خوابوں سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ دولت کے لیے اپنی عزت قربان کرنے کا فیصلہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس نے اپنی غلطیوں کی قیمت چکائی تھی، لیکن اب اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنی زندگی کو کیسے سنوارے۔

نادیہ کی زندگی بکھری ہوئی تھی، لیکن وقت کے ساتھ اسے کسی حد تک سنبھلنے کا موقع ملا۔ ایک دن اس کے رشتے داروں کی شادی کا دعوت نامہ آیا۔ نادیہ نے اس تقریب میں جانے سے گریز کرنا چاہا، لیکن ماں نے اسے سمجھایا کہ زندگی معمول پر لانے کے لیے سماجی تقریبات میں جانا ضروری ہے۔ نادیہ ہچکچاتے ہوئے تیار ہوئی اور شادی میں چلی گئی۔

شادی کی تقریب میں، نادیہ کی خالہ کا بیٹا عمران، جو تعلیم یافتہ اور شریف نوجوان تھا، پہلی بار نادیہ پر دھیان دینے لگا۔ نادیہ کی سادگی اور خاموش طبیعت نے عمران کو اپنی طرف مائل کر دیا۔ وہ تقریب میں کئی بار نادیہ کے قریب آنے کی کوشش کرتا رہا، اور آخرکار اس نے اپنی ماں سے نادیہ کا رشتہ مانگ لیا۔

جب عمران کی ماں نے نادیہ کی ماں سے رشتے کی بات کی، تو نادیہ کی ماں کی آنکھوں میں حیرت اور خوف چھلکنے لگا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر عمران کو نادیہ کے ماضی کا علم ہو گیا تو یہ رشتہ کہیں برباد نہ ہو جائے۔ لیکن بدنامی کے خوف اور بیٹی کی زندگی سنوارنے کی امید میں، اس نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔

نادیہ نے عمران کے رشتے کے بارے میں سنا، تو وہ اور زیادہ پریشان ہو گئی۔ اس کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ اسے لگتا تھا کہ عمران اس کے ماضی کو کبھی قبول نہیں کرے گا، اور اگر اس نے کچھ کہا تو اس کی بدنامی کا طوفان اٹھ جائے گا۔

شادی سادگی سے انجام پائی، اور نادیہ دلہن بن کر عمران کے گھر آ گئی۔ لیکن سہاگ رات کے کمرے میں نادیہ کا دل دھڑک رہا تھا جیسے کوئی بڑی آزمائش سامنے کھڑی ہو۔ عمران، جو اس سے محبت کرتا تھا، نے نرمی سے نادیہ سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن نادیہ کے آنسو نکل پڑے۔

نادیہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، "عمران، میں تم سے کچھ چھپانا نہیں چاہتی۔ میں تمہیں سچ بتانا چاہتی ہوں کیونکہ یہ میرا فرض ہے۔ میرا ماضی... میرا ماضی بہت خراب ہے۔ میں نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے، اور میں جانتی ہوں کہ تم مجھے کبھی معاف نہیں کرو گے۔"

نادیہ نے ہچکیوں کے درمیان اپنا سارا قصہ عمران کو بتا دیا۔ وہ اپنی شرمندگی اور پچھتاوے کو الفاظ میں بیان کرتے ہوئے رو رہی تھی۔ عمران نے خاموشی سے سب کچھ سنا۔ اس کے چہرے پر حیرت اور دکھ کے آثار تھے، لیکن اس کی آنکھوں میں نرمی اور محبت باقی تھی۔
عمران نے نادیہ کے قریب آ کر کہا، "نادیہ، میں نے تمہیں دل سے چاہا ہے، اور یہ محبت تمہارے ماضی یا کسی غلطی کی بنیاد پر ختم نہیں ہو سکتی۔ ہر انسان غلطی کرتا ہے، اور اگر تم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے، تو یہ تمہاری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں کسی قسم کی بدنامی یا خوف کا سامنا نہیں کرنے دوں گا۔"

نادیہ نے حیرانی اور شکرگزاری کے ساتھ عمران کی طرف دیکھا۔ اس کے آنسو اب بھی بہہ رہے تھے، لیکن ان میں خوف کی جگہ سکون اور اعتماد نے لے لی تھی۔ عمران نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا، اور اس لمحے نادیہ کو محسوس ہوا کہ شاید اس کی زندگی ایک نئے آغاز کے لیے تیار ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے